12/10/22

اردو صحافت میں زبان کا استعمال: محمد حنیف خان

 



کسی بھی زبان کے اخبار اپنے مواد کے لحاظ سے متعلقہ معاشرے کے ذہنی تفوق یا اس کے تنزل کی علامت ہوتےہیں جبکہ اس میں مستعمل زبان اس بین السطور کو واضح کرتی ہے جس سے وہ سماج تشکیل پایا ہے۔ زبان کی لفظیات کے پس پشت ایک تہذیب اور ثقافت کی دنیا آباد ہو تی ہے جو غیر بدیہی ہوتی ہے،یہ الفاظ اور ان کے محل استعمال سے پیدا ہونے والے معانی طے کرتے ہیں کہ معاشرے کا فکری نہج کیا ہے۔ اخبارات میں زبان کے مطالعے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ الفاظ کیا ہیں ؟کوئی لفظ بامعنی کب اور کیونکر ہوتا ہے؟ الفاظ در اصل اشیا کی علامت ہیں،اسی لیے ایک ہی شے کے لیے مختلف زبانوں میں اس کے لیے الگ الگ الفاظ ہوتے ہیں کیونکہ معاشرہ ان اشیا کی شناخت اپنے اعتبار سے کرتا ہے اور ان کے لیے حروف کے کسی مجموعے کا تعین کرتا ہے،اسی لیے اپنے آپ میں حروف کے مجموعہ لفظ کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے،اسے معاشرہ اور اس کا فہم با معنی بناتا ہے۔مثلا گلاس جس کی انگریزی اور اردو دونوں میں ایک صوتی حیثیت ہے اس کے باوجود دونوں زبانوں میں اس صوتی مجموعے/لفظ سے الگ الگ اشیا مراد لی جاتی ہیں۔یہ معنوی تنافر معاشرہ اور اس کی فہم کی بناپر ہوا ہے۔ہر دو معاشرے میں یہی صوت ہمارے ذہن پر الگ الگ عکس اور شبیہ ابھارتی ہے۔ لفظیات کو بطور وسیلہ استعمال کرکے فرد یا معاشرہ کسی خیال، احساس یا منظر کی ترسیل کرتا ہے۔اس طرح الفاظ ہمارے تجربات کا علامتی اظہار بن جاتے ہیں۔جب ہم کوئی لفظ بولتے ہیں،سنتے ہیں یا پڑھتے ہیں تو یہ تینوں کسی نہ کسی کیفیت کا اثر ہمارے ذہن پرمرتب کرتے ہیں۔ معاشرہ اس طرح لفظوں کو معنی سے لبریز کرتا ہے۔

ہر شعبے کے افراد کے اظہار کی زبان /لفظیات مختلف ہوتی ہے،یہ کلیہ اردو صحافت پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ جس طرح ہر تحریر اپنے اسلوب اور خصوصیات کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہے،اسی طرح اردو صحافت کی زبان بھی اپنے اسلوب اور طرز تحریر کی بنا پر پہچانی جاتی ہے کیونکہ اس کے اپنے ہدفی قارئین ہوتے ہیں جن کو ذہن میں رکھ کر زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔اردو صحافت کی سب سے بڑی خصوصیت زبان کی سلاست اور روانی ہوتی ہے،یہ سادہ اور سلیس ہوتی ہے تاکہ عام قاری کو بھی سمجھنے میں کسی طرح کی دشواری پیش نہ آئے۔اسے لغات کا سہارا نہ لینا پڑے،کیونکہ ترسیل و ابلاغ کا بنیادی وسیلہ زبان ہے اور صحافت ہر قاری کی ضرورت ہے۔اس لیے صحافت میں ایک ایسی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح اتنی بلند نہ ہو کہ عام قاری کی فہم سے بالاتر ہو اور اتنی غیر معیاری بھی نہ ہو کہ اعلی مذاق کے قارئین زبان کے لطف سے ہی محروم ہوجائیں۔

 اخبارات کا جائزہ اگر زبان کے حوالے سے لیا جائے تو ہمیں اس کے تین پہلو نظر آتے ہیں علمی،ادبی اور عام بول چال کی زبان۔آخری الذکر کا تعلق خبروں سے ہے جبکہ علمی اور ادبی زبان کا تعلق اداریہ اور ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے علمی و ادبی مضامین سے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ مضامین اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اس لیے ان کی زبان پر خاص توجہ دی جاتی ہے کہ سطح مرتفع سے نیچے کی زبان کا استعمال کیا جائے،اصطلاحات اور ثقیل لفظیات سے اجتناب کیا جاْئے تاکہ عام قاری کو تفہیم میں دشواری پیش نہ آئے اور وہ اخبارات کی خبروں کے ساتھ ہی اس کے علمی و ادبی مضامین سے بھی استفادہ کر سکے۔

یہ حقیقت ہے کہ سانپ کی کینچلی کی طرح لفظیات بھی وقت کے ساتھ اپنے معنی کھوتی ہیں جو دھیرے دھیرے کلیشے کے زمرے میں داخل ہوجاتی ہیں اور پھر متروک ہو کر اپنا وجود کھو دیتی ہیں لیکن بعض لفظیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ خود کو نئے معنی سے وابستہ کرلیتی ہیں۔مثلا ایک لفظ ’’ خلافت‘‘ہے،فرہنگ عامرہ کے مطابق یہ اپنے اصل معنی میں جانشینی،قائم مقامی اور پرانے پن کو بیان کرتا ہے۔

(محمد عبد اللہ خویشگی،فرہنگ عامرہ، یونین پرنٹنگ پریس 1953، ص 205)

یہی لفظ جب اسلامی اصطلاح کے تناظر میں استعمال ہوتا ہے تو یہ خلفاء راشدین /اسلامی دور کے بادشاہوں کے دور کو بیان کرتا ہے۔

(تصدق حسینلغات کشوری، مطبع نامی منشی نول کشور1952صفحہ 173)

یہی لفظ اپنے اشتقاق کے ساتھ جب معاشرے اور عام بول چال میں ’خلیفہ ‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو یہ ’نائی‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔لیکن اس کے برعکس یہ لفظ جب اردو کو چھوڑ کر عمومی صحافت میں آیاتو مخالفت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اس طرح یہ لفظ اپنے اصل معنی سے بہت دور ہو گیا۔جب کوئی لفظ مرتا ہے تو اس کے ساتھ پوری تہذیب مرجاتی ہے بعینہ جب کوئی لفظ ابھرتا ہے تو ایک نئی تہذیب سانسیں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

ہم جب اردو صحافت کی زبان کی دو سوسالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیںتو اس میں اتار چڑھاؤ صاف طور پر نظر آتے ہیں۔دہلی اردو اخبار کو پہلا اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے،اس کی زبان آج کی زبان سے بالکل مختلف ہے۔دیکھیے’’سنا گیا ہے کہ ان دنوں تھانہ گزر قاسم جان میں مرزا نوشہ کے مکان سے اکثر نامی قمار باز پکڑے گئے مثل ہاشم علی خاںوغیرہ کے جو سابق بڑی علتوں میں دورہ تک سپرد ہوئے تھے۔کہتے ہیں کہ بڑا قمار ہوتا تھا لیکن بہ سبب رعب اور کثرت مرداں کے یا کسی طرح سے کوئی تھانیدار دست انداز نہیں ہوسکتا تھا۔اب تھوڑے دن ہوئے یہ تھانیدار قوم سے سید اور بہت جری سنا جاتا ہے مقرر ہوا ہے۔یہ پہلے جمعدار تھا بہت مدت کا نوکر ہے، جمعداری میں بھی یہ بہت گرفتاری مجرموں کی کرتا رہا ہے۔‘‘

(مولوی باقر دہلوی، دہلی اخبار، 15اگست 1841)

برطانوی دور میں لاہور سے نکلنے والے پہلے اردو اخبار ’کوہ نور‘کی زبان دیکھیے جو اشتہار کی شکل میں ہے ’’روپیہ پیشگی کا ہمراہ درخواست خواہ تاریخ اجرا سے اندر ایک مہینے کے عنایت فرمانا چاہیے ورنہ شرح ماہوار شمار کی جانی ہے اور اگر چہ مہینے تک شرح ماہواری سے بھی روپیہ قیمت اخبار کا عنایت نہیں ہوتا تو بعد اوسکی شرح مابعد تتمہ سالیانہ محسوب ہوتی ہے۔‘‘ (اخبار ’کوہ نور‘ 16جنوری1855)

امرتسر سے نکلنے والے اخبار ’وکیل ‘ کی ایک رپورٹ دیکھیے جو محمڈن اینگلو اورینٹل ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کی تیاریوں کے حوالے سے ہے

’’سترہواں اجلاس کانفرنس کا جو بمقام بمبئی ہوگا، اس کے انتظام کے لیے جو کمیٹی بمبئی میں قائم ہوئی ہے اوسکے سکریٹری جناب قاضی کبیر الدین صاحب بیرسٹر نہایت سرگرمی اور جوش سے اپنا کام کر رہے ہیںاور ہم اس بات کو دیکھنے سے خوش ہیںکہ وہ کانفرنس کو مفید بنانے اور حقیقت اس سے عملی نتائج پیدا کرنے اور تمام ہندستان کے مسلمانوں کو اس سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بہت کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ (وکیلامرتسر 23اکتوبر 1903)

 جنگ عظیم کے دوران فرانس کے متعلق رپورٹ شائع کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ’’یورپ میں جب فرانس کی ہزیمت کی خبریں شائع ہوئیں تو ڈیرک ولیڈگن تک کو الجزائری کی عظمت اقرار کرنا پڑا۔آٹھ نو سال کے اندر تقریبا اس نے کل جزائر پر قبضہ کرلیا تھا۔تمام ساحلی اور اندرونی قلعے فرانسیسی فوج کی لعنت سے پاک ہوگئے تھے۔‘‘

(مولانا ابوالکلام آزاد، الہلال13جولائی تا 25دسمبر 1912)

لاہور سے نکلنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کی زبان دیکھیے، اخبار کی شہ سرخی ہے۔’’سردار بھگت سنگھ مسٹر راجگورواور مسٹر سکھ دیو کی نعشوں کی بے حرمتی کی تحقیقات‘‘ ذیلی سرخی یوں ہے ’’انڈین نیشنل کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے کمیشن نے اپنا کام شروع کردیا۔گورنمنٹ نے تحقیقات میں امداد دینے سے انکار کردیا۔‘‘

(بندے ماترم، 14اپریل 1931)

یہ آزادی سے قبل کے اخبار ہیں۔تقسیم ہند کے وقت 415اردو اخبارات،ہفتہ وار اور ماہنامے ہندستان سے شائع ہوتے تھے۔جن میں سے 345ہندستان میں رہ گئے۔ستر اخبارات کے مالکین پاکستان ہجرت کر گئے۔آزادی کے بعد جو اخبار منظر عام پر آئے ان میں دعوت نئی دہلی،نئی دنیا،سیاست،منصف،اعتماد،آزاد ہند، ہند سماچار، اخبار مشرق، آبشار، انقلاب، عکاس، اردو ٹائمز، انقلاب،سالار،قومی آواز اور رہنمائے دکن وغیرہ ہیں۔

اس فہرست سے قبل مندرجہ اخبارات کی زبان اور آج کے اخبارات کی زبان میں زمین و آسمان کا فرق ہے،یہ فرق اسلوب کے ساتھ ہی لفظیات کی سطح پر بھی ہے،اگر چہ دولت انگلشیہ کی وجہ سے آزادی سے قبل ہی انگریزی لفظیات کا استعمال شروع ہوگیا تھا لیکن یہ استعمال اصطلاحات کی سطح تک تھا حالانکہ آج ان لفظیات کا ایسا بے محابا استعمال شروع ہوگیا ہے جس سے زبان اور اسلوب دونوں میں تنزلی آئی ہے۔

وقت کے ساتھ زبان کا بھی سفر جاری رہا اور اس میں تبدیلیاں آتی رہیں۔دہلی اخبار سے لے کر بندے ماترم تک پہنچتے پہنچتے جن لفظیات کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے وہ لسانیات کے طالب علم کے لیے باعث استعجاب ہے۔جہاں مولوی باقر کی زبان خالص اردو ہے جس میں اضافت کا خصوصی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے وہیں بندے ماترم میں انگریزی لفظیات کا خوب استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے معاشرے میں انگریزوں اور انگریزی کے ساتھ ہی اس کی تہذیب و ثقافت کے سرایت کرنے کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اردو صحافت کی معیاری زبان میں تنزلی کا سبب دخیل الفاظ کا استعمال بھی ہے۔غیر زبان کے الفاظ کا استعمال معیوب نہیں ہے،اس سے زبان ثروت مند بنتی ہے لیکن اس میں توازن از حد ضروری ہے جبکہ اردو صحافت میں یہ توازن برقرار نہیں رہ سکا۔غیر زبان کی لفظیات کے استعمال کا اصول یہ ہے کہ غیر ضروری یا بلا ضرورت ان کا استعمال نہ کیا جائے،لیکن جہاں متبادل لفظیات نہ ہوں یا اس زبان میں کسی خاص مفہوم کے بیان کے لیے بہت زیادہ الفاظ درکار ہوں تو ایسی صورت میں اس کے استعمال میں قباحت نہیں ہے،اس سے زبان کو ایک نیا لفظ بھی ملے گا اوروہ ثروت مند بھی بنے گی لیکن اگر متبادل ہونے کے باوجود غیر زبان کی لفظیات کا بے محابہ استعمال کیا جائے گا تو اپنی زبان ملغوبہ بن جائے گی۔

اردو صحافت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ضروری طور پر انگریزی،ہندی اور عام لفظیات کا استعمال کیا جا رہا ہے،حالانکہ ان لفظیات کے رائج متبادل بھی موجود ہیں جن کا استعمال زبان کو مزید خوبصورت بنا سکتا ہے۔ادھر چند برسوں میں اردو صحافت میںجب سے وہ ہندی خبروں کی مرہون منت ہوئی ہے عوامی زبان کے غیر معیاری الفاظ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔اردو صحافت میں مستعمل انگریزی کی لفظیات اور ان کے متبادل دیکھیے۔ ایڈوانس، (پیشگی) کورٹ (عدالت) مسٹر (جناب) سکیورٹی (تحفظ) ووٹرز (رائے دہندگان)ا نفراسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ) چیئرمین، چیئرپرسن (صدر، سربراہ) ایئر پورٹ (ہوائی اڈہ) اسپیشل (خصوصی) ریسکیو کرنا (بحفاظت بچایا جانا) لینڈ کرانا(زمین پر اتارنا)کنٹرول کرنا (قابومیں کرنا) بائک (موٹر سائیکل) اپوزیشن (حزب مخالف) میمورنڈم (عرضداشت) ڈپریشن (ذہنی تناؤ) ڈیفنس (دفاع) ٹیچرس (اساتذہ) ہاکر (اخبار فروش) وغیرہ۔

عوامی زبان کی مثالیں‘ سیندھ ماری(نقب زنی) خلاصہ (انکشاف) ذات پات (ذات برادری) پریوار (کنبہ، اہل و عیال) سرکار (حکومت) لگاتار (مسلسل) نقدی(نقد روپئے)منمانی (مرضی)وغیرہ۔

بعض تراکیب میں ایک اردو اور ایک انگریزی لفظ کے استعمال کا چلن عام ہو رہا ہے مثلا۔محکمہ صحت کی جگہ محکمہ ہیلتھ،محکمہ تعلیم کی جگہ محکمہ ایجوکیشن وغیرہ جیسی کثیر تعداد میں تراکیب ہیں جو اردو صحافت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

خبروں میں استعمال ہونے والی زبان کی سطح دیکھیے۔ یہ خبر ہندستان کے ایک قومی اخبار کی ہے جو بنگال سے لے کر ممبئی اور لکھنؤ سے لے کر دکن تک میں شائع ہوتی ہے۔ ’’ایک شخص نے رشتے میں پوتے تین سال کے معصوم مکی ندی میں ڈوبا کر قتل کردیا ہے۔دادا نے بھتیجے سے کچھ روپئے کی ڈیمانڈ کی تھی۔جسے دینے سے اس نے انکار کردیا تھا۔اس کے بعد وہ انش کو گھوما نے کے بہانے سے باہر لے گیا تھا۔‘‘اسی خبر کا یہ جملہ دیکھیں،جو بھائیوں کے مابین جائداد کی تقسیم سے متعلق ہے’’سبھی کے بیچ زمین جائداد کے تقسیم ہوگیا ہے۔‘‘

 ایک دوسری خبر کا یہ ٹکڑا دیکھیے’’ٹیم کو خفیہ اطلاع ملی کہ اس معاملے کو انجام دینے والا تین جرائم پیشہ ایک بائک پر سوار ہو کر جھالوا گاؤں میں مسجد سے آگے ایک درخت کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ کسی واردات کو انجام دینے کے فراق میں ہیں۔‘‘

(راشٹریہ سہارا۔یکم مارچ 2022)

اس خبر میں واحد اور جمع میں عدم مطابقت کے ساتھ ہی عوامی لفظیات کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ایک دوسری خبر میں تذکیر و تانیث کی عدم مطابقت دیکھیے’’تھانہ میں درخواست دیا گیا تھا‘‘’’چودھری کا قتل نامعلوم جرائم پیشوں کے ذریعہ کردی گئی ہے۔‘‘اسی خبر میں استعمال کی گئیں یہ لفظیات ملاحظہ کریں’’ڈیمانڈ،جانکاری،پوچھ گچھ وغیرہ۔ایک اور سرخی دیکھیے ’’سروپ نگر قتل کیس میں لا پتہ ہاکر کا نہیں لگ سکا پتہ‘‘اس سے اردو صحافت میں زبان کے استعمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بعض مرتبہ املا کی غلطیاں لفظوں کے صوتی آہنگ تو نہیں البتہ اس کی ہیئت ضرور بدل دیتی ہیں، مرکب الفاظ کو ان کی اصل شکل میں نہ لکھ کر انہیں صوتی پس منظر میں لکھ دیا جاتا ہے۔مثلا شان ہند،جان من،سر دست کو شانے ہند،جانے من،اور سرے دست تک لکھ دیا جاتا ہے۔ یہاں ’ے‘ کے بجائے اضافت /جری حالت میں ہی اسے لکھا جانا چاہیے تھا۔اس طرح کی غلطیوں سے نئی نسل کے املائی گمرہی کے شکار ہونے کا خطرہ ہے۔اس طرح کے ایک دو لفظ نہیں ہیں بہت سی لفظیات و تراکیب ہیں جن کا املا غلط لکھا جا رہا ہے۔یہ روش اردو صحافت کی زبان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

خبروں کی زمرہ بندی کے لحاظ سے بھی زبان کا استعمال دیکھنے کو ملتاہے، مقامی، عالمی، کھیل، اور صحت کی خبروں کے ساتھ ہی ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے علمی و ادبی مضامین اور خصوصی رپورٹ وغیرہ کی زبان میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔عالمی خبروں،کھیل،اور صحت میں انگریزی کی لفظیات کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جبکہ مقامی خبروں کی زبان سب سے زیادہ مسخ نظر آتی ہے،اس میں واحد اور جمع کے ساتھ ہی تراکیب میں بھی سب سے زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں۔اس کے بہت سے اسباب و وجوہ ہیں۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اب براہ راست اردو میں خبریں بہت کم لکھی جاتی ہیں،زیادہ تر خبروں کا ہندی سے ترجمہ ہوتا ہے کیونکہ ہندستان کے جو اردو کے بڑے اخبارات ہیں ان کا مالکانہ حق ایسی کمپنیوں کے پاس ہے جن کے پاس ہندی اخبارات بھی ہیں،ایسے میں اکثر و بیشتر خبریں ان اخبارات کو ہندی سے ملتی ہیں جن کا ترجمہ کیا جاتا ہے، براہ راست بہت سی کم خبریں اردو میں لکھی جاگتی ہیں،چونکہ عملہ بھی کم ہوتا ہے اس لیے جملوں کی ساخت،اور لفظوں کے انتخاب میں غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔جہاں تک ایسے اخبارات کا تعلق ہے جو محدود ہیں تو وہ ایجنسیوں اور گوگل ٹرانسلیٹ پر اپنا وجود رکھتے ہیں اور گوگل کا ترجمہ مشینی ہوتا ہے وہ اسم،فعل اور واحد و جمع میں تمیز نہیں کرتی کیونکہ اردو تو احساس کی زبان ہے اور مشین اس سے عاری ہوتی ہے۔پہلے اردو اخبارات میں پروف ریڈر ہوا کرتے تھے مگر اب یہ چلن بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں سب ایڈیٹر سے رہ جانے والی غلطیوں کی اصلاح اب خود قاری کو ہی کرنا پڑرہا ہے۔

Mohd Haneef Khan

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

Mob.: 9359989581

Email.: haneef5758@gmail.com 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں