22/8/22

ہندوستان میں بچو ں کا سائنسی ادب - مضمون نگار : عبدالودود انصاری

 



ہندوستان میں بچو ں کے ادب کی بات کی جاتی ہے تو قدرے اطمینان سا ہوتا ہے کہ لکھنے والے لکھ رہے ہیں چاہے وہ نثر ہو یا نظم اور تواتر سے لکھ رہے ہیں جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن جب بچوں کے سائنسی ادب کی جانب رخ کیا جاتا ہے تو مایوسی کا شکار ہونا پڑتا ہے کہ جس رفتار سے لکھا جانا چاہیے وہ رفتار ہر گز نہیں ہے۔ متذکرہ حقیقت کا انکشاف نہ صرف ہندوستان میں ہوتا ہے بلکہ عالم اردوکی نمائندگی کرتا ہے۔دراصل  ’سائنسی ادب‘ خاص کر ’ بچوں کا سائنسی ادب‘ کے ساتھ ناانصافی یہ ہے کہ اس ادب کو نہ تو ادب والے خوش آمدید کہتے ہیں اور نہ ہی عوام کی جانب سے اس کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں جس وجہ سے ان کے مصنّفین کی پذیرائی نہیں ہو تی ہے۔مولوی ذکا  اللہ سے شروع کریں اور مولوی اسماعیل میرٹھی سے ہو تے ہوئے آگے بڑھ کر حال تک آئیں تو آپ محسوس کریں گے کہ ہر دور میں ادب اطفال کو ہلکے طور پر لیا گیا ہے۔ یہ تو بچوں کے ادب کی بات ہوئی اور بچوں کے سائنسی ادب کے ساتھ یہ مسئلہ اور عروج پر ہے کہ ادبی دنیا میں بچوں کے سائنسی ادب کو جو مقام ملنا چائیے تھا وہ نہ ماضی میں ملا اور نہ ہی حال میں مل رہا ہے۔ آپ کہیں گے کہ بچوں کے سائنسی ادب پر کم لکھا گیا ہے لیکن یہ آپ نے نہیں سوچا کہ کم کیوں لکھا گیا ہے ؟  دراصل لگتی ہو ئی بات یہ ہے کہ اردو والے سائنس کی تعلیم ہی بہت کم حاصل کر تے ہیں تو لکھنے والے کہاں سے آئیں گے اس کے باوجود لکھنے والوں نے بچوں کے لیے سائنسی مضامین اور سائنسی کتابیں لکھی ہیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی تصانیف کی قدر نہیں کی گئی۔اب ذرا ادب، اردو ادب اور سائنسی ادب پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ 

ادب ایک اکائی ہے جس کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ ادب ایک سمندر ہے جس کی وسعت کی پیمائش بھی ممکن نہیںہے۔ادب سے ہی آدمی اچھا انسان بنتا ہے، اچھا شہری بنتا ہے اور قومیں ترقی کر تی ہیں۔ادب ایک زینہ ہے جس سے انسان و ملک دونوں ترقی کی شاہراہوں پر پہنچتے ہیں۔ادب کی پیدائش انسان کی پیدائش کے ساتھ ہو ئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انسان سے اس کی ملاقات قدرے تاخیر سے ہو ئی ہے۔ بات پھر وہیں سے شروع کی جائے کہ ادب ایک اکائی ہے جس کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ادب جب ہماری مادری زبان سے رشتہ جوڑتا ہے تو یہ لسانی ادب یا اردو ادب کہلاتا ہے اور جب بچوں سے مخاطب ہو تا ہے تو یہ بچوں کا ادب کہلاتا ہے لیکن جب بچوں کے اندر سائنسی دلچسپی پیدا کرتا ہے اور سائنسی معلومات فراہم کرتا ہے تو یہ بچوں کا سائنسی ادب کہلانا پسند کر تا ہے۔میری نظر میں بچوں کے سائنسی ادب کی تعریف اس طرح ہے۔

’’وہ ادب جس میں سائنسی معلومات کو مختلف اصناف کے ذریعے آسان اور دلچسپ انداز میں بچوں کی نفسیات کے پیش نظر پیش کیا جائے تو وہ بچوں کا سائنسی ادب کہلا تا ہے۔‘‘

یہ تعریف اس بات کی تشریح کرتی ہے کہ بچوں کا سائنسی ادب قدرت کے سربستہ راز کو افشا کر تا ہے یا قدرتی واقعات کے رونما ہو نے کا سبب بیان کر تا ہے یا قدرتی اشیا کے اوصاف ظاہرکر تا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ جب سائنس استعمال میں آتی ہے تو ٹیکنالوجی کہلاتی ہے اور سائنسی ادب کے ذریعے جو سائنس معرض وجود میں آتی ہے اس کے ذریعے انسان ٹیکنالوجی کا استعمال بھی سیکھتا ہے۔ قبل اس کے کہ بچوں کے سائنسی ادب کی صفات کیسی ہوں اس کی جانکاری کے لیے بچوں کے ادب کی صفات کی جانکاری ضروری ہے جو ذیل کے اقتباس سے واضح ہو جا تی ہے:

’’بچوں کے ادب میں پھولوں کی سی معصومیت، تتلیوں کی سی رنگینی اور پرندوں کی سی چہکار ہو نی چاہیے۔ زبان اس قدر سلیس کہ ہر عمر کا بچہ آسانی سے پڑھ سکے۔ روانی ایسی جیسے کو ئی ڈھلان پر سائیکل چلارہا ہو۔ شروع سے آخر تک دلچسپی برقرار رہے۔ساتھ اس کے علم میں، الفاظ کے ذخیرے میں اور آس پاس کے ماحول اور کرداروں کے بارے میں اس کی معلومات میں اضافہ بھی ہوتا رہے۔‘‘

(سلام بن رزاق: اردو دنیا،نئی دہلی: جولائی 2012:ص 8)

ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ قدریں بدل رہی ہیں،ماحول بدل رہا ہے اور حالات بدل رہے ہیں۔لہٰذا بچوں کے ادب کی تعریف میں ترمیم کی بھی ضرورت ہے جس کی جانب کسی کی دورس نگاہیںاس طرح گئی ہیں:

’’ آج کا بچہ دنیا کو اپنی مٹھی میں دبائے ہم سے آگے کی دنیا دیکھ رہا ہے جسے سمجھنا اب اتنا آسان نہیں رہا جتنا ہم سمجھ رہے ہیں،بدلتے زمانے کے ساتھ بچوں کی نفسیات بھی گڑبڑائی ہے اور ادیب کی دشواریاں بڑھی ہیں۔بچوں کا ادب تخلیق کر نا جو پہلے بھی آسان کام نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن جتنا دشوار ہو تا جارہا ہے اتنا دشوار بھی نہ تھا،اس لیے آج کے ان حالات میں بچوں کا ادب تخلیق کر تے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘                  

( حقانی القاسمی : ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ یافتہ، اردو دنیا، نئی دہلی: مارچ 2017،ص81)

سائنس کے سر ایک الزام ناعاقبت اندیشوں نے یہ لگا رکھا ہے کہ سائنس ایک خشک مضمون ہے۔بچوں کے سائنسی ادب کے سلسلے سے دو مثالیں سن لیں کہ آپ بچے کو جلیبی صرف تیل میں چھان کر کھلائیں گے تو کھانا پسند نہیں کرے گا  یا آپ چھینے کی گولی کو ابال کر پیش کریں گے تو وہ ٹھکرا دے گا لیکن جب ان دونوں کو چینی کے شیرے میں ڈبو کر پیش کریں گے تو وہ جلیبی اور گولی کی دوسری شکل رس گلے کو بڑے شوق سے کھا ئے گا بلکہ مزید مانگے گا۔بس یہی حال بچوں کے سائنسی ادب کا ہے۔ آپ کو سائنسی مضامین کودلچسپ انداز اور ادب کی چاشنی میں ڈبو کر پیش کرنے ہوں گے۔مثال کے طور پر آپ بچوں کو پھولوں کی زیرگی (Pollination)کی معلومات دینا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو باغ کا حسین منظر پیش کرنا ہو گا،پھر پھولوں کی دلکشی پیش کر نی ہو گی ہو سکتا ہے کہ تتلی کی رنگینی سے لطف اندوز کرا نا ہو  اس کے بعد آپ انھیں زیرگی کی معلومات دیں گے تو خوشی خوشی قبول کر لے گا۔

اب ایک سوال بڑی تیزی سے ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کس طرح کے ادب کی پہلے ضرورت ہے بچوں کے ادب کی یا بچوں کے سائنسی ادب کی۔دیکھیے ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ دونوں ادب کی یکساں اور بیک وقت ضرورت ہے یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ غیر سائنسی بچے بے ادب ہو تے ہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ سائنسی ادب کے حصول کے لیے بچے کا با ادب ہو نا ضروری ہے۔ اب آئیے بچوں کے سائنسی ادب کی ضرورت پر مزید روشنی ڈالی جائے کہ وہ کیوں ضروری ہے ؟

آج اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ جس قوم و ملک کے پاس سائنس کا خزانہ جتنا زیادہ ہو گا وہ اتنا ہی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گا اور دنیا میں ا س کی بالا دستی ہو گی۔اس حقیقت کی پیشین گوئی برسوں پہلے ہمارے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کر کے چلے گئے کہ:

’’ زندگی کی جملہ سمتوں میں سائنس نے دنیا میں انقلاب بر پا کر دیا۔مستقبل اب سائنس کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے جو سائنس کے دوست ہیں۔‘‘

متذکرہ حقائق اور قول کے پیش نظر بچوں کے سائنسی ادب کی ضرورت باآسانی سمجھی جا سکتی ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ سائنسی ادب کو ادب نہ سمجھنے والی قوم سائنس میں پیچھے رہ جاتی ہے۔  ویسے بھی آج کے دور میں بچوں کو پریوں کی کہانی اور بھوت پریت کے قصوں سے کوئی دلچسپی نہیں،نہ انھیں راجا اور رانی کی داستانوں سے انسیت ہے۔آج کا بچہ چاند کو ماما کہنے پر بھی تیار نہیں۔اگر کو ئی اسے کہے گا کہ چاند پر ایک بڑھیا رہتی ہے جو سوت کات رہی ہے تو ہنس کر کہنے والے کو خاموش کر دے گا کہ چاند پر  21جولائی 1969کو قدم رکھنے والے نیل آرم سڑانگ سے تو بڑھیا سے ملاقات نہیں ہو ئی ہے۔آج کا بچہ انگریزی کی مشہور نظم:

Twinkle twinkle little star                         

How I wonder what you are                                     

کو ترمیم کر کے اس طرح پڑھ رہا ہے:

Twinkle twinke little star                                   

No I wonder what they are                                 

لہٰذااب ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ آج سائنس کا دور ہے اور ہمارے بچوں کو بھی اس کے شانہ بہ شانہ چلنا ہے۔بھوت پریت،راجا رانی اور پریوں کی کہانی سنانے کے بجائے سائنسی سوچ دینی ہو گی بقول شاعر:

    تجھ کو  ترے  قلم کی قسم  صا حب قلم

     بچوں کو فکر دے خوش فہمیاں نہ دے

(اسماعیل ظفر)

میں بلا خوف یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آج اردو دنیا میں بچوں کے سائنسی ادب کی عدم موجودگی کی کمی، اس کی عدم پذیرائی کی وجہ سے اردو بچے سائنس میں پچھڑے پن کا شکار ہیں۔ان تمام مشکل تر حالات میںنبرد آزما ہو کر جن مصنفین نے بچوں کے سائنسی ادب پر قلم اٹھا یاہے وہ یقینا قابل تعریف ہیں بلکہ ان کے یہ کارنامے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ایسے گراں قدر مصنفین کے کارنامے کو منصہ شہود پر لاکر انھیں خراج تحسین پیش کیے جائیں۔ آزادی کے بعد بچوں کے سائنسی ادب پر طائرانہ نظر سلسلہ وار ملاحظہ کریں۔

قرۃ ا لعین حیدر: افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں۔آپ نے ایک ناول  ’جن حسن عبدالرحمن‘ لکھی جس میں بچوں کو سائنسی کرشموں سے روشناس کرایا گیا ہے۔

کرشن چندر : آپ ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار تھے۔آپ کے دو ناول الٹا درخت اورستاروں کی سیر سے بچے سائنسی معلومات سے بہرور ہو تے ہیں۔

ظفر پیامی : آپ ممتاز صحافی، ادیب، افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ آپ نے بھی ایک ناول  ’ستاروں کا قیدی‘ لکھ کر بچوں کو خوب سائنسی معلومات فراہم کیں ہیں۔

پرکاش پندٹ :  آپ مشہور ادیب تھے۔آپ نے ایک ناول ’چاند کی سیر‘  اور سائنسی کہانیوں پر مبنی ’سرکس کے کھیل‘ اور ’ چاند کی چوری‘  تصنیف کر کے بچوں کے سائنسی ادب میں اضافہ کیا ہے۔

سراج انور:  آ پ کے تین ناول خوفناک جزیرہ، کالی  دنیا اور نیلی دنیا ایسے ہیں جن سے بچے سائنسی معلومات سے بھر پور استفادہ کر تے ہیں۔

اظہار اثر: آپ کا نام دنیائے سائنس میں بہت مشہور ہے۔آپ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے اردو میں تسلسل کے ساتھ سائنسی فکشن لکھا ہے۔فکشن میں ان کی کتاب  ’آدھی زندگی‘ اور ’مشینوں کی بغاوت‘ کافی شہرت پائیں جن سے بچے اور بڑے دونوں استفادہ کر سکتے ہیں۔ آپ نے بچوں کے لیے کئی جاسوسی اور سائنسی کہانیاں لکھی ہیں جن میں تجسس،حیرت اور استعجاب وغیرہ بچوں کو سائنسی معلومات فراہم کر تی ہیں۔آپ نے نیشنل بک ٹرسٹ سے بچوں کے لیے شائع دو کتابوں ہمارا جسم اور خون کی کہانی کے ترجمے بھی کیے ہیں۔ماحولیات پر ایک کتاب ’وقت کا مسافر‘ بہت مشہو ر ہے۔

ڈاکٹر محمد شمس ا لاسلام فاروقی :  آپ سبکدوش سائنسداں  اوور ماہر حشریات ہیںآپ نے کیڑوں کی دنیا، کیڑوں کی کہانی،انوکھی پہیلی،پھول کے مہمان،بگلا بھگت، چیونٹی ایک حیرت انگیز تخلیق،ننھی مخلوق، دلچسپ سیر،دماغ اور جگر کی کہانی۔خود ان کی زبانی، اللہ کی نشانی، انسانی جسم۔ایک معجزہ،حشرات قرآنی، کیڑے قدرت کے شاہکاار،شہد مکھی کے انوکھے کام، کیڑوں کی پہیلیاں، کیڑوں کا میوزیم اور باہمت چیونٹیاں بچوں کے لیے سائنسی کتابوں کے علاوہ سیکڑوں سائنسی مضامین لکھے ہیں۔ان کی تحریروں سے بچوں کے سائنسی ادب کے رموز و اوقاف سیکھنے کو ملتے ہیں۔

پروفیسر ادریس صدیقی:  آپ ماہر معا شیات ہیں۔آپ کا آبائی وطن لکھیم پور کھیری،یوپی ہے لیکن اب آپ کناڈا میں مستقل سکونت پذیر ہیں۔آپ سائنسی کہانیوں کے شہزادہ ہیں اور یہ سعادت بہت کم بچوں کے سائنسی ادیب کے حصے میںآئی ہے۔آپ نے بے شمار سائنسی کہانیوں کی کتابیں لکھی ہیں جیسے پانی کی موت (ماحولیاتی مسائل پر کہانیاں)،راکٹ( طبعیات کے اصول پر کہانیاں)، جادو (طبعیات کے اصول پر کہانیاں)، پھلوں کی ٹوکری۔I  (انگور اور پپیتے پر کہانیاں)،  پھلوں کی ٹوکری۔II ( امرود اور آنار پر کہانیاں)،پھلوں کی ٹوکری۔ III  (ناشپاتی اور سیب پر کہانیاں)، پھلوں کی ٹوکری۔IV ( آم اور کیلے پر کہانیاں)، پھلوں کی ٹوکری۔V (سنترے اور شریفے پر کہانیاں)، بھورے بھیڑیا ( جانور اور اس کے اطوار اور مسکن پر مضامین)، کہانیاں پرندوں کی (پرندوں کی کہانیاں)،دھنک کے رنگ  (قوسِ قزح کی معلومات)، ناراض سورج ( گلوبل وارمنگ پر معلومات)، پکنک ( دریائی آلودگی پر معلومات)،  ٹاپو (گلوبل وارمنگ پر کہانیاں)،دھنواں( ہوائی آلودگی پر کہانیاں)، سبز مچھلی (آبی آلودگی پر مضامین)،بے چینی (سونامی کی کہانی)، ہوا کا جادو (ہوائی آلودگی کی کہانی)، اُدان (ہیلیم گیس پر کہانی)،ڈھائی اینٹ کا محل (ماحول اور بادل پھٹنے کے بارے میں کہانیاں)، کامیابی کا نسخہ (جوار بھاٹا پر کہانیاں)،رنگیلی گئی( پلاسٹک آلودگی پر کہانی)، جادو گر (شمسی قوت پر کہانی)، کھودے کا سونا (ٹھوس کوڑا کرکٹ پر کہانی)،نیکی کا انعام( جنگلات یعنی جنگل بنانا اور جنگل کی کٹائی پر معلومات)، کوئی شکایت نہیں (جنگل کی دنیا پر معلومات)،موٹو( موٹاپے اور غذا پر کہانی)،سبق(موٹاپے اور ٹھنڈے مشروب پر کہانیاں)، سورج کہاں گیا(سورج سے متعلق)، لکڑی کا چولہا (ہوائی آلودگی پر کہانیاں)، چمڑے کا کارخانہ (زمینی آلودگی پر کہانیاں)، جنگل کہاں گیا(جنگل کی کٹائی پر معلومات)، دلی کی نئی کہانیاں( ٹھوس کوڑے کر کٹ کی صفائی)، پانی کی آلودگی، عالمی حرارت(گلوبل وارمنگ)،  معصوم شجر کاری( جنگل کی کٹائی)، نیوکلیائی

 کثافت( نیوکلیائی آلودگی)، اور زمینی آلودگی پر مبنی کہانیاں وغیرہ۔اس کے علاوہ انھوں نے درجہ اول تا پنجم کہانی سائنس کی(سائنسی کہانیوں کے ذریعے معلومات) لکھ کر سائنسی ادب کو مالا مال کیا ہے۔

محمد خلیل: آپ مشہور قلمکار ہیں۔آپ رسالہ سائنسی کی دنیا،نئی دہلی کے سابق مدیر ہیں۔آپ کی بچوں کے سائنسی مضامین پر مشتمل بارہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن کے نام اس طرح ہیں: عجیب و غریب جانور، سائنس اور ہم،  نہرو اور سائنس، ڈاکٹر سی وی رمن۔ایک عظیم سائنسداں، حیوانات کی دنیا، سائنسدانوں کی دلچسپ باتیں، پتنگ ایک قدیم سائنسی کھیل، انوکھے پرندے، عجیب و غریب جانوروں کی دنیا،چچا جان کی سائنسی کہانیاں، دنیا کے مشہور سائنسداں اور سائنسی ایجادوں کی کہانی۔ ان کتابوں کے علاوہ بچوں کے لیے سائنسی مضامین بھی رقم کیا ہے۔

انیس ا لحسن صدیقی :آپ مشہور سائنسی مضمون نگار ہیں۔آپ نے اپنی تحریروں سے بچوں کو کائنات کی خوب سیر کرائی ہے۔آپ نے فلکیات کے موضوعات پر بہت ساری کتابیں لکھی ہیں جیسے فلکیاتی بستہ، فلکیاتی نظارے، خلا میں ہندوستانی پروگرام کی جھلکیاں،چلو چاند پر، گیلیلیو کی کہانی۔ان کی زبانی، کہکشاں کیا ہیں ؟  کے علاوہ گرہن کیا ہے ؟، چاند کیا ہے ؟، سورج کیا ہے؟ زمین کیا ہے؟ اور سورج کیا ہے ؟اور چندر شیکھر کی کہانی۔ان کی زبانی کے کتابچے بھی تحریر کیا ہے۔آپ نے SCOSTEP کی  سائنس کامکس کے انگریزی زبان سے اردو زبان میں ترجمے بھی کیے ہیں جو SCOSTEP   کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جن میں قطبی روشنی کیا ہے؟، قطبی علاقے کیا ہیں ؟، گلوبل وارمنگ کیا ہے ؟، شمسی آندھی کیا ہے ؟، ارض مقناطیس میدان کیا ہے؟، فضائی کرہ کیا ہے ؟، اوزون کرہ کی تہہ میں سوراخ کیا ہے ؟ اور کائناتی شعاعیں کیا ہیں؟ 

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز : آپ ماہر نباتات اور ماہنامہ اردو سائنس کے مدیر ہیں۔آپ کے سائنسی مضامین پر مشتمل تین کتابیں سائنس نامہ،سائنس کی باتیں اور سائنس پارے ہیں جن سے بڑوں کے ساتھ بچے بھی بھر پور معلومات حاصل کر تے ہیں۔آپ نے نیشنل بک ٹرسٹ کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا  جو  ’کائنات میں ایک سفر‘‘ کے نام سے شائع ہو ئی ہے۔

مولانا انصار احمد معروفی :  آپ عالم اور فاضل کی سند رکھتے ہیں۔آپ نے برق رفتاری سے بچوں کے لیے سائنسی نظمیں لکھی ہیں۔آپ کی سائنسی نظموں پر مشتمل کئی کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں جیسے یہ زمین، یہ پیڑ پودے،یہ کائنات،یہ مہینے اور موسم، یہ بدن کے حصے، یہ آب و ہوا اور یہ جسم و جاں وغیرہ۔اس کے علاوہ نثری سائنسی مضمون پر ایک کتاب جمادات کی حر کتیں بھی شائع ہو ئی ہے۔

ڈاکٹر احرار حسین: آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تعلیم کے پروفیسر رہے ہیں۔آپ کی بچوں کے لیے سائنسی مضامین پر مشتمل عظیم سائنسداں، سائنس کی مایہ ناز ہستیاں، سائنس کو ئز،سائنسی شعاعیں اور حیوانات کی دنیا نامی کتابیں شائع ہو ئی ہیں۔

کپٹن ڈاکٹر ایم ایم شیخ :  آپ وظیفہ یاب پروفیسر اور ماہر حشر یات ہیں۔آپ نے جانوروں، پرندوں اور حشریات پر مشتمل ایک کتاب سائنسی شعاعیں تصنیف کی ہے جو بچوں میں بے حد مقبول ہو ئی ہے۔ اس کے علاوہ کونج کرین۔ایک خوبصورت پرندہ، کروموز اور مجرمین، لونار جھیل۔قدرت کا شاہکار،ماحول کا تحفظ، چائے ایک صحت بخش مشروب، جانوروں کی بیرونی جلد  غیر معمولی قدرت کی شاہکار اور والٹ ڈزنی وغیرہ بچوں کے لیے بہترین مضامین ہیں۔آپ کی ریشم پر ایک کتاب’ریشم سازی‘ بھی ہے۔

ڈاکٹر محمد ابوالکلام: آپ وظیفہ یاب پرنسپل ہیں۔ آپ نے بچوں کے ادب پر چار کتابیں شش و پنج (بچوں کے لیے سائنسی کہانیاں)، غبار(ماحولیات کے موضوع پر)، وقت کی پکار( گلوبل وارمنگ کی معلومات)  اور ہمارا ماحول اور آلودگی شائع ہو ئی ہیںجن کی ملک بھر میں پذیرائی ہوئی ۔

ڈاکٹرجاوید احمد کامٹوی: آپ وظیفہ یاب پرنسپل تھے۔آپ کے بچوں کے لیے لکھے گئے بہت سارے سائنسی مضامین ماہنامہ اردو سائنس میں جون 2004  تا 2012 لگاتار شائع ہو ئے ہیں۔آپ کی لکھی ہوئی کتابیں ’ماحول اور انسان‘ اور ’سائنس ہمارے آس پاس‘   بچوں کو بیش بہا معلومات فراہم کر تی ہیں۔

شاہد رشید :آپ کے کئی سائنسی مضامین بچوں کے لیے شائع ہو ئے ہیں۔انھوں نے اپنے سائنسی مضامین کو  ’’مکاشفات‘‘ نامی کتاب میں یکجا کیا ہے جن سے بڑے اور بچے یکساں مستفیض ہو تے ہیں۔

ایس ایس علی:آپ وظیفہ یاب معلم تھے۔آپ کی کتاب ’سائنسی تقریبات‘ بچوں کے لیے بہت مفید ہے۔

 جنید عبدالقیوم شیخ :  آپ جونیئر کالج میں سائنس کے معلم ہیں۔آپ نے بھی بچوں کے لیے سائنسی مضامین لکھے ہیں۔ان کی تین کتابیں مسلم سائنسدانوں کی سائنسی خدمات، انسانی جسم کے اندرونی اعضا اور سائنس برائے لطف(انگریزی سے ترجمہ) شائع ہو ئی ہیں۔

ڈاکٹر رفیع الدین ناصر: آپ مولانا آزاد کالج، اورنگ آباد کے شعبہ نباتات کے صدر ہیں۔آپ مشہور سائنسی مضمون نگار ہیں۔درجنوں سائنسی کتابوں کے خالق ہیں۔ آپ نے بڑوں اور بچوں کے لیے کئی سائنسی مضامین لکھے ہیں۔آپ کی دو کتابیں قوس قزح اور سائنسی ردا بچوں کو بھرپور معلومات فراہم کر تی ہیں۔اس کے علاوہ حیاتیات، نباتات اور ماحولیات پر کئی کتابیں لکھ کر بچوں کو سیراب کیا ہے۔

عزیز ہاشمی :  آپ نے جانوروں پر کئی مضامین تحریر کیے ہیں جو بچوں کے لیے باعث دلچسپی اور معلومات کا خزانہ ہیں۔آپ نے سائنسی کو ئز پر بھی ایک کتاب تحریر کی ہے۔

محمد یعقوب خان: آپ سائنسی مضمون نگار ہیں جن کا تعلق کشمیر سے ہے۔آپ بچوں کے لیے سائنسی مضامین لگاتار لکھ رہے ہیں جو ملک اور بیرون ملک میں شائع ہو رہے ہیں۔آپ اپنے تمام مضامین کو یکجا کر کے تین کتابیں سائنس سیریز، کائنات کی کہانی اور مسلمان سائنسداں سیریز شائع کر نے والے ہیں جو یقیناً بچوں کے لیے کار آ ّمد ہوں گی۔

سیدہ فاطمہ زہرہ: آپ وظیفہ یاب پرنسپل ہیں۔ آپ کے کئی مضامین بچوں کو معلومات فراہم کر تے ہیں۔ سائنسی مضامین پر مشتمل کتاب قوس قزح ہے جوبچوں اور بڑوں دونوں کے لیے یکساں مفید ہے۔

شاہ تاج خان:آپ صحافی اور سائنسی مضمون نگار ہیں۔ آپ نے بچوں کے لیے  سائنسی معلومات کو مکالمہ نگاری اور کہانی کی شکل دے کر عمدہ لکھ رہی ہیں۔ان کے مضامین کا مجموعہ ’پیکنک‘ منظر عام پر آیا ہے جس کی پزیرائی خوب ہوئی ہے۔

وکیل نجیب: آپ بچوں کے مشہور ادیب ہیں۔آپ نے بچوں کے لیے کمپوٹان بہترین ناول تخلیق کی ہے۔

ڈاکٹر عبیدالرحمن: آپ محقق،شاعر،ادیب اور سائنسداں تھے۔آپ نے کئی مضامین مسلمان سائنسدانوں پر لکھے ہیں۔ آپ کی تصنیف کر دہ کتاب ’کچھ سائنس سے‘  بہت مقبول ہوئی ہے۔

 رفیعہ منظور ا لا مین :آپ مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔آپ کی دو کتابیں سائنس میں کیوں اور کیسے جلد (اول اور دوم) اور سائنسی زاویے شائع ہوئی ہیں جن میں بچوں کے لیے معلومات شامل ہے۔

ڈاکٹر صابرہ خاتون : آپ موظفہ پروفیسر ہیں۔ آپ کی تین کتابیں سائنس میں کیوں اور کیسے،کھیل کھیل میں سائنس اور کیا،کیوں اور کیسے شائع ہو ئی ہیںجو بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔

محمد سجاد عالم: آپ کئی سالوں تک  بچوں کی سائنسی معلومات پرمبنی سوالات و جوابات بعنوان ’سائنس نالج‘ اور دیگر سائنسی مضامین لکھتے رہے ہیں جو ملک کے اخبار میں شائع ہو ئے ہیں۔

ڈاکٹر انور ادیب :آپ نے بھی کئی سائنسی مضامین بچوں کے لیے لکھے ہیں جیسے سائنس کو ئز، میراث کو ئز، چندر یان۔اول خلائی میشن، اول دور کے مسلم سائنسداں، عظیم سائنسداں۔عبدالسلام، قرون وسطی کے جغرافیہ داں وغیرہ  ۔

بچوں کے چند سائنسی مصنفین

اب ہم ان بچوں کے مصنّفین سے تعارف کرائیں گے جس کی ایک یا دو کتابیںبچوں کے سائنسی ادب پر نظر آئی ہیں۔ان کے نام کے بعد قوسین میں ان کی کتاب/ کتابوں کا نام ہے:

طلعت عزیز(سائنس کا کرشمہ اور ایٹم سے نینو تک)، فرید ا لدین  احمد( سائنس کی دنیا اور مواصلاتی سیارے)، شبانہ اسلام( ٹیلی فون کیسے کام کر تا ہے اور بجلی کی کہانی:ترجمہ)، طیبہ بیگم( ہماری کائنات)، شفیقہ فرحت (چوںچوں بیگم)، عادل رشید( ہمارے سائنسداں)، محمد اسلام فاروقی( سائنس نامہ)،ودودالحق( آنکھ کی کہانی اور انڈے سے چوزے)، انور سعید خان (سائنس : آج اور کل)،  سراج الدین ندوی(مسلمان اور سائنس)،سید شہاب ا لدین دسنوی(کیمیا کی کہانی)، اطہر پرویز (پودوں اور جانوروں کی دنیا اور چارلس ڈارون)،ناظمہ پروین ( سائنس کوئز)،وزارت حسین( آرشمیدس۔ایک عظیم سائنسداں)، وسیم احمد فریدی (سراغ رساں ڈی این اے)، قیصر سرمست (رینگنے والے جانور)، ضیائ الدین علوی (ایجادات کی کہانی)،حکیم نعیم الدین( کمپیوٹر کیا ہے؟)، فریدالدین احمد( سائنس کی دنیا)، علی ناصر زیدی(غذا کی کہانی)، عارف محمد خان( ہندوستانی سائنسداں)، محمد اسحٰق صدیقی (سلسلہ عجائباتِ قدرت)، ریاض الدین احمد(حیرت کدہ عالم)، ایم یوسف انصاری (جانوروں کی نرالی دنیا)، محمداسحٰق (زمین کے بھید)، انیس اعظمی( جانوروں کی دنیا)، یوسف کمال( زمین کی کہانی)، شاداں پرویز (فضائی اور خلائی اڑان)،شریف احمد(جراثیم)،احمد حسین (ایٹم کیا ہے ؟)،محمد ابراہیم (آبیات)،  رشید الدین احمد( پیڑ پودوں میں وائرس سے پھیلنے والی بیماریاں)ابن آدم( روبوٹ)، محمد شمس ا لحق (آؤ سمندر کی سیر کریں)، اسلم پرویز(پانی کا جہاز اور اس کی تکنیک)،عارف نقوی( ٹیلی ویژن اور اس کی تکنیک)،  وغیرہ۔

بچوں کے لیے سائنسی سیریز لکھنے والے چند مصنفین

خسرو متین ( جانوروں سے ہم نے کیا سیکھا قسط وار شائع ہوئے ہیں)، بدیع ا لدین خان( کرشمات سائنس کی روشنی میں قسط وار لکھا ہے)،آفتاب احمد( الجھ گئے کے عنوان سے سیریز)، سمن چودھری(انسائیکلوپیڈیا کی سیریز)، ڈاکٹر اعظم شاہ خان( سائنسی کو ئز کی سیریز)، پروین خان (سائنسی کو ئز کی سیریز)،ایم اے کریمی (سائنسی کو ئز کی سیریز)،سلیم احمد( آخر کیوں کی سیریز)، شہلا ناز( کیا آپ جانتے ہیں؟)، مسز فرحت مبین (سائنسی کوئز)،   جمیل احمد( نام کیوں اور کیسے؟)، سرفراز احمد (ہماراجسم)، عقیل عباس جعفری(ہے حقیقت کچھ)، پروفیسر ایس ایم حق(ٹیلی ویژن)، ڈاکٹر مظرالدین فاروقی(بلیک ہول)،احمد علی( سائنس کوئز) اور عبدالودود انصاری(میراث کوئز،پرندہ کوئز،سانپ کوئز) وغیرہ

بچوں کے چند سائنسی مترجمین

ان مصنفین نے دیگر زبانوں سے سائنسی کتابوں اورمضامین کے اردو میں ترجمے کیے ہیں:

عبد الرشیدانصاری، ڈاکٹر عبید ا لرحمن اور ڈاکٹر محمدخلیل (بال پھونڈے کے فکشن کا ترجمہ کیے)، محمد شکیل (اروند گپتا کی تصنیف بیٹری انجن بنائیں)، نجمہ نقوی (بجلی کی کہانی)،شبانہ اسلام( ٹیلی فون کیسے کام کرتا ہے)، رجیہ یونس( کئی سائنسی فکشن)، طلعت عزیز (سائنس کا کرشمہ۔ایٹم سے نینو ٹیک تک)،سید آصف اختر نقوی (سمندر ایک دلکش دنیا)، سید ظفر ا لا سلام (دودھ  اور دودھ سے بنی اشیائ) اور نسیم احمد(وائرس کا شکنجہ) وغیرہ۔

بچوں کی سائنسی شاعری

ہندوستان کے وہ شاعر بھی مبارکباد کے قابل ہیں جنہوں نے بچوں کے لیے سائنسی نظمیں لکھ کر بچوں کے سائنسی ادب میں اضافے کیے ہیں۔ان میں کچھ شاعروں کی سائنسی نظموں کے مجموعے بھی شائع ہو ئے ہیں جیسے:

ضمیر درویش: آپ کی سائنسی نظموں کامجموعہ بنام ’سائنسی نظمیں ‘ شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے سائنس کا کرتب،گردش،اسٹیم انجن کی یاد میں، سکڑ گیا کیوں غبارہ؟ وغیرہ عنوانات پر نظمیں ہیں۔

حیدر بیابانی: آپ کی سائنسی نظموں کا مجموعہ ’سائنس کی سوغاتیں‘ ہے جس میں انھوں نے ٹی وی، موٹر سائیکل، ٹیلی فون ریل، روبوٹ وغیرہ پر 27 نظمیں ہیں۔

کوثر صدیقی: آپ کی سائنسی نظموں کا مجموعہ ’ہریالی‘  ہے جس میں آلودگی مٹائیں،پانی،تتلی،سارس وغیرہ پر 24 نظمیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سارے شعرا نے نظمیں کہی ہیںچند کے نام اور قوسین میں نظم/نظموں کے عنوان لکھے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر احمد علی برقی( کشش پر منحصر ہے نظام کونین، آلودگی کو مٹائیں، زلزلہ، گلوبل وارمنگ اور منحصر ہر چیز ہے سائنس پر وغیرہ)، سردار ربنواز صارم( خون،نوری ترکیب، کلپنا چاؤلہ، توانائی)، مرزا اشتیاق بیگ (قوانین حرکت)، خوشنود پروین (قرآن اور سائنس)، حنا وزارت (تتلی)، ممتاز فاطمہ(آنکھ)، محمد وزیر عالم( سائنس کا دور، سائنس کی ایجاد)، انور شمیم( ٹیلی ویژن، فرج اور کولر)، ڈاکٹر توصیف الحسن( انمول ذرہ)امین حزیں (سائنس کا کمال)، احمد بالا پوری،بسم اللہ عدیم برہان پوری، جاوید اکرم، وفا ناہید، ریاض انور بلڈانوی اور شبیر احمد ماہر (سبھوںکی کمپیوٹر پر نظم)، عطا ئ ا لرحمٰن اور محمد وکیل(انٹر نیٹ پر نظم)،  مرتضیٰ ساحل تسلیمی (ٹیلی فون کی کہانی)، شکیل خان (اِنورٹر) اور عاکف سنبھلی( ایرو پلین) وغیرہ کے علاوہ حافظ کرناٹکی، عطا ا لر حمن طارق، علاؤالدین عنبر نے بھی بچوں کے لیے سائنسی نظمیں لکھی ہیں۔

بچوں کے چند سائنسی مصنفین

  بچوں کے سائنسی مصنفین جن کے مضامین گاہے گاہے دیکھنے کو ملے ہیںچند کے نام اور قوسین میں ان کے مضمون کا ایک عنوان شامل کر کے فہرست پیش کی جارہی ہے۔ عصمت چغتائی ( بھیڑیے کے بچے)، ڈاکٹر بلقیس بانو(پروٹین کی اہمیت)،بلقیس موسوی( عددی نظام: حصہ اول و دوم)،صائقہ بیگم(آلودگی)، روبینہ نازلی( سمندر کی باتیں)،رقیہ جعفری( ارشمیدس)، زاہدہ خاتون(پرندوں کی باتیں)،شہباز صدیقی ( میں آنکھ ہوں)،توفیقہ کھروٹ( نظام شمسی کے سیارے)،کہکشاں سلطانہ (تھرمامیٹر)، نسیم احمد(جانوروں سے بچ کر کھیلیں)، شیخ شکیل احمد( گاجر گھاس)،ڈاکٹر انور ادیب( ارشمیدس دنیا کا پہلا کامل سائنسداں)، انیس مرزا (بابائے سائنس۔ گلیلیو گیلیلی)، شرجیل احمد خان( ہمارا شمسی نظام)،  محمد معاویہ مغل( تھیلی دار جانور)،  خسرو متین(جانوروں سے ہم نے کیا سیکھا)، حمیرا سید( سائنسی مقابلہ)  انصاری حفیظ ا لر حمن( ارشمیدس)،رئیسہ حشام ا لدین( قرآن حکیم اور حشرات الارض)،پروفیسر محمد عاقل کاظمی(مشینی انسان روبوٹ)، ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی( سائنس کارنر)، شمیم احمد صدیقی( پانی رے پانی )، شمیم صدیقی (میں الُو ہوں)، رقیہ جعفری( البیرونی)، ذاکر امان (امرود)، راشد حسین( امرود)، گوہر اسلام(املی)، اسعد فیصل فاروقی( اوزون پرت)،سید عابد علی( کاربن کے مختلف روپ)، جاوید احمد(شمسی توانائی)،آصف علی خان (کمپیوٹر کی کہانی)وغیرہ۔

ہندوستان میں بچوں کے سائنسی ادب کا سرسری جائزہ پیش کر نے کے بعد ایک سوال بڑی تیزی سے منصہ شہود پر ابھر کر آتا ہے کہ متذکرہ ادب کی رفتار کس طرح بڑھائی جائے اور نہ صرف بڑھائی جائے بلکہ کس طرح کارآمد بنایا جائے۔اس کی اول ذمے داری سائنس کے استادوں پر جاتی ہے کہ وہ اپنے رشحات قلم سے اس ادب پر عملی قدم اٹھائیں کیوں کہ اردوداں بچے سائنسی عالم نزع میں جاں بلب ہیں اور حسرت بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ہوسکتا ہے اور یقیناً ایسا ہو گا کہ آپ کے قلم سے ٹپکے ہو ئے سائنسی مضامین کے قطرے ان کی زندگی کولوٹادیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو         ؎

کل نہ پوچھا تو آج پوچھے گا

  وقت اپنا حساب پوچھے  گا

   نونہالوں کو  کیا  دیا تو نے

   پھر بولتا   سماج  پوچھے  گا

 آخر میں ادبی دنیا سے التماس کروں گا کہ صبح کا بھولا شام آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ہیں۔خدا را اب بھی بچوں کے سائنسی ادب کو ادب سمجھیں اور جائز مقام دیں۔         

 


Abdul Wadood Ansari

Urdu Medium Government Primary Teachers' Training Institute

Post: Nalikul- 712407 (West Bengal)

 

 




 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں