23/9/22

اردو زبان کی صوتی وسعت: رضاءالرحمان عاکف سنبھلی

اردو زبان یوں تو بہت سی خوبیوں کی مالک اور متعدد اوصاف سے مزین ہے۔ اس کے الفاظ کی شیرینی و لطافت، اس کا زبردست صوتی آہنگ، اس کی بے پناہ خوبصورت شاعری، دل کش و دل نواز اشعار تو دلوں کو موہ لینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کی قواعد و لسانی خوبیاں  بھی دلوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کا ایک اور جوہر اس کا صوتی نظم ہے۔ جس کی جانب محققین کی نظر کم ہی گئی ہے۔ ان سطور میں ہم اس پر نظر ڈالنا چاہیں گے۔ جس کے تحت ہمیں یہ دکھانا ہے کہ اردو کا نظام صوت اتنی بلندیوں کا حامل اور اس درجہ وسعتوں کا مالک ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی بھی زبان نہیں کر سکتی۔ وہیں ہم کو یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ اردو بولنے والا دنیا کی ہر زبان بآسانی بول سکتا ہے یہ صلاحیت قاری کے اندر اردو کی صوتی وسعت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ اردو کے اندر حروف اور ان کے مخارج کا وہ وسیع ذخیرہ ہے جس کی وجہ سے اردو بولنے والا دنیا کی ہر زبان بول سکتا ہے۔ اور اس کے مصوتوں اور مصمتوں کی بحسن و خوبی ادائیگی کرنے کی مکمل صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔

زیرِ نظر سطور میں انہی حقائق پر روشنی ڈالی جا رہی ہے اور اپنے موضوع کی رعایت سے اس حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ اردو زبان کا صوتی نظم کس قدر وسعتوں کا حامل اور رفعتوں کا مالک ہے۔ تو آئیے سب سے پہلے ہم اردو کے حروف،مصمتوں اور مصوتوں وغیرہ پر نظر ڈالیں گے۔ تاکہ اپنے موضوع پر مزید تحریر کر سکیں اور اپنے قارئین پر اردو زبان کی صوتی وسعت ثابت کر سکیں۔

اہلِ نظر جانتے ہی ہوں گے کہ اردو کوئی باقاعدہ زبان نہیں بلکہ کچھ زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ بنیادی اعتبار سے تو اس میں عربی،فارسی کے ہی حروف و الفاظ ہیں۔ مگر ان کے ساتھ ہی اردو کے ماہرین لسانیات نے اس میں سنسکرت، ہندی، ترکی، پشتو، پنجابی اور دیگر زبانوں کے حروف و الفاظ بھی شامل کر لیے ہیں۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ اردو میں عربی حروف یہ ہیں؛  ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، ق یہ حرف قدیم فارسی اور ہندی یا سنسکرت میں نہیں پائے جاتے۔

اردو میں یہ حروف فارسی سے لیے گئے ہیں؛  ژ۔  ہمارے یہاں عربی، فارسی کے مشترک حروف ہیں؛  ز، ف، خ،غ کی آوازیں عربی اور فارسی کی مشترک آواز ہیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو میں کچھ مخلوط آوازیں بھی ہیں۔ جو ہندی حروف کے نعم البدل کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں جیسے؛ ٹ،ڈ،ڑ اور مخلوط آوازوں میں؛بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ ہیں۔ یہ حروف کی خالص ہندی آوازیں ہیں جن کو ماہرین اُردو نے ہندی حروف کے تلفظ کے لیے وضع کیا ہے۔

یہاں کچھ لوگوں کو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ہندی حروف کو اردو میں مخلوط آوازوں کی شکل میں ادا کرنا اردو کی صوتی تہی دامنی کی دلیل ہے کہ اردو اپنے ایک حرف کے ذریعے ہندی مصوتوں کو آواز دینے سے قاصر ہے۔ مگر یہ اعتراض کسی طرح بھی مناسب و درست نہیں ہے کہ ایسی مثالیں دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بطور مثال ہم انگریزی کو ہی لے سکتے ہیں۔ جس کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم شوکت سبزواری صاحب کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں۔ جس میں وہ رقمطراز ہیں:

’’میں کہتا ہوں اردو اندازِ تحریر رومن سے زیادہ صحیح اور معقول ہے کہ رومن میں "KH"کو ’’کھ‘‘ بھی پڑھ سکتے ہیں اور ’’خ‘‘ بھی جب کہ اردو میں ’’کھ‘‘،کھ ہے اور ’’خ‘‘،خ۔‘‘    (اردو لسانیات:ڈاکٹر شوکت سبزواری، ص 39( 

اس حقیقت کو کچھ اور وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے مزید اس تفصیل کو ملاحظہ فرمائیں کہ انگریزی میں ش کی آواز کے لیے "SH,TION" اور کہیں کہیں "CH" مل کر بھی صوتی آہنگ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یعنی ایک مصوتے کی ادائیگی کے لیے چار حروف کا سہارا لیتا تو اگر مذکورہ بالا اعتراض کی روشنی میں ہندی کے[kکے لیے اردو کو ک+ ھ کا سہارا لینے پر صوتی تنگ دامنی کہا جائے گا۔ تو بیچاری انگریزی کو کس درجہ میں رکھیں گے؟

آئیے! اب ہم اپنی ایک اور اہم زبان ہندی کو لیتے ہیں کہ اگرچہ ہندی کی حروف تہجی (ورن مالا) ایک وسیع و عریض o.kZ ekyk ہے کہ اس میں حروفv{kj کی کثیر تعداد ہے اور بہت سی آوازیں ہیں۔ اور ایک ایک آواز کے لیے متعدد حروف ہیں۔ جیسےjکی بہت سی شکلیں ہیں اور کچھ مشترکہfefJr آوازیں بھی ہیں۔d اور'k کی مشترکہ آواز{kاورr اورj کی مشترکہ آواز=اور uاور.k]M وغیرہ۔ صوتی اعتبار سے پوری طرح مالامال ہونے کے باوجود جب دوسری زبانوں کے مصوتوں کی ادائیگی کی بات آتی ہے تو ہندی ہم کو پوری طرح تہی دامن نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم یہاں پر کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے اپنے دعوے کی دلیل دینا چاہیں گے۔ دیکھیے اردو زبان میں ایک خاص آواز ہے ج۔ اب دیکھیے اس کی ضمنی و ذیلی یا قریب المخرج کتنی آوازیں اور ہیں۔ ز،ذ، ظ، ض، ژ۔ اسی طرح اصل آواز ’س‘کی بھی دوسری قریب المخرج آوازیں دیکھی جا سکتی ہیں جو اس طرح ہیں ش،ث،ص۔ اب ہم اس کی مثالیں دیکھتے ہیں۔ ہمیں ایک لفظ جہاز لکھنا ہے تو ہندی زبان اس کی آواز دینے پر قادر ہے۔ مگر اسی حرف کی دوسری آوازیں زاہد، ذلت، ظروف،ضامن لکھنا چاہیں گے تو ہندی یہاں پر پوری طرح سے محروم و مجبور نظر آئے گی۔ اسی طرح ’س‘ کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی ضمنی آوازیں ث،ص، کی ادائیگی بہت سے ہندی والے نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ یہ مصوتے ہندی زبان میں موجود ہی نہیں ہیں۔مزے دار بات تو یہ ہے کہ بعض حضرات مخرج کی ادائیگی میں اس درجہ کمزور واقع ہوئے ہیں کہ ج کی جگہ ز اور ز کے مقام پر ج بول جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ ف اور پھ میں بھی امتیاز کرنے سے قاصر ہیں۔

یہاں پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ زبانوں کے صوتی نظم کو سمجھنے کے لیے اس کی کچھ تفصیل سمجھ لی جائے۔ ’صوتیہ‘ دراصل انگریزی زبان کے لفظ PHONEME کا  ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر فرتھ کی تحقیق کے مطابق یہ اصطلاح 1879 میں وضع ہوئی اس بحث کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل اقتباس کو بغور ملاحظہ کیا جائے:

’’اس میں شک نہیں کہ ’صوتیہ‘ کا تعلق انسانی آواز سے ہے۔ صوتیہ کے معنی ہیں صوت کی طرف منسوب اور اس سے متعلق۔ صوتیہ بے شبہ صوتی اکائی ہے۔ جسے مزید اکائیوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا لیکن صوتیہ کے تصور کے بنا صوتی اکائی کی ماہیت یا اصلیت پر نہیں اس کے استعمال یا منصب(Function) پر ہے۔ الفاظ آوازوں سے ترکیب پاتے ہیں۔ آوازیں مختلف ہیں۔ الفاظ میں اختلاف یا تعدد مختلف آوازوں کی وجہ سے ہے۔ آوازوں میں کیا اختلاف ہے اور کس نوعیت کا اختلاف ہے؟ اس مسئلے کا تعلق صوت (آواز) سے ہے۔ یا یوں کہیے اس علم و فن سے ہے جس کا موضوع صوت ہے اور جسے علم الاصوات (Phonetics) کہتے ہیں۔‘‘   (اردو لسانیات:   ڈاکٹر شوکت سبزواری۔ ص 52(  

یہاں پر لفظ ’صوتیہ‘ کی بحث چل رہی ہے اور اس سے ہی ’مصوتہ‘ اور ’مصمتہ‘ الفاظ بنے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھی طرح ذہن نشیں کرنے کے لیے ہم مصوتہ اور مصمتہ کو بھی سمجھتے چلیں تاکہ اس بحث کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ عصمت جاوید صاحب کے مطابق اس کی تفصیل اس طرح ہے:

’’دنیا کی اکثر زبانوں کی طرح اردو میں بھی صوتیوں کی دو قسمیں ہیں۔ مصوتہ اور مصمتہ۔ اگر کوئی کلامی آواز صرف منھ کی اندرونی شکل میں تغیر و تبدل کر کے اور زبان کو مختلف حالتوں میں اٹھا کر نیچا کر کے اس طرح ادا کی جائے کہ آواز منھ میں کسی جگہ رکے بغیر باہر آئے تو اس گلابی آواز کو’ مصوتہ‘ کہتے ہیں۔ اور جو کلامی آواز دہنی گزرگاہ میں کسی مقام پر مکمل یا جزوی طور پر رک کر رگڑ کھاتی ہوئی یا رخ بدل کر نکلے اسے’مصمتہ‘ کہا جاتا ہے۔ ‘‘

  )نئی اردو قواعد: عصمت جاوید، ص 30(  

اس بحث کو مزید بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے سطورِ ذیل میں مذکورہ بالا کتاب سے ہی ایک اور اقتباس پیش کرنا چاہیں گے تاکہ ہمارے قارئین کے ذہنوں میں یہ حقیقت اچھی طرح اتر جائے اور وہ نفسِ مضمون کو بآسانی سمجھ سکیں:

’’ یہ طے کرنے کے لیے کہ کس زبان میں کون کون سی آواز یں استعمال ہوتی ہیں یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلاں آواز ’امتیاز‘ معنی کا کام دیتی ہے یا نہیں اگر اس آواز کی جگہ دوسری آواز استعمال کرنے سے معنی میں فرق پیدا ہو جائے تو یہ آواز اس زبان کے صوتی نظام میں شامل قرار دی جائے گی اور اصطلاح میں اسے اس زبان کا صوتیہ (فونیم) کہتے ہیں۔‘‘   ( نئی اردو قواعد: عصمت جاوید، ص 30(   

اب آئیے اس سلسلے میں کچھ اور مثالیں دیکھیے۔ فارسی زبان میں بھی چونکہ بہت سی آوازیں نہیں ہیں۔ اس لیے وہ بھی دیگر زبانوں کی حروف کی آوازوں میں قاصر نظر آئے گی۔ اس سلسلے میں کچھ حضرات کا یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ہر زبان کی اپنی حروف تہجی اور نظام ہجا ہے۔ اور اس کے اپنے مخصوص حروف ہیں۔ اس لیے وہ اپنے تمام حروف بولنے پر قادر ہوا کرتے ہیں دوسری زبانوں سے انھیں کیا غرض۔ اس اعتراض کا جواب یہی ہے کہ ہمارے اس مضمون کا اصل موضوع ہی یہ ہے کہ اپنی زبان بولنا ہی کوئی خاص بات نہیں بلکہ دنیا کی بہت سی اہم اور قابلِ ذکر زبانوں کے حروف ادا کرنے کی صلاحیت صرف اور صرف اردو زبان میں ہی ہے۔ دنیا کی دیگر زبانیں اس صلاحیت سے پوری طرح خالی و بے زار ہیں۔ مندر جہ بالا سطور میں ان کی مثالیں پیش کی جا چکی ہیں۔ دراصل یہی اردو زبان کا حسن، خوبصورتی، قادر الکلامی اور اعجاز ہے۔ اور اسی پر اس کی وسعت اور فصاحت و بلاغت کا انحصار ہے۔ جو دیگر زبانوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔

ان تمام دلائل و حقائق کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ معلومہ حقائق کی روشنی میں اردو دنیا کی وہ واحد زبان ہے جو دوسری زبانوں کے مصمتوں اور مصوتوں کو پوری طرح ادا کرنے پر قادر ہے۔ یہاں تک کہ علاقائی زبانیں تو کیا اردو بولنے والے جاپانی، چائنیز، اطالوی اور فرانسیسی زبانیں بھی بخوبی بول سکتے ہیں۔ کہ اردو میں ان زبانوں کی آوازیں بھی موجود ہیں۔ آئیے اب ہم اردو زبان کے حروفِ ہجا پر پھر ایک نظر ڈال لیں تاکہ ہمیں اس کی صوتی وسعت کا بآسانی اندازہ ہو سکے۔

اردو حروف صحیح اس طرح ہیں:

خالص ہندی حروف۔  ٹ، ڈ، ڑ، پھ، تھ، ٹھ، چھ، کھ، بھ، دھ،ڈھ،جھ، گھ،ڑھ

خالص فارسی حرف۔   ژ

خالص عربی حروف۔  ذ، ض، ط، ظ، ث، ص، ع، ح، ء

ہندی، فارسی مشترک حروف۔  ب، پ، ت، ج، چ، د، ر،س،ش،ک،گ،ل،م،ن،و،ہ،ی

ہندی، عربی مشترک حروف۔  ب، ت، ج، د، ر، س، ش، ک،ل،م،ن،و،ہ،ی

مشترک حروف۔  ب، پ، ت، ج، چ، د، ر، ز، س، ش، ف، غ، ک، ق، گ، ل،م،ن،و،ہ،ی

ان میں بھی ز، خ، ف، غ،عربی اور فارسی میں مشترک ہیں۔ پ،چ،گ ہندی اور فارسی میں اورق عربی اور ترکی میں باقی حروف ان تمام زبانوں سے لیے گئے ہیں،  جن سے اردو نے استفادہ کیا ہے۔

اردو زبان کی صوتی وسعت کو سمجھنے کے لیے ابھی کچھ اور معلومات ہم اپنے قارئین کو فراہم کرانا چاہتے ہیں۔ جس سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کا ذخیرہ حروف تہجی دنیا کی کتنی زبانوں سے مالامال ہے۔ اس کو اس طرح سمجھئے کہ حرف ’ژ‘ جو اردو میں بظاہر تو فارسی سے لیا گیا ہے مگر جاننا چاہیے کہ یہ آواز انگریزی اور فرانسیسی بورژوا میں بھی ہے۔ اسی طرح ’ظ‘ کی آواز عربی کے ساتھ ہی اطالوی میں بھی ہے اور ث، ذ،ع اور ء کی آوازیں یونانی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس طرح ہم اردو حروفِ تہجی کی وسیع دامانی کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ جس کا اعتراف ڈاکٹر شوکت سبزواری اپنی کتاب میں اس طرح کرتے ہیں:

’’ اس تفصیل سے اردو حروفِ صحیح کی جامعیت ثابت ہوتی ہے۔ اردو کی طرح جو ایک طرح سے کھچڑی زبان ہے۔ اس کے حروف بھی کھچڑی ہیں۔ چنانچہ اردو کی لفظی تعمیر میں حصہ لینے والی ہر زبان کا لفظ اپنی اصلی آواز کے ساتھ اردو تحریر میں متشکل کیا جا سکتا ہے۔ ان حروف کو اس لحاظ سے بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ‘‘ 

)اردو لسانیات: ڈاکٹر شوکت سبزواری، ص 44(

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں اگرچہ اردو کے حروف تہجی میں دنیا کی متعدد زبانوں کے حروف شامل ہیں مگر اس حقیقت سے کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں نمایاں مقام عربی اور فارسی زبانوں کو ہی حاصل ہے۔ اور ان دونوں زبانوں کی اردو پر گہری چھاپ دیکھنے کو ملتی ہے جیسا کہ درج ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے:

’’ لفظ کی ابتدائی، درمیانی اور آخری حالتوں کا تقسیمی سانچہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اردو چونکہ ایک مخلوط زبان ہے۔ اس لیے اس کی بہت سی تکلمی آوازیں اور الفاظ عربی و فارسی سے مستعار ہیں۔ ‘‘

 )مقالاتِ مسعود: پروفیسر مسعود حسین،ص 24 )

ان حروف کی روشنی میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں کچھ آوازیں ایسی ہیں جو دوسری زبان والے بولنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ یہاں پر ہم تین معروف زبانوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس پر بحث کرنا چاہیں گے۔ ان زبانوں میں عربی، ہندی اور انگریزی زبانوں کو دیکھتے ہیں۔ اور کچھ حروف پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کریں گے کہ کس زبان کے بولنے والے کون سی دوسری زبان یا زبانوں کے حروف کی ادائیگی کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے دنیا کی وسیع ترین زبان عربی( جس کے بولنے والوں کو اپنی قادر الکلامی پر اس درجہ فخر و غرور تھا کہ وہ خود کو عرب یعنی بولنے والا اور دوسرے تمام لوگوں کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے) کو ہی لیتے ہیں۔ اپنی معلومات کی حدود اور موضوع کی مناسبت سے بھی اگر ہم انگریزی زبان کو ہی عربی کے مدِ مقابل رکھتے ہیں تو عربی زبان میں اس کے کچھ حروف کو تلفظ دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بطور مثال یہاں پر انگریزی کےD,G,P,T وغیرہ کو ہی لیجیے۔ تو عربی زبان ان حروف کا تلفظ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یعنی DALDA, POLICE, GUNاور TELEPHONE  الفاظ نہیں بول سکتے۔ کیونکہ عربی میں حروف پ،ٹ،ڈاورگ نہیں ہے۔مجبوراً ان کو کن یا قن، فولس، دالدا اور تیلی فون بولنا پڑتا ہے۔ اس طرح عربی داں حضرات ہندی کے بھی بہت سے حروف کے تلفظ دینے میں کامیاب نہیں ہیں۔ اب ہم انگریزی زبان کو دیکھنا چاہیں گے کہ انگریزی داں حضرات بھی عربی کے بہت سے حروف کا تلفظ نہیں کر سکتے۔ بطور مثال دولت اور تلاوت کو ہی لیجئے کیونکہ انگریزی میں حروف ’د‘ اور ’ت‘ کی آوازیں نہیں ہیں۔ اس لیے وہ ڈولٹ اور ٹلاوٹ بولنے پر مجبور ہوں گے۔ جبکہ اہلِ اردو الفاظ گن، پولس، ڈالڈا، ٹیلی فون، دولت اور تلاوت بآسانی بول سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں اگر ہندی کو دیکھا جائے تو اس کی وسیع تر حروفِ تہجی ہونے کے باوجود بھی بہت سے ہندی بولنے والے دوسری زبانوں کے بہت سے مصوتوں اور مصمتوں کا تلفظ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

 مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان صوتی اعتبار سے دنیا کی بہت سی زبانوں کے مقابلے میں برتر اور اعلیٰ ہے۔ کہ وہ بہت سے تلفظ اور صوتی وسعتوں سے پوری طرح مالامال ہے۔ اور اردو خواں حضرات دنیا کی اکثر زبانوں کے حروف اور مصمتوں اور مصوتوں کی باقاعدہ ادائیگی کر سکتے ہیں۔ دراصل یہی اردو کی فصاحت ہے اور اسی کو ہی بلاغت کا نام دیا گیا ہے۔ اور یہی اردو کا حسن ہے جو اس کو مرنے نہیں دیتا اسی کی بنیاد پر یہ ابد الآباد تک قائم رہے گی۔ اور اسی کی بنیاد پر ہی تو حضرت داغؔ فرما گئے ہیں                                ؎


مآخذات

  1.         مقالاتِ مسعود: پروفیسر مسعود حسین، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی
  2.        اردو لسانیات: ڈاکٹر شوکت سبزواری، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
  3.        قواعدِ اردو:مولوی عبد الحق، اعجاز پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
  4.        نئی اردو قواعد:  عصمت جاوید، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی

Dr. Raza Ur Rahman Akif Sambhali

Miyan Sarai

Sambhal (UP)

Mob.: 9837826809

Email.: sambhali@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں