27/9/22

علامہ سید سلیمان ندوی کے سفرناموں پر ایک نظر: طلحہ نعمت ندوی


اردو اصناف ادب میں سفر نامہ نگاری کی جو اہمیت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی ادبی خدمات کی وسعتوں سے ادب کی یہ صنف بھی باہر نہیں،انھوں نے اس صنف میں بھی اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں، اگر چہ اس صنف میں باضابطہ ان کے ایک ہی سفر نامے کا ذکر ملتا ہے اور وہ سفرنامۂ افغانستان ہے۔

باضابطہ سفر نامے کی حیثیت سے گرچہ سید صاحب کی یہی ایک کتاب متعارف ہے جو اپنی اہمیت میں کچھ کم نہیں، اور اس صنف کا بیش قیمت اثاثہ ہے، اگر انھوں نے اس صنف میں کچھ نہ بھی لکھا ہوتا تو بھی ان کی عظمت کے اظہار اورانھیں ایک کامیاب سفر نامہ نگار ثابت کرنے کے لیے ان کی یہی کتاب کافی تھی جو سفر نامہ نگاری کے جدید اصولوں پر پوری اترتی ہے۔لیکن سید صاحب کے اور بھی سفر نامے ہیں جو ان کی تحریروں میں منتشر ہیں۔ ذیل میں ان پر ایک روشنی ڈالی جاتی ہے۔

سید صاحب نے اپنے ملک میں بے شمار سفر کیے، اور بیرون ملک ان کے تین سفر ہوئے۔پہلا سفر یورپ کا ہوا جس میں سید صاحب نے تقریباً آٹھ ماہ یورپ کے مختلف ملکوں انگلستان، فرانس، اٹلی اور سوئزرلینڈ میں گزارے۔

ارباب ادب و تنقید نے سفر نامہ کے طریقوں میں ایک طریقہ خطوط کی تکنیک کو بھی قرار دیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ مجموعۂ خطوط سفرنامہ کے اصولوں پر پورا اترتا ہے اور خطوط اورسفر نامہ دونوں صنفوں کا جامع اور دونوں کی خصوصیات کا حامل ہے،اور دونوں اصناف میں اس کا ادبی مقام مسلّم ہے۔

سید صاحب نے مقدمہ میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دیگر کاموں کے ساتھ ان کی ایک ذمے داری یہ بھی تھی کہ ہر مہینے ہفتے بھر کی رفتار کا راور کاموں کی رودادلکھ کرہندستان بھیجیں، چنانچہ وہ اس ذمے داری کو پوری تندہی سے انجام دیتے رہے۔

سید صاحب ان خطوط پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ خطوط اب محض تاریخی ہیں، افسوس ہے کہ میری قسمت ماضی کی ورق گردانی سے کچھ ایسی وابستہ ہو گئی ہے کہ حال بھی ماضی ہی بن کر سامنے آتا ہے، یہ خطوط اگر آج سے بیس سال پہلے شائع ہوتے تو ایک سیاحت نامہ کا کام دیتے، مگر اب بیس برس کے بعد ان کی اشاعت صرف تاریخی افادیت رکھتی ہے، ان سے آج سے بیس برس پہلے کے ہندوستان اور دنیائے اسلام اور یورپ کی سیاست کی وہ تصویر نظرآتی ہے جو میرے قلم نے کھینچی تھی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا نقشہ گو بدل چکاہے، ایسی حالت میں نہیں کہا جا سکتا کہ کیا چیز باقی ہے کیا چیز مٹ گئی، تاہم ایک تاریخی دستایز ہے۔‘‘ (برید فرنگ، ص 51)

اس سلسلے میں برید فرنگ کے متعلق انور سدید کا یہ تجزیہ اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ:

’’سید صاحب نے یورپ کو اپنے معتقدات کی روشنی میں دیکھا،لیکن جہاں یورپ کے محاسن اور ترقی کے آثار نظر آئے وہاں اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرنے میں کوتاہی نہیں کی،یہی وجہ ہے کہ ان کا سفرنامہ برید فرنگ ایک کشادہ نظر اور حقیقت جو ادیب کا تجزیاتی سفرنامہ نظر آتا ہے۔‘‘ (اردو ادب میں سفرنامہ، ص 241)

برید فرنگ کے علاوہ حسابات وفد خلافت کے نام سے ایک کتابچہ بھی سید صاحب کے مقدمے کے ساتھ شائع ہوا تھا اس میں بھی سفر یورپ کی کچھ روداد ہے۔

سید صاحب نے سفر یورپ کے بعد 1924 میں حجاز کا سفر کیا، پھر دو سال کے وقفے کے بعد 1926 میں حجاز کا دوسرا سفر ہوا، پہلے سفر حجاز میں مصر بھی جانے کا موقع ملا۔  پھر 1933 میں افغانستان کا سفر ہوا۔

اس کے بعد بیرون کا کوئی سفر نہیں ہو سکا، کئی علمی کانفرنسوں کے دعوت نامے بھی آئے لیکن شرکت کا موقع نہیں مل سکا۔

سیدصاحب نے حجاز کے دو سفر وفدخلافت کے ساتھ کیے تھے جس میں پہلے سفر میں مصر کی سیاحت بھی شامل تھی۔ ان کا تیسرا اور آخری سفر خالص حج کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان منتقل ہونے سے کچھ دن قبل 1949 میں ہوا تھا۔بیرون ہند کے اسفار میں یورپ کی روداد ’برید فرنگ ‘ مرتب کرکے خود سید صاحب نے اہل علم کے سامنے پیش کر دی تھی، اور سفر افغانستان کی مفصل روداد بھی تحریرکر دی، لیکن حجاز کے ان اسفار میں سے کوئی بھی سفر باضابطہ مرتب شکل میں سید صاحب کے قلم سے منظر عام پر نہیں آسکا۔ سید صاحب ان تینوں اسفار کو بھی آخری عمر میں کراچی کے دوران قیام مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کا ارادہ خود سیدصاحب کے قلم سے تو کہیں نہیں ملتا، البتہ سید صاحب کے شاگردمولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:

’’سفر نامہ بھی استاد مرحوم کی تصنیفات میں شامل ہے، سیاحت افغانستان کی رودادمفصل معارف میں لکھی تھی۔۔۔۔۔عرب ملکوں کا سفر نامہ بھی ’میرے عرب کے تین سفر‘ کے نام سے مرتب کر رہے تھے مگر یہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

(چراغ راہ کراچی، مضمون ’سید سلیمان ندوی مرحوم‘ مارچ 1954)

لیکن سید صاحب کی منتشرتحریروں میں کافی متعلقہ مواد موجود ہے جنھیں جمع کرکے سید صاحب کے حجاز و مصر کے تینوں سفر نامے مرتب کیے جا سکتے ہیں،گرچہ اس میں تشنگی باقی رہے گی اور تمام پہلؤوں کااحاطہ نہیں ہوسکتا لیکن کچھ تلافی تو ضرور ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ سید صاحب نے اس سفرنامۂ حجاز کے لیے بہت کچھ مواد اپنی ڈائری میں جمع کر لیا تھا،اور یاد داشتیں بھی نوٹ کی تھیں، اس کا اشارہ خود  سید صاحب کی ایک تحریر میں ملتا ہے، سفر حجاز 1926 سے واپسی کے بعد سید صاحب نے معارف میں سب سے پہلے جوشذرات لکھے اس میں اپنے سفر کا اجمالی ذکر کیا جس کا آغازان الفاظ سے ہوتاہے:

’’الحمدُللہ کہ ساڑھے تین مہینے کی غیر حاضری کے بعد فریضۂ حج و زیارت سے مشرف ہو کر آج معارف کا ایڈیٹر آپ کی خدمت میں پھر حاضر ہے، ان ساڑھے تین مہینوں میں آنکھوں نے جو کچھ دیکھا،کانوں نے جو کچھ سنا اور دل نے جو کچھ مشاہدہ کیا یہ داستان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ان صفحات کے ذریعے کبھی کبھی آپ تک پہنچے گی۔‘‘ (شذرات، معارف شمارہ 3، ج8)

انہی شذرات میں اگلے صفحے میں تحریر کرتے ہیں:

’’مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک کی بارہ منزلیں نہایت آسانی سے طے ہوئیں،اور ہر منزل میں ایک نئی دلچسپی نظر آتی تھی،میں نے کوشش کی ہے کہ ہر منزل کی قلمی تصویر ناظرین کی چشم خیال تک پہنچاسکوں۔‘‘

پھر مسجد نبوی کے ذکر میں لکھتے ہیں:

’’اس مسجد کا تاریخی نقشہ ہاتھ آیا ہے کبھی وہ آپ کے سامنے بھی آئے گا۔ اسی کے ساتھ مسجد نبوی کی موجودہ صورت و شکل و خصوصیات کی الفاظ و حروف کے رنگ میں میں نے تصویراتاری ہے وہ بھی آپ دیکھیں گے۔‘‘

 ان تمام اقتباسات اور جملوں سے صاف ظاہر ہے کہ سید صاحب نے اپنے سفر حجاز 1926 کی یاد داشت اور مشاہدات کی کئی اہم یادگاریں نوٹ کر لی تھیں،بلکہ انھیں ایک حد تک قلمبند بھی کر لیا تھا لیکن شایدوہ انھیں جن دیگر مباحث کے ساتھ ہدیہ ٔناظرین کر نا چاہتے ہوں گے اس کی ترتیب و تکمیل کاانھیں موقع نہیں مل سکا،البتہ ان شذرات میں جن کتب خانوں کا اجمالی ذکر کیا گیا ہے ان پر سید صاحب کا مفصل مضمون، (جس میں مخطوطات کا مفصل ذکر ہے ) ’حجاز کے کتب خانے‘ کے عنوان سے معارف میں شائع ہوا تھا،بقیہ نوٹس ان کی ڈائری میں شاید محفوظ ہوں،لیکن اس ڈائری کا اب کوئی سراغ نہیں ملتا، شذرات کے مختصر سفر نامے کے ساتھ اگر اس مضمون کو مرتب کر دیا جائے نیز کچھ مباحث رپورٹ وفد خلافت 1926 سے اخذ کر کے اضافہ کردیے جائیں تو ایک حدتک اس سفر کے اہم واقعات ناظرین کے سامنے آجائیں گے۔

1924 میں جو وفد خلافت خود سید صاحب کی قیادت میں حجاز گیا تھا۔ اور جس میں مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا عبدالقادر قصوری سید صاحب کے رفیق سفر تھے، اس کی رپورٹ اسی وقت مرتب ہوئی تھی جس کا اغلاط سے پر ایک بوسیدہ نسخہ بعض کتب خانوں میں محفوظ رہ گیا ہے، اس میں سفر کی پوری روداد موجود ہے۔ بمبئی سے روانگی سے واپسی تک کا ایک اجمالی ذکر ہے۔اس کے علاوہ وہاں کے ارباب حل و عقد سے جو ملاقاتیں اور باتیں ہوئیں، جومراسلات ہوئے ان کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے۔ افسوس ہے کہ ان مراسلات اور انٹرویوز کی عربی اصل دستیاب نہیں کہ ترجمے سے ان کا موازنہ کیا جا سکے۔ مراسلات کے یہ ترجمے بظاہر کسی اور کے قلم سے ہیں،اس لیے کہ ان میں ترجمہ پن نظر آتا ہے،اور وہ بڑی تعداد میں ہیں، اس لیے پڑھنے والے کو شاید سید صاحب کے اسلوب پر شبہ ہو تو عجب نہیں،لیکن اگر ان تراجم کے علاوہ بقیہ تحریر دیکھی جائے تو اس میں سید صاحب کے طرز انشا کی پوری جھلک موجودہے، اس لیے قیاس یہی ہے کہ سید صاحب نے ہی اصل رپورٹ مرتب کی ہوگی اور مراسلات کا ترجمہ کسی اور نے کیا ہوگا۔ یہ مراسلات اکثر سید صاحب ہی نے عربی میں لکھے تھے۔ اصل مطبوعہ رپورٹ پر تینوں ارکان وفد کا نام درج ہے۔  1925 کے معارف کے شمارے میں سید صاحب نے’جزیرہ عرب کی تعلیمی حالت ‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں اپنے مشاہدات ذکر کیے، یہ بھی اسی وقت یاد داشت کے طور پر تحریر کیا گیا ہوگا جو بعد میں مرتب کرکے شائع کیاگیا۔

اس سفر میں سید صاحب کو جدہ سے آگے جانے کی اجازت نہیں ملی اس لیے سید صاحب زیارت حرمین سے مشر ف نہ ہو سکے تھے، چند دنوں کے انتظار کے بعد سید صاحب وہاں سے مصر تشریف لے گئے، اور مصر کے علما سے اپنے مدعا پر تبادلۂ خیال کیا،جن میں سب سے نمایاں نام شیخ ازہر مصر اور سید رشید رضا مصری کا ہے، سید صاحب نے وہاں کے سر گرم  اور سر گرم عمل جمعیات اور انجمنوں کا اخیر میں تعارف بھی کرایا ہے۔ا گر چہ یہ در حقیقت رپورٹ ہے اس لیے اس میں سفر نامے کی ساری تفصیل تلاش کرنا مشکل ہے لیکن اس کے مشمولات سفر نامے کی شرائط پر پورے اترتے ہیں۔ سید صاحب نے اپنے دونوں اسفار حجاز میں اپنے اعزہ کو وہاں کی کوئی رپورٹ نہیں بھیجی،اگر وہ خطوط میں برید فرنگ ہی کی طرح اس سفر کی تفصیلات بھی بھیجتے رہتے تو ’برید حجاز‘ یا’ برید عرب‘ کا مرتب ہونا بھی مشکل نہیں تھا،اور اس کے بعد سفرنامے کی تشنگی نہیں باقی رہتی۔ چند اشارات ان دستیاب خطوط میں ملتے ہیں جو اعزہ و اہل وطن کے نام لکھے گئے۔ممکن ہے کہ سید صاحب نے خطوط لکھے ہوں اور پھر جیسا کہ برید فرنگ کو مرتب کرنے کے لیے وہ خطوط منگوا لیے تھے اسی طرح حجاز کے خطوط بھی منگوائے ہوں اور انھیں بھی اسی طرح مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں جس کا مولانا مسعود عالم ندوی نے ذکر کیا ہے، لیکن یہ کام نہیں ہوسکا اور اب ان خطوط کا سراغ بھی نہیں ملتا،نہ عبدالحکیم رحمانی صاحب کے نام لکھے گئے خطوط کے قلمی مجموعہ میں وہ موجود ہیں۔

سید صاحب کا تیسرا سفر خالص حج کے لیے تھا،اس لیے سید صاحب نے اس میں یاد داشت مرتب کرنے کی طرف شاید بہت زیادہ توجہ ہی نہیں دی اور ان کی پوری توجہ عبادت و دعا ہی پر مرکوز رہی۔سید صاحب نے اپنے خانوادے کے بزرگ سید عبدالحکیم صاحب رحمانی کو حج کی واپسی کے بعد جو خط تحریر فرمایا اس میں لکھا تھا کہ اس دفعہ قلم چھونے کو دل نہیں چاہا۔اس سفر میں جب سید صاحب جہاز سے بندر گاہ جدہ پر اترے تو سعودی بادشاہ ملک عبدالعزیز( جن کو پہلے سے سید صاحب کی آمد کی اطلاع تھی ) کا قاصدسید صاحب سے بندرگاہ پر ملا اور شاہی پیغام سنایا کہ وہ حکومت کے مہمان ہوں گے، لیکن سید صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس سے قبل میں سیاسی حج کر چکا ہوں اور اس مرتبہ خالصۃً لوجہ اللہ حج کے لیے حاضر ہوا ہوں اس لیے اس کی قبولیت سے معذرت ہے، اس کے بعد عبدالعزیزبن سعود نے ان کی خدمت میں پر تکلف شاہی دستر خوان بھیجا،اس کی تفصیل ان کے فرزندمولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی مدظلہ کی زبانی سنیے:

جدہ کی بندرگاہ پر اترتے ہوئے سلطان عبدالعزیز آل سعود کاایک ایلچی والد ماجد سے ملا اور سلطان کا پیغام پہنچایا کہ آپ اورآپ کے ہمراہ افراد سلطان کے شاہی مہمان ہوں گے،سلطان سے چونکہ والد ماجد کی ملاقات 1924 اور1926 میں ہوچکی تھی اس لیے سلطان نے اخلاقی فرض سمجھا کہ وہ ہم سب کواپنا مہمان بنائیں، والد صاحب نے جواب دیا کہ سلطان کو میرے انتہائی مخلصانہ جذبات کا پیغام دیں اور شکریے کے ساتھ یہ کہیں کہ میں اس سے قبل دو(سید صاحب کو پہلے سفر حجاز میں جدہ سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ملی تھی، اس لیے اس سے پہلے حج ایک ہی ہوا تھا 1926 میں) سیاسی حج کرچکا ہوں اس بار صرف اللہ کے لیے حج کی نیت ہے ۔۔۔۔۔سلطان مرحوم کے اخلاق کی بھی تعریف کرنی پڑتی ہے کہ انھوں نے دوپہر کے کھانے کی دعوت کا اہتمام کیا،اور اس کے علاوہ والد ماجد کو اور مجھے خلعت سے نوازا۔‘‘ (قلمی ایک تحریر مملوکہ راقم)

اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب نے سید صاحب کے دوسرے اہل علم سے ملاقات کی تفصیل لکھی ہے۔

نیز پروفیسر عبدالمنان صاحب بیدل صدر فارسی پٹنہ یونیورسٹی بھی سفر حج میں ساتھ تھے،انھوں نے معارف کے سلیمان نمبر میں ’ سفر حجاز کے تاثرات‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس سے اس سفر حج پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔

سید صاحب کے ملکی اسفار :    ان تین غیر ملکی اسفار کے علاوہ سید صاحب نے ملک میں کثر ت سے سفر کیے،ان کو مختلف کانفرنسوں، علمی مجلسوں میں اور ملی کاموں کے لیے مدعو کیا جاتا اور سید صاحب کی شرکت سے ان جلسوں کی رونق دوبالا ہو جاتی،جا بہ جا سید صاحب کی تقریریں ہوتیں۔ ان تمام اسفار کی روداد تو محفوظ نہ رہ سکی البتہ بہت سے اسفار کا اجمالی تذکرہ سید صاحب نے واپسی کے بعد اپنے شذرات میں تحریر فرمایا تھایہی اجمالی ذکران کے ملکی اسفار کا مرقع بن گیا۔ اس سلسلے میں جو کچھ سرمایہ ان کی تحریروں میں موجود ہے وہ شذرات ہی کے ذیل میں لکھی گئی تحریریں ہیںجس میں کہیں تو عنوان درج ہے اور کہیں نہیں،کوئی پورے شذرات کو محیط ہے کوئی چند سطروں میں یا ایک دو صفحات میں ہے،ایک دو تحریریں اس  سے الگ ہیں۔سید صاحب کے دستیاب سفرناموں میں ان کا سب سے پہلا سفرنامہ بہ شکل مکتوب ہے۔1912 میںسید صاحب نے بنگلور، میسور اور دیگر جنوبی علاقوں کی سیاحت کی، ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضر ہوئے اور واپسی کے بعد اپنے ہم وطن بزرگ اور رشتے کے چچا مولوی سید عبدالحکیم رحمانی دسنوی کے نام مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں پورے سفر کی روداد اوراپنے تاثرات بیان کیے،یہ مکتوب صرف سفر ہی کی روداد پر مشتمل ہے، مکتوب الیہ نے اسے 1940  میں ماہنامہ ندیم (گیا) کے کسی شمارے میں اشاعت کے لیے بھیجا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ مکتوب الیہ کے نام سید صاحب کے مکاتیب کے ضمن میں سب سے پہلے معارف میں شائع ہوا اور اب حیات سلیمان میں بھی شامل ہے،ایک مفصل خط بمبئی کی روداد سفر پر مشتمل ہے جو اب تک قلمی ہے اور سید صاحب کے مکاتیب بنام مولانا عبدالحکیم رحمانی میں شامل ہے، اسی طرح ایک مضمون سید صاحب نے ’سفر گجرات کی چند یادگاریں‘ کے نام سے لکھا تھا،یہ در حقیقت وہاں کے بعض نوادرات اور اردو کی چند قلمی تحریروںکے تعارف پرمشتمل ہے،اسی لیے سید صاحب نے موضوع کی مناسبت سے اسے ’نقوش سلیمانی‘ میں شائع کر دیا ہے لیکن اس میں سفر کا اجمالی ذکر بھی ہے، اس لیے بقول شخصے اسے سفر گجرات کا رپورتاژ کہنا چاہیے۔

سفر لندن کے دوران سید صاحب نے ایک مضمون ’انڈیا آفس میں اردوکا خزانہ‘ لکھ کربھیجا تھاجو اسی وقت معارف میں شائع ہوگیا تھا،یہ بھی درحقیقت ان کے سفرنامے ہی کا حصہ ہے۔

’نالندہ کی سیر‘ کے عنوان سے سیدصاحب نے مئی 1935 میں اپنے علاقۂ بہارشریف کے قریب نالندہ کے آثارقدیمہ کی زیارت کے بعد معارف میں موقعے کی مناسبت سے مختصرروداد سفر بیان کرتے ہوئے ایک تاریخی مضمون لکھا تھا،اس میں سفر کی روداد اجمالی ہے، بقیہ تاریخی مباحث ہیں۔

دارالمصنّفین میں سید صاحب کے کاتب و مسودہ نویس اور دارالمصنّفین کے مصحح ابوعلی عبدالباری اثری صاحب کا تحریر کردہ ایک قلمی مجموعہ ہے جس کے سرورق پر ’سفرنامہ حضرت علامہ سید سلیمان ندوی ‘ لکھا ہے، اس میں عبدالباری صاحب نے سید صاحب کے تمام شذرات سے منتخب کر کے ان کے اسفار کو یکجا کر دیا ہے لیکن اس میں بہت سے غیر متعلقہ مباحث بھی آگئے ہیں اور بہت سامتعلقہ مواد شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔ الغرض اگران شذرات سے سید صاحب کے اسفار کو یکجا کر دیا جائے تو ایک اہم مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ سید صاحب کے ان شذرات میں جن مقامات کی سیاحت کا ذکر زیر قلم آیا ہے ان میں اکثر جنوبی ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔رانچی کے سفر کا ذکر بھی بہت خوبصورت پیرایے میں کیا گیا ہے،اور لاہور،پشاور اور بمبئی کے اسفار کا بھی ذکر ہے،ان اسفار کی ایک اجمالی فہرست ذیل میں دی جارہی ہے۔

  1.         ناگپور کا سفر/ معارف،اپریل 1918
  2.         مئو کا سفر، معارف،فروری 1919
  3.         بھوپال کا سفر، معارف،ستمبر 1919
  4.         علی گڑھ ودہلی کا سفر ، معارف،فروری 1923
  5.         مدراس کا سفر، معارف، اکتوبر1925
  6.         ترپاتور(مدراس) کا سفر، معارف، دسمبر1925
  7.         امبالہ کا سفر
  8.         رانچی کا سفر، جون 1924
  9.         عمرآباد(مدراس) کاسفر ، اکتوبر1938
  10.       مدراس، بمبئی، حیدرآباد، بھوپال اور واردھا کا سفر، اپریل تا دسمبر1945
  11.       دکن(بعنوان میرامختصر سفر دکن) اکتوبر1937
  12.       پشاور،لاہور،بھاول پور کا سفر، مئی1949
  13.        حیدرآباد،پونہ وبمبئی کا سفر،جنوری 1940
  14.       ترچناپلی(مدراس) کا سفر 1927

یہ ایک سرسری خاکہ ہے سید صاحب کے ان اسفار کا جن کا ذکر معارف میں آیا ہے،ممکن ہے اس کے علاوہ بھی معارف یا دیگر رسائل میں کچھ میں کچھ لکھا گیاہو۔اخیر میں سید صاحب کا بمبئی کا ایک سفرنامہ جو بہ شکل خط  ہے اور اب تک قلمی ہے پیش کیا جارہا ہے،اس سے سید صاحب کی دقت نظر،واقعات پر غور اور اس کو معاصر اسلوب میں پیش کرنے کا سلیقہ معلوم ہوگا،اور سفرنامے کے لوازم اس میں پورے طور پر نظر آئیں گے۔

پاٹل جی ہوٹل بائی کلہ،۔بمبئی   

جناب مکرم!                  السلام علیکم !

والانامہ ملا، میں آپ کو خط لکھ رہاہوںاور پس دیوار گرجاسے ننوں کے نغمات مناجات دل کھینچ رہے ہیں، لیکن نہیں !میں سنبھلا بیٹھا ہوں۔

بمبئی یورپ کا ایک ٹکڑا ہے، یا ایشیاکا یورپ ہے، سڑکیں نہایت کشادہ اور وسیع۔

لطیفہ: ایک دن مولانا اور بیدل شاہجہاں پوری کے ساتھ اپالوبندر گیا، مولانانے کہاکس قدر سڑکیں کشادہ ہیں، میں نے ہنس کر کہا جتنی کشادہ سڑکیں ہیں، اتنی کشادگی میں تو ہمارے گائوں آبادہیں، سب لوگ بے اختیار ہنسنے لگے، میں نے جو کچھ کہامبالغہ نہیں واقعہ ہے۔

ہر دو فرلانگ پر تقریباً یہاں چوراہاہے، چوراہے میں ابتدا سے انتہا تک ایک ہی قسم کی عمارت کاایک سلسلہ ہے، سلسلے کی ابتدائی اور انتہائی عمارت ہمیشہ مثلث ہوتی ہے، تاکہ چوراہے کی وسعت میں فرق نہ ہو۔

جس طرح دس پندرہ قدم پر آپ نے لکھنؤ میں بالائی کی دوکان دیکھی تھی، ویسے ہی یہاں کھانے کے ہوٹل ہیں، ہمارے خیال میں شہر کاتقریباً ایک چوتھائی حصہ ہوٹلوں میں کھاتاہے، ہوٹلوں میں سنگ مرمر کی میزیں جابجا پڑی ہیں، اردگرد سیاہ گول کرسیاں ہیں، ایک میز کے سامنے کسی کرسی پر جا بیٹھا، نوکر ادھر ادھر کھڑے ہیں، ادھر آنابھئی !ایک پلیٹ بریانی، ایک پلیٹ قورمہ دینا،سامنے لاکر رکھ دیا، کھانا کھایا، دروازے پر پہنچا، وہاں صاحب ہوٹل بیٹھاہے، پیچھے سے آواز آئی،چھ آنے۔

یہاں کم ازکم ایک آدمی 3روز کھاسکتاہے، زائد کی حد نہیں، آج راج محل ہوٹل میں مولانا کے ساتھ گیا، بریانی کی ایک پلیٹ8؍ کو ملی، عموماً کافی کی چھوٹی پیالی دو پیسے کو، اور چائے کی چھوٹی پیالی ایک پیسے کی، ہوٹل کے مالک زیادہ ایرانی، پارسی اور ایٹالین ہیں، یہاں کی دولت کا کیاپوچھنا، میرے ہوٹل سے سو قدم پر ایک پارسی کا اسٹیچو ہے، جس نے اپنی زندگی میں بارہ لاکھ روپیہ خیرات کیا، دولت وتجارت میں پہلا نمبر مارواڑیوں کاہے، دوسرا میمن اور خواجہ مسلمانوں کا، تیسرا پارسیوں کا، اور چوتھا انگریزوں کا، عربوں کی تجارت بھی یہاں اچھی ہے، اتوار کے روز ایک تاجر عرب کے یہاں گئے تھے، موتیوں کاتاجر ہے، ہر وقت اس کے یہاں دو کروڑ کے موتی رہتے ہیں، اس کامکان سمندر کانہایت عالیشان سنگ مرمر کاہے، شیشہ اور پتھر کے سوا لکڑی اور اینٹ کانام نہیں، مکان کوچھوڑ کر صرف زمین کا کرایہ پچیس ہزار سالانہ گورنمنٹ کو ادا کرتاہے، موتی کے اور بہت سے لکھ پتی  عرب تاجر ہیں، وللہ الحمد۔آل جاثم نے ۔ڈیڑھ لاکھ ہندوستان،مصر اور عرب میں قومی کاموں میں دیاہے۔

یہاں کے لباسوں کانہ پوچھیے، دنیاکے ایک ایک گوشے کے آدمی ہیں، اوران کاگوناگوں لباس، مجھ کویہاں ہرلباس دیکھ کر حیرت معلوم ہوتی ہے، لیکن اہل بمبئی سے پرحیرت۔لباس سے بھی حیرت نہیں ہوتی۔

میمن مرد وعورت عربی لباس پہنتے ہیں، پارسنیں قمیص،  ساری، کوٹ،پائتابہ سر میں بعض کشادہ بھی پہنتی ہیں،مرہٹنیں ساڑی بصورت لنگی پیچھے کھونس کر،یہودنیں جدید فیشن کی۔تو یورپین لباس پہنتی ہیں، مگر قدیم وضع کا لمباکرتا اور ایک سفیدلمبی چادر جس سے ان کاتمام جسم ڈھکارہتاہے اورنہایت خوبصورت معلوم ہوتی ہیں، مسلمان عورتوں کے لیے قابل تقلیدہے، مسلمان عورتیں عموماً ایک نہایت لمباکرتا جو نہایت کشادہ اور چونندار ہوتا ہے، پہنتی ہیں، یہ کرتا ٹخنوں تک ہوتا ہے، وسط گریبان سینے پر نہیں، بلکہ دونوں طرف کندھوں پر ہوتا ہے، پائجامہ چھوٹے پائچہ کاتنگ،جس کا صرف چار پانچ انگل حصہ کرتا سے نیچے معلوم ہوتاہے، سر پر ایک دوپٹہ، مجھے یہ لباس نہایت پسندہے، بعض خوش وضع مسلمان عورتیں نیچے کرتا کے دامن میں جھالر لگاتی ہیں، اس قسم کا کرتا اگر کمر میں کمربند باندھ دیا جائے، تو بالکل سایہ یا گون معلوم ہوتاہے۔

یہاں کی مسجدیں عموماً نہایت شاندار وسیع ہوتی ہیں، رنگ ان کاعموماً سبز ہوتاہے، اندرون مسجد میں ایک چھوٹی سی نہرہوتی ہے، [وضو کے لیے] امام مسجدعموماً عرب یامصری ہوتے ہیں، مسجدمیں گنبد نہیں ہوتے، اگر کہیں ہیں بھی تو ایک اور چھوٹا سا، منارے ہوتے ہیں، اندرون مسجد بیش قیمت سامانوں سے اور آلات شیشہ سے آراستہ ہوتاہے۔

آج جمعہ کی نماز ایک مسجد میں پڑھی، پہلے دو مؤذنوں نے مناروں پر مل کر اذان دی، تھوڑی ہی کے دیر کے بعد جبہ سے آراستہ مؤذن سے نکلے، صفوں کو چیرتے ہوئے میز کے پاس پہنچے، عصا منبر سے لگارکھاتھا، اس کو ہاتھ میں لے کر نہایت قرأت سے قرآن مجیدکی خاص آیتیں اور دعائیں پڑھیں، دعائوں کا خاتمہ تھا کہ امام صاحب بھی جبہ پہنے عمامہ عربی زیب سر کیے برآمدہوئے، بہ ہزار دقت منبر تک پہنچے، اور قدم تولتے ہوئے عصا ٹیکتے ہوئے، تین چار منٹ میں تین چار زینے طے کیے، خطبہ نہایت قرأت سے شروع کیا، پہلاخطبہ ختم ہوا، تو مؤذن صاحب نے بلندآوازسے درودشروع کیا، پھر دوسرا خطبہ شروع ہوا۔

ہائے خطیب،جب یہاں پہنچا ہے، حامی الحرمین الشریفین السلطان بن السلطان الغازی محمد رشاد خاں، بدن کانپ گیا، رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

انگریزی اسکول یہاں کثرت سے ہیں، میرے آس پاس چار پانچ اسکول ہیں، دو تین لڑکیوں کے اور باقی لڑکوں کے، مگر ان میں کون پڑھتے ہیں، انگریز، کرسیچن، پارسی، اور مرہٹے، مسلمانوں میں بالکل شاذ، عربی مدارس کئی ہیں، مگر سب بیکار، جہاں طلبہ تا اختتام زندگی طالب العلمی کرتے ہیں۔

مذہبی احساس مسلمانوں میں شدید ہے، مگر عجائب پرستی، توہم پرستی اور پیر پرستی کی حد تک۔

کتب خانے کئی ہیں، کریمی لائبریری، صدیقی لائبریری، مفید لائبریری، جامع مسجد لائبریری، ایشیاٹک سوسائٹی بمبئی،پرنس/فرنچ لائبریری، مگر سب معمولی اور ادنی۔سیرت نبوی ہو رہی ہے، ابھی گریجویٹ صاحب نہیں آئے ہیں، علی گڑھ کالج کے تعلیم یافتہ، مشرقی بنگال کے ایک مسلمان ایم اے گریجویٹ عبد الحکیم صاحب نے جو ابھی کامیاب ہوئے ہیں، عربی سے واقف ہیں، اپنے کو آنریری پیش کیا ہے، مجھ سے ملاقات ہے، نہایت نیک متواضع ہیں،غالباً وہ ایک ہفتے میں آ جائیں۔

آج جامع مسجد سے نکلتے ہوئے میں نے دو حبشنیں دیکھیں، حبشنیں کیا تھیں، کالی دیویاں تھیں، العظمۃ اللہ۔ اخلاقی حیثیت سے بمبئی کیا ہے ؟ دکان عصمت فروشی ہے، میرے ایک دوست کے سامنے دو یہودی بچیاں رہتی ہیں، محلے کا ہر نوجوان سمجھتا ہے مجھ کو چاہتی ہیں، ایک نوجوان کرسچن کا اس کے پیچھے برا حال ہے۔

سید سلیمان

23 جون 1912

Talha Nemat Nadwi

Asthawan Nalanda

Biharsharif (Bihar(

Mob.: 9117394766

Email.: talhanemat3@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں