11/10/22

حیرت فرخ آبادی کا شعارِ تغزل: بدرمحمدی


 حیرت فرخ آبادی سے حیرت کا تعلق اس قدر ہے کہ ان کا اصل نام جیوتی پرساد مشر تھا۔ وہ عیسائی مذہب کے پیرو کار تھے اورانگریزی کے استاد۔ان سب کے باوجود وہ اردو شاعری کے دلدادہ رہے۔ ان سے وابستہ حیرت کی باتیں اور بھی ہیں جنھیں حیرت نے خود اپنی زبانی پیش کی ہیں کہ ان کی زندگی نشیب و فراز سے دوچار رہی۔ ان کے نام کے ساتھ فرخ آباد کی مناسبت ہے اور میدان عمل شہر رانچی۔حیرت کی پیدائش 1930 میں بہرائچ میں ہوئی اور تعلیم و تعلم اترپردیش کے مختلف شہروں میں۔ انھوں نے 1952 میں باقاعدہ شاعری شروع کی۔ 1987 میں ان کا اولین شعری مجموعہ ’نوائے سازدل‘ منظر عام پر آیا اور 21 سال بعد 2008 میں دوسرا مجموعہ ’حس التماس‘ شائع ہوا۔اس طرح حیرت فرخ آبادی نوائے ساز دل کے شاعر ہوئے اور حس التماس کے بھی۔ حیرت فرخ آبادی کی شاعری کی ابتدا اور نشو و نما روایتی انداز میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں روایت کا پاس و لحاظ، عزت و احترام بالخصوص نمایاں ہے۔ اپنی کہنہ مشقی اور قادرالکلامی کو زودگوئی میں انھوں نے ضائع نہیں کیا۔ وہ زود گو نہیں کم گو شاعر تھے۔ اس کم گوئی کی وجہ ان کے یہاں پختگی اور پر گوئی کا حسن پایا جانا ہے۔ ان کی شعوری بالیدگی کی وجہ تجربے و مشاہدے سے استفادہ اور اساتذہ کے کلام کا مطالعہ ہے۔ انھوں نے انگریزی شعروادب کی بھی بیش از بیش ورق گردانی کی اور اپنی شاعری کے لیے خود نقاد بننے کا شرف حاصل کیا۔ چنانچہ ان کی شاعری میں جہاں روایت کا احترام ہے وہیں عہد حاضر کے تقاضوں اور فنی ضرورتوں کا پاس و لحاظ بھی۔کلاسیکی مزاج کا یہ شاعر نئے امکانات سے با خبر ہونے اور نئے نشانات کو سمیٹنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ حیرت فرخ آبادی نے نظم، گیت، رباعی اور قطعات بھی لکھے ہیں مگر بنیادی طور پر ان کی حیثیت غزل گو شاعر کی ہے۔

شاعر کی کسی غزل یا غزل کے کسی شعر کا عنوان نہیں ہوتا۔ غزل خود ایک عنوان ہے، جس سے مراد متفرقات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک غزل میں کئی موضوع اور مضامین ہوتے ہیں۔ حیرت فرخ آبادی کی غزلوں میں بھی یہ خاصیت ہے۔ ان کی شاعری کے شیڈس مختلف ہیں۔ سارے شیڈس پر روشنی ڈالنا ایک مضمون میں ممکن نہیں لیکن کچھ مضامین کو موضوع کے اعتبار سے یکجا کیا جاسکتا ہے۔ غزل کا اوّلین موضوع اس کے لغوی یا اصطلاحی معنی سے منسوب ہے۔چنانچہ حیرت فرخ آبادی نے بھی گفتگو بہ زناں کی ہے۔ اس عورت سے گفتگو جو رنگوں کا مرقع اور خوشبوؤں کا پیکر ہے۔ وہ شاعری کا جہان آرزو، متاعِ زندگی ہے۔ وہ اس قدرقریب ہے کہ اسے چھونا ممکن نہیں مگر محسوس کیا جانا ممکن ہے۔شاعر نے اس کے لب و رخسار کا بھی ذکر کیا ہے اور حسن شعار کا بھی۔ وصل کی بھی بات کی ہے اور ہجر کی بھی کہ اس کا وصل گلاب کی شگفتگی ہے اور ہجر راستے میں کھڑی دیوار۔ محبوب کا وعدہ پیار بھرا ہے اور اس سے رشتہ زہر آلود۔ اس کا تن مٹی کا، دل پتھر کا ہے۔ وہ سوزشِ دل بھی ہے اور آرام جاں بھی۔ حیرت نے اپنی تشنہ لبی، بے کلی اور جانکنی کی سی کیفیت کا ذکر کیا ہے تو محبوب کی بے رخی، بے اعتنائی اور تغافل کی بھی بات کی ہے۔ معاملات حسن، احساسات عشق اور ان سے پیدا سوز نہانی کی تصویراُبھاری ہے۔ رعنائی خیال کی حسین دنیا آباد کی ہے۔ حیرت فرخ آبادی نے محبوب کا رشتہ اپنی غزل سے یوں استوار کیا ہے   ؎

تمھارے حسن کا چرچا ہے عشق کے دم سے

رہا نہ عشق تو حسن و شباب کیا ہوگا

تمھارے عشق میں ہم کیوں ہوئے ہیں دیوانے

کہ جس کا دل نہ جلا ہو، بھلا وہ کیا جانے

قرب گر مل نہ سکا درد جدائی تو ملا

یہ تو ہے عشق کی سوغات تمھیں کیا معلوم

ہے وہ کتنا خوبصورت ہر ادا بھی دل نشیں

اس کی باتیں میٹھی میٹھی پر، اثر نشتر کا ہے

جادۂ عشق میں سایہ ہے کہاں پیڑ کہاں

رونا روتے ہو ابھی راہ میں سستانے کا

قصۂ مجنوں و فرہاد پہ سر دھنتے ہو

یہ تو میرے ہی فسانے کی کڑی ہے یارو

اسی امید پہ دن زندگی کے کاٹ دیے

شب وصال شب ہجر سے بڑی ہوگی

کاروبارِ شوق میں محبوب کی ہر چیزپیاری ہوتی ہے۔ اگرچہ عاشق یار کی مہربانیوں کا طلبگار ہوتا ہے مگر اسے     نا مہربانیاں عزیز ہوتی ہیں۔ اس کی کم نگاہی بھی باعث لطف لگتی ہے۔ دنیائے عشق میں برباد ہونا، آباد ہونے کے مترادف ہے۔ اسی بربادی سے افسانوں میں سرخی ہے۔ غم یا ر زندگی کا حاصل ہے۔ جہانِ محبت میں عقل نہیں دل کی چلتی ہے۔ دل جو کہتا ہے وہی معتبر ہوتا ہے۔ عقل محو تماشا رہتی ہے۔ دل عاشق اپنوں کا ستایا ہوتا ہے۔ غیرکی ستم رسانی بے معنی ہوتی ہے۔ وحشت دل کے اضافے سے ہوک سی اٹھتی ہے اور اسی سے دھڑکن قائم رہتی ہے۔ تن کو ٹھنڈی ہوا جلاتی ہے۔ جلتے ہوئے پتھر میں سلگتی ہوئی تنہائی رہتی ہے۔ عاشق کی طبیعت وہ صحرا ہے جس کی پیاس بادل کے برس جانے سے بھی نہیں بجھتی۔ عاشق رنج کا خوگر ہوجاتا ہے اور پھر اس کا رنج جاتا رہتا ہے۔ المختصر محبوب کی ستم رسانی عاشق کے لیے لذت آمیز ہوتی ہے   ؎

غیروں کی دشمنی بجا یاروں کی کیا کہوں

یارب ترے جہان میں، میں جی لیا بہت

شکوہ جائز تھا اگر غیر ستاتے مجھ کو

مجھ کو اپنوں نے ستایا ہے کوئی بات نہیں

فسانہ اپنی بربادی کا کب تک کس طرح لائوں

مرے ہی مہربانوں کی مہربانی ہوئی ہوگی

یہ مری فطرتِ دل تھی کہ مری نا سمجھی

مل گیا جو بھی اسے یار سمجھ بیٹھا ہوں

وہی ہوتا نہیں جو ہم چاہیں

ورنہ ہونے کو کیا نہیں ہوتا

ہم سے کچھ بدگمان ہے یہ دل

آج کل دشمنوں سے یاری ہے

ایسا ممکن نہیں کہ شاعر، وہ بھی عاشق شاعر، دل و دماغ کی بات کرے، دوست و دشمن کا ذکر چھیڑے اور اپنی بات نہ کرے۔ وہ خود پر فریفتہ ہوتا ہے۔اسے خودی سے عشق ہوتا ہے۔ محبوب کے حصول میں محو ہونے کے ساتھ وہ خود سے بھی محبت کرتا ہے۔ وہ بے خود ہو کر خودی کی بات کرتا ہے۔ انا کی رہنمائی پاتا ہے۔ حسن اسے بے خودی کی راہ دکھاتا ہے تو عشق خودی کی۔ خوبصورت احساس سے وہ زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔ذکر خودی سے خودداری کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر خود سے خوش ہوتا ہے اور خود سے خفا بھی رہتا ہے۔ اپنی آواز وہ خود سنتا ہے۔ جب خود کو بہ نظرِ غائر دیکھتا ہے تو آپ کو سب سے براپاتا ہے۔ یہ برائی اس کے لیے بھلائی کی بات ہوتی ہے اور اس میں دوسروں کے لیے سبق پوشیدہ ہوتا ہے      ؎

مجھے عشق ہے خودی سے میں فریفتہ ہوں خود پر

نہیں جو قریب میرے وہ میرا خدا نہیں ہے

یہ کیا کم ہے کہ حیرت اس جہاں میں

نہیں ہے کچھ کہ جب تک ہم نہیں ہیں

کون دیتا ہے صدا تنہائی میں

کچھ نہیں یہ خود مری آواز ہے

اپنی آواز خود ہی سنتا ہوں

میں نے جب جب تجھے پکارا ہے

ہم نے حیرت مٹا لیا خود کو

آدمی ہے کوئی برا ہم سے

جانے کیا ہوگیا ہے حیرت کو

خود سے خود ہی خفا سا رہتا ہے

پیچھے پیچھے کوئی خنجر سا لیے آتا ہے

یہ تو خود ہی مرا سایہ ہے کوئی بات نہیں

زندگی کی سب سے بڑی پونجی غم زندگی ہے۔ شمع زندگی روغن غم سے ہی روشن رہتی ہے۔ گریۂ غم سے شاعر کا سینہ بھرا ہوتا ہے۔ حیرت فرخ آبادی کی شاعر ی میں غم جذب و پیوست ہے۔ اس میں غم کی روانی، حزن و یاس کی دھیمی آنچ، خشتگی و نرمی اور درد و کرب کا ارتعاش ہے، حیرت کو شعورِ غم، تفہیم غم ہے۔ دل حیرت میں غم اس قدر جاگزیں ہے جیسے کوزے میں سمندر سمویا ہو۔ عام طور پر غم زندگی کو نڈھال کر دیتا ہے مگر کبھی غم زندگی کو سنوارتا بھی ہے۔ آدمی کو سنبھالتا بھی ہے۔ غم ایک دوست کی طرح ہے جو ہمیشہ پاس رہتا ہے۔ غم نصیب ہونا بھی قسمت کی بات ہے۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہیں کہ احساس غم ہی احساسِ زندگی ہے۔ غم کے بغیر زندگی بے لطف ہے          ؎ 

سب کی قسمت میں غم کہاں یارو

اہل تقدیر اس کو پاتے ہیں

وقت شام جب آیا غم ہر ایک جانب سے

جمع ہو گئے دل میں، وقت ہے بسیرے کا

ہے غم عشق کبھی یا غم دنیا ہے کبھی

میں وہ دیپک ہوں جو بجھ بجھ کے جلا ہے یارو

آہوں کو سنوارا ہے زخموں کو سجایا ہے

ہم نے یہ شعور غم اک عمر میں پایا ہے

غم، انتشارِ احساس کا نام ہے اور انتشارِ احساس کا تعلق وقت کے بدلتے منظر نامے سے ہے۔ آدمی کو صرف غم عشق نہیں غم روزگار سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔ شاعر اپنے زمانے کی تبدیلیوں سے علاحدہ نہیں رہ سکتا۔ اپنے دور کی تلخیوںاور کرب ناکیوں سے اس کی علاحدگی ممکن نہیں۔ شاعر حیرت فرخ آبادی گر دوپیش کی ویران اور تاریک ہوتی زندگی سے دل برداشتہ دکھائی دیتا ہے کہ بے رحم دنیا میں جینا مشکل ہے۔ صدق دلی عنقا ہوگئی ہے۔ ناانصافی، استحصال، جو رو ظلم کا غلبہ ہے۔ تہذیب برباد ہوتی جارہی ہے۔ ہر سو خاموشی مسلط ہے۔ یہ خاموشی، راز غم دل میں چھپانے کے لیے ہے۔ تمام رشتے نمائشی ہوگئے ہیں۔ مطلب اور غرض کے یہ رشتے دہک رہے ہیں۔ انسانی آبادی جھلس رہی ہے۔ دل کے نازک پھول کمہلائے ہیں۔ احساس پہ تھکن چھائی ہے۔ چاند کی ٹھنڈی کرن تیرسی چبھتی ہے۔ چھائوں میں دھوپ کی گرمی ہے۔ زندگی درد کا منظر ہوگئی ہے۔ آدمی اندر سے سسک رہاہے۔ سانسوں میں کانٹے چبھ رہے ہیں۔ ہر سانس بھاری ہوگئی ہے۔ حیرت فرخ آبادی نے ان مکانوں کی نبض بھی ٹٹولی ہے۔ جن کی سانس گھٹی گھٹی سی ہے      ؎

زندگی پر نکھار تھا کل تک

آج ہر سانس ہم پہ بھاری ہے

پیاس صحرا کی بجھ سکے کیونکر

اب کے بادل میں بس نمی سی ہے

اب کوئی بھی وہاں نہیں رہتا

ساری بستی میں خامشی سی ہے

چار سو لگ گئی ہے چپ سی کیوں

دم نہ گھٹ جائے کچھ کلام کرو

چار سو جلتی ہوئی خاموشیاں پھیلی ہوئیں

راستے مسدود ہیں ویرانیاں پھیلی ہوئیں

تشنگی ہی تشنگی چاروں طرف بس تشنگی

جانب صحرا اڑے جاتے ہیں وہ آبی پرندے

بدلی ہوئی ہے اب کے جہاں کی فضا بہت

آتی ہے اب تو دھوپ میں جل کر ہوا بہت

نا مساعد حالات میں محصور ہونے کے باوجود شاعر حیرت فرخ آبادی کا عزم و حوصلہ جوان ہے۔اس شاعر کا خاندانی پس منظر بھی جانفشانی سے بھر ا ہے۔ یہ ندی باڑھ کے پانی سے چڑھی ہے۔ چنانچہ حیرت فرخ آبادی نے سعیِ پیہم کا درس دیا ہے کہ للکار کے جو آگے بڑھتا ہے وہی موتی پروتا ہے۔ دل میں اک ذرا دیوانے کی خو چاہیے۔ حیرت نے طوفان کا رخ موڑنے کی خاطر جوانوں کو اٹھ کھڑے ہونے کی ہدایت دی ہے کہ تو غم سے گھبرانے والا نہیں، مجبور نہیں،  چاہے تو سینۂ افلاک چیر دے     ؎

حوصلۂ جنوں کا کیا کہنا

اب تو منجدھار بھی کنارہ ہے

منزلیں سب راستہ بنتی گئیں

طائر دل مائل پرواز ہے

ہر جگہ رکنا مناسب ہے کہاں

یوں تو رستے میں بہت آتے ہیں گھر

ذرا گھر کی ہوا ہی کے مقابل ہو لیں

حوصلہ ہے جنھیں طوفان سے ٹکرانے کا

غم دوست در حقیقت ترا رہنمائے منزل

وہی کم نگاہ نکلا جسے حوصلہ نہیں ہے

ملی تحسین دل کے حوصلوں کو خود ہی طوفاں سے

وہی ڈوبے کہ جن کو چاہ تھی طوفاں میں ساحل کی

زندہ رہنے کا لو سبق ہم سے

حوصلہ دل میں ہے ابال تو ہے

عزم و حوصلہ کم ہو تو وہ عزم و حوصلہ نہیں لہٰذا انھیں اس قدر ہونا چاہیے کہ ان کا شمار جنوں یا دیوانگی میں ہو۔حیرت فرخ آبادی کو عقل و خرد کے عوض دیوانگی عزیز ہے۔ یہ دیوانگی سے مانوس شاعر ہے۔ حیرت کی شاعری دیوانگی کی دین ہے۔ وہ دیوانگی جس کا جادو قیس، فرہاد، میرا اور منصور پر چلا۔ جن منزلوں سے ڈر کر فرشتے واپس آگئے۔ ان منزلوں پر صرف دیوانے گئے۔ حیرت کے پائوں میں کوئی نہ کوئی زنجیر پڑی ہے۔ اس شاعر کا جنوں لائق تحسین ہے کہ اس جنوں نے ریگ زاروں کو گلزار بنارکھا ہے۔ یہ شاعر رکا نہیں ہے بلکہ جنون آوارگی سے اس کا سفر رواں ہے   ؎

کل شب مجھے اک شخص نے آئینے میں گھورا بہت

پوچھا بتا تو کون ہے اس نے کہا دیوانگی

وہ دیر ہو کہ جرم ہو یا ہو تری محفل

کہاں کہاں نہ گئے ہیں جنوں میں دیوانے

نہ جنوں کی حد ہے کوئی نہ ہے عشق میں مقید

کہاں جا رہا ہوں یارو مجھے خود پتہ نہیں ہے

ہمت و حوصلے سے کام لیا جائے تو کار دشوار انجام دینا آسان ہو جائے۔ عزم محکم کا تعاون لے کر دل کو دل سے ملایا جائے۔ سبھوں کو اپنا بنایا جائے۔ اخوت کا چلن یاد کیا جائے۔ محبت کا چمن آباد کیا جائے۔ خود غرض نہ بن کر دوسروں سے غرض رکھی جائے۔ اوروں کی پیاس بجھانے کے لیے سمندر نہیں دریا بنا جائے۔ وہ آدمی بھی کیا جو کسی کے کام نہ آئے، دوسروں کے دکھ درد کو نہ اپنائے۔ یہی پیام انسانیت ہے یہی پیغام وقت ہے۔ حیرت فرخ آبادی نے بنی نوع انسان سے محبت، رواداری اور درد مندی و ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کی حمایت کی ہے    ؎

یونہی گزار دی جو زندگی تو کیا حاصل

کسی کے کام جو آئے تو کوئی بات بنے

رہِ خلق میں لٹا دے جو متاعِ زندگانی

وہی بندۂ خدا ہے وہ اگر خدا نہیں ہے

کوئی لاشوں پہ نہ روئے نہ بستیاں اجڑیں

اتنا سوچیں کہ سبھی ہم اسی گھربار کے ہیں

چلنا پڑتا ہے وقت کے ہمراہ

وقت کب کس کے ساتھ چلتا ہے

ہے وہی بندۂ خدا حیرت

جس کو غم بے کسوں کا پیارا ہے

حیرت فرخ آبادی نے نہ صرف انسان کو انسان کے کام آنے کی بات کہی ہے بلکہ باہمی اتفاق و اتحاد پر بھی زور دیا ہے۔ مذہب کی تعلیم سے نیک بننے اورآپسی اختلاف کو مٹا کر ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر خوش گوار زندگی کا نمونہ پیش کرنے کی طرفداری کی ہے تاکہ ساری دنیا خوشحالی اور بھائی چارے کی خوشبو کی طرح پھیل جائے اور امن و سکون قائم ہو۔ حیرت کو دیرو حرم کی تفریق پسند نہیں۔ مشترکہ تہذیب کے علمبردار حیرت فرخ آبادی نے ظاہر داری کی مخالفت کی ہے۔ مشترکہ ثقافت، اخوت و محبت، رواداری اور باہمی یکجہتی کی ہدایت دی ہے۔ ہندو مسلمان اور عیسائی کی نہیں انسان کی بات کی ہے۔ انھوں نے اقبال کے اس نظریے کی تائید کی ہے کہ مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا۔ توازن پسند طبیعت کے مالک حیرت فرخ آبادی دیر و حرم کے منکر نہیں بلکہ دونوں میں اتحاد چاہتے ہیں۔ انھوں نے دیرو حرم کا ذکر کچھ یوں کیا ہے        ؎

تری جستجو کے صدقے یہ کھلا ہے راز مجھ پر

کہ میانِ دیر و کعبہ کوئی فاصلہ نہیں ہے

تم ہی تم ہو ہر ایک شے میں عیاں

کس لیے پھر یہ پردہ داری ہے

ہم نے نزدیک سے دیکھا ہے یہی سمجھا ہے

رنگ کعبہ کا وہی ہے جو ہے بت خانے کا

اشعار حیرت میں حساس اور درد مند وجود کا جوہر ہے۔ ان میں درد میں ڈوبے ہوئے دل کی صدا ہے۔ خونِ دل سے شاعری کو سینچنے کی بات ہے۔ اندر اور باہر سے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے کے بعد سمیٹ لینے کی کوشش ہے۔ زخموں کو زباں دینے کا عمل ہے۔ حیرت نے دل بہلانے کے لیے شاعری کی ہے مگر ہر شعر میں فکر کی گہرائی بھی ہے۔ اس لیے ان اشعار میں کسک ہے۔ کسی کا غم حیرت کی شاعری کا روحِ رواں ہے۔ اس لیے تاثیر کا عنصر غالب ہے۔ حیرت کا تخلیقی شعور بالیدہ ہے۔ طرز بیاں سادہ اور سلیس ہے۔ انھیں رموز وعلائم کے استعمال میں مہارت حاصل تھی۔ لفظوں کو موتیوں کی طرح پرونے پر وہ قادر تھے۔ حیرت کی شاعری دل اور دماغ کی شاعری ہے۔ اس شاعری میں روشنی ہے، زندگی ہے۔ شاعر نے زیست کا ترانہ سنایا ہے۔ آوارہ خیال کو شائستگی بخشی ہے۔ زخم کرید کر جی بہلایا ہے۔ زخموں سے دل میں چراغاں کیا ہے۔ شاعر کے دل کا زخم ہرا ہے۔ حیرت کی شاعری احساس کا سرمایہ ہے۔ پرانے درد کی نئی پیش کش ہے۔ حیرت نے شبنم سے آنچ نکلتے دیکھی ہے۔ ضمیر کی ملامت برداشت کی ہے۔ آہ کو سلگتے پایا ہے۔ حیرت کی شاعری میں روایت بھی ہے ترقی پسندی بھی۔ جدیدیت بھی ہے اور مابعد جدیدیت بھی۔ حال بھی ہے، ماضی اور مستقبل بھی۔ کلاسیکی مضامین بھی ہیں اور جدید موضوعات بھی۔ سایۂ دیوار بھی ہے اور سرابوں کی فصیل بھی۔ حیرت نے زمین پر زمین کی بات کی ہے اور آسماں کو بھی یاد کیا ہے۔ رہبر کا بھی ذکر کیا ہے اور رہزن کا بھی۔ بھائی چارے کی بات کی ہے اور فساد کی بھی۔ دوست کو بھی یاد کیا ہے اور دشمن کو بھی۔ مذہب اور نیکی کی بات بھی کی ہے اور شراب و گناہ کو بھی قافیہ بند کیا ہے۔ چنانچہ بیاض حیرت میں ہر طرح کی تخلیق ہے۔ ذہن کو چھونے والے اور دل میں اترنے والے اشعار ہیں۔ البتہ کوئی شعر اتنا معیاری ہے کہ تہہ بہ تہہ پرتوں کا احساس ہو، اور کوئی شعر اس قدر عامیانہ کہ تشبیہ و استعارہ پس پشت پڑ جائے۔ دریا اور قطرے کا یہ فرق باعث حیرت ہے۔ ویسے حیرت نے حیرت یعنی تعجب کے تناظر میں بھی اپنے تخلص کا استعمال بخوبی کیا ہے             ؎

جس کے شعروں میں ہے غضب کی کسک

اور کوئی نہیں ہے حیرت ہے

دور حیرت تمہاری ہے منزل

درد کو اور تیز گام کرو

زخم سب دل کے بھر گئے حیرت

چوٹ کھائو کہ جی نہیں لگتا

مست آنکھوں نے پلا دی کچھ ایسی حیرت

رنگ پھیکا سا نظر آتا ہے میخانے کا

بے حسی اتنی چھائی ہے حیرت

لو بھی لگتی ہے اب تو ٹھنڈی سی

اپنی ہستی کا بھی کچھ مجھ کو پتہ ملتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ ہیں حیرانیاں پھیلی ہوئیں

Dr. Badr Mohammadi

AT.: Chandpur Fatah

P.O..: Bariarpur - 843102

Distt.: Vaishali (Bihar)

Cell.: 9939311612

E-mail: badrmohammadi1963@gmail.com      

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں