7/10/22

گئودان اور اڑیہ ناول چھو مانڑو آٹھو گونٹھو کا تقابلی تجزیہ: صلاح الدین شاہ

 


پریم چنداردو فکشن کی دنیا میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔اصل نام دھنپت رائے،قلمی نام نواب رائے پھر بمبوق اور آخر میں پریم چند کے نام سے ادب میں جانے جاتے ہیں۔1880میں پیدا ہوئے اور 1936 میں دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے یعنی قدرت کی طرف سے انھیں صرف 56 سال کی زندگی ملی۔اس میں سے انھوں نے اپنی عمر کے36سال چرا کر ادبی دنیا کو فراہم کیے۔ انھوں نے اردو ادب کو افسانہ،ناول،ڈرامااور خطوط جیسی اہم اصناف سے مالامال کیا۔پریم چند کی ادبی زندگی کا آغاز 1901سے ہوتا ہے۔ انھوں نے پہلے اردو اور بعد میں ہندی میں طبع آزمائی کی۔ وہ بنیادی طور پر اردو کے ادیب تھے۔ ان کی تمام کتابیں ایک مدت تک راست طور پر اردو میں ہی شائع ہوئیں۔ البتہ ان کے ترجمے ہندی میں شائع ہوتے رہے۔ اردو ادب میں ان کی پہچان فکشن نگار کی حیثیت سے ہے۔ انھوں نے کل تیرہ ناول لکھے جن میں سے پہلا اور آخری ناول نامکمل ہے۔ ان کے 14 افسانوی مجموعے ہیں جن میں ڈھائی سو سے زائد افسانے موجود ہیں۔ پریم چند نے اردو میں دو طبع زاد ڈرامے ’کربلا‘ اور’روحانی شادی‘ کے نام سے تخلیق کیے۔

اسی طرح فقیر موہن اڑیہ ادب میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ذکرکے بغیر اڑیہ ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔فقیر موہن کی ولادت ریاستِ اڈیشہ، ضلع بالیشورکے ایک گائوںملی کاس پور میں 13جنوری 1843کو ہوئی۔جب ان کی عمر17مہینے کی تھی تو والد اور جب ڈھائی سال کے تھے تووالدہ کی موت ہوگئی۔ ان کی پرورش ان کی دادی کوچیڑا دیوی کی سرپرستی میں ہوئی۔ اصل نام برجو موہن تھا۔ابتدائی زمانے میںکئی سال تک بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کی دادی نے ایک درگاہ میں منت مانگی تھی کہ اگر برجوموہن کی طبیعت اچھی ہو جائے تو اسے آپ کا غلام بنا دوں گی۔ برجو موہن کے صحت مند ہونے کے بعدیہ تو نہ کر پائیں البتہ محرم کے مہینے  میںبرجوموہن فقیر بن کرگائوں گائوںبھیک مانگتے اور ان پیسوں کی شیرینی خرید کے بانٹ دیتے۔مناسبت سے انھوں نے اپنا نام برجو موہن سے فقیر موہن اختیار کیا۔ ابتدائی تعلیم 9 سال کی عمر سے شروع ہوئی۔اس وقت نہ کوئی اسکول تھااور نہ ہی اڑیہ ادب میں کوئی کتاب رائج تھی۔گھر کے معاشی حالات خراب ہو نے کی وجہ سے اعلا تعلیم حاصل نہ کر پائے اور انھیں صرف ڈھائی سال تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔

فقیر موہن کی ادبی زندگی کا آغاز1868سے ہوتا ہے۔ انھوں نے اڑیہ ادب میں افسانہ،ناول،نظم اور ترجمہ وغیرہ اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ان کے دو افسانوی مجموعے گوڑپو سوڑپو جلد اول(چند کہانیاں،جلد اول) اور گوڑپو سوڑپو جلددوم(چند کہانیاں،جلددوم )ہیں جن میں کل 20افسانے شامل ہیں۔انھوں نے چار ناول اور کئی نظم تخلیق کیں۔اس کے علاوہ رامائن،مہابھارت اورسری مد بھگوت گیتاکا اڑیہ زبان میں ترجمہ کیا۔

گئودان پریم چند کا آخری،مکمل اور شاہکار ناول ہے۔ اس ناول کوانھوں نے 1932 میں لکھنا شروع کیا 1935 میں مکمل ہو کر 1936 میں شائع ہوا۔ یہ ناول پریم چند کی زندگی اور ان کے فن کا نچوڑ ہے۔ ہندی  میں گودان اور اردو میں اس کا نام’ گئودان‘ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس کے ذکر کے بغیر اردو ناول کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہ ناول بیسویں صدی کی تاریخ، تہذیب، سماج اور اس دور کی عکاسی کرتاہے۔ پریم چند وہ پہلے ناول نگار ہیں جنھوں نے عوامی زندگی کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ اردو ناول میں اب تک ہندستانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی مرقع کشی کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ ترناول کا تعلق شہری زندگی سے رہا۔ اگرچہ پریم چند کے ناولوں میں دیہاتی زندگی کے عناصر موجود ہیں لیکن اس پر اتنی پختگی نہیں ملتی ہے جتنی گئودان میں ہے۔ اس ناول میں باقاعدہ دیہاتی زندگی اور اس کے مسائل، سیاسی حالات اور اقتصادی مسائل کو پیش کیا گیاہے۔ اس ناول کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عوام کو مرکزی مقام دیا گیا ہے۔     بقول احتشام حسین:

"گئودان اردو ناول کی تاریخ میں ایک ایسی منزل ہے جہاں صرف پریم چند پہنچے اور وہ بھی صرف ایک بار۔ یہ ناول ان کے فنی ارتقا کا نقطۂ عروج ہے۔ شاید ان کا فن ابھی اور آگے بڑھتا لیکن موت نے راہ کھوٹی کردی کیوں کہ جس سال گئودان پہلی دفعہ شائع ہوا اسی سال ان کا انتقال ہوگیا۔"

 (افکار و مسائل،ص 117)

اسی طرح فقیر موہن نے اڑیہ کا پہلا مکمل ناول لکھا جو فن کی کسوٹی پر کھرا اُترتا ہے۔انھوں نے چار ناول لکھے جن میں سے پہلا ناول ان کا شاہکار نکلا۔ یہ ناول رسالہ ’’اتکولو ساہتیہ‘‘ میں اکتوبر1897 سے 1899 تک کل28 قسطوں میںشائع ہوا۔ 1902 میں یہ ناول کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اس ناول کو فقیر موہن اپنے نام کے بجائے دھورجوٹی کے نام سے لکھتے تھے۔جب یہ ناول قسط وار شائع ہوتا تھا اس کا کوئی عنوان نہ تھا لیکن جب کتابی شکل میں شائع ہوا تواس کا  عنوان قائم کیا گیا۔مثلاً،منگوراج کا خاندان، چمپا، زمیندار شیخ دلدار میاں،گاؤں کا حال چال، بھو گیا اور ساریا،گوبرا جینا وغیرہ۔ یہ ناول اڈیشہ کے جاگیردارانہ نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول کی عظمت اور شہرت اس وقت ہوئی جب اس کا ترجمہ مختلف موقع پر کئی بار انگریزی زبان میں ہوا۔

اس ناول کے کل چار تراجم ملتے ہیں:

1.       Subdle Under the Cloven Hoof., C.V.N.Dash 1967

2.       A Plot of Land, D.M.Senapati & AM Senapati 1967

3.       A Plot of Land, N. Mishra, 1969 

4.       Six Acres and a third University of California Press 2005

فقیر موہن کی تخلیق مقصدیت کی حامِل ہے۔ سماج کو برائیوں سے پاک کرنا ان کا مقصد تھا۔ یہ ناول کسان اور سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان کشمکش کو پیش کرتا ہے۔ بقول کرشن چندر پردھان:

ــ"چھومانٹرو آٹھو گونٹھو" اس زمانے کا اڈیشہ اور بعد کے زمانے کی درمیانی کڑی ہے۔ فقیر موہن گہری نظر رکھنے والے انسان تھے۔ وہ انسان کی بے بسی اور مفلسی کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ وہ پاپ سے نفرت کرتے تھے پاپی سے نہیں۔ پاپی کو معاف کرنے کے لیے دل میں کوئی کھوٹ نہیں تھا۔ انسان کے کردار کی اچھی پکڑ تھی۔ زمانے کے مسائل پر آواز بلند کرنا ان کا ہنر تھا۔ اس وجہ سے ان کا پہلا ناول اس زمانے اور اس زمانے کے لوگوں کا امتحان گاہ ہے۔"  (مقدمہ چھومانٹرو آٹھو گھونٹھو، ص6)

گئودان میں ہندستانی کسان اور دیہاتیوں کی زندگی کا المیہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مختلف و متنوع مسائل کی طرف اشارے کیے گئے ہیں جس کا سلسلہ دیہات سے لے کر شہر تک پھیلا ہوا ہے۔ پریم چند گئودان میں جس دور کو پیش کرتے ہیں وہ دور ہندستانی دیہاتوں کا بدترین دور تھا۔ ملک کے جاگیردارانہ نظام کے دم توڑنے کے بعد نئے زمیندارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام نے جگہ لے لی تھی۔ اس بدلے ہوئے سماجی اور معاشی ڈھانچے میں گاؤں کے کسان کی حالت روز بروز بدتر ہوتی جارہی تھی۔ کسان کی حالت ایسی تھی کہ زمیندار کو وقت پر مال گزاری چاہیے۔ سرکار کو وقت پر لگان چاہیے۔ کھانے کو دو مٹھی اناج چاہیے اور پہننے کے لیے کپڑا۔ پر ایک طرف آندھی طوفان فصل برباد کردیتی اورجو بچاکھچارہا اس پر زمیندار کی ملکیت رہتی۔

ایسے ہی نظام اور اسی طرح کے سماج کی نمائندگی ’چھو مانڑو آٹھو گونٹھو‘ بھی کرتاہے۔چوںکہ یہ ناول قسط وار شائع ہوتا رہا اس وجہ سے کسان کے مسائل کو اس میں وسیع پیرایے میں پیش نہیں کیا گیا ہے لیکن اس زمانے میں زمین کے بغیرایک مزدور کی کیا حالت ہو سکتی ہے ان مسائل کو بخوبی پیش کیا گیا ہے۔آج کے زمانے میں اگر کسی کی زمین چھین لی جائے تو وہ زندگی دوسرے طور سے جی سکتا ہے۔ مگر اس زمانے میں زمین کے بغیر جینا اس طرح تھا جیسے پانی کے بغیر مچھلی۔گئودان میں ہوری اپنے برسوں کے ارمان یعنی ایک گائے کے لیے کسان سے مزدور بن جاتا ہے۔’ چھومانٹرو آٹھو گونٹھو ‘ میں بھگیا اور ساریا ایک اولاد کی خواہش میں اپنی زمین سے ہاتھ دھو جاتے ہیں۔

گاؤں کی سماجی اور اقتصادی زندگی میں گائے کی اہمیت، نجی ملکیت کے سبب باہمی رقابتیں، جھگڑے، تفریق،  تباہی اور بربادی کو گئودان کے ذریعے اُجاگر کیا گیا ہے۔ ناول کا عنوان ہی گائے کی اہمیت کو ظاہر کردیتا ہے۔ عام طور پر گائے دودھ دیتی ہے جس سے گھر کے افراد پرورش پاتے ہیں اور اس کے بچھڑے کاشتکاری کا اہم ترین ذریعہ بنتے ہیں۔ اس فائدے کو پریم چند یوں ظاہر کرتے ہیں

"ابھی پہلا ہی بیانا ہے۔ پانچ سیر سے کم دودھ نہ دے گی۔ سیر بھر تو گوبر ہی کو چاہیے۔ روپا دودھ دیکھ کر کیسی للچاتی رہتی ہے۔ اب پیے جتنا چاہے۔ کبھی کبھی دو چار سیر مالکوں کو بھی دے آیا کروں گا۔" ( گئودان،ص 33)

مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی گائے کی موجودگی، آسودگی اور روحانی سکون بخشتی ہے۔ انھی خیالوں کے تحت دیہات کا ہر فرد گائے پالنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ یہ مذہبی عقیدہ بھی ہے۔ ہوری سوچتا ہے

’’گئو سے تو درواجے کی سوبھا ہے۔ سبیرے سبیرے گؤ کے درسن ہوجائیں تو کیا کہنا۔ نہ جانے کب یہ سادھ پوری ہوگی وہ سبھ دن کب آئے گا۔”

(گئودان،ص 8)

'چھو مانڑو آٹھو گونٹھو' میں بھوگیا اور ساریا کی کوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک گائے کو اولاد کی طرح پرورش کرتے ہیں۔جس کا نام نیتو ہے۔ جب منگوراج گائے کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے اور پھرگئو ماتا کو بیچ دیتا ہے۔اس موقع کو اس طرح پیش کیا گیا ہے:

"آوارہ بیلوں کو منگو راج حفاظت میںرکھتا ہے۔ کوئی کوئی گائے لاکر انعام لے جاتے ہیں۔ بیل چھوڑ کر گائے تین سو سے زیادہ ہیں۔ گئوماتاکو باہر گھومنے سے تکلیف ہوگی اس وجہ سے اپنی حفاظت میںرکھتے ہیں۔ جب زیادہ سے زیادہ ہوجاتے ہیں تو قصاب کو دینا پڑتا ہے۔"

 (چھو مانڑو آٹھو گونٹھو،ص29)

پریم چند نے گئودان میں عورتوں اور لڑکیوں کے مسائل، ان پر ظلم اور ان کی مجبوری کو نسوانی کرداروں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ اس ناول میں جہاں عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے کردار میں نمایاں کیا گیاہے وہیں سچائی، حقوق اور قومی آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہوا بھی دکھایا گیاہے۔ انھوں نے اس کی معاشی غلامی، سماجی پستی اور اس غیر انسانی رویے کے خلاف جو مرد اس پر روا رکھتا رہا ہے، اس کی مخالفت کی ہے۔ اس ناول میں عورت کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔ وہ صرف خاموش رہنے کی عادی نہیں بلکہ اپنی رائے اور حقوق کو پانے کی خواہش رکھتی ہے۔ اس کی رہنمائی مس مالتی کرتی ہے۔ ایک جگہ بولتی ہے:

"نہیں خود کو مٹانے سے کام نہیں چلے گا۔ عورت کو سماج کی فلاح کے لیے اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اسی طرح جیسے ان کسانوں کو اپنی حفاظت کے لیے اپنی اس فرشتہ خصلتی کو ترک کرنا پڑے گا۔" ( گئودان،ص 394)

اسی طرح میناکسی اپنے شوہر سے بدلہ لیتی ہے۔ وہیں گوبندی اپنے شوہر کے ظلم کو چپ چاپ سہتی ہے۔ شہری عورتوں کے علاوہ دیہاتی عورتوں کی نمائندگی دھنیا کرتی ہے۔ خود پر اور اپنے پریوار پر ہوئے ظلم کی مخالفت کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کئی مرتبہ ہوری سے پٹتی ہے۔پھر بھی وہ خاموش نہیں رہتی۔ اسی طرح روپا کی زندگی ایک وحشت ناک ہے۔ غریبی کی وجہ سے ادھیڑ عمر کے مرد کے ساتھ ساری زندگی کاٹنے پر مجبور ہے۔ سلیا داتا دین کے کھیت پر کام کرتی ہے۔ داتا دین اسے رکھیل بنالیتاہے۔ اس کو صرف کھانا اور کپڑا ملتا تھا۔ داتا دین محض جانوروں کا سا تعلق رکھتا تھا۔ جس میں انسانیت و شرافت کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ کسانوں اور مزدوروں کی طرح نسوانی طبقہ بھی صدیوں سے ظلم و زیادتی کا شکار رہا ہے۔ پریم چند نے ہمیشہ مرد اور عورتوں کو ایک ترازو کے دو پلے کے روپ میں دیکھنا چاہا۔ اس وجہ سے عورتوں کے اوپر ہوئے ظلم کی انھوں نے مخالفت کی ہے۔

گئودان کی طرح فقیر موہن نے ’چھومانڑو آٹھو گونٹھو ‘میں صرف تین نسوانی کردار پیش کیے ہیں۔ تینوں کردار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ساریا کا کردار ان عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے جس کی گود اولاد سے محروم ہے اور اس وجہ سے اسے ہمیشہ طعنہ سننا پڑتا ہے۔ ساریا نے اس ظلم سے خود کو بچانے کے لیے حد پارکردی جس کے بعد اس کی زندگی تباہ ہوگئی۔ ساریاکا نہ کسی سے جھگڑا ہے نہ کسی سے شکایت وہ تو بس اپنی اولاد کی طرح گائے نیتو اور شوہر بھوگیا کے ساتھ خوش تھی۔ اس کی زندگی میں بس اسی کمی کا سب بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔دوسرا کردار سانتانڑی (بی بی صاحبہ)کا ہے جو صرف نام کو اب سانتانڑی ہے۔ اس کے متعلق فقیر موہن لکھتے ہیں:

"وہ دل میں اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ شوہر کی خدمت بیوی کا فرض ہے۔ اس خدمت سے خوشی ملتی ہے۔ صرف شوہر کی خدمت نہیں بلکہ انسان کی مدد کو بھی وہ خوشی کا باعث سمجھتی تھی… اس کے پاس صاف اور میلا سب برابر ہے۔ ان کو جوعزت دے وہ بھی اچھا جو نہ دے وہ بھی اچھا۔"  (چھومانڑوآٹھوگونٹھو،ص73 )

'چھومانڑو آٹھوگونٹھو 'میں سب سے اہم نسوانی کردار چمپاکا ہے۔ ناول کے شروع سے آخر تک وہ ان کرداروں کی نمائندگی کرتی ہے جو ہمیشہ اپنے فائدے کی سوچتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی حد تک جاسکتی ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں لکھے گئے ناولوں میں عورتوں پر ہمیشہ مرد کو ظلم کرتے دکھایا گیا ہے۔ لیکن فقیرموہن گائوں کی عورتوں کی فطرت سے بہت ہی قریب سے واقف نظر آتے ہیں۔ اس کردار سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ظلم آدمی آدمی پر کرتا ہے۔ جس طرح مظلوم عورت یا مرد ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح عورت یا مرد بھی ظالم ہوسکتے ہیں۔ اس کی نمائندہ چمپا ہے۔ کبھی وہ مشورہ دے کر بھوگیا اور ساریاکی زمین چھین لیتی ہے تو کبھی خالہ کا روپ بدل کر گھر جلادیتی ہے اور آخر میں جس کی نوکرانی رہی،جس کاہمیشہ نمک کھایا اس کو بھی لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

 پریم چند اردو ادب میں ایک اعلیٰ پائے کے فکشن نگار ہیں۔ ان کی تخلیق میں گئودان  معرکے کی تخلیق ہے۔ یہ ناول پریم چند کی پوری عمر کی مہارت، مشاہدات، تجربات اور غوروفکر کا نچوڑ ہے۔ اسی طرح ’چھومانڑو آٹھوگونٹھو‘ فقیر موہن کے نئے تجربات، مشاہدات اور غوروفکر کی ابتدائی کوشش ہے۔’ چھومانڑو آٹھوگونٹھو ‘بیسویں صدی کے ابتدائی دور کی عکاسی کرتا ہے وہیں گئودان اس کے چند سال بعد کے سماج کا مرقع ہے۔ ان چند برسوں کے وقفے میں جو ردوبدل ہوا ہے ان تمام مسائل کو پریم چند نے گئودان میں بخوبی بیان کردیا ہے۔ جہاں گئودان ایک طویل ناول کی حیثیت رکھتا ہے وہیںچھومانڑو آٹھو گونٹھو صرف 126 صفحات پر مشتمل ہے۔

مضمون میں پیش کردہ دونوں ناول دو منفرد زبان پر منحصر ہیں۔جن میں کئی چیزوںمیں مماثلت پائی جاتی ہے وہیں چند چیزیں منفرد بھی ہیں۔ان ناولوں میں انداز بیان منفرد ہے۔گئودان ایک مکمل کتاب کی شکل میں منظر عام پر آیا جبکہ چھو مانڑو آٹھو گونٹھو رسالہ اتکولو ساہتیہ میں قسط وار شائع ہوتا رہا اور بعد میں اس کو کتابی شکل دی گئی۔ گئودان ایک ضخیم ناول ہے اور چھومانڑو آٹھو گونٹھو مختصر ناول ہے۔دونوں ناول اپنی ریاستوں کے اس زمانے کا احاطہ کرتے ہیں جہاں کسان اور مزدور جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم کے عادی بن چکے تھے۔ان دونوں ناولوں کا موضوع مشترک ہے۔ دونوں ناولوں میں  بیان کیے گئے کئی مسائل مماثلت رکھتے ہیں۔ جیسے زمین کا مسئلہ، گائے کا مسئلہ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام وغیرہ، لیکن ان مسائل کو پیش کرنے اور ان سے نجات یا ان کا حل پیش کرنے کا انداز جداگانہ ہے۔ گئودان میں کہانی کے ذریعے کردار کو پیش کیا گیا ہے جب کہ چھومانڑو آٹھو گونٹھو میں کردار کے ذریعے کہانی کا ارتقا ہوتاہے۔ گئودان کا خاتمہ المیے پر ہوتا ہے اور چھومانڑو آٹھوگونٹھو میںبھی ناول کا خاتمہ المیہ ہے لیکن اس میں برائی کا خاتمہ دکھایا گیا ہے یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی لیکن گئودان کا نتیجہ اس کے برعکس ہے۔ وہ کسان کو مجبور دکھاتے ہیں۔ یہاں ایک بات صاف کھٹکتی ہے۔ چھومانڑو آٹھو گونٹھو بیسویں صدی کی ابتدا میں لکھا گیا ناول ہے۔ اس میں بھی شہری دیہاتی زندگی دونوں کا بیان ہے جب منگوراج ساریا کا قتل کردیتا ہے اورگاؤں کا پہرہ دار رام چندر داروغہ کو اطلاع کرتا ہے۔ منگوراج کا مقدمہ کورٹ میں چلتا ہے اور نتیجہ بھی سنایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس گئودان 34سال بعد منظرعام پر آیا۔ اس میں بھی شہری اور دیہاتی زندگی دونوں شامل ہیں۔ بلکہ شہری زندگی ایک بڑے پیمانے پر سامنے آتی ہے۔ ہیرا کے زہر دینے سے گائے کی موت پر داروغہ بھی آتا ہے لیکن کسانوں پر اتنے ظلم و زیادتی کے باوجود کہیں بھی تھانے میں کوئی شکایت نہیں ہے۔ یہاں قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ فقیر موہن 34 سال قبل جس تجربے سے گزر چکے تھے 34سال بعد پریم چند کی نظر وہاں تک نہیں پہنچ پائی۔

Salauddin Saha

A-66, Christian Colony,

Opp Moris Nagar Police Satation

Delhi - 110007

Mob.: 7396689934

Email.: salluodisha@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں