ورق ورق میں پلٹتا رہا کہانی کا
بہت طویل سفر ہے یہ زندگانی کا
پوری دنیا تین سال سے کورونا کا کرب جھیل رہی ہے۔ ہر
باحیات شخص کا کوئی نہ کوئی عزیز ضرور اس وبائی بیماری کا شکار ہوا ہے۔ اگر عالمی
پیمانے پر اس درد کی داستان قلمبند کی جائے تو لاکھوں صفحات کم پڑجائیں گے۔ اب تک
کورونا کی چار لہریں شمار کی جاچکی ہیں۔ ہر لہر نے کسی کے عزیز کو چھینا ہے، کتنے
گھروں کو ویران کیا ہے، کتنے خاندان کو ملول و مغموم کیا ہے۔ میرا دفتر تقریباً سو
ارکان پر مشتمل ہے۔ لیکن کورونا کی پہلی لہر کا شکار صرف میں ہوا۔ بس خدا نے اہل و
عیال اور اپنوں کی دعاؤں کے صدقے میں زندگی بخش دی۔ لیکن دوسری لہر میں میرے والد
محترم یکم ستمبر 2021 کو، کورونا کی زد میں آگئے۔ اس کے بعد جانے والوں کا ایک
سلسلہ بندھ گیا۔ 2021 رمضان کے پہلے عشرے میں دلی میں مقیم میرے بہی خواہ، ہمدرد،
سرپرست کی حیثیت رکھنے والے میرے سینئر دوست پروفیسر اشتیاق دانش صاحب میری نظروں
کے سامنے کورونا کا ہدف بن گئے۔ کتنے اپنوں کو بے سہارا چھوڑ گئے۔ اسی رمضان کے
پہلے ہی عشرے میں کورونا نے میرے دوست صحافی فاروق سلیم صاحب کو نہیں بخشا، مذکورہ
متاثرین، روز کے ملنے جلنے والے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے، ایک سال نہیں بیتا کہ میں
دو بھائیوں سے محروم ہوگیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ خدا جانے یہ زنجیر کب ٹوٹے گی۔
2022
کے رمضان کا پہلا عشرہ ایک ایسے یار باش شخص کے لیے پیغام
اجل لایا جس کی بزم احباب میں اس کی دو نسل قبل اور دو نسل بعد کے دوست شامل تھے
جسے دنیا سالک دھام پوری کے نام سے جانتی ہے۔ 11 اپریل کو علم و ادب کا یہ چراغ
بجھ گیا اور اپنی بزم احباب کو سوگوار و تاریک چھوڑ گیا۔ اپنی ایک زیرترتیب تصنیف
سے متعلق ناقد عصر حقانی القاسمی سے ملاقات کا پروگرام بنا رہے تھے کہ رمضان کے
باعث یہ ملاقات ادھوری او رختم ہوگئی۔ رمضان سے دس روز قبل حکیم سید احمد خان اور
خالص یونانی دواخانے کے مالک اویس صاحب کے ساتھ غریب خانے کو رونق بخشی تھی۔ رمضان
سے دو روز قبل ایک چائے خانے میں ملاقات طے ہوئی اور تادیر گفتگو رہی۔ بیحد اصرار
پر بھی گھر آنے کو تیار نہیں ہوئے۔ میں نے بہت کہا کہ میری بیگم نے آپ کو قیمے کی
گجیا پر آپ کو دعوت دی ہے۔ غالباً انھیں یہ احساس تھا کہ ابھی چند روز پہلے ہی تو
حاضر ہوا تھا۔ خیر!
ابوالفضل انکلیو کے دو چوک، ڈی بلاک اور ای بلاک کے
احباب کو روزانہ چہرہ دکھانے والا ہر دل عزیز شخص اب دنیا سے پردہ کرگیا۔ بے شمار
چہروں کو اپنی قائم کردہ ’بزم احباب‘ کے ذریعے شناخت دینے والا، سرپرستی کرنے
والا، اردو زبان و ادب اور شاعری کی زلفیں سلجھانے والا، بات بات پر واقعہ بیان
کرنے والا درمیان میں تلخ و شیریں باتیں کرنے والا، سدا کے لیے خاموش ہوگیا۔ حافظ
عبدالقادر کے چائے خانے میں چہچہانے والا پرندہ دام دنیا سے اڑگیا۔
میرے محترم قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیوں یا
وہ گوئی کیے جارہا ہوں۔ درجنوں کتابوں کے مصنف کی علمی ادبی شخصیت پر گفتگو کے بجائے میں بہکی بہکی
باتیں کیو ں کررہا ہوں جن کا کوئی ربط نہیں۔ دوستو! سالک دھامپوری کی علمی و ادبی
شخصیت پر گفتگو کرنے کے لیے سلجھے ہوئے مقالہ نگار، ادب کے پارکھ کافی ہیں۔ میں نے
تو قلم و قرطاس کے ذریعے سالک صاحب سے متعلق اپنے احساسات و جذبات اور درد و کرب ظاہر کیے ہیں۔ جبکہ ان کی
متعدد تخلیقات و تصنیفات میں خاکسار کی آرا شامل رہی ہیں۔
دوستو! سالک صاحب کی زندگی مختلف الجہات تھی۔ وہ جماعت
اسلامی سے منسلک تھے۔ جماعت کے رکن تھے، معاشرے و سماج کے تمام گوشوں سے وابستہ
تھے۔ عوامی بہبود و فلاح میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے زندہ دل انسان تھے۔ زمینی
سطح پر لوگوں کے کام آنے والے تھے، راشن سے لے کر دوا تک فراہم کرتے، ضرورت مندوں
کا حتی المقدور ساتھ دیتے۔خدمت خلق کے جدبے سے سرشار تھے، عمر کے جس حصے میں جہاں
بھی رہے، جس ماحول جس سماج میں رہے وہاں سے اپنے مشاہدے کی بنیاد پربہت کچھ سیکھا
حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے اردگرد مضامین بکھرے پڑے ہیں۔ اخذ کرنے والی نظر درکار ہے۔ سالک صاحب جہاں بھی
رہے وہاں سے انھوں نے موضوعات اٹھائے، مضامین منتخب کیے اور اپنے تخلیقی ذہن سے
اپنی تخلیقات کے پلاٹ طے کیے۔
سالک صاحب کے والد کی عروس البلاد بمبئی میں ایک ڈائمنڈ
بیکری وڈائمنڈ اسٹور تھا۔ وہ ثانوی درجات میں تھے کہ والد محترم انھیں لے کر بمبئی
چلے گئے۔ وہاں سے انھوں نے ہائی اسکول ماہم آر۔ سی کرسچین اسکول سے پاس کیا۔ بچپن
گزرا، لڑکپن آیا۔ ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوا۔ حلقے میں وسعت آئی۔ تخلیقی ذہن
تھا۔ لکھنے کا شوق تھا۔ اخباروں میں چھپنا شروع ہوئے۔ رسائل تک پہنچتے۔ بمبئی کی
زندگی میں مکتبہ جامعہ، بمبئی شاخ پر آنا جانا ہوا۔ وہیں کیفی اعظمی، مجروح
سلطانپوری اور ندا فاضلی وغیرہ سے ملاقات ہوئی۔ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ مزید آگے
بڑھا تحریروں میں پختگی آئی۔ اس طرح ایک عرصہ گزر گیا۔ حالات اور وقت نے والد کا
سارا بزنس تباہ کردیا۔ پھر واپس دھام پور لوٹے۔
محترم قارئین! سالک صاحب کی زندگی میں چائے اور چائے
خانہ ایک استعارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ چائے اور چائے خانے نے بہتوں کو بہت کچھ بنا
دیا اور بہتوں کو تباہ بھی کردیا۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ انھیں چائے سے حد درجہ شغف تھا۔ اگر ہر
گھنٹے پر چائے مہیا ہو تو کوئی ہرج نہیں لیکن قلیل مقدار میں۔
دوستو! میں چائے کے ذکر پر بھٹک گیا تھا۔ دراصل مجھے یہ
بتانا تھا کہ بمبئی سے دھام پور واپسی پر انھوں نے دھام پور میں ایک چائے خانہ
کھولا تھا جو بہت زمانے تک رہا۔ بمبئی اور دھام پورمیں چائے خانے کے تجربات و
مشاہدات نے باقاعدہ ایک تصنیف ’چائے کی دوکان‘ عطا کی۔ حالانکہ دھام پور کے دوران
قیام مستقیمی صاحب کی قیادت میں ان کے گھرپر جماعت اسلامی کے پروگرام ہوا کرتے
تھے۔ سالک صاحب لوکل ذمے دار بھی تھے لیکن تخلیقی ادب سے سدا منسلک رہے۔ بچپن،
لڑکپن اور نوجوانی کی یاد تازہ کرنے کے لیے ملنسار تھے اس لیے اکثر اپنے ماضی کے
دوستوں کویاد کرکے ان کے قصے سنایا کرتے۔ وقتاً فوقتاً بمبئی کے احباب سے ملنے جایا
کرتے تھے۔ بمبئی کے دوستوںمیں ایک دوست آصف پلاسٹک والابہت مشہور ہے۔ آصف پلاسٹک
والا بھی ادب و شعر اور تخلیق سے حددرجہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ سالک صاحب کی کئی
کتابوں کا آصف پلاسٹک والا نے بمبئی سالک صاحب کوبلاکر اجرا کیا وہ فلمی دنیا سے بھی جڑے ہیں۔ چائے کا
دھندا اور چائے خانے کے ماحول میں طرح طرح کے افراد سے ملاقات کا سلسلہ سالک صاحب
کے لیے مضر نہیں بلکہ مفید رہا۔ سماجی سطح پر گفتگو شنید سے بہت سارے عقدے حل
ہوتے، بہت سارے نکات ملتے جو تخلیق میں معاون ہوتے نیز کتابوں کی زینت بنتے۔
سالک صاحب کے حلقہ احباب میںحکما و اطبا خاص اہمیت
رکھتے ہیں۔ سالک صاحب سے میری پہلی ملاقات اتفاقاً ابوالفضل انکلیو تین نمبر یونانی
ریسرچ دواخانے میں ہوئی۔ وہ حکیم سید احمد خان کے او پی ڈی میں تشریف فرما تھے کہ
میں پہنچا۔ سید صاحب نے مریضوں کی بھیڑ میں ہی سالک صاحب سے میرا تعارف کرایا کہ
’’راشد صاحب ان سے ملیے یہ سالک دھام پوری ہیں‘‘ میں نے ایک طائرانہ نظر ڈالی اور
پھر ماضی میں چلا گیا کہ میں اپنے بچپن میں سالک دھام پوری کی تحریریں پڑھا کرتا
تھا۔ تاہم یقین نہ آیا کہ یہ وہی سالک دھامپوری ہوسکتے ہیں حالانکہ کتابیں لکھنے
والوں کو ہم کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھتے تھے، ہمارے وہم و گمان میںبھی نہیں ہوتا
تھا کہ ایسے لوگوں سے ہماری کبھی ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔ قرطاس و کتاب پر چھپے
الفاظ کو ہم دنیا کی دولت بے بہا سمجھتے تھے۔ یہ سوچتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہوتا
ہے۔ یہ سب باتیں کہاں سے آتی ہیں۔
سالک صاحب سے وہیں بیٹھے بیٹھے سید صاحب نے میرا تعارف
کرایا تو سالک صاحب نے بغیر کچھ سوچے کہا کہ پھر تو اگلے پروگرام میں، ان کو مہمان
ذی وقار کی حیثیت سے مدعو کرتے ہیں۔ میرے استفسار پر بتایا کہ ہماری بزم احباب میں
ماہانہ شعری نشستیں ہوتی ہیں۔ آپ آئندہ ہونے والی نشست کے لیے مہمان ذی وقار کی
حیثیت سے مدعو ہیں۔ اس کے بعد سے میں ان کی قائم کردہ بزم احباب کا مستقل شریک
رہا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد مجھے انھوں نے سکریٹری بھی بنایا۔ میں بہت کچھ بیان کرنا
چاہتا ہوں لیکن بھٹک جاتا ہوں۔ باتیں بڑی بے ربط ہوجاتی ہیں۔ دراصل میں سالک صاحب
کی اطبا سے قربت و صحبت پر صراحت کرنا چاہتا تھا جس کے اثرات سالک صاحب کی ادبی و
تخلیقی کاوشوں پر مثبت پڑے۔ نتیجے میں ان کے قلم سے باضابطہ ایک تصنیف ’علاج و
معالجہ‘ کے نام سے وجود پذیر ہوئی جسے قومی اردو کونسل کی معاونت بھی حاصل رہی۔
سنجیدہ علمی و ادبی گفتگو ان کا مزاج تھا۔ تاہم
بسااوقات ظرافت سے معمور گفتگو کرتے ہوئے لطائف سناتے اور بے تحاشا قہقہے لگا کر
ہنستے۔ بزلہ سنجی اور لطیفہ گوئی کے فطری ذوق نے تصنیف ’تکلف بر طرف‘ کو وجود
بخشا۔ اس کتاب میں معاشرتی و سماجی شخصیات پر لطائف ہیں۔ جس میں گہرا طنز ہوتا ہے۔
خاص کر قائدین اقوام کے لیے۔
سالک صاحب کو حقانی القاسمی سے بڑی انسیت تھی۔ ملاقات
کا سلسلہ کم تھا، لیکن بہت محترم تھا۔ حال ہی میں سالک صاحب نے اپنی آخری تصنیف
کا مسودہ میرے بدست حقانی صاحب کو بغرض تسوید مقدمہ تفویض کیا تھا جو اب بھی حقانی
صاحب کے پاس موجود ہے۔ غالباً اب اس پر کچھ کام ہوگا۔ ویسے وہ کتاب ان کی کہانیوں
کا مجموعہ ہے جو آخری مرحلے میں ہے۔
انھوں نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اپنے تجربات کو تخلیق کا جامہ پہنایا۔ ان کی
زندگی کا ایک نہایت ہی اہم اور تاریخی موڑ ان کی اسیری کا زمانہ ہے۔ ایمر جنسی کا
زمانہ تھا۔ کسی بھی تحریک سے تعلق رکھنے والے متحرک و فعال افراد کو سلاخوں کے پیچھے
دھکیل دیا گیا تاکہ معاشرے کی بیداری میں اپنے مثبت کردار ادا کرنے سے محروم کردیے
جائیں۔ سالک صاحب بھی اس جبر کا شکا رہوگئے اور 4 جولائی 1975 کو حبس زنداں سے
دوچار ہونا پڑا۔ ان کی مدت اسیری قریباً دو سال مختلف جیلوں، ضع جیل، بجنور، سینٹرل
جیل، بریلی نیز سنیٹرل جیل، نینی، الہ آباد میں کاٹنی پڑی۔ جیل کے ماحول اور
صعوبتوں کو انھوں نے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے جو بہ شکل شعری مجموعہ (کلام
زنداں) کے نام سے محفوظ ہے۔ چند زندانی کلام کو انھوں نے خود ہمیں سنایا۔ وقتاً
فوقتاً وہ اپنے حبسی تجربات بھی بیان کرتے ہوئے مختلف قیدیوں کے احوال سے روبرو
کراتے تو کبھی ہنستے اور کبھی آبدیدہ ہوجاتے۔ جیل کے کارندوں کے سلوک و رویے پر
اکثر گفتگو کرتے۔ ان کی نرمیوں اور سختیوں کو لطف لے لے کر بیان کرتے۔
سالک صاحب نے اپنی طالب علمی کے زمانے کا ایک ایسا
واقعہ سنایا جس کے پیچھے ایک خاص فکر کام کررہی تھی جس سے وہ ناواقف تھے۔ بقول ان
کے ہمارا امتحان ہونے والا تھا۔ ہمارے کلاس کے ایک دوست نے ہم سے کہا کہ تمھارا سینٹر
فلاں جگہ ہے۔ میرا ایک سامان ہے۔ لیتے جانا ایک آدمی آکر لے لے گا۔ میں نے ہامی
بھرلی۔ اس نے ایک بریف کیس لاکر مجھے دیا اور میں لے کر پرچہ دینے چلا گیا۔ لوکل
ٹرین سے اترا تو اسٹیشن کے باہر چیکنگ چل رہی تھی۔ سارے مسافر ایک ایک کرکے باہر
نکلتے اور چیک ہوتے۔ مجھے پیپر کی فکر تھی۔ میں لائن توڑ کر آگے بڑھا اور کہا کہ
صاحب میرا امتحان چھوٹ جائے گا۔ میرا بریف کیس پہلے چیک کرلو، اس صاحب نے کہا
بھاگو جلدی جاؤاور مجھے اس نے آگے بڑھا دیا۔ میں کلاس میں چھوٹا دبلا پتلا معصوم
سا تھا۔میرا ساتھی کلاس فیلو لمبا تڑنگا۔ اس نے ارادتاً مجھ سے دوستی کی تھی، تاکہ
اس کی معصومیت سے کام لیا جاسکتا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ لڑکا اس وقت کے
نامور بزنس مین کا لڑکا تھا۔
سالک صاحب دراصل ہندی زبان کے لکھنے پڑھنے والے تھے لیکن
تخلیقی ذہن ہونے کے سبب وہ شاعری بھی کرتے اور کہانیاں بھی لکھتے۔ جو مختلف
اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ اس طرح وہ ایک اچھے مترجم بھی ہوگئے اور سب
سے پہلی کتاب انجم بک ڈپو کی ’محمد بن قاسم‘ کا ترجمہ ہندی میں کیا۔
سالک صاحب کا تصنیفی عمل کئی نوعیت کا ہے۔ ابن صفی کے
ناول کا غالباً پورا سیٹ ترجمہ کیا ہے جو ہندی میں چھپا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار
کتابوں کا اردو ہندی نیز ہندی اردو ترجمہ کیا لیکن سب کتابیں ترجمہ کروانے والو ںکی
ملکیت ہیں انھیں صرف معاوضہ ملا۔ نام واکرام نہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی علمی و مذہبی
کتابیں ہیں۔ ناول افسانے اور شعری مجموعے ہیں۔ اخبارات سے مستقل منسلک رہے۔ مراسلے
خاص کر ان اخباروں کی زینت بنتے رہے۔
سالک صاحب کی صحافتی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ آٹھ
سال تک جماعت اسلامی ہند کے ہندی اخبار ’کانتی‘
میں بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر کے کام کیا۔ آٹھ سال ہفتہ وار ’بھور میل‘ میں مدیرکی
ذمے داری ادا کی۔ 1984 میں اپنا اخبار ’جائزہ‘ نکالا جو قانونی گرفت میں آیا اور بند
ہوگیا۔ تین سال تک اردو ماہنامہ ’دعوت و عزیمت‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی۔ نسیم
حجازی کے دس معروف تاریخی ناول، مولانا اشرف علی تھانوی کا ’ترجمۃ قرآن‘ نیز
مولانا ابوالکلام آزاد کے ’ترجمان القرآن‘ کی ہندی میں تلخیص کی جوان کا بہت بڑا
کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمن صاحب کے رسالہ ماہنامہ ’جرائم‘ میں تقریباً تین سال
سے مزاحیہ مضامین لکھتے رہے تاآنکہ وہ رسالہ بند ہوگیا۔
برسبیلِ تذکرہ یاد آیا کہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن صاحب
ماہنامہ ’جرائم‘ کے مالک و مدیر اب بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔سالک صاحب جیسے مخلصین
کی وجہ سے یہ رسالہ کسمپرسی کے عالم میں بھی نکلتا رہا۔ بدرجہ مجبوری بند کرنا
پڑا۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمن صاحب سالک صاحب کی بزم احباب کے مستقل شریک تھے۔ وہ ایک
اچھے شاعر بھی ہیں، ترنم سے اپنی غزلیں سناتے ہیں۔ بینائی کھوجانے کے باوجود بزم
احباب کی نشستوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ بہ سبب مجبوری ایک آدمی جاتا اور
ان کو اپنے ساتھ بزم میں لاتا اور اختتام پر انھیںان کی رہائش پر پہنچا دیتا۔ سالک
صاحب کے گزر جانے سے بعد ان کی دنیا بھی محدودہوگئی۔ ورنہ بزم احباب کی بہت سی
نشستیں ان کی رہائش پر منعقد ہوتی اور حاضرین کی ضیافت کا معقول نظم ہوتا تھا۔ بزم
احباب کی بہت سی نشستیں سید اظہارالحسن صاحب کی رہائش پر اور احسن فیروز آبادی کے
مکان پر منعقد ہوتی تھیں۔
سالک صاحب کے بڑے صاحب زادے جاوید اختر کا کام گرافک اینڈ
ڈیزائن کا ہے۔ تاہم وہ پھر بھی پرعزم ہیں کہ ابا کی سرگرمیوں کو بزم احباب کی شکل
میں جاری رکھا جائے گا۔ ابھی ہم ان کے بکھرے ہوئے کاموں کو سمیٹنے میں لگے ہیں۔
انھیں حسن ترتیب دینے کے بعد ان شاء اللہ بزم کی طرف توجہ دیں گے اور اس سلسلے کو
جاری کریں گے۔
سارے اخباروں کے مدیران ذاتی طو پر ان سے واقف تھے۔ ان
کی تحریریں شوق سے چھاپتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سانحہ ارتحال پر تمام اخباروں
نے ان کی تصویر کے ساتھ بڑے رنج و غم سے خبریں قارئین تک پہنچائیں۔ خود قومی اردو
کونسل نے اپنے رسالے ’اردو دنیا‘ میں ان کی یہ خبر وجیہ تصویر کے ساتھ خبرنامہ میں
شامل کی۔ میری گفتگو غالباً طوالت اختیار کرتی جارہی ہے اور میں باتوںکو ربط بھی
نہیں دے پارہا ہوں، تاہم ان کی قائم کردہ ’بزم احباب‘ کے تعلق سے کچھ وضاحت کردوں،
سالک صاحب کی زندگی میں بزم احباب کی غالباً 53 یا 54 نشست ہوچکی تھی۔ آئندہ نشست
رمضان کے بعد ہونے والی تھی جو نہ ہوسکی۔ اب مستقبل میں بزم احباب کا کیا ہوگا، آیا
قائم رہے گی یا خود بہ خود تحلیل ہوجائے گی۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ان کے ساتھ محفلوں میں شریک ہونے والے احباب کا
عزم و حوصلہ ہے کہ اسے زندہ رکھیں، اسے آگے بڑھائیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کچھ
دوستوں نے مجھ سے باقاعدہ اظہار کیا کہ آپ اسے آگے بڑھائیے ہم مکمل تعاون کریں
گے جن میں پیش پیش بزم احباب کا سب سے کم عمر رکن الفوز زیادہ پرعزم ہے ساتھ میں
معاذ ہیں۔ ان کے علاوہ سینئر شرکا میں نسیم مجیدی فلاحی، سید شہاب الدین، سید
اظہار الحسن وغیرہ خاص طو پر قابل ذکر ہیں۔
میں جب سے بزم احباب کا شریک رہا، میں نے دیکھا کہ عالمی
شاعر حامد علی اختر یا معروف شاعر احسن فیروز آبادی نیز دلشاد اصلاحی بحیثیت شاعر
و ناظم شریک تھے اور اپنے کلام سناتے تھے۔ سالک صاحب کا وجود ایک مرکز و محو رکی حیثیت
رکھتا تھا۔
سالک صاحب کی کتاب زندگی کا آغاز10 اپریل 1948 کو ہوا۔ اس وقت عربی کا کون سا مہینہ تھا علم نہیں لیکن جب ان کی کتاب زندگی بند ہوئی تو عربی کا ماہ رمضان تھا اور اتفاق دیکھیے کہ انگریزی تاریخ 11اپریل 2022 ہے۔ اللہ نے رمضان کے پہلے عشرے میں ایک فعال و متحرک شاعر و ادیب، کہانی کار اور صحافی کو اپنے پاس بلا لیا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
Dr. Abdur Rasheed Azmi
Gulmarg Apts, Abul Fazal Enclave
Jamia Nagar, Okhla
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں