11/8/22

کیرالہ کی واحد ناول نگار زلیخا حسین - مضمون نگار: کے پی شمس الدین ترورکاڈ

 



جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ زبان اردو کو بھی ریاست کیرالہ میں ایک الگ حیثیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں مجھے یہ کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اردو زبان کی نشوونما دوسری ریاستوں کی بہ نسبت یہاں بڑی تیزی سے ہو رہی ہے، لیکن اس کی ادبی ترقی دوسری ریاستوں سے پیچھے ہے۔  اس کا واحد سبب یہاں کے کسی بھی طبقے کے لوگوں کی مادری زبان اردوکا نہ ہونا ہے۔

اردوادب کی بات کریں تو ویسے یہاں اردو کے شعرا مل ہی جاتے ہیں لیکن جب اردو فکشن کی بات آتی ہے۔ کیرالہ میں چھان بین کرنے کے بعد صرف ایک ناول نگار کے ہونے کا پتہ چلا ہے۔ جن کا نام زلیخا حسین ہے۔

زلیخا حسین 1930 میں کیرالہ کے ایک مشہور تاریخی اور ساحلی شہر کوچین میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کو چین ہی کے ایک آسیہ بائی مدرسے میں حاصل کی۔ اسی مدرسے میں ملیالم اورعر بی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ ان دنوں کیرالہ کے مدرسوں میں پڑھانے کے لیے حیدرآباد سے اساتذہ آیا کرتے تھے۔ ان اساتذہ میں ایک رضوان اللہ بھی تھے۔ زلیخا حسین نے رضوان اللہ سے اردو میں مہارت حاصل کرلی۔ ان دنوں  لڑکیوں کا گھروں سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ زلیخاحسین ایسے معاشرے کی پروردہ تھیں۔

زلیخا حسین کو کتب بینی کا بڑا شوق تھا۔ گھر میں رہ کر بہت ساری کتابوں کا انھوں نے مطالعہ کیا۔ اس سلسلے میں ان کو پریم چند، گلشن نندہ اورمہیندر ناتھ جیسے ناول نگار وں کے ناول پڑھنے کا موقع ملا۔

15 سال کی چھوٹی سی عمر میں ہی موصوفہ کی شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد ان کے شوہر نے جن کا نام حسین تھا زلیخا کو پڑھنے لکھنے کی پوری آزادی دے دی تھی۔ اس لیے زلیخا حسین کو اردو ناول، افسانے اور دوسری تخلیقات کے پڑھنے کا نہ صرف موقع ملا بلکہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں، افسانے وغیرہ لکھنے کا بھی موقع مل گیا۔ جو کچھ بھی وہ لکھ رہی تھیں وہ سب ’شمع‘، ’خاتون مشرق‘ وغیرہ اردو ماہناموں میں شائع ہوتے رہے۔

شوہر کی طرف سے حوصلہ افزائی اور کھلی آزادی کی وجہ سے بیس سال کی عمر میں انھوں نے ’میرے صنم ‘ کے نام سے ایک ناول لکھا جس کو دہلی کے چمن بک ڈپو والوں نے 1950 میں شائع کیا۔ یہ دور ملک کی تقسیم کی وجہ سے نازک ترین حالات سے گزر رہا تھا۔ اردو زبان پر ملک کی تقسیم کا بڑا زبردست اثر پڑا تھا۔ اردو زبان پر ساری مصیبتیں ٹوٹ پڑی تھیں۔کئی وجوہات کی بنا پرزلیخا حسین اپنے ناولوں پر اپنا نام و پتہ لکھنے اور تصویر وغیرہ دینے سے کترا رہی تھیں۔ آزادی کے بعد زلیخا حسین نے تقریباً ً28ناول، 8ناولٹ اور چند افسانے بھی تخلیق کیے ہیں۔ اس طرح انھوں نے کیرالہ میں اردو فکشن نگاری کی بنیاد رکھ کر اس کے آغاز میں اہم رول ادا کیا لیکن افسوس کہ اتنے سارے اردو ناولوں کی خالق اردو دنیا سے دور رہ کر گمنامی کی زندگی گزارتی رہیں۔ اس لیے انھیں ایک گمنام ناول نگار کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

عجیب بات یہ ہے کہ کیرالہ سے دو ر اردو دنیا کو نہ جاننے کی بات تو دورکی  بات ہے ماضی قریب تک کیرالہ کے لوگوں نے بھی ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ جب 1970 میں ان کا ایک ناول ’تاریکیوں کے بعد ‘ کے نام سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا اس وقت کیرالہ کے وزیرتعلیم سی۔ ایچ محمد کو یا سے کسی نے ان کا تعارف کرایا تو انھوں نے اس ناول کا ملیالم میں ترجمہ کرواکر ملیالم کے ایک ہفت روزہ ’چند ریکا ‘ میں اس کو قسط وار شائع کروایا۔ یہ واقعہ ان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد یوپی اور دیگر ریاستوں سے ا ن کی اردو خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازنے کے لیے خطوط کے ذریعے دعوت نامہ بھیجے گئے۔ لیکن وہ کہیں بھی نہیں گئیں۔ ان سے سنا ہے کہ وہ کیرالہ سے باہر اگر کہیں گئیں تو وہ مدراس ہی ہے۔ سوائے مدراس کے انھوں نے کہیں اور کا سفر نہیں کیا۔

1989 تک وہ مسلسل لکھتی رہی ہیں۔ ان کے ناولوںکے نام یہ ہیں :

میرے صنم، آپا، صبا، اوہ بھولنے والے، پتھر کی لکیر، یادوں کے صنم،  مارِ آستین، زندگی مسکرائی، آدمی اور سکے، روح کے بندھن، اپنے اور پرائے،  ایک ہی ڈگر، آسمان تلے، وہ ایک فریاد تھی، رشتے کا روگ، لہو لہو منجھدار، نصیب نصیب کی بات، تاریکیوں کے بعد، دشوار ہوا جینا،  ایک خواب اورحقیقت، مرجھا ئی کلی، گر سہارے نہ ملتے، اپنا کون، کل کیا ہو، راہ اکیلی، حسرت ساحل، ایک پھول ہزار غم۔

زلیخا حسین کے ناولوں کا اسلوب نگارش کے لحاظ سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں میں محاورے، ضرب الامثال  اور روزمرہ کے ذریعے اپنے قارئین تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ کیرالہ میں رہتے ہوئے بھی انھیں اردو زبان پر قدرت حاصل ہے۔ ان کی زبان نہایت سلیس اورشستہ ہے۔ اسی صاف و شفاف زبان کے سہارے انھوں نے ساری انسانی زندگی کے جذبوں کو لطیف انداز میں نہایت خوش اسلوبی و فنی صناعی سے پیش کیا ہے۔ ان کے الفاظ چھوٹے چھوٹے عام فہم اور جملے سادہ اکہرے ہوتے ہیں۔ وہ مشکل الفاظ سے گریز کرتی ہیں۔ طول طویل اور بیانیہ جملے ان کی زبان کی نوک پر بھی نہیں آتے۔ ان کا اسلوب سیدھا سادہ اوررواں دواں ہے۔ ان کو یہ احساس شاید ہوگا کہ ان کے قارئین بہت کم پڑھے لکھے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے وہ نہایت سادہ اور سلیس زبان میں لکھتی تھیں۔ ان کی سادگی میں پُر کاری ہے۔ انھوں نے دیگر ناول نگاروں کی طرح اپنے کرداروں کو پیش کرنے کے لیے مبالغے سے کام نہیں لیا بلکہ حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہانی کے مناظر، مکالمے اور کرداروں کے عمل کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا جس میں قاری بھی زلیخا حسین کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ناول نگاری کی تاریخ میں زلیخا حسین بحیثیت ناول نگار ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان کے ناول اردو ادب میں قابل قدر اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

زلیخا حسین کا ذہن شیشے کی طرح صاف شفاف تھا جس کی جھلک ان کی تحریروں میں قدم قدم پر ملتی ہے۔ اس میں کوئی اُلجھاؤ یا پیچیدگی نہیں ملتی۔ مکالموں میں وہ عام لوگوں کی بول چال کی زبان استعمال کرتی ہیں۔ ہر فرقے اور ہر پیشے کے کردار کے لحاظ سے ان کی زبان اور لب و لہجے میں مکالموں کا اہتمام کرتی ہیں۔  زلیخا حسین کے اکثرناول گھر یلو معاشرتی ماحول کے ہی ہیں۔ ایسے ناولوں میں زلیخا حسین نہایت بے تکلفی اور بے باکی سے اپنی گھریلو اور معاشرتی زبان استعمال کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔

زلیخا حسین کے ایک ناول ’آدمی اور سکے‘ میں واقعات کو ایسے فطری انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ کہیں الجھاؤ نہیں ہے۔پورا ناول قاری کی گرفت میں رہتا ہے۔ یہ ناول زبان اور اسلوب بیان کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ زلیخا حسین کے ناولوں کی خصوصیت یہ ہے کہ موصوفہ نے ایسا اسلوب اختیار کیا ہے کہ قاری ناول کو آخر تک پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اردو ماحول کی پروردہ نہ ہونے کے باوجود بھی ناول نگار کو اس بات پر پوری قدرت حاصل ہے کہ سماج کے مختلف طبقوں کی بول چال کی زبان اپنے کرداروں کے ذریعے ادا کرواتی ہیں۔

ایک اور اہم بات ان کے ناولوں کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ کیرالہ سے تعلق رکھتی ہیں پھر بھی شمالی ہند کے سماجی، معاشرتی اور تہذیبی زندگی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح ان کے ناولوں میں دہلی اور لکھنؤ کی تہذیب و تمدن کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے شمالی ہند کے ادیبوں کی تخلیقات کا کافی مطالعہ کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیرالہ کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کو درشانے والے کوئی ناول یا افسانے اردو میں نہیں تھے۔

ناول ’نصیب نصیب کی بات‘ زلیخا حسین کے دیگر ناولوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ناول کیرالہ کے پس منظر میں لکھا ہوا ناول ہے۔ اس ناول میں بہت ہی چابکدستی کے ساتھ کیرالہ کی منظر کشی کی گئی ہے۔ کیرالہ کے مشہور مقامات کولّم۔ آلپّی۔ یرنا کلم وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے کردار کو اس ناول میں جگہ دی گئی ہے۔ مدراس کو بھی اس ناول میں اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔ حالانکہ ناول نگار نے اس ناول میں کیرالہ اور تامل ناڈو تہذیب کو نظر میں رکھ کر لکھا ہے لیکن اگر ہم غور سے اس ناول کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں اردو تہذیب زیادہ اور جنوبی ہند کی دراوڑی تہذیب کم دکھائی دیتی ہے۔

مجموعی طور پر زلیخا حسین کے ناولوں میں مکالمہ نگاری، منظر نگاری، اسلوب نگاری کا جائزہ لیں تو موصوفہ نے اپنی فنکارانہ چابکدستی کا ثبوت دیا ہے۔

اردو دبستانوں سے کافی دور کیرالہ جیسے سنگلاخ علاقے میں رہنے کے باوجودوہ اپنے کرداروں کی زبان سے وہی مکالمے ادا کراتی ہیں جو اردو کے مختلف علاقوں میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہی ان کے اسلوب کی خصوصیت ہے۔ یہی نہیں انھوں نے اپنے ناولوں میں سماجی زندگی کے مسائل کی اچھی اور بہترین عکاسی کی ہے۔ وہ اپنے ناولوں کی بنیاد مادی حقائق اور سماجی شعور پر قائم کرتی ہیں۔ انھوں نے براہِ راست زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں غور و فکر ہی نہیں کیا بلکہ ان کو افراد کے سماجی تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ناولوں میں ان کی خود کی زندگی کی چند جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔

 موصوفہ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بالکل ٹوٹ سی گئی تھیں۔ ان کا بیٹا فاروق کسی حادثے میں پوری طرح زخمی ہو کر اپاہج ہوگیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد وہ اس دنیا سے چل بسا۔ ان کی بیٹی بھی دماغی مرض میں مبتلا ہو کر وہ بھی اپنی ماں کو چھوڑ کرہمیشہ کے لیے چلی گئی۔23 سالہ ان کی پوتی بھی ٹرین حادثے میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔ اس طرح موصوفہ کو اپنی زندگی میں کئی صدمے اٹھانے پڑے۔ ان سارے غمگین اور دکھ بھر ے حالات کے اثرات ان کی نگارشات پر جانے انجانے میں پڑنے لگے۔

لیکن افسوس کہ اردو دنیا سے جو شہرت و مقبولیت ان کو ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ تقریبا ً تیس کے قریب ناولوں کی خالق زلیخا حسین کو اردو دنیا میں شہرت نہ ملنے اور گمنامی کی زندگی گذارنے کی سب سے بڑی وجہ ان کی دکھ بھری زندگی ہی تھی۔ اسی لیے قارئین کو بالکل اس کا علم ہی نہیں تھا کہ زلیخا حسین کون ہیں اور کہاں رہتی ہیں۔ جب اردو دنیا انھیں جاننے اور پہچاننے لگی تو کافی دیر ہو چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخر ی ایام میں ان کی کچھ عزت افزائی کی گئی تھی۔مرکزی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے اردو زبان کی فیلو شپ کمیٹی میں ان کو شامل کیا گیا تھا۔لیکن وہ اس کمیٹی میں کبھی نہیں جا سکیں۔ کیرالہ اردو ٹیچرز اسو سی ایشن نے ان کے اعزاز میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرکے ا ن کی عزت افزائی کی تھی۔

زلیخا حسین نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ غموں میں دکھوں میں گزار کر بالآخر 15 جولائی 2014 کو کوچین میں اپنی ذاتی رہائش گاہ میں اس دار فانی کو خیر با د کہا۔ زلیخا حسین کے انتقال کے بعد کیرالہ میں اردو زبان واد ب کے میدان میں بہترین خدمات انجام دینے والے افراد کے لیے کیرالہ اردو ٹیچرز اسوسی ایشن کی طرف سے ہر سال ان کے نام پر ایک ایوارڈ بھی دیا جارہا ہے۔ فی الحال ان کی خدمات پر کئی طلبا ایم فل اور پی  ایچ ڈی کر چکے ہیں اور ابھی مزید تحقیق جاری ہے۔

 

Dr. K.P. Shamsuddin Tirurkad

Urdu Teacher, AM, High School

P.O: Tirurkad

Via: Angadippuram

Malappuram

Distt.: Kerala - 679321

Mob.: 9847422682

 

 

 


 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اودھ کے ایک مشہور فارسی شاعر شاہ تراب علی قلندر، مضمون نگار: سید انوار صفی

  اردو دنیا، دسمبر 2024 ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے، جہاں ذیلی علاقائی زبانوں کے علاوہ ایک درجن سے زائد ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جو ایک ...