18/8/22

اردو میں بچوں کا سائنسی ادب - مضمون نگار : تجمل حسین راحت

 



اردو زبان اپنی خوبصورتی اور شیرینی کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات کی پیچیدگیوں اور اس کے مشکل مسائل کو بیان کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ سائنس کو جتنا خشک موضوع سمجھا جاتا ہے دراصل وہ اتنا خشک بھی نہیں ہے بلکہ سائنس کو پڑھانے کا طریقہ اس موضوع کو خشک یا پسندیدہ بناتا ہے۔

بچوں کا ذہن اکثر نیچرل سائنس کے سوالوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ مناظر فطرت بچے جن کا روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں ان کے بارے میں وہ جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جیسے بارش کیسے ہوتی ہے، موسم کی تبدیلیوں کی وجہ کیا ہے، رات اور دن کے آنے جانے کا معاملہ کیا ہے، سورج چاند ستارے جو نظر تو آتے ہیں اور پراسرار بھی لگتے ہیں مگر بچے ان کے بارے میں سائنسی نقطۂ نظر سے نہیں جانتے اس لیے یہ سوالات ان کے ذہنوں میں بار بار آتے ہیں۔ اگر ان سوالوں کا لٹریچر اور کہانیوں کی شکل میں سائنٹفک جواب نہیں دیا جاتا ہے تو وہ سائنسی مزاج سے دور توہمات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اگر ان موضوعات پر بچوں کی نفسیات کا خیال کرتے ہوئے آسان اور سادہ اسلوب میں مضامین اور کتابیں لکھی جائیں تو ان کے بہت سے سوالوں کا جواب بھی مل جائے گا اور ہم سائنسی مزاج رکھنے والی ایک پوری نسل کی ذہنی تربیت بھی کرسکیں گے۔

اردو میں بچوں کے لیے سائنسی ادب تخلیق کرنے والوں میں اندرجیت لال، احرار حسین، سائنس دان محمد خلیل، انصار احمد معروفی، عبدالودود انصاری، انیس الحسن صدیقی، ادریس احمد صدیقی، ڈاکٹر اسلم پرویز، شمس الاسلام فاروقی اور عادل اسیر دہلوی وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

اندر جیت لال بچوں کے لیے سائنسی مضامین لکھنے والوں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ انھوں نے آزادی کے بعد بے حد دلچسپ اور معلومات افزا سائنسی مضامین لکھے۔ ان کی کتابوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سائنسی موضوعات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فلسفہ، ہندوستانی سائنسداں اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں جس سے بچوں کے معصوم ذہنوں میں اس ملک کی تاریخ، تہذیب، روایت اور فلسفہ و حکمت کا نقش اول قائم ہوجاتا ہے۔ اندر جیت لال کی کتابیں ہیں تعمیر نو، ہمارے سائنس داں اور ایٹم کی کہانی۔

تعمیر نو دراصل آزادی کے بعد ہندوستان میں ہونے والی سائنسی ترقیوں کو کہانیوں کی شکل میں پیش کرنے کا ایک خوبصورت تجربہ ہے۔ جب ملک آزاد ہوا تھا تو ہر طرف غربت و افلاس اور جہالت تھی۔ ہمارا قدیم نصاب تعلیم فلسفہ و حکمت، پند و نصیحت اور شعر و ادب تک محدود تھا۔

اندرجیت لال تعمیر نو کے دیباچے میں لکھتے ہیں ’’آپ نے کئی قصے کہانیاں پڑھی ہوں گی، دلچسپ کہانیاں عجیب و غریب کتھائیں، زندگی سنوارنے والے قصے، سبق آموز کہانیاں، نئے رنگ کی کہانیاں یا پھر ایسی کہانیاں جن سے ہمیں روشنی ملتی ہو۔ تحقیق تجربے کی بات معلوم ہوتی ہو۔ سائنس اور ٹکنالوجی کا حال معلوم ہوتا ہو اور جن کے پڑھنے سننے سے ہماری معلومات بڑھتی ہو۔ میرے ان مضامین کے پیچھے ہمارے ملک کی سائنس کی کہانی ہے، ہماری صنعت کی کہانی ہے، ٹکنالوجی کی کہانی ہے، زراعت کی کہانی ہے، توانائی کی کہانی بلکہ یوں کہیے کہ ساری قوم کی سائنس کی کہانی ہے۔‘‘ (ص:10)

خوبصورت انداز اور عام فہم زبان میں لکھی گئی قوم کی سائنسی کہانی میں بچوں کے لیے سبق آموزی اور لطف اندوزی کے ساتھ ساتھ یہ کہانی نئی معلومات کا بیش بہا ذریعہ بھی ہے۔

ہمارے سائنس داں‘  ان کی مشہور کتاب ہے جس میں انھوں نے ہندوستانی سائنس دانوں کے حالات زندگی اور ان کے سائنسی کارناموں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جیسے نوبیل انعام یافتہ سائنس داں سی وی رمن، جگدیش چند بوس، ہندوستان میں ایٹمی توانائی کے بانی ڈاکٹر جہانگیر بھابھا، گیہوں کی کھیتی میں انقلاب کا محرک ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن وغیرہ

 اندر جیت لال ذاتی طور پر سائنس دانوں کے قدردان اور ڈاکٹر سی وی رمن کے عقیدت مند تھے وہ لکھتے ہیں کہ:

دراصل سائنس داں سماجی ہیرو ہیں کیونکہ یہ سائنسی زاویہ نگاہ کو پھیلانے میں مدد کرتے ہیں۔ جدید انکشافات و سائنسی تحقیق سے عوام کو فیضیاب ہونے کے طریقے بتاتے ہیں۔ صنعت دانوں کو ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کا راز بتاتے ہیں۔ حکومت کو قومی سطح پر پلانوں اور منصوبوں کو ترتیب دینے میں مدد دیتے ہیں اور اس طرح سائنس کو ترقی و خوشحالی اور کامیابی کا وسیلہ بناتے ہیں۔ ایسے سماجی سربراہوں میں سرسی وی رمن کا نام اور کام کاج رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ (ص:8)

وہ اپنی تحریروں میں مسلسل سائنس کی اہمیت اور سائنس دانوںکی قدردانی پر زور دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے بچوں کی شروع سے ہی ایسی تربیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد پائی جانے والی چیزوں کو سائنسی نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھیں لایعنی قصے کہانیوں کے بجائے مشہور ایجادات کے بارے میں بتائیں۔ سائنسدانوں کے حالات زندگی کو کہانیوں کی طرح بچوں کو سنائیں تاکہ ان کی ذہنی نشو و نما میں معروضیت پیدا ہو۔

اس کتاب میں ’ ہندوستان میں ایٹمی توانائی کا بانی ڈاکٹر ہومی جہانگیر بھابھا‘کے عنوان سے ایک اہم مضمون ہے جس میں جہانگیر بھابھا کے بچپن کے حالات، ان کی تعلیمی لیاقت اور آزادی کے بعد ان کی سربراہی میں اٹامک انرجی کے ادارے کے قیام کی تفصیل ہے۔

مجموعی طور پر اندرجیت لال کی کتاب ’ہمارے سائنس داں‘ سادہ اور سلیس انداز میں لکھی گئی بچوں کی سائنسی استعداد کو بڑھانے والی ایک اہم کتاب ہے جس میں ملک کے سائنسی ہیروز کی دلچسپ سرگزشت حیات بھی ہے۔

احرار حسین نے بچوں کی نفسیات اور ان کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی سائنسی کتابیں لکھی ہیں جیسے سائنسی شعاعیں، عظیم سائنس داں، سائنس کی مایہ ناز ہستیاں اس کے علاوہ انھوں نے طبیعات کیمیا، حیاتیات اور عام فہم سوالات پر مبنی ایک سائنسی کوئز بھی تیار کیا ہے جو طلبا کی سائنسی استعداد کو بڑھانے اور سائنسی ذوق و شوق کو پروان چڑھانے میں معاون ہے۔ ان کی کتاب سائنس کی مایہ ناز ہستیاں 2000 میں ثنا پبلشر دہلی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے مشہور سائنس دانوں کا مختصر تعارف اور ان کی سائنسی ایجاد کا خاکہ پیش کیا ہے۔ کل 52سائنس دانوں کااس کتاب میں ذکر ہے، جن میں یونیورسل لا آف گریوٹی کی تھیوری دینے والے آئزک نیوٹن، نظریہ ارتقا پیش کرنے والے چارلس ڈارون، ٹیلی فون جیسی اہم ایجاد کرنے والے الیگزینڈر گراہم بیل اور واٹسن، انیسویں صدی میں چیچک جیسے خطرناک وبائی مرض کی ویکسن تیار کرنے والے ایڈورڈ جیمس، دنیا کو ہوائی جہاز کا نایاب تحفہ دینے والے رائٹ بر ودرس۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں دنیا کی واحد خاتون کا بھی ذکر ہے جنھوں نے سائنس کی دو الگ الگ شاخوں میں نوبیل انعام حاصل کیا۔ ماریہ کیوری پولینڈ کی رہنے والی تھی۔ Physics میں ان کی خدمات کے لیے 1903 میں انھیں نوبل انعام سے نوازا گیا جب کہ 1911 میں ان کی کیمیائی خدمات کے بدلے کیمسٹری کا بھی نوبیل انعام دیا گیا۔ ریڈیوویوز، کمیونیکیشن پر تحقیق کرکے ریڈیو ایجاد کرنے والے اور پوری دنیا کے مواصلاتی نظام میں انقلاب برپا کرنے والے مارکونی کا بھی ذکر ہے جنھیں 1915 میں نوبیل انعام برائے طبیعات سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے مشہور سائنس دانوں کا مختصر تعارف، ان کی سائنسی کاوشوں اور اس کے نتیجے میں بدلی ہوئی ایک سائنسی دنیا کا نقشہ اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔

انصار احمد معروفی بچوں کے لیے سائنسی نظمیں لکھتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’یہ کائنات‘ کے ابتدائیہ میں اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’بچوں کے دل و دماغ کی نشو و نما اور ان کے مزاج کی رعایت کرکے کچھ لکھنا آج کے دور کا اہم تقا ضا اور بڑی ضرورت ہے۔ آج کے بچے جب اپنی فکرو فہم کے مطابق اردو زبان میں نثرو نظم میں کوئی تخلیق پاتے ہیں تو شوق سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں بالخصوص نظم کی طرف وہ تیزی سے لپکتے ہیں اور بڑی چاہت سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔‘‘(ص : 8)

بچوں کی اسی چاہت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے سائنسی موضوعات کو نظموں کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ نظام شمسی زمین کی کشش ثقل، سورج اور گرمی،ماحولیات کا تحفظ، بادل اور بارش،اور پیڑ کے فوائد جیسے بچوں کے دلچسپ موضوعات پر انھوں نے نظمیں کہی ہیں۔

انھوں نے اپنی ایک نظم میں سورج کے گرد زمین کی گردش اور اس کے نتیجے میں ہونے والی موسمی تبدیلیوں کو سائنٹفک طریقے سے بچوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے         ؎

دیکھیے اب آگیا ماہ مئی

اتنی لو جیسے کہ ہو سورج کئی

دھوپ میں جانے سے جلتا ہے بدن

ہر گھڑی کرتا نہانے کا ہے من

کیوں مئی میں اتنا ہوجاتا ہے گرم

جنوری میں جب کہ یہ ہوتا ہے نرم

میں نے پھر استاد سے پوچھا اسے

گرم سورج کیوں بنے یہ بتلائیے

بولے وہ سورج بدلتا ہی نہیں

رنگ چڑھتا اور اترتا ہی نہیں

گھومتی ہے یہ زمین سورج کے گرد

صبح و شام اس کا یہی رہتا ہے ورد

ایک چکر سال میں سورج کا وہ

کرلیا کرتی ہے چکر پورا وہ

جب وہ آجاتی ہے سورج کے قریب

معاملہ قدرت کا ہوتا ہے عجیب

یہ مئی اپریل میں سورج کے پاس

آکے وہ کرتی ہے سورج کو کراس

تب شروع ہوتی ہے گرمی اور لو

ہوتی ہے ٹھنڈی جگہ کی جستجو

ان اشعار میں بچوں کی نفسیات کا خیال کرتے ہوئے ان کے معصوم ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کا سائنٹفک جواب دیا گیا ہے۔

سائنس داں محمد خلیل بچوں کے پسندیدہ مصنف ہیں۔ وہ سہ ماہی ’ سائنس کی دنیا‘ کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے سائنسی موضوعات پر کئی کتابیں لکھی ہیں جیسے۔ سائنس اور ہم، نہرو اور سائنس، انوکھے پرندوں کی دنیا وغیرہ اس کے علاوہ مختلف رسائل و جرائد میں سائنسی موضوعات پر ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ موضوع Zoology یعنی حیوانات کی دنیا ہے جسے بچے بھی بے حد پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’انوکھے پرندے‘ میں ہندوستانی پرندوں کے علاوہ دنیا کے دور دراز علاقوں میں پائے جانے والے پرندے، ان کے اقسام اور ان کے عادت و اطوار پر دلچسپ گفتگو کی ہے جیسے نیوزی لینڈ میں پائے جانے والا پرندہ، کیوی اور انٹارک ٹیکا میں پایا جانے والا پرندہ پینگوئن وغیرہ۔

پروفیسر ادریس احمد صدیقی بھی بچوں کے سائنسی ادیب ہیں۔ ان کا اصل میدان تو معاشیات ہے مگر وہ بچوں کی ضرورتوں، ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور کچھ حد تک اپنی ابتدائی محرومیوں کے ازالہ کے لیے سائنسی ادب تخلیق کرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ اپنی کتاب ’پانی کی موت‘ میں خود بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

چونکہ میں نے ابتدائی تعلیم مدرسے میں حاصل کی جہاں دور حاضر اور سائنسی مسائل کا گزر نہیں تھا۔ ثانوی تعلیم کے لیے انگریزی اسکول گیا تو ایک نئی دنیا سے روشناس ہونے پر اپنی کم مائیگی اور تعلیمی خامی کا احساس ہوا۔ آج جب میرا بیٹا درجہ چہارم میں ماحولیات کے اسباق پڑھتا ہے تو مجھے اردو مدارس و مکاتب کی پسماندگی کے ساتھ بچپن کی اپنی علمی کم مائیگی کا احساس شدید ہوجاتا ہے۔ان کہانیوں کے ذریعے مدارس و مکاتب میں پڑھنے والے بچوں کے بجائے اپنی ابتدائی تعلیم کی کم مائیگی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان کی سائنسی کہانیاں بنیادی طور پر Environmental Science سے متعلق ہوتی ہیں۔ وہ اپنی کہانیوں میں ماحولیات کے تحفظ پر زور دیتے ہیں شجر کاری اور باغبانی کی تاکید کرتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں فضائی آلودگی، آبی آلودگی اور فضائی کثافت وغیرہ جیسے موضوعات اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔ پانی کی موت، پانی کی آلودگی،عالمی حرارت، کہانیاں پرندوں کی، معدوم شجرکاری، نیو کلیائی کثافت وغیرہ۔

اردو رسائل و جرائد اور اخبارات میں بھی بچوں کے سائنسی ادب پر مسلسل لکھا جارہا ہے۔ گرچہ کچھ ماہانہ رسالے پورے طور پر سائنسی نہیں ہیں مگر کچھ سائنسی مضامین شمارے میں ہوتے ہیں۔ جیسے ماہنامہ ’بچوں کی دنیا‘ قومی کونسل دہلی، ماہنامہ ’امنگ‘ اردو اکیڈمی دہلی، ماہنامہ ’قومی زبان‘، تلنگانہ اردو اکادمی، کھلونا کی خدمات، گل بوٹے، پھول اور پیام وغیرہ اردو زبان میں سائنسی شعور پیدا کرنے اور سائنسی ذوق و شوق پیدا کرنے میں ماہنامہ ’سائنس‘ ناقابل فراموش ہے، جو مسلسل 28سالوں سے ڈاکٹر اسلم پرویز کی ادارت میں نکل رہا ہے۔ اردو میں سائنسی کوششوں کے علاوہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں ہورہی زبردست تبدیلیوں اور ترقیوں سے اردو داں طبقے کو اردو میں متعارف کرانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔



 

Tajammul Husain Rahat

Room No. : 20, Satluj Hostel

JNU, New Delhi - 110067

Mob.: 7905623176

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں