16/8/22

سنت شاعرہ: بہینا بائی - مضمون نگار - بانو سرتاج


 


مہاراشٹر کی سنت شاعرات میں مہادسییا، مکتا بائی، بیابائی وغیرہ کے ساتھ بہینا بائی چودھری ایک اہم نام ہے۔

وہ سنت تکارام کی شاگر د تھیں۔ ان کی پیدائش مہاراشٹر کے اجنتا ایلورہ کے مشہور زمانہ شہر وروڑ کے دیوگاؤں میں 1629 میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام ’آؤجی دیوکلکرنی‘ اور والدہ کا نام جانکی تھا۔ آؤجی پکے شوبھکت تھے۔ بہینا بائی کوبھی بچپن سے ہی بھگوان کی بھکتی میں دلچسپی تھی۔

کم عمری میں بہینا بائی کی شادی ایک تیس سالہ جوان سے کردی گئی۔ ان کے شوہر کا نام رتنا کر عرف گنگادھر پاٹھک تھا۔ وہ شوپور کے جیوتشی تھے۔ وہ گنگادھر پاٹھک کی دوسری شادی تھی۔ بہینا بائی ان جیسا عالم فاضل شوہر پاکر اپنی خوش نصیبی پر خوش تھیں۔

ابتدا میں ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں رہی۔ شادی کے  چار برس بعد ان کے والد پر برا وقت آپڑا۔ جیوتشی رتناکر عرف گنگادھر پاٹک نے دیویاترا کرنے کا مشورہ دیا جسے قبول کر آؤ جی، جانکی بائی، بہینا بائی اور رتناکر پاٹھک سب سفر پر نکل پڑے۔ پنڈھرپور، شنگنا پور، رحمت پور ہوتے ہوئے وہ لوگ کولھاپور پہنچے جہاں ہرن بھٹ نامی ایک برہمن نے انھیں پناہ دی۔

کولھاپور قیام کے دوران بہینا بائی نے سنت جے رام سوامی وڑگاؤں کر کے مذہبی جلسوں میں سنت تکارام کے ابھنگ (صوفی شاعری) سنے اور ان کی معتقد ہوگئیں۔ ان سے ملنے کو بے قرار ہوگئیں۔ ان کے شوہر کو بہینابائی کا پاگل پن پسند نہیں آیا مگر سنت تکارام کی شاعری نے کچھ ایسا جادو کیا تھا کہ بہینابائی نے شوہر کی ناراضگی کی بھی پرواہ نہیں کی۔

1640 میں سنت تکارام نے بہینا بائی کو خواب میں درشن دیے، دعا دی اور بہینابائی اشعار موزوں کرنے لگیں۔ وہ دیہوس پہنچیں، سنت تکارام  سے ملیں اور مکمل طور پر ایشور بھکتی میں ڈوب گئیں۔

بہینا بائی کی شاعری میں مختلف موضوعات پر اشعار ہیں۔ ایشور بھکتی شاعری کی بنیاد ہے۔ نرگن نراکار برہما، اوتاروں کی حقیقت، ایشور کی عبادت، آتما، پرماتما اور انسان کے باہمی رشتے بولتے ہیں، ہندوستانی معاشرے کی مذہبی دیوانگی، ڈھونگ، ضعیف الاعتقادی پر طنز ملتا ہے۔

بہینابائی مراٹھی سنت ساہتیہ کی اکلوتی شاعرہ ہیں جنھوں نے اپنی آپ بیتی خود لکھی ہے۔ نانا صاحب گورے بہینابائی کی سوانح حیات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’بہینابائی کی زندگی محیرالعقول واقعات سے بھری پڑی ہے۔ شوہر کا انھیں بے دردی سے زد و کوب کرنا اور احتجاجاً ان کی پیاری گائے کا دانہ چھوڑ دینا، سنت تکارام کا خواب میں آکر گرو منتر دینا، شاعری کا آشیرواد دینا، بہینابائی کو شودر (نچلی ذات) کا طعنہ مارنے پر ان کے شوہر کے بدن میں جلن ہونا، ظالم ممیاجی کا گائے کو مارنا اور مار کے نشانات کا سنت تکارام کی پشت پر ظاہر ہونا جیسے ناقابل یقین واقعات کا انھوں نے اپنی سوانح حیات میں ذکر کیا ہے۔‘‘

بہینابائی نے مراٹھی اور ہندی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے۔ مراٹھی کے اشعار لاکھوں کی تعداد میں ہیں جب کہ ہندی کے صرف سات سو اشعار ہی حاصل ہوئے ہیں۔ شاعری کے اس بے بہا خزانے کو یکجا کرنے کی کوششیں وقفہ وقفہ سے ہوتی رہی ہیں جیسے، 1913 میں شری ڈھونڈو وشوناتھ نے سب سے پہلے پونے سے مجموعہ شائع کیا۔ 1926 میں وشواس نارائن کولہٹ کر، نے... سنت بہینا بائی چی گاتھا (سنت بہینا بائی کی کہانی) عنوان سے ان کی شاعری کو یکجا کیا۔ 1956 میں ’پونے چتر شالا‘ سے ’شری سنت بہینابائی یانچی ابھنگ گاتھا (شری سنت بہینابائی کی ابھنگ شاعری) شائع ہوئی۔ جسٹس ای ایبٹ‘ نے مہاراشٹر کوی سنت مالا (مہاراشٹر کے صوفی شاعر) سیریز میں بہینابائی کی مراٹھی شاعری کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا ہے۔

سنت بہینابائی کی شاعری کی زبان مہاراشٹر کے  خاندیش علاقے کی اہیرانی مراٹھی ہے جو ہندی استعمال کی گئی ہے وہ سادہ عام بول چال کی زبان ہے۔ اس پر مراٹھی کا اثر صاف نظر آتا ہے۔ اردو کے الفاظ فقیر، حضور، بندہ، صاحب فکیر (فکر)‘ ہسیار (ہوشیار) ذِکَر (ذکر) وغیرہ کا استعمال ہوا ہے۔ ڈاکٹر ونے موہن شرما اس تعلق سے کہتے ہیں ’’بہینا بائی کے اشعار میں فصاحت نہیں ہے۔ ان میں، بندہ، حضور، اللہ وغیرہ الفاظ بڑی تعداد میں استعمال ہوئے ہیں لیکن ایک مراٹھی زبان کی شاعرہ سے اعلیٰ درجے کی اردو، ہندی کی توقع رکھنا مناسب نہیں ہے۔ ان کے اشعار صرف زبان کی کسوٹی پر نہیں پرکھے جاکر ان کی بھکتی بھاؤنا اور صوفیانہ خیالات پر پرکھے جانے چاہئیں۔‘‘

صحیح ہے، بہینابائی کی شاعری  دل کو چھو جانے والی ہے۔ اس میں زندگی کے مختلف رنگ ہیں، مٹی کی خوشبو ہے، موسیقی کے سر ہیں۔ ان کی شاعری میں عورت اپنی پوری ہمت و استقلال کے ساتھ پوری کمیوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ عورت کی عبادت، خدمت اور ایثار کی جھلکیاں نظر آتی ہیں تو ممتا، محبت اور شفقت کے جذبات بھی نظر آتے ہیں۔ عورت، چاہے وہ باورچی خانے میں کھانا پکا رہی ہو، اناج پیس رہی ہو، کھیتوں میں گڑائی کررہی ہو، کنوئیں سے پانی کھینچ رہی ہو، شاعری میں مکمل تصویرکشی ہوئی ہے۔ بہینا بائی کی شاعری آفاقی ہے، زمان و مکان سے پرے، مفید اور دلپذیر ہے۔

بہینابائی کے پاس الفاظ کا لامحدود خزانہ تھا جس میں سے چھان پھٹک کر مناسب لفظ نکالتیں اور انگوٹھی میں نگینے کی طرح مہارت سے شعر میں جڑ دیتیں۔ اپنے فرزند ’سوپن دیو‘ سے ایک مرتبہ انھوں نے کہا ’’ایک لفظ ہے رنگ... دیکھو کہ اسے کتنی طرح استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔‘‘ چار مصرع فی البدیہہ کہہ کر انھوں نے لفظ رنگ کو استعمال کرکے سمجھایا تھا۔

سوپن دیو نے کسی موقعے پر ان سے پوچھا تھا ’’ماں! تم ہر وقت کام کرتی رہتی ہو۔ کام کرتے ہوئے تمھارا سرزمین کی طرف جھکا رہتا ہے۔ تم اشعار تخلیق کب کرتی ہو؟ تم ہر بات ، ہر رنگ کو کیسے دیکھ لیتی ہو، ان کی عکاسی کیسے کرتی ہو؟‘‘

بہینا بائی نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا، ’’کام، عورت کی پہچان ہے۔ میں زمین کے آئینے میں آسمان کا عکس دیکھ لیتی ہوں۔‘‘ اور اس حقیقت کو سنت شاعری کے مداح سب جانتے ہیں کہ بہینابائی چکی پر اناج پیستے ہوئے اشعار کہتیں اور گنگناتی تھیں۔

شاعری کہاں سے نازل ہوتی ہے؟ شاعر کا شاعری سے کیسا رشتہ ہے؟ یہ تمام حقیقتیں بہینابائی کی شاعری میں نظر آتی ہیں... ان کی شاعری میں بادل، برسات کی پھواریں نظر آتی ہیں تو کنوئیں سے پانی بھرتی عورتیں اور قحط سے زمین میں پڑی دراڑیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کمہار کے چاک پر مٹی کا گھومنا، مٹی کو اوپر سے زور زور سے مارنا مگر اندر سے دوسرے ہاتھ سے سنبھالا جانا اور سنبھال کر برتن کی شکل دینا شاعری ہے، برتن کو دھوپ میں سکھا کر، آگ میں پکا کر پختگی دینا شاعری ہے۔ اناج کا چکی میں ڈالا جانا، دو پاٹوں کے درمیان پس کر آٹا بننا شاعری ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’دو پتھروں کی رگڑ سے اناج جس طرح پِس کر آٹا بن کر گرتا ہے ویسے ہی شاعری میرے دل کی گہرائیوں سے نکل کر میرے ہونٹوں تک آتی ہے۔‘‘

بہینا بائی کے ہندی اشعار کا جائزہ لیں تو دیوتاؤں کے اوتار لینے کی بابت وہ کہتی ہیں ’’دنیا میں جب برائیاں بڑھ جاتی ہیں تو ایشور اوتا رلے کر زمین پر آتا ہے۔ جیسے ہی اس کا ظہور ہوتا ہے، اچھائی کا وقت آجاتا ہے۔ زمین سے پاپ ختم ہونے لگتا ہے۔‘‘ مراٹھی میں انھوں نے کہا اور لکھا کہ ’’لوگ بے جا فکر کرتے ہیں؟ دنیا میں ایشور کا ظہور ہوا تو کیوں ہوا، یہ سوچنے سے زیادہ اہم یہ سوچ لینا ہے کہ پاپ کا زمانہ ختم ہوکر پنیہ کا دور آرہا ہے۔ اچھائی کی طرف راغب ہونا چاہیے۔‘‘

وہ کرشن بھگوان کی بھکت تھیں۔ انھیں مکمل بھگوان مانتی تھیں۔

کرشن بھگوان کے ظہور سے عقیدت مندوں کے دکھ درد، مصیبتیں، مسائل سب دور ہوجاتے ہیں۔ کھیل کھیل  ہی میں انھوں نے کتنے راکشسوں کو ختم کردیا۔

بہینابائی نے شری کرشن کے دلکش پیرائے کا خوبصورت بیان کیا ہے۔ پیلے رنگ کے کپڑے، بالوں میں مورپنکھ اور ہونٹوں میں بانسری کرشن کی پہچان ہے۔

بہینابائی مانتی تھیں کہ دکھاوے کی عبادت سے نہیں، سچی بھکتی سے ایشور کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ گیروے کپڑے پہننا، سر منڈا لینا  یا جٹائیں بڑھا لینا، ہاتھ میں مالا (تسبیح) گھماتے رہنا بھکتی نہیں ہے۔ سنیاس لینا، غاروں میں جابسنا، سمادھی لگانا عبادت نہیں ہے۔

سچی عبادت دل سے ہوتی ہے اور سیدھی ایشور تک پہنچتی ہے۔ وہ خود کو خوش نصیب سمجھتی ہیں کہ دھوکہ فریب سے دور رہ کر بھکتی کرسکیں یہ ان کی بھکتی کا ہی پھل تھا جو گھر بیٹھے انھیں ہری کرشن کے درشن ہوئے۔

وہ جانتی تھیں دنیا فانی ہے۔ اس سے دل لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کے تجربات ان کے پاس تھے جن کی وجہ سے ان کی سوچ کا دائرہ بے حد وسیع اور سلجھا ہوا تھا۔ مستقبل کو دیکھنے والی نظر انھیں حاصل تھی... پھر انھیں یہ بھی یقین تھا کہ اس فانی دنیا سے بخیر و خوبی پار لے جانے والے شری کرشن ان کے ساتھ ہیں۔

دنیا میں جو آیا ہے اسے جانا بھی ہے موت کو قبول کرنا عقل مندی ہے۔ موت سے خوف مناسب نہیں۔ اعمال کے اچھے برے ہونے کا انحصار خود انسان پر ہے۔ اعمال کے اچھے برے ہونے پر ہی جنت جہنم کا داخلہ طے ہوتا ہے۔

پرمیشور کی ماتا کے روپ میں ممتا کے سوتے پھوٹے اور بہینابائی چاروں طرف بال پرمیشور(ننھے ایشور) کو دیکھنے لگیں۔ پتے پتے میں پرمیشور کی آہٹ محسوس کرنے لگیں، کانوں میں کلکاریاں گونجنے لگیں... مختصراً یہ کہ ننھے ایشور نے بہیناماں کے لیے چاروںطرف رنگ ہی رنگ بکھیر دیے۔

بہینابائی مراٹھی سنت شعرا کی اوّل قطار میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ جب وہ کہتی ہیں، دیو (ایشور) کہاں ہے؟ ایشور کہاں ہے؟ پوچھنے والے! ایشور تو تیرے دل میں ہے۔

سنت کبیر بھی تو یہی کہتے  تھے۔

زندگی کے ہر پہلو پر بہینابائی کی نظر تھی۔ وہ ہر بات کو واضح طور پر محسوس کرتیں اور اس سے زیادہ مہارت سے پیش کردیتیں۔ اخلاقیات کی تعلیم اور تعمیر میں مذہب کی اہمیت کو وہ درج ذیل اقتباس میں واضح کرتی ہیں:

’’مذہبی کہہ کر جو باتیں سکھائی جاتی ہیں، مذہبیات کے تحت جو کچھ بچوں کے دماغ میں ٹھونسا جاتا ہے وہ کپڑے میں باندھ کر طاق پر رکھ دینے کی باتیں نہیں ہیں۔ وہ باتیں جسم میں لہو کے ساتھ مل کر، گوشت پوست میں ڈھل کر زندگی میں اتار لینے کی باتیں ہیں۔ مذہب صرف کتابوں میں لکھے جانے یا بحثوں کا موضوع نہیں ہے  وہ عمل کا موضوع ہے۔ عمل میں ہی اس کی معنویت ہے۔‘‘

بہینابائی اوصاف نہ رکھنے والے انسان کو دیکھ کر مایوس ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اچھے اوصاف سے اخلاقیات سے عاری ہونے کا مطلب ہے اشرف المخلوقات خطاب کے لائق نہ ہونا۔ سچا انسان ملنا بہت مشکل ہے مگر وہ اس کی تلاش جاری رکھنا چاہتی ہیں۔

لیکن دنیا اچھے اور سچے انسانوں سے خالی بھی تو نہیں ہے۔ غریبوں، دکھیوں کا دکھ درد دور کرنے والوں، مظلوموں کو انصاف دلانے والوں، رونے والو ں کے آنسو پونچھنے والوں، سوکھے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے والوں، خدمت خلق کی زندگی کا مقصد ماننے والوں کو بہینابائی جب دیکھتی ہیں تو جیسے انھیں دیودرشن ہوتے ہیں۔

زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے مگر زندگی صرف پیٹ بھر کھانا نہیں ہے۔ من بھی ایک چیز ہے اور یہ من کیا چیز ہے؟ بہینابائی کے مطابق ’’من ایک پرندہ کی مانند ہے۔ تم اس کی تھاہ نہیں پاسکتے۔ ایک پل میں وہ زمین پر ہوتا ہے تو دوسرے پل آسمان میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘

کبھی کبھی وہ معصومیت سے ایشور ہی سے پوچھ بیٹھتی ہیں، ’’اہے ایشور! یہ من آخر ہے کیا چیز؟ اس کی تخلیق آخر ہوئی کس طرح؟ اس کے متعلق لاتعداد خواب دیکھے جاتے ہیں۔ رات کو نیند میں بھی اور دن میں اس وقت بھی جب انسان جاگا ہوا اور مکمل ہوش وحواس میں ہوتا ہے۔ بہینابائی کی شاعری میں یہ من کئی شکلوں میں موجود ملتا ہے۔

صرف تیس برس کی عمر میں بیوہ ہوجانے والی بہینابائی شوہر کی موت پر پہلے تو سکتہ زدہ رہ گئیں پھر بے اختیار چیخ اٹھیں ’’پیاری دھرتی ماں! کہو تو؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ عظیم الشان درخت تو زمیں بوس ہوجائے مگر اس کا سایہ بنا رہے؟‘‘

مگر جلد ہی انھوں نے خود کو سنبھال لیا..... دلاسہ دینے کے لیے آئی عورتوں سے کہا ’’بھلے ہی چوڑیاں توڑی جاچکی ہوں، گلے سے منگل سوتراتارا جاچکا ہو، پیشانی سے سندور صاف کیا جاچکا ہو، ایشور پر میرا بھروسہ قائم ہے۔ مجھ پر رحم نہ کھاؤ۔ میں قدرت کا کھیل سمجھ چکی ہوں۔ میری زندگی اب میرے ہاتھ میں ہے۔ جس نے مجھ پر یہ مشکل وقت ڈالا ہے وہی اسے برداشت کرنے کی طاقت مجھے دے گا۔‘‘

بہینابائی عورت ہیں، ماں ہیں، سونے پہ سہاگہ کہ شاعرہ ہیں۔ ممتا کی خوشبو سے ان کی شاعری مہکی ہوئی ہے، ممتا کا امرت چھل چھل چھلکتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے اپنی زندگی ختم کردیتی ہے۔ سسرال میں چاہے جو سہنا پڑے سہتی ہے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ بیٹی جب سسرال جائے تو اسے میکہ ضرور ملے... سسرال میں اس پر ظلم ہو تو میکے آکر وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر روسکے۔

بہینا بائی کی یہ سطور عورت کی عظمت کا اقرارنامہ ہے۔

بہینابائی کا زندگی اور موت کا فلسفہ بھی خاص الخاص ہے۔ سنسار کیا ہے؟ چولھے پر رکھا ہوا توا ہے جسے ہر دم مصیبتوں کا مسائل کی آگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے اس کا مقابلہ کرو۔ رونے دھونے سے نہیں بہادری سے سامنا کرنے پر زندگی کی کشتی طوفان سے مقابلہ کرکے بخیریت ساحل سے لگتی ہے۔

اس فلسفے کو ہر کوئی اپنے نظریے سے سمجھتا پرکھتا ہے۔ زندگی اور موت کا فلسفہ ایک پہیلی ہی تو ہے۔

زندگی اور موت کے درمیان کا وقفہ انسان کا میدانِ عمل ہے جو مو ت کی آہٹ ہوتے ہی غائب ہوجاتا ہے، باقی صرف کارکردگی رہ جاتی ہے۔

کتابیات

کولہٹ کر، وشواس نارائن: سنت بہینابائی چی گاتھا۔

گورے نانا صاحب (201)، سنت بہینابائی کا ہندی پدساہتیہ سنچارکا، اورنگ آباد، جولائی ستمبر

دیکشت آنند پرکاش (ایڈیٹر): مراٹھی سنتوں کی ہندی وانی

بھاوے۔ پرا۔ہا آ۔: بہینا بائی چی گاتھا۔

شرما، ونے موہن: ہندی کو مراٹھی سنتوں کی دین

شیوڑے اندومتی: ہندی کویتریاں اور کویتا

جسٹس ای ایبٹ: مہاراشٹر کوی سنت مالا

دینک مہاودربھ (مراٹھی): چندرپور، مول روڈ

دینک لوک مت (مراٹھی): ناگپور، لوک مت بھون، دھنتولی

پونے چترشالا: شری سنت بہینابائی یا نچی ابھنگ گاتھا


 

Dr. Bano Sartaj Kazi

'Sartaj House', Jindran Nagar

Near 1st MSEB Tower

Pandharkawada Road

Yavatmal - 445001 (MS)

 

 



 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں