7/10/22

گورو روی داس کے افکار ونظریات کی عصری معنویت: مول راج

دورِ قدیم سے ہی سر زمینِ ہند ایسے صوفی سنتوں کا مسکن رہی ہے جو انسانی تعصبات و تفریقات کو مٹانے کی غرض سے وقتاً فوقتاً دُنیا میں آتے رہے۔ ان کے قلوب تو انوارِ الٰہی سے منور تھے ہی لیکن اُنھوں نے اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے ایسے حیات بخش اسباق و نصائح یاد گار چھوڑے جو نہ صرف ہمارے لیے مشعلِ راہ اور مینارِ نور کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ آئندہ بھی رُشد و ہدایت کا وسیلہ بنتے رہیں گے۔وہ خدا کے مقرب بندے مخلوقِ خدا کی نیک تربیت و اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہوئے خود توراہی ملکِ بقا ہوگئے۔ ہاں جاتے جاتے اس کرۂ ارضی پر اپنے علم وعمل کے ایسے لافانی نقوش چھوڑ گئے جو رہتی دُنیا تک خلقِ خدا کو گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر نہ صرف حقیقت و معرفت کے اسرارو رموز سے آشنا کرنے کا فریضہ انجام دیں گے بلکہ ایک بہتر زندگی بسر کرنے کا سلیقہ بھی سکھائیں گے۔

ایسی ہی اعلیٰ صفات کے حامل حضرات میں گوروُ رویداس کا نام بھی خاص محترم اور اہمیت کا حامل ہے۔اُن کا نام بھگتی تحریک کے صوفی شعرا میں ایک نمایاں اور منفرد حیثیت رکھتا ہے۔گوروُ رویداس کی پیدائش 1376 میں موضع سیر گوبردھن پور، ضلع بنارس اتر پردیش کے ایک پسماندہ گھرانے میں ہوئی۔ گورورویداس بچپن سے ہی حد درجہ حساس اور ذہین تھے۔ خدا نے اُن کواعلیٰ ترین صلاحیات و صفات عطا کی تھیں۔اس دنیا میں آنے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ہرانسان پانچ عناصر کا مجسمہ ہے اور ہر ایک کے اندر ایک سا لہو، مانس ہے۔لیکن اس حقیقت کو فراموش کر کے اِنسان نے خود کو الگ الگ فرقوں میں بانٹ لیا ہے۔ سب ایک ہی مٹی کے پتلے ہیں۔  پھر بھی ایک افضل اور دوسرا ہیچ کیسے ہوسکتا ہے۔غور کرنے پر ان کو سماج کے ٹھیکیداروں کا گورکھ دھندا سمجھ آیا کہ انھوں نے اپنے نجی مفاد کی خاطر سماج کے ایک طبقے کو نہ صرف اپنا غلام بنا یا بلکہ اُن سے زندگی کے تمام حقوق چھین کر ان کو اس قدر حاشیے پر دھکیل دیا کہ اُ ن کا جیون جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا۔چنانچہ گورو رویداس نے سماج سے سماجی غیر برابری، ذات پات اور بھید بھاؤ جیسی تمام بدعتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے اور حاشیے پر پڑے سماج کو اس دلدل سے نکالنے اور سماجی استحصال سے نجات دلانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ 

گورو رویداس کی فکر  جب ان کے مشاہدے کے پروں پر سوار ہو کر بیان کی طرف گامزن ہوئی تب ان کا ذہن تلمیحات و تشبیہات کے انتخاب کے لیے کسی دوسری جگہ نہ جاکر ان کے اپنے ماحول ہی میں محدود رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں 'جوتا' جسم انسانی بن کر،  'آر' سحرِ دنیا بن کراور 'رمبی' حرص و ہوس کی علامت بن کر ظاہر ہوتی ہے۔اس دور کے دیگر شعرا نے جن استعارات کو متروک بلکہ مکروہ قرار دے رکھا تھا۔ رویداس نے انھیں کے ذریعے جب اپنے کلام میں تلقین و ہدایت کو نظم کیا تو ہندوستانی بھگتی ادب نے پہلی بار ایک انقلاب سا محسوس کیا۔چونکہ اُن کی تعلیم لوگوں کو سماج میں رائج رسموں، رواجوں اور مذہبی رسومات  میں سے نکال کر مالکِ کل کی باطنی ریاضت کی طرف راغب کرتی تھی۔

گورو رویداس کی کسی انسان، ذات پات، مذہب یا جماعت سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ددسرے کامل سنتوں کی طرح اُنھیں بھی ذات پات کی تفریقات منظور نہیں تھی، چونکہ یہ اِنسان کے بنائے ہوئے تھے خدا کے نہیں۔مالک نے تو سب کو ایک جیسا بنایا ہے۔بقول سنت کبیر             ؎

اِک جوت سے سب اُتپنا، کون باہمن کون سودا 

اسی امر کو بابا نانک اپنے کلام میں یوں فرماتے ہیں

  اول اللہ نور اُپایا قدرت کے سب بندے

  اک نور سے سب جگ اُپجیا کون بھلے کو مندے

گوروُ رویداس نے بھی کبھی کسی اِنسان کو اس کی ذات کی وجہ سے اعلیٰ یا ادنیٰ نہیں مانا۔اُن کا قول تھا کہ جنم سے کوئی بھی شخص افضل یا ہیچ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اعمال ہی اس کو چھوٹا یا بڑا بناتے ہیں۔بقول آپ کے             ؎

رویداس جنم کے کارنے ہوت نہ کوئی نیچ

  نر کو نیچ کر دیت ہے اوچھے کرم کو کیچ

جنم جات مت پوُچھییٔ، کا جات اور پات

رویداس پوُت سب پربھ کے، کوؤ نہیں جات کُجات

رویداس اُپجے سب اِک نور تیں، باہمن مُلا سیخ

سبھ کو کرتا ایک ہے، سبھ کؤں ایک ہی پیکھ

گورورویداس کا فرمان ہے کہ واحد خدا کی اولاد ہونے کے ناطے ہم سبھی اِنسان برابر ہیں۔ ہم اپنے اعمال کے سبب بر تر یا بدتر بنتے ہیں، کسی مخصوص ذات، خاندان یا مذہب میں پیدا ہونے سے نہیں۔ اس آفاقی سچائی کو انھوں نے بڑے ہی صاف الفاظ میں بیان کیا ہے۔

گورو رویداس نے کسی اسکول میں کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔لیکن ان کے نزدیک تعلیم کی بڑی اہمیت تھی۔وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ تعلیم ایک ایسی شے ہے جو صدیوں سے کند ذہنوں کو تیز کرکے اُن کی کایا پلٹ سکتی ہے۔گور رویداس نے چودھویں صدی میں یہ محسوس کر لیا تھا کہ تعلیم کے حصول کے بغیر ہمارا شعور گرد آلود رہ جاتا ہے۔نیز ہماری نجات کا وحد ذریعہ تعلیم ہے اسی کے طُفیل ہم غلامی کی زندگی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔گوروُ رویداس اپنے کلام میں تعلیم کی اشد ضرورت اور اہمیت و افادیت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔            ؎

چل من ہری چٹسال پڑھاؤں

مادھو ابیدھا ہت کین وبیک دیپ ملین

عصر ِحاضر میں ہوا اور پانی کی آلودگی پوری انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہے، جس سے نجات پانے کے لیے پوری دنیا  طرح طرح کی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن ابھی تک اس مسئلے کا کوئی مکمل حل تلاش کرنے میں ہم ناکام ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب آئے دن مختلف نوعیت کے جان لیوا امراض سراُٹھا رہے ہیںاور انسانی وجود کے لیے ایک سنگین چیلنج کے طور پر ابھر رہے ہیں، لیکن گورو رویداس نے آج سے سات سو برس قبل بنی نوع انسان کو اس حقیقت سے روشناس کروا دیا تھا کہ ہماری زندگی کی بنیاد ہوا اور پانی پر ہے۔زندگی میں ہوا اور پانی کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں               ؎

جل کی بھیت پون کا تھنبھا رکت بُوند کا گارا

ہاڈ ماس ناڑی کو پنجر پنکھی بسئے بچارا

گویا انسان کا جسم پانی کی دیوار، ہوا کا کھمبا (ستون) اور خون اور ویریہ کے گارا سے بنا ہے۔جو  ہڈی، چمڑے، گوشت و ناڑیوں کا پنجرہ ہے جس میں ہوا اور پانی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ان کے بغیر اس کی حرکت قلب کا چلنا ممکن نہیں۔

گورو رویداس کے کلام کے عمیق مطالعے سے یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ آپ بہت بڑے سماجی و سیاسی مفکر تھے اور دور اندیش بھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے سات سو سال قبل ایک ایسے وطن کا تصور پیش کیا اور ایک ایسے ملک کا خواب دیکھا جو بے غم ہو۔آپ کے عقیدے کی رو سے بے غم پور وہ مقام ہے۔ جہاں کوئی غم یا دکھ نہیں اور نہ کوئی فکر و پریشانی ہے۔یہ ایسا وطن ہے جہاں خوشی اور مسرت کے سوا کچھ نہیں۔جہاں پر کوئی پابندی عائد نہیں۔یہاں ہر کوئی پرسکون اور پر امن زندگی بسر کر سکتا ہے۔بقول آپ کے               ؎

بیگم پورہ شہر کو ناؤ

دُکھ اندہو نہیں تہہ ٹھاؤ

ناں تشویش خراج نہ مال

خوف نہ خطا نہ ترس زوال

قائم دائم سدا پادشاہی

دوم نہ سیم ایک سے آہی

آبادان سدا مشہور

اوہاں گنی بسے مامور 

’بیگم پورہ ‘کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کے تعصب اور بھید بھاؤ کو قطعی جگہ نہیں ہو۔یہاں سب برابر ہوں، نہ کوئی لگان دیتا ہواورنہ کوئی لیتا ہو۔یہاں کا حاکم سب کو یکساں دیکھتا ہو۔یہاں ہر کسی کو ایک پر سکون اور بہتر زندگی بسر کرنے کی تمام سہولیات میسر ہوں۔سماج میں بے غم پور کی طرز کے وطن کا ہر کوئی خواہش مند ہے۔ ہمارے دور کا اِنسان بھی اس طرح کے ملک کا متلاشی ہے یہاں کوئی سماجی درجہ بندی اور طبقاتی نظام نہ ہو۔اگر آج کا اِنسان اپنی محدود سوچ کے حصار سے نکل کر گورو رویداس کے کلام کا غائرمطالعہ کرے اور ان کی تعلیم کو عملی طور پر اپنی زندگی کا نصب العین بنا لے تو یقینا وہ ایک ایسے گھر، شہر اور ملک کی تشکیل کر سکتا ہے یہاں کوئی بھی غم نہ ہو۔لیکن یہ بے غم پورے تبھی بن سکتا ہے جب ہم آپس میں امن و ایمان، بھائی چارہ اور قومی اتحاد کو قائم کرکے تمام طرح کے تعصبات کو ترک کر دیں۔

گورو رویداس نے مذہبی اتحاد کے فروغ کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے۔آپ نے انتہائی صدق دلی سے خدائے واحد کے پیغام کو عوام میں پھیلانے اور قومی و مذہبی یکجہتی کو مستحکم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آپ فرماتے ہیں                ؎          

ہندوں سے کر دوستی مسلمان سے پریت

رویداس پوت سب رام کے سب ہیں اپنے میت

سادھ سنگت مل رہیے مادھو              

جیسے مدھپ مکھیرا

رویداس پیکھیا سودھ کر،آدم سبھی سمان

ہندو مسلمان کو، سرِشٹا اِک بھگوان

ہندُو تُرک منہہ نہیں کچھ بھیدا، دُوئے آئیہہ اِک دوار

پران پِنڈ لو ہہ مانس ایکے، کہہ رویداس بِچار

ہر کوئی جانتا ہے کہ نشہ ایک لعنت ہے جو فرد کی بربادی کا دوسرا نام ہے۔ اس کو ہر مذہب میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ "اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے فرمایا: لعنت ہے شراب پینے والے، پلانے والے، بیچنے والے، کشید کرنے والے اور اس پر مزدوری کرنے والے پر"۔چنان چہ ایسے گھر، گاؤں، شہر اور ملک جو نشے کی لت میں گرفتار ہو جاتے ہیں وہاں کا ماحول ہمیشہ کشیدا ہی رہتا ہے اور آئے دن جھگڑے اور فساد سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ وہاں کے عوام اخلاقی گراوٹ کے شکار ہوجاتے ہیں۔گوروُرویداس نے بھی اپنے کلام میں نشے کی پر زور مذمت کی ہے۔اور کسی بھی قسم کی منشیات کے استعمال سے پرہیز کرنے کا درس دیا ہے۔بقول آپ کے          ؎

رویداس مدرا مت پیجیے جو چڑے چڑے اُترائے

نام مہا رس پیجیے جو چڑے نہ اُترائے

سرسری سلل کرت بارنی رے

سنت جن کرت نہیں پانن

آپ فرماتے ہیں کہ شراب چاہے گنگا جل کی بھی کیوں نہ ہو خدا کے بندے اس کا استعمال نہیں کرتے۔وہ شراب کا نشہ کرنے کے بجائے خدا کی عبادت کے نشے کو اہمیت دیتے ہیں کیونکہ شراب کا نشہ چڑھ کر اتر جاتا ہے لیکن عبادت کا نشہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔

گورو رویداس کا دین مساوات، برادری، غمگساری اور ہمدردی کا دین ہے۔ان کی تعلیم کسی ایک فرقے، ذات یا مذہب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ پوری انسانیت کے مصلح تھے اور سب کی بھلائی و بہتری کے خواہاں                 ؎

ایسا چاہوں راج میں جہاں ملے سبن کو اَن

چھوٹ،بڑؤ سب سم بسے رویداس رہے پرسن

غرض گورورویداس جہاں ایک اعلیٰ صفات عابد اور صوفی سنت ہوئے ہیں وہیں وہ ایک عظیم مصلح و مفکر اور سماج سدھارک کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔آپ کی تعلیمات میں انکساری اور خود سپردگی کا جذبہ واضح ملتا ہے۔آپ کے کلام میں گہرائی اور گیرائی ہے۔آپ کے کلام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ہندی، اُردو، فارسی، گورمُکھی اور ہندوستان کی بیشتر علاقائی زبانوں کا خاصا علم رکھتے تھے۔آپ کے کلام کے چالیس شبد اور ایک شلوک سِکھ دھرم کی مقدس کتاب'شری کوروُ گرنتھ صاحب' میں درج ہیں۔گورو رویداس جیسے عابد، عالم اور مفکر صدیوں بعد اس دھرتی پر آتے ہیں۔بقول ڈاکٹر محمد اقبال                ؎

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

گورو رویداس کے افکار ونظریات کا لب لباب یہ ہے کہ انھوں نے سماجی پاکھنڈ، غلط رسومات اور سماجی و اخلاقی بدعتوں کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ اُن کا قلع قمع کرنے اور ایک نئے اور ان تمام بدعتوں سے پاک سماج کی تشکیل کا صرف خواب ہی نہیں دیکھا بلکہ اپنی تعلیمات کے ذریعے اس کاطریقہ بھی سُجھایا۔ انھوں نے ایک بہتر سماج کی تشکیل کے لیے فرد کی سیاسی،سماجی و اخلاقی ترقی کے ساتھ ہی ساتھ روحانی ترقی پر بھی زور دیا۔ظاہر ہے آج کے دور میں بھی ان کے افکار و نظریات کی وہی اہمیت و معنویت ہے جو پہلے تھی۔

 Dr. Mool Raj

Assistant Professor, Department of Urdu

Govt. College for Women Udhampur,

U.T. of J&K.

Mob: 9419950551

Email.: prof.moolraj2@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں