30/9/22

مراٹھی زبان پر اردو کے اثرات: ہاجرہ بانو




داستان چاہے کوئی بھی ہو/ حروف اور الفاظ نہایت آسانی سے صدیوں کی کہانی بیان کرتے چلے جاتے ہیں جن کے نشیب و فراز میں انسان گردش کرتا ہوا زبان کو قوت بخشتا چلا جاتا ہے۔ جب دو زبانوں کے حروف و الفاظ ایک دوسرے میں شامل ہوتے ہیں تو اس عمل سے مثبت اور منفی پہلو بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ کسی کو اپنی زبان کے خزانے میں اضافہ نظر آتا ہے تو کسی کو اپنی زبان گم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ حروف بھی اڑتی تتلیوں کی مانند ہیں کبھی اس پھول پر بیٹھے تو کبھی اس ڈال پر بیٹھے۔ شاید اسی موقعے کے لیے کہا گیا کہ       ؎

حرف رسوا ہوئے صدا بن کر

آبرو رہ گئی اشاروں کی

آج ہم ریاست مہاراشٹر کی مراٹھی زبان پر اردو کے اثرات دیکھیں گے لیکن اس سے پہلے ذرا مہاراشٹر کی ایک جھلک چند سطروں میں دیکھتے ہیں جو کہ مضمون کی نوعیت کے اعتبار سے ضروری ہے۔

طبعی ساخت کے اعتبار سے خوبصورت ریاست مہاراشٹر ساحلی، پہاڑی اور سطح مرتفعائی، تین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے جس کا زیادہ تر زمینی حصہ آتشی چٹان یعنی بسالٹ سے بنا ہوا ہے۔ کھڑکھڑاتی ہوئی بہتی ندیوں میں گوداوری، تاپتی، نربدا، بھیما اور کرشنا کا شمار ہوتا ہے۔ مغربی حصے میں وسیع بحر عرب جلوہ افروز ہے۔علاقوں کے اعتبار سے گرم اور معتدل آب و ہوا ہر طرف چھائی رہتی ہے۔ جن پر غیر مساوی  بار ش کی تقسیم جاری رہتی ہے۔ یہاں کاشتکاری ایک اہم پیشہ مانا جاتا ہے۔ دیہاتی و شہری زندگی کی جھلک بیک وقت نظر آتی ہے۔ کچے پکے، ڈھلوان، چھت والے، سیمنٹ کانکریٹ کے گھر انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پوری کرتے ہیں۔ لباس میں دھوتی، صدری، پگڑی ، ساڑی اور کرتا زیب تن کرتے ہیں۔ دیہاتوں میں موتی، منکے، کوڑی سیپیوں اور مختلف دھاتوں کے زیورات استعمال کیے جاتے ہیں اور شہروں میں سونا، چاندی اور نگینوں کا استعمال ہوتا ہے۔ جوار، باجرہ، چاول، ناچنی، ورتی، گیہوں، اڑد، مونگ، ارہر، لہسن، مرچ، پیاز اور سبزی ترکایوں کا استعمال اپنی غذا میں کرتے ہیں۔ سمندری دولت، معدنی دولت، جنگلاتی دولت، سیاحتی دولت، صنعتی دولت اور فلمی دولت  سے مالامال مہاراشٹر پورے بھارت میں اپنی مثال آپ ہے۔

مہاراشٹر بنیادی طور پر کئی آدی واسیوں کے کلچر پر مبنی ریاست ہے ،جس میں بنجارا،گونڈ، بھیل، کوکنا، لمان، پاردھی کیکاڑی، دھنگر، کورکو، وارلی، ٹھاکر، مہادیو کولی،  کولام، آندھ وغیرہ شامل ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو گورماٹی، مالونی، اہیرانی، مراٹھی اور کوکنی یہاں کی اصل زبانیں ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی کے بعد ہندوستان مختلف علاقائی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ محمود غزنوی کی آمد سے کئی سیاسی و سماجی تبدیلیاں ہوئیں جو تقریباً پونے دو سال تک قائم رہیں۔ اس کے بعد محمد غوری اور قطب الدین ایبک نے اپنی حکومتوں کی بنیاد ڈالی تو ہندوستانی ریاستوں نے پھر نئی کروٹ لی۔ اسی درمیان وسط ایشیا سے چنگیز خان کے خوف سے ایرانی بڑی تعداد میں ہندوستان آئے۔ 1316 میں علاء الدین خلجی نے جب دکن فتح کیا تو ایک نئے دور کی شروعات ہوئی جو اورنگ زیب اور انگریزوں و مراٹھوں تک جاری رہی۔ یہ مختصر ترین تاریخی ادوار کا خاکہ ہند آریائی زبانوں کی تشکیل عمل میں لاتا ہے۔ ان متعدد صدیوں میں تہذیبی اختلاط کی کئی مختلف نوعیتیں رہیں۔  زبان و مکان میں اشتراک کی جڑیں بہت گہرائی سے پیوست ہوئیں، جس کا اثر مہاراشٹر دکن کی سماجی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ یوروپ اور ہندوستان کے تین بڑے خاندانوں کی زبانیں ہند جرمانی، سامی، تورانی میں سے تیسرے خاندان کی تورانی کا سلسلہ دریائے گنگا کے جنوبی حصے کے ذریعے ریاست مہاراشٹر کے شہرناگپور تک پہنچتا ہے۔ جہاں متمدن کول، گونڈ اور دوسرے تورانی قبائل بسے  ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں تورانی خاندان کی وہ نو زبانیں بولی جاتی ہیں جو اس لسانی خاندان کے چوتھے ضمنی خاندان کول اور دراوڑی خاندان پر مشتمل ہیں جو مہاراشٹر اور ہندوستان کے مغربی حصے میں ہندی سے اور دکن میں مراٹھی آمیز تیلگو سے قربت رکھتے ہیں۔ ان زبانوں میں سے ایک گونڈ زبان ہے جو ناگپور کے قریب آکر مراٹھی میں ضم ہوجاتی ہے۔ مراٹھی اپنی وسعت اور اہمیت کے لحاظ سے ہندوستانی زبانوں میں صرف ہندی زبان کے بعد رکھی جاسکتی ہے۔ ناگپورسے شمال کی طرف چل کر اندور جاپہنچتی ہے او رپھر جنوب کی طرف مختلف غیرمتعین سمتوں سے ہوکر سورت تک جاکر سمندر سے جاملتی ہے۔ یہیں خاندیش کی پہاڑیوں میں بھیل قبیلے کے لوگ ملتے ہیں جو کول ہی کی ایک بولی بولتے ہیں۔ مراٹھی زبان کا دکنی خط ناگپو رسے ہوتا ہوا بیجاپور پہنچ جاتا ہے پھر یہ زبان بلدام او ردھارواڑ سے ہوتی ہوئی کنڑی زبان میں شامل ہوجاتی ہے۔

چودہویں صدی میںا یران سے کئی صوفیائے کرام نے دکن میں اپنی ادبی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تصنیف اور تصوف کے اثرات زبان اور روایتی کلچر میں صاف نظر آتے ہیں۔ محمد بن تغلق کے دور میں امیرنجم الدین حسن دکن تشریف لائے تھے۔ جو اعلیٰ مرتبہ شاعر اور تصوف میں ڈوبی ہوئی مقدس شخصیت کے مالک تھے۔ صحیح معنوں میں ان کی آمد سے فارسی ادب کا آغاز دکن میں ہوا۔ ایرانی خیالات اور روایات، زبان کے ساتھ ساتھ دکن کو بھی اپنی گرفت میں لیتے چلے گئے۔ امیر نجم الدین حسن کو مہاراشٹرکی زمین اتنی پسند آئی کہ وہ دوبارہ ایران نہیں گئے۔ آج بھی ان کا روضۂ مبارک خلدآباد  مہاراشٹر میں موجود ہے۔

پندرہویں صدی میں دکن میں زبان کا ایک سنہرا دور رہا ہے جس کا تاج فارسی اور اردو دونوں عظیم زبانوں کے سر رہاہے۔ دکن میں یہ دور فارسی ادب اور ثقافت کا عروج کا تھا۔ ایرانی تاجر خواجہ محمد گیلانی بہمنی سلطنت میں اپنی دانشوری کے باعث وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ گیلانی کی ہمہ جہت شخصیت میں بہترین مصنف، اعلیٰ پایہ کا شاعر دوررس سائنسداں اور ماہر ریاضیات پوشیدہ تھے۔ اس لیے جب انھو ںنے سلطان کی اجازت سے بمقام بیدر ایک انڈوپرشین طرز کا جامعہ قائم کیا تو اس کے علم و فراست کی روشنی دور دور تک پھیل گئی۔ اس وقت سرکاری زبان کا درجہ فارسی کو حاصل تھا اور آج بھی بشمول ممبئی ان علاقو ںپر فارسی کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ عہد بندہ نواز سے عہد محمود گیلانی تک اور پھر عہد قلی قطب شاہ اور عہد ولی دکنی ان سب ادوار میں دکنی زبان کو خوب فروغ حاصل ہوا۔جس میں فارسی زبان کی روح علاقائی زبانوں کے جسموں کے ساتھ شامل ہے۔ یہ دور فن کا دلدادہ رہا۔ اگر حکمراں فن کی سرپرستی کرے تو فن آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے اور یہی وہ سنہری دور تھا جب ہر طرف فن، تصوف اور زبان کا بول بالا تھا۔ ان ہی ادوار میں تخلیق شدہ ادب ساری زبانی خوبیوں کامرقع ہیں۔  رنگینی، سادگی، روانی، نشاطی، معنی آفرینی، تشبیہی اور استعاراتی جواہرات سے مزین ہیںاور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ سارے جواہرات ایران و عربستان سے آئے اور دکنی زبان کے تاج میں جڑگئے۔ ان ادوار کے صوفی شعرا کا کلام ہو یا خواجہ بندہ نواز گیسو دراز یا پھر حکمراں قلی قطب شاہ ہوں یا پھر ولی دکنی ان سب کی تصانیف اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ کرناٹک، تلنگانہ، آندھراپردیش، کیرالہ اور مہاراشٹر کی مقامی زبانوں کے الفاظ اور لسانی قواعد کے  اشتراک سے دکنی زبان نے ایک نیا رنگ پایا لیکن ان کی بنیاد عربی اور فارسی ہی رہی کیونکہ فارسی زبان کو ایک سیکولر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ تمام مذاہب کے لوگوں نے اسے پوری طاقت و قوت اور ہم آہنگی سے اپنایا۔ بعد میں سیاسی حالات کے پیش نظر مہاراشٹر کو الگ ریاست قرار دیا گیا اور فارسی کی مہک کے ساتھ ارد وکے 40%  سے زیادہ الفاظ مقامی زبان مراٹھی میں شامل ہوگئے۔ جو آج بھی پوری تابناکی کے ساتھ مروج ہیں۔ الفاظ کی دنیا تو انسانی دنیا سے مماثلت رکھتی ہے جس میں حسن، محبت، توانائی، رعنائی، ہم آہنگی، نزاکت، استحکام، پائیداری، کمزوری، شرافت اور منافقت بھی پائی جاتی ہے۔  الفاظ تو اشیا، کیفیات اور حالات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ جب انسان روزمرہ کی زندگی میں ان الفاظ کے ربط میںا ٓتا ہے تویہ ترجمانی ایک خوبصورت معانی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ علمی زبان میں انھیں معانی کی علامتیں کہتے ہیں۔ ان ہی علامتوں کے ذریعے انسان سماج میں ایک دوسرے سے کاروباری اور جذباتی اظہارکرتا ہے۔ الفاظ کی تاریخ ہی علاقے میں اپنے سماجی ماحول کی مطیع رہی ہے۔ الفاظ ایک لامتناہی زندگی کا نام ہے اور جہاں زندگی ہے وہاں موت بھی ہے۔ ماحول میں الفاظ جنم  لے کر پھلتے پھولتے ہیں اور پھر اسی طرح حالات اور کیفیات کے تحت نشیب و فراز کا شکار ہوکر اپنی زندگی کی افق پر معدوم بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو عبارتوں میں جان ڈالتے ہیں اور بسااوقات عبارت کی جان نکال بھی لیتے ہیں۔ کبھی یہی الفاظ کئی جذبات و خیالات کو تصویری روپ دیتے ہیں، اسی پلڑے میں الفاظ کی گرانی و ارزانی ماپی جاتی ہے، جس کی کسوٹی انسان کے جذبات اور خیالات پر منحصر ہوتی ہے جو آگے چل کر الفاظ کی کئی سمتیں مقرر کرتی ہے، بعض الفاظ جذبات کی آئینہ داری کرتے ہیں ان میں انسان کی دلی کیفیت کا عکس ہوتا ہے، بعض الفاظ مرقع ہوتے ہیں جن میں صرف خارجی کائنات نظر آتی ہے اور بعض الفاظ اپنی گرانی کے سبب بلندی پر قائم رہتے ہیں، ان میں ساز اور رس سمائے رہتے ہیں جب یہ الفاظ عبارت کا روپ لیتے ہیں تو ایک حسین موسیقی پیدا کرتے ہیں۔ مہاراشٹر کی اردو، ہند آمیزمراٹھی بولی اسی کی مثال ہے۔ صوفیوں کے الفاظ میں لاانتہائیت ہوتی ہے جو افق کے پار موجود ذات کی نشاندہی کرتی ہے ،اس لیے یہ سب سے افضل ترین ہوتی ہے۔

علامتی ادب میں الفاظ بعض ذہنی ،نفسیاتی، روحانی اور سیاسی کیفیتوں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔ یہ حالت الفاظ کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ امید اور توانائی کا پیغام دیتا ہے یا خود اسے کمزور بنا کر رکھتا ہے۔ ہر زبان میں الفاظ کے عروج و زوال کو اس کے لسانی، تاریخی اور سماجی پس منظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ یہاں تکنیکی فارمولہ کام نہیںآسکتا۔

اب ان الفاظ کو دیکھتے ہیں جو مراٹھی زبان میں پوری آب و تاب کے ساتھ ہیںخدا،نماز، روزہ، داشتہ، ناشتہ، نادیدہ، خانساماں، گلستان،چمنستان، چراغاں، درگاہ ،مصیبت، دوستی، دشمنی، اصل، نقل، جان، حقیقت عام بول  چال میں، اخباری، زبان میں آسانی سے بولے اور سنے جاتے ہیں۔ پہلے سرکاری زبان فارسی ہونے کی وجہ سے تمام سرکاری دفاتر اور عدلیہ میں فارسی آمیز اردو کی اصطلاحات کا چلن عام تھا۔ مثلاً، سرکاری، سرکار، دفتر، سرکاری دفاتر، دستاویز، دستور، دستوری، دستخط، عدالت، حلف نامہ، وصیت نامہ، قلم (ایکٹ)، حاضر، عمل نامہ، شکایت نامہ، گواہ، چشم دیدہ گواہ، گواہی، پیش، پیشی، پیشکش، پوچی، پوچی خط، منصف، منصف کورٹ، وکیل، وکالت، وکالت نامہ، قید، قیدی، حکم، حکم نامہ، فیصلہ، قانون، دعویدار، تھانے دار، قیدخانہ وغیرہ یہ عدلیاتی اصطلاحات مراٹھی زبان میں اب بھی استعمال ہوتی ہیں۔

مہاراشٹر میں ڈرامہ، تھیٹر اور فلم انڈسٹری کے نقوش کافی قدیم ہیں جس پر آریائی تہذیب اور فارسی آمیز اردو کے اثرات آج بھی دیکھیے جاسکتے ہیں۔ اس کا اثر علاقائی فلموں میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ مراٹھی فلمیں بھی اردو زبان کے اثر سے خالی نہیں ہیں۔ مغل اور مراٹھا تہذیبوں کاسنگم ان فلموں کو خوبصورت بنا کر اپنی جڑوں تک رسائی کرواتا ہے۔ جرأت مندانہ مراٹھالہجہ اور مغل تہذیبی پوشاک اور زیورات سے آراستہ ان مراٹھی فلموں کے اردو آمیز مکالمے حاضرین میںنیا جو ش پیدا کردیتے ہیں۔ فن موسیقی میں اردو، فارسی، عربی اور مراٹھی کا سنگم دیکھیے۔ راگ، ندا، ناد، آواز، ساز، ندب، نادی، صدر، نوبت، گان، گاین، گانا، نفیری، باجے، شہنائی، مدنگ، تال، تار، ستار، سارنگی، نقارچی، اونچا، سمل، سملت، عور، آسکت، آورت، عشق، عاشق، شاعر، راغ، دف، رباب، طبلہ، طبل بازی،  راغب، رغب، راغی وغیرہ۔

مراٹھی زبان میں رائج پیشے، صنعت کار اور پیشہ وروں کے ضمن میں بھی اردو زبان حاوی نظر آتی ہے۔ جس سے مسلم دور کے سماجی و تجارتی ماحول کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ مسلم دور میں بالخصوص مغل دور میں تجارت اور فنون و حرفت و صنعت اپنی انتہا پر تھی۔ سودا، کسب، کمانا، بازار، دکان، مزدور، دلال، لین دین یہ عربی فارسی الفاظ مراٹھی زبان روزمرہ کاروباری استعمال میں ہیں۔ عربی فارسی میں مزدور اور بغیر پیسے کی مزدوری کو بیگار کہتے ہیں یہ بھی مراٹھی زبان میں مستعمل ہے۔ ان کے علاوہ  طلب، بیباق، جیسے ثقیل الفاظ بھی تجارتی زبان میں کہے جاتے ہیں۔ تجارتی زبان میں ہنڈی اس خط یا  پیغام کو کہا جاتا ہے جو لین دین کرنے والے مہاجن کسی کو روپیہ دلانے کے لیے بھیجتے ہیں یا جسے مہاجنی چیک کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ سلسلہ و روایت راجا ٹوڈرمل سے منسلک ہے۔ مدت، انداز، سند، دام، ضروری، کوری، یہ الفاظ اردو زبان اور تہذیب سے متصل ہیں۔ مہاراشٹر میں جواہرات و زیورات کی بات کریں تو یہاں بھی اردو، عربی و فارسی کا اثر نظر آتا ہے۔ خزانہ، خزانہ داری، صراف،  صرافہ، سونا، چاندی، نگینہ، کھرا کھوٹا،ماشہ، تولہ، بارہ بانی، سونے کا فرق، کندن، میناکاری یہ سارے الفاظ اردو فارسی سے جڑے ہوئے یں۔ اناج و سبزی ترکاریوں میں تو اردو کے الفاظ ہی مراٹھی زبان میں چھائے ہوئے ہیں۔ گیہوں، جوار،باجرہ، مکئی، چنا، تل، مسور، ارہر، مونگ، ٹماٹر، بیگن، بھاجی، آلو، بھنڈی، گوبھی، کریلا، مولی، ادرک، لہسن یہ سارے الفاظ ارد وکے ہیں۔ لکڑی اور تعمیراتی کام کی اصطلاحات بھی اردو سے منسلک ہیں۔ جسے تعمیری کام کرنے والے کو مراٹھی زبان میں مستری کہتے ہیں۔ مستریہ فارسی زبان کا لفظ مزدور کے لیے مخصوص ہے جو تعمیری کام کرتا ہے۔ تعمیرات میں درکار اوزاروں کے نام بھی مراٹھی میں اردو فارسی کے لیے کہے جاتے ہیں۔ جیسے خراد (جو لکڑی کو چکنا کرنے کے لیے ہوتا ہے)، برما، برادہ، دروازہ، چوکھٹ، خط (لائن لگانا)، ریگ مال، ساہل، میز، کرسی، تخت وغیرہ سب مراٹھی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح زمین اور عمارت کی تعمیرات کے سلسلے میں حد، چونا، سردو (جس سے زمین پکی کی جاتی ہے) دیوار جو دیوال کہاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ کنگورہ، برج، گمٹی، (چھوٹا برج)  مفیار، محل وغیرہ سب مراٹھی زبان میں رائج ہیں۔

Dr. Hajra Bano
Aurangabad (MS)
Mob.: 9860733049
Email.: hajerabano555@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...