3/10/22

رسم الخط ہی زبان کی شناخت ہے: سجاد احمد نجار



اردو رسائل میں عموماً ان ادبی مباحث اور مسائل پر زیادہ ارتکاز ہوتا ہے جن سے عوام یا معاشرے کا زیادہ گہرا رشتہ نہیں ہوتا۔ اردو زبان کے تعلق سے جو بھی گفتگو ہوتی ہے ان سے حقیقی صورتِ حال کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ زبان کی زمینی صورت حال کیا ہے اس سے آگہی کے لیے ضروری ہے کہ تحریکات و رجحانات کے بجائے ان بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے جن کا زبان کے فروغ اور تحفظ سے تعلق ہے۔ عموماً اردو کے حقیقی مسائل سے اجتناب کیا جاتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ کن کن علاقوں میں اردو کی حقیقی صورتِ حال کیا ہے؟

ماہنامہ ’اردو دنیا‘ میں سوال نامے کے ذریعے دراصل اردو زبان کے بنیادی مسائل سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں تعلیم، تدریس اور دیگر سطحوں پر اردو زبان کی صورت حال کیا ہے اور وہاں کس طرح کی دشواریاں اور مشکلات پیش آرہی ہیں جب تک اردو زبان کے بنیادی مسائل پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جائے گا تب تک اردو زبان کے تحفظ اور بقا کے لیے مربوط لائحہ عمل تیار کرنا مشکل ہوگا۔

س  زبانوں کی موت کی وجوہات کیا ہیں؟

ج انسان کے خیالات، جذبات اور احساسات کے اظہار کا سب سے موثر وسیلہ زبان ہے۔ زبان ہی ایک مخصوص قوم کی شناخت کو قائم رکھنے میں معاون ہوتی ہے۔ جس قوم میں زبان کا استعمال ہوتا ہے وہی قوم ترقی کے منازل طے کرتی ہے۔ چین، ترکی، امریکہ اور باقی دوسرے مغربی ممالک اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب کسی علاقے، ملک یا کسی ریاست کے لوگ اپنی مخصوص زبان سے نا آشنا ہوتے ہیں تو وہ زبان اور اس زبان سے منسلک تمام عوامل کی موت اپنے آپ واقع ہو جاتی ہے۔

سزبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟

ج جس قوم میں زبان کی حفاظت کے نت نئے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہوں،وہ قوم ہر لحاظ سے ترقی کر لیتی ہے۔ اس لیے زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے سب سے پہلے زبانوں کا تحفظ اور اس کی نشر و اشاعت کے سلسلے کو عام کرنا از حد لازمی ہے۔ اس ضمن میں اسکولوں، کالجوں، سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے کام کاج کو اس زبان میں رائج کرناہوگا، جس زبان کو فروغ دینایا حفاظت کرنا ہے۔ اسی طرح اس زبان کے شعری و نثری وسائل کو بھی عام کرنا ہے اور اسی طرح تخلیق کاروں کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنابھی لازمی ہے۔

سزبان کا تہذیب و ثقافت سے کیسا رشتہ ہے ؟

جزبان اور تہذیب و ثقافت ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ زبان ہی کے  بطن سے تہذیب و ثقافت پنپتی اور پروان چڑھتی ہے۔ مثال کے طور پر اردو ہی کو لیجیے۔ اس میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تمام عناصر کی عکاسی ملتی ہے۔ اس زبان میں یہاں کے تمام مذاہب، کلچر و ثقافت اور باقی دوسرے تہذیبی عناصر کی ہیں۔ گویا زبان ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخوں سے تہذیب و ثقافت کے پھل پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

  س کیا زبانوں کی موت سے انسانی وراثت کے تحفظ کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے ؟

جاس بات میں کیا مبالغہ ہو سکتا ہے کہ انسانی وراثت کا سب سے حسین، دیر پا، اور موثر جز زبان ہے۔اگراسی زبان کو خطرہ لاحق ہوا تو اس سے سماج کی تمام تر مضبوط اکائیاں لڑکھڑا جائیں گی۔ زبان کی موت نہ صرف ایک سنگین مسئلہ ہے بلکہ اس سے ایک قوم کا نشان تک باقی نہیں رہ سکتا ہے۔ اس کی مثالیں تاریخِ ادب کی کتابوں میں جگہ جگہ بھری پڑی ہیں۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں کئی قومیں آباد ہوئیں اور جب ان قوموں نے اپنی مخصوص زبان کو ترک کیا تو اس کے ساتھ ہی وہ زبان ایک مدت کے بعد ناپید ہو گئی۔ اس طرح یہی کہا جا سکتا ہے کہ زبانوں کی موت دراصل انسانی وراثت کی موت ہے۔

س کیا کسی زبان میں خواندگی، سائنسی،سماجی مواد کی کمی سے زبان پر منفی اثرات پڑتے ہیں؟

جسماج میں خواندگی یا سائنسی مواد کی عدم موجودگی سے اگر چہ زبانوں پر کوئی خاص اثرنہیں پڑتا ہے، لیکن ان سماجی محرکات کی وجہ سے ایک تو شرح خواندگی میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے آہستہ آہستہ زبانوں پر بھی اثر پڑے گا کیونکہ ایک حساس قوم ہی زبان کو زندہ رکھنے کی طاقت رکھتی ہے اور اسی کے دم سے تمام علوم معرض وجود میں آتے ہیں۔ ان ہی علوم میں سائنسی علوم کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سائنسی علوم اگر مادری زبان میں ہوں تو زبان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگی اور اگر مسئلہ اس کے برعکس ہو تو زبان مر تو نہیں سکتی البتہ کمی ضرور واقع ہو سکتی ہے۔

س موجودہ حالات میں اردو زبان کو کس طرح کے خطرات لاحق ہیں؟

ج موجودہ عہد انتشار، بد امنی اور استحصال سے دو چار ہے۔ اس سلسلے میں زبانوں کو جو خطرہ لاحق ہے اس سے آنکھیں چرانا نادانی کے سوا اورکچھ نہیں۔ زبانوں کو مذہب کے ساتھ جوڑا گیا۔ اردو جیسی زبان بھی اس نرغے میں آگئی۔ اسی طرح اردو کا دم بھرنے والا بھی اردو کو اپنی نئی نسل سے آتا ہے، یعنی اردو سے کمانے والا پروفیسر، کلرک، یا اور کوئی شخص اپنی اولاد کو اردو کی بجائے انگریزی زبان و علوم کو سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس طرح کے اور بھی کئی نقطے ہیں جن کی وجہ سے اردو کو خطرہ در پیش ہے۔

ساردو کا مستقبل کیا ہے ؟

ج کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہمتِ مرداں مددِ خدا۔ اس وقت اردو کو جتنے بھی مسائل پیش آ رہے ہیں،ان کو نظر میں رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اردو کا مستقبل کسی نہ کسی طرح تاریکی کی طرف چلا جا رہا ہے۔ اردو پڑھنے والوں کا حلقہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح اس زبان میں اب وہ معیاری ادب نہیں لکھا جا رہا ہے جو ماضی میں ہمارے یہاں لکھا گیا۔ لیکن یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں نئے لکھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ اگر ان کی تخلیقات کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی جائے تو یقینا اردو لکھنے، پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔اب مطالعہ کا شوق مجموعی طور پر معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا نے انسان کی فکر و سوچ کو کہیں سے کہیں دھکیل دیا ہے جس کا اثر زبان و ادب پر پڑا ہے۔

س کیا اردو کے ادارے، تنظیمیں، زبان سے زیادہ ادب پر توجہ دے رہے ہیں اور زبان سے متعلق کتابوں کی اشاعت تقریباً رک سی گئی ہے؟

ج بالکل اردو کی تمام تنظیمیں اور ادارے زبان سے زیادہ اس کے ادب پر توجہ دے رہے ہیں اسی طرح اس زبان کے تعلق سے کتابوں کی اشاعت تھم سی گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ زیادہ تر اپنے مطلب کے صفحے کو آن لائن پڑھنا ہی پسند کرتے ہیں۔ وہ زمانہ چلا گیا جب ایک اردو داں اپنے گھر میں کتب خانے کے لیے جگہ متعین کر کے اس میں اردو کی کتابیں مزین کرتا تھا۔ یہ منظر آج نئی نسل میں بہت کم نظر آ رہا ہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں اگر کچھ لکھا بھی جا رہا ہے تو اس کے پس پشت خلوص کہیں نظر نہیں آتا۔ صرف پیسوں یا ذاتی مفاد کے لیے کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ان کی اشاعت اسی، سو، یا اس سے آگے پیچھے ہوتی ہے۔

سکیا کلاسکیت، جدیدیت وغیرہ پر گفتگو سے زبان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ 

ج کلاسکیت اور جدیدیت وغیرہ ادب کے مباحث ہیں اور زبان کے فروغ میں ان مباحث سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ زبان کو اگر فائدہ پہنچ سکتا ہے تو پھر اس کے لیے الگ طریقہ ہے۔ کلاسکیت نے زبان کا سہارا لے کر اپنا کام کیا اور یہی جدیدیت کا وتیرہ رہا ہے۔ زبان کو ان چیزوں سے کوئی فائدہ ملا یا نہیں ملا اس کا اندازہ لگانا ہمارے لیے نہایت آسان ہے۔ لہٰذا زبان کا دائرہ کار اور اس کا طرز الگ ہے اور ادب کی اصناف کا ڈسکورس الگ ہے۔

س  آپ کے علاقے میں کتنے اردو میڈیم اسکول ہیں اور ان میں اساتذہ کی کتنی تعداد ہے؟

ج میرے لیے یہ سوال نہایت مایوس کن ہے۔ ہمارے علاقے میں جہاں تک اردو میڈیم اسکولوں کی بات ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہر جگہ سرکاری اور نجی اسکول قائم ہیں لیکن وہاں اردو صرف ایک سبجیکٹ کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔اس کے برعکس باقی تمام کتابیں انگریزی میں ہی پڑھائی جاتی ہیں۔ یہاں (جموں و کشمیر) میں اگر چہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تاہم وہ صرف کاغذوں تک ہی محدود ہے اور عملی طور پر اس کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا ہے۔

س آپ کے علاقے میں کتنی لائبریریاں ہیں اور وہاں کون سے اخبارات اور رسائل آتے ہیں۔

ج ہمارے علاقے میں ایک ڈسٹرکٹ لائبریری ہے اور وہاں مقامی اخبارات( کشمیر عظمیٰ، خیر خواہ، ہند سماچار، الصفا) وغیرہ تواتر کے ساتھ آتے ہیں۔ اگر اس لائبریری میں اردو رسائل کی بات کی جائے تو یہاں بھی مشاہدہ نفی ہی میں ہے۔ اسی طرح ہمارے علاقے میں جتنی بھی کالج لا ئبریاں ہیں ان تمام کی حالت بھی بالکل نا گفتہ بہ ہے۔ الغرض وہاں اردو اخبارات تو پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن اردو رسائل کہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں۔

سآپ کے علاقے میں کتنی اردو تنظیمیں، ادارے اور انجمنیں ہیں اور وہ کس نہج پر اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں ؟

ج ہمارے علاقے میں جتنی بھی اردو انجمنیں قائم ہیں وہ تما م اردو کے فروغ کے سلسلے میں کوشاں نظر آتی ہیں۔ ان انجمنوں سے منسلک ادب دوست حضرات مہینے میں دو یا تین بار ادبی محافل کا انعقاد عمل میں لاتے ہیں اور اسی طرح ان کی کاوشیں مقامی اخبارات میں شائع بھی ہوتی ہیں۔

س آپ کے علاقے میں اردو سے جڑی ہوئی کتنی شخصیات ہیں جن کی خدمات کا اعتراف علاقائی یاقومی سطح پر نہیں کیا گیاہے؟

جپروفیسر نظیر آزاد،پروفیسر جوہر قدوسی، سلیم ساغر، گلزار احمد اور باقی دوسری ادبی شخصیات کو اگر چہ علاقائی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ تاہم ان شخصیات کی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اس کی طرف توجہ دی جائے گی۔

س آپ مقامی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کیا کوششیں کر رہے ہیں ؟

ج میں اردو زبان و ادب کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ پچھلے بارہ سالوں سے جموں و کشمیر کے کئی اضلاع میں درس و تدریس کے کام سے وابستہ رہا ہوں۔ میری کوشش یہی رہتی ہے کہ طلبہ و طالبات کو اردو زبان و ادب کی طرف مائل کر کے انھیں اس سبجیکٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیار کروں۔

سآپ کے ذہن میں فروغ اردو کے لیے کیا تجاویز اور مشورے ہیں ؟

ج اردو کے فروغ کے لیے یہی تجاویز اور مشورے ہیں کہ اردو طبقہ اس دور میں اپنے آپ کو باقی علوم کے معاملے میں کمزور نہ سمجھیں۔ خسرو سے لے کر ولی دکنی اور ولی دکنی سے لے کر میر غالب اور مومن اور پھر اس کے بعد ادبی منظر نامے پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔ غیر اردو والے بھی اردو زبان سے محبت کرتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس محبت کو عملی طور پر آگے بڑھائیں۔ اپنے بچوں، رشتے داروں اور آس پڑوس کے بچوں کو اردو پڑھنے کے لیے ابھاریں کل یہی بچے اردو کا سرمایہ بن کر سامنے آئیں گے۔

س اردو رسم الخط کی بقا کے لیے کیا کوششیں کی جا سکتی ہیں؟

ج ہر زبان اس کے رسم الخط سے پہچانی جاتی ہے اور رسم الخط ہی زبان کی بقا کے لیے اہم ہے۔ ہمیں رسم الخط کی بقا کے لیے نہ صرف خود اس زبان میں لکھنا ہوگا بلکہ باقی احباب کوبھی اردو لکھنے پر زور دینا چاہیے۔ بچوں کو خوش خط کی مشقیں کرانی چاہیے اور کیلی گرافی کے کورسز بھی عمل میں لانے چاہیے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی اسی زبان کو رائج کرنا چاہیے تاکہ دیکھنے اور پڑھنے والے ان الفاظ کے حسن کو اپنے اندر جذب کر کے ان کو عمل میں لاسکیں۔

س دوسری علاقائی زبانوں میں اردو کے فروغ کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں ؟

ج ہر علاقے کی اپنی اپنی زبان ہوتی ہے۔ ان علاقائی زبانوں کے بعد اگر کوئی زبان بر صغیر میں رائج ہے تو وہ اردو ہی ہے۔ اس لیے ان علاقوں میں اردو کی ترویج کے تما م وسائل بروئے کار لانے چاہیے۔ مشاعرے، بیت بازی، کتابوں کی اشاعت، اخبارات کی اشاعت، اردو میں علاقائی زبان کے ساتھ ساتھ بات چیت کرنا وغیرہ اردو کے فروغ کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔

س کیا آپ کے اہل خانہ اردو زبان لکھنا، پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں ؟

ج اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آدھے جانتے ہیں اور آدھے نہیں۔ میرے والدنے پانچوں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے تاہم وہ اردو اچھی طرح پڑھتے ہیں اور اس زبان کے علاوہ انھیں اور کوئی زبان آتی ہی نہیں ہے۔ اسی طرح میری اہلیہ بھی اردو پڑھتی اور لکھتی ہے۔ میرے دو بچے ہیں محمد مستقیم اور محمد تمیم۔ محمد تمیم پانچ سال کی عمر کا ہے وہ خاصی اردو بول لیتا ہے۔ اس کو میں میر، غالب اور ناصر وغیرہ کے کئی اشعار ازبر کرائے ہیں۔ محمد تمیم ابھی ایک سال کی عمر کا ہے۔ ان شاء اللہ اسے بھی اردو کا سپاہی بناؤں گا۔

س آپ کے بعد کیا آپ کے گھر میں اردو زندہ رہے گی؟

ج ان شاء اللہ۔ ضرور اورضرور جب میں نے اردو کی بقا کے لیے اپنے آپ کو پیش پیش رکھا تو پھر اپنی اولاد کو کیسے اس عظیم کام کے لیے پیچھے رکھ سکتا ہوں۔

س غیر اردو حلقے میں فروغ اردو کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے؟

ج وہی جو راحت اندوری نے کیا، جو لتا حیا نے کیا،جو بشیربدر وغیرہ نے کیا۔ شعر سننا اور سنانا ہر کسی کو پسند ہے، بس جہاں کہیں غیر اردو کی محفل ہو وہاں موقع و محل کی مناسبت سے شعر و شاعری کی محفل کو گرمائیں ماحول اپنے آپ کا م کرے گا۔

س آپ کے علاقے میں کتنی کالجز یا یونیورسٹیاں ہیں جن میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں اردو پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟

ج ہمارے علاقے میں یونیورسٹی نہیں ہے البتہ یہاں جتنے بھی کالج ہیں ان میں اردو کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور وہاں اردو طلبہ و طالبات کی تعداد کافی اطمینان بخش ہے۔

س ملکی سطح پر غیر سرکاری تنظیموں سے اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کس طرح سے مدد لی جا سکتی ہے؟

ج انھیں اردو کی اہمیت اس کی تاریخ اور اس سے جڑی گنگا جمنی تہذیب کے تمام علوم سے آگاہ کرانا ہے اور پھر ان سے اردو کی ترویج کے لیے مدد طلب کرنے کا ہاتھ آگے بڑھانا ہے۔ اگر وہ تنظیمیں مالی مدد کے لیے تیار ہوں گی تو پھر ان سے رشتہ مزید مضبوط کرنے کی ٹھان لینی چاہیے۔

س کیاسینٹرل اسکولوں اور نو ودے و دیالیہ میں اردو کی تعلیم کا کوئی معقول انتظام ہے؟

ج مجموعی طور پراگر دیکھا جائے تو یہ ایک المیہ ہے کہ ایسے اداروں میں ہندی اور انگریزی بڑے چاؤ سے پڑھائی جا رہی ہے مگر اردو کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ جہاں مسلمان بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں وہاں یہ مضمون ہی نہیں ہے۔ اب اگر کہیں پر اردو پڑھائی بھی جاتی ہے تو اس زبان کو پڑھنے والے بچے بہت کم ہیں۔ جہاں تک ہمارے علاقے کا تعلق ہے تو یہاں چوں کہ اردو کا ماحول قدرے بہتر ہے۔ اس ضمن میں یہاں دو نو ودے ودیالیہ اسکول ہیں اور اسی طرح تین سینٹرل اسکول ہیں، دونوں میں اردو زبان پڑھائی جاتی ہے اور بچے اس زبان میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔

Sajad Ahmad Najar

Umer Colony Washbug

Pulwama - 192301 (Kashmir)

Cell. No: :9858667464

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں