14/10/22

زبیر رضوی کی ادبی صحافت: خورشید اکرم


 ادبی رسالہ نکالنے کے لیے ایڈیٹر میں تین بنیادی خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ ایک وہ ادب کی تمام اصناف... غزل،نظم، افسانہ، انشائیہ، مزاحیہ، طنزیہ، ناول،  تنقید اورتحقیق کا ارفع شعور رکھتا ہو، ان اصناف کی روایت سے واقف ہواور ہم عصر رجحانات و میلانات سے آگاہ ہو۔ دو ہم عصر ادب کے مین اسٹریم (مکھیہ دھارا) سے وابستہ دور ونزدیک کے تمام لکھنے والوں (یا کم از کم بیشتر لکھنے والوں) سے واقف ہو اور تین بے لوث ہو،  Self-less ہو۔  یہ تین بنیادی صفات جس میں ہوں گی اس کے ذہن میںیہ صاف ہوگا کہ اسے رسالہ کیوں نکالنا ہے، کیسا نکالنا ہے اور کس طرح نکالنا ہے۔ ان اوصاف کے علاوہ دوایک اور اضافی خوبیاں بھی درکار ہوتی ہیں۔ مثلاً  بہتر ہے کہ مدیر، ہم عصر دنیا کے سیاسی، سماجی، ثقافتی معاملات پر اچھی نظر رکھتا ہو۔ مزید یہ کہ اس کے ارد گرد کی زبانوں میں اور عالمی طور پر دیگر زبانوںمیں کس طرح کا ادب لکھا جارہا ہے ان سے آگاہ ہو۔ سونے پہ سہاگہ: اگر یہ خوبی اور ہو کہ مدیر قارئین کا اپنا حلقہ پیدا کرنے اور مستقبل کے لکھنے والوں کی شناخت اور ان کی آبیاری کرنے کا بھی وژن رکھتا ہو۔

زبیر رضوی صاحب اور ان کے رسالے ذہن جدید کے بارے میں سوچتے ہوئے یہ چندباتیں از خود ذہن میں آئیں بلکہ یہ جو درج بالا خصوصیات اور خوبیاں یہاں درج ہوئی ہیں وہ دراصل زبیر رضوی کی مدیرانہ شخصیت کو مجسم و متشکل کرنے کی کوشش میں ذہن میں نقش ہوتی گئیں۔ یہ تو ہوئی ایک بات کہ کیوں زبیر رضوی اتنے اہم مدیر ثابت ہوئے، ماضی قریب کی ادبی صحافت میں۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پچھلے تیس چالیس برسوں میں ہندوستان ہی میں نہیں پاکستان میں بھی کوئی اور رسالہ (جو اپنی مکمل شکل میں رسالہ ہو)ایسا نہیں نکلا جو اس طرح عہد ساز ثابت ہوا ہو۔ اب ذرا یہ دیکھا جائے کہ یہ رسالہ کن زمانی حالات میں نکلا اور کیوں کر اور کس طرح اپنی جگہ مستحکم کرسکا۔ اس کے لیے ہمیں اس عہد کی عمومی ادبی فضا اور اس زمانے میں نکلنے والے دیگر ادبی وعلمی رسائل وجرائد کی سمت ورفتار پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔  اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میںایک گہرا سناٹا ادبی صحافت میں قائم ہوگیا تھا اور جس میں شاعر اورآجکل کے علاوہ جواز، عصری ادب اور کچھ حد تک الفاظ کو چھوڑ کر کوئی قابل ذکر رسالہ نہیں بچا تھا۔ ایسے میں’ذہن جدید‘ نے اردو کی ادبی صحافت میں قدم رکھا ۔ 1990میں جب ذہن جدید کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اردو کی ادبی صحافت میں جیسے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگیا۔ سبب یہ ہے کہ اب سے پہلے اردو کے کسی مدیر نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ادبی رسالے میں فائن آرٹ یعنی ادب کے علاوہ رقص، سنگیت، پنٹنگ، تھیٹر،فلم، کارٹون سازی وغیرہ پر بھی تحریریں شائع کی جاسکتی ہیں۔ جو اردو قارئین کے دورافتادہ اورکہنا چاہیے کہ خاصے بڑے حلقۂ قارئین کے لیے بالکل نئی بات تھی۔زبیر صاحب کا یہ آئیڈیا کلک کرگیا۔  ذہن جدید کے قارئین کا ایک حلقہ اسے روز اول سے مل گیا۔ لیکن رسالے کے مقبول ہونے کا یہی ایک سبب نہ تھا۔ زبیر صاحب نے اس وقت کے سب سے اچھے لکھنے والوں کو یہاں اکٹھا کرلیا تھا۔ ذہن جدید کے پہلے شمارے کی فہرست پر ایک نظر ڈا لنے سے ہی بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ بحث اشتراکی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر ترقی پسندی کی معنویت۔ یہ موضوع اس وقت چرچا میں تھا ہی پھر اس میں بلراج کومل، شمس الرحمن فاروقی،  ڈاکٹر قمر رئیس، دیویندر اسر، وحید اختر جیسے بڑے ادیبوں نے حصہ لیا تھا۔ اس سے پہلے گوربا چیف کا مضمون ’امتحاں اور بھی ہیں‘ … افسانے بانوقدسیہ، انور عظیم، سریندر پرکاش، جیلانی بانو، عوض سعید، عبداللہ حسین کے۔ شاعری بلراج کومل، محمد علوی، مخمو ر سعیدی، وحید اختر، زبیر رضوی کی نظمیں۔ دلیپ سنگھ کا مزاحیہ۔ گوشۂ ممتاز مفتی۔ اس میں اشفاق احمد کا مضمون زبیر رضوی اور مسعود اشعرکے ذریعے ممتاز مفتی سے لیا گیا انٹرویو اور ایک افسانہ۔’ ٹیگور اور وکٹوریہ ‘مضمون۔ قصہ گو فیض، فیض کی روداد حیات خود ان کی زبانی۔ ادب انتفاضہ (فلسطینی ادب) مضمون، کہانیاں، نظمیں، ہندوستانی ادب، کنڑ، ہندی، پنجابی اور انگریزی ادب سے منتخب تحریریں۔ لتا منگیشکر سے انٹرویو۔ گریٹا گاربو، سری لیکھا، انورادھا پوڈوال پرمختصر تحریریں۔ تھیٹر پر دو مضامین۔ کینوس کے زیر عنوان رنگوں میں احتجاج منوپارکھ، آرٹ کی قومی نمائش، کینوس پرکلچر، کتابوں کی باتیں اور آخر میں قرۃ العین حیدر کا انٹرویواردو میں فکشن کی تنقید کا فقدان ہے۔اب اس فہرست پر ایک نظر دوبارہ ڈالیے۔ عموماً ادبی رسالے کا سب سے بڑا حصہ شعری حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہاں دو سو صفحات میں صرف بارہ صفحہ شاعری کے حصے میں وہ بھی صرف نظمیں۔ موضوعات کا تنوع دیکھیے۔ اول اپنے عہد کے سب سے سنجیدہ موضوع پر مباحثہ، پھر بہترین افسانہ نگاروںکے افسانے، ایک سینئرادیب پر گوشہ، فلسطینی ادب،ہندوستانی ادب، فلم، تھیٹر، پینٹنگ، انٹرویو، کتابوں پر تبصرے۔کتابی سائز کے دو سو صفحے کے ایک رسالے میں اتنی تحریریں اوراتنی متنوع تحریریں، غور کیجیے،کیا آپ نے اس سے پہلے کسی رسالے میں دیکھی تھیں۔پھر ہر حصے میں زبیر رضوی اپنی مدیرانہ صلاحیتوں کے ساتھ موجود۔تقریباً چو تھائی صفحات خود ان کے اپنے لکھے ہوئے یا ترجمہ کیے ہوئے۔ ذہن جدید کے بہتر شمارے نکلے۔ کوئی بھی شمارہ اٹھا کر دیکھ لیجیے کم از کم پچاس ساٹھ صفحے زبیر صاحب  کے لکھے ہوئے ملیں گے۔

ادبی سطح پر ذہن جدید نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ ہمارے کئی بڑے قلم کار جو خاموش ہوگئے تھے وہ سرگرم ہوگئے کچھ اس لیے کہ ایڈیٹر زبیر رضوی اسی ادبی قبیلے کے فرد تھے اور کچھ اس لیے کہ یہ رسالہ ایک نئے رنگ ڈھنگ، نئے مزاج و انداز کے ساتھ سامنے آیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی،اشفاق احمد، ممتا زمفتی،سریندر پرکاش، محمد علوی، بانو قدسیہ، شوکت صدیقی، اشفاق احمد، انتظار حسین، بلراج کومل، فضیل جعفری،انور عظیم، اقبال مجید، رتن سنگھ… لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا۔ ایک گہماگہمی پیدا ہوئی۔ میں نے  رسائل و جرائد کے جائزے پر مبنی ایک مضمون میں ذہن جدیدکا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے 

 ’ذہن جدید‘ کا اجرا اس معنی میں90کی دہائی کا ایک ادبی واقعہ ہے کہ اس نے اپنے  قارئین کا ایک حلقہ پیدا کیا۔ پرانے لکھنے والو ں کو انسپائر کیا، نئے لکھنے والوں کو دریافت کیا اور ان کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی کی۔ یہ سب کچھ اس نے متانت اور اعتدال کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا، کوئی Radicalismاختیار کیے بغیر کیا۔ دوڈھائی سو صفحات پرمشتمل ایک سہ ماہی رسالہ جو اپنے وقت سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ تاخیر سے شائع ہوتا رہا، مقبولیت کی اس بلندی کو پہنچا کہ قارئین کو اس کا انتظار رہتا اور شائع ہونے کے چند دنوں کے اندرہی ادبی حلقوںمیں موضوع گفتگو بن جاتا۔

زبیر صاحب آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہاں سے جو تجربے اپنے ساتھ لائے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اپنے وقت اور عہد کو زیادہ سے زیادہ انگیز کرنے کی کوشش کرو کیونکہ جو آج کا وقت ہے وہی کل کو تاریخ ہوجائے گا۔ اکیسویں صدی کی آمد کا غلغلہ تھا جب ذہن جدید نے اب تک کی اردوادبی صحافت کا سب سے بڑا دھماکہ کیا۔ انھوں نے بیسویںصدی کے ادب کا  ایک جائزہ پیش کیا۔ دس بہترین کہانیاں، دس بہترین ناول، دس بہترین شاعر، دس اہم تنقیدی کتابیں، فکشن کے پانچ بہترین نقاد… وغیرہ وغیرہ اور اس ادبی سروے کے لیے انھوں نے اپنے عہد کے تیس چالیس بڑے ادبی ناموں کو منتخب کیا، ان سے رائیں مانگیں، ان رایوں کو یکجا کیا اور ان سے جو ٹھوس نتیجے برآمد ہوئے انھیں’ اپنی نوعیت کا پہلا ادب پیما‘ کے عنوان کے تحت ایک شمارے میں شائع کردیا۔ایک ہلچل مچ گئی۔ ہندوستان سے پاکستان تک۔کوئی اتفا ق کررہا ہے، کوئی اختلاف۔ کوئی اپنا جائزہ پیش کررہا ہے، کسی کو کسی نام پر اعتراض، کسی کو کسی پر، کسی کو اس بات پر کہ سیمپل سائز بہت چھوٹا تھا۔ زبیر رضوی کا ایک مختصر سا جواب چالیس کے بجائے سو لوگوں سے بھی رائے لی جاتی تب بھی نتیجے میں کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔ نہ کوئی جائزہ کبھی مکمل ہوتا ہے، نہ کسی جائزے سے سب کو اتفاق ہوتا ہے۔ لیکن ذہن جدید کو ایک بہت بڑا کام اس طرح کرنا تھا، اس نے کردیا۔ آج بھی کسی سے پوچھیے کہ اردو کی سب سے بڑی کہانی کون سی ہے وہ  اعتماد سے کہے گا’ کفن‘۔سندذہن جدیدشمارہ 29۔ذہن جدید کوزبیر صاحب نے کم از کم بیس برس تک نہایت سرگرمی کے ساتھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ، نئے حالات وحوادث سے خود کو ہم آہنگ رکھ کر اور اپنے افکار ونظریات کے اعلان کے ساتھ نکالا،بلا خوف وخطر۔  پہلے ہی شمارے میں سریندر پرکاش کی دو کہانیاں اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیں۔ پہلا ہی جملہ اردو کہانی کو سعادت حسن منٹو کے بعد جس شاطر افسانہ نگار کی ضرورت تھی وہ سریندر پرکاش کی شکل میں میسر آگیا ہے۔ بس یہ جملہ ادبی فضا میں گونج گیا۔  ادھر وارث علوی کا ایک مضمون چھپتا ہے۔ بڑے بڑے بتوں کے لباس فاخرہ دھجیاں بن کر اڑنے لگتے ہیں۔ سریندر پرکاش، وارث علوی کی طرف کمان کھینچ کر ایک افسانہ مارتے ہیں۔ جوابی حملہ وارث کا۔ کر لو فیصلہ کون سیر کون سوا سیر۔ شموئیل احمد سنگار دان لکھ کر لائے ہیں۔ ذہن جدید میں کہانی چھپی۔ ایک آن میں مشہور ہوگئی، چرچے میں آگئی۔ 70کی دہائی میں ابھر کر گمنام ہوجانے والا افسانہ نگار شموئیل احمد سنگاردان کی اشاعت کے بعد راتوں رات اسٹار ہوگیا۔ اردو کہانی کی تاریخ سے سنگاردان کو بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ ذہن جدید نہ ہوتا کوئی اور رسالہ ہوتا توکیا یہ کہانی اس طرح آن کی آن میں مشہور ہوجاتی۔  شاید نہیں۔ اس پایے کی اور کئی کہانیاں اس کے آگے پیچھے کئی اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں۔ یہ شہرت اور مقبولیت کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ یہ کہہ کر میں اس کہانی کا قد چھوٹا نہیں کررہا، صرف اس Weightageکو نشا ن زد کررہا ہوںجو ذہن جدید میں اس کی اشاعت کے باعث اسے ملا۔ 1995-96میں انھوں نے یکے بعد دیگرے جدید نظم پردو شمارے نکالے (شمارہ 19اور20) پہلا شمارہ اخترالایمان کے بعد سے 1980تک کی نظمیہ شاعری کا انتخاب جو انھوں نے خود کیا۔ دوسرا شمارہ نظم کی تاریخ، جدید نظم کے میلانات و امتیازات پر مبنی منتخب مضامین پرمشتمل ہے۔نئی نظم کا سفر(کتاب نما 1974مرتب خلیل الرحمن اعظمی) کے بعد اردو نظم کا کوئی اور جامع انتخاب نہیں چھپا تھا یا کم از کم کل ہند سطح پر قابل ذکر نہیں سمجھا گیا تھا۔پھر دو تین سال بعد ایک شمارہ 80کے بعد کی نظموں کے انتخاب پر مشتمل۔ تینوں شمارے ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ بعد میں انھوں نے ان کو یکجا کرکے کتابی صورت میں شائع کیا۔ اس طرح کہ یہ ایک دستاویزی نوعیت کی کتاب بن گئی۔

زبیر رضوی خود شاعر تھے لیکن میرا خیال ہے کہ ذہن جدید کے پچیس چھبیس برسوں کے سفر میں تخلیقی ادب میں ان کی دلچسپی شاعری کے مقابلے افسانے کی طرف زیادہ رہی۔  افسانے پر جتنی توجہ’ ذہن جدید ‘نے کی کسی اور رسالے کو اتنی کامیابی نہیں مل سکی۔ کئی افسانہ نگاروں نے ’ذہن جدید‘ کے صفحات پر گویا اپنے آپ کو دوبارہ دریافت کیا۔ کئی افسانہ نگاروں کو شناخت اسی پرچے سے ملی۔ میرا اندازہ ہے کہ ان برسوں میں جو قابل ذکر افسانے اردو میں چھپے ان میں ذہن جدید اور شب خون کا حصہ دیگر اعلٰی درجہ رسائل مثلاً نیا ورق، سوغات، شاعر، آجکل کے مقابلے زیادہ ہوگا۔ زبیر صاحب نے اردو کے طبع زاد افسانوں کے علاوہ ہندی، بنگلہ، اڑیہ، مراٹھی وغیرہ ہندوستانی زبانوں کا ادب تواتر سے چھاپا۔  ہندی کے مشہور افسانہ نگار ادے پرکاش کواردومیں آجکل نے ہندی کہانی نمبر(جنوری 1988) سے متعارف کرایا تھا مگرزبیر رضوی نے یکے بعد دیگرے ان کی کئی کہانیاں چھاپیں اس طرح کہ وہ اردو والوں میں ایک مقبول نام بن گئے۔ اصغر وجاہت کا ڈرامہ ’جسی لاہور نئیں دیکھیاِ ‘چھاپتے ہیں اور وہ اردو والوں میں بھی جانا پہچانا نام بن جاتے ہیں۔ فسادات کی کہانیاں، خواتین کی کہانیاں،طوائفوں کی زندگی پر مبنی کہانیاں،جیسے کئی یادگار شمارے شائع کیے جو اب ہماری ادبی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ ان کے علاوہ غیر ملکی ادب سے مارکیز، سلویا پلاتھ، سارا ماگو، ارحان پامک، نجیب محفوظ، نازک الملائکہ، قرۃالعین طاہرہ، فروغ فرخ زاد، ڈوریس لیسنگ، ٹونی موریسن گنتر گراس وغیرہ کی ڈھیروں کہانیاں،نظمیں، مضامین چھاپے۔

اردومیں ادبی رسالے بالعموم عصری حوالوں سے خالی ہوتے ہیں۔ لیکن ذہن جدید نے اپنے پہلے ہی شمارے سے ادب اور ادیب کو متاثر کرنے والے ہمعصر سیاسی، سماجی اور ثقافتی معاملات کو جگہ دینے کی جو روش اپنائی تھی اسے تادیر اختیار کیے رکھا۔ ذہن جدید کے اوراق پر انگریزی اخبارات سے منتخب سیاسی کارٹونوں کی اشاعت کا سلسلہ ان کی اسی ذہنی سرگرمی کا حصہ ہے۔

1980کے بعد سے 2015کی ربع صدی میں ہندوستان، اردو دنیا اور سارا عالم جن بڑے واقعات وحادثات سے گزرا ان سب پر اپنے ادیبوں اورفنکاروں اور دانشوروں کے ردعمل دیکھنے ہوں توآپ ذہن جدید کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ لگاتار پچیس برس تک زبیر رضوی نے پوری تندہی اور سرگرمی سے اپنے عہد کے آشوب کو اردو قارئین تک پہنچانے کا کام کیا اور کچھ اس طرح کہ کوئی اور وہ کام اس طرح تن تنہا نہیں کرسکتا تھا۔

رسالے میں جو تحریریں شائع ہوتی ہیں ان کا ایک بڑا حصہ وقت کے ساتھ فرسودہ ہوجاتا ہے۔ یہ ذہن جدید کے ساتھ کم کم ہوا۔ یہ بات کچھ اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کیوںکہ میں نے ابھی ذہن جدید کے تقریباً پچاس شماروں کو دوبارہ الٹ پلٹ کر دیکھا ہے۔ زبیر صاحب نے تمام وقتی اور ہنگامی موضوعات کو رسالے کے صفحات پر جگہ دینے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی ان کی کوشش ایسی تحریروں کی اشاعت پر رہی جو بعد میں بھی پڑھی جاسکیں اور ایک دائمی قدرکی حیثیت رکھتی ہوں۔ مثلاً ذہن جدید میںشائع چھوٹے بڑے مضامین کو یکجا کرکے انھوں نے تقریباً ایک درجن کتابیں تیار کیں جن میں سے چند یہ ہیں (1) ہندوستانی سنیما، سو برسوں کا سفر(2)اردو فنون اور ادب (3) غالب اور فنون لطیفہ (4)  کالی رات (فسادات کے افسانے) (5) عصری عالمی ادب کے ستون۔ احوال وافکار (6)  ادب، تھیٹر، مصوری، رقص، کارٹون اور فوٹو گرافی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات کے انٹرویوز کا مجموعہ وغیرہ۔ مجھے یقین ہے کہ تلاش وتحقیق کی جائے تو موسیقی، رقص، کارٹون سازی، فلم سازی وغیرہ پر کئی مبسوط کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔

 رسالے کا جوخاکہ انھوںنے پہلے شمارے سے بنایا تھا اس میں وہ مسلسل تبدیلیاں کرتے رہے مگر اس طرح کہ اس کا کیریکٹر نہ بدلے۔ اس نے اپنی جو پہچان بنائی ہے وہ قائم رہے اور اس کے قارئین کی دلچسپی بنی رہے۔ذہن جدید نے ایک طرف سینئر لکھنے والوں کو متوجہ کیا تو بہت سے نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ یہ ایک نیا رول ماڈل بن گیا جس میں اعلیٰ ادب، فلم، فن،تھیٹر، بین الاقوامی سطح پر ہونے والی فکری اور ادبی تبدیلیوں کی جھلیاں مل جاتی تھیں۔

 ذہن جدید ان کے لیے صرف ایک رسالہ نہیں تھا وہ ان کا Passion بن گیا تھا جس کے ذریعے وہ اپنے قارئین میں ایک بیداری پیدا کرنے کی کوشش آخری وقت تک کرتے رہے۔ رسالے کے ڈھیروںصفحات وہ خود لکھتے تھے۔ رسالے کا پروف پڑھنے، اس کے لیے اشتہار ات لانے، ادیبوں سے رابطہ کرنے، چھپوانے، پیکٹ بنانے، پتے لکھنے سے لے کر ڈاک خانے تک لے جانے اور پوسٹ کرنے تک کا سارا کام وہ خود ہی کرتے تھے۔ اتنا سارا کام کسی دیوانگی کے بغیر پیشن کے بغیر ممکن نہیں۔

Khursheed Akram

52 B, Sukhdev Vihar DDA Flats

New Delhi 110025

Mob: 8010470440  

Email: akramkhurshid1@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں