23/8/22

پروفیسر ضیا احمد بدایونی- ایک ہمہ جہت شخصیت - مضمون نگار: محمد فرحان خان

 



ضیا احمد صدیقی معروف ضیا احمد بدایونی کی پیدائش 21ستمبر 1894شہر بدایوں کے محلہ مولوی ٹولہ کے ایک علمی و مذہبی خاندان میں ہوئی۔والد کا نام مولوی رفیع احمد تھا جو خود اردو فارسی و عربی کے قادر الکلام عالم و شاعر تھے اور عالی تخلص کرتے تھے اور وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ ضیا احمد بدایونی اپنی پیدائش کے تعلق سے اپنی ذاتی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ:

’’ میں بھائی عنایت حسین مرحوم کے دسویں  (فاتحہ)  کے روز پیدا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ دسواں مرنے کے نویں روز ہوتا ہے۔ مرحوم کی وفات 12ربیع الاول شریف 1312ھ کو مطابق 13ستمبر 1894 کو جمعہ کے دن واقع ہوئی تھی۔ اس حساب سے میں 20ربیع الاول 1312ھ مطابق 21ستمبر 1894 کو جمعہ کے دن عالم وجود میں آیا۔ اب خدا ئے پاک خاتمہ بخیر کرے ‘‘۔

( بحوالہ ضیا احمد بدایونی، حیات اور کارنامے از ڈاکٹر معین فاطمہ ص 12)

ضیا احمد بدایونی کی ابتدائی تعلیم حافظ اشتیاق احمد کی سر پرستی میں ہوئی۔ بعد از مدرسہ شمس العلوم بدایوں میں عربی قواعد، فقہ اور حدیث کی مزید تعلیم حاصل کی۔ آپ کی ذہانت و لیاقت کا یہ عالم تھا کہ کم عمری ہی میں بخاری شریف زبانی سنا کر حدیث کی سند حاصل کر لی تھی۔ انھوں نے غالباً 1914  میں بدایوں مشن اسکول سے ہائی اسکول پاس کیا۔ ضیا احمد بدایونی کو کم سنی میں ہی رشتٔہ ازدواج سے منسلک کر دیا گیا با جود اس کے انھیں مطالعۂ کتب اور حصول علم سے انہماک رہا۔ قبل اس کے کہ وہ اپنی خانگی ذمے داریوں میں الجھ کررہ جاتے انھوں نے جدید انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دینا مناسب سمجھا اور گورنمنٹ ہائی اسکول بدایوں اور بریلی کالج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1918 میں بی اے مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک بدایوں مشن اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1924  میں الٰہ آباد یو نیورسٹی سے فارسی میں ایم اے مکمل کیا اور دو سال تک یونیورسٹی سے وظیفہ حاصل کر کے عہد اکبری کے فارسی ادب پر تحقیقی خدمات انجام دینے کے بعد اینگلو عربک کالج دہلی میں لیکچرر ہو گئے۔ پھر 1929  میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انٹر کالج کی نوکری قبول کر کے علی گڑھ منتقل ہو گئے۔ 1930  میں یو نیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں پروفیسر اور صدر شعبۂ فارسی کے منصب پر فائز رہ کر 1959 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

سبکدوشی کے بعد یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے آپ کو حضرت امیر خسرو کے کلام پر تحقیق کرنے کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔ ایک سال بعد دہلی یو نیورسٹی میں اردو ہندی لغت کے مدیر خصوصی ( چیف کمپائلر ) کی حیثیت سے تدوین لغت کی ذمے داری نبھاتے رہے جو کسی سبب پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ تقریبا ً پانچ سال دہلی یو نیورسٹی سے منسلک رہنے کے بعد مستقل علی گڑھ کے ہو کر رہ گئے اور علمی و ادبی سر گرمیوں میں منہمک رہے۔ جولائی 1973 میں ضیاصاحب کو اچانک برین ہمرج ہوا اور تین دن کی شدید علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا جس کے سبب ادبی حلقوں میں ہی نہیں سیکڑوں گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ آپ کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

ضیا احمد بدایونی کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے شاگردوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جو ہند و پاک میں مختلف عہدوں پر فائز رہے، بالخصوص سید حامد ( سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) اور غلام مصطفی خاں ( پروفیسر، صدر شعبۂ اردو سندھ یونیورسٹی ) وغیرہ۔                         

پروفیسر غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں کہ:

’’ برصغیر پاک و ہند اور بیرونی ممالک میں بلامبالغہ ان کے ہزاروں شاگرد ایسے موجود ہیں جو علم و فضل، جاہ و منصب اور مال و ثروت میں بھی خصوصی امتیاز رکھتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنا اپنے لیے موجب ِ افتخار و ابتہاج سمجھتے ہیں۔ موجودہ دور کے ادبا  و فضلا میں بہت کم ایسے ہوں گے جو ان کے فضل و کمال کے معترف نہ ہوں اور ان سے عقیدت و مودت نہ رکھتے ہوں۔‘‘

( مضمون: مولانا ضیا احمد بدایونی (1)  از پروفیسر غلام مصطفی خاں مشمولہ کلیات ضیا، مرتبہ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی،  ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 1998، ص 30)

ضیا احمد بدایونی بلا شبہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔مفکر و دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت وہ ایک اعلیٰ شاعر اور نثر نگار تھے، ناقد بھی تھے اور محقق بھی۔ اردو، فارسی اور عربی زبان و ادب پر یکساں قدرت رکھتے تھے جس کا اندازہ ان کی گراں قدر تصانیف سے لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے والد مولوی رفیع احمد عالی، بڑے بھائی مولوی رضی احمد رضی اور چھوٹے بھائی مولوی آفتاب احمد جوہر کا شمار باکمال اور صاحب دیوان شعرا میں ہوتا ہے۔

ضیا بدایونی زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و ادب میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جیسے جیسے علم عروض اور بحور و اوزان گرفت میں آتے گئے ‘ شاعرانہ رغبت اور خیال کی پاکیزگی مزید دوبالا ہوتی گئی۔ شاعری میں وہ اپنے بھائی رضی  بدایونی سے تلمذ تھا جو ان کے لیے استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ متعدد تحریروں میں انھوں نے خود رضی  بدایونی سے استفادہ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے جو تھوڑا بہت سیکھا ہے وہ مرحوم ہی کے فیضان ِ تربیت کا طفیل ہے ۔‘‘  ضیا بدایونی کی شاعری میں فکر کی بلندی، اسلوب کی شگفتگی اور موضوعات میں پختگی مسلم ہے نیز انھوں نے فارسی شاعری کے علاوہ عربی الفاظ و تراکیب کا سلیقے سے استعمال بھی کیا بالخصوص ان کی غزلیہ شاعری پاکیزہ جذبات، لطیف اشارات اور عارفانہ خیالات سے عبارت ہے۔ صفائی زبان، صحت بیان ان کی غزلوں کو انفرادیت کے درجے تک لے آتی ہے۔تخلیق پایۂ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد تخلیق کار کی ملکیت سے محروم ہو جاتی ہے کیونکہ قاری اپنی نوک ِ زباں سے متن یا الفاظ کو کھرچ کے جو مفہوم برآمد کرتا ہے، پھر چاہے وہ منشائے مصنف ہو یا نہ ہو، قاری کی اپنی مخصوص سوجھ بوجھ کا سامان ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ضیا بدایونی نے اپنی غزلیہ شاعری میں ان تمام محرکات کا بخوبی خیال رکھا جو قاری کی مخصوص فکری سطح پر قاری کی سماعتوں پر عیاں ہو نے میں کامیاب ہو تے ہیں۔ غزل کے علاوہ انھوں نے مختلف اصناف پر غیر معمولی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے کلیات میں غزل، قصیدہ، مرثیہ، قطعہ، منظومات، نعت اور متفرقات کے علاوہ کلام فارسی کو بھی شامل کیا گیا ہے جسے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے مرتب کر کے 1998 میں شائع کیا تھا۔

ضیا احمد بدایونی کا سب سے نمایاں ادبی کارنامہ ان کے مختصر قطعات پر مبنی مجموعہ’تذکار سلف ‘ہے جو جنوری 1928 میں علی گڑھ سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا تہدیہ مولانا شبلی نعمانی کے نام ہے بعد از مولانا عبد الماجد دریا بادی کی تقریظ شامل ہے اور مقدمہ مولانا عبد السلام ندوی نے تحریر کیا ہے۔ اس مجموعہ میں شامل تمام قطعات مذہبی نوعیت پر مبنی ہیں جو کسی تاریخی واقعہ اور شخصیات کے اخلاق و کردار کا آئینہ ہیں۔مولانا عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں کہ:

’’مولانا شبلی مرحوم پہلے شخص تھے جنھوں نے آج سے پندرہ سال قبل اس قسم کا سلسلہ نظم اردو میں صحیح اصول پر شروع کیا اور سرور کائنات صلی اللہ و علیہ وسلم، صحابہ کرام اور مشاہیر اسلام کے بیسیوں واقعات دلکش انداز میں نظم کر ڈالے۔ مرحوم کے بعد ان کے تتبع میں کہنے والے متعدد پیدا ہوئے لیکن اس طرز میں اس رسالے کے مولف سے زیادہ کامیاب میں نے اب تک کسی کو نہیں پایا۔ انھوں نے نہ صرف نو عیت عنوانات میں بلکہ انداز بیان، نشست الفاظ، بحورِ نظم، مصرعوں کی ترکیب غرض ہر شے میں مولانا شبلی کا چربہ اتار لیا ہے اور اس کامیابی پر وہ مستحق تہنیت ہیں۔‘‘

( بحوالہ مضمون مولانا ضیا احمد بدایونی (2)  از پروفیسر غلام مصطفی، مشمولہ کلیات ضیا مرتبہ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی ص 63-64)

 اس کے علاوہ انھوں نے مختلف سبق آموز مذہبی واقعات ۱و رمشاہیر کے کارناموں کوبھی نظم کیا ہے۔ منظومات پر مشتمل ان کا یہ شعری مجموعہ’تجلیات‘ بھی ایک معروف ادبی اضافے کی حیثیت رکھتاہے۔ جو 1952 میں  دہلی سے شائع ہوا تھا۔اس مجموعے میں انھوں نے 1928 سے 1953 تک جو نظمیں تخلیق کی تھیں انھیں اور وہ نظمیں جو مجموعہ تذکار سلف میں شائع ہو چکی تھی ‘ ایک ساتھ مجموعہ تجلیات میں شائع کرائی تھیں۔ ان تمام نظموں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں عربی اشعار اور قرآن کی آیتوں کو بخوبی استعمال کیا ہے۔ مذہبی نوعیت کے علاوہ اس مجموعے میں مختلف موضوعات پر نظمیں بھی شامل ہیں۔

اس مجموعے کی خاص اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ موضوعات جو فن کار کے ذہن و فکر سے حد درجہ بلکہ کوسوں دور تھے، ضیا  بدایونی نے ان موضوعات و عنوانات پر غیر جانب داری سے اپنی عقیدتوں کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ بیان کی پاکیزگی کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔ انھوں نے مذہب اسلام کے اصل موقف اورپیغمبر اسلام کی سیر ت و شخصیت، صحابہ کرام اور ان کے کردار و جذبہ کو بطور فن ایسا ترتیب دیا ہے کہ حقائق اور صداقت کی آب و تاب منظر عام پر آجاتی ہے۔ مثلاً خلق عظیم، خلفائے راشدین کا خلوص و اثیار، عدل فاروقی، مساوات اسلامی، عہد سلف کا ایک زریں صفحہ، بادشاہ دو جہاں کے اہل بیت وغیرہ موضوعات کو بخوبی نظم کیا ہے۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جس زمانے میں میر نے اردو شاعری کو جدت پسندی اور نئے موضوعات سے روشناس کرایا تھا، میر  کے بعد اردو غزل میں تخیل، تغزل اور سوزو گداز جیسے مضامین مومن خاں مومن کے مرہون منت ہیں۔ عجب اتفاق یہ ہے کہ مومن کی شاعری کے پیچیدہ اسلوب بیان اور موضوعات و تراکیب نے عام فہم زبان کی آمیزش سے کنارہ کشی اختیار کر کے عوام اور صاحب فن کو استفادے سے محروم کر دیا۔ سخن فہم اور با شعور اشخاص نے وہ توجہ ان کے شاعری پر نہیں دی جس کی وہ مستحق تھی۔ لہٰذا اس ضمن میں سب سے پہلے ضیا احمد بدایونی نے کلام مومن کو اپنی نگار شات کا موضوع منتخب کیا اور ان کے قصائد کو مرتب کر کے تصحیح و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ ان کی یہ کوشش اس لحاظ سے بھی معیاری تسلیم کی جاتی ہے کے کلام مومن کے متداولہ اور غیر مطبوعہ نسخوں میں جو اغلاط و اشکال تھے، اس کی تصحیح کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔

شرح قصائد مومن کے تعلق سے ڈاکٹر سید محمد حفیظ لکھتے ہیں کہ:

’’ کلام مومن سے آپ کو ابتدا سے خاص شغف رہا ہے، چنانچہ 1925میں آپ نے قصائد مومن کی شرح شائع کی تھی۔ موجودہ دور میں مومن پر سب سے پہلا مضمون آپ ہی کے قلم سے نکلا اور رسالہ اردو میں مومن کی تصویر کے ساتھ شائع ہوااس کے بعد ملک کے مختلف رسالوں میں مومن پر دیگر اہل قلم کے مضامین شائع ہوئے۔ اس لیے کلام مومن کی احیا یا نشاۃ ِ ثانیہ کے لیے اردو زبان خاص طور پر آپ ہی کی مرہون و ممنون ہے‘‘۔

( بحوالہ مضمون مولانا ضیا احمد بدایونی (1)  از پروفیسر غلام مصطفی،مشمولہ کلیات ضیا مرتبہ ظہیر احمد صدیقی، ص31-32)

ضیا  بدایونی نے مومن کے قصائد کی شرح کے بعد 1934 میں ان کا دیوان بھی مرتب کر کے شائع کیا تھا جس کی تصحیح مختلف قلمی اور مطبوعہ نسخوں کی مدد سے کر کے شرح بھی تحریر کی تھی۔ مشکل الفاظ و اشعار کی تشریح اور مومن کے ذاتی حالات کے لیے تذکروں سے زیادہ سید ناصر حبیب نبیرہ مومن اور ان کی صاحبزادی کے بیانات کو ترجیح دی ہے۔ اس دیوان کی قدر و قیمت اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں مومن کے حالات اور ان کے مختلف اصناف سخن پر مدلل جامع بحث اور تغزل کی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں۔ مومن کے کلام کی تشریح اور خصوصیات پر جس انداز سے ضیا  بدایونی نے تنقیدی نگاہ ڈالی ہے واضح طور پر دیگر ناقدین اس ضمن میں کوئی مزید اضافہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔یہاں واردات عشق و محبت، نازک خیالی اور مضمون آفرینی، ندرت اسلوب و شوخی ِ ادا، فکر ِ شاعرانہ، معاملہ بندی، طنز اور تراکیب جدیدہ پرتفصیلی گفتگو اپنے نقطۂ عروج پر ہے۔ اس مجموعے کی قدر مشترک بات یہ ہے کہ متعدد خصوصیات کے علاوہ ضیا بدایونی نے مومن کی خامیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ علمی و ادبی تناظر میں ضیابدایونی کی انفرادیت یہ ہے کہ جس موضوع کو انھوں نے سپرد قلم کیا ہے غیر جانب داری کے ساتھ اسے فن کی معراج عطا کی ہے، خواہ وہ ادبی موضوعات ہوں یا علمی و مذہبی۔

ترتیب و تدوین میں ضیا احمد بدایونی کا نام سر فہرست ہے۔ انھوں نے اپنے والد مولانا رفیع احمد عالی کی تصانیف تصحیح اللغات اور یادگار عالی  اور اپنے بھائی مولانا رضی احمد رضی کے انتخاب کلام لمعات کو بھی ترتیب و تدوین کر کے شائع کیا تھا۔

ضیا احمد بدایونی کی ایک اور غیر معمولی تصنیف مسالک و منازل ہے جو فارسی شعر وا دب پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں فارسی ادب کے ارتقا، فارسی شاعری اور ہجویات، فارسی شاعری کے رجحانات، عہد خاقانی کی جھلک وغیرہ موضوعات کا مدلل تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ بلا تفریق یہ چند مضامین پر مبنی کتاب فارسی شاعری کے عہد در عہد مختصر تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے۔ ضیا احمد بدایونی نے لکھا ہے کہ:

’’ فارسی ادب ( نظم و نثر ) ایک بے کراں سمندر کا حکم رکھتا ہے۔ راقم نے صرف اتنا کیا ہے کہ اس سمند ر کے چند قطرے فراہم کر دیے ہیں جن کا مقصد ایک حد تک تشنگی رفع کرنا ہے۔ اپنی یا اہل ذوق کی یا دونوں کی سمجھ لیجیے۔‘‘

( مسالک و منازل از ضیا احمد بدایونی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی 2011، ص 10)

اس کتاب کو خود ضیا  بدایونی نے ترتیب دیا تھا۔ کتاب کانام بھی انھوں نے خود طے کیا تھا اور انتساب اس طرح تحریر کیا تھا۔ ’’مدینتہ الاولیا بدایوں کے نام جس کی فضاؤں میں رہ کر راقم فارسی ادب کی قدروں سے روشناس ہوا ‘‘۔ یہ کتاب نا مساعد حالات کی وجہ سے شائع نہ ہو سکی لہٰذا بعداز مرگ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی ( صدر شعبہ اردو، دہلی یو نیورسٹی ) کی کو ششوں سے منظر عام پر آئی۔

مجموعہ سمن زار بھی اسی ضمن میں ادبی شناخت کا ضامن ہے جو شعرائے فارسی کے کلام کا انتخاب ہے جسے ضیا احمد بدایونی نے مع ترجمہ اردو میں منتقل کر کے ساہتیہ اکادمی دہلی سے شائع کرایا تھا۔ ڈاکٹر معین فاطمہ نے اپنی کتاب ’ضیا احمد بدایونی، حیات اور کارنامے‘ میں اس کتاب کو سخن زار کے نام سے متعارف کرایا ہے  حالانکہ اس کتاب کا اصل نام سمن زار ہے جس میں فارسی کے مستند اور برگزیدہ شعرا اور ان کی بعض اصناف سخن کا انتخاب شامل ہے۔

اس کے علاوہ پروفیسر ضیا احمد بدایونی کی نہایت قابل قبول تصنیف ’قول سدید‘ ہے جو مذہبی حیثیت کا درجہ رکھتی ہے۔ دراصل یہ کتاب مستند اسلامی تاریخ کی تفصیل و توضیح ہے۔ بالخصوص اس کتاب میں واقعہ کربلا اور اموی دور حکومت کے تاریخی نقوش پوشیدہ ہیں۔ یہ کتاب محمود احمد عباسی کی کتاب خلافت معاویہ و یزید کی رد میں تحریر کی گئی تھی اور 1960 میں علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کے منظر عام پر آتے ہی مختلف مذہبی طبقوں میں اس حد تک رنجشیں پیدا ہوئیں کہ کتاب کی طباعت پر قید لگا دی گئی۔ بر عکس اس کے مختلف علما اور دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ کتاب مذہبی عقائد کی تفریق نہیں بلکہ حقائق کی پاکیزہ بازیافت اور مستند تاریخی شواہد کا مدلل ثبوت ہے۔

ضیا  احمد بدایونی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے متعدد مضامین اور تنقیدی مقالات تحریر کیے ہیں۔ مجموعہ مباحث و مسائل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کم و بیش 33 مضامین و مقالات پر مشتمل یہ مجموعہ 1966 میں ترتیب دیا گیا اور 1968 میں دہلی سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں شامل تمام مضامین بلا شبہ علم و ادب میں اپنی اہمیت اور معنویت کے مستحق ہیں۔

 ضیا احمد بدایونی کی قابل قدر اورعلمی و ادبی تصنیف جلوہ حقیقت ہے جس میں مذہبی مضامین قلم بند کیے گئے ہیں۔ انھوں نے خودیہ اعتراف کیا ہے کہ علی گڑھ کے زمانہ ٔ قیام میں احباب نے اسلامی خیال کے اساتذہ کی ایک مجلس (مجلس مصنفین ) قائم کی تھی جس میں مذہب، ادب، تاریخ، سیاسیات، معاشیات، سائنس غرض کہ مختلف شعبوں کے استاد شرکت کرتے تھے اور علمی بحث ہوتی تھی اور مضامین مجلس کے آرگن ( مصنف ) میں شائع ہوتے تھے۔ اس مجموعے میں شامل بعض مضامین اسی مجلس مذکور ہی کی تحریک پر قلم بند کیے گئے ہیں۔ لہٰذا اس کتاب کے پہلے مضمون میں سورہ اخلاص کے ترجمہ و تشریح اور تفسیر پر مفصل گفتگو کی گئی ہے اور یکے بعد دیگرے مختلف مضامین میںبعض مذہنی مسائل و معاملات، طرز عقائد اسلامی، عظمت حدیث، سیرت النبی اور واقعۂ کربلا پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔

ضیااحمد بدایونی کے خطوط کا مجموعہ مکتوبات 1967 میں شائع ہو چکا ہے جو اپنے آپ میں ایک ادبی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خطوط محض ترسیل و تبصرے تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بیشتر خطوط میں علمی وادبی مسائل و اصناف پر تبادلۂ خیال کیا گیا ہے۔ مثلاً تصوف کی تعریف، ارتقائے ادب فارسی عہد ِ اکبری میں، دیوان قصیدہ کے ارکان اربعہ کی تعریف پر بھی طویل بحث نظر آتی ہے۔ یہ خط اکثر سوال و جواب کی صورت میں ہیں جو مشورات و مباحث اشعار کی تشریح و تصحیح پر مبنی ہیں۔

الغرض ضیا احمد بدایونی کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ ازحد وسیع ہے۔ ان کی تخلیقات میں اسلوب کی شگفتگی، موضوعات میں برجستگی اور طرز فکر کی بے باکی انھیں اوروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے مشکل موضوعات کو اپنے گہرے مطالعے اور تحقیقی توانائی سے آسان اور عام فہم بنا دیا ہے۔ یہ بات افسوس سے خالی نہیں کہ ضیا احمد بدایونی جیسی ادب نواز شخصیت گمنام رہی، یہ ادب کا ناقابل تلافی نقصان ہے کیونکہ ادب اور ادیب و شاعر کی نہ کوئی ذات ہوتی ہے نہ مذہب۔ وہ محض احساسات و خیالات کا غلام ہوتا ہے اور انسان کی سوچ و فکر پر بادشاہت کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ پروفیسر سید عابد حسین کی حق گوئی کی تائید کرنا بیجا نہ ہوگا کہ:

’’ مسلمانوں کی بد قسمتی کو کیا کیجیے کہ علم و عرفان کی رہی سہی شمعیں ایک ایک کر کے بجھتی چلی جاتی ہیں اور نئے چراغ روشن نہیں ہوتے۔ بہر حال مرحوم کے علمی کارنامے دنیا میں باقی رہیں گے اور جب کبھی ہماری نئی نسل کو علم و تحقیق کی راہ میں قدم بڑھانے کی توفیق ہوگی تو اس کی رہنمائی کریں گے۔‘‘

( خط بنام ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی 14 جولائی 1973، بحوالہ ضیا احمد بدایونی حیات اور کارنامے ازڈاکٹر معین فاطمہ ص 345)


 

Dr. Mohd Farhan Khan

Jamia Market, Ward No 22, Kakrala

Badaun - 243637 (UP)

Mob.: 9152759858

Email.: farhankhan0889@gmail.com

 

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں