4/10/22

وامق جونپوری کی غزل گوئی: ڈاکٹر اسود گوہر



میں فن ہوں میری انگلیاں ہیں زندگی کی نبض پر

قدم مرا زمین پر تو کائنات پر نظر

وامق جونپوری کا اصل نام سید احمد مجتبیٰ تھا۔ 23 اکتوبر 1909 کو موضع کج گائوں ضلع جون پور میں ان کی پیدائش ایک جاگیر دار گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی بعد میں بارہ بنکی سے1926 میں ہائی اسکول اور گورنمنٹ کالج فیض آباد سے1929میں سائنس میں انٹرمیڈیٹ کیا۔اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے1935  میں بی اے پاس کیا اور بعد میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے کلام کے مجموعے چیخیں، جرس، شب چراغ اور سفر نا تمام ایسے مجموعے ہیں جنھوں نے ادب میں اپنی افادیت و انفرادیت کے سبب بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔انھوں نے زمانہ طالب علمی سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک نا انصافی،ظلم و استحصال، جبر و استبداد اور سامراجیت کے خلاف آواز اٹھائی اور انسانیت و مساوات کو اپنا نصب العین بنایا۔ تہذیبی و ثقافتی وابستگی اور خاندانی وراثت سے جذباتی لگائو کے سبب وہ اپنے ماضی سے ہمیشہ جڑے رہے اور یہی وجہ رہی کہ انھوں نے کسی بڑے شہر میں مستقر ہونے کے بجائے اپنے گائوں کی کوٹھی ہی میں پناہ لی۔ان کی تخلیقی زندگی کی داستان اپنے اندر پون صدی کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ترقی پسند تحریک اور جنگِ آزادی کے پس منظر میں کی گئی شاعری میں انھوں نے بیسویں صدی کی منہ بولتی تصویریں پیش کی ہیں۔شیرازِ ہند جون پور کے اس قد آور شاعرکا 21نومبر 1998 کو انتقال ہو گیا۔

جس ماحول میں وامق نے آنکھ کھولی اس وقت ان کے خاندانی دبدبے کا یہ حال تھا کہ دوچار ضلعے میں کوئی سرکشی بھی کرتا تو اس کی گرفت سے پہلے اس سے سوال کیا جاتا تھا کہ کیا اپنے کوٹڑھواں (عرف عام میں کجگائوں کو کوٹڑھواں کہا جاتا ہے) کا سید سمجھتا ہے۔ ان کی حویلی سے باہر نکل کر عوام الناس سے ملنا جلنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں وامق کا اپنے ماحول سے بغاوت کرنا عوام الناس سے ملنا، ان کے مسائل کو سمجھنا آسان نہ تھا۔سماج بھی اکثر اس روپ کو سمجھ نہیں پاتا اور شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اس بات کا ذکر وامق نے اپنی ڈائری میں اس طرح کیا ہے:

"ہمارے ساتھی (جو زیادہ تر سینئر تھے) کہا کرتے تھے ارے بھائی! جانتا ہوں یہ لوگ جونپور کے زمیندار خاندان کے ہیں... یہ لوگ کمیونسٹ تحریک... یہ اور ترقی پسند تحریک... یہ کچھ نہیں... یہ عین وقت پر دھوکہ دینے والے ہیں۔ انھیں کسی خفیہ میٹنگ میں نہیں بلانا چاہییے۔ یہ کسانوں میں سے نہیں ہیں۔ یہ مزدوروں کے خاندان کا لڑکا نہیں ہے۔ اس لیے اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے ان باتوں سے بڑی تکلیف ہوتی..."

بد اعتمادی کے اس ماحول نے وامق کو ڈگمگانے نہیں دیا بلکہ وہ زندگی کی آخری سانس تک اپنے اصولوں و عقیدے کو گلے لگائے رہے اور کبھی سمجھوتا نہیں کیا جو ان کی فطرت صالحہ کا بڑا ثبوت ہے۔انسان حالات زندگی اور اس کے نشیب و فراز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زندگی کے تغیرات اس پر اثر انداز ہوتے ہیںجس کی وجہ سے وہ اپنی سوچ کو بدل کر نئی فکر کو اپناتا ہے چونکہ ادیب و شاعر زیادہ ہی ذکی الحس ہوتے ہیں اس لیے بدلتے ہوئے حالات سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں۔اپنی ڈائری میں اپنے احساسات کا بیان وانق اس طرح کرتے ہیں:

"میری ذات سے وابستہ دو حادثوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک یہ کہ میں 1909 کو پیدا ہوا کہ زندگی بھر اپنے وجود کا خمیازہ بھگتا کروں دوسرا حادثہ 1940 میں یہ ہوا کہ میں ایک دم شاعر بن گیا۔"

1940یعنی وامق کی جوانی کا دور جہاں ایک طرف جوانی کے تقاضے انھیں روایتی شاعری کے لیے مجبور کر رہے تھے تو وہیں دوسری طرف ترقی پسند تحریک، جنگ، جاگیردارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ نظام لوٹ کھسوٹ کر رہا تھا اور یہ معاشرتی مسائل وامق کو اپنی جانب مراجعت پر اکسا رہے تھے۔ان کی ابتدائی دور کی غزلوں کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے         ؎

عقدہ نہ آج تک کھلا چشم مست کا

ساغر میں ہے شراب کہ ساغر شراب میں

وامق برائے کیف بدلتا ہوں کروٹیں

کچھ زندگی کا لطف تو ہے اضطراب میں

——

کھویا کھویا ساپاکے ہمیں وہ دل کی باتیں جان گئے

اور ان کا تجاہل دیکھتے ہی ہم ان کی نظر پہچان گئے

 اس وقت وامق کے جو احساسات تھے ان کے متعلق انھوں نے لکھا ہے :

"اس وقت جنگ پورے شباب پر تھی سارے ملک میں بھوک اور بر ہنگی کی آندھیاں چل رہی تھیں۔فرنگی اور امریکی سپاہی سڑکوں اور گلیوں کو روند تے پھر رہے تھے پست متوسط طبقے اور غریبوں کے گھر ویران اور چکلے خانے آباد ہو رہے تھے۔ مذہبی رہنما جنت اور دوسرے جہنم کی بشارت دے دے کر صبر و شکر کی تلقین فر مارہے تھے۔ یہ حال دیکھ کر ایسا محسوس ہونے لگا کہ جس قسم کی روایتی شاعری میں کر رہا ہوں وہ ایک ناقابل معافی اخلاقی جرم ہے۔ یہی وہ وقت بھی تھا جب ملک کے رجعت پسند ادیب ادب برائے زندگی کے مقابلے میں اپنے آخری مورچے سے جنگ کر رہے تھے اس جنگ سے مجھ کو بڑا فائدہ ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں، میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ ادب کوزندگی کا آئینہ دار ہونا چاہیے اب میں محض اپنے ذاتی مشاہدات اور محسوسات سے کام لے رہا تھا اور اس طرح میرے صحیح وجدانِ مقصد کے دور کا آغاز ہوا اور جیسے مجھ کو کچھ تسکین بھی ہونے لگی ’جرس‘ اسی دور کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔" (جرس از وامق جونپوری ص14)

انسانی ذہن کی تعمیردراصل خارجی اور داخلی اثرات کے زیر اثر ہوتی ہے۔ داخلی اس کی سرشت فطرت و ذہانت ہے جو اسے پیدائشی طور پر قدرت عطا کرتی ہے۔ جبکہ خارجی اثرات انسان کی تربیت کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان اپنے خارجی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر بچ کر نکل جائے۔اپنے احساسات کی ترجمانی کے لیے وامق کو ایک وسیع میدان کی ضرورت تھی جس کے لیے انھوں نے اپنے جذبات،احساسات کو نظم کے قالب میں ڈھالا۔یہی وجہ رہی کہ دنیائے ادب میں وامق کو نظم نگار کی حیثیت سے ہی جانا جاتا ہے۔لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ انھوں نے غزل کی زمین کو ترک کر دیا تھا۔ اوائل دو سال کے علاوہ بھی انھوں نے اچھی خاصی غزلیں کہیں جو اپنے فنی حسن کے ساتھ ساتھ جمہوری مزاج سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ وامق نے غزل کے محدود دائرے میں بھی عصر حاضر کے تمام مسائل اور اس میں موجود بے اعتدالیوں، پیچیدگیوں و نفسیاتی کشمکش کو نہایت خوبی سے موضوع بنایا۔ملاحظہ کیجیے:

طلسم خواب غفلت توڑ کر بیدار ہوتے ہیں

سنبھل جا تشنۂ دولت کہ ہم بیدار ہوتے ہیں

زمیں لرزاں، زماں لرزاں، نگاہ اہرمن لرزاں

کہ اب تیوری ہمارے انقلاب آثار ہوتے ہیں

دوسری جنگ عظیم اپنے شباب پر تھی اور پوری دنیا اس کے مہلک اثرات سے جوجھ رہی تھی۔ اسی دور میں ہندوستان میں بھی تحریکِ آزادی اپنے پورے شباب پر تھی اور بلاتفریق مذہب و ملّت ہر ہندوستانی اپنی اپنی بساط کے مطابق اس جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔ دوسری طرف جنگ آزادی کے متوالوں کو کچلنے کے لیے انگریز سامراج نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔ایسے حالات میں وامق اس طرح نعرہ بلند کرتے ہیں:

ادھر دی جا رہی ہیں رفعتیں دیوار زنداں کو

ادھر آزادیوں کی فکر کامل ہوتی جاتی ہے

ہوائوں کو ادھر ضد ہے کہ اک تنکا نہ رہ جائے

ادھر فکر نشیمن اور محکم ہوتی جاتی ہے

——

ہمارے میکدے کا اب نظام بدلے گا

ہم اپنا ساقی بدل دیں گے جام بدلے گا

ابھی تو چند ہی میکش ہیں باقی سب تشنہ

وہ وقت آگیا جب تشنہ کام بدلے گا

بدلتی رہتی ہیں قدریں رحیل وقت کے ساتھ

زمانہ بدلے گا ہر شے کا نام بدلے گا

یہ عرش و فرش کی تفریق کچھ نہیں وامق

بلند پست کا معیار خام بدلے گا

انتہائی جد وجہد اور کئی جانو ں کی قربانی دے کر ہندوستان نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن مذہبی، نسلی اور لسانی عصبیت کی وجہ سے یہاں دو قومی نظریہ پروان چڑھنے لگا۔  جس کے باعث  ملک پہلے دو اور بعد میں تین حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس تقسیم میں لاکھوں انسان بے وطن ہوئے اور گھر کے گھر برباد ہوئے۔ خاندان ٹوٹ گئے، احباب بچھڑ گئے۔ گلی، کوچے، سڑکیں اور بازار لہولہان ہو گئے گویا انسانیت زندہ در گور ہو گئی۔ اس کرب کا کھل کر اظہار وامق نے اپنی نظموں میں کیا ہے۔ لیکن غزلیں بھی اس کرب سے خالی نہیں۔ملاحظہ کیجیے          ؎

جبیں پہ خون، جگر خوں، ہاتھ پائوں پر خوں

تمام خوں سے عبارت یہ خواب یاد رہے

ہر اک لہو میں نہیں انقلاب کی تاثیر

ہر اک چمن نہیں شہر گلاب یاد رہے

آزادیِ ملک اور تقسیم ہند نے ہر کسی کو نیا اندازِ فکر اور سوچنے کا نیا نظریہ دیا۔ ملک میں نئے تعلیمی،اقتصادی، سماجی اور فنی تبدیلیوں کا احساس پیدا ہوا۔ ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں نے بھی نئی جہت کی تلاش شروع کی۔ اس مرتبہ نعرۂ انقلاب کی جگہ دلِ درد آشنا نے لے لی مگر اعتدال کے ساتھ ادب اور سماج کے رشتوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا اثر وامق پر بھی پڑا اور انھوں نے فیض، علی سردار جعفری، ساحر، کیفی، سلام، اختر اور مخدوم محی الدین کی طرح نئے اسالیب سے اپنی شاعری کو مزین کیا اور اردو غزل گوئی کو ایک نیا روپ دیا۔درج ذیل اشعار پر غور کیجیے         ؎

وقت آگیا انڈیلیے ساغر میں آفتاب

پھر اپنے جوڑے کھول رہی ہے غموں کی رات

——

وعدہ خلافی کر کے صفائی نہ دیجیے

اس شرط پر ہمیں شب ہجراں قبول ہے

——

عنایات مخصوص رہنے دے ساقی

ہمیں اک نہیں ہیں، یہاں اور بھی ہیں

دنیا میں انسانی زندگی کا جب سے وجود ہوا کشمکشِ حیات اور مسائل حیات سے وہ ہمیشہ ہی دوچار رہی ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں جاگیردارانہ، زمیندارانہ و آمرانہ نظام کا بول بالا تھا جس میں کئی خرابیاں آچکی تھیں۔ اس کے خلاف سماج میں بغاوت کی ہمت نہیں تھی۔ روحانیت مادہ پرستی پر غالب تھی۔ وہیں سماج میں کچھ اچھائیاں بھی موجود تھیں،اخلاقی قدریں زندہ تھیں۔ سماج کا کوئی فرد خود کو تنہا نہیں محسوس کرتا تھا۔ مگر نصف صدی میں یہ ڈھانچہ چر مرا گیا۔ سائنس ،تکنالوجی نے بے پناہ ترقی کر لی، رسل و رسائل ذرائع ابلاغ، تعلیم و صحت کی بے پناہ ترقی کے باوجود بھی سماج منتشر ہو گیا اور اخلاقی قدریں پائمال ہو گئیں۔ مادیت کا بول بالا ہو گیا اور بھرے بازار میں ہر شخص اکیلا ہو کر ذہنی انتشار و خوف کا شکار ہو گیا۔ ان تمام حالات کی عکاسی وامق کے کلام میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے      ؎

موم ہو جاتا تھا جن کے ہاتھ میں آکر پتھر

اپنے ہاتھوں سے ہی خود بن گیا آزر پتھر

نرم لہجے میں کڑی بات بھی لگتی ہے بھلی

نہ ہو خوشیوں کا سہارا تو گل تر پتھر

——

یہ عجب طرح کا دور ہے مگر اپنی رو بھی کچھ اور ہے

میری عمر قابلِ غور ہے میں چلا ہوں جیسے جواں چلے

جو کھلے نشاں تو قدم اٹھے جو لکھے زباں تو قلم چلے

جو چلے قلم تو رکے ستم کہ نظام امن و اماں چلے

سماج اور ادب کے بدلتے ہوئے انداز کا بلاشبہ وامق جونپوری نے خیر مقدم کیا اور اسے پورے اہتمام کے ساتھ اپنے کلام میں برتا۔انھوں نے فن اور زندگی کو الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹا اس لیے ان کے کلام میں زندگی اور ادب میں در آئی تبدیلیوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وامق کشمکش حیات سے کبھی ہراساں نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے ایک پر امن، پر عزم اور خوش آئند زندگی کا خواب ہمیشہ ان کی آنکھوں میں رہا۔ زندگی کی ناہمواریوں سے وہ مایوس کبھی نہیں ہوئے کیونکہ انھیں یقین تھا کہ آج نہیں تو کل زمانہ ضرور بدلے گا         ؎

غرض یہ کہ وامق زمانے کی صورت نہیں آج، تو کل بدل کر رہے گی

جو ہونا ہے وہ آج ہی ہو بھی جاتا، یہ دل چاہتا ہے مگر ہوتو کیسے

وامق تقلید کے قائل بالکل نہیں تھے اور نا ہی تقلید جامد کے۔ دوسروں کے افکار و خیالات سے جلد مرعوب نہیں ہوتے تھے بلکہ انھوں نے اپنی راہ خود متعین کی اور اسی پر چلتے رہے۔ ان کے مزاج میںوالہانہ پن، بے خوفی و بیباکی بہت نمایاں ہے۔صاف گوئی ان کی سر شت میں سموئی تھی۔ وامق خود احتسابی کے قائل تھے۔ ملاحظہ کیجیے        ؎

مجھے اس جنوں کی ہے جستجو جو چمن کو بخش دے رنگ و بو

جو نوید وصل بہار ہو مجھے اس نظر کی تلاش ہے

مجھے عشق حسن حیات سے مجھے ربط فکر و نشاط سے

مرا شعر نغمۂ    زندگی مجھے نوحہ گر کی تلاش ہے

 انھوں نے عوامی مسائل، جبر و استداد، جاگیر دارانہ نظام، سرمایہ داری، فرقہ پرستی اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بنا کسی مصلحت سامراج سے ٹکر لی۔ باوجود اس کے کہ وہ خود جاگیرادارنہ نظام کے پروردہ تھے مگر جس طرح انھوں نے خود اس نظام سے بغاوت کر کے اپنی عیش و عشرت سے بھر پور زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنے عمل، اپنی زبان اور اپنے قلم کے ذریعے نفرت کا اظہار بھی کیا۔ بلا شبہ وامق کے قول و عمل میں یکسانیت کی دلیل تھی۔ انھوں نے اپنے نظریہ فن کی عکاسی اس طرح کی ہے:

"ادب کو انسان دوستی کا روشن مینارہ ہونا چاہیے، قومی یکجہتی، ملکی سالمیت اور آزادی ضمیر کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور حسن محبت کا لالہ زار جو ادیب باطل اور قاتل سے نفرت نہیں کر سکتا (خواہ اس کا مرکز اندرونی ہو یا بیرونی) وہ حسن و عشق سے نہ محبت کر سکتا ہے نہ آزادی ملک و قوم اس کی نظر میں کوئی حیثیت رکھتی ہے تو اس کی تخلیقات قابلِ اعتبار نہیں۔" (مقدمہ شب درد، ص 14)

وامق کی غزلوں میں الفاظ کا انتخاب اور اس کا بر محل استعمال ان کے کلام میں اس طرح جان ڈال دیتا ہے کہ اس کے بہت سے معنی اور مہمل الفاظ بھی خوبصورت اور بامعنی ہو جاتے ہیں۔ایسے تجربات انھوں نے اپنے کلام میں بغیر کسی کی پرواہ کیے کیا۔انھیں اپنی متعین راہ پر چلنے پر فخر تھا جس کو انھوں نے بتایا بھی اور برتا بھی۔ شاعری کے نشیب و فراز سے وامق بخوبی وافق تھے۔ اپنے کلام میں انھوں نے جذبات کی ترجمانی اس انداز سے کی کہ سننے والا متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ انھوں نے چھوٹی بحر میں بھی غزلیں کہی۔ انھوں نے زبان و قلم کو کبھی بسیار گوئی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ کم بولنا اور حق گوئی ان کا مسلک تھا اس لیے انھوں نے کبھی مصالحت سے کام نہ لیا۔ ان کے مزاج میں عزت اور خودداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ خوشامد پسندی اور چاپلوسی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے:

کیا ضروری ہے کہ دیوان پر دیوان لکھوں

ایک شعر ایسا کہو زندۂ جاوید رہو

——

آہن نہیں کہ چاہیے جب موڑ دیجیے

شیشہ ہوں مڑ تو سکتا نہیں توڑ دیجیے

بحیثیت مجموعی ہم کہہ سکتے ہیں کہ وامق کی ابتدائی غزلوں میں انھوں نے بھلے ہی کوئی نیا تجربہ نہ کیا ہو لیکن آزادیِ ملک کے بعد تحریر کردہ غزلوں میں انھوں نے بہت جلد اپنے لیے ایک نئی راہ متعین کر لی اور یہی لہجہ ان کی انفرادیت کا ضامن بنا۔ انھوں نے بھلے ہی پیرایۂ بیان اور طرزِ ادا میں کوئی نیا تجربہ نہ کیا ہو مگر ان کے یہاں غزل، کلاسیکی انداز میں زندگی کی حرارت اور عصری مسائل و حقائق کی تصویر بن کر ابھرتی ہے۔

Dr. Aswad Gowher 
Assistant Professor
MGM University 
Aurangabad- 431001 (MS)
Email.: aswadgowher@gmail.com
Mob:9156469099








 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں