22/9/22

ندا فاضلی کی آپ بیتی'دیواروں کے بیچ' میں اسلوبیا تی تنوع اور تخلیقی فعالیت: سید وجاہت مظہر


کیسلس انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر میں خودنوشت نگاری سے متعلق بڑی اہم بات کہی گئی ہے"آپ بیتی لکھنے والا اگر اپنی کہانی کو فن پارہ سمجھنے کا خواہش مند ہے تو جمالیاتی اسباب کی بنا پر کئی حقائق کو حذف کر دینے پر خودکو مجبور پاتا ہے۔ خودنوشت کے مصنف کے لیے یہ بات لازم ہے کہ اپنی روز مرہ کی روکھی پھیکی باتوں کو ضرورتاً دہرائے اور اپنی توجہ اہمیت رکھنے والے قصوں،کاموں اور خصوصیات پر مرکوز رکھے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کئی کئی جلدوں والے وسیع سلسلے پڑھنے کے لائق نہ رہ جائیں گے۔"

(ترجمہ،کیسلس انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر،جلد 1،ص63)

انگریزی کےمعروف نقاد پروفیسر البرٹ ای اسٹون نے بجا طور پر لکھا ہے کہ فنکارانہ تخیل حقیقت سے بھی زیادہ حقیقی ہوتا ہے۔آپ بیتی میں پیش کی گئی سچائیوں کو فنی اقدار کی آمیزش کے ساتھ پیش کرنے ہی سے اس میں حسن اور تاثیر پیدا ہوتی ہے۔اگر چہ کہ سچائی اور خودشناسی انتہائی اہم لوازمات ہیں مگر ان کی پیش کش میں جذبات کی رنگ آمیزی اور خیالات کی پیکر تراشی شامل نہ ہو تو خود نوشت میں قاری کو تخلیقی تسکین کیسے ملے گی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خود نوشت سوانح نگار کے لیے اسلوب کی دلکشی بھی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔

خود نوشت محض داستانِ حیات نہیں بلکہ ایک ادبی کارنامہ بھی ہے۔یہ اپنی رودادِ حیات کو بے باکی اور جرأت  رندانہ کے ساتھ پیش کرنے کا عمل ہے۔ داخلی جذبات کا اظہار دراصل فن کی اعلیٰ اقدار میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ زندگی کی کوتاہیوں کا ایسا اعتراف ہے جو مصنف کی روح کی تطہیر کرتا ہے۔

اُردو کے شعرأ و ادبا ٔ نے اپنی داستان ِ زیست بیان کرنے کے لیے کہیں قرۃ العین حیدر کی ناول نما سوانح حیات ' کار ِ جہا ں دراز ہے '  کے طرز پر شعور کی رَو کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ شعور کی رو کے مطابق تخلیقات میں ترتیب یا ربط کا ہونا ضروری نہیں بلکہ انسانی شعور ایک سیال شے ہے جو منطقی ربط و ضبط کے بغیر زندگی کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے۔اردو میں قرۃالعین حیدر نے اس تکنیک کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ ناول'آگ کا دریا' میں استعمال کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کی خود نوشت ' کار جہاں دراز ہے' میں بھی انھوں نے اس ہیئت کو اپنایا ہے۔ آپ بیتی کے میدان میں ناول نما  ہئیت اور فلسفیانہ و اساطیری لب و لہجے میں اپنا فسانہ ٔ  زندگی پیش کر کے خودنوشت نگاری میں منفرد پیکر تراشی، ہئیتی تجربہ کاری اور جمالیاتی اسلوب کا مظاہرہ جن دیگراہل قلم نے کیا ان میں'آشرم' کے مصنف پروفیسر شکیل الرحمٰن کا نام بھی نمایاں ہے۔انھوں نے اس آپ بیتی میں استعاراتی اور داستانوی طرزِ نگارش اختیار کیا ہے۔  علمِ نفسیات میںانسانی افکار و اعمال کو شعور سے زیادہ لا شعور کی پیداوار تسلیم کیا جاتا ہے جس میں ترتیب و تہذیب اور ربط و ضبط نہیں پایا جاتا۔ علم نفسیات اور جمالیات کے ماہرپروفیسر شکیل الرحمن نے شعوری طور پراپنی خود نوشت 'آشرم' میں اس تکنیک کا ہئیتی نظریے سے تجربہ کیاہے۔ موصوف کی آپ بیتی  'آشرم' ، قرۃ العین حیدر کی آپ بیتی 'کار ِ جہاں دراز ہے' اور  ندا فاضلی کی آپ بیتی'دیواروں کے بیچ'  کا شمار ایسی ہی ادبی خودنوشت سوانحی کتب میں کیا جا سکتا ہے جو عام نہج سے ہٹ کرلکھی گئیں اور جن میں ہئیتی تجربات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

 جدید طرز ِ نگارش کے نمائندہ شاعر ندا فاضلی نے جب نثر نگاری کے میدان میں قدم رکھا  تو پہلے معروف شعرا اور ادبا سے اپنی ملاقات اور گفتگو کو کتابی شکل میں پیش کیا۔ یہ انٹرویوز پہلے ہفت روزہ 'بلٹز' میں شائع ہوتے رہے بعد میں انھیں 'ملاقاتیں' عنوان سے کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا۔ اپنی دلکش نثر کی بدولت مصنف کی یہ نثری کاوش، اہل ِ اردو میں بڑی مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ندا فاضلی نے ‘دیواروں کے بیچ‘  عنوان سے ایک ناول نما خودنوشت سوانح حیات لکھی۔

اس میں ندا  فاضلی نے اپنے سوانحی کوائف کے علاوہ اپنے عہد کے ادبی و ثقافتی مرقعے بھی پیش کیے ہیں۔ ندا  فاضلی12 اکتوبر 1938  میں گوالیار میں پیدا ہوئے۔ ان کا انتقال 8  فروری  2016  کو ممبئی میں ہوا۔  اِس کتاب میں انھوںنے اپنی پیدائش، خاندانی منظر نامہ، ابتدائی زندگی اور تعلیم و تربیت سے متعلق حقائق سے بڑی خوش بیانی کے ساتھ آگاہ کیا ہے۔ مصنف نے اپنے وطن گوالیار کا ذکر بڑی گہری وابستگی کے ساتھ کیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں واقع یہ شہر اپنے تاریخی قلعے کے سبب سیاحوں کی دلچسپی کا محور رہا ہے۔ انھوں نے اس کی نہایت دلچسپ لفظوں میں تصویر کشی کی ہے۔ ندا فاضلی نے اپنی زندگی کا آغاز گوالیار، بھوپال اور بمبئی میں بڑی جدّ و جہد کے ساتھ کیا۔ انھوں نے فلموں کے لیے کئی گیت لکھے۔ ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامہ سیریل تحریر کیے۔ وہ بڑے زیرک اور فعال قلمکار تھے۔ انھوں نے نظم و نثر دونوں میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ ہیئتی اور تکنیکی تجربات بھی کیے۔  انھیںدیگر کئی ادبی، علمی اور فلمی اعزازات کے علاوہ، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (1998)اور پدم شری ( 2013)کے اعزاز سے بھی نوازا  گیا۔

ندا  فاضلی نے ہمیشہ اپنے کلام میں انسانیت کے وقار اور سربلندی کا پاس رکھا۔نثر میں انھوں نے سدا حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کیا۔ وہ ایک نہایت مستحکم شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اپنے آپ کو عام آدمی مانتے تھے، نہ کہ ایک مثالی شخصیت کا حامل قلمکار۔ اپنے احباب و اقارب کاذکر کرتے ہوئے وہ کسی قسم کی مصلحت پسندی اختیار کرنے یا تلخ باتوں کو  یاد کرنے کے بجائے حقیقت پسند ی کے ساتھ کام لیتے ہیں۔ خواہ نظم ہو خواہ نثر، وہ بڑی سادگی کے ساتھ گہری باتیں کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسلوبیاتی تنوع اور تخلیقی فعالیت ان کی بنیادی پہچان بنی۔ اس خود نوشت سوانح حیات میں مقامات و اشخاص و واقعات کی مرقع سازی میں فلسفیانہ نکات اور جمالیاتی پہلوؤں کی شمولیت اور اظہار میں بے باکی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔

معروف شاعر شاہد ماہلی مرحوم نے اپنے اشاعتی ادارے  ‘ معیار پبلی کیشنز‘  سے اس کتاب کی اشاعت کی۔ وہ ندا فاضلی کی اس ناول نما آپ بیتی کا تعارف اِن الفاظ میں کراتے ہیں:

" ندا  فاضلی جدید اردو ادب کے نہایت بے باک اور زرخیز ذہن کا ایک معتبر نام ہے۔انھوںنے مختلف شعری اصناف نظم، غزل، نثری نظم، گیت اور دوہوں میں ہی اپنے منفرد اسلوب کی شناخت نہیں دی،  نثر میں بھی اُن کے اظہار کا انداز سب سے جدا نظر آتا ہے۔ ادبی دنیا میں 'ملاقاتیں'  کی طرز ِ نگارش کی پذیرائی کے بعد انھوں نے اپنی دوسری کتاب 'دیواروں کے بیچ' میں نئے سِرے سے، نثر کے نئے تخلیقی امکانات کی تلاش کی ہے۔ اپنی شاعری کی طرح وہ نثر میں بھی ایک اہم آواز ہیں۔ اُن کی جدّت پسندی نے بھولی بسری یادوں کو ناول کا روپ دیا ہے۔ یہ سوانحی ناول ایک طویل سماجی و تہذیبی دور کے منظرنامے کا حصہ اول ہیں جس میں خود ندا فاضلی بھی ایک کردار ہیں۔"    (شاہد ماہلی)

'دیواروں کے بیچ' میں ندا فاضلی نے اپنے مشاہدات و تجربات  حیات کو بڑی فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ناول نما اِس آپ بیتی میں ندا فاضلی نے اپنی زندگی کی کہانی پیش کرتے وقت'واحد متکلم' کا صیغہ استعمال نہیں کیا ہے۔ اِس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے مضمون بعنوان 'خودنو شت اندر ناول... ایک  بے تکلف تجزیہ' میں  واضح طور پر لکھا ہے :

"ندافاضلی نے اپنی سوانح کے لیے اس ضمیر متکلم کا سہارا نہیں لیا ہے جو بالعموم خود سوانحی ناول نگاروں کا سب سے مرغوب صیغہ کہلاتا ہے۔اس ترجیح کی پشت پر ان کا یہ منشا بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں ‘ میں‘ کی پرداخت انا، اظہار، احتساب اور اعتراف کی راہ میں حائل نہ ہو جائے اور وہ معروضیت بھی پیدا نہ ہو سکے جو جرأتوں کو بحال رکھنے کا ایک بڑا سبب بھی ہوتی ہے۔  ندا  اپنی شاعری میںمختصر لمحوں کا شاعر ہے۔ یعنی وقت کو وسیع بساط پر پھیلانے سے اسے کوئی خاص رغبت نہیں ہے۔ جب کہ ‘ دیواروں کے بیچ‘ اور ‘دیواروں کے باہر‘ کا زمان کم و بیش 60 برسوں پر محیط ہے۔ ندا  کے یہ 60 برس کسی ایسے شخص کے 60 برسوں کا عرصہ رواں نہیں ہیں جسے اپنے ماضی پر گھمنڈ ہو، حال پر فخر اور مستقبل پر اعتماد۔ جو اخلاقیات کی نام نہاد فرہنگ کی ہر اُس برائی سے اپنے پاک ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہو جس سے اس کے حال کی عظمت پر کوئی حرف آسکتا ہے۔"

(اعتراف، کتابی سلسلہ نمبر 1ندافاضلی، ناشر اعتراف گُرو پ، ممبئی، اپریل 2005، صفحات 240)

ندا  فاضلی بتاتے ہیں کہ تقسیم وطن کے ساتھ انھوں نے یہیں مُلک میں رہنا پسند کیا، جبکہ نا مساعد حالات کے باعث اُن کے اہل ِخاندان نے ہجرت گوارہ کرنا بہتر سمجھا۔ شرنارتھیوں کی آمد کے ساتھ فسادات کے ماحول میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان کے گھر کے افراد کو اپنی جان بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر بھوپال کا رخ کرنا پڑا۔ شہر کے باہر ویران علاقے بیرا گڑھ میں ایسے پناہ گزینوں میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ قیام کرتے ہیں۔ ندا فاضلی نے تقسیم وطن کے بعد برپا ہونے والے  فسادات کی بڑی سچی تصویر یں پیش کی ہیں۔         

کسب ِ معاش کے ضمن میں وہ بمبئی، دلّی اور بھوپال کے سفر کرتے رہے۔ انھوں نے شعر و سخن کے ہمعصر ستونوں سے شعوری طور پر ربط و ضبط بڑھایا۔ عشق و معاشقے کے معاملات میں بھی انھوں نے نہ صرف اپنے ساتھ پیش آنے والے قصوں کو بڑی بے باکی اور دیدہ دلیری کے ساتھ لکھا ہے بلکہ اپنے والد ِ ماجد مرتضیٰ حسن کی بے راہ روی کی بھی قلعی کھولی ہے اور اُن کے ساتھ پیش آنے والے واردات ِ قلب و نظر کوبھی قارئین کے روبہ رو بے دریغ اُجاگر کر دیا ہے۔ والد کی اپنے گھر کے تئیں بے اعتنائی سے اُن کی والدہ ذہنی اور جذباتی صدمات سے دوچار ہو کر تعویذوں، وظیفوں کے وِرد،  روزہ نماز کی پابندی  اور درگاہوں پر حاضری دینے لگی تھیں۔ اس خود نوشت میں والدہ جمیل فاطمہ کا کردار ایک آدرش مشرقی عورت کا کردار بن کر ابھرتا ہے۔ وہ خانگی ذمے داریوں میں گھری ہوئی، پاکیزہ خیالات و افکار کی حامل خاتون ہیں، جن کے مزاج واعمال میںشرافت، طہارت اور ممتا کے جذبات موجزن ہیں۔

مصنف کے اپنے عشق و معاشقے اور ازدواجی معاملات میں عشرت، وجیہہ اور مالتی جوشی کے کرداروں پر انھوں نے کتاب میں سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اِس خودنوشت میں عشرت کے کردار کا ذکر تو کیا ہے مگر اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا ہے، جو آپ بیتی کے لوازمات کے نقطۂ نظر سے وضاحت طلب امر کہا جا سکتا ہے۔  

معروف نقاد شمیم حنفی اپنے مضمون ' آنکھ ہوتو آئینہ خانہ ہے دہر' میں  ندا فاضلی کی  نثر و نظم کا جائزہ اور موازنہ پیش کرتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ندا فاضلی کے یہاں شعری اظہار اور نثر ی اظہار کی صلاحیت تقریباََ ایک جیسی ہے۔ وہ  ندا فاضلی کی نثر کو شفاف، حساس اور بے ساختہ نثر قرار دیتے ہیں۔ بقول شمیم حنفی: 

" ندا فاضلی کی نثر ہمیشہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتی ہے، ایک خوش خرام جوئے آب کی طرح۔ اُن کی نثر جھالر یا سجاوٹ کے سامان سے حیرت انگیز حد تک خالی ہے۔ نثر میں ندا اپنے آپ کو ذرا بھی بے قابو نہیں ہونے دیتے۔ اُن کی نثر فکری یا جذباتی مبالغے سے عاری، بہت گتھی ہوئی، رواں دواں نثر ہے۔"

(اعتراف ،کتابی سلسلہ نمبر 1ندافاضلی، ناشر اعتراف گُرو، ممبئی، اپریل 2005، ص 74 )

ندا فاضلی اِس ناول نما خود نوشت میں اپنے والدین اور آبائی گھرکا نقشہ کھینچتے ہوئے اپنے ارد گرد پائے جانے والے مختلف کرداروں کی سرگرمیاں اور ان کے نفسیاتی عوامل کے بیان اورفسادات سے پیدا شدہ دہشت اور سنسنی کے ماحول کی سچی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایک ایسی حقیقی دنیا کا مرقع یہاں پیش کرتے ہیں جہاں شاعر، ادیب، طوائفیں، شریف زادیاں،  ہجڑے، پہلوان، پنڈت اور لفنگے سبھی اپنی تمام تر ذات و صفات اور دکھ سکھ کے ساتھ اپنے اپنے حصے کی زندگی جی رہے ہیں۔بستیاں، محلے، شہر،بچے، لڑکیاں، درخت سبھی اپنا مخصوص کردارادا کرتے چلے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر شمیم حنفی یوں رقمطراز ہیں:

" جمیل فاطمہ اور مرتضیٰ حسن کے تذکرے سے شروع ہونے والی کہانی کے کرداروں میں املی اورنیم کے یہ پیڑ، محلہ، بستی، کنوا ری لڑکیا ں، بچے اورپڑوس میں آباد گولیوں کے چھپر والے گھر بھی شامل ہیں... اِس آپ بیتی میں ایک جانی بوجھی اور برتی ہوئی دُنیا آباد ہے۔ کوئی کردار کسی دوسرے کردار پر حاوی نہیں ہونے پاتا اور سب کے سب کہانی کو آگے بڑھانے میں ایک خاموش اور خودکار رول ادا کرتے ہیں۔ کہانی کے بیان میں کئی شہر آتے ہیں۔ گوالیار، بمبئی، دلّی، کراچی، شکاگو اور سکھ دُکھ کے تمام دیکھے بھالے موسم آتے ہیں اورگزر جاتے ہیں۔ اِس بہ ظاہر سیدھے سادے اور معمولی بیانیے کی تعمیر کرنے والوں میں ہر سطح، ہر طبقے، مسلک اور مزاج کے لوگ شامل ہیں۔ شریف زادیاں، طوائفیں، ہجڑے، پہلو ان، شاعر، ادیب، لفنگے اور بھاکری، مولوی اور پنڈت۔ غرض کہ خاصی رنگا رنگی اور چہلمی ہے۔ سوئی سوئی سی پر امن بستیوں کے بیان سے لے کر فساد زدہ ماحول کی سنسنی، دہشت اور درشتی تک، ندا  انسانی جذبوں، خوابوں، اُمنگوں اور احساسات تک ہر طرح کے تجربوں سے گزرے ہیں۔ کہیں اپنے شعور کی ستائش اور اپنی ہستی کا نشہ نہیں، عبارت آرائی اور فلسفہ طرازی نہیں، کسی طرح تمسخر، تحقیر اور ملامت کا اظہار نہیں۔ یہاں تک کہ اپنی طباعی اور بصیرت کے بیان سے پڑھنے والوں کو متاثر کرنے کی طلب بھی نہیں۔ تجربوں کے کھرے پن اور متعلقہ تفصیلات سے جھلکتی ہوئی دردمندی اور سوز کی ایک دائم و قائم کیفیت نے اِس کتاب کو انسانی سوچ، رویے اورطرز  ادا کی ایک موہنی شکل دے دی  ہے۔ آپ بیتیاں مصیبت بن جاتی ہیں جب بیان کرنے والا آپ اپنے وجود کی سطح سے اوپر اٹھنے اور اپنے بندھے ٹکے شعور کے دائرے سے پل بھر کے لیے بھی باہر آنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ "

(اعتراف ، کتابی سلسلہ نمبر 1ندافاضلی، ناشر اعتراف گُرو، ممبئی، اپریل 2005، ص 74-75 )

ندا فاضلی جب نئے نئے ممبئی پہنچتے ہیں تو ان کے دوستوں اور شناساؤں کے لیے مکتبہ جامعہ،روز مرہ کی ملاقات  کا مرکز بن جاتا ہے۔ اردو کتابوں کا یہ مکتبہ،ادبی حلقوں میں اس لیے ہردلعزیز ہے کیونکہ اس کے جنرل منیجر شاہد علی خاں اہل اردومیں سب کے ساتھ یکساں طور پر خندہ پیشانی سے پیش آتے رہے ہیں۔اسی لیے ممبئی کے بھنڈی بازار میں واقع مکتبہ ٔ جامعہ، اردو ادیبوں اور شاعروں کے ملنے ملانے کے نقطہ ٔ  نظر سے مرکزی بنیادی اہمیت کا حامل مقام بن چکا ہے۔ ندا فاضلی اردو کتابوں کے اس مرکز میں وقوع پذیر ہونے والے ادبی مباحث، نوک جھونک اورمعرکہ آرائیوں کا بڑا دلچسپ خاکہ پیش کرتے ہیں:

  "بمبئی کے بھنڈی بازار کے علاقے میں مکتبہ جامعہ ایک ایسا مرکز ہے جہاں بمبئی کے سارے زمینی فاصلے سمٹ کر ایک کتابوں کی دُکان بن جاتے ہیں۔ یہاں چھوٹے بڑے ہر شاعر، ادیب سے ملاقات ہو جاتی اُس کے جنرل منیجر شاہد علی خاں ہیں۔ ادیبوں کے آپسی اختلافات سے دور صبح سے شام تک ان کی مسکراہٹ سب کے لیے یکساں ہوتی ہے۔ ترقی پسند اسے اپنے لیے مخصوص سمجھتے ہیں۔ جدیدیت پسند اس میں بدلتی ہوئی قدروں کا عکس دیکھتے ہیں۔ یہ مسکراہٹ برسوں سے ایک جیسی ہے۔ گرمی، سردی،برسات ہر موسم میں اس کی لمبائی چوڑائی حسب ِ معمول رہتی  ہے۔ یہاں آنے والوں کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم ان کی ہے جو ہرشام پابندی سے یہاں آتے ہیں۔ ان میں اکثریت نئے ادیبوں اور شاعروں کی ہے۔ ندا  بھی انھیں میں شامل ہے۔ اِن میں ادب کے تعلق سے جذباتی انتہا پسندیاں زیادہ ہیں۔ ادبی بحث و مباحثہ میں ہر روز ذاتی تعلقات نئے سِرے سے ترتیب پاتے ہیں۔ یہ نوک جھوک کئی کئی دن ایک کو دوسرے سے خفا رکھتی ہے۔ یہ خفگی جو ہوش میں سماجی حدوں کو پھلانگنے سے گریز کرتی ہے، مدہوشی میں اکثر ہاتھا پائی کا سرکس بن جاتی ہے۔ ندا  کے ہاتھ سے باقر مہدی کا پھٹا ہوا کرتا، باقر مہدی کے اشتعال کا شکار نداکی عینک، سُریندر پرکاش کے غصے سے میز پر دھماکے کے ساتھ چکنا چور ہوتی بوتل، بلراج مینراکے گال پر مہیندرناتھ کا طمانچہ اِس سرکس کے کچھ سین ہیں۔ ادب و زندگی کا یہ قریبی رشتہ نئے ادیبوں کی مادی محرومیوں کا ردّ ِ عمل ہے۔ اِن میں سے بیشتر معاشی جدّ و جہد سے گزر رہے ہیں۔ اُن کے غم و غصے کا نشانہ زیادہ تر وہی کھاتے پیتے ادیب و شاعر  ہیںجیسا یہ خود بھی بننا چاہتے ہیں۔ اپنے اپنے طور پر سبھی ان کوششوں میں مصروف ہیں     ؎

میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دے

وقت بدلا تو تری رائے بدل  جائے  گی

اِن نئے ادیبوں و شاعروں کے ساتھ کچھ ایسے بھی روز کے آنے والے ہیں جو خود لکھتے لکھاتے نہیں لیکن جن کی شام کی فرصتیں روز کی ان نشستوں کی خاموش تماشہ بین ہیں۔ ان میں کچھ تجارت پیشہ ہیں اور کچھ سرکاری و نیم سرکاری کرسیوں سے وابستہ ہیں۔ ادیبوں کی ضرورتوں کو کبھی کبھار قرض کی سہولتیں فراہم کرنا اور ہر شام کی چائے، پان اور سگریٹوں کے اخراجات اُنہی کی اخلاقی ذمے داریاں ہیں۔

     (دیواروں کے بیچ،  ندا فاضلی، معیار پبلی کیشنز دہلی،2001، ص149-150)   

زبان و بیان پر ندا فاضلی کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ معمولی سی بات کو بھی غیر معمولی انداز عطا کردینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اِس آپ بیتی میں ندا  فاضلی نے خود اپنی ذات کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے اور یہ خود احتسابی اُن کی حق پرستی اور دیانت داری کی علامت بن کر اُبھری ہے۔ وہ زندگی کے حقائق کی مرقع سازی کچھ اِس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری کے تصور کی آنکھ کے سامنے معاشرے کی متحرک تصویریں نمودار ہونے لگتی ہیں، جس میں ہوس ناکی، دہشت، بے چینی اور سفاکی دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے ان تاریک پہلوؤ ں کا مقابلہ مصنف اپنی طبیعت کی فراخی، بلند نظری اور وسیع القلبی سے کرتا نظر آتا ہے۔ وہ خود اپنی ذات کے خام پہلوؤں کو اُجاگر کر تے ہوئے کسی مصلحت کو ملحوظ رکھے بغیر بڑی جسارت، اعلیٰ ظرفی اور بے باکی کے ساتھ صفحہ  ٔ قرطاس پر اُتار دیتے ہیں۔یہ بات اُن کی مضبوطیٔ جگر و دل کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے ممبئی کے معاشرے میں مے نوشی، عیاری،  انا پرستی، جھوٹ اور مکر و فریب جیسے عوامل کا بڑی گہرائی و گیرائی کے ساتھ مشاہدہ کیا ہے۔ جمیل فاطمہ، مرتضیٰ حسن اور ندا اِس خودنوشت نما ناول کے بنیادی کردار ہیں لیکن معاشرے میں اپنا وجود رکھنے والے بے شمار ذیلی کردار بھی حسب ِ حیثیت اُن کی زندگی کے کینوس میں اپنی مخصوص جگہ بنا لینے میں کامیاب ہیں۔ اُنہوںنے سماج کے بعض نازک پہلوؤں کی پردہ کشائی کی ہے۔                

منجملہ یہ کہ'دیواروں کے بیچ' ایک دلچسپ، فکر انگیز اور تخلیقی نثر میں لکھی ہوئی داستان ِ حیات ہے۔ اِس کا اسلوب دلکش ہے۔ ندا فاضلی کا قلم بے باک اور دھار دار ہے۔انھوں نے  185 صفحات پر مشتمل اپنی خودنوشت سوانح حیات ' دیواروں کے بیچ'  میں بچپن سے تادم ِ تحریر واقعات و احوال کی پیش کش میں جمالیاتی اسلوب ِ نگارش اِختیار کیا ہے اور اپنے بیانیے میں فلسفیانہ لب و لہجہ اپنایا ہے۔ مصنف نے خودنوشت نگاری کے میدان میں مخصوص ہئیتی تجربہ کاری اور منفرد پیکر تراشی کے توسط سے اپنی تخلیقی قابلیت کا لوہا منوایا ہے اور اس لحاظ سے  انھوں نے  ناول نما آپ بیتیوں کی صنف میں اپنی ایک مُنفرد پہچان قائم کی ہے۔

حوالہ جاتی کتب

1        اردو میں خودنوشت سوانح حیات، ڈاکٹر صبیحہ انور، نامی پریس لکھنؤ، 1982

2        انداز ِ بیاں (یک موضوعی مجلہ )،مدیر حقانی القاسمی، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی،2016

3        دستاویز  (کتابی سلسلہ 4)، دوحہ / دہلی،2016

4        دیواروں کے بیچ،  ندا فاضلی، معیار پبلی کیشنز دہلی،2001                                      

5        اعتراف کتابی سلسلہ نمبر 1ندافاضلی، ناشر اعتراف گُروپ، ممبئی، اپریل2005

6        کیسلس انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر،جلد 1

Syed Wajahat Mazhar

T-116/1, 2nd Floor, Main Market

Okhla Village, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 7217718943

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...