26/9/22

اردو میں ادب اطفال: ہلال احمد گنائی

 


ادب ِ اطفال کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے بچوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے، شخصیت نکھرتی ہے،  نفسیات سنورتی ہے اور سماجی ذمے داریوں کا احساس جاگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ  قومیں ادب ِ اطفال کو بڑی اہمیت دیتی ہیں۔ ادب ِ اطفال اس  بنیاد کی طرح ہے جس پر عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ جتنی مضبوط ہوگی اس پر اتنی ہی منزلیں تعمیر ہوسکیں گی۔ بظاہر بچوں کا ادب بڑا سہل اور آسان لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی تخلیق و ترتیب میں ہمیں کئی پل صر اطوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ماہرین ِ تعلیم، ماہرین ِ نفسیات  ماہر ین ِ لسانیات اور دانشوروں کی ایک ٹیم سر جوڑکرمدتوں بیٹھتی ہے  تب کہیں جاکر بچوں کا نصاب تیار ہوتا ہے۔ ادب ِ اطفال کے زمرے میں وہ تخلیقات بھی آتی ہیں جوادیب اور شاعر اپنے ذوق و شوق یا ضر ورت کے تحت ضبط ِ تحریر میں لاتے ہیں۔ اس کی تیاری میں خاکوں، تصویروں اور مناظرکو استعمال میں لاتے وقت رنگوں کے بہترین امتزاج کا خیال بھی رکھا جاتا ہے تاکہ بچوں کی دلچسپی قائم رہے۔ اس لیے مواد کی تیاری میں فن ِ مصوری سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ آج کل تو ادب ِ اطفال میں برقی میڈیا کا عمل دخل بھی ناگزیر ہو گیا ہے؛ جیسے کارٹون فلمیں، سلائڈس، سمعی امداد وغیرہ۔ یہ چیزیں بھی ادب ِ اطفال کا حصہ ہیں۔

معیاری ادب ِ اطفال ہم اسے ہی کہیں گے جس میں عمروں کے لحاظ سے بچوں کی نفسیات کا خیال رکھا گیا ہو۔ کوئی سبق آموز بات کہی گئی ہو۔ ایسی عام فہم زبان استعمال کی گئی ہو جوان کی لسانی استعداد کے عین مطابق ہو۔سبق کو رنگوں کے بہترین امتزاج سے اور خاکوں، تصاویر و قدرتی مناظرکی مدد سے جاذب نظر اور پر کشش بنایا گیا ہو اور کتابوں کی اشاعت و طباعت معیاری ہو۔ ادب اطفال کی تیاری میں بچوں کی دلچسپی کو قائم رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے اگر کسی سطح پر بھی  مندرجہ بالا باتیں بچوں کا نصاب تیار کرتے وقت  پیش ِ نظر نہیں رہیں گی تو وہ  اسے نصاب کی کمزوری سمجھا گائے گا۔ نصاب کی کوتاہیاں بچوں کی طبیعت میں اچاٹ پن لے آتی ہیں۔ ادبِ اطفال میں ایک اہم چیز سائنٹفک temperament.کو ہونا ہے یعنی بچوں کے نصاب میں منطقی دلائل  سے چیزوںکادیکھنا  اور سمجھنا چاہیے۔یہ بھی ضروری ہے کہ بچے پڑھتے اور سمجھتے وقت کسی تناؤ اور الجھاؤ کا شکار نہ ہوں ورنہ ہم انھیں وہ نہیں دے پائیں گے جو انھیں دینا چاہتے ہیں۔ یہاں ہم شعری آہنگ سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو چیزیں یاد کرانے اور یاد رکھنے میں بچوں کی مدد کرتی ہیں اس طرح بڑی بڑی باتیں چھوٹے چھوٹے  اندازمیں ان تک پہنچ سکتی ہیں۔سیکھتے وقت ایسا کھلا ماحول ہونا چاہیے کہ کھیل کھیل میں ان تک باتیں پہنچتی رہیں۔یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ادب ِ اطفال ہمارا ساتھ دے۔

ادبِ اطفال کے موضوعات میں تنوع ہونا چاہیے۔ وطن سے پیار، بڑوں کا ادب و احترام، صفائی ستھرائی، صحت و تندرستی، جانوروں سے محبت، امن و شانتی، جھوٹ و فریب سے نفرت، غریبوں اور کمزور طبقوںکی مدد اور ان کی عزت  وغیرہ  کے علاوہ بچوں کی دلچسپی کے متعدد ایسے موضوعات ہیں جو ادب  ِ اطفال کا موضوع بنتے رہے ہیں لیکن یہاں عصری تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جیسے گلوبل وارمنگ کے مسائل،  ا ٓ لودگی کے مسائل، دہشت گردی اور مذہبی جنون سے پیدا ہونے والے مسائل، ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے سامنے آنے والے مسائل، برقی میڈیا کے مثبت اور منفی پہلو، ٹوٹتے سماجی رشتوں کے نقصانات وغیرہ۔ظاہر ہے یہ موضوعات بچوں کے لیے کافی مشکل اور بھاری بھرکم ہیں لیکن عصرِ حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادب ِ اطفال سے انھیں یکسر خارج نہیں کیا جا سکتا۔ ہم کم سے کم اشاروں اورکنایوں میں ان باتوں کو اٹھا کر انھیں  بچوں کے شعور کا حصہ بناسکتے ہیں۔ زبان سلیس و سادہ اور لہجہ یقیناََ دھیما ہوگا۔

ہمارے یہاں اردو میں بچوں کا جو ادب دستیاب ہے، اس میں ترمیم و اضافے کی بڑی گنجائشیں ہیں۔ اول تو وہ بہت کم لکھا گیا ہے۔ دوسرے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ محدود موضوعات ہیں۔بچوں کی نفسیات کے عین مطابق بھی نہیں ہے۔ افادیت سے محروم ہے۔ جدید حسیت کی عکاسی نہیں کرتا۔ طباعت و اشاعت بھی اچھی نہیں ہے۔ان باتوں کے علاو ہ  بچوں کے اندر نہ سائنٹفک شعور  پیدا کرتا ہے اور نہ ان میں      innovativeness لاتا ہے۔ اردو میں ادب ِ اطفال سے متعلق رسائل اور جرائد کی بھی کمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نثرکے مقابلے میں نظم کی گئی بات  زیاد ہ ا ٓسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے اور یاد بھی رہ جاتی ہے۔شاید اسی لیے اردو میں منظوم قواعد لکھی گئیں۔ اردو میں ادب ِ اطفال کی روایت کافی پرانی ہے۔  یہ سلسلہ اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں سے شروع ہوتا ہے۔ اردو میں ادب ِ اطفال کے موضوعات اس طرح ہیں: 

1.     زبان کی درس و تدریس میں تلفظ اور قواعد کے اصول

2.     مناظر ِ قدرت کا بیان

3.      وطن پرستی اور قومی یکجہتی

4.      انسان دوستی اور محبت و اخوت

5.      مذہبی عقائد اور سماجی ذمے داری

6.      پرندوں اور چرندوں سے پیار

7.      اخلاقی اقدار

8.      تہذیبی و ثقافتی زندگی کی عکاسی

9.      علم کے حصول کی اہمیت و افادیت

10.    اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات کو خراجِ عقیدت  وغیرہ

ادب  اطفال کے یہ متنوع موضوعات  بتاتے ہیں کہ مادی زندگی کے مقابلے میں ہمارا زیادہ زوراخلاقی اور روحانی اقدار پر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادب ِ اطفال میں دو اہم باتیں نہیں ہیں یعنی  temprament scientific  اورinnovation  جن کی بچوں کی ذہن سازی  میں بڑی اہمیت ہے۔ اردو میں بچوں کو زبان سکھانے کے جوطریق کار دستیاب ہیں وہ غیر سائنٹفک ہیں ۔ زبان سیکھنے اور سکھانے کی جدید تکنیک کوبروئے کار نہیں لایا گیا ہے۔ تلفظ کی مشقوں کے لیے بھی  صوتی عمل خانوں  میں کوئی مواد دستیاب نہیں ہے۔ سلائڈ،  تصاویر، خاکوں اور نقشوں کا بھی  رواج نہیں ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تلفظ اور قواعد کے تعلق سے  اردو میں جو مواد ملتا ہے اس میں منظوم مشقیں بھی شامل ہیں۔ کردار سازی اور اخلاقی رویوں کو لے کر  ادب ِ اطفال میں جو تحریریں سامنے آئیں ان میں پہلا بڑا نام نظیر اکبرآبادی کا ہے جنھوں نے صحیح معنو ں میں اردو میں ادب ِ اطفال کی بنیاد ڈالی اور بچوں کے لیے مختلف موضوعات پر لکھا۔ اس میں بچوں کے تلفظ کو معیاری بنانا بھی شامل ہے۔ نظیر اکبرآبادی نے بچوں کے احساسات و محسوسات کو بھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا اور ایسی باتوں سے گریز کیا جو ان کی شخصیت  میں جذباتی بکھراؤ پیدا کریں۔ وہ خود بھی استاد تھے اور بچوں کی نفسیات اور ان کی دلچسپیوں کو سمجھتے تھے۔بچوں کی فرمائش پر بھی انھوں نے کئی نظمیں لکھی ہیں۔مثال کے طور پربرسات کی بہاریں، عید، ہولی، جاڑے کی بہاریں، آدمی نامہ ‘   ان کی مشہور نظمیں ہیں جو اردو کے ادب ِ اطفال میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ۔

انجمن پنجاب، لاہور نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا تھا جس میں اردو شاعری کی ایک صنف ’ نظم‘ متعارف ہوئی۔ اردو کے مشہور و معروف شعرا اور ناقدین نے اس مشاعرے میں شرکت کر کے اپنا کلام سنایا۔اس محفل میں محمد حسین آزاد ، الطاف حسین حالی اور اسمٰعیل  میرٹھی بھی تھے جنھوں نے اپنی نظمیں سنائیں جو بہت پسند کی گئیں۔ اسمٰعیل میرٹھی کواپنی نظموں کی وجہ سے ادب ِ اطفال کا شاعر کہا گیا کیونکہ ان کی زیادہ تر نظمیں بچوں کے لیے تھیں۔ ان کے کلام میں اخلاقی اقدار کے علاوہ سماجی ذمے داریوں اور رویوں کو لے کر بچوں کی ذہن سازی کی گئی تھی۔بچوں کی نفسیات اور دلچسپیوں کو لے کر ان کے لیے نصاب بھی تیار کیے۔ انھوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھا یا جو وقت کی ضرورت تھے۔ان کی نظم چھوٹی چیونٹی، پن چکی ،  ہماری گائے، شیر، ماں اور بچہ، کچھوا اور خرگوش اتنی مقبول ہوئیں کہ یہ آج بھی بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی اگر ان کے تحریر کردہ ادب ِ اطفال کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں موسم ، جاندروں سے محبت، میلے اور تیوہار، کھیل کود، سماج رشتے وغیرہ اہم ہیں۔ سر محمد اقبال نے بڑے خوبصورت انداز میں بچوں کے لیے لکھا ہے جسے ہم ادب ِ اطفال میں شاہکار کہہ سکتے ہیں۔ان کی نظم  ’ترانہ ہندی‘  اتنی مقبول ہوئی کہ ایک طرح سے قومی ترانہ بن گئی۔ دوسری مشہور نظم’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘ بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی جو  آج بھی اسکولوں میں بچوں کے نصاب کا حصہ ہے۔ ایک گائے اور بکری ،  ایک پہاڑی اور گلہری،  ماں کا خواب بھی اپنے زبان و بیان  اور اسلوب و آہنگ کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ علامہ اقبال کی بچوں کی نفسیات پر گہری نظر تھی اس لیے ان کی ہر نظم گہرے تاثر چھوڑتی ہے۔ عہد طفلی، طفل شیر خوار،بچہ اور شمع نظمیں بھی ایک کارنامہ ہیں۔ علامہ اقبال کی نظم ایک آرز و کا مرکزی خیال انگریزی سے ماخوذ ہے لیکن وہ بھی اپنی مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑتی ہے۔

تلوک چند محروم کا نام بھی اردو کے ادب ِ اطفال میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ  خودبھی بچوں کے استاد تھے اور ان کی نفسیات کو سمجھتے تھے۔انھوں نے بچوں کے لیے کئی خوبصورت نظمیں لکھیں ہیں؛ جیسے بچوں کا سویرے اٹھنا، اچھے کام، کتاب، بلبل، صفائی، اچھا آدمی، پھول برسات وغیرہ۔ اردو کے مشہور شاعر حفیظ جالندھری نے بھی بچوں کے لیے لکھا۔ ان کا موضوع بچوں کے  اندر خود اعتمادی اور ایثار و قربا نی کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔  نمائندہ نظموں میں  خدا سب کو دیکھتا ہے،   بول میرے مرغے بول،  سورج،  بہادر کسان ، گرمی کی رت آئی،  بیساکھی کا میلا، تاروں کی محفل  وغیرہ ادب ِ اطفال کا بہترین سرمایہ ہیں۔ شفیع الدین نیر بھی ادب ِاطفال میں ایک بڑا نام ہے۔ انھوں نے مختلف عمر کے بچوں کے لیے نفسیاتی، جذباتی، فکری اور سماجی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ نظموں کے موضوعات میں ایثار، دوستی ، محبت، صفائی ستھرائی کے علاوہ جانوروں، پرندوں اور پھولوں کی رنگ و بو کو لے کر کئی اچھی نظمیں لکھی ہیں۔ انھوں نے نظموں کے علاوہ نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھی ہیں۔ حامد اللہ افسر،  راجہ مہدی علی خاں، اندر جیت لال ، لطیف فاروقی،  صوفی تبسم، مائل خیرآبادی وغیرہ کے نام بھی اہم ہیں جنھوں نے ادبِ اطفال میں گرانقدر اضافے کیے ہیں۔

ادبِ  اطفال کے تعلق سے اگر نثری کاو شوں پر نظر ڈالیں تو کئی ایسے نام سامنے آئیں گے جو اردو فکشن کے بڑے ادیب ہیں لیکن انھوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا ہے؛  جیسے حیات اللہ انصاری، کرشن چند ر، قرۃ العین حیدر وغیرہ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جو بعد میں صدر جمہوریہ ہند بھی ہوئے، انھوں نے بھی بچوں کے لیے کہانیاں لکھی ہیں۔ جہاں تک بچوں کے رسائل کا تعلق ہے، ان میں پھول، کلیاں، غنچہ، بچوں کی دنیا،کھلونا ، چاند ، ہلال ، نور، بچوں کا آجکل ، امنگ وغیرہ اہم ہیں۔


حواشی

1.           اردو ادب اطفال کے معمار، مصنف،  ڈاکٹر خوشحال زیدی، نہرو چلڈرن اکیڈمی،  (سنہ اشاعت، جنوری 1993)

2.    بچوں کے ادب کی تاریخ،مصنف،  ڈاکٹر سید اسرارلحق سبیلی (اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

3.    ادبِ اطفال ایک مطالعہـــ، مصنف ڈاکٹر بانو سرتاج، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی

 

Helal Ahmad Ganai

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی، مضمون نگار: یاسمین رشیدی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 بیتال پچیسی کو 1803/1805 میں مظہر علی خاں ولا نے اردو میں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ کہانیاں راجا جے سنگھ سوائی...