12/10/22

اردو زبان و ادب مں تصور کی تفہیم: محممودالحسن خان





 اردو زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے لفظ تصور نیا یا اجنبی سا نہیں، جابہ بجا تحریرو مکالمہ میں اس کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے، اردومیں لفظ تصوریا تصور کی اضافت کے ساتھ کئی کتاب و مضامین بھی موجود ہیں اور مستقل لکھے بھی جارہے ہیں اسی طرح آج کی روز مرہ زبان میں اس کا استعمال جگہ جگہ پر ہوتا ہے،جیسے اقبال کا تصور عشق، منٹو کا تصور جنس،چکبست کا تصور قومیت یا دیگر شعرا و ناقدین، ناول و افسانہ نگاران کے مختلف تصورات کو مختلف اندازسے بولا، پڑھا، سمجھا اور پرکھا جاتا ہے۔

 لیکن تصور کے حوالے سے چند سوالات ہیں جن کی طرف کم توجہ کی جاتی ہے یا کم از کم مطالعے و مکالمے کے درمیان اس کا بہت کم خیال رکھا جاتا ہے، اوروہ یہ کہ سب سے بنیادی بات تصور کیا ہے ؟ پھر کسی بھی چیز کا تصور کیسے قائم ہوتا ہے؟کسی صنفی تخلیق یا تخلیق کار کے تصورکو کیسے سمجھا جائے گا؟ اور کس تصور کو ذہن میں رکھ کرتخلیق یا تخلیق کار کے تصور اورنظریہ ،تصور و تخیل اورتصور و خیال یا اس کے وہم و گمان کو الگ کیسے کیا جائے گا ان بنیادی سوالات کے جوا ب کے بعد ہی ہم تصور کے تعلق سے صحیح تفہیم و تنقید تک پہنچ سکتے ہیں۔

ان بنیادی سوالات کے جواب میںسب سے پہلے قدیم فلاسفر کی طرف نظر کرنی پڑتی ہے اس لیے کہ لفظ تصور کی ابتدائی بحث باوجود اس کے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے، عربی لسانیات کے باب کے بجائے دستیاب عربی زبان و ادب سے قبل ہم کو فلسفے کے باب میں ملتی ہے جہاں اس کی بنیادی طور پر دوقسم کی جاتی ہے۔

تصدیق اورتصور

جس کو مختصر یوں بیان کیا جاسکتا ہے تصدیق وہ ہے جس کو مطالعے و مشاہدے سے ثابت کرکے دلیل کے ساتھ پیش کردیا گیا ہو اس طرح کسی چیز کو لے کر ایک نظریہ قائم ہوجاتا ہے اور تصور جس کو مطالعے مشاہدے سے ثابت نہ کیا جاسکتا ہو یا اس کے لیے کوئی Ontological Theory  مکمل طور پرنہ پیش کی جاسکتی ہو جیسے روح اور ہوا، عشق و محبت اور خیر و صداقت کی مثال پھر اس تصور کی بھی دو قسمیں بنتی ہیں ایک تصور بدیہی یعنی وہ جو حقیقی ہوتا ہے جیسے روح اور ہوااور دوسرا تصور نظری یعنی وہ جو گمانی ہوتا ہے جیسے عشق و محبت اور خیر و صداقت وغیرہ۔

یہ عجیب بات ہے تصور کے تعلق سے اردو زبان و ادب میں بہت سی غلط فہمیاں عام و خاص میں اتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہیں جس سے تصور کی مکمل تفہیم مشکل ہوجاتی ہے اور پھرتصور و نظریہ، تصور و تخیل، تصور و خیال، تصور و وہم میں بھی بڑی بڑی غلطی ہوجایا کرتی ہے اور حیرانی تو یہ ہے اس پر کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا۔

 اردوزبان پھر اس کی شاعری میں تصور کی اصطلاح کا سلسلہ بہت قدیم ہے، شاعر کے یہاں زندگی اور کائنات سے متعلق مخصوص اور مستقل خیالات پائے جاتے تھے، جیسے کلاسکی غزل میں عاشق و معشوق کے مخصوص تصورات اور بعد کی شاعری میں حسن و عشق اور زندگی سے متعلق کئی ایسے نظریات ہیں جن کو تصورات کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے اور کئی ایسے خیال و گمان بھی ہیں جس کو تصورات کے زمرے میں رکھا جانا مناسب نہیں ہے،جیسے غالب کا یہ شعر            ؎

ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوںنہ غرق دریا

نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اس شعر میں غالب نے موت کے بعد کی رسوائی سے بچنے کے لیے غرق دریا ہونے کا خیال باندھا ہے، اس خیال کو غالب کا نظریہ سمجھیے تو یہ خیال تصور ہے اور اگر محض بیان یا اظہار کیفیت ہے تو اس بات کو صرف خیالات کے زمرے میں رکھاجائے گا ناکہ تصوارت کے۔

تصور کے تعلق سے اس طرح کی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور دوسرے مترادف الفاظ میں فرق واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ تصورکے فلسفیانہ نظریے کے ساتھ ساتھ اس کی لغوی اور اصطلاحی تعریف پرایک نظر ڈالی جائے جس کو مختصر انداز میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔

تصورکی لغوی تعریف

 تصور عربی زبان کا لفظ ہے جس کی تعریف میں اہل زبان حسب ذیل رائے رکھتے ہیں۔

علی جرجانی (جن کو عربی لغت کے پیش روؤں میں شمار کیا جاتا ہے) کے مطابق کسی چیز کا عقل میں آنا یا ابھرنا تصور ہے’’حصول صورۃ الشیء فی العقل‘‘1

معجم الوسیط اور دور حاضر کی جدید لغت المعانی الجامع میں تصور کی تعریف اس انداز سے کی گئی ہے

’’استحضار صورۃ الشیء محسوس فی العقل دون التصرف فیہ‘‘

ترجمہ دماغ میں کسی محسوس چیز (Tangible) کا بنا تصرف و بدلاؤ آنا تصور ہے۔2

عرب علما و فلاسفر اور لسانیات کے ماہرین کے یہاں تصور کی اصطلاحی تعریف لغوی تعریف کے قریب تر ہے ،علامہ ابو بکر بن عبداللہ جو فقہ النوازل کے مصنف ہیں اور قدیم اہل علم و فن میں ان کا شمار ہوتا ہے وہ حکم و یقین کو تصور کی ایک قسم یا شاخ مانتے ہیں ان کا کہنا ہے ’’الحکم فرع التصور‘‘ 3

قدیم عربی زبان کے ماہر و فلسفی علامہ مناوی اور علی جرجانی کے یہاں تصور وہی ہے جس کا لغت میں بیان کیا گیا ان حضرات کے نزدیک کسی بھی چیز کا دماغ میں ابھرنے کا نام تصور ہے

التصور حصول صورۃ الشیء فی العقل 4

بعد کے اہل زبان و لغت نے اس میں تھوڑا اضافہ کیا ہے ان کا کہنا ہے

’’ان یکون ما یراد تصورہ مدرکا والا کام ضربا من ضرب الظن‘‘

ترجمہ تصور وہ ہے جس کے تصور کو ادراک میں لایا جاسکے ورنہ وہ گمان و خیال کی ایک قسم ہے۔

ان تعریفات کی روشنی میںکہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی چیز کے تصور بننے کے لیے حسب ذیل شرطیں ہیں

*       ادراک  پایا جائے یعنی وہ (Cognitive)ہو۔

*       اس کی تصدیق نہ کی جاسکتی ہویعنی وہ (Imperception) کے زمرے میں آئے۔

*       اور اس میںمطابقت (Compatibility) پائی جاتی ہو۔

یعنی تصور میں ادراک نہیں توو ہ وہم شمار ہوگا اور تصدیق پائی جائے تووہ تصور نہیں رہتا اسی طرح اس میں مطابقت نہ پائی جائے تو وہ تصور نہیں خیال ہوجاتا ہے۔

تصور کی اصلاحی تعریف

جب تصور کی اصطلاحی تعریف کی بات کی جاتی ہے تو اس کا سلسلہ عربی لفظ ’تصور‘ سے زیادہ پرانا ہوجاتا ہے یعنی اس کا سلسلہ قدیم فلاسفرز سے جا کر ملتا ہے فلسفے کے ابتدائی بحثوں میں ایک Metaphysics کے بعد منطق کے تلاش و بیان میں تصور کی بحثیں ملنے لگتی ہیں وہاں اہل فلسفہ تصور کو علم کی دوسری سب سے اہم کڑی مانتے ہیں ان کے مطابق تصدیق کے بعد سب سے اہم چیز یہی تصور ہے چنانچہ ’تصوریت‘ کو باقاعدہ فلسفے کی حیثیت سے یافت و دریافت کیا جانے لگتا ہے۔5

تصور کی اصطلاحی تعریف قدیم فلسفیوں کے یہاں اختصار کے ساتھ اور بعد کے یہاں تفصیل کے ساتھ ملتی ہے جس میں سب سے پہلے برکلے کا نام لیا جاسکتا ہے جس نے باقاعدہ اس پر اپنا اظہار خیال کیا ہے-

برکلے کے نزدیک ’’ہر وہ شے جو بلا واسطہ علم میں آئی‘‘تصور ہے۔6

یعنی معطیات حس حواس خمسہ کے ذریعے جو بھی چیز ذہن میں منتقل ہوتی ہے وہی تصور ہے لیکن بعد کے فلاسفرز جو (Contemporary Era) سے تعلق رکھتے ہیں انھوں نے برکلے کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ نامکمل تعریف ہے بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جو معطیات حس سے باہر کی ہیں ان کو بھی تصور کی فہرست میں رکھا جائے گا چنانچہ بی رسل نے اس تھیوری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا

’’ یہ کوئی امر مسلم نہیں بلکہ سچ پوچھیے تو واقعیت کے خلاف ہے کہ ہم جو چیز نہیں جانتے اس کا وجود بھی نہیں جان سکتے،اس ضمن میں جاننا دو معنوں میں استعمال ہوا ہے،استعمال اول میں جاننے کا اطلاق اس قسم کے علم پر ہے جس کو غلطی کا عکس سمجھنا چاہیے یعنی جس سے مراد علم صحیح ہے یہ وہ مفہوم ہے جس کی رو سے جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ سچ ہے اس کے تحت میں ہمارے وہ معتقدات و متیقنات آسکتے ہیں جو تصدیق کے نام سے پکارے جاتے ہیں اس قسم کے جاننے کو ہم علم حقائق کہتے ہیں اب لفظ جاننا اپنے دوسرے معنی میں ہمارے علم اشیاپر مشتمل ہے جسے ہم معرفت بھی کہہ سکتے ہیں یہ وہ مفہوم ہے جس کی رو سے ہم اپنے معطیات حس سے آگاہ ہوتے ہیں یہ تفریق فرانسیسی الفاظ Savior اور Connaitre یا جرمن الفاظ Wisden اور Kennen سے ظاہر ہوسکتی ہے۔‘‘7

تصور کے مختصرو قدیم فلسفیانہ نظریے، لفظ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کے بعد یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ سائنس کے جدید دور میں تصور کے تعلق سے کیا تصور قائم ہے، گرچہ جدید تصورات میں تصور کے حوالے سے کئی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا براہ راست اردو زبان و ادب میں مستعمل تصور سے کم تعلق ہے،لیکن یہ دیکھنااس لیے بھی ضروری ہے کہ جدید سائنس اور اردو زبان میں استعمال کیے جانے والے لفظ تصور کے درمیان کیا  سلسلہ و ربط ہے؟ اور یہ تفہیم بھی عام ہو کہ اس زمرے میں کن نظریات کواہمیت سے دیکھا جانا چاہیے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جدید فلاسفرز (Modern Era) کے یہاں تصور کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے

*       تصور بحیثیت (Mental Representation) یعنی  وہ جو حواس خمسہ میں آئے۔

*       تصور بحیثیت Abilities یعنی عمل و لیاقت۔

*       تصور بحیثیت Abstract Object of Mental State یعنی غیر محسوس و مشاہدہ ،برخلاف عقل 8 مذکورہ بالا تعریفات و توضیحات، قدیم فلاسفرزاور جدید سائنسدانوںکی مختصر تشریح کی روشنی میں جو نتیجہ نکلتا ہے اس کو حسب ذیل انداز سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے

*       تصور ایک مکمل فلسفہ ہے جس کے بننے میں کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں۔

*       تصور میں ادراک Cognation کا پایا جانا ضروری ہے۔

*       تصور معطیات حس (حواس خمسہ) اور غیر معطیات حس (غیر حواس خمسہ)  یعنی  Tangible or Intangible دونوں ہوسکتا ہے ۔

*       تصور تخیل (Perception) سے الگ چیز ہے

 *      تصور اور خیال میں فرق مطابقت Compatibility کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے

*       تصور کو نظریہ نہیں کہا جاسکتا اس لیے کہ نظریہ کے لیے دلیل شرط ہے۔

*       تصور مطالعہ و مشاہدہ یا وجدان و تجربے کے بعد بنتا ہے۔

*       تصور Abstract ہوتا ہے ناکہ Actual  اگر وہ Actual ہوا تو تصور نہیں رہتا بلکہ تصدیق کے زمرے میں آجاتا ہے۔

*       تصور کو علمیاتی نوعیت Epistemological اور وجودیاتی نوعیت Ontological دونوں زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔

ان مختصر نکات سے تصور کی تفہیم میں کافی آسانی پیدا کی جاسکتی ہے اور یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اردو زبان میں لفظ تصور پر جس انداز سے مباحث قائم کیے جانے تھے اس میں کہاں کمی واقع ہوئی ہے اور زبان میں تصور کو کس انداز سے دیکھا اور لکھا گیا ہے ،تصور کی افہام و تفہیم میں یہ دیکھنا بھی دلچسپی اور معلومات سے خالی نہیں کہ اس سے ملتے جلتے الفاظ سے تصور کو کیسے الگ کیا جائے؟ اس حوالے سے عربی کی مشہو ر کتاب فروق اللغویۃ بہت معاون ہے جس کی روشنی میں کچھ تعریفات کو نیچے نقل کیا جارہا ہے اور ایک کوشش کی ہے کہ مترادف الفاط سے خلط ملط کے عمومی رجحان کو کم کیا جاسکے۔

تصور اور اس سے قریب ترین جن الفاظ میں فرق کیا جانا ضروری ہے اس کی نشاندہی یوں کی جاسکتی ہے

تصور اور خیال/تخیل میں فرق

تصور اور وہم و گمان میں فرق

تصور اور نظریہ و دلیل میں فرق

تصوراور خیال میں فرق اس طرح سے کیا جائے گا کہ تصور ایک حالت میں نہیں رکتا جبکہ خیال یا تخیل کی ایک حالت ہوتی ہے۔

تصور اور وہم و گمان میں اس طرح سے فرق کیا جائے گا کہ تصور کے لیے علم شرط ہے اور  وہم و گمان علم سے خالی ہوتا ہے۔

تصور اور نظریہ میں اس طور پر فرق کیا جاسکتا ہے کہ تصور کے لیے دلیل شرط نہیں جبکہ نظریہ کے لیے دلیل شرط ہوتی ہے۔9

کسی تخلیق یا تخلیق کار کے تصور کی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟

کسی بھی تخلیق یا تخلیق کار کا تصورجس زمرے میں آتا ہے اس کو تصور نظری کہتے ہیں یعنی ایسا تصور جس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے، (تصدیق ہوگئی تویہی تصور بدیہی یعنی حقیقت میں تبدیل ہو جائے گا) اس طرح  وہ تصور کے خانے سے منتقل ہوکر حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے اس کو کلاسکی شاعری میں صوفیانہ تصور عشق کی مثال سے یوں سمجھیے کہ شعرا کے ذہن میں تصور عشق کے ادراک اور مطابقت کی تصویر بنتی اور ابھرتی ہے لیکن اس کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا ہے، ادراک و مطابقت کی شکل یوں بنتی ہے جیسے بعض علما و صوفیا تصور عشق کو حسن کے وجود کا سبب مانتے، سمجھتے یا محسوس کرتے ہیں لیکن سمجھتے یا محسوس کرتے ہوئے بھی اس کو سمجھا نہیں سکتے         ؎

حسن جمال یار سے ہے انجمن تمام

شاعر کے مطابق اس دنیائے رنگ و بو کی تمام تر رعنائیاں حسن یار کے جمال سے آراستہ ہے لیکن شاعر کے پاس نہ اس کی دلیل ہے ناہی قاری کے پاس اس کا انکارچنانچہ دعوی اپنی جگہ ادھورسچ ہے اور اس دعوے کی تصدیق نہ ہونے کی صورت میں اس کو شاعر کے تصورسے الگ نہیں کیا جاسکتا لیکن کوئی دعوے کی تردید کردے تو یہ بس ایک خیال بن جائے گا،اسی طرح تصورات بنتے چلے جاتے ہیں۔

غرض ذہن میں کسی ایسی صورت کا بار بار آنا جس کے ادراک کی عقل گواہی دے یا مطالعے و مشاہدے سے اس کو ثابت کرنے کی گنجائش دِکھے لیکن ثابت نہ ہوئی ہو،اور اس صورت سے ذہنی مطابقت میل کھاتی دکھائے دے لیکن اس کو دکھایا نہ جاسکے تصور ہے جیسے ،روح،عشق و محبت یا دوسرے جذبات وغیرہ لیکن اگر وہی صورت دکھائی دینے لگے یا محسوسات میں آجائے تو تصور کی اگلی کڑی تصدیق کہلائے گی جیسے پانی درخت انسان اور لفظ اس کو مثال سے یوں سمجھیے،ایک مشہور تصور ہے ’شروع میں لفظ ہی خدا تھا‘ پھر لفظ کی تصدیق ہوتی گئی اور خدا تصور ہی میں رہا۔

حواشی

1                   کتاب التعریفات ،محمد بن علی جرجانی، ص135، طدارالکتب العلمیہ بیروت،لبنان۔

2                   المعانی الجامع، مروان عطیہ،المعجم الوسیط، ابراھیم مصطفی/احمد زیات بشکریہ  (Almaany.com)

3                   فقہ النوازل، ابوبکر بن عبداللہ، جلداول، ص142، طباعت موسسۃ الرسالہ،بیروت

4                   التوقیف علی مھمات التعاریف، علامہ مناوی،ص180، طباعت عالم الکتب،القاھرہ

5                   تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہوانواع فلسفہ از ظفر حسین خان  مبادیات منطق و فلسفہ از حکیم تسخیر احمد خان بشکریہ Rekhta.org

6                   مسائل فلسفہ،بی رسل،ترجمہ معین الدین انصاری،ص 28، طباعت دارالطبع جامعہ عثمانیہ حیدرآباد

7                   ایضا،مسائل فلسفہ، ص33

8                   Stanford *'Concepts' Stephen Lawrence Eric Margolis; Metaphysics Research Lab at * Encyclopedia of Philosophy November 2012 Retrieved6 * Stanford University www.bcs.mit.edu/research/congnitive-science

9                   فروق اللغویۃ، علامہ حسن عسکری، ص98 تا 100، طباعت موسسۃ النشر الاسلامی۔

 

Mahmoodul Hasan Khan

Research Scholar, MANUU, Lucknow Campus

Near Darul Uloom Nadwadul Ulama

Lucknow - 226007 (UP)

Mob.: 8090060800

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں