10/10/22

رومانیت اور اردو افسانہ: عروسہ فاروق


 رومانیت کا لفظ رومان سے نکلا ہے۔رومان کو فرانسیسی زبان میں رومانس اور لاطینی زبان میں رومانکا کہتے ہیں۔عربی و فارسی زبان میں اس کے الگ الگ مفاہیم نظر آتے ہیں۔عربی میں رومان سے مراد کوئی قدیم رزمیہ داستان یا ایسا کوئی واقعہ جو انسانی عقل سے پرے ہو۔فارسی زبان میں رومان سے مراد کوئی قصہ یا افسانہ کے ہیں۔متذکرہ مفاہیم سے اندزہ لگایا جاسکتا ہے کہ رومان کے معنی جھوٹی سرگزشت کے ہیں یا ایسا قصہ جو دل کو خوش کرتا ہے اورجس سے انسان حظ حاصل کرتا ہے۔ رومان کے عناصر میں فرضی داستان، داستانِ عشق و محبت، وارداتِ قلبی شامل ہیں۔اس حوالے سے ڈاکٹر محمد حسن یوں  اظہار خیال کرتے ہیں

’’ رومان کا لفظ ’رومانس ‘ سے نکلا ہے اور رومانس زبانوں میں اس قسم کی کہانیوں پر اس کا اطلاق ہوتا تھا جو انتہائی آراستہ اور پر شکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سناتی تھیں جو عام طور پر دور وسطیٰ کے جنگ جو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہمات سے متعلق ہوتی تھیں اور اس طرح اس لفظ سے تین خاص مفہوم وابستہ ہو گئے۔

  1.        عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رومانی کہا جانے لگا۔
  2.            غیر معمولی آراستگی،شان وشکوہ،آرائش،فراوانی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانی کہنے لگے اور
  3.   عہد وسطیٰ سے وابستہ تمام چیزوں سے لگاؤاور قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانی کا لقب دیا گیا۔‘‘ 

(محمد حسن،اردو ادب میں رومانوی تحریک،شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 1955 ص(

رومانیت ادب کی وہ تحریک ہے جس میں غیر حقیقی باتیں بیان کی جائیں۔ رومانیت جذبات اور احساسات کی قائل ہے۔اس تحریک نے پرانے اصولوں کے بجائے نئے اصول وضوابط پر زور دے کر خیالی دنیا بسانے کی زیادہ توجہ دی۔ اس تحریک نے زیادہ زورانفرادیت پردیا۔ رومانی مفکروں کے مطابق ایک فردصرف احساسات، خیالات، جذبات کی مدد سے ہی حقیقت تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ان مفکروں کے مطابق عقل صرف ظاہری شے کو پہچان سکتی ہے لیکن احساسات اور جذبات اس ظاہر کے باطن تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

رومانوی تحریک کی شروعات مغرب میں ہوئی۔ جرمن کے رہنے والے ادیب فریڈک شلیگل جس نے سب سے پہلے لفظ رومانیت کو متعارف کرایا۔رومانوی تحریک کے حوالے سے سب سے پہلا نام فرانسیسی مفکر ’روسو‘ کا ہے جس نے اپنی کتاب The social contract میں کہا ہے:

Man is born free but everywhere he is in chains,

 ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر وہ ہر جگہ پابہ زنجیر ہے۔‘‘

روسو کے اس قول کو رومانیت کا جوہر اور اس کی شروعات سمجھا جاتا ہے۔روسو نے اس دنیا میں انسان کو قید ہوتے دیکھا ان کے مطابق انسان کی مادہ پرستی اس کے احساسات و جذبات پر حاوی ہے۔انسان غیر ضروری طور پر قید ہوگیا ہے،روسو انسان کو اس قید سے آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔انھوں نے ادراک اور جذبات کو الگ الگ نہیں سمجھا بلکہ ان کے نزدیک ادراک اور جذبات ایک ہے۔اس حوالے سے محمد عالم خان رقمطراز ہیں:

’’وہ (روسو) جذبات کو سب سے اہم اور افضل مقام پر فائز کرتا تھا اور اس کا اپنا تصور جمالیات جذبات کے اشتراک کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔وہ تو یہاں تک سمجھتا تھا کہ ادراک اور جذبات میں تضاد نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے اور حقیقت تک رسائی احساس و جذبات کے توسط سے ہی ممکن ہوسکتی تھی۔روسو کے یہی خیالات آگے چل کر رومانی ادیبوں کی تحریکوں میں اجاگر ہونا شروع ہوئے اور رومانیت رفتہ رفتہ ایک مکتب فکر کی حیثیت اختیار کرنے لگی۔‘‘

)محمد عالم خان،اردو افسانے میں رومانی رجحانات،علم و عرفان پبلشرز ص 40(

اٹھارویں صدی میں ادب میں کلاسکیت کی وجہ سے جمود طاری ہو چکا تھا،فرد ظاہر اور باطن کی جکڑ بندیوں میں بند ہوچکا تھا۔روسو نے جذبے اور تخیل کی آزادی کی وجہ سے انسان کو جمود سے باہرنکالنے کی کوشش کی۔ یہی آزادی آگے چل کر رومانیت کا چربہ بن گئی۔اس طرح سے مغرب میں رومانیت کی داغ بیل پڑی جس میں یکے بعددیگرے بہت سے ادباو شعرا نے اپنا لوہا منوایا۔مغرب میں اس تحریک کے حوالے سے جو اہم نام شامل ہیں۔ان میں ورڈزورتھ، کالرج، بائرن، شیلے، کیٹس، مسزریڈ کلف، ولیم بیک فورڈ، ایملی برونٹے، شارٹ برونٹے، والٹر اسکاٹ وغیرہ اہم ہیں۔

ورڈزورتھ بنیادی طور پر فطرت پرست شاعر تھے۔ ان کے مطابق انسان فطرت سے جدا نہیں ہے بلکہ انسان کا سارا وجود ایک قدرتی آئینہ ہے۔ورڈزورتھ کو فطرت کا سچا عاشق کہا جاسکتا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں عام بول چال کی زبان کا استعمال کیا ہے۔عام فہم زبان کے ساتھ ساتھ انھوں نے فطرت کی سچی عکاسی کی ہے جس سے عام قارئین خوشی اور انبساط حاصل کرتے ہیں۔ ورڈذورتھ کے بعدکالرج کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ کالرج ایک بڑے شاعر،نقاداور فلسفی تھے۔انہیں ورڈزورتھ  کی طرح فطرت سے کافی لگاؤ تھا۔ان دونوں کو رومانیت کا دلدادہ کہا جاتا ہے۔دونوں شاعروں کا ایک مشترکہ کارنامہ lyrical ballad(1798)ہے۔یہ رومانوی اسکول کے لیے پہلا قابل تحسین کام مانا جاتا ہے۔کالرج نے اٹھارویںصدی کے آخر میں اور انیسویں صدی کے اوائل میں شاعری،تنقید اور مضامین لکھنے شروع کیے۔ شاعری میں انھوں نے مناظر فطرت کی عکاسی بڑے گہرے انداز میں کی ہے۔ان کی شاعری میں انفرادیت سے لے کر مافوق الفطرت عناصر نظر آتے ہیں۔

رومانی تحریک کا ایک اور اہم نام شیلے کا ہے۔ان کی زیادہ دلچسپی سیاست میں تھی۔انھوں نے اپنے انقلابی جذبات کا اظہاراپنی شہرہ آفاق تصنیف "Defence of poetry"  میںکیاہے جو 1821 میں لکھی گئی اور 1840  میں شائع ہوئی۔اس تصنیف کے اندر تشدد اور ظلم وجبر کے خلاف بغاوت کا جذبہ ملتا ہے۔انھوں نے حسین مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔محمد عالم خان ان کے بارے میں اظہار خیال یوں کرتے ہیں:

’’شیلے کو تصو ریت پسند رومانی شاعر کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا۔وہ حال سے بیزار ہو کراس حسین مستقبل کا خواب دیکھتاہے جہاں افلاطون کے جمہوریہ اور طائس مور کے یو ٹوپیا کی سرحدیں ملتی ہیں۔‘‘ (ایضاًص42(

بائرن کوحال کا شاعر کہا جاتا ہے۔یہ رومانی تحریک کے علمبرداروں میں سے تھے۔ان کی شاعری میں حسن پرستی، غنائیت، فطرت کی ترجمانی نظر آتی ہے۔ان کے کلام میں رومانیت کے گہرے اثرات کے ساتھ ساتھ داخلیت کا رنگ نمایاں ہے جو انہیں اپنے معاصرین شعرا سے منفرد کرتا ہے۔

رومانی شعرا میں کیٹس زیادہ حساس شاعر تھے۔ان کی تخلیق میں مشاہدے کا عمل دخل ہے۔بعد میں جن ادیبوں اور شاعروں نے اس تحریک کو جلا بخشی ان میں مسزریڈ کلف،بیک فورڈ،ایملی برونٹے،والٹر اسکاٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مسزریڈکلف،بیک فورڈ کے یہاں رومانیت ان کے ناولوں میں نظر آتی ہے۔والٹراسکاٹ کے یہاں اسکاٹ لینڈ کی تاریخ جابجا دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ ماضی کی یادوں سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ناول نگاری کے میدان میں انہیں خاص مقام حاصل ہے۔ان کے کردار عوامی معاشرت کے بہترین ترجمان ہیں۔ اسکاٹ کے یہاں رومانی عناصر کے ساتھ ساتھ ڈرامائی کیفیات اور تمثیل کی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ رومانی تحریک جس کی ابتدا  مغرب میںہوئی، مغرب میں اس کی پذیرائی اتنی ہوئی کہ یہ تحریک ادب کی دوسری زبانوںپر بھی چھاگئی۔ اردو زبان پر بھی اس کے دور رس اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اردو میں رومانیت کے آغاز کی بات کی جائے تو اس کے ابتدئی نقوش ہمیں داستانوں میں نظر آتے ہیں۔ داستانوں میں موضوعات زیادہ تر خیالی ہوتے ہیں، مافوق الفطرت عناصر کے ساتھ ساتھ حسن و عشق کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔اس میں ایک مرکزی قصہ ہوتا ہے جس کے ساتھ ساتھ ضمنی قصے بھی ابھرتے ہیں۔اس طرح داستان  میں طوالت پیدا ہوجاتی ہے۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری داستانوں میں رومانوی عناصر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’رومانی قصہ دوسرے اقسام قصص کے مقابلے میں زیادہ طویل ہوتا ہے اس میں ایک مرکزی قصہ ضرور ہوگا لیکن اس قصے کے ماتحت اور بہت سے چھوٹے چھوٹے قصے گردش کرنے لگتے ہیں۔عشق،مذہب اور جنگ رومان کے اہم عناصر ہیں اور کوئی رومانی قصہ ان محوروں سے ہٹ کر وجود میں نہیںآسکتا۔ان قصوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں مافوق الفطرت عناصر کو غیر معمولی دخل ہوتا ہے۔‘‘ 

)ڈاکٹر فرمان فتحپوری،اردو نثر کا فنی ارتقا،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی،2018،ص148(

داستانوں میں حسن و محبت کا قصہ ایک مرکزی خیال کی حیثیت رکھتا ہے۔ان قصوں میں رومانیت، تصوریت، ماورائیت پائی جاتی ہے جس سے داستان مکمل ہوجاتی ہے۔ داستان میں تخیل پرواز پر ہوتا ہے اور یہی تخیل رومانوی تحریک کا بنیادی عنصر ہے۔داستانوں سے گزر کر رومانیت اردو ناولوں اور افسانوں کی طرف رخ کرنے لگی۔اردو کے تاریخی ناولوں میں بھی  رومانیت کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔مسلمانوں کی تاریخ،تاریخی ناول نگاروں کا پسندیدہ موضوع رہاہے۔ماضی پرستی کی جو عمدہ مثالیں مغرب میں اسکاٹ کے یہاں مل جاتی ہیں۔ اردو ادب میںعبدالحلیم شرر کے یہاں پائی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہیں اردو کا والٹر اسکاٹ بھی کہتے ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ سرشار،مرزا ہادی رسوا،منشی سجاد وغیرہ کے یہاں بھی رومانیت کے جلوے دیکھے جاسکتے ہیں۔

اردو ادب میں رومانیت کو سرسید تحریک کے ردِ عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سرسید نے مقصدی ادب کو فروغ دیا جس کی کھلی مخالفت رسالہ ’مخز ن‘ میں ہوئی۔ اردو ادب میں رومانیت 1900 سے 1935 تک کے عرصے پر محیط ہے۔اگر چہ اس تحریک کی عمر اردو ادب میں زیادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس نے ادب پر دیر پا اثرات مرتب کیے۔

میر ناصر علی دہلوی نے سرسید کی غیر متحرک نثر کا جمود توڑ کر عاشقانہ مضامین کو شاعرانہ انداز میں لکھنے کی روایت ڈالی۔ انھوں نے رومانوی موضوعات کو بنیاد بنا کر شراب، رند،زاہد وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ سرسید کی تحریک کے مقابلے میں انھوں نے ’فسانہ ایام‘ اور ’صلائے عام ‘ جیسے رسائل نکالے۔انھوں نے ادب میں فرد کی داخلی رومانیت کو اجاگر کرنے کی سعی کی۔

اردو میں اس تحریک کے فروغ میں ادبی رسائل کا اہم رول رہا ہے، جن میں ناصر کے’فسانہ ایام‘ اور ’صلائے عام‘ کے ساتھ ساتھ شرر کا  ’دلگداز‘ سرعبدالقادر کا ’مخزن‘ محمد یوسف خان کا ’نیرنگ خیال‘نیاز فتح پوری کا ’ہمایوں‘ قابل ذکر ہیں۔رسالہ مخزن نہ صرف سرسید کے خلاف رد عمل تھا بلکہ یہ رسالہ اس وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس رسالہ میں سماجی نقطہ نظر سے فرد واحد کی آزادی کا اعلان بھی تھا۔اس رسالے نے اردو دنیا کو بے شمار ادبا سے متعارف بھی کرایا۔اس رسالے کی اہمیت کے حوالے سے انورسدید لکھتے ہیں۔

’’جب اپریل 1901میں مخزن کا اجرا ہوا اور اس نے روش عام سے ہٹ کر جذبہ اور تاثر کو ملکوتی زبان میں پیش کرنا شروع کیا تو اس عہد کے بیشتر نوجوان ادبا ’مخزن‘ کی طرف متوجہ ہوگئے،اس دور میں جو ادیب مخزن کے صفحات سے نمایاں ہوئے ان میں اقبال،،ابو الکلام آزاد، سجاد حیدر یلدرم،آغا شاعر قزلباش، ظفر علی خان، مرزا محمدسعید، خوشی محمد ناظر، غلام بھیگ نیرنگ،مہدی افادی، لطیف الدین احمد،خواجہ حسن نظامی اور شیخ عبد القادر  کے اسما بے حد اہم ہیں۔ان ادبانے اردو زبان کو ایک خاص قسم کی لطافت سے آشنا کیا اور طاقتور متخیلہ کے بل بوتے پر رومانی تصورات کو فروغ دینے کی سعی کی۔‘‘ 

)ڈاکٹر انور سدید،اردو ادب کی تحریکیں،انجمن ترقی اردو پاکستان، 2013،  ص400(

رسالہ مخزن میں لکھنے والے جو ادباو شعرا ابھر کر سامنے آئے ان میں اہم نام شاعر مشرق علامہ اقبال کا ہے۔  علامہ اقبال کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔انھوں نے اردو ادب بالخصوص شاعری میں ایسے نت نئے تجربے کیے جن کی پیروی ان کے بعد آنے والے شعرا نے کی۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی انھوں نے مغربی شعرا جن میں ورڈزورتھ خاص طور پر شامل ہیںکا مطالعہ کیا۔علامہ کے یہاں گرچہ فلسفیانہ نظریہ زیادہ نمایاں ہے پھر بھی فطرت کی جمالیات کی تصاویر جابجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ان کی شاعری کو کسی ایک دائرے میں قید کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنی شاعری میں ملی جذبات،سیاسی خدمات،مذہبی عقائدکے ساتھ ساتھ زندگی کے فلسفے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے جس میں علامہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ ابوالکلام آزاد کے یہاں بھی رومانیت کے نقش نظر آتے ہیں۔ان کے یہاں رومانیت کے ساتھ ساتھ مقصدیت بھی حاوی ہے۔ان کی رومانیت ادب لطیف کی رومانیت سے مختلف ہے۔ ان کے یہاں عورت کا حسن، عشق و عاشقی،تخیلات کے بجائے مقصدی ادب پایا جاتا ہے۔

متذکرہ رسالے نے علامہ اور ابوالکلام جیسے مفکرین کے ساتھ ساتھ رومانی افسانہ نگاروں کو بھی جنم دیا،جن میں اولیت کا سہرا سجاد حیدر یلدرم  کے سر جاتا ہے۔سجاد حیدر یلدرم رومانی افسانہ کے بانی قرار دیے جاتے ہیں۔انھوں نے پریم چند کی حقیقت نگاری کے برعکس رومانوی اسکول قائم کیا،جس کی پیروی ان کے معاصرین میں نیاز فتح پوری،حجاب امتیاز علی،مجنوں گورکھپوری، ل احمد،سلطان حیدر جوش وغیرہ نے کی۔

سجاد حیدر نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں افسانے کی شروعات کی۔ان کے متعدد افسانوی مجموعے سامنے آچکے ہیں جن میں رومانوی رنگ نمایاں ہے۔مرد و عورت کے فطری وجود، حسن وعشق،جنسی کیفیات،تخیل کی آمیزش ان کے افسانوں کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ خیالستان 1911 میں شائع ہوا ہے۔اس مجموعے میں شامل پہلا افسانہ ’خارستان و گلستان‘ میں عورت و مرد کے تئیں فطری میلان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افسانے میں جنسی جبریت کو پیش کر کے اس بات کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ مرد وزن ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل ہیں۔دونوں کو ایک دوسرے سے الگ بھی رکھا جائے تب بھی جنسی الجھنیں ایک دوسرے کو ملنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یلدرم نے افسانے میں جنسی رشتے کو رومانوی اسلوب میں پیش کیا ہے۔ افسانہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلے حصے میں نسرین نوش کو موضوع بنایا گیا ہے۔ نسرین نوش کو ماں نے جنت جیسے جزیرے میں مردوں سے کوسوں دور رکھا ہے لیکن عنفوان شباب میںآتے آتے اسے اس جنت نماجزیرے میں ایک کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔دراصل وہ کمی ایک مرد کی ہے۔وہ اپنی زندگی میں تغیر چاہتی ہے۔افسانے کا دوسرا حصہ خارستان ہے۔جہاں خارا رہتا ہے۔ خارا بھی نسرین کی طرح زندگی جی رہا تھا۔ اس کی زندگی میں بھی کوئی عورت نہیں تھی۔خارا کو اپنی بنجر زندگی میں جس کمی کااحساس ہورہا تھاوہ عورت تھی۔عورت کا تصور خارا کے یہاں سجاد حیدر کے قلم سے ملاحظہ کیجیے:

’’عورت عورت ! ایک بیل ہے جو خشک درخت کے گرد لپٹ کر اسے تازگی، اُسے زینت بخش دیتی ہے۔ وہ ایک دھونی ہے کہ محبت کی لپٹ سے مرد کو گھیر لیتی ہے۔ بغیر عورت کے مرد سخت دل ہوجاتا ہے، اکھل کھرابن جاتا ہے، یہ عورت کی شفقت و نوازش، یہ اُس کی مسکراہٹ کا ہی اثر ہے کہ مردوں کا سینہ عالی اور رفیق حیات سے منور ہوجاتا ہے۔‘‘ ( افسانہ  ’خارستان و گلستان‘ ص 66 (

افسانے میں ایک دلچسپ بات اس کے عنوان کے حوالے سے دیکھی جاسکتی ہے۔ افسانے کا عنوان ’خارستان و گلستان‘ ہے جو یلدرم کے فن کی تابناکی کا مظہرہے۔ خارستان جہاں خارا (مرد)رہتا ہے۔خارکے معنی کانٹا کے ہیں جو پھول کے ساتھ ابھرتا ہے۔گلستان جہاں نسرین (عورت)رہتی ہے،جس کے معنی پھول کے ہیں۔کانٹا پھول کو تحفظ فراہم کرتا ہے،جس طرح کانٹا اور پھول ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں اسی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ افسانے میں یلدرم نے مرد و عورت کے ایک ہونے کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔افسانے کا تیسرا حصہ ’شیرازہ‘ ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جہاں خارا اور نسرین ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔تب جاکے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہوجاتے ہیں اور جنسی ملاپ کے بعد نسرین کے ہونٹوں پر پھول کھل جاتے ہیں جو خوشی و مسرت کی علامت ہے۔اس ملاپ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو اس فطری حق سے جتنادور رکھ جائے وہ اتنا ہی قریب جانے کی سعی کرتا ہے۔اس کی منظر کشی افسانے میں یوں کی گئی ہے۔

’’ایک گرد باد آہنگ ورنگ،ایک زمزمہ جوش و خروش نے کل جزیرے کو گھر لیا،اس وقت دونوں (خارا اور نسرین)مدہوش اور بے خبر پڑے ہوئے تھے،خارا کو ایک ایسی خوشی حاصل ہورہی تھی جو اس نے تمام عمر اب تک محسوس نہیں کی تھی اور نشے کی حالت میں اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل رہی تھیں۔آغوش کھلی ہوئی تھی،سینہ سانس کی وجہ سے ابھر رہا تھا اور دل ایک ننھی سی چڑیا کی اڑان کی طرح پھڑ پھڑا رہا تھا۔‘‘ 

)سجاد حیدر یلدرم، مجموعہ’خیالستان ‘، ص60(

خارستان و گلستان یلدرم کا شہکارافسانہ ہے۔ افسانے میں داستانوی رنگ چھایا ہوا ہے۔افسانے میں مافوق الفطرت عناصر،عیش و عشرت،حسن و محبت،عشق و عاشقی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی و جنسی کشمکش جابجا نظر آتی ہے۔ اردو افسانے میں جب بھی جنس کی بات آجاتی ہے تو زبان پر بے ساختہ سعادت حسن منٹو  اور عصمت چغتائی کا نام آجاتا ہے۔اس حوالے سے دونوں کو بدنامی بھی سہنی پڑی۔ جنسی موضوع کے حوالے سے بات کیجیے تو ان دونوں سے پہلے ہی اس موضوع کی شروعات ہوچکی تھی۔ آج بھی لوگ اس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ جنسی موضوعات سب سے پہلے منٹو،عصمت کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے البتہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کے یہاں یہ موضوع غالب رہا ہے۔ ’’خارستان و گلستان ‘‘ کو ڈاکٹر سلیم اختر نے اردو کا پہلا جنسی افسانہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے وہ یوں لکھتے ہیں :

’’اردو افسانہ میں جنس کو ایک اہم موضوع کی حیثیت سے تسلیم کرانے کی بدنامی منٹو،عصمت اور دیگر ترقی پسند افسانہ نگاروں کے مقدر میں آئی۔یوں جنسی افسانہ کے مخالفین اس حقیقت سے بے خبر رہے کہ اردو افسانہ نگاری کے ابتدائی دور کا ایک بہت ہی اہم افسانہ جنس کے موضوع پر تھا گو اسلوب کی بنا پر ’خارستان و گلستان‘ اردو افسانہ میں جنس کی روایت کے فروغ کا باعث نہ بن سکا لیکن پھر بھی اسے اردو کا پہلا جنسی افسانہ قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ اعزاز کم نہیں۔‘‘ 

)ڈاکٹر سلیم اختر،افسانہ حقیقت سے علامت تک،اردو بازار لاہور، ص 34(

سجاد حیدر کی رومانوی تحریک کے نقش قدم پر جو افسانہ نگار اپنا نقش چھوڑ گئے ان میں نیاز فتح پوری کا نام اہم ہے۔ انھوں نے افسانوں میں رومانوی طرز فکر کو اپنایا۔ ان کے یہاں رومانی اور تاثراتی انداز کے افسانے ملتے ہیں۔ان کے افسانوں کا غالب موضوع عورت ہے۔ عورتوں کے حسن کا تذکرہ،عورتوں کی نفسیات ان کے افسانوں کا خاصہ ہے۔بنیادی طور پر وہ رومان پرست اورجمال پسند انسان تھے۔انھوں نے مقصدیت سے زیادہ تخیلات پر زور دیا۔ان کی تخیلاتی دنیا اور رنگین مزاجی کے بارے میں مجنوں گورکھپوری یوں رقمطراز ہیں

’’ نیاز کے افسانے اسی ٹھوس اور سنگین عالم ِ آب و گل سے وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ جب حسن و عشق کے بیان پر آتے ہیں تو ہم کو ہوا اور بادل میں نہیں لے جاتے بلکہ جسم کی تمام چُھپی ہوئی رنگینیوں اور کیفیتوں سے لذت آشنا کرتے ہیں۔‘‘

)احمد صدیق مجنوں، پروفیسر، ’نکات مجنوں‘ کتابستان الہ آباد، 1975،  ص316(

افسانہ ’ایک شاعر کا انجام‘میں دو مرکزی کردار ہیں جو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں۔دونوں کا انجام ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن کچھ معنوں میں یکساں ہے۔ایک کا انجام پاگل پن اور دوسرے کے خودکشی ہوتا ہے۔افسانہ ’شہاب کی سرگزشت ‘رومانوی اسلوب کی بہترین مثال ہے۔اس میں نیاز نے ایسے نوجوان کو کردار بنایا ہے جو اپنے دوست محمود کو عورت کی محبت سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔افسانے میں تین اہم کردار ہیں شہاب،محموداوراختر۔محمود اختر سے عشق کرتا ہے،شہاب اسے عورت اور عشق و عاشقی سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔شہاب خود بھی ایک عورت کے عشق سے دور رہ کر ایک بیوہ سے شادی کرتا ہے۔وہ محبت کو جذبہ شہوانی قرار دیتا ہے۔افسانے میں رومانی فضا بدرجہ اتم موجود ہے۔

’’ شہاب میرے نزدیک محبت نام ہے ایک بے غرض انہماک کا ایک خود فراموش کیفیت کا جو پیدا ہو حسن کو دیکھ کر خواہ وہ حسن ظاہری ہو یا باطنی ـ‘ واضح ہو یا غیر واضح ‘زمین میں ہو یا آسمان میں رہا یہ امر کہ محبت کرنے والا محبوب سے مل جانا چاہتا ہے یا نہیں یہ خواہش فطری ہے یا غیر فطری،اس کے متعلق صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ شخص جس کی محبت اس بات پر مجبور کرے حقیقتاً محبت نہیں ہے بلکہ ایک جذبہ شہوانی ہے۔‘‘

)افسانہ ’شہاب کی سرگزشت ‘ ص 10(

رومانی افسانہ نگاروں کی فہرست میں ایک اہم نام حجاب امتیازعلی کا ہے۔ان کی والدہ عباسی بیگم بھی اپنے دور کی ممتاز افسانہ نگاروں میں شامل تھیں۔حجاب امتیاز کے افسانوں کا تانا بانا رومانیت سے شروع ہو کر رومانیت پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔حجاب نہ صرف افسانہ نگار تھیں بلکہ ایک ناول نگار، ڈراما نگار اور مضمون نگار کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں پہچانی جاتی ہیں۔انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کم سنی میںہی کیا تھا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ میری ناتمام محبت ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا،جس وقت ان کی عمرصرف 11 سال تھی۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’میری نا تمام محبت‘کے ہی نام سے 1932میں شائع ہو ا۔اسی مجموعے کی بدولت انھیں اردو افسانوی دنیا میں ایک منفرد پہچان ملی۔خورشید زہرا عابدی اس مجموعے میں شامل افسانہ ’میری ناتمام محبت ‘ کے حوالے سے لکھتی ہیں:

’’ میری ناتمام محبت ایک نابالغ ذہن،نا تجربہ کار لڑکی کی لکھی ہوئی ایسی کہانی ہے جس کی ساخت میں کئی جگہ خود بت تراشی،نوعمری اور جذبات کی ولولہ انگیز ناہمواری جھلکتی ہے یا یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس بت کی آنکھیں بہت زیادہ نشیلی ہیں اور ابرو بے حد خمدار ہوگئے ہیں۔‘‘

)بحوالہ خورشید زہرہ عابدی، ترقی پسند افسانے میں عورت کا تصور، اردو گھر انجمن ترقی اردو ہند، دہلی،1987، ص 56(

اس کے علاوہ کئی افسانے ہیں جن میں رومانیت کا موضوع غالب نظر آتا ہے جن میں’ لاش‘، ’ظالم محبت‘، ’صنوبر کے سائے‘  اور’ دوسرے رومانی افسانے‘(مجموعہ) وغیرہ شامل ہیں۔

افسانہ ’صنوبر کے سائے‘ ان کا ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں انھوں نے رومانیت کے ذریعے اس وقت کے لوگوں میں پائی جانے والی توہم پرستی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اس افسانے میں راوی اپنی سہیلی کے ساتھ ’نہر روحناک‘کی سیر کو جاتی ہے، جہاں ان کی ملاقات ایک سو سال کے بوڑھے ملاح سے ہوتی ہے جو نہر روحناک میں ستر سال سے کشتی چلا رہا تھا۔ جب دونوں سہلیاں سیر کو نکلتی ہیں تو راوی جس کا نام’ روحی‘ ہے وہ اس سو سال کے بوڑھے سے سوال پوچھتی ہے، یوں ذیل کا مکالمہ وجود میں آتا ہے :

’’تمھارا مکان کہاں ہے ؟‘‘

’’مکان کہیں نہیں خاتون...‘‘ صنو بر کے ان سایوں تلے پڑ ارہتا ہوں...‘‘

’’مجھے محسوس ہوا۔یہ کہتے ہوئے اس کے ضعیف سینے نے ایک آہ بھری ہے۔

’’صنوبر کے سایوں تلے ‘‘

میں نے حیران ہو کر کہا۔

’’بے پناہ گرمی اور لرزادینے والی سردی،تمہیں زندگی سے بے زار نہیں کرتی۔

اس کا تمھارے پاس کیا علاج ہے؟‘‘

’’علاج ‘‘؟

اس نے ایک پھیکی ہنسی کے ساتھ کہا  ’’ میرے پاس پرانی یادیں ہیں۔ جس کے پاس کوئی یاد ہو، اس پر کسی موسم کا اثر نہیں ہوتا ‘‘ میری دلچسپی یکلخت بڑھ گئی۔’’تمہا را ماضی تو افسانوں سے لبریز معلوم ہوتا ہے ‘‘

)افسانہ ’صنوبر کا سایہ )

اس افسانے میں حجاب نے رومانیت کے عناصر کا بھرپور طریقے پر استعمال کیا ہے۔انھوں نے فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کر کے جہاں ایک طرف بوڑھے کے ماضی کی کرب ناکی کو بیان کیا ہے وہیں دوسری طرف اس کی محبت بھری زندگی کی داستان پراثر اُسلوب میں پیش کی ہے۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے بوڑھے کی داستان کو اسی کی زبانی سناکر کہانی کو اور بھی دلچسپ اور پر تاثیر بنایا ہے۔ستر سال قبل کی اس کی زندگی خوبصورت اور رنگ برنگی تھی۔اس وقت اس نے صنوبر کے سائے تلے ایک کم سن لڑکی کو دیکھ کر اپنا دل دیا تھا۔ محبت سے لطف اندوز ہو کر ان کی شادی ہوجاتی ہے،شادی کے کچھ مہینے بہت سنہرے گزرتے ہیں لیکن اس وقت کے لوگ توہم پرستی کے مرض میں گرفتار تھے۔بوڑھے  کے یہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ایک روز اس کی بیوی نے اس سے کہا تھا کہ میں نے ہولناک خواب دیکھا کہ تقدیر کا فرشتہ پہاڑوں کی بلندیوں پر اپنے پر ہلا ہلا کر اس سے کہہ رہا تھا کہ اگر تم نے رات تک اپنے بالوں میں ایک کاسنی رنگ کا گلاب نہ سنوارا تو تمہارا گھر اجڑ جائے گا۔

توہم پرستی کا شکار مانجھی بیوی کا خواب سن کر سہم گیا اوراس نے طرح طرح کی دشواریاں اُٹھا کربیوی کو کاسنی رنگ کا گلاب لا کر دیا۔ اسی شام جب وہ گھر لوٹ رہا تھا تو اس کی ملاقات حمری نام کے ایک دوست سے ہوئی۔ بوڑھے نے اس کے عبا کے کاج پر کاسنی گلاب دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا ’’حمری یہ کاسنی گلاب تمھیں کہا ں سے ملا ‘‘؟

حمری نے جواب میں کہا میری محبوبہ نے مجھے تحفے میں دیا ہے۔

اس طرح مانجھی غلط فہمی کا شکار ہوگیا اور اس نے غصے میں اپنی بیوی کو قتل کر کے اسے صنوبر کے سائے تلے دفنا دیا۔واپسی پر مانجھی کی ملاقات حمری سے پھر ہوجاتی ہے اور وہ اسے مطلع کرتا ہے کہ اب تمہاری محبوبہ نہیں رہی۔ حمری غصے میں چلا کر کہتا ہے

’’کوتا ہ اندیش اور جلد باز !تو بد بخت ہے ! وہ گلاب تو میں نے سڑک پر سے اُٹھایا تھا۔میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ گلاب کا پھول دیکھ کر اُٹھا لیا۔شاید تمہارے ہی دریچے سے گرا پڑا ہو۔‘‘

توہم پرست زمانے کے بوڑھے نے بیوی کے خواب میں دیکھے فرشتے کا کہنا سچ ثابت کردیا۔ افسانے کے اختتام میں بوڑھے کی افسوس ناکی اور بے بسی کو دکھا یا گیا ہے۔افسانے میں آج کا بوڑھا کئی سال پہلے توہم پرستی کا شکار تھا لیکن بوڑھا اب اس زمانے میں جی رہا ہے جہاں توہم پرستی کو عیب جانا جاتا ہے۔ معاشرہ باشعور و بیدار ہورہا ہے اور اسی بیداری کی طرف افسانہ نگا ر نے اپنے قارئین کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

احمد صدیق جو ادبی دنیا میں مجنوں گورکھپوری کے نام سے جانے جاتے ہیں رومانوی افسانے کا ایک اہم نام ہیں۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کے کہنے پر ارد و افسانے کو باضابطہ طور پر اپنایا ہے۔ان کے افسانوں کے کردار ہمارے ہی معاشرے کے جیتے جاگتے انسان ہیں یہ کردار بے غرض محبت کرنے کے قائل ہیں۔محبت مجنوں کے یہاں مختلف انداز میں نظر آتی ہے۔ان کے افسانوی مجموعے جن میں ’خواب و خیال،سمن پوش وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔افسانوں میں لطافت،شعریت،ادبی چاشنی کے ساتھ ساتھ فنی محاسن بدرجہ اتم موجود ہیں۔ان کے یہاں محبت اور زندگی الگ الگ نہیں بلکہ دونوںکا تصور ایک ہے۔افسانہ ’سائرہ‘ جس کا انجام محبت کی کامیابی پر ہوتا ہے، سائرہ اور مشتاق ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ مشتاق کے والد کو یہ رشتہ پسند نہیں ہے اس لیے وہ مشتاق کو ولایت بھیج دیتا ہے اور سائرہ مجبور ہو کر ایک غریب لڑکے نعیم سے شادی کر لیتی ہے۔ان کے یہاں ایک بیٹی بھی پیدا ہوتی ہے۔کچھ عرصے کے بعد نعیم کی وفات ہوجاتی ہے اور سائرہ کی جوانی پر بڑھاپا رقص کرنے لگتا ہے۔مشتاق ولایت سے تعلیم مکمل کر کے آتا ہے اور سائرہ سے اب بھی شادی کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

 ’’سائرہ اگر چہ غم سے نڈھال ہوچکی تھی اور جوانی ہی میں بڑھاپے کے آثار نمایاں ہوگئے تھے۔لیکن یہ معلوم ہونے کے بعد مشتاق اب بھی اس سے شادی کرے گا وہ اس قدر خوش ہوگئی کہ اسے شادیِ مرگ ہوگئی۔‘‘

اس اقتباس سے مترشح ہوجاتا ہے کہ مجنوں کے یہاں محبت محض رومان پرستی  اور جنسی میلان سے لبریز نہیں بلکہ ان کے یہاں زندگی کی حقیقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک گہرا تصور ہے۔مجنوں گورکھپوری کی طرح ل۔ احمد کے یہاں بھی  نیاز فتح پوری کا اثر رہا ہے۔ان کے رومانوی افسانوں میں  اپنی شکست کی آواز،عورت کا لمحہ حیات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔سلطان حیدر جوش کا افسانہ ’نرگس خود پرست‘اعجاز محبت بھی رومانوی افسانوں کی صف میں شامل ہیں۔

اس طرح سے رومانوی افسانہ نگاروں نے سفر طویل کرکے افسانے کے ارتقا میں ایک نئی جلا بخشی۔بعد میں افسانہ رومانیت سے گزر کر حقیقت کی اور گامزن ہونے لگا۔حقیقت پسند افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام کرشن چندر کا ہے جنھوں نے حقیقت کے ساتھ ساتھ رومانیت کو بھی اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’طلسم خیال‘کے نام سے شائع ہوا۔اس مجموعے میں رومانیت کا زور صاف دکھائی دے رہا ہے۔ افسانہ ’جہلم میں ناؤ پر‘ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس میں عورت کی خوبصورتی اور حسن نمایاں طور پر دکھایا گیا ہے۔ افسانہ بیانیہ تکنیک میں لکھا گیا ہے جس میں راوی خوبصورتی اور بد صورتی کا تقابل کرتا ہے۔راوی خوبصورتی کا متلاشی ہے۔اسے عورت کا وہ حسن بے حد پسند ہے جو اسے بار ہا اپنی اور کھینچ لیتا ہے ـ

’’ میرے سامنے کی نشست پر چار عورتیں بیٹھی تھیں، دو بالکل بوڑھی اور دو ادھیڑ عمر کی تھیں مگر جو عورت میرے بالکل مقابل میں بیٹھی تھی اور جو اپنی گودمیں ایک چھوٹے سے بچے کو لیے تھی وہ باقی عورتوں سے کم عمر اور زیادہ بدصورت تھی۔ وہ کبھی بھی گھونگھٹ کی آڑ سے مجھے دیکھ لیتی تھی۔اس دنیا میں ہر کوئی ایک حسین کی تلاش میں ہے یہ تو میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کی آنکھوں سے جچ گیا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بھی ایک حسین کی تلاش میں تھا...‘‘

مذکورہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کرشن چندر کس حد تک حسن کے پرستا ر تھے۔پورے افسانے میں رومانی عناصرچھائے ہوئے ہیں۔ان کی افسانوی دنیا کو Romantic Realisticکہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ انھوں نے حقیقت نگاری کا ساتھ بھی دیا ہے اور رومانیت کو بھی ہاتھ سے جانے کا موقع نہیں دیا ہے۔ایک جگہ اس بات کا اعتراف یوں کرتے ہیں

’’میں حقیقت پسندی کو اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ تھوڑا رومان پسند بھی رہا۔ خوبصورتی اور شاعری کا دامن مکمل طور پر کبھی نہ چھوڑ سکا۔معاشیات کو میں محض انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا وسیلہ نہیں سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں معاشیات کوخوبصورت بھی ہونا چاہیے۔‘‘ 

(کرشن چندر،  دیباچہ بند گلی کی منزل، مشمولہ عصری ادب، دہلی اپریل 1990)

کرشن چندر نے رومانیت سے ہوتے ہوئے اپنا سفرحقیقت نگاری کی طرف منتقل کیا لیکن جو شعریت اور رومانوی رنگ تھا وہ اسے برقرار رکھنا پڑا۔اسی وجہ سے ان کی افسانہ نگاری رومان اور حقیقت کے بیچ کا سنگم ہے جسے بعد میں رومانوی حقیقت نگاری کا نام دیا گیا۔ اس طرح سے یہ اسلوب ان کی انفرادیت کا سبب بنا۔ ابتدائی افسانوں میں تخیل کی آمیزش کا غلبہ زیادہ تھا لیکن بہت جلد انھوں نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھا نے میں اہم رول ادا کیا۔کرشن چندر نے اسلوب کے حوالے سے جو بنیادی تجربہ کیا ہے وہ ان کا شعری اسلوب ہے۔ انھوں نے شاعری کی زبان کو اردو فکشن میں استعمال کر کے یہ  نیاتجربہ بھی کیا ہے۔

 رومانی افسانہ یلدرم سے ہوتے ہوئے کرشن چند تک معنی و مفہوم کی وسعتوں سے ہمکنار ہوا، اور بعد میں رومانوی حقیقت پسند افسانہ نگاروں نے معاشرتی المناکیوں، بے چینی اور اضطراب وغیرہ کو افسانے کا موضوع قرار دیا۔البتہ کہیں کہیں انھیں بھی جذبات و احساسات، تخیل آفرینی، حسن پرستی اور تلاش حسن کا عمل، روح کی آزادی اور فطرت کی طرف مراجعت کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے انسانی زندگی کے ٹھوس حقائق کو بیان کر نے کے ساتھ ساتھ اس میں رومانی رنگ بھی چڑھایا ہے تاکہ قاری اکتا نہ جائے اوراسے مسرت و انبساط حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سماج میں پنپنے والی برائیوں پر بھی نظر پڑسکے۔

 

Orussa Farooq

Lane No.10,  House No.130

Natipora Srinagar Kashmir - 190015 (J&K)

Cell.: 8082706051

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں