10/8/22

منظرکاظمی کے افسانوں میں سماجی اور سیاسی حالات کی عکاسی - مضمون نگار: احسان عالم

 



 

منظر کاظمی کا شمار بہار کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’زہر کی پوٹ‘ تھا۔ انھوں نے روایتی انداز کے افسانوں سے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا لیکن جلد ہی اپنے منفرد انداز بیان اور انفرادی فکر کے سبب اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوگئے۔ جس زمانے میں ان کے افسانے قارئین کے درمیان پسند کیے گئے وہ دور جدیدیت کا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علامتی اور تجریدی افسانے ناقدین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے مگر ترسیل کا مسئلہ اتنا اہم تھا کہ قاری خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا تھا۔ ایسے میں منظر کاظمی نے اپنے افسانوں میں ابہام سے پاک بیانیہ اپناکر مخصوص جگہ بنالی۔ انھوں نے زمینی حقیقت سے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔ زبان و بیان کا رنگ بھلے ہی زیادہ ہو مگر جذبے اور قصے میں سچائیاں ہی ہماری افسانوی روایت کا خاصہ رہی ہیں۔ معاشرے کی حقیقت اور سیاست کی رنگت کہانیوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ فن کار سماج کا ایک فرد ہوتا ہے۔ وہ بھی عام انسان کی طرح اپنے سماج میں جیتا ہے۔ ماحول سے اثر پذیر ہوتا ہے البتہ وہ قدرے حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اوروں سے زیادہ سوچتا اور احساس کرتا ہے۔ اس لیے چھوٹا سے چھوٹا واقعہ اور حادثہ سے اثر انداز ہونا اس کی فطرت بن جاتی ہے۔ انھیں واقعات و حادثات میں کچھ ان کے ذہن میں کہانی کا عنوان بن جاتے ہیں  اور اس موضوع کو وہ تخلیق کے مراحل سے گذار کر پھر ہمارے معاشرے کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ گویا تخلیق کار ہمیں وہی دیتا ہے جو ہمارے لیے اجنبی نہیں ہوتا۔ لیکن قوت پرواز اور قوت تخیل سے وہ اس موضوع میں ایسے مواد ڈال دیتا ہے کہ انسان کے ذہن پر اس کا فوری اثر ہوتا ہے۔

منظر کاظمی کے افسانے ان کے تجربات و مشاہدات کے آئینہ دار ہیں۔ یہ مشاہدے ان کی زندگی کا سرمایہ ہیں۔ یہ وہ قیمتی اثاثے ہیں جن پر شخص کو ناز کرنا چاہیے۔ انھوں نے گائوں سے شہر تک کا سفر اور اس سفر سے حاصل توشۂ زندگی کو اپنی تخلیق کا اصل مانا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’یاد نہیں وہ کون سی گھڑی تھی کہ قصہ سنتے سنتے، قصہ سنانے کی ایک بات سامنے آکر ٹھہر گئی۔ ہزار کوششوں کے باوجود ندی، تالاب، پنگھٹ، چاندنی اور چوپال کی یادوں کے سائے ذہن کی دہلیز سے نہیں اترتے۔ ویسے ان کا کوئی نقش مرتب نہیں ہوپاتا لیکن جدید معاشرے میں زندگی جینے کا سارا فریب کبھی کبھی پشت پر سوار ہوکر مخالف سمت میں سفر کی ترغیب دلاتا ہے اور ہم کہ بہر طور نئے عہد کے لوگوں میں شمار کیے جانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ہر آن آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہیں اور یوں کمر جھکتی جاتی ہے اور قصہ پیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔ بہ ظاہر کسی افسانے کا سرا کسی دوسرے افسانے سے نہیں ملتا لیکن اندرون کا عالم یہ ہے کہ تمام افسانوں کا بس ایک ہی قصہ ہے جس پر بے نام سا گہرا سایہ منڈلاتا رہتا ہے، قصہ افسانہ کب بنا، یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کی ابتدا کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں۔۔۔ ہماری تحریر کہ جس پر وقت کے تیس سال گذر چکے ہیں۔ ہماری ذات کا وہ منظر نامہ ہے جس کے پس منظر سے افسانہ نگاری کے نام پر نوحہ خوانی کی آواز ابھرتی ہے۔ واقعات نوحہ خوا ں ہیں۔۔۔۔۔‘‘

(قصہ ہماری تحریر کا، لکشمن ریکھا، ص9-10)

ان کا افسانہ ’سیاہ غلاف اورکالے جرنیل‘ یوں تو اسلامی واقعات اور باالخصوص محمدؐ کی زندگی پر تحریر کردہ افسانہ ہے مگر اس کی بنت میں منظر کاظمی نے کئی سوالات قائم کرتے ہوئے چند آفاقی مسائل سے روبرو کیا ہے۔ انھوں نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے چاہنے سے سب کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ جنگ میں بھی فتح اس کی ہوتی ہے جس کی فتح ہونی ہوتی  ہے۔ اس نکتے کو افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

منظر کاظمی کے ہر ایک افسانے میں کس نہ کسی مسئلے کو پیش کیا گیا ہے۔ ماجرا اگر سماجی اور سیاسی نہ بھی ہو تب بھی کہانی بیان کرتے ہوئے ایک معاشرتی نباض کی طرح قارئین کو چونکا دیتے ہیں۔ علامتوں اور اشاروں سے وہ ساری باتیں ہمارے روبرو کر دیتے ہیں جن کے باطن میں ہمارا معاشرہ آئینہ ہوا ہے۔ ان کا افسانہ ’آسمان سے گرتی روٹیاں‘ اسلامی واقعات بطور خاص حضرت یوسف، حضرت موسیٰؑ اور فرعون کی کہانی کو علامتی انداز سے پیش کرنے کے لیے مشہور ہے۔ لیکن اس میں زندگی کے رموز سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔’ آسمان سے گرتی روٹیاں‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے اور اس کے اندرون سے برآمد محنت و مشقت کا درس محسوس کیجیے:

’’ہوا یہ کہ ایک قصہ جو ہم نے کچھ دنوں پہلے سنا ہے۔ انھوں نے بہت پہلے سن لیا تھا۔ مگر انھیں صرف ایک بات یاد ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب روٹیاں آسمان سے گرتی تھیں۔ اور ہم اس کے علاوہ بھی جانتے ہیں کہ آسمان سے روٹیاں اب کیوں نہیں گرتیں۔ ہم اپنے کمرے میں بیٹھ کر کھلے آسمان کو دیکھتے ہیں اور ہمارے اردگردننگی دیواریں ہیں اور اوپر چمکتا ہوا چاند ہے کہ جس کی ٹھنڈی روشنی میں مسلسل تلاش کے باوجود کوئی روٹی نظر نہیں آتی اور کچھ لوگوں کے ہاتھ اوپر کی طرف اٹھے ہوئے ہیں کہ وہ اب تک ایک پرانے قصے کو فراموش نہیں کر سکے۔ ‘‘

(افسانہ ’آسمان سے گرتی روٹیاں‘، لکشمن ریکھا، ص22)

منظر کاظمی کے افسانوں میں فسادات کا بیان نہایت ہی احسن طریقے سے ہوا ہے۔ وہ فساد کی تصویر کشی پر اکتفا نہیں کرتے ہیں جب کہ ان محرکات پر ان کی نگاہ رہتی ہے جس سے آپسی بھائی چارے کا ماحول اچانک سے کشیدگی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور خون خرابہ شروع ہوجاتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے لکشمن ریکھا میں شامل ایک کہانی بعنوان ’سوگز پر دفن ایک کہانی‘  ہمیں احساس دلاتی ہے کہ انسان کو حیوان بننے میں دیر نہیں لگتی۔ اس افسانے میں جمشیدپور کے دنگے ہیں۔ اپنے پڑوسی کے ہاتھوں شہید کیے گئے مشہور افسانہ نویس زکی انور کو یاد کیا گیا ہے۔ اس افسانے کی ایک کیفیت محسوس کیجیے:

’’اور یہ وہی رات تھی جب ایک اجنبی دروازے کھول کر اپنے ایک بیٹے کی دردناک کہانی سنانے لگا۔ یہ رات بہت سی بھیانک راتوں کی ابتدا تھی۔ ان راتوں میں شیر خوار بچے رونے کو ترس گئے۔ ماں کی ہتھیلیاں ان کے نازک ہونٹوں پر سختی سے جمی رہیں۔ ضعیف سانسیں گھٹ گھٹ کر دم توڑتی رہیں۔ عورتوں پر سکتہ طاری تھا اور وہ کہ جن کے بازوئوں میں مچھلیاں تڑپتی تھیں حیران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کبھی دوسروں کو دیکھتے یا اپنے آپ کو ٹٹولتے رہنے کی کوشش میں ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ‘‘

(افسانہ ’سوگز پر دفن ایک کہانی‘ لکشمن ریکھا، ص53)

فرقہ وارانہ فساد ایک اہم مسئلہ ہے۔یہ اہم اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے سماج، مذہب اور ملک کے اندرون کا علم ہوجاتا ہے۔ جب مذہب کے نام پر جنگ و جدال ہونے لگے تو انسانیت کو شرمسار ہونا ہی پڑتا ہے۔ منظر کاظمی نے جمشیدپور کے فساد کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس کی شدت اور نتائج کو محسوس کیا۔ان پر فساد کا اتنا زیادہ اثر تھا کہ کئی برس تک وہ اس خونچکاں حادثے کو یاد کرکے رونے لگتے تھے۔ اس فساد میں ان کا پیارا مصنف افسانہ نگار زکی انور شہید کر دیا گیا۔ انھوں نے فسادات کی نفسیات پر بھی بہت کچھ لکھا۔ یکجہتی اور بھائی چارگی کی عمارت میں دڑار پڑنے کی دھمک سے وہ پریشان تھے۔ ان کا ایک مضمون ’ہم جنگل کی طرف لوٹ رہے ہیں‘ ان کے جذبات کا آئینہ دار ہے۔ اس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’بڑھتے ہوئے علم، بدلتی ہوئی تہذیب اور پوری دنیا کو ایک رشتے میں باندھنے والے انسانی سماج میں حیوانی جذبے کی گنجائش اگر معدوم نہیںہوسکتی ہے تو موہوم ضرورہوجانی چاہیے تھی۔ مگر ایسالگتا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ نہ صرف زندہ رہنے والی بہت طاقت ور بھی ہے، جس کی عبرت ناک مثال اپنے ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اور ان کی روح فرسا تفصیلات ہیں بلکہ قتل و غارت گری کے بعض واقعات تو قدیم عہد میں جنگلی جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے انسان کی درندگی کو بھی مات کر دیتے ہیں۔ دنیا کو امن کا پیغام دینے والے اس ملک میں فرقہ پرستی کا جنون کس سطح سے ابھرتاہے۔ کس بنیاد پر قائم ہے۔ اس سوال نے آج ہمیں متحیر اور ذہنی طور پر منتشر کر دیا ہے۔ ‘‘

(مقالات منظر، مرتب: ڈاکٹر افسر کاظمی، ص15)

منظرکاظمی نے معاشرے کی ابتری کو جوفی الوقت بڑا مسئلہ ہے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ یہاں انسان ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں اونچے مقام پانے کے لیے انسان جانوں کو سیڑھی بناتے ہیں اور اس پر قدم رکھ کر کامیاب ہوتے ہیں۔ انسان اسی طرح انسان کا خون چوستا ہے۔ ایسے میں منظر کاظمی کا افسانہ ’پٹا ہوا مہرہ‘ کا مطالعہ کیجیے اور یہاں کی فکر میں سماج کا ننگا پن دیکھیے۔ افسانے کے یہ جملے حقیقت کو ہی تو بیان کرتے ہیں:

’’یار پیارے مجھے مچھر کاٹ رہے ہیں اور تم ہری چند کو گالی دے رہے ہو۔ ۔۔۔۔۔یارمنظر تم کیسے ادیب ہو۔ آدمی، آدمی کا خون چوستا ہے۔ مچھر تو کیڑوں میں سے ہیں جنھیں صرف اسی بات کی عقل ملتی ہے کہ وہ ہر آدمی کا خون چوسیں، چاہے پیارا سنگھ کا خون ہو۔ اسٹالن کا یا میکسم گورکی کا۔‘‘

(افسانہ ’پٹا ہوا مہرہ‘ منظر کاظمی کی افسانہ نگاری، از ڈاکٹر افسر کاظمی، ص105)

ہمارے معاشرے میں پیارا سنگھ جیسا انسان ملنا مشکل ہے مگر ویسے ہی انسان کی ضرورت ہمارے سماج کو ہے۔ دوسروں سے حد درجہ محبت کرنے والے کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اب تو خودکے اندر ہی جینا چاہتے ہیں لوگ۔ زندگی انسان کی اب فرد کی زندگی ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے سماجی مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ہر قدم پر مسائل اور مشکلوں میں گھری عوامی زندگی مذکورہ کردار کی تلاش میں بے چین ہے۔ آج کا دور صارفی دور ہے۔ تھوڑے سے فائدے کے لیے لوگ رشتے ناتے بھول جاتے ہیں۔ خون کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنا خون خون کا پیاسا ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے والا کوئی نہیں ہے۔ بس اپنا فائدہ پیش نظر ہے۔ منظر کاظمی نے ایک مضمون ’’ہم جنگل کی طرف لوٹ رہے ہیں‘‘ میں آج کے انسان کے سلسلے میں بڑی اہم اور بے باک بات کہی ہے جس کا اطلاق توبہ ظاہر فرقہ پرستی پر ہوتا ہے مگر عام زندگی اور سماجی زندگی بھی اس سے اچھوتی نہیں ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ حقیقت پسند انہ اظہار:

’’غیر مہذب سماج میں انسان کا انسان کو درندوں کی طرح مار ڈالنا اپنے ساتھ ایک جواز رکھتا ہے کہ اس عہد میں آدمی کی کوئی قدر و قیمت متعین نہیں ہوئی ہے وہ تہذیب سے ناآشا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہمدردی اور دکھ سکھ کے مشترک جذبوں کاکوئی تصور اس کے پاس نہیں ہے۔ وہ غیر آباد زمین کے کچھ ٹکڑوں پر کسی جنگل یا پہاڑ کے دامن میں جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ علم سے بے بہرہ ہے۔ ترسیل خیال کے لیے کوئی مناسب زبان اس کے پاس نہیں۔ سترپوشی، کنبہ پروری، ازدواجی تعلقات اور بھائی چارگی کے تقاضوں سے واقف نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس پر حیوانی جذبے غالب ہیں۔‘‘

(مقالات منظر از ڈاکٹر افسر کاظمی، ص13-14)

منظر کاظمی کے افسانوں میں سماجی اور سیاسی حالات کادر آنا فطری تھا۔ سماج اور سیاست کو موضوع بنانے میں ان کے تجربات کودخل ہے۔ زندگی میں جن حادثات و واقعات سے دوچار ہوئے یا جن لمحوںمیں سماج کو بگڑتے دیکھا۔ ان کی آنکھوں نے اسے قید کرلیا اور موضوعات کی رسائی افسانے کی شکل میں قارئین تک ہوگئی۔ فنکار کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ زندگی کو بیان کرتے ہوئے قاری کو کتنی بصیرت فراہم کرتا ہے۔ ان کے اندر موجود طاقتوں سے کس قدر گھائل کر پاتا ہے۔ اعلیٰ ادب محسوسات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور زندگی کو معنی نو سے سوچنے کو اکساتا ہے۔ سید حامد حسین نے بجا طور لکھا ہے:

’’اعلیٰ ادب قاری کی خواہشات کا احترام کرنے کے لیے کوئی بنا بنایا فارمولا تو اختیار نہیں کرتا، لیکن وہ ان احساسات کا اس انداز سے ارتقا (Sublimation)کرتا ہے کہ اس میں قاری اپنی توقعات کی ایک نئی تشکیل کا تجربہ کرتا ہے۔ اعلیٰ ادب کے لیے مکروہات اس تخلیق کا منتہا بن کر نہیں آتے بلکہ وہ ان کو اس نوعیت سے پھیلانے اور پیش کرنے میںکامیابی حاصل کرتا ہے۔ وہ زندگی کی پر معنی بصیرت فراہم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ‘‘

(جدید ادبی تحریکات و تعبیرات از سید حامد حسین، اشاعت2012، ص34)

عصری مسائل بھی سماج کے کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اس لیے ان پر نگاہ رکھ کر فن پارہ تخلیق کرنے والاہمارے سماج کو آئینہ دکھانے والا شخص ہوتا ہے۔ سماج تو ابتدا سے ہی اردو افسانے کا موضوع رہا ہے۔ چاہے واقعات ہوں یا ماحول سازی، کردار ہوں یا زبان، افسانہ نگاروں نے ہمارے سماج کو پیش کرنے کا کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ منظر کاظمی نے اس طرف خاص توجہ دی۔ انھوں نے سماج کے ان مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا جن پر لکھنے اور بولنے والے حضرات کم تھے۔ ہماری دکھتی رگوں پر انھوں نے انگلی رکھ دی۔ انھوں نے نہ صرف واقعات کو پیش کیا بلکہ داخلی سطح پر ہمارے محسوسات پر ضرب کاری لگانے کی کوشش کی۔ انھوں نے سماج کے ایک فرد کی طرح سماجی حقائق کو بیان کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ یہ وہ دور تھا جس میں بقول ڈاکٹر نکہت ریحانہ خان:

’’۔۔۔۔اب افسانہ نگار نیکی و بدی کو ان کے حقیقی روپ میں پیش کرنے لگا۔ کیونکہ سماج سدھار ک کارول نہیں ادا کر رہا تھا کہ اپنے افسانے کو برائی کا انجام برائی اور نیکی کا انجام نیکی سے بندھے ٹکے اصولوں اور میکانکی انداز کا پابند بناتا۔ وہ حقائق کو ان تمام تر تلخیوں کے ساتھ قبول کرکے ان کا اظہار کرتا تھا۔ اب فنکار زندگی کو کسی مخصوص نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتا تھا بلکہ اس کی متنوع جہات کو دیکھتا تھا معاشرے کے تضادات پر اس کی گہری نظر تھی۔ ‘‘

(تنقید کے مثبت رویے، ڈاکٹر نکہت ریحانہ خان، 1997، ص50)

منظر کاظمی نے بھی ہمارے سماج کے ان تمام گوشوں کا مشاہدہ اپنی کہانیوں کے ذریعے پیش کیا۔ وہ صرف کہانیوں کے ذریعے دل کی باتیں نہیں کہتے تھے بلکہ اپنی تقاریر اور عملی طور پر معاشرے کو خوش حال دیکھنا چاہتے تھے۔ تعلیم کی کمی آج بھی معاشرے کا بڑا مسئلہ ہے۔ خاص طور پر اقلیتی طبقے کی تعلیم کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ تعلیم کی کمی نے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اقلیت کے مسائل کے تئیں بے حد حساس تھے اور عملی طور پر کچھ کرتے رہنے کی ترغیب دیتے تھے۔ ان کی اس فکر مندی سے لبریز چند سطور پیش کرتا ہوں جس میں اقلیت کی تعلیم اور ذہنی غلامی کو موضوع بنایا گیا ہے:

’’لیکن ہم یہ جاننے کو تیار نہیں کہ کسی نے ہم کو ہماری مرضی کے خلاف غلام بنایا ہے۔ دراصل ہم تعلیم سے بے بہرہ ہیں اور جو افراد تعلیم سے محروم ہوتے ہیں وہ اپنے آپ سے آشنا نہیں ہوتے۔ گرد و پیش کے حالات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ زندگی کی سچائی ان پر نہیں کھلتی۔ وقت کے تقاضے کو وہ نہیں پہنچاتے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنے غلام ہوتے رہنے کے عمل کو محسوس نہیں کرتے۔ دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب قومیں ان ہی مرحلوں سے گذر کر تباہ و برباد ہوئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر ہم بھی ان مرحلوں سے گذررہے ہیں تو ہماری کیا ذمے داری ہوتی ہے؟حکمت اور فراست تو مومن کی دولت ہوا کرتی تھی ہم نے اسے کہاں چھوڑ دیا؟ کہاں کھو آئے؟ اور کچھ کریں یا نہ کریں کم از کم اپنی گم شدہ دولت کی تلاش تو کریں۔ ‘‘ 

(منظر کاظمی کی افسانہ نگار ی از افسر کاظمی، ص54-55)

 منظر کاظمی اس فنکار کا نام ہے جن کے یہاں سماجی اور سیاسی بصیرت و بصارت موجود تھی جو ان کے افسانوںمیں بھرپور طریقے سے در آئی تھا۔ اس لیے انھیں سماجی نباض افسانہ نگار کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

 

Ahsan Alam

Near Al-Hira Public School

Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh,

Darbhanga - 846004 (Bihar)

Mob: 9431414808

                 

 

 

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں