6/10/22

کبیر اور ان کے نظریات: محمد منور عالم

 

تیرہویں صدی کی ابتدا میں مسلمانوں کی سلطنت قائم ہونے کے بعد شمالی ہند میں بھکتی کے لیے اور بھی سازگار ماحول پیدا ہوا۔ رامانج کے سلسلے کے مشہور و معروف بھکت رامانند کی بدولت جن کا زمانہ چودہویں صدی کے اواخر سے پندرھویں صدی کے وسط تک کا تھا۔ بھکتی کا مسلک شمالی ہند میں بڑے زور سے پھیلا۔

رامانند کے ہی شاگردوں میں ایک ممتاز شاگرد سنت کبیر بھی ہیں جن کا زمانہ پندرھویں صدی کی ابتدا سے اس صدی کے اواخر یا سولہویں صدی کے آغاز تک کا ہے، جس نے بھکتی کی ایک نئی راہ کھولی،  جس پر ہندوؤں کے ساتھ بہت سے مسلمان بھی چلنے لگے۔ سچ تو یہ ہے کہ معرفت کے اس نئے راگ میں جسے کبیر نے چھیڑا عام ہندوؤں اور مسلمانوں کے جذبا ت سموئے ہوئے ہیں۔ اس میں عاشقانہ ذوق و شوق، سوزو ساز، تسلیم و رضا کے ساتھ ساتھ مصلحانہ بلکہ مجاہدانہ جوش و خروش بھی ہے۔ ایک طرف وہ نغمۂ عشق ہے جو ذات الٰہی کی محبت اور مرشد کی عقیدت سے معمور اور دوسری طرف ظاہری رسوم و روایات سے بغاوت یا فرسودہ افکار و نظریات کے خلاف ایک ابھرتی ہوئی آواز ہے۔  علی سردار جعفری لکھتے ہیں کہ:

"صحیح معنوں میں کبیر کی شخصیت ایسی تھی جس پر ہندوستان کو بجا طور پر ناز ہو سکتا ہے۔کیونکہ وہ متحد کلچر و تہذیب کے نمائندہ تھے۔ کبیر کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو اقبال کا یہ شعر ذہن پر نمودار ہوتا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا        ؎

دیکھ اے چشم عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ

جس پہ فطرت کو بھی ہے ناز وہ انسان ہوں میں

بہر حال رامانند نے کبیر کو اپنے حلقے میں لے لیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کبیر ان کی صحبت میں ایک عرصے تک رہے لیکن بعض یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان کی صحبت بہت مختصر تھی اور اس کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ کبیر کے تصورات پر رامانند کے اثرات بہت آہستہ آہستہ دھندلے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح رامانند سے ملنے سے پہلے کبیر ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے اسی طرح ان کی شاگردی اختیار کرلینے کے بعد بھی دوسرے سنیاسیوں اور بھکتوں کے علاوہ مسلم صوفیا کی صحبت میں وقت گزارتے رہے۔ لیکن یہ یقینی بات ہے کہ کبیر کی مذہبی معلومات جو حیرت انگیز حد تک وافر ہیں سوامی رامانند کی گوشٹیوں ( مجلسوں ) کی بھی دین ہیں اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان گوشٹیوں میں بھی شریک ہوئے جو مسلم صوفیوں اور ہندو سنتوں کے درمیان ہوتی تھیں۔ اور اسرار و رموز بیان کیے جاتے تھے۔ہندو دھرم کے علاوہ ان کی تصوف اور اسلام سے گہری واقفیت اور رغبت یہ قیاس آرائی کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود جس کا خود انھوں نے اعتراف کیا ہے، انھیں اچھی صحبت ملی تھی۔"

(پیغمبران سخن، علی سردار جعفری، ص12-27)

غرض کبیراسلام اور ہندو مت دونوں کی روحانی بنیاد کو ایک سمجھتے ہیں تصورات اور اصطلاحات سے یکساں کام لیتے ہیں۔ ذات پات اور رنگ و نسل سے وہ سخت متنفر ہیں اور انسانوں میں مساوات و برابری کے قائل ہیں۔ انھوں نے اپنی تعلیم کو بھکتی کے دیگر علمبرداروں کی طرح نہ تو کوئی منظّم شکل دی اور نہ ہی قلم بند کیا۔ بلکہ اپنے خیالات و جذبات کو متفرق گیتوں میں ظاہر کیا جو ان کی زندگی میں برابر زبانی گائے جاتے تھے اور آگے چل کر 'وانی' اور 'بیجک' نام کی کتابوں میں جمع کیے گئے۔اس عہد کے بہت سارے ہندو اور مسلمان ان پیرؤں میں داخل ہوئے جو کبیر پنتھی کہلاتے تھے۔ آج بھی ان کی تعداد خاصی ہے جو نہ تو عام ہندوؤں کی طرح مذہبی رسوم و قیود کے پابند ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کی طرح صوم و صلاۃ کے۔  ڈاکٹر   تاراچندر اپنی کتاب 'تمدن ہند پر اسلامی اثرات '  میں لکھتے ہیں کہ:

"کبیر کے تعلیمات کے انداز بیان کی صورت گری صوفی اولیا اور صوفیاؤںنے کی ہے۔ ہندی زبان کا انھیں کوئی پیش رو نہ ملا۔ اس لیے وہ جن غولوں کی پیروی کرسکتے تھے وہ مسلمانوں سے ہی مل سکتے تھے۔ مثلاً فرید الدین عطار کا پند نامہ، بابا فرید اور کبیر کی نظموں کے عنوانوں کے تقابل سے امربا وضاحت معلوم ہوتا ہے۔ کبیر نے دوسرے صوفیا کے علاوہ جلال الدین رومی اور شیخ سعدی کا کلام بھی یقینا سنا ہوگاکیونکہ ان کے کلام میں ان صوفی شعرا کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔"

(اردو ترجمہ محمد مسعود احمد، مطبوعی مجلس ادب لاہور)

کبیر کی شاعری کا پیرہن مذہبی ہے۔ جبکہ بھکتی اور تصوف کے امتزاج کادوسرا نمونہ میر اور غالب کی شاعری کا پیرہن غیر مذہبی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبیر نہ صرف شاعر تھے بلکہ صوفی اور بھکت بھی تھے۔ اور میر و غالب محض ایک شاعر، لیکن اس پیرہن کے باوجود کبیر کا مزاج سیکولر تھا۔  یہی مزاج 'رومی' اور 'نانک' کا بھی ہے۔

کبیر نے اپنی ذات کے لیے زیادہ تر ’جولاہے‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور کبھی کبھی  ’کوری‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ کبیر کے عہد کے آس پاس ہی ’کوریوں‘کی ذات کے ایک بڑے حصے نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ’کوریوں‘ اور ـ’جولاہوں ‘ کی بستیاں جو پنجاب سے بنگال تک کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں پورے پورے قصبے ان سے آباد ہیں۔ کبیر پنتھیوں نے کبیر کی پیدائش کو ان حسین و جمیل لفطوں میں بیان کیا ہے         ؎

دھن گرجے، دامنی دمکے، بوندیں برسیں، جھر لاگ گئے

لہر تالاب میں کمل کھلے، تہاں بھانو پر گٹا بھئے

(بادل گرج رہے تھے بجلی چمک رہی تھی، بوندیں پڑ رہی تھیں اور مینہ کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ اس طوفان میں جب کبیر سورج کی طرح ظاہر ہوئے تو تالاب میں کمل کے پھول کھلے ہوئے تھے۔)

ممکن ہے اس دوہے کے الفاظ حقیقت کے ترجمان ہوں لیکن اگر استعارے کی زبان سمجھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جنگوں کی گھن گرج میں قتل و غارت کی بجلیوں میں جہاں خون کی بارش ہورہی تھی کبیرکی پیدائش سے یکایک منظر پر سکون ہوگیا اور آسمان پر سورج نکل آیا اور تالابوں میں کمل کے پھول کھل گئے۔

چونکہ کبیر نے اپنے آپ کو بار بار جولاہا کہا ہے اس لیے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انھوںنے اسلام کو ترک نہیں کیا تھا۔ لیکن ان کی سج دھج ہندؤں کی سی تھی ماتھے پر تلک لگاتے اور جنؤں پہنتے تھے اس کے باوجود جرأت اتنی تھی کہ برہمنوں پر طنز کرتے تھے     ؎

تو بھامن میں کاشی جولاہا، بوجھو مور گیا نا

کبیرنے اپنی شاعری میں ہندو تلمیحات و استعارات کا استعمال کیا اور اقبال نے اسلامی روایات سے اپنے تشبیہات و استعارات لیے۔ حالانکہ ان کا فلسفۂ خودی پر اپنشد اور ویدانیت کا اچھا خاصا اثر ہے۔ کبیر نے منصور کی طرح اناالحق نہیں کہا۔ لیکن اناالحق کا سارا جذبہ ان مصرعوں میں موجود ہے

"نرگن آگے سرگن ناچے باجے سوہنگ تورا"

یعنی ذات کے سامنے صفات ناچ رہی ہے اور اناالحق کا راگ بج رہا ہے۔

کبیر کا بنیادی فلسفہ صلح کل ہے وہ لکھتے ہیں کہ         ؎

" کبیرا کھڑا بجار میں سب کی مانگے کھیر

 نا کیہو سے دوستی نا کیہو سے بیر"

دوسری جگہ انھوں نے ذات پات کی نفرتوں پر شدت سے ضرب لگاتے ہوئے لکھا کہ

"ہندو کہو تو میں نہیں مسلمان بھی نا ہی

پانچ تتو کا پوتلا گیبی کھیلے ماہی"

(یعنی میں نہ ہندو ہوں نہ میں مسلمان میںغیب کے کھیل میں پانچ عناصر کا ایک پتلا ہوں۔)

رومی نے اپنی مثنوی میں ایک حکایت بیان کی ہے کہ ایک شخص کو چار مختلف زبانوں کو بولنے والوں نے ایک ایک درہم دیا۔ ایرانی نے کہا اس سے انگور خریدے جائیں، عرب نے کہا نہیں 'عنب' خریدے جائیں، ترک نے ' ازم' کا نام لیا اور چوتھے نے ـ'رستافیل'  کا، اس پر چاروں لڑنے لگے۔ اس وقت اگر کوئی ان چار زبانوں کا جاننے والا موجود ہوتا تو ان بے وقوفوں کو بتاتا کہ سب ایک ہی چیز مانگ رہے ہیں، لڑائی زبان کی ہے۔

اس نقطے کو اس طرح بھی اجاگر کیا جا سکتا ہے کہ "رموز عشق بیاں کن بہ ہر زباں کہ تودانی"۔ عشق زبان و بیاں کا محتاج نہیں، مکان و لامکاں سے پرے تخیل و تصورات کی حد سے آگے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں سے آگے کوئی مقام نہیں۔ یہی فلسفہ ہے جو کم وبیش تمام بڑے لوگوں میں موجزن ہے۔ اور کبیر داس بھی اسی نظریے کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال میں زمین و آسماں کی گردش کسی کو ثابت و سالم چھوڑنے سے قاصر ہے۔ اس لیے وہ لکھتے ہیں کہ         ؎

"چلتی چکی دیکھ کر دیا کبیرا روئے

دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے"

گویا کہ یہ ایک چکی ہے جس کا ایک پاٹ زمین اور دوسرا پاٹ آسمان ہے اور اس کے بیچ جتنی چیزیں ہیں کسی کو بقا نہیں۔ اسی نقطے کو قرآن نے کچھ یوں کہا کہ

"کل من علیہا فان"

عام طور سے جو کبیر کے افکار و نظریات کا خاکہ ہمارے ذہن پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ کہ کبیر داس یقینی طور پر موحد تھے اور خرافات اور رسوم و قیود سے بیزار تھے یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کے کلام پراعتراضات کیے ہیں اور کچھ ایسے افکارو نظریات تک بندی کی شکل میں کبیر پر مڑھ دیے گئے جس سے وہ بادی النظر میں نہ صرف اسلام بلکہ دیگر فرسودہ مذہب سے بیزاری کا شائبہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے الحاقی کلام میں یہ شعر دیکھا جا سکتا ہے        ؎

کنکر پتھر چون کے مسجد دیو بنائے

تاپڑ چڑھ ملا بانگ دے کیا بہروپیو خدائے

یا پھر          ؎

پاہن پوجن ہری ملے تو میں پوجوں پہاڑ

واسے تو چکی بھلی کوٹ کھائے سنار

اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں کہ کبیر داس مذہبیات میں الجھ کر رہ گئے تھے بلکہ ان کے کچھ اشعار اس قدر وسیع و عریض ہیں کہ آج کی شاعری اس پر رشک کناں نظر آتی ہے۔ بلا تخصیص ان کے چند اشعار دیکھے جاسکتے ہیں جو اعلیٰ قدروں کے حامل ہیں اور اس کی روشنی میں برجستہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ   all great man thinks alike،  وہ لکھتے ہیں کہ         ؎   

ایسی وانی بولیے من کا آپا کھوئے

اوروں کو شیتل کرے آپوں شیتل ہوئے

بہ الفاظ دیگر ہماری گفتگو ایسی ہو جس کے اثرات ایسے ہوں جو متکلم اور مخاطب تمام لوگوں کو فرحت کا احساس دلاتا ہو۔ آگے لکھتے ہیں          ؎

 کبیرا پانی راکھئے بن پانی سب سون

 پانی گئے نہ اوبرے موتی مانوس چون

یعنی پانی سے مراد عزت و آبرو ہے جس کا پاس بہر صورت بہر طور پر رکھا جا نا نا گزیر ہے۔ اگر عزت نہیں رہی جسے شاعر نے پانی سے تعبیر کیا ہے تو پھر حالت اس کی بے تاب ہوگی یا بے بس انسان کی یا پھر اس چونے کی کیفیت ہوگی جو بغیر پانی کے دم توڑ دیتا ہے۔

چلتے چلتے ان کا یہ شعر بھی ہمارے ذہن کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس طرح ہے          ؎

بڑا ہوا تو کیا ہوا جیسے پیڑ کھجور

 پنچھی کو سایا نہیں پھل لاگے اتی دور

ان اشعار کو کبیر داس کی کتاب  'وانی'اور 'بیجک'  میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اخیر میں حتمی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کبیر داس تمام فرسودہ رسوم و قیود سے بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔



Dr. Md. Monawar Alam
Guest Faculty
Department of Urdu
R.N. College, Pandaul
Madhubani - 847234 ( Bihar)
Mob.: 9934938380, 919852505654

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خواجہ حسن ثانی نظامی کا اسلوب، مضمون نگار: عزیز احمد خان

  اردو دنیا، نومبر 2024 خواجہ حسن ثانی نظامی درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشینوں میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 15 مئی 1931 کو ہوئی تھی۔...