11/10/22

بہادر شاہ ظفر کی صوفیانہ شاعری: ڈاکٹر نیلوفر حفیظ


 بہادر شاہ ظفر کی صوفیانہ شاعری کے سلسلے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قبل اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ بہادرشاہ ظفر کوئی بلند مرتبہ صوفی، معرفت کے امین یا شریعت کے شارح نہیں تھے لیکن مسلسل ملنے والے مصائب ومسائل نے ان کی ذات کو تسلیم و رضا کا خوگر اور صبر و استقامت کا پیکر ضروربنا دیاتھاجوایک صوفی کی لازمی صفات تصورکی جاتی ہیں، ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک کے اس شاہ کم نصیب نے اپنی ہمہ عمر راضی بہ رضا میں صرف کر دی ناسازگاری حالات، نامساعدی روزگاراور سانحات ناگوار نے ان کی ذات ناتواں پر ظلم وستم اور رنج والم کے جو کوہ گراں مسلط کیے ان سے صرف اہل وطن ہی نہیں بلکہ پوری دنیا واقف ہے یہ ستم ظریفی قسمت نہیں تو اورکیاہے کہ کشور ہندوستان کے شہنشاہ اعظم ہونے کے باوجودبھی وہ ایک ادنیٰ اور حقیرخادم کی طرح زندگی گزارنے پر بے بس و مجبور کر دیے گئے اس فولادی جگر شخصیت نے کس طرح زندگی کے بار کو ڈھویا ہوگا اس کا تصور ہی انسانی رگوں میں خون کو منجمد کر دینے والا ہے ظفر کے پرانتشار، حوصلہ شکن، مایوس کن اور پر آشوب دورنے ان کو محاورۃََ نہیں بلکہ واقعتاََ خون کے آنسو رلایاتھا ایسے مشکل واقعات اور دل برداشتہ حالات میں وہ صبر و قناعت کا شیوہ اختیارنہ کرتے اور درویشانہ و فقیرانہ زندگی بسرکرنے کی جانب مائل نہ ہوئے ہوتے تو شایدغموں کے اس بحرلامتناہی میں ان کے لیے سانس لینابھی دشوار ہو جاتا لہٰذاگر وقت کی ستم ظریفی، حالات کی تلخی اور قسمت کی بازیگری نے انھیں صوفی، درویش اورہمہ لوازمات زندگی سے بے نیاز کر دیا تواس میں جائے تعجب نیست بلکہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آخر کس طرح اس مرد باہمت نے زمانے کے مسائل ومصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف خود زندگی گزاری بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایک نظیرچھوڑ گئے کہ حالات ومعاملات کتنے ہی نا گفتہ بہ کیوں نہ ہوں انسان کو ان سے نبرد آزما ضرور ہونا چاہیے تھک ہار کر حالات نامساعد سے ہار مان لینا انسانی عظمت پر داغ لگانے کے مترادف ہے لہٰذا ہمہ وقت انسان کو اپنی قسمت کو بدلتے رہنے کی جہد پیہم اورکوشش مسلسل کرتے رہنا چاہیے۔

شواہد سے ثابت ہوتاہے کہ بہادر شاہ ظفر اپنی زندگی کے ابتدائی دورسے سے ہی صوفیانہ عقائد و درویشانہ رجحانات سے غیر معمولی دلچسپی رکھتے تھے وہ ایام طفلی سے ہی عارفانہ اور متصوفانہ اسرار و رموزکو جاننے وسمجھنے کے لیے بڑے مضطرب اور بے چین رہا کرتے تھے جب لڑکپن کی عمرمیں تھے تب بھی گھنٹوں گھنٹوں معرفت اورعبادت الٰہی میں مستغرک ومنہمک رہتے تھے اور اسرار الٰہی کو کشف کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے، از طرف کاتب ازل ان کے مزاج میں تصوف کی شیرینی اور عذوبت کو بڑی گہرائی وگیرائی کے ساتھ ودیعت کیاگیاتھا زمانۂ شہزادگی میں مولانا فخرالدین چشتی جو سلسلۂ چشتیہ نظامیہ کے ایک مشہور و معروف بزرگ صوفی تھے بادشاہ، امرا، وزرا اور عوام کو ان کی ذات سے بے پناہ عقیدت اور والہانہ لگائو تھا ان صوفی بزرگ کی ذات بابرکات سے مستفیض ہونے کا شرف انھیں بہت ہی کم عمر ہی میں حاصل ہو گیا تھا اور یہی  وجہ تھی کہ وہ کم سنی میں ہی صوفیانہ افکار کی جانب نہ صرف مائل ہو گئے بلکہ شریعت ومعرفت کے وہ باریک نکات وجہات جن کی عقدہ کشائی کے لیے لوگوں کو طول وطویل وقت درکار ہوتاہے، لیکن بہادر شاہ ظفر اپنی ذہانت وزیرکی کے سبب بہت ہی کم   عمر ہی سے سمجھنے اور سمجھانے لگے تھے آقائے امیر احمد علوی کاکوروی نے بہادر شاہ کی کم عمری کا ایک واقعہ درج کرتے ہوئے لکھاہے کہ فلک صوفیانہ کے ایک ستارئہ روشن کی حیثیت سے انھوں نے عمر کے ابتدائی حصے میں ہی خصوصی شناسائی اور اہمیت حاصل کر لی تھی اوراس دورکے بڑے بڑے صوفیا اور عرفا نے بھی ان کی صوفیانہ زندگی کی عظمت اورآفاقیت کے متعلق پیشن گوئی ان کے بچپن ہی میں کر دی تھی :

’’ مرزا ابو ظفر حصول فیض و برکت کے لیے ان کی خدمت میں پیش کیے گئے اور حضرت مولانا فخرالدین نے شفقت سے ان کی پیشانی پر آثار ہوشمندی اور ستارۂ بلندی ملاحظہ فرما کر دستار بندی سے مشرف فرمایا‘‘

(بہادر شاہ ظفر، امیر احمد علوی کاکوروی،لکھنؤ، 1955، ص 22(

تاریخ وتذکروں کی کتابوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ بہادر شاہ ظفرکے سیاسی معاملات کیسے بھی ناسازگاررہے ہوں لیکن ان کا اپنے عہد کے صوفیوں، عارفوں، درویشوں اور فقیروںسے بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ استوار رہاتھا خودان کے کلام سے بھی میرے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے یعنی ان کی کلیات میں بھی بکثرت ایسے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جو اس دورکے صوفی بزرگوں یا مشائخ وغیرہ کی شان میں کہے گئے ہیں اپنے عہد کے صوفیوں میں ظفر کو شیخ مولانا فخر الدین کی ذات گرامی سے بے پناہ لگائو تھا جو ابتدائی عمر سے لے کر ان کی وفات تک باقی رہاان کے یہاں ایک دو نہیں بلکہ دہ ہا اشعار ان صوفی بزرگ کی شان میں ملتے ہیں مثلاًایک شعر میں مولانا فخر الدین کی ذات با برکات کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ اس طرح نغمہ سرا ہوتے ہیں         ؎

ظفر دشوار ہے ہر چند اہل معرفت ہونا

مگر صدقے میں فخرالدین کے ہاں ہو سکتا ہے سب کچھ

شیخ فخرالدین کی ذات گرامی سے بہادرشاہ ظفر کی عقیدت بڑھتے بڑھتے پرستش کے مرحلے تک پہنچ گئی تھی گو کہ جب ان صوفی بزرگ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر محض گیارہ سال یا اس سے کچھ ہی متجاوز تھی لیکن ان کی ذات مبارک کے کچھ ایسے گہرے اور ہمہ گیر اثرات ظفر کے ذہن و دل پر نقش ہو گئے تھے جو تا عمر محو نہ ہو سکے ان کے کلام میں ان گنت اشعار مل جائیں گے جو ثابت کرتے ہیں کہ وہ اس ذات گرامی کو اپنی زندگی کے درد بے پایاں کا درماں سمجھتے ہیں جو کچھ انھیں حاصل ہوا ہے وہ انھیں کے فیوض بابرکات کا ثمرہ تھا اوران کے بغیر وہ اپنی ذات کو نامکمل تصور کرتے تھے چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں ـ        ؎

کہتا ہے ظفر جو کچھ اب جوش محبت میں

اے فخر جہاں سب وہ تیری ہی عنایت ہے

17 محرم 1200ہجری میں فخر الدین کی وفات ہوگئی ان کی وفات کے بعد غلام الدین جو کہ ان صوفی بزرگ کے جاں نشین و پسر عزیز تھے اور مانند پدر، خود بھی علوم معنوی میں کامل دستگاہ رکھتے تھے ظفران سے شرف بیعت کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے مولانا قطب الدین سے بھی ظفر کو خصوصی دلبستگی اورمحبت رہی اور انھیں تا عمر اس بات پر فخر رہا کہ وہ اس خانوادۂ با سعادت سے منسلک رہے ہیںان کے علاوہ ظفرکے کلام میں مولانا قطب الدین کی شان میں کہے گئے اشعاربھی بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں جو اس حقیقت کے مظہر ہیں کہ وہ مولانا قطب الدین کی ذات گرامی سے بھی والہانہ لگائو رکھتے تھے بلکہ وہ ان کے عاشقین خاص کی فہرست میں سب سے بلند مقام پر فائز تھے  قطب الدین کی عظمت وشان میں کہے گئے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے جن سے ان کے بے پناہ عشق کا اندازہ لگایاجا سکتاہے          ؎

مرید قطب الدین ہوں خاک پائے فخر الدین ہوں میں

اگر چہ شاہ ہوں ان کا غلام کمتر ہوں میں

انہی کے فیض سے ہے نام روشن میرا عالم میں

و گرنہ یوں تو بالکل روسیہ ہوں میں

بہادر شاہ میرا نام ہے مشہور عالم میں

و لیکن اے ظفر ان کا گدائے رہ نشیں ہوں میں

قطب الدین کی وفات کے بعد بھی بہادر شاہ ظفر اس خاندان سے اسی طرح وابستہ رہے اور ان کے فرزند عزیز نصیرالدین عرف کالے صاحب کے ساتھ بھی اپنے عقیدت مندانہ مراسم اسی طرح برقرار رکھے حالانکہ نصیر الدین عرف کالے صاحب عمر میں ا ن سے کافی چھوٹے تھے لیکن ان کی عقیدت و محبت ان کے ساتھ بھی اسی طرح قائم رہی جس طرح فخرالدین صاحب اور مولانا قطب الدین سے تھی ان کے کلام سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ تا عمر اس بات پر نازاں رہے کہ وہ اس خاندان باسعادت سے روابط قریبی رکھتے ہیں نصیرالدین عرف کالے صاحب کی تعریف و توصیف میں بھی اشعار کہے ہیں جن میں دعائیہ انداز اختیار کیا گیا ہے مگر عقیدت و انسیت کا جو دریا دل میں موجزن ہے اس کی روانی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے          ؎

نظام خانہ فخر جہاں تم ہی توہو

قیام سلسلہ و خاندان تم ہی تو ہو

نہ کیوں تم سے ہوں ظاہر صفات قطب الدین

خدا رکھے تم ہی ان کا نشاں تم ہی تو ہو

ظفر کو چاہیے نصرت تمھیں نصیر الدین

کہ اس کے یار و مددگار ہاں تم ہی تو ہو

گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بہادر شاہ ظفر کا جذبہ ایمانی حد درجہ راسخ و پختہ ہو چکا تھا انھیں صرف اس خانوادے سے ہی نہیں بلکہ دیگر صوفیائے کرام، اولیاء اللہ اور بزرگان دین سے بھی خاص لگائو تھا ان کا عقیدہ تھا کہ ان بزرگان دین کی ہی محنت کا ثمرہ ہے جن کی وجہ سے انھیں اپنی ہستی حقیر کو تسلیم و رضا کا خوگر بنانے کی استعداد حاصل ہو سکی ہے انھیں حضرت معین الدین چشتی ؒ کی ذات مبارکہ سے بھی والہانہ لگائوتھا اور اکثر مواقع پر ان کے تقوے وپرہیزگاری کی تعریف وتمجید بڑے ہی پر شکوہ انداز میں کی ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ مسلسل بڑھتے ہوئے مصائب نے انھیں شہنشاہ کے بجائے صوفی بنا دیاتھا اور متصوفانہ جذبات ان کی شخصیت پر اس قدر غالب آ گئے کہ تخت سلطنت پر سریر آرا ہونے کے باوجودبھی انھوں نے پیری مریدی کی رسم کو فروغ دیا اور تخت وتاج کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرف راغب ہو گئے بلکہ رعایا کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرنے کے سلسلے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا چونکہ بادشاہ سلامت خود پیری مریدی کے عقائد پر بہت زیادہ سختی کے ساتھ عمل پیرا تھے چنانچہ رعایا کا رجحان اس طرف ہو جانا عین فطری تھا لہٰذاان سے وابستہ لوگ بھی اس راہ پر گامزن ہونے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائے اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے شمارعام وخاص ان کے حلقۂ مریدی میں داخل ہوکر اپنی تکالیف و مصائب کا حل تلاشنے لگے عملی طورپر کچھ کرنے کے بجائے بے عملی فروغ پانے لگی، خودبہادر شاہ ظفر نہایت ذوق و شوق اور زور و شور سے لوگوں کو متصوفانہ رمز سے آگاہ و آشنا کراتے اور اپنے اعتبار سے ان کے مصائب ومسائل کا مداوا کرنے کی کوشش بھی کرتے،  لوگ جوق در جوق  ان کے حلقۂ ارادت میں داخل ہونے لگے اورجب ان کایہ حلقہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وسیع ہونے لگا تو حیلہ پروراور دور اندیش انگریزی حکومت کو کچھ خوف لاحق ہوا اور انگریزی افسران کی جانب سے ان کے بیان کردہ عقائد کی عام تشہیر پر پابندی عائد کر دی گئی اورساتھ ہی ساتھ ان کو سخت تاکیدوتنبیہ بھی کی گئی، وہ اس رسم کو کلی طور پر ختم کر دیں ورنہ انگریز ی حکومت کی جانب سے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی اورایسا اس لیے بھی کیا گیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک کے لوگ متحد ہوکر انگریزی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں اس سلسلے میں احمد علوی کاکوروی نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ بہادر شاہ پر فقر و درویشی کا رنگ ایام ولی عہدی سے چڑھا ہوا تھا لیکن اب حوادث گوناگوں نے یہ نشہ اور تیز کر دیا تخت پر بیٹھے تو اسرار و نکات تصوف بیان فرماتے...  رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ دیسی سپاہی بادشاہ کے مرید ہونے لگے ایک جمعدار حمید خاں نام کا بھی اس نعمت سے مشرف ہوا تھا ریزیڈنٹ کو اندیشہ ہوا کہ فوج کے سپاہی اگر بادشاہ کے حلقہ بگوش ہوئے تو بوقت ضرورت حق نمک فراموش کریں گے لہٰذا اہلکاران فوج کو بہادر شاہ سے بیعت کرنے کی حکماََ ممانعت کی گئی لیکن دہلی کے دوسرے باشندے اس خوان کرم سے بہرہ اندوز ہوتے تھی ۔‘‘

)بہادر شاہ ظفر، امیر احمد علوی کاکوروی، لکھنؤ 1955، ص 118-19(

جیسے جیسے وقت گزرتاگیا ظفر کے صوفیانہ خیال و افکار میں مزید کشادگی و وسعت پیدا ہوتی چلی گئی بلکہ انگریزی حکومت کی پابندی عائد ہو جانے کے بعد تواس میں اور زیادہ شدت اورحدت پیدا ہو گئی تھی اور یہ کہا جائے توزیادہ درست ہوگا کہ ملک کی اندرونی و بیرونی افراتفری، اغیار و اعزا کی حیلہ پروری اورحالات و قسمت کی ناداری نے ان کو جذبۂ ایمان و عمل سے ہمکنار کر دیا، بہادر شاہ ظفر کے کلیات میں بکثرت ایسے اشعار موجود ہیں جو ان کے کامل صوفی ہونے کی بڑی حقیقی اور سچی تصویر پیش کرتے ہیں ان اشعار کو پڑھ کر محسوس ہوتاہے کہ یہ کسی بادشاہ کے نہیں بلکہ عارف یا صوفی کے نظم کردہ احساسات کی دلکش ترجمانی ہے جو پڑھنے والے کے اذہان وقلوب کو سیدھے طور پر متاثر کرتے ہیں۔

یہاں اس بات کی طرف اشارہ کر نا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ظفر کے عرفانی نظریات و عقائد اور شریعت کے اصول و ضوابط روایتی صوفی شعرا کی طرح دقیق، پیچیدہ، مبہم اور غیر واضح نہیں ہیںاور نہ ہی غیر ضروری فلسفیانہ بوجھل پن ان میں پایا جاتا ہے، اکثر مشاہدے میں آتا ہے کہ بعض بلکہ زیادہ تر صوفی شاعروں نے تصوف کے اس پیارے اور دل کش موضوع کو اس قدر مشکل و پیچیدہ بنا کرعام لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ جس پر عمل کرنا دشوار ترین عمل نظر آتا ہے اور وہ عموماًاس سے راہ گریز اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں لیکن ظفر کے یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس پایا جاتا ہے حالانکہ وہ کوئی فلسفی یا مصلح نہیں مگر انداز بیان سادہ دلکش رواں اور سہل ہے اس شاعربزرگ کا دل حساس جو کچھ بھی محسوس کرتا ہے اس کا قلم اس کی تابع داری کرتا ہے اور یہی ان کے شاعرانہ کمال کی انفرادی شان ہے جو بے اختیار لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے ان کے سامنے تصوف کے اسرار و رموز رازہائے سر بستہ نہیں رہ جاتے جن تک عام فہم انسان کی رسائی ممکن نہ ہو بلکہ اس کے بالکل برعکس ایک سیدھا آسان اور خوبصورت راستہ بن جاتا ہے جس کو اختیار کرکے منزل مقصود کو بدون کسی پریشانی کے حاصل کیا جاسکتا ہے یہ ان کا سلیس اور رواں انداز بیان ہی ہے جوان کو ایک اعلیٰ مرتبہ صوفی شاعر کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے لیکن وہ ایک آزاد طبیعت اور بے نیاز صوفی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتے ہیں بزم تیموریہ کے مصنف سید صباح الدین نے اس سلسلے میںبڑی متوازن اور معتدل رائے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’’ وہ تصوف کا کوئی فلسفی نہیں اس لیے خیالات اور مسائل کے اظہار میں نہ وہ نکتہ آرائی اور جدت طرازی کرتا ہے اور نہ غالب کی طرح تصوف کے عقدہ ہائے سر بستہ کی تحلیل اور تشریح میں دقیق اور عسیرالفہم الفاظ استعمال کرکے خیالات کو ادق بناتا ہے، بلکہ اپنے قلب کے تاثرات اور احساسات کو سیدھے اور سادے الفاظ میں پیش کر دیتا ہے جن کو پڑھنے کے بعد مفہوم کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ بے اختیار انہ طور پر اس کے اثرات خود بہ خود دل پر قائم ہوتے جاتے ہیں ۔‘‘

(بزم تیموریہ جلدسوم، سید صباح الدین، اعظم گڑھ، 2009، ص 131(

بہادرشاہ ظفر بظاہر توہندوستان جیسے عظیم الشان ملک کے شہنشاہ اعظم تھے مگر ان کی زندگی خارجی اور داخلی دونوں ہی اعتبار سے ناکامیوں حسرتوں نامرادیوں اور کلفتوں کا مرقع تھی جہاں سوائے مایوسی کے کچھ اور نہیں تھا ان کی قسمت نے ان سے تیموری شہنشاہوں کا وہ تمام کر و فر، سطوت و حشمت اور جاہ وجلال کو چھین لیا تھا جودور ماضی میں اس خاندان کی خصوصی پہچان تصورکیا جاتاتھا حالانکہ ان کے سر پر تاج شہنشاہی تو رکھا گیاتھا مگر افسوس کہ وہ تاج طاقت وقوت کا غماز نہیں بلکہ کانٹوں سے بھرا ہوا ایک اذیت ناک اورتکلیف دہ تاج تھاجس نے نہ صرف یہ کہ ان سے ان کی ساری مسرتوں و راحتوں کو چھین لیا تھا بلکہ ان کی روح تک کو بھی گھائل کر دیا تھا وہ مادی و روحانی دونوں ہی اعتبار سے خود کو تہی دست و لاچار محسوس کرتے تھے،نہ تو ملک وحکومت کے موجودہ حالات کو بدل سکتے تھے اور نہ ہی اس بے بسی اور لاچاری سے چھٹکاراحاصل کرنے کا کوئی راستہ ان کے پاس تھا وہ ملک کے بادشاہ ہونے کے باوجود بھی انگریزی حکومت کے ایک ادنیٰ اور معمولی سے ملازم بن کر رہنے پر مجبور کر دیے گئے تھے ایک ایسا ملازم جس کی نہ تو اپنی کوئی مرضی تھی اورنہ ہی خواہش، لیکن اپنی تمام تر بے کسی اور لاچاری کے باوجود وہ شاہانہ سطوت و شوکت کو اپنی ذات میں قائم و دائم رکھنے کے متمنی ضرورتھے لیکن افسوس کہ یہ شہنشاہ کم نصیب اپنے اجدادکی طرح تخت حکومت کو رونق بخشنے میں توکامران و کامیاب نہیں ہو سکا لیکن فقر و غنا کی سلطنت میں وہ عظمت وبلندی حاصل کی جس کو حاصل کر پانا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں انھوں نے اپنے دل کے غم کو سبکسار کرنے کے لیے شعر کے دامن میں پناہ ڈھونڈی اور دائمی نہ سہی لیکن وقتی طور پر راحت حاصل کرلینے میں کامیابی حاصل کر لی اورجب انھوں نے اپنے صوفیانہ جذبات وافکار کو اپنے کلام میں سمویا تو گویا روحانیات کی دنیامیں حیات جاویداں حاصل ہو گئی جب ہمارا یہ شہنشاہ ستم زدہ اپنے ہی عزیز از جان ملک کی باگ ڈور کو اغیار کے ہاتھوں میں جاتا دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اوراس سے پہلے کہ شدت غم اس کی جان لے لیں اس کے صوفیانہ احساسات اس کوفوراً سنبھال لیتے ہیں اور وہ وقتی تاج وتخت کی تمنا کے بجائے، بے نیازی، درویشی اور فروتنی میں شہنشاہ بزرگ بننے کی خواہش کا اظہارکرتا ہے:

یا مجھے شاہا نہ بنایا ہوتا

یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا

خاکساری کے لیے گرچہ بنانا تھا مجھے

کاش خاک در جاناناں بنایا ہوتا

صوفیوں کے جو نہ تھا لائق صحبت تو مجھے

قابل جلسۂ رندانہ بنایا ہوتا

تھا جلانا ہی اگر دوی ساقی سے مجھے

تو چراغ رہ میخانہ بنایا ہوتا

دل صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن

زلف مشکیں کا تری شانہ بنایا ہوتا

روز معمورۂ دنیا میں خرابی ہے ظفر

ایسی مستی سے تونے ویرانہ بنایا ہوتا

صوفیوں کاایک بڑا گروہ اس بات پر یقین رکھتاہے کہ انسان اگر اپنے دل کو کدورت، بغض اورعنادسے پاک کر لے تو خدا کا جلوہ اس میں نظر آتاہے ظفر کا بھی یہی مانناہے کہ جس نے اپنے دل کے آئینے کو صیقل کر لیا گویا اس نے انسانیت کی معراج کو حاصل کر لیا ایک پاکیزہ دل پر ہی اسرار الٰہی منکشف ہوسکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ اس کائنات کے پوشیدہ اسرار ورموز سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے انسان اپنے دل کو دنیاوی آلائشوں وآلودگیوں سے الگ کر لے تاکہ معرفت حق اس کو حاصل ہو سکے      ؎

دل کا آئینہ جب صفا دیکھا

وہ جو پنہاں تھا برملا دیکھا

صفائی قلب کوئی معمولی کام نہیں ہے اس کے لیے شروعات سے ہی بہت ایثاراور قربانی دینا پڑتی ہے اوراس گرد آلودہ آئینہ کو انکساری، عاجزی اور خاکساری کی مدد سے ہی صاف وشفاف بنایاجا سکتا ہے یہ سبب ہے کہ ظفر اس بات پر سب سے زیادہ توجہ دیتے نظر آتے ہیں کہ انسان سب سے پہلے اپنے دل کے دریچوں کو وا کرے اور اس میں موجود گرد وگندگی کو صاف کرے تاکہ اس کی نظرکچھ دیکھنے کی اہل ہو سکے        ؎

جو دل کو صاف ہو کرنا تو خاکساری کر

کرے ہے خاک سے دیکھ آئینہ صفا حاصل

اور جب تزکیۂ نفس کی دولت حاصل ہو جاتی ہے اور دل دنیاوی تمام کثافتوں و آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے تو پھر ایک عام بندہ بھی خدا کا قرب حاصل کر لینے میں کامیابی حاصل کر لیتاہے اور جز وسے کل بن جاتا ہے ان کے نزدیک قطرہ سمندر میں مل کر فنا نہیں ہوتاہے بلکہ خود سمندر بن جاتا ہے ٹھیک اسی طرح انسان جب معرفت الٰہی حاصل کر لیتا ہے تو گویا خدائی میں شریک ہو جاتا ہے اور صفات الٰہی اس میں پیدا ہو جاتی ہیں متعدد صوفی شعرا نے اس مضمون کو بیان کیا ہے لیکن جب ظفر کے نوک قلم سے یہ مضمون ادا ہوتا ہے تو حیرت انگیز طور پر سادہ اور عام فہم ہو جاتا ہے لیکن اس سادگی کے با وجود بھی اس میں بلا کی رعنائی اور اثرآفرینی نظرآتی ہے         ؎

مل گیا دریا میں جب قطرہ تو دریا ہو گیا

جزو جو کل میں ہوا گم جزو سے کل وہ بنا

یہ دنیااوراس کی ہر چیز فانی ہے انسان اس بے وفااور بے رحم زندگی کے پیچھے ایسے ہی دوڑتاہے جیسے کوئی بھوکی بھکارن کسی موٹر کار کے پیچھے حسرت ویاس کی تصویر بنی صرف اس لیے دوڑتی چلی جاتی ہے کہ شاید اس کو کچھ حاصل ہو جائے لیکن آخر میں سوائے ناکامی ونامرادی کے اس کے دامن میں کچھ اور نہیں آتا اسی طرح انسان بھی چاہے کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے لیکن یہ زندگی ایک ایسی بے وفا معشوق کی طرح ہے جو کسی بھی حال میں کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی ہے لہٰذا جب انجام فناہی ہے تو پھر زندگی کے لیے اتنی زیادہ محنت کرنے کا کیا فائدہ اس لیے بہتر یہ ہے کہ انسان اپنے مقصد حقیقی کو سمجھے اور زندگی کے فنا ہونے سے پہلے خود کو فنا کر لے تاکہ اس کو بقا حاصل ہو سکے ظفر جب اس خیال کو پیش کرتے ہیں تو بے اختیار اس پر عمل پیرا ہونے کا دل چاہتاہے         ؎

فنا ہے ساتھ تو پھر زندگی سے کیا حاصل

فنا سے پہلے فنا ہو کہ ہو بقا حاصل

دیگر صوفی شعرا کی مانند ناپائداری دنیا سے متعلق بھی کلیات ظفر میں بے شمار اشعاردیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی انفرادیت، سادگی، سلاست اور روانی کے سبب عام قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں ظفراس دنیاکو سراب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے وہ کہتے ہیں یہ دنیا چند روزہ ہے جس کو ایک نہ ایک دن ہر انسان کو چھوڑ کر چلے ہی جانا ہے لہٰذا فانی اور ناپائیدار چیزوں سے محبت رکھنابیکار ہے ظفر نے اپنے اطراف و جوانب میں جو ماحول اور حالات دیکھے تھے انہوں نے ان کے دل میں اس یقین کو پختہ کر دیا تھا کہ اس دنیامیں کبھی کسی کو راحت وسکون کے ساتھ جینا نصیب نہیں ہو سکا لہٰذا اس کو جائے خیروعافیت سمجھناایک خیال طفلانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس لیے یہاں کی حکومت و سلطنت، طاقت و قوت اور دولت و نعمت پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے ہندوستان ملک کا وہ شخص جو شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی دربدری کی زندگی گزار رہا تھا جو ہزاروں کی تقدیر سنوار سکتا تھا اب خود اغیار کے سامنے بے بس، مجبوراور دست بستہ کھڑا تھا لاچاری و معذوری اس قدر کہ حرف شکایت زبان پر نہیں لا سکتا تھا جب قسمت ایک شہنشاہ کو بھکاری بنا سکتی ہے تو پھر اور کیا نہیں ہو سکتا یہی سبب ہے کہ یہ شاہ کم نصیب اس دنیا میں فقر و قناعت کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے یہ ایک ایسی  دولت ہے جس میں کسی چیز کے چھن جانے کا کوئی خوف و ڈر نہیں ہے یہ دنیا انسان کو ہمیشہ اپنے دلفریب حسن سے یا حیلہ و مکر و فریب سے خود میں ضم کرنے کی کوشش کرتی ہے ہمہ وقت فتنہ و فساد کا بازار گرم رہتا ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی عمر کو ضائع کر دیا لیکن اب اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا کہ وہ تلافی کر سکے لہٰذا انسان کو اس کی حقیقت سمجھنا چاہیے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کرنا چاہیے لہٰذا وہ واعظانہ انداز میں کہتے ہیں            ؎

بچشم غور جو دیکھا ظفر زمانے میں

تو یا زمین کا یا زن کا یا ہے زر کا فساد

یاں ترقی و تنزل ہے مثال گرد و باد

گہ بلندی میں ہیں ہم اور گاہ پستی میں خراب

انسان کی زندگی ہے تو اک دو نفس تلک

سامان کرے ہے جینے کا لاکھوں برس تلک

کرتے ہو کیا کیا یہاں کے تم مکان آراستہ

غافلوں واں کی بھی تو کچھ خانہ آرائی کرو

مختصر طورپر یہ کہا جا سکتاہے ظفر کی صوفیانہ شاعری کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں موضوع تصوف ’برائے شعر گفتن خوب‘ نہیں ہے حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ ابتدا میں ان کے متصوفانہ رجحانات میں گہرائی و گیرائی تھوڑی کم نظرآتی ہے مگر گزرتے وقت کے ساتھ ان کی آتش دروں اپنی پوری آب و تاب سے روشن ہوتی چلی جاتی ہے اور دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کردیتی ہے چنانچہ عمر کے آخری حصے میں ان کی شاعری میں جو متصوفانہ موضوعات قلم بند کیے گئے ہیں ان میں فکر کی گہرائی و گیرائی زیادہ نظر آتی ہے ان کے تصوفانہ رجحانات کی پختگی و صفائی کی بڑی وجہ ان کے مصائب و مسائل کا سلسلۂ لامتناہی بھی تھا جس نے انھیں دنیا سے یکسر بے نیازکر دیاتھاانھوں اس دنیا کے جنگل میں ظہور پذیر ہونے والے حوادث چھوٹی چھوٹی قمریوں کی طرح محسوس ہونے لگے تھے اوریہ تصوف کے جذبے ہی کی کارفرمائی تھی جس نے ان کو بادشاہ ہونے کے بجائے ایک آزاد اوربے نیاز صوفی بنا دیاتھا سید صباح الدین اس سلسلے میں کہتے ہیں :

’’حوادث زمانہ اور واردات زندگی نے ظفر کے دل میں اپنے مالک حقیقی کی ایسی لگن پیدا کر دی تھی کہ آخر میں وہ بادشاہ وقت ہونے کے بجائے ایک صوفی منش فقیر ہو گیا تھا، اس کی زندگی صبر، توکل اور استغنا کی داستان ہے، طبیعت میں فقر و درویشی کا خمیر موجود تھا ہجوم مصائب نے اس کو اور زیادہ تیز کر دیا‘‘

)بزم تیموریہ جلد سوم، سید صباح الدین، اعظم گڑھ،2009، ص 128(

یوں تو ظفر نے متعدد موضوعات کو اپنی شاعرانہ زبان میں ادا کیاہے لیکن اگر ہم صرف ان کی صوفیانہ شاعری کی جانب نگاہ کریں تو پائیں گے کہ وہ ایک صوفی کامل فرشتہ صفت انسان ہیں جو دنیاوی مکر و فریب، آلائش و زشتی اور حرص و ہوس سے مکمل طورپر پاک و صاف ہے اس شاعر اعظم کے جذبات کی صداقت، تجربات کی گرمی، تکالیف کی شدت اور حوادث کی ستم ظریفی نے ان کی صوفیانہ شاعری کو جو رنگینی اور رعنائی عطا کی ہے وہ شاذونادرہی ان کے معاصرین شاعروں کے یہاں کہیں اور دیکھنے کو ملتی ہے۔

 

Dr. Neelofar Hafeez

Asst Prof, Depf of Arabic & Persian

Allahabad University

Allahabad - 211002 (UP)

Email.: neelofarhafeez82@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں