3/10/22

مصحفی اور اس کا امروہہ پن: رئیس احمد فراہی


مصحفی کی تعلیم وتربیت اور عنفوان شباب تک کا زمانہ اپنے آبائی وطن امروہے میں ہی گزرا۔ پھر رہین ستم ہائے روزگار ہوکر دہلی، لکھنؤ، ٹانڈہ اور دیگر مقامات کی سیر کرنی پڑی۔ دہلی سے انھیں قلبی لگاؤ تھا۔ یہاں کے ادبی اور شعری ماحول سے انھیں گہری انسیت تھی۔ زبان دہلی کو وہ معتبر اور معیاری زبان سمجھتے تھے مگر کلام مصحفی کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے زبان دہلی کے ساتھ ساتھ قصباتی، دیہاتی، ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں اور محاوروں کو بھی اپنے شعری سرمایے میں بے ساختہ کھپایا ہے۔ بلاشبہ بعض جگہ یہ الفاظ اپنی غرابت اور نامانوسی کی وجہ سے گرانی کا باعث بنتے ہیں لیکن اکثر جگہوں پر یہی ہندی اور عوامی زبان کے الفاظ اپنی سلاست و شستگی کی وجہ سے شعر کے حسن کو نکھارتے اور اردو کے دامن کو وسیع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مصحفی کی شاعری پر مولانا محمد حسین آزاد کا ایک بڑا اعتراض ان کے کلام میں علاقائی رنگ و آہنگ کا ہونا ہے۔ وہ مصحفی کی مشاقی، ہنرمندی اور استادی کا اعتراف تو کرتے ہیں مگر ان کے نزدیک مصحفی کا ’امروہہ پَن‘ اس قدر قبیح چیز ہے کہ یہ ساری خوبیاں پس پشت چلی جاتی ہیں۔آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

’’دیوان ان کی استادی کو مسلم الثبوت کرتے ہیں۔ انواع واقسام کی صدہا غزلیں ہیں۔ الفاظ کو پس و پیش اور مضمون کو کم وبیش کرکے اس دروبست کے ساتھ کھپایا ہے کہ جو حق استادی کا ہے ادا ہوگیا ہے، ساتھ اس کے اصل محاورے کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں:

’’غزلوں میں سب رنگ کے شعر ہوتے تھے کسی طرز خاص کی خصوصیت نہیں۔ بعض صفائی اور برجستگی میں لاجواب ہیں اور بعض میں یہی معمولی باتیں ہیں جنھیں ڈھیلی ڈھیلی بندشوں میں باندھ کر پھسرپھسر برابر کہتے چلے گئے ہیں اس کا سبب یا تو پرگوئی ہے یا دلی اور امروہہ کا فرق ہے۔‘‘

دوسری جگہ انشااور مصحفی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ـ’’سید انشا ہمیشہ قواعد کے رستے سے ترچھے ہوکر چلتے ہیںمگر وہ ان کا ترچھا پن بھی عجب بانکپن دکھاتا ہے یہ بھی (مصحفی) مطلب کو بہت خوبی اور خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں مگر کیا کریں کہ وہ امروہہ پن نہیں جاتا۔‘‘

ایک اور جگہ انشا اور مصحفی کی چشمک دکھاتے ہوئے مصحفی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ وہ پرانا مشاق لکھنؤ بھر کا استاد کوئی چھوٹا آدمی نہ تھا۔ باوجود بڑھاپے کے بگڑ کھڑا ہوا اور یہ غزلیہ فخریہ کہی۔ اب خواہ اسے بڑھاپے کی سستی کہو، خواہ طبیعت کا امروہہ پن کہو، خواہ آئین متانت کی پابندی سمجھو۔‘‘

محمد حسین آزاد نے جگہ جگہ ’امروہہ پن‘ کی پھبتی تو کسی ہے مگر اس امروہہ پن سے ان کی مراد کیا ہے واضح طور پر کہیں اس کا ذکر بھی نہیں کیا ہے۔ جہاں جہاں بھی وہ مصحفی کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں ساتھ ہی امروہہ پن کا دم چھلہ لگا کر ان کی شعری خوبیوں کو حسن بے نمک کر دیتے ہیں۔اکثر جگہوں پر وہ جانب داری سے کام لیتے ہوئے عیوب کو بشکل خوبی یا ہنر کے تبدیل کر دیتے ہیں مثلاسید انشا کا قواعد سے روگردانی کرنا اور ترچھے ہوکر چلنا بھی انھیں عجب بانکپن نظر آتا ہے یا یوں ہی استاد ذوق کا چیچک زدہ سانولا چہرہ چمکدار اور بھلا معلوم ہوتاہے۔اس طرح کی جانب داری اور رائے زنی اپنی جگہ درست سہی مگر مصحفی اور ان جیسے دیگر شعرا کی خوبیاں آزاد کے خود ساختہ امروہہ پن جیسے شگوفے میں ہوا ہوکر رہ گئی ہیں جو کہ ا دبی دیانتداری کے منافی ہے۔ آزاد نے مصحفی کے بیان میں مندرجہ ذیل اشعار پر انگشت نمائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض جگہ اپنے وطن کا محاورہ یاد آجاتا ہے اور کہہ دیتے ہیں     ؎

تیغ نے اس کی کلیجہ کھا لیا

اس نے آتے ہی مجھے سنگوا لیا

چمن میں چل کے کر اے مصحفی تو نالہ و آہ

جو جی چلا ہو تیرا امتحان بلبل کو

نہ میں صحرا میں نہ گلشن میں نکل جاؤں گا

خوگر شہر ہوں یاں خاک میں رَل جاؤں گا

ان اشعار میں سنگوانا، جی چلنا اور رل جانا آزاد کو امروہہ کے محاورے معلوم ہوتے ہیں۔اسی لیے ان کو بنیاد بنا کر آزاد نے یہاں بھی اپنا امروہہ پن والا فقرہ چست کر دیا ہے مگر نثار احمد فاروقی نے اپنے مضمون ’مصحفی کی زبان‘ مشمولہ ’ دراسات‘ میں ان الفاظ کو خالص دہلوی شعراکے کلام سے ثابت کیا ہے اور اس پر مدلل و مفصل بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان الفاظ کا امروہہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دیگر شعرا کے علاوہ خود آزاد کے ہمعصر دہلوی شعرا نے بھی ان الفاظ کو اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آزاد کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو۔

خیر، یہ اور اس جیسے الفاظ و محاورات عہد مصحفی اور ماقبل مصحفی میں رائج و مروج تھے جو عہد ناسخ میں منسوخ اور ٹکسال باہر ہوئے۔ چنانچہ ان کی بازپرس صرف مصحفی سے کرنا یا ان کو بنیاد بناکر مصحفی کے مرتبے کو گھٹانا کہاں کا علمی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ ایمانداری اور دیانتداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ علاقائی رنگ و آہنگ والے الفاظ کی سبک روی، اشعار کے دروبست میں ان کے کھپانے کی ہنرمندی، ان کی غرابت کو دور کرکے اپنانے کا عمل اور انھیں داخل زبان کرکے زبان وبیان کو وسعت دینے کی کوششوں کو سراہا اور ان کی لطافت سے محظوظ ہوا جائے،نہ کہ ان کی جاو بیجا تنقیص کی جائے۔

آئیے اب کلام مصحفی میں پائی جانے والی امروہہ کی زبان اور محاورات پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے اور شعری پیکر میں ان کے حسن وقبح اور در وبست پر بھی بات کی جائے تاکہ مصحفی کی فنی مہارت، لفظوں کے برتنے کے سلیقے اور عوامی یا علاقائی زبان کو بے ساختہ کھپا کر اس کی غرابت کو ختم کردینے کی ہنرمندی کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ پہلے ہم ان چند الفاظ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو مصحفی نے اپنے کلام میں استعمال کیے ہیں۔

چل بہ چل، بَذّات (بد ذات)، گراں ڈیل، للاہٹ، اُداہٹ، سوندھا، توباہ (توبہ)، سٹکنا، گھرسنا، لپیٹ سپیٹ، ڈلک، چھبک، چونا (ٹپکنا)، بسرنا، نگھرے، نیو، ٹکڑ گدا، پوٹ(پوٹلی)، پُھٹ(دور ہونا)، بھجوانا، منجھیلے(کشمکش)، اپجنا، ورے اور پرے، ٹھٹھولیاں، چھلنا، نلوٹ، جھکجھولے، منتر مارنا، دھرنا، رکھائیاں، پیچ دینا، دیوانہ، ٹل کر رہ جانا، چِتون، مکھڑا، جھمکڑا، سجنا، کوٹھے(چھت)، رندھنا، کھپنا اور چاہیں نکلنا وغیرہ کے علاوہ محاورات وخیالات کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو مصحفی کے دواوین میں جا بہ جا نظر آتی اور اپنی شان وشوکت کی جلوہ گری دکھلاتی ہے۔ کلیات مصحفی جلد چہارم کے دیباچے میں پروفیسر نثار احمد فاروقی رقم طراز ہیں:

"مصحفی کی شاعری کے رموزو علائم میں اور زبان وبیان میں امروہہ پوری طرح جھلک رہا ہے.....مصحفی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ امروہے کی زبان اور محاورے کے بہترین نمائندے ہیں۔ عوامی اردو کی مثالیں اتنی بہتات کے ساتھ دوسرے کسی شاعر کے کلام میں نہیں ملتیں۔ ان کی زبان اور علامتوں میں طبقہ متوسط کی قصباتی زندگی اور روزمرہ کی جو تصویر مصحفی کے کلام میں ملتی ہے وہ شاید ہی کہیں اور نظر آئے۔"

آئیے اب اشعار کے حوالے سے مصحفی کے علاقائی رنگ،امروہہ پن اور ان کی خوبیوں کا جائزہ لیتے ہیں     ؎

دیکھ کے رنگ حنا ہاتھ پہ تیرے قاتل

رشک کے مارے لہو پنجہ مژگاں سے چوا

اس شعرمیں مصحفی نے جو خیال باندھا ہے اس کی خوبصورتی سے زیادہ الفاظ کا انتخاب اس شعر کے حسن کی دوشیزگی کا سبب ہے کہ قاتل(محبوب) کے ہاتھ پر رنگ حنا کو دیکھ کر عاشق کا لہورشک کے مارے پنجہ مژگاں سے چو گیا۔ محبوب کو قاتل کہنا ایک طرف پیار محبت کا اظہار اور قربت کا احساس ہے تو دوسری طرف قاتل کا تعلق اپنے اصلی اور حقیقی معنی میں پنجہ مژگاں سے لہو کے چونے سے بھی جڑ جاتا ہے۔ یہاں قاتل، رشک، لہو، حنا، ہاتھ اور پنجہ مژگاں کی رعایت بھی قابل دید ہے۔ان ساری خوبیوں کے علاوہ ایک عوامی لفظ ’ چوا‘ اس پورے شعری پیکر میں چار چاندلگا رہا ہے۔ اگر اس ـ’چوا‘ کی جگہ’گرا‘ لفظ استعمال کریں تو مفہوم ادا ہو جائے گا مگر اس کا صوتی اور پیکری دونوں حسن تباہ ہو جائے گا۔اسی طرح لفظ ٹپکنا چونے کا مترادف تو ہوسکتا ہے مگر اس شعر میں اس کا متبادل نہیں ہوسکتا کیونکہ جو فصاحت و بلاغت اور پیکر چونے میں ہے وہ بھی خصوصا خون کے، وہ گرنے اور ٹپکنے میں ناپید ہے۔ گویا یہ عوامی یا ہندی لفظ اس شعر کی شعریت کو مجروح کرنے کے بجائے اس کے حسن کو دوبالا کر رہا ہے۔ یہاں اس سے بہتر لفظ کا انتخاب ممکن نہیں تھا۔ دوسرا شعر دیکھیے                       ؎

گورے بدن کا عالم اس کے میں رات دیکھا

اک نور کا جھمکڑا  تھا پیراہن  کے   اندر

اس شعر میں پیکر تراشی کا ایک بہترین آرٹ پیش کیا گیا ہے۔ بصری پیکر یا تصویر کا حسن اس بات میں ہے کہ اس میں کچھ ابہام ہو۔ سب کچھ واضح اور عیاں نہ ہو بلکہ حسن خود ہی اپنا پردہ ہوجائے اور پھر وہ تصور کی آنکھ کو وا کرنے کا متقاضی ہو۔ یہاں مصحفی نے ایک ہندی یا عوامی اور متروک الاستعمال لفظ جھمکڑا سے محبوب کے حسن کی جلوہ گری کی ہے کہ اس کے گورے بدن کا عالم اور اس کی کیفیت تو میں نے رات دیکھی کہ وہ سراپا اک نور کا جھمکڑا تھا۔ رات اور نور کے تضاد سے حسن میں اضافہ کیا اور گورے بدن کے عالم سے اک نور کا جھمکڑا تیارکیا ہے جو پیراہن کے اندر جلوہ گر تھا۔ گویا اس تصویری کائنا ت میں نور کا جھمکڑا ہی خاص اہمیت کا حامل ہے جو اپنے اندر ابہام بھی رکھتا ہے اور حسن بھی۔ معنوی وسعت بھی رکھتا ہے اور خوش کن پیکر بھی۔شاید کہ جھمکڑے کی جگہ دوسرا لفظ شعری حسن اور روانی کو برقرار رکھنے میں اتنا موثر کردار ادا نہیں کر سکتا تھا۔ اسی مفہوم، اندازاور روایت کا ایک دوسرا شعر دیکھیے جس میں مصحفی نے تقریبا یہی اسلوب اپنایا ہے۔ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اس قبا میں بدن ہے یا کیا ہے مجھے کچھ بھی معلوم نہیں،میں نے تو بس شعلہ سا کچھ جھمکتا ہو ادیکھا ہے۔ آپ بھی دیکھیں     ؎

یہ جانتے نہیں ہم اس میں بدن ہے کیا ہے

شعلہ سا اک جھمکتا زیرقبا ہے دیکھا

اس شعر کا تمام دارومدار اس تشبیہی پیکر پر ہے جس میں زیر قبا شعلے کے مانند جھمکتا ہوا بدن قابل دید ہے۔ جھمکنے میں جلوہ دینے اور حسن کی بہاریں دکھلانے کا جو مفہوم پنہاں ہے وہ چمکنے او ردمکنے میں بہر صورت ادا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لفظ کو میر تقی میر نے بھی استعمال کیا ہے     ؎

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور

شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

ایک اور شعر دیکھیے      ؎

یوں ہے ڈلک بدن کی اس پیرہن کی تہہ میں

سرخی بدن کی جھلکے جیسے بدن کی تہہ میں

یہاں بھی پیرہن کی تہہ میں یا زیر قبا اس کے بدن کی ڈلک یوں ہے جیسے کہ بدن کی سرخی پیرہن میں نہیں بلکہ بدن کی تہہ میںجھلک رہی ہے۔ یہاں بھی تشبیہی عناصر اور لفظوں کے رعایتی نظام سے مصوری کی گئی ہے۔ اس میں سارے لفظ تو عام ہیں مگر ایک لفظ 'ڈلک'عامیانہ ہے جو بدن کے ترکیبی عناصر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ ڈلک سونے اور کندن وغیرہ کی چمک دمک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مصحفی نے یہاں محبوب کے بدن کے لیے استعمال کیا ہے جو محبوب کی رنگت، نزاکت اور چمک دمک کا بھی احساس دلاتا ہے۔ اس لفظ کا ذکرکرتے ہوئے سید حامد صاحب دیوان مصحفی جلد پنجم کے دیباچے میں لکھتے ہیں’’ ڈلک کا لفظ فریاد کررہا ہے کہ میرے جیسے نامعلوم کتنے حسین پر احساس اور معنی آفریں الفاظ لطافت اور طہارت کے نشے میں اردو شاعری کی زبان سے نکا ل دیے گئے۔

علاقائی رنگ و آہنگ کے چند اشعار اور ملاحظہ فرمائیں     ؎

تو گیا پیارے سفر کو چھوڑ کر میرے تئیں

رفتہ رفتہ میں ترے جی سے بِسر کر رہ گیا

خوبی جواب دینے کی ٹک اس کے دیکھیو

گر میں پکارتا ہوں تو کہتا ہے مجھ کو پھوٹ

ہیں اس گلی میں حسن کے تودے لگے ہوئے

خورشید و ماہ لے کے گئے باندھ باندھ پوٹ

مصحفی یار کے گھر کے آگے

ہم سے کتنے نگھرے بیٹھے ہیں

مندرجہ بالا اشعار میں جی سے بسر کر رہ گیا، پھوٹ، پوٹ اور نگھرے وغیرہ عوامی یا علاقائی بولیوں میں سے ہیں۔ مصحفی نے جن کو اپنے شعروں میں کھپا کر شعروں کو زینت اور لفظوں کوعزت بخشی ہے۔ جی سے بسر کر رہ گیا میں ہجر کی جو کیفیت، کسک اور بے ساختگی ہے وہ شعر کی سادگی کے باوجود اس کے حسن کو بڑھاتی اور کیفیت و تاثر نیز معنی کی پرتوں کو وا کرتی ہے۔

دوسرے شعر میں کہا کہ محبوب کے جواب دینے کی خوبی یہ ہے کہ اس کو پکارو تو کہتا ہے پھو ٹ یعنی پھوٹ لے یا بھاگ لے۔ بالکل ہی عوامی اور علاقائی زبان کا لفظ ہے اور مصحفی نے اس لفظ کے ذریعے محبوب کے جواب دینے کی یہی خوبی بتائی ہے کہ وہ کہتا ہے پھوٹ۔ اس لفظ سے محبوب کی بے تکلفی، اس کا چلبلاپن اور اس کی شوخی ادا کے ساتھ قربت سب کچھ مترشح ہوتا ہے۔ گویا یہ ایک لفظ کے ساتھ ساتھ اس پوری کیفیت کا بھی آئینہ دار ہے۔

تیسرے شعر میں محبوب کی گلی میں حسن کے تودے لگے ہوئے ہیں اور یہیں سے خورشید و ماہ لے کے گئے باندھ باندھ پوٹ۔پوٹ بمعنی پوٹلی یا گٹھری کے ہیں۔ مصحفی نے یہاں صفت مقلوب سے کام لے کے دوسرے مصرعے کے عامیانہ پن سے بات پیدا کی ہے۔ اس کا محبوب اس قدر روشن جبیں اور پرنور ہے کہ اس کے وجود سے اس کی گلی تک منور ہو گئی ہے اور گویا حسن کے تودے لگ گئے ہیں نیز خورشید و ماہ جو خود نور کے منبع ہیں وہ بھی یہیں سے پوٹلی یا گٹھری باندھ باندھ کے لے گئے اور اس سے اپنی روشنی کا سامان پیدا کیا ہے۔ یہاں پوٹ اور خورشید کی رعایت و مناسبت دو وجہوں سے ثابت ہے۔ ایک تو خورشیدوماہ اورپوٹ کی گولائی و مدوری شکل۔ دوسرے خورشید اور ماہ دونوں انسانی ناموں سے متصف ہیں گویا انسان ہیں یعنی حسن کے تودے اور خورشید وماہ دونو ں کو تجسیمی پیکر ادا کرکے انھیں انسانوں کی طرح پوٹ باندھ باندھ کر لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔خورشید وماہ لے گئے کی بجائے خورشید وماہ ’لے کے‘ گئے باندھ باندھ پوٹ کہا ہے جس سے لہجے کا بھی عامیانہ پن ظاہر ہے۔ اس شعر میں تجسیمی پیکر، بصری پیکر، حسی پیکر اور رعایتی التزام کے علاوہ پوٹ جیسے علاقائی الفاظ نے شعر کے حسن کو چار چاند لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

چوتھے شعر میں محبوب کے گھر کے آگے ہم سے کتنے نگھرے بیٹھے ہیں میں ایک لفظ' گھر' سے شعر سازی کی گئی ہے کہ محبوب کے پاس تو گھر ہے اور وہ آرام سے اس میں جلوہ فرما ہے اور یہاں اس کے عشق میں یہ عالم ہے کہ خانہ خراب ہو کر اس کے گھر کے آگے نگھرے( بے گھر) بیٹھے ہیں۔ محبوب کے گھر کے آگے نگھرے بیٹھنے میں بھی دو لطیف اشارے پوشیدہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ محبوب کے پاس گھر ہے اور ہمارے پاس گھر نہیں ہے اس لیے اس کے گھر کے سایے میں بیٹھے ہیں کہ کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ محبوب کی بدولت ہم خانہ خراب اور نگھرے ہوئے ہیں۔اس لیے ہم انتقاماً اس کے گھر کے آگے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے گھر میں جگہ دے یا کم از کم ہماری طرف نگہ التفات کرے۔ اس شعر میں 'نگھرے' ہی ایک کلیدی لفظ ہے۔ا گر اس ایک لفظ کو ہٹا دیا جائے تو شعر میں کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ مصحفی نے گویا ہندی یا عوامی لفظ نگھرے لاکر گھر سے اس کا تعلق اور تضاد بھی قائم کر دیا ہے اور دو ہم صوت الفاظ یکجا ہوجانے کی وجہ سے صوتی سبک روی اور معنوی جہتیں بھی پیدا ہوگئی ہیں گویا یہ لفظ اردو زبان کا نہ ہونے کے باوجود اس طرح سے شعر میں شیر وشکر ہوگیا ہے کہ اس سے شعر کے حسن اور معنوی جہات میں اضافہ ہوا ہے نہ کہ قبح یا گرانی میں۔یہی ایک بڑے شاعر کی فنکاری اور مرصع سازی کا کمال ہے۔

Raees Ahmad Farahi

Room No.: 237, Periyar Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 8802252580

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں