13/10/22

تنقید نگاری کا فن:سید نفیس دسنوی


 

تنقید کسی شے کی خوبی اور خامی کے مابین تفریق کرنے کا شعور ہے۔اسے ادنیٰ واعلیٰ،کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کا ہنربھی کہہ سکتے ہیں۔ایک تنقید نگار نہ صرف یہ کہ کسی فن پارے کے حسن اور قبح کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس کے تمام مخفی گوشوں کو پرت در پرت اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ ہر سطح سے ایک جہانِ معنی عکس در عکس ابھر نے لگتا ہے۔یہ تنقیدی شعور انسان کو پسند اور نا پسند کی تمیز بھی عطا کرتا ہے۔تنقیدی شعور کی کارفرمائیاں ہی کسی فن پارے کو نقطۂ عروج تک لے جاتی ہیں۔دراصل تنقید نگار کا فہم و ادراک عام قاری کے مقابلے میں کافی وسیع ہوتا ہے۔اور وہ اپنی پسند اور نا پسند کو دلائل کے سہارے Convincing انداز میں پیش کر سکتا ہے۔اسی تنقیدی شعور نے انسان کوپتھر کے دور سے نکال کر ترقی یافتہ شاہراہوں تک پہنچایا ہے۔

پروفیسر کرامت علی کرامت نے تنقید کی بڑی جامع اور مکمل تعریف بیان کی ہے۔فرماتے ہیں ’’ در اصل تنقیدی عوامل کے تحت تشریح وتوضیح، فکروفن کے مثبت ومنفی دونوں پہلوؤں کی نشاندہی، تخلیق کار کے ذہن میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے تخلیقی عوامل کا جائزہ، ان عوامل کے ارتقا میں مختلف داخلی وخارجی اثرات کی دریافت، فنکار کے مختلف فن پاروں نیز ان کے ہم عصر اور پیش رو فن کاروں کی تخلیقات کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے فن کار کا اضافی  (Relative) مقام متعین کرنا‘بین العلومی مطالعے کے ذریعے فن پارے کے اندر پوشیدہ خوبیوں کو اجاگر کرنا، لفظ ومعنی کے رشتوں کی تحلیل، اور متن کی شکست وریخت، سب کچھ شامل ہے۔ ‘‘

(بحوالہ اردو ادب کا کوہِ نورپروفیسر کرامت علی کرامت،ص)

تنقید نگاری کے فن میں نقاد کا رویہ بہت اہم ہوتا ہے۔ دورانِ تنقید مضمون کا متن (Text)پس منظر میں چلا جاتا ہے اور نقادکا رویہ (Attitude)تنقید نگاری پر حاوی ہونے لگتا ہے۔نقاد اس سے انصاف کرنے کے بجائے تخلیق کار پر اپنی بالا دستی قائم کرنے میں لاشعوری طور پر زیادہ توجہ صرف کرنے لگتا ہے ‘جس کے نتیجے میں تنقید کا حق ادا نہیں ہوپاتا۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نقاد کا ذخیرۂ علم وآگہی تخلیق کی اہمیت کا اندازہ کرنے میں آڑے آنے لگتا ہے اور تنقیدی روئیے پر بھاری پڑنے لگتا ہے جس سے متن کے Under- estimated ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

تنقید نگاری کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی جاتی ہے کہ اگر شعری ادب سادہ اور اکہری سطح کا ہوتا ہے تو تنقید کی ضرورت نہیں رہتی،مگر در حقیقت اعلیٰ شعری ادب ایک بہت ہی پیچیدہ اور علامتی (Symbolic)مظہر ہے جس کی تشکیل میں سماجی، نفسیاتی، اور نظریاتی عوامل ہم آمیز ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اساطیری، تمثیلی اور اسطوری (Mythological)روایات بھی شعری ادب تخلیق کرنے کا پس منظر تراشتے ہیں اور اسی عمل میں اشعار پیچیدہ اور علامتی قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔تحقیق اور تنقید دراصل انھیں عوامل کے مفہوم، معنویت اور قدر کے تعین کا عمل ہے۔

تخلیقات کے حوالے سے ہر دور میں تنقید کی کچھ اپنی ترجیحات ہوا کرتی ہیں۔کسی دور میں مفہوم ومعنی اور اندازِ بیاں پر زور دیا جاتا رہا ہے تو کبھی تخلیقی حسن اور فکری اعماق پر بحث ہوتی رہی ہے۔ پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ کلاسیکیت کی بازیافت اور عصری حسیت کی آمیزش موضوعِ گفتگو بن گئی۔لیکن ہر دور میں بے لاگ تنقیدی رویہ ان تمام محرکات کو اپنے دامن میں سلیقے سے سمیٹتا رہا،اور وقت کی رفتار کے ساتھ بدلتی ہوئی لفظی اور معنوی کیفیات،ایجاب وانکار کا مناسب اور قابلِ قبول پیمانہ وضع کرتا رہا۔شرط صرف یہ تھی کہ ایسے تنقیدی روئیے کی بنیاد دیانتداری اور غیر جانب داری کے اصولوں پر رکھی گئی ہو۔یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے کہ کوئی تنقیدی رویہ حتمی یا آخری نہیں ہوتا کیونکہ تغیر پذیری ہی ایک زندہ ادب کی علامت ہے۔جب کوئی تنقید نگار تنقید میں حتمی اور حرفِ آخر ہونے کی کوشش میں کوائف اور شماریات کا بیجا استعمال کرنے لگتا ہے تو متن اور تفہیمِ متن کا توازن بگڑ جاتا ہے اور تنقید نگار مروجہ، تسلیم شدہ تنقیدی اصولوں کے پل صراط پر ڈگمگانے لگتا ہے۔ متوازن تنقیدی مسلک میں فن کے اسلوب کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔زندگی‘ادب اور تنقید ان تینوں میں متوازن اور متمول اسلوب کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

اردو ادب میں با ضابطہ تنقید نگاری کی ابتدا مولانا الطاف حسین حالی سے ہوئی۔اس سے قبل اردو شعرا کے تذکروں میں تنقید کے ابتدائی نمونے ضرور مل جاتے ہیں۔ان تذکروں میں تنقید کے اعلیٰ نمونے بھی موجود ہیں۔میر تقی میر کی تصنیف ’نکات الشعرا‘ میں بے لاگ تنقیدی مثالیںدیکھی جاسکتی ہیں۔میر کی تنقید میں کہیں کہیں تلخ کلامی نمایاں ہوجاتی ہے جبکہ مصحفی کی تنقید نگاری میں اعتدال پسندی غالب نظر آتی ہے۔آج جدید تنقید کی عمارت چاہے جتنی بھی بلند ہو جائے مگر سنگِ بنیاد تو مولانا الطاف حسین حالی اور حضرت شبلی نعمانی کے وضع کردہ تنقیدی اصول پر ہی ہے۔اردو تنقید نگاری آج بھی عملی تنقیدی اصولوں کی انھیں پٹریوں پر دوڑ رہی ہے۔ان مسلمہ تنقیدی رویوں سے صرفِ نظر کرکے اردو تنقید آگے نہیں بڑھ سکتی۔موازنۂ انیس ودبیر اور ’شعرالعجم‘ کے ذریعے حضرت شبلی نعمانی نے اردو ادب کو عملی تنقیدی ماڈل فراہم کیے۔انھوں نے شاعری کی تنقید کے حوالے سے جو نظریات پیش کیے تھے وہ صرف عصری تقاضوں پر مبنی نہیں تھے بلکہ ان میں مستقبل کا مزاج بھی جھلکتا تھا۔انھوں نے مغرب کے محدود اور ناقص تنقیدی رویوں کی پیروی کے بجائے مشرق کی تعمیری اور تخلیقی تنقید کی اپنی بنیاد استوار کی جو کہ گزشتہ نصف صدی کی تقلیدی تنقید کے گردوغبار کے باوجود اردو کی جدید تنقید کے لیے مشعلِ راہ ہے اور اپنی معنویت کی وجہ سے ’سمت ساز ‘بھی۔حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا شبلی نعمانی اردو میں عملی اور تقابلی تنقید نگاروں کے بنیاد گزاروں میں تھے۔انھوں نے شاعری کے حوالے سے بھی عملی اور نظریاتی تنقید کے تمام پہلوؤں پر توجہ کی۔ان کا خاص میدان شاعری کی تنقید ہے۔انھوں نے شاعری پر عملی تنقید کا سانچہ (Format) بھی پیش کیا۔اور اپنی معرکۃ الآرا تنقیدی تصنیف ’شعرالعجم‘ میں تنقیدی نظریات بھی پیش کیے اور ان پر بصیرت افروز اور خیال انگیز بحث بھی کی جو قابلِ ستائش بھی ہے۔ان کے مباحثے منطقی اور استدلالی ہیں۔مہدی افادی نے ’شعرالعجم‘ کو تنقیدِ عالیہ (Higher Criticisim) کا بہترین نمونہ قرار دیا ہے ان کا خیال ہے کہ صرف اردو لٹریچر ہی نہیں بلکہ مشرق کی کسی بھی ترقی یافتہ زبان میں اس پائے کی تصنیف کا وجود نہیں ہے اور یہ دنیا کی شیریں ترین زبان اردو کے جذباتی ادب کا خوبصورت مرقع ہے۔

مولانا الطاف حسین حالی نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ کے علاوہ ’حیاتِ سعدی‘ اور ’یادگار غالب ‘ میںاپنے تنقید کا ڈھانچہ عربی زبان کے معیارِ نقد کے مطابق وضع کیا مگر اس کی توثیق کے لیے ہمیشہ مغرب کے ادبی تصورات سے استفادہ کرنے کی کوشش کی۔جبکہ اس کے بر عکس مولانا شبلی نعمانی نے مغربی ادب کا مطالعہ ضرور کیا مگر اس سے مرعوب کبھی نہ ہوئے اور نہ ہی مشرقی اردو زبان کی کم مائیگی کے احساس کمتری میں مبتلا ہوئے۔ ان کے کشکول میں اردو کا گراں مایہ ادبی سرمایہ موجود تھا۔

پروفیسر مسعود حسین کے عہد میں جو تنقیدی مضامین لکھے جارہے تھے وہ’’تاثراتی تنقید کے ذیل میں آتے تھے‘ جس سے وہ خود مطمئن نہ تھے۔وہ انھیں صرف انشا پردازی تصور کرتے تھے‘تنقید نہیں۔انھیں تنقید کے اس نظریے کی تلاش تھی جس میں داخلی اور تاثراتی انداز کے بجائے معروضیت اور قطعیت پائی جاتی ہو۔جب امریکہ میں قیام کے دوران انھیں بالڈ اے ہل سے جن کا شمار تفہیمِ ادب پر لسانیت کا اطلاق کرنے والوں میں تھا‘ استفادہ کا موقع ملا تو انھوں نے لسانیت اور ادب کو ہم آمیز کرنے نسخہ دریافت کرلیا۔ادب کی تنقید کے اس نظریے کو اسلوبیاتی (Stylistic)تنقید کے نام سے موسوم کیا گیا۔نئی تنقید (New Criticism)بیسویں صدی کے چوتھائی اور پانچویں دہائی میں بے حد مقبول ہوئی۔ٹی ایس ایلیٹ کے اسی تنقیدی رویے کو آئی اے رچڑدس (I.A.Richards) اور ولیم ایمپسن(William Empson)نے مزیدفروغ دیا۔

اردو کلاسیکی تنقیدنگاری میں شعر ادب کو آنکنے کے شرقی تنقیدی اصول پوری وضاحت اورجامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔اکابرینِ ادب جیسے مولانا الطاف حسین حالی(مقدمۂ شعر و شاعری) امداد امام اثر (کاشف الحقائق)، (اردو شاعری پر ایک نظر اور اردو تنقید پر ایک نظر)‘وزیر آغا(اردو شاعری کا مزاج)‘شمس الرحمن فاروقی (شعر‘غیر شعر اور نظر)‘ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (ساختیات اور پس ساختیات اور مشرقی شعریات)‘ وہاب اشرفی (مابعد جدیدیت مضمرات و ممکنات)‘ پروفیسر کرامت علی کرامت(اضافی تنقید)‘آلِ احمد سرور‘ محمد حسن عسکری‘ پروفیسر عبد المغنی‘پروفیسر احمد سجاد‘سلیم احمد‘احتشام حسین‘ محمد حسن وغیرہ کی تنقیدی تصنیفات نے اردو تنقید نگاری کو قابلِ رشک بلندیوں تک پہنچایا۔ پروفیسر کرامت علی کرامت کی تصنیف’اضافی تنقید‘ کو اس اعتبارسے ایک اساسی حیثیت حاصل ہے کہ تنقیدی امور پر یہ رہنما کتاب ان کے تنقیدی نظریے اور خد وخال کا ایک جامع تفہیم نامہ فراہم کرتی ہے۔ ’اضافی تنقید‘ کو ان کے ادبی نظریے کی بنیاد گزار تصنیف کہا جاسکتا ہے۔ کرامت صاحب کی تنقید نگاری میں فکر و نظر کا ایک مربوط‘ متوازن اور جامع نظام کارفرما ہے۔چونکہ موصوف تنقید نگار کے علاوہ ایک اعلیٰ پایہ کے تخلیق کار بھی ہیں‘اس لیے ان کی تنقید روایتی تنقید سے ایک منزل آگے ہی چلتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک تخلیق کار جب تنقید نگاری کی ذمے داری سنبھالتا ہے تو دیگر تنقید نگاروں کے مقابلے میں تخلیق کی فنی باریکیوں‘لطافتوں اور نزاکتوں اور ان میں مضمر رموز و علائم کا بہتر طور سے جائزہ لے سکتا ہے اور منطقی (Logical)تنقید نگاری کا حق بہتر طور پر ادا کرسکتا ہے۔ پروفیسر کرامت علی صاحب کے ساتھ عین یہی معاملہ ہے۔

ایک تنقید نگار کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنی تنقید کا ایک ضروری ’فریم ورک‘ ذہن میں تیار کرے‘پھر اس میں کسی تخلیقی نمونے کوفٹ کرکے اسے پرکھے‘اس کی خوبیوںاور خامیوں کی نشان دہی کرے۔یہ دونوں عمل ’اصولی تنقید‘اور ’عملی تنقید‘ کے ایسے مراحل ہیں جن سے گزر کر ہی تنقید نگار حقِ تنقید ادا کرسکتا ہے۔تنقید کے مختلف دبستانوں میں تقابلی تنقید(Comparative Criticism)اور سائنٹیفک تنقید زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔تقابلی تنقید میں دو فنکاروں کے کسی ایک صنفِ ادب کا موازنہ کیا جاتا ہے جس کی بہترین مثال شبلی نعمانی اور انیس و دبیر کا مقابلہ ہے۔

سائنٹفک تنقید نگاری کی بھی اپنی ایک الگ اہمیت ہے جس میں کسی فن پارے کے معائب اور محاسن کا ہر زاویہ ٔ نگاہ سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ایسی تنقید نگاری میں تحقیق(Research) کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔اس طرزِ تنقید میں یہ مانا جاتا ہے کہ کسی تنقیدی رویے کو اس وقت تک درست تسلیم کیا جانا چاہیے جب تک اس کی صحت کے متعلق اتنا مواد فراہم نہ ہو جائے جو اسے غیر درست ثابت کرنے کے لیے کافی ہو۔

آج کے زیادہ تر نقاد مجموعی طور پر اپنے تاثرات کا اظہار تو کر دیتے ہیں،مگر کسی فنکار کے فن پاروں کا لسانی، فنی اور فکر کی تجزیہ کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ تنقیدوتبصرہ میں روز مرہ کے محاورات، لفظی مناسبت، تراکیب کی ندرت اور قوافی کی جدت سے آگے بڑھ کر شعر کے رنگ وآہنگ، اس کے صوتی نظام، اس کی قرأت کے رموز اور اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کی گہرائی اور گیرائی کا جائزہ بھی ضروری ہے۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اپنی بات کو پوری دیانت داری اورخلوص سے کہی جائے۔ذومعنی اور گنجلک خیالات سے پوری طرح گریز کیا جائے کیونکہ یہ صحت مند تنقید کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ اپنے نقطۂ نظر پر زور پیدا کرنے کی خاطر حقائق کو توڑ مروڑ کر غلط انداز میں پیش کرنا ایماندارانہ تنقیدی اصول کے منافی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان وادب کے ناقدین مستعار، خود ساختہ تنقیدی رویے سے گریز کرتے ہوئے مستند، مشرقی تنقیدی اصولوں کی جانب رخ کریں اور اپنے زاویۂ نظر کو فروغ دیں جو Indigenous ہوں۔ مزید بر آں ایسے تنقیدی سانچے وضع کریں جن پر اردو شعروادب کو صحیح طور پر پرکھا جا سکے اور اس کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔

Syed Nafees Dasnavi

Plot No:1481/B,Sector-6.C.D.A

Bidanasi

Cuttack-753014(Odisha)

Mob.: 9437067585

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں