10/10/22

اردو شاعری میں تصوف کی رنگارنگی: نظیر احمد گنائی


یہ مضمون تین ذیلی عنوانات میں منقسم ہوا ہے:

)الف)             صوفی اور تصوف کی تعریف (ب) تصوف کے درجے  (ج)اردو شاعری میں تصوف کی رنگارنگی                        

)الف) صوفی اورتصوف کی تعریف

لفظ ’ صوفی‘ کا اشتقاق و مصدر کیا ہے ؟  اس میں مختلف اقوال ہیں :

1       صوفی کی نسبت مسجد نبویؐ میں اہل صفہ کی طرف ہے۔ ماہرین لغت کا اس پر اعتراض ہے کہ اگر صوفی کی نسبت اہل صفہ کی طرف ہوتی تو صوفی کی بجائے صفی ہونا چاہیے تھا۔

2       صوفی کی نسبت اللہ تعالیٰ کے سامنے پہلی صف کی طرف ہے۔ اس پر بھی یہی اعتراض کیا گیا کہ لغت کے اعتبار سے صفی ہونا چاہیے تھا نہ کہ صوفی۔

3       ایک قول یہ ہے کہ صوفی ’صفوۃ من الخلق‘ کی طرف منسوب ہے جو لغوی اعتبار سے غلط ہے کیوں کہ’صفوۃ‘ کی طرف نسبت ’صفوی ‘آتی ہے۔

4       صوفی ’ صوفہ بن بشر بن طابخہ‘ قبیلہ عرب کی طرف منسوب ہے۔

)تذکرۃ الاولیا صابری قلندری کلیامی رنگ (

 صوفیا کی نگاہ میں صوفی کی تعریف

1       حضرت شیخ ابو علی رودباری  ’’الصوفی ھو ان یکون العبد فی کل وقت بما ھو اولیٰ بہ فی الوقت‘‘ صوفی وہ ہے جو ہر وقت اسی کا ہوکر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔

2       حضرت عمر بن عثمان مکی  ’’ الصوفی ساکن الجوارح مطمئن، الجنان مشروح الصدر منور الوجہ عامر الباطن غنیا عن الاشیاء لخالقھا‘‘ صوفی پر سکون جسم دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیا سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ 

3       حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ’’ منقطع عن الخلق و متصل بالحق ‘‘صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔

4       حضرت شیخ ابو بکر شبلی  ’’ ھم قوم آثروا اللہ عزوجل علیٰ کل شئی ‘‘صوفیا کرام وہ ہیں جو ہر چیز سے زیادہ اللہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘  (تذکرۃ الاولیاء صابری قلندری کلیامی رنگ)

5       حضرت محمد طیب ابدالی  ؒ

’’ اصل صوفیت عین اسلام ہے۔ صوفی وہ ہے جو مومن و مسلم اور خارجی مکارم کے ساتھ باطنی حسن و اخلاق پر بھی نظر رکھے اور وہ زندگی کی اصل فرض داخلی اور روحانی اصلاح کو قرار دے۔خشیتِ الٰہی سے لرزاں اور محبت الٰہی سے سرشار ہو، اس کی زندگی صاف سادہ اور بے داغ ہو، اس میں دکھاوا بالکل نہ ہو، وہ سختیاں سہنے کا عادی ہو اور دنیا کے عیش ونعم کو مقصدِحیات نہ سمجھے، دنیا مطمح ِنظر نہ ہو، ایک طرف اس میں اگر خدا کا عشق ہو تو دوسری طرف خداکے بندے کی محبت بھی پائی جائے...‘‘  

(اردو میں صوفیانہ شاعری، محمد طیب ابدالی، 1984، الہ آباد، ص24)

(ب)  تصوف کے درجے

صوفیا کے نزدیک اسلامی علوم کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دو سری باطنی، ظاہری علم سے مراد شریعت ہے، جو عوام کے لیے ہے۔باطنی علم وہ ہے جو احمد مختار نبی تاجدار رسول اللہؐ نے اپنے چند صحابہ کوعطا کیا ہے۔جن میں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق  ؓ، حضرت امیر المومنین علی ؓاور حضرت ابوذر ؓ کا نام درج ہے۔ صوفیا کے نزدیک تصوف کے چار درچے ہیں۔جب تک چاروں درجات اصول و ضوابط کے ساتھ پائے تکمیل کو نہ پہنچ جائیں گے تب تک آدمی صوفی نہیں ہوسکتا ہے۔ ان چاروں درجات کی ترتیب اس طرح سے ہے کہ شریعت،طریقت،  حقیقت،معرفت

(ج) اردو شاعری میں تصوف کی رنگارنگی     

 اردو ادب میں صوفیت کا تصور ابتدا ہی سے ہے کیونکہ اردو ادب کے نشو و نما میں اولیاء اللہ اور صوفیوں کا عمل دخل رہا ہے۔ اردو شاعری میں صوفیانہ عناصرفارسی اور عربی کے توسط سے ہی آئے ہیں۔عربی میں حسان بن ثابتؓ اور فارسی میں مولانا رومی اور جامی وغیرہ جیسے بڑے شاعروں نے اس فن میں اپنے جوہر دکھائے اور صوفی عناصر کو بلند اور اعلیٰ مقام بخشا۔ اردو میں حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ؒکے خلیفہ اکمل،حضرت ابو الحسن امیر خسروؒ نے پہلی بار اس فن میں طبع آزمائی کی۔حضرت ابو الحسن امیر خسروؒ سے لے کر اب تک جتنے بھی اولیاء اللہ اور صوفی بزرگ آئے ہیں۔ حضرت امیر خسرو کو اپنے پیر و مرشد حضرت نظام الدین محبوب الٰہی سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ان کا قلبی تعلق تصوف سے گہرا تھا اور اس کی تکمیل دربارِ محبوب الٰہی میں ہی ممکن تھی۔ ان کے کلام کا زیادہ تر موضوع تصوف ہی رہا ہے۔ صوفیا حضرات کا کہنا ہے کہ راہِ سلوک میں جن منازل سے سالک کو گزرنا پڑتا ہے وہ عشق، کشف اور جذب ہیں۔ جب وہ کشف کی منزل سے گزرتا ہے تو اس پر اسرار الٰہی کا ظہور عمل میں آتا ہے۔

حضرت امیر خسرو کے بعد کئی شعرا کا ذہن اس فن کی طرف مائل ہوا، وہ کچھ اس طرح سے ہیں جیسے : 

سلطان محمد قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی، ملک خوشنود، ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی،مرزا محمد رفیع سودا، خواجہ میر درد، میرتقی میر، نظیر اکبر آبادی،حیدر علی آتش، مرزا اسد اللہ خاں غالب،میر انیس ، مرزادبیر، امیر مینائی ، داغ دہلوی، خواجہ الطاف حسین حالی،اسمٰعیل میرٹھی،احمد رضا خان بریلوی، اکبرالہ آبادی،شاعر ِ مشرق علامہ اقبال، فانی بدایونی،حسرت موہانی،اصغر گونڈوی وغیرہ نے بھی بعدمیں اس موضوع پر اپنا قلم اٹھایا۔غرض ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایسا شاعر پیدا ہوا جو صوفیت سے یا تو متاثر تھا یا خود بھی صوفی رہا۔صوفی شاعری کی طرف کئی لوگوں کا ذہن توجہ کن رہا ہے۔ عارفانہ کلام یا صوفیانہ کلام شاعری کا وہ کام ہے جو صوفیا اور عارفین نے کیا ہے۔ اس شاعر ی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں عشقِ حقیقی کے اسرارورموز پنہاں ہیں، جس میں صوفیا نے اپنے تجربات اور عشقِ حقیقی میں درپیش رکاوٹوں اور مراحل و مدارج بیان کیے ہیں۔ صوفی شاعری کا یہ کام مختلف زبانوں میں ہوا ہے اور ہر زبان میںپیش کیا جانے والا صوفی کلام عوام میں بہت مقبول ہوا ہے۔مختلف صوفیا کا کلام پنجابی، سندھی، اردو، فارسی، عربی و دیگر زبانوں میں موجود ہے۔ یہ کلام نظم اور نثر دونوں صورتوں میں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ صوفیانہ کلام کے حوالے سے معروف چنیدہ شخصیات درج ذیل ہیں: 

سلطان باہو، وارث شاہ، میاں محمد بخش، بابابُلھے شاہ، شمس تبرَیزی، مولانا رُومی، مولانا جامی، شیخ سید شیرازی، اما م غزالی،ابنِ عربی، شیخ فرید الدین عطاروغیرہ

اردو شاعری میں یہ روایت یا تو نسل در نسل چلی آئی یاتو سلسلہ نسبی سے آئی۔تصوف اور اس کے معاملات اردو شاعری کے اہم ترین موضوعات میں سے ہیں۔ عشق میں فنائیت کا تصور دراصل عشقِ حقیقی کا پیدا کردہ ہے۔ساتھ ہی زندگی کی عدم ثباتی انسانوں کے ساتھ رواداری اور مذہبی شدت پسندی کے مقابلے میں ایک بہت لچک دار رویے نے شاعری کی اس جہت کو بہت ثروت مند بنایا ہے۔ دیکھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ تصوف کے مضامین کو شعرا نے کس فنی ہنر مندی اور تخلیقی احساس کے ساتھ خالص شعر کی شکل میں پیش کیا ہے۔

سلطان محمد قلی  قطب شاہ نے تصوف کے موضوع کو اپنے دیوان میں جگہ دے کر یوں کہا ہے کہ        ؎

خبر لیایا ہے ہدہد میرے تئین اس یار جانی کا

خوشی کا وقت ہے  ظاہر کروں  راز نہائی کا

سلطان محمد قلی قطب شاہ نے اپنی غزلوں میںعشق حقیقی کا بر محل استعمال کی کیا ہے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں منزلوں کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ نسبت اسلاف کا بھی پرتو ان کے کلام میں جابجا ملتا ہے۔ حکمرانی کے ساتھ ساتھ رب العالمین کی تمام تر وحدت، آزمائش اورجلال کا ذکر کرکے ہر نعمت کا شکر بھی ادا کیا ہے۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کے بعد وجہی  اور غواصی  نے بھی تصوف کے مضامین کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان دونوں کے بعد ولی دکنی نے بھی اپنی کلیات میں جابجا تصوف کے باب کھول دیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں یہ شعر                ؎

لب پہ دلبر کے  جلوہ گر ہے جو خال

 حوض کوثر  پہ  جوں کھڑا  ہے  بلال 

دو سری جگہ         ؎

یاد  کرنا  ہر گھڑی  تجھ یار کا

ہے   وظیفہ  مجھ  دل بیمار کا

ولی دکنی کے بعد سراج اورنگ آبادی نے اس موضوع کو بام عروج بخشا ہے وہ لکھتے ہیں کہ        ؎

خبر  تحیر  عشق   سن   نہ  جنوں   رہا   نہ   پری   رہی

 نہ  تو  تو رہا  نہ  تو  میں رہا  جو  رہی  سو  بے  خبری  رہی

سراج  کے بعد اس شاعرکا دور آتا ہے کہ جس نے صوفی گھرانے میں ہی آنکھ کھولی ہے۔حضرت خواجہ میر درد  نام سے ہی اثر پرور ہے۔ انھوں نے اپنی شاعر ی سے تصوف کو ایسی رونق بخشی کہ دنیائے اردو ادب میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا گیا ہے۔ ان کے یہ اشعاراس حوالے سے کافی اہمیت رکھتے ہیں          ؎

تر  دامنی  پہ  شیخ   ہماری  نہ  جائیو

دامن  نچوڑدیں تو فرشتے  وضو کریں

نے گُل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے  اعتبار

کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدان شہر

اے درد آکے بیعت دست سبو کریں

مقام وحدت کے ان اسرار و رموز کو خواجہ میر درد نے شاعری میں بیان کیا ہے جن کو چھونے سے عام آدمی گھبرا جاتا ہے یا ان موضوعات پر بات کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ پرہیز گاری اور تقویٰ کے منصب کو طے کرنے پر جو کیفیت حال ہوتی ہے وہ بھی اشارتاً بیان کیا ہے،کہتے ہیں :

جگ  میں  آکر  اِدھر  اُدھر  دیکھا

تو   ہی  آیا   نظر   جدھر   دیکھا

دوسری جگہ کہتے ہیں کہ           ؎

ارض و سما کہاں تری و سعت کو پاسکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

 خواجہ میر درد  کے بعد اردو شاعر ی میں ایک بڑے شاعر کا جنم ہوا جس کا نام میر تقی میر ہے۔ یہ وہ شاعر ہیں جنھوں نے اپنے کلام میں عشق و محبت، درد و غم، ظلم و بے بسی، ہجر و فراق، یاس و تڑپ، وصال و رخصت کے ساتھ ساتھ ہر اس موضوع کو اپنی شاعر ی میں جگہ دی ہے جس کاتعلق برائے راست یا بلاواسط خدا کی وحدانیت سے ہو۔ ملاحظہ فرمائیں          ؎

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر

میں ورنہ وہی  خلوتی  ٔرازِ نہاں ہوں

 دوسری جگہ میرتقی میر کچھ یوں کہتے ہیں

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

 میر تقی میر کے بعد نظیر اکبر آبادی نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ نظیر  کے ساتھ ہی خواجہ حیدرعلی آتش ایسے شاعر گزرے ہیں کہ جنھوں نے تصوف کی دنیا میں قدم رکھا اور ایسے اشعار کہے جن سے تصوف کی صورتیں واضح ہوئیں۔ ان کے بعد بہادر شاہ ظفر  اور شیخ محمد ابراہیم ذوق نے بھی اس فن میں طبع آزمائی کی۔ پھر اس کے بعد اردو ادب میں وہ درخشاں ستارہ نمودار ہوا کہ جس نے اردو شاعری کو دل والوں کی شاعری بنادی۔ جن کا اسم گرامی مرزا اسد اللہ خان غالب ۔ مرزاغالب  نے اردو شاعری کو ایسی وسعت عطا کی کہ محب ادب اردو شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ ایسا کوئی موضوع نہیں جس پر انھوں نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ فارسی شاعر ی ہو یا اردو شاعری دونوں میں وہ کمال حاصل کیا کہ تادم ادب نواز انھیں یاد کریں گے اور ہر دور میں ان کے کلام کو تر و تازہ قرار دیں گے۔ مرزااسداللہ خان غالب یوں قلم بندکرتے ہیں کہ:

 اُسے کون دیکھ سکتا کہ  یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

ایک اور جگہ کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ         ؎

کہہ سکے  کو ن کہ یہ  جلوہ گری کس کی ہے

پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

تصوف کوئی سادہ یا عام موضوع نہیں ہے اس کے لیے زاہد یا متقی ہونا لازمی ہے مگر دو سری بات یہ بھی ہے کہ کسی کا حال کبھی کچھ اتنا اچھا رہتا ہے کہ ان کا قلم روانی سے لکھتا چلاجاتا ہے۔ جیسے ان کے قلم کو الہامی جنبش آگئی ہو۔ وہ کلام صرف اور صرف مرزا غالب  کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مرزاغالب  کے بعد میر انیس ، مرزا دبیر، امیر مینائی اور داغ  دہلوی نے اس موضوع پر کلام لکھا ہے۔ داغ  دہلوی لکھتے ہیں کہ           ؎

تماشائے دیر  و  حرم  دیکھتے ہیں

تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں 

داغ دہلوی کے بعد الطاف حسین حالی ،اسمٰعیل میرٹھی اور اکبر الہ آبادی نے بھی اس فن میں طبع آزمائی کی اور تصوف کے حوالے سے بہترین کلام پیش کیا۔ لیکن اسی عہد میں بریلی کی سرزمین سے ایک ایسا گوہر نایاب نمونہ دنیا ئے اردو ادب پر حاوی ہوا کہ جس کی شہرت نہ صرف ہندو پاک میں ہوئی بلکہ اپنی شاعری سے ان کا نام عرب و عجم میں لیا جاتا ہے یعنی عاشق رسول ؐ اِمام احمد رضا خان فاضل بریلوی ؒ ایسے صوفی شاعر گزرے ہیں۔ کہ جنھوں نے احمد مصطفی محمدِ مجتبیٰ پیغمبرآخرالزماںؐکی شان میں ایسی بہترین نعتیں لکھیں اور اہلِ بیت کے نام سے منقبت لکھے۔ انھوں نے تصوف کے ایسے باب کھول دیے جن کا تصور عام قاری کرنہیں سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایسے بیان کیا کہ لگتا ہے ان کا دل معرفت ِ الٰہی سے سرشار ہوا ہے۔ وہ عاشق رسولؐ شاعر کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے قلم سے موتی اس طرح پروتے ہیں کہ        ؎

ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں

پانچ جاتے ہیں، چار پھرتے ہیں

نفس  یہ کوئی  چال ہے ظالم

کیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا

تجھ سے کتنے  ہزار  پھرتے ہیں

احمد رضا خان بریلوی کے عہد کے بعد جن شعرا نے بہترین کلام لکھا ہے۔ انھوں نے صرف عشق و عاشقی کو ہی محور بنالیاتھا۔ ان شعرا نے ظلم و تشدد، بھوک و افلاس، محکومی، آپسی نابرابری کے موضوعات پرہی قلم اٹھایا۔ پھر کچھ مدت کے بعد نور وحدت کی ایک جھلک ظاہر ہوئی تو سیالکوٹ کی پاک سرزمین سے ایک ستارہ روشن ہواجس نے اپنے کلام کے ذریعے انقلاب برپا کردیا۔ میری مراد ڈاکٹر سر محمد اقبال سے ہے، شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال  نے شاعری کی وہ تہیں کھول دی جن پر اردو ادب ناز کرتا ہے اور اپنے کلام میں ایسے موضوعات بھر دیے جن کے ذریعے قوم کی اصلاح اور معاشرے میں سدھا ہوا۔  علامہ اقبال تصوف کی نسبت یوں فرماتے ہیں         ؎

ظاہر کی آنکھ سے  نہ  تماشا  کرے کوئی

ہے دیکھنا  تو  دیدئہ  د ل  وا  کرے کوئی

دوسری جگہ کہتے ہیں کہ            ؎

عقل  و  دل  و  نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات

علامہ اقبال نے تصوف کو اپنے منفرد انداز میں جا بجا پیش کیا ہے کہتے ہیں کہ :

عجب نہیں کہ خد ا  تک تری رسائی ہو

تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام

تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال

  تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام

علامہ اقبال کے بعد فانی بدایونی ایسے شاعر گزرے ہیں جنھوں نے اپنے کلام میں تصوف کے موضوعات بھردیے۔ فانی  نے سرِوحدت اور خداکے ظہور کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ                 ؎

 طور تو ہے رب ارنی کہنے والا چاہیے

لن ترانی ہے مگر نا آشنائے گوش ہے

دوسری جگہ یوں کہتے ہیں کہ             ؎            

 دل ہی نگاہ ِ ناز کا  ایک  ادا شناس تھا

جلوۂ  برق طور نے طور کو کیوں جلادیا 

فانی بدایونی نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں منزلوں کو اپنے کلام میں جگہ دی۔ ان کے کلام میں صوفی رنگ اچھا خاصا دیکھنے کو ملا۔

 فانی بدایونی کے بعد اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی اور اصغر گونڈوی نے عشقِ حقیقی کے موضوعات اپنے کلام میں بھر دیے ہیں اور رازِ پنہاں کی جھلک ان کے کلام میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ تصوف کی رنگا رنگی ان حضرات کے کلام میں بھی موجود ہے۔

اردو شاعری میںہر اصناف سخن میں صوفیانہ کلام اور تصوف کے نمونے ملتے ہیں۔جیسے قصیدہ، مثنوی، غزل، مرثیہ، نظم، رباعی، قطعہ، حمد، نعت، منقبت،دوہے، کہہ مکرنی،گیت اور پہیلی وغیرہ۔

مختصر طور پر ہم یہ کہیں گے کہ متذکرہ شعرا کے یہاں تصوف کے عناصر میں اگردیکھا جائے تو تصوف بذات خود ایک پیچیدہ موضوع ہر دورمیں رہا ہے۔ مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہر دور میں ایسے شاعر بھی گزرے ہیں کہ جنھوں نے اس فن میں اپنے جوہر دکھائے اور اردو شاعری کو تصوف کی دنیا سے مالا مال کردیا۔ ان شاعر وں نے عشق و عاشقی کے علاوہ تصوف اور صوفیت کو موضوع بنایا۔

Nazir Ahmad Ganai

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi - 110007

Cell.: 7889779687

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں