16/8/22

پروفیسر لطف الرحمن: مشرقی اقدار سے آشنا تنقید نگار - مضمون نگار: ابرار احمد اجراوی

 



نامور شاعر و ناقد پروفیسر لطف الرحمن (2013-1941) کو دنیائے شعر و ادب میں منفرد حیثیت حاصل تھی۔ان کا وطنی اور آبائی تعلق شمالی بہارکے مشہور ضلع دربھنگہ سے تھا، مگر ان کی تصنیفی اور تخلیقی سرگرمیوں کا گہوارہ’ شہر ریشم‘ بھاگل پور رہا، اس شہر میں وہ عرصے تک مقیم رہے اور اسی قطعۂ ارضی پر وہ جام جمشید کی مدد سے ادب موجوں کا تماشا دیکھتے رہے، اپنی تنقیدی و تخلیقی فتوحات کی کرنوں سے جہان ادب کو منور کرتے اور بحر ادب کی نئی لہروں کو شمار کرتے رہے۔وہ زبان و ادب کی مشاطگی کے ساتھ لیلائے سیاست سے بھی بغل گیر رہے، انھوں نے قصر ادب کی جی بھر کے سیاحت کی، سیاست کے قلعۂ احمر کا لطف تو لیا، مگر وہ پہلے ادیب تھے، بعد میں کچھ اور، سیاست میں ان کی انٹری اتفاقی تھی۔ان کی ذہنی و فکری تگ و دو کا محورو مرکز شعر و ادب تھا۔ان کی مختلف جہتیں مسلم تھیں۔وہ شاعر، محقق، افسانہ نگار، صحافی اور مترجم بھی تھے اور تنقید کی زلف گرہ گیر کے عاشق صادق بھی۔ادب گلوب میں ان کی پہچان ناقد سے زیادہ ایک شاعر کی تھی، مگر ان کی تنقیدی نگارشات پر مبنی اثاثہ بھی کم نہیں ہے، اگر ایک طرف انھوں نے اپنے منفرد لہجے میں غزل و نظم کی زلفوں کو سنوارا،تو دوسری طرف اپنی بصیرت افروز اور نکتہ سنج تحریروں کے وسیلے سے نقد و تنقید کے پیچ و خم کو بھی سلجھایا۔ اپنی بے باک تحریروں سے گلستان نقد کو تا مرگ انھوں نے آباد رکھا۔اگر تقابل و تعارض کیا جائے تو ان کے تنقیدی مجموعہ ہائے مضامین کا شمار شعری مجموعوں سے کم نہیں، زیادہ ہے۔اگر ایک دو کتابوں کو اس صف سے نکال بھی دیا جائے، تو لگ بھگ برابر برابر کا معاملہ ہوگا۔

یہ بات اب راز نہیں رہ گئی ہے کہ پروفیسر لطف الرحمن ابتدا میں کافی حد تک ترقی پسند رہے، گرچہ ان کی عملی پرواز کے وقت ترقی پسند تحریک پا بگور تھی، مگر وہ اسی شکستہ آئینے میں اپنی تصویر دیکھتے رہے، وہ ترقی پسندیت سے اتنے متأثر تھے کہ ان کے ہم مشربوں اور ہم نشینوں کا حلقہ بھی ترقی پسندافکار و نظریات کا انتہا پسندمبلغ تھا،عظیم آباد سے لے کر دہلی تک ان کے مراسم و علائق ایسے ہی ناقدوں سے استوار رہے، مگرشاید وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ’ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘، اسی لیے بعد میں انھوں نے نئے مکتب تنقید کو اپنا قبلہ و کعبہ بنا لیا تھا، ظاہر ہے کوئی یوں ہی بے وفا نہیں ہوتا،کچھ مجبوریاں اور پابندیاں رہی ہوں گی۔ انھوں نے نئی ادبی تحریک جدیدیت کی آواز پرنہ صرف بآواز بلند لبیک کہا اور اس کے ہر فرمان پر آمنا صدقنا کا اظہار کیا، بلکہ اس کی فکری منہجی بنیادوں کو آب و غذا فراہم کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا۔ اس نئی تنقیدی فکر کے موضوع پر مضامین و مقالات لکھے، مغرب سے بر آمدفکری بحثوں کو نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ پیش کیا،اردو میں اس کی جگہ متعین کی اوردوسری متوازی و متصادم تحریک کی فکری بنیادوں پر تنقید کا تیر و نشتر چلایا۔ مجموعۂ مضامین ’نقد نگاہ ‘کی ابتدائی سطروں میں بابائے تنقید حالی و شبلی سے لے کر،مجنوں گورکھ پوری، احتشام حسین، قمر رئیس، شمس الرحمن فاروقی، وہاب اشرفی اور ابوالکلام قاسمی تک جن چنندہ ناقدین کا انھوں نے بصراحت نام لیا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہ جاتا کہ وہ ہوا کے کس رخ پر اپنا سفر نقد جاری رکھے ہوئے تھے اور یہ بھی کہ کون ان کا حلیف و رفیق تھا اور کون ان کے سامنے حریف یا ’رقیب رو سیاہ ‘کے رول میں تھا۔ 1993 میں مجموعۂ مضامین ’جدیدیت کی جمالیات ‘ کی اشاعت ان کی نئی فکری بازگشت کا اعلان تھا۔چناں چہ انھوں نے جدیدیت کی حمایت میں یہ لکھا تھا:

’’جدیدیت کے فکری اور جمالیاتی پہلووں پر کئی تنقیدی تصنیفات اور مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ لیکن جدیدیت آج بھی ایک نزاعی مسئلہ ہے۔ یہ مجموعۂ مضامین شاید کہ مختلف مسائل و مباحث اور متضاد نظریات و خیالات میں ہم آہنگی کی ایک بنیاد فراہم کرنے میں معاون ہو۔‘‘

(جدیدیت کی جمالیات، ڈاکٹر شاداب رضی(مرتب)، سن فلاور ایسوسیٹس، جمشید پور، 1993، ص12)

آگے اپنی بات اور تنقیدی موقف کو مزید مستحکم اور مدلل کرنے کے لیے بر ملا اور دو ٹوک انداز میں ایسے جملے لکھے، جس سے ایک خاص مکتب فکر کی حمایت و وکالت کا عنصرہمارے رو برو ہوتا ہے:

’’جدیدیت کوئی منفی تحریک نہیں، بلکہ عصر حاضر کی میکانکی زندگی اور منتشر معاشرے میں مثبت اقدار حیات کی نایابی کی نوحہ خواں اور ان کی ازسر نو بازیافت اور ترویج و توسیع کی نغمہ گر ہے۔ اس حقیقت کی تفہیم کے بغیر جدیدیت کی تفہیم مشکل ہے۔‘‘(ایضا، ص13)

 اس اعلان و اظہار کے باوجوداگر ہم ان کی تمام تنقیدی تحریروں کا کھلے ذہن و دل سے مطالعہ و محاسبہ کریں، تو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ انھوں نے اپنے طائر فکر کو کسی حد تک آزاد بھی رکھا، انھوں نے صرف دوسروں کی تقلید کا شیوہ نہیں اپنایا،اپنا نشان قدم بھی بساط نقد پر ثبت کیا، صرف پرانی لکیریں نہیں پیٹیں،بلکہ نئی لکیریں بھی کھینچیں،یہ حالات و واقعات کا جبر ہی رہا ہوگا کہ ایک ترقی پسند، جو بعد میں جدیدیت کا مبلغ اعظم بھی رہا، وہ کیوں کر دوسری آوازوں یا نئے تنقیدی نعروں کے سحر میں کھونے کی کوشش کرتا رہا۔ہم ذرا توسع سے کام لیں جس میں کوئی حرج بھی نہیں، تو انھیں تین نسلوں یا موٹے طور پر تین مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والا ناقد بھی کہہ سکتے ہیں،نمائندگی اور ترجمانی کا عرصہ کم و بیش ہوسکتا ہے، تبدیلی قزاقوں کے مثل نقارہ بجاکر نہیں آتی، وہ اپنی آمد کا اشتہار نہیں دیتی، یہ تو دبے پاؤں آتی ہے اور اچھے اچھوں کو اپنے دام میں گرفتار کرلیتی ہے۔ تبدیلی ہوا کا زوردارجھونکا ہے، جس میں سب کچھ اڑا لے جانے کی شکتی ہوتی ہے۔ پروفیسر لطف الرحمن بھی تغیر پسند ناقد تھے، وہ رجحانات و تحریکات کے تعدد سے متأثر ہوئے، اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر عازم سفر ہوئے۔پھر وہ ایک دور رس اور ذہین تخلیق کار تھے، ان کو زمانہ سازی کا ہنر بھی تو خوب آتا تھا، یوں وہ کسی ایک کھوٹے سے بندھ کرنہیں رہے، دوسری چراگاہوں میں بھی چرتے چگتے رہے اور الحکمۃ ضالۃ المؤمن (حکمت و دانائی مسلمانوں کی متاع گم شدہ ہے) کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے دنیائے تنقید میں اپنی جگہ مستحکم کرتے رہے۔اگر ان کے یہاں یہ توسع نہ ہوتا، تو انھوں نے اپنی مشہور کتاب’جدیدیت کی جمالیات‘ کا پیش لفظ مابعد جدید ناقد پروفیسر وہاب اشرفی کے قلم سے نہ تحریر کرایا ہوتا۔

یہ صحیح ہے کہ پروفیسر لطف الرحمن نے تنقید پر کوئی معرکۃ الآرا کتاب نہیں لکھی،نہ باب تنقید میں کسی تاریخی کارنامے کا تاج ہی ان کے سر پر ہے، مگر تنقیداور شاخہائے تنقید پر ان کی کئی کتابیں ہیں۔ یہ غیر منظم طور پر لکھی گئی تنقیدی تحریروں کا مجموعہ تو ہیں۔ مگر ان تمام کے بطن و متن میں فرصت اور ایمان داری سے جھانکا جائے، تو پتہ چلے گا کہ یہ مضامین بس اپنی نوعیت و ماہیت کے حساب سے مضمون کی شبیہ کے حامل ہیں، ورنہ یہ اپنی علمیت و ہمہ گیری اور بصیرت افروزی و نکتہ رسی کے سبب ضخیم کتابوں پر بھاری ہیں۔ ان کی کتابیںجدیدیت کی جمالیات، نقد نگاہ، تعبیر و تقدیر، تخلیق و تنقید، نثر کی شعریات اور تنقیدی مکالمے تنقیدی جہان میں وقار و اعتبار کی علامت یقین کی جاتی ہیں اور انھیں حوالے کے طور پرعصر حاضر کے محققین و ناقدین استعمال بھی کرتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک منقسم الوقت ادیب تھے، انھوں نے اپنی حیات مستعار کا حصہ بہت ساری مصروفیات میں تقسیم کر رکھا تھا، اس میں شعر وادب ہی نہیں، درس و تدریس،سماج و سوسائٹی، سیاست اور متعلقات سیاست کا بھی خاصا حصہ تھا، مگر انھوں نے ایک عرصے بعد ہی سہی، مطالعے و محاسبے کی دنیا سے ایک بار جب رشتہ قائم کرلیا، تو پھرنہ چپ و راست کی فکر کی، نہ جانب پشت مڑ کر دیکھا،بلکہ بے نیازی کے ساتھ مختلف موضوعات و نکات پر تنقیدی افکار سے مملو تحریریں لکھتے رہے۔

پروفیسر لطف الرحمن تنقیدی مکاشفے اور تحریری مراقبے کی منزل سے گزرنے کے بعد ہی قلم ہاتھ میں لیتے تھے،وہ’ کاتا اور لے دوڑے‘ کی معاصر نفسیات سے مجتنب رہتے تھے۔ انھوں نے موضوع کی تہوں میں ڈوب کر نئے اور غیر ممسوس موضوعات پر مقالات و مضامین لکھے ہیں۔ گرچہ انھوں نے باضابطہ کوئی تنقیدی کتاب نہیں لکھی، جو یک موضوعی ہو اور کسی ایک فکر کے گرد طواف کرتی ہو،مگر ان کی متفرق تنقیدی تحریروں میں بھی جن ادبی، فنی اور شعری جہات کو مس کیا گیا ہے، وہ اردو تنقید کے منتخبات میں جگہ پانے کے مستحق ہیں۔

 وہ ایک ذہین، جینیس اور عبقری ادیب تھے،شعر و ادب ا ور تنقیدو تخلیق کے حوالے سے ایک سلجھا ہوا رویہ رکھتے تھے۔ان کے یہاں نام نہاد جدیدیوں جیسی پیچیدگی، غموض و ابہام، فراریت اور مہملیت نہیں تھی۔ وہ ادب و تنقید میں دیانت داری کو ترجیح دیتے تھے اور قلم و ادب کی حرمت کو صنعت و پیشے کی آلودگیوں سے صاف رکھنا چاہتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’ادب کاروبار نہیں، ادب کی تنقید بھی کاروبار نہیں۔ ادب صنعت نہیں ہے۔ تنقید بھی صناعی نہیں ہے۔ ادب تخلیق ہے۔ اس کی تنزیل غیب سے ہوتی ہے— آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں—فن کار خالق ہوتا ہے، صناع یا کاریگر نہیں۔ تنقید بھی کاریگری نہیں۔ تخلیق فنکار کی داخلیت سے جنم لیتی ہے۔‘‘

(پیش آہنگ، تنقیدی مکالمے، نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی 2008، ص9)

پھر تنقید کے ہیولی،اس کی جمالیاتی شق، اس کے حدود اربعہ اور شکل و ڈھانچے کی وضاحت کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، اس میں نقادان ادب کو ان کے منصبی فرائض سے بھی آگاہ کیا ہے:

’’تنقید کسی تخلیق کا ذہنی وفکری مطالعہ ہے۔ نقاد فن کارانہ عظمت کا اہل نہیں۔ لیکن ہر تنقید اپنی حدود میں ایک جمالیاتی تجربہ ہے۔ تخلیق کی داخلیت کا عرفان ہی نقادوں کی کامیابی و ناکامی کی کسوٹی ہے۔ ہر تخلیق حسنِ کائنات کی تخلیقِ نو ہوتی ہے۔ نقاد حسب استعداد حسن کے جلوہ ہائے گریزاں کو بے نقاب کرتا ہے۔ تخلیق تنقیدی نظریات و افکار سے بلند ہوتی ہے۔ کوئی تنقیدی نظریہ مکمل نہیں۔ بقول وارث علوی-’’تمام تنقیدی نظریات اضافی ہوتے ہیں۔‘‘(تنقیدی مکالمے، ص10)

پروفیسر لطف الرحمن کی شناخت شاعر کے طور پر تھی، مگر انھیں نقد و انتقاد سے بہت لگاؤ تھا، وہ تنقید کے مکمل آدمی کہے جاسکتے ہیں۔ ان کا خمیر تنقید سے عبارت تھا۔وہ پورے قد کے ناقدتھے، اس لیے تنقید کی نظریاتی بحثوں کو انھوں نے کئی تحریروں میں مبرہن کیا ہے۔عمل نقد و تنقید کیا ہے، اس کو منقح کرتے ہوئے ایک کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

’’خیر اور شر، حسن اور قبح، روشنی اور تیرگی، حق اور باطل، تعمیر اور تخریب۔۔۔۔۔اور اچھائی اور برائی وغیرہ کے درمیان تفریق و امتیاز کا شعور و احساس تنقید سے عبارت ہے۔ تنقید انسانی جبلت ہے۔ انسان کا کوئی عمل تنقیدی احساس و شعور سے بے نیاز و بے تعلق نہیں ہوتا۔‘‘

(نقد نگاہ، تخلیق کار پبلی کیشنز دہلی، 2006،ص9)

آج کل تنقید، تنقید نہیں رہی،بازیچۂ اطفال بن گئی ہے، جس میں شب و روز تماشا اور قلابازی ہوتی رہتی ہے، یہ ایک مشغلہ ٔبے کاراںبن کر رہ گیا ہے، جس میں نا اہل ہی نہیں، تنقید کی ابجد سے ناواقف لوگ بھی نورا کشتی اور دھکا مکی میںمصروف ہیں۔ مگر لطف الرحمن دوسرے ڈھب کے آدمی تھے،وہ تنقیدی صلاحیت کو شغل بے کاراں نہیں، فضل الٰہی اور نعمت خداوندی شمار کرتے تھے۔ اور ان کا یہ موقف تھا کہ تنقید صرف انسان کا کام نہیں، ہر جان دار یہاں تک کہ خود روبے وقعت و توقیر معمولی پودا بھی تنقیدی صلاحیت سے بہر ہ مند ہوتا ہے۔ تنقیدی کتاب ’نقد نگاہ‘ کی ابتدا میں ہی لکھتے ہیں:

’’تنقید ایک فطری ودیعت ہے۔ ہر جاندار وجود فطرت کی اس نعمت سے حسب ظرف و ضرورت بہرہ ور کیا گیا ہے۔ سائنسی تجربہ و تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ پودے بھی تنقیدی حس سے بیگانہ نہیں۔‘‘(ایضا، ص9)

معاشرے میں نقاد اور ادیب دونوں کی حیثیت مسلم ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں اور دونوں دو مختلف سروں کو پکڑے ہوئے ہیں، ادبی سماج میں ذاتی اور گروہی مفادات عزیز ہوتے ہیں، اس لیے دونوں کو مد مقابل رکھنے کی سعی ہوئی ہے اور دونوں کے اجتماع و اتحاد کی شکلوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔ مرحوم لطف الرحمن ایک معتدل اور متوازن تنقیدی نظر کے حامل نقاد تھے،چناں چہ وہ دونوں کے میدان کار کی تعیین کے ساتھ دونوں کے درمیان رشتوں کی یکسانیت اور ہم آہنگی پر بھی زور دیتے ہیں۔ ذمے داریوں کی مساویانہ تقسیم سے انکار نہیں،مگر مآل کو نظر میں رکھا جائے تو دونوں کی سمت سفر اورمنزل ایک ہے،نقاد اور تخلیق کار کے منصب اور دونوں کے درمیان مشترکہ اقدار کی نسبت لطف الرحمن لکھتے ہیں:

’’ادب اور تنقید میں چولی دامن کا ساتھ ہے، لیکن فنی تنقید کی سرحدوں کا آغاز تخلیق کی تکمیل کے بعد ہوتا ہے۔ تنقید کا بنیادی مقصد فن کار اور قاری کے درمیان ساز گار فکری اور جمالیاتی مفاہمت اور جذبہ و احساس کی ہم رشتگی کا فروغ ہے۔ نقاد قاضی، مفتی یافقیہ نہیں ہوتا۔ کسی حد تک مدرس ہوسکتا ہے۔ نقادوں پر قارئین کے ذوق ادب و فن اور احساس جمال کی تہذیب و تحسین کی ذمے داری تو یقینا عائد ہوتی ہے۔‘‘(ایضا، ص11)

شعر و ادب کی حقیقت و ماہیت کیا ہے، تخلیق و تحریر کا مدعا و منشا کیا ہے؟ ان امور سے لگ بھگ قدیم و جدید عہد کے سبھی ناقدین نے بحث کی ہے، ہمارے اکابر ناقدوں نے بھی اور اصاغران نقد نے بھی ادب کی فنی جہتوں سے مکالمہ کیا ہے۔تخلیق کے مقام و مرتبے اور انسانی اعمال میں اس کی انفرادیت سے بحث کرتے ہوئے پروفیسر لطف الرحمن اپنے منفرد اسلوب میں لکھتے ہیں:

’’تخلیق ادب انسانی وجود کا سب سے گراں قدر اور اعلی ترین عمل ہے۔ ادب تجربۂ حیات کی آئینہ داری نہیں بلکہ اس کی تخلیقِ نو ہے۔ ادب روحانی بصیرتوں اور انسانی زندگی کے درمیان ایک رابطے کا نام ہے۔ شاعر ان دیکھی دنیاؤں کا پروہت ہوتا ہے۔‘‘(ایضا، ص9)

دیگر شعبہائے حیات کی طرح شعبۂ ادب میں بھی تعصب کی لہر چلتی رہی ہے۔ میر و سودا اور ذوق ومرزا کا عہد زریں بھی اس عیب سے منزہ نہیں رہا۔فن برائے فن، ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی کیا ہے، اسی قسم کی بحثوں کا شاخسانہ اور نتیجہ ہے، جس میں تخلیق کے ظہور و وجود کو نہیں، اس کے مقصود و مطلوب یعنی نتائج کو نظر میں رکھ کرشعر و ادب اور تخلیقی سرمایے کی تعیین قدر کی جاتی ہے۔ مذہب اور مسلک و مشرب کی اساس پر بھی ادب اور غیر ادب کے درمیان خلیج قائم کرنے کی نا مبارک و مسعود کوششوں سے اردوتاریخ کے صفحات پاک نہیں رہے ہیں۔نفس تخلیق کو نہیں، بلکہ تخلیق کے مبدأ و منشا کو مرکزی نقطہ بناکر جہان ادب میں داخل و خارج کرنے کا رویہ بھی جانب داراور متعصب ذہنوں پر حاوی رہا ہے۔پروفیسر لطف الرحمن مرد درویش تھے، مست مولی اور قلندر صفت آدمی، وہ اس قسم کی لایعنی آرا اور مہمل ابحاث کو در خور اعتنا نہیں گردانتے تھے اور شعر و ادب کو صرف شعر و ادب یقین کرتے تھے اور اسی بنیاد پراپنی تنقیدی رائے قائم کرتے تھے اور بے باکی کے ساتھ اپنا موقف قارئین کی بارگاہ میں رکھتے تھے۔وہ مذہب بیزار نہیں تھے، اس لیے مذہب یا مذہبی مباحث کی تخفیف و تحقیرسے بھی گریزاں رہتے تھے، ادبی اثاثے کو مذہبی اور غیر مذہبی بنیادوں پر پرکھنے کے وہ عادی نہ تھے۔ان کے مضامین بعنوان’اردو نثر کے اسلوبی ارتقا میں مولانا منت اللہ رحمانی کے امتیازات‘،سید سلیمان ندوی:محقق، منقد، مبصر‘ ’نعتیہ شاعری اور اقبال‘،’اقبال ایشیائی بیداری کا نقیب‘وغیرہ اور اپنی تنقیدی کتاب پر مولانا محمد ولی رحمانی کا حرف چند، اسی بات کا عملی اظہار ہے کہ وہ ادب کو مذہب کی مصنوعی سرحدوں میں منقسم نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مقدس آسمانی صحائف کو بھی ادب عالیہ کا منصب عطا کرتے تھے۔لکھتے ہیں:

’’قرآن کریم، انجیل، زبور، توریت اور وید وغیرہ محض عظیم الشان اور غیر فانی مذہبی اور روحانی دستاویز ہی نہیں، بلکہ عظیم ترین ادب العالیہ کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ ہر وہ کتاب جو اپنی تازگی اور شادابی افکار سے انسانی عقل و دانش کے لیے صدمے کا باعث ہو، انسانی فکر و تخیل کے لیے نشاط و مسرت کا سبب ہو، خیر و صداقت کی محرک ہو، مسرت و بصیرت کے امتزاج سے عبارت ہو، ادب العالیہ کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘(نقد نگاہ، ص10)

لطف الرحمن مشرقی اقدار حیات اور نظام افکار پر یقین رکھتے تھے۔ وہ مادیت نہیں روحانیت کے پرستار تھے۔وہ مشرق کو مغرب سے کمتر نہ کہتے تھے اور نہ کبھی لکھتے تھے۔ وہ مغرب اور مغربی سائنسی ایجادات سے مرعوب و متاثر نہیں تھے۔ وہ اتنے مشرقیت پسند تھے کہ مشرق کو روحانیت کا مرکز کہتے اور اس کو مغرب پر بالا دست قرار دیتے تھے:

’’مشرق و مغرب میں ایک بنیادی فرق ہے۔ مغرب کا انداز فکر و نظر سائنسی اور مادی ہے جب کہ مشرق کا داخلی اور روحانی۔ مغرب عقلیت پسند اور معروضی ہے اور مشرق روحانیت پسند اور مذہبی۔ایسا نہیں ہے کہ مغرب ہمیشہ مذہب اور روحانیت سے بے نیاز رہا ہے۔ کچھ صدیوں قبل تک مغرب میں بھی روحانیت کو مرکزیت حاصل تھی اور مشرق میں سائنسی مزاج اور تحقیق و تفتیش کا رجحان غالب تھا۔چین، ہندوستان اور عالم اسلام نے سائنس، طب، کیمیا، سرجری اور دوسرے شعبوں میں ساری دنیا کی شان دار رہ نمائی کی ہے۔‘‘(نقد نگاہ، ص11)

پروفیسر لطف الرحمن نے جدیدیت کووجودیت کی توسیع قرار دیاتھا، جو ایک مغرب سے بر آمد کردہ نظریہ تھا، انھوں نے اس کو تمام دوسرے نظریات و افکار اور علوم و فنون کا مجموعہ ثابت کرنے کے لیے 1980 کے آس پاس سے لے کر بعد کے زمانے تک بیسیوں طویل ترین مقالے لکھ ڈالے، جس کی تفصیل ’جدیدیت کی جمالیات‘ نامی کتاب میں بچشم خود دیکھی جاسکتی ہے، مگر جب اسی کتاب کا انھوں نے پیش آہنگ(مقدمہ ) لکھا تو اپنی آزادانہ روش کے سبب یہ بھی لکھا کہ:

’’مضامین کا یہ مجموعہ جدیدیت کی وکالت یا کسی تنقیدی ادعائیت پر مبنی نہیں، بلکہ ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے جدیدیت اور جدید حسیت پر میرے طرز احساس و ادراک کی تفسیر ہے۔ واضح رہے کہ افکار بڑی حد تک مشہور و مستند علمائے فلسفہ و ادب سے مستعار و متاثر ہیں، لیکن طرز احساس و اظہار میرا ہی ہے۔‘‘

 اوپر لکھا گیا ہے کہ لطف الرحمن ترقی پسندی کا سفر کرتے ہوئے جدیدیت کے خار زارو ناپیدا کنار صحرا میں داخل ہوئے تھے اور اس فکر کے اساس گزاروں سے ان کے رشتے بہت مستحکم اور ناقابل شکست حد تک استوار تھے، مگر اس کے باوجود انھوں نے نقد و ادب کی دنیا میں کسی کی اجارہ داری قبول نہیں کی۔ وہ ایک بے باک، نڈر، مروت سے آزاد، حوصلہ منداور جری ناقد تھے۔ وہ ہما شما تو کیا،تنقید کے ستونوں کو بھی آنکھیں موند کر ماننے کے قائل نہیں تھے۔سبھی کا حساب بے باق کرنا جانتے تھے۔

یہ صحیح ہے کہ وہ ابتدا میں ترقی پسند رہے اور ان کی انتہا بھی ترقی پسندیت سے قربت پر ہوئی، بیچ میں مغرب پرست تحریک جدیدیت کی فضا سازی میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا، مگریہ سکے کا صرف ایک رخ ہے، اس سکے کا دوسرا رخ کچھ اور ہی بیاں کرتا ہے۔ انھوں نے نظریات و خیالات کی زنجیریں پیروں میں ڈالناگوارا نہیں کی، بلکہ اپنے طائر فکر و تخیل کو نئے جہانوں میں اڑان کے لیے آزاد رکھا۔ نظریات و افکار کی چمک دمک سے متاثر تو ہوئے کہ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے، مگروہ مرعوب و مبہوت نہیں ہوئے۔ بنے بنائے فرسودہ نظریات کا سینہ چاک کرکے نئے معیار و اقدار کی عمارت انھوں نے کھڑی کی۔ ان کی تنقید پر جدت و ندرت کی چھاپ گہری تھی۔ ان کی فکر اور سوچ بھی نئی تھی اور الفاظ و اظہار کی دنیا بھی جدت کے وصف کی حامل تھی۔ وہ ادب و تنقید کو ایک کھلا در سمجھتے تھے، جس سے ہمہ وقت باد صبا کا جھونکا آتا رہتا تھا، وہ شعر و ادب کی تخلیق کو تفریح نہیں، عبادت وریاضت کا درجہ دیتے تھے۔انھوں نے کئی ایسے اہم تنقیدی مضامین لکھے، جن سے اردو ادب میں نئی بحث کے در وا ہوئے اور اردو قارئین کو فکر و سوچ کے زاویے بدلنے کا موقع میسر آیا۔

ایجاب و انحراف کے کلیے سے کوئی فرد بشر مستثنی نہیںہوتا۔ہم ان کی پیش کردہ فکر اورذہنی وابستگی پر حرف رکھ سکتے ہیں کہ تنقید اور بحث و مباحثہ کا در کبھی مقفل نہیں ہوتا، تنقید و تحقیق میں حرف آخر بہت کم آتا ہے، مگر ہم ان کے بے پناہ تخلیقی اور ادبی شعور کی پذیرائی تو کرسکتے ہیں۔ ان کے مواد پر انگشت نمائی کی راہیں کھلی ہیں، مگر ان کی پختہ زبان اور رواں بیان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں نئی نسل کے لیے ادبی میراث کا مرتبہ رکھتی ہیں۔

لطف الرحمن تنقیدکی دنیا میں قطب نما تھے،انھوں نے ادب میں خطرات و خدشات مول لے کرکتنوں کے لیے گنجائش پیدا کی،بہتوں کی علمی اور ذہنی پرورش کی، انھیں مہمیز کیا، آگے بڑھایا،ہر تحریک میں بھی ان کاکھلے دل سے استقبال ہوتا رہا،ان کی تحریروں کو جدیدیت کے محرکات و مسببات اور ممکنات ومضمرات کے حوالے سے بھی استعمال کیا گیا اور ترقی پسندوں نے ان کے ذریعے اٹھائے گئے مسائل و مباحث کامارکسزم سے مصافحہ و معانقہ بھی کرایا، مگرسوال یہ ہے کہ ا تنی متنوع خدمات کا انھیں کیا صلہ ملا؟

لطف الرحمن جیسے جینیس اور ہمہ جہت فن کار اور مقبول شاعر و ناقد کو بھی ہماری بزمِ تنقید نے نظر انداز کردیا۔ بعد از مرگ فراموش کاری ہماری زبان کا ایک ایسا المیہ ہے جس کا فوری محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اردو تنقید کا کوئی اور مرد آہن اس تنگ نظری کا شکار نہ ہو۔


 

Abrar Ahmad

At+Post Ijra, Via Raiyam Factory

Distt.: Madhubani- 847237 (Bihar)

Mob.: 9910509702, 8651708079

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں