12/12/22

زندہ کلاسک اور زبیر شفائی کی شاعری: شعیب نظام


 

زبیر شفائی کااصل نام زبیر احمد قریشی تھا۔ وہ 10دسمبر 1944کو کانپورمیں پیدا ہوئے۔ کم وبیش پچاس سال کی مشق سخن کے بعد ان کا انتقال 27فروری 2008 کو کانپورمیں ہوا۔ اسی دن ان کے جسد خاکی کو ہم سب خاک کے حوالے کر آئے۔ اپنے پیچھے اہلیہ ایک بیٹی اورتین بیٹے چھوڑگئے۔ بیٹی اوربڑے بیٹے کی شادی ان کی زندگی میں ہوگئی تھی۔ ان کا بڑا بیٹا کالج میں میرا شاگرد بھی رہ چکا ہے۔

زبیر پہلے میکش تخلص کرتے تھے۔ بعد میں تخلص تبدیل کرکے وہ زبیر شفائی ہوگئے۔ شفائی کا لاحقہ محض اس لیے ہے کہ انھوںنے اپنی کچھ ابتدائی غزلیں شفا گوالیاری کو دکھائی تھیں۔

جب شمس الرحمن فاروقی نے 1966میں شب خون جاری کیا تب تک ترقی پسند تحریک خود اپنے ہاتھوں خود کشی کرنے پرآمادہ ہوچکی تھی۔ اس لیے یہ رسالہ حبس بھرے ماحول میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا اوراس تازہ جھونکے نے دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اورپاکستان کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ظاہر ہے کانپور کو بھی اس سے متاثر ہونا ہی تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے رمز سیتا پوری محمد احمد رمز بن گئے۔ اس طرح کانپور میں جدید شاعروں کاایک حلقہ بنتا گیا جس میں زیب غوری، محمد رمز، زبیر شفائی، عشرت ظفر، حسن عزیز اور ابوالحسنات حقی کے نام نمایاں تھے۔ استاد شاعر علامہ کوثر جائسی اپنے اسلوب اورمزاج کے اعتبار سے پہلے ہی تمام اصولی جکڑبندیوں کے باوجود جدید فکر کے علم بردار تھے۔ زیب غوری ان سے اپنے کلام پردوستانہ مشورہ کرنے لگے۔ یہ شعرا ناظر صدیقی صاحب کے کمرے اورجگر اکادمی میں گرانڈ ہوٹل میں بیٹھتے تھے جہاں فنانظامی اورشارق ایرایانی صاحب اورقیوم ناشاد فیض آباد ی سے بھی نشستوں اورملاقاتوں میں فطری طورپر شاعری بھی ہوتی رہتی تھی۔انوار انجم اوراظہار عابد بھی اس گروپ میں شامل ہوگئے۔

شمس الرحمن فاروقی صاحب کا تبادلہ 1972میں کانپور ہوگیا اورزیب غوری، محمداحمد رمز، زبیر شفائی، عشرت ظفر اورحسن عزیز پابندی سے پوسٹ آفس کی اوپر ی منزل پرشام سے فاروقی صاحب کی قیام گاہ پر بیٹھنے لگے۔ اس محفل میں کبھی کبھی ابوالحسنات حقی صاحب چلے جاتے تھے۔ یہاں پابندی سے شعروادب پرگفتگو ہوتی رہتی تھی۔ یہ محفل کبھی کبھی زیب غوری کے گھر پر جم جاتی اور رات رات بھر شاعری اورشعروں پربحثیں ہوتی رہتیں اور فاروقی صاحب کیا بک رہے ہو کہاں کی اڑارہے ہو جیسے جملوں کے ساتھ شعروں کے نئے نئے مفاہیم بیان کرکے حاضرین کو پنی علمی گفتگو سے متاثر کرتے رہتے۔

فاروقی صاحب نے زبیر شفائی پراپنے مضمون میں لکھا ہے کہ زبیر زیب کی شاعری سے متاثر ہوئے اوران پر زیب کا اثر دیکھا جاسکتا ہے مگر ذاتی طورپرمیرا خیال ہے کہ جب چار پانچ دوست روز آپس میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے کو شعر سناتے ہیں تو فطری طورپر ایک دوسرے کو متاثر بھی کرتے ہیں اورخود متاثر بھی ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعرا اپنا اپناالگ اسلوب رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے متاثر ضرور ہوئے۔ ظاہر ہے یہ موقع نہیں ہے ورنہ میں مثالوں کے ذریعے اپنے معروضات ضرور پیش کرتا۔

زیب کا کلام نیر مسعود صاحب اورفاروقی صاحب کے سخت انتخاب کے بعد زرد زرخیز کی صورت میں سامنے آیا اورادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ باقی شعرا اپنے اپنے طورپرشعر کہتے رہے۔ بعدمیں محمد احمد رمز اور ابوالحسنات حقی کے مجموعے منظر عام پرآئے مگر حسن عزیز اور زبیر شفائی کا کلام رسائل میں ہی قید رہ گیا۔

زبیر شفائی کے انتقال کے ایک ہفتے بعد میں اورظفرغازی زبیر مرحوم کے گھر حاضر ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے ایک مشترکہ دوست بھی تشریف لے آئے۔ میں نے بھابھی(زبیر شفائی کی اہلیہ) سے کہا کہ زبیر بھائی کا کلام یکجا ہو جائے اوراس کی اشاعت کی کوئی صورت نکل آئے۔ میں نے اورظفر نے اجازت لے کر تمام کلام یکجا کرلیا۔ بھابھی ضد کرکے چائے پینے پراصرار کرنے لگیں کہ شعیب ایسے نہ جاؤ ورنہ تمہارے بھائی کی روح شرمندہ ہوگی۔ہم لوگ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔اسی دوران ہمارے مشترکہ دوست نے ایک عجیب سی بات کاانکشاف کیا کہ ایک دن انھوںنے زبیر سے کہا تھا کہ اپنا مجموعہ جلد شائع کرائیے ورنہ خدا نہ کرے اگر آپ کوکچھ ہوگیا تو مجموعہ مجھے ہی چھپوانا پڑے گا۔ دیکھیے صاحب کبھی کبھی مذاق میں کہی ہوئی بات سچ ثابت ہوجاتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ نے مرحوم سے اس طرح کا کوئی وعدہ کرلیا تھا تو یہ آپ اپنے ساتھ لے جائیے اورمجموعہ شائع کرانے میں اگر ضرورت ہو تومیں ہر ممکن مدد کوحاضر ہوں۔ خیر میں نے یکجا کیا ہوا مواد ان کے حوالے کردیا۔ یہ واقعہ مارچ 2008 کے اوائل کا ہے۔ ان صاحب کے اپنے کچھ ذاتی مسائل کے سبب تاخیر ہوتی چلی گئی اوراب سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل میں نے ان سے یہ کلام حاصل کرلیا۔ ظاہر ہے ہر کام اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوتا ہے۔ سواب یہ مجموعہ اشاعت کے مراحل طے کررہا ہے اوران شاء اللہ بہت جلد زبیر کے پرستاروں کے ہاتھ میں ہوگا۔ میرے اورزبیر کے مشترکہ دوست کا شکریہ شاید واجب ہو کہ یہ کلام انھوںنے حفاظت سے رکھا اورضائع نہیں ہواورنہ بارہ سال کی مدت کم نہیں ہوتی خیر۔

1986میں ملازمت کے سلسلے میں کانپور حاضر ہوگیا۔ میں سفید کالونی جوہی میں قیام پذیر ہوا جہاں زبیر شفائی میرے پڑوسی تھے اس طرح بہت جلد ان سے دوستی ہوگئی اورنشستوں کا سلسلہ کبھی زبیر کے گھر کبھی میرے اورکبھی شاہد اختر کے گھر ہونے لگا جو نزدیک ہی لال کالونی میں رہتے تھے۔ زبیر اچھی طرح جانتے تھے کہ میں دوپہر میں پابندی سے سوتا ہوں مگر جب وہ رات میں ایک یادو غزلیں کہہ لیتے تھے تو پابندی سے میرا گیٹ کھٹکھٹانا اپناحق سمجھتے تھے آنکھیں ملتے ہوئے گیٹ پر وہ ہمیشہ مجھ سے یہی کہتے کہ یہیں گالیاں دے لو مگر غزلیں سننی پڑیںگی۔ یہ زبیر کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ ایک دو شعر جن پرمجھے اعتراض ہوتا وہ بغیر بحث کے انھیں قلم زد کردیتے۔ شام کو پریڈپر خورشید الرحمن حنفی کی فوٹو آرٹ اسٹوڈیو میں پابندی سے دوستوں کا جمگھٹالگتا جس میں زبیر شفائی، حسن عزیز، محمد احمد رمز، تسکین زیدی اورمیں موجود ہوتے۔ یہاں بھی شعروشاعری اور شعروں پربحثیں خوب خوب ہوتی رہتیں۔ زبیر بہت مستی اورسرشاری کے ساتھ اپنے شعر سناتے۔ ان کو اچھے شعروں کی اتنی عمدہ پرکھ تھی کہ غزل کا اچھا شعر سناتے وقت ا ن کی آنکھیں ہمیشہ چمکنے لگتی تھیں اوردوسروں کے اچھے شعر بھی خوب یادتھے۔ اسی زمانے میں ابوالحسنات کے اچھے شعر بھی خوب یاد تھے۔ اسی زمانے میں ابوالحسنات حقی کے باہری کمرے میں شعری نشستوں کا انعقاد ہوتا رہتاتھا۔وہاں مندرجہ بالا شعرا کے علاوہ سمیع فراز اورشمیم عثمانی بھی موجود رہتے۔

میں نے کانپورمیں دوسروں کی ضیافت کرکے خوش ہونے والی دوہستیاں ایسی دیکھیں جو عدیم المثال کہی جاسکتی ہیں ان میں پہلا نام زیب غوری اوردوسرا زبیر شفائی کا ہے۔ زیب غوری اورزبیر شفائی دونوں بہت خوش ذائقہ کھانوںکے شوقین تھے مگر دوستوں کو کھلاکر یہ دونوں حضرات بہت خوش ہوتے تھے اوردونوں کی بیویاں بہت خوش سلیقہ اورعمدہ کھانا پکانے میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ میں متعدد موقعوں پر دونوں دوستوں کے دسترخوان پرخوش ذائقہ پکوانوں سے لطف اندوز ہوچکا ہوں جس کو یاد کرکے اب بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں۔

زبیر خاصے خوش اخلاق، ملنسار اورشرف النفس انسان تھے۔ اپنی انانیت کے باوجود اگر انھیں ان کی غلطی کا احساس دلاکر قائل کردیا جاتا تھا تو وہ بلا شرط معافی تک مانگنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یہ اتناآسان نہیں ہوتا اس کے لیے بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبیر اس حوالے سے خاصے باظرف انسان تھے۔ وہ دوسروں کے ساتھ سلوک کرکے مسرور ہوتے تھے۔

چلیے زبیر شفائی کے فن پر بھی تھوڑی سی گفتگو ہو جائے ہر چند کلمات آپ کے ہاتھ میں ہو تب قاری کی اپنی رائے میری رائے سے کہیں زیادہ معتبر ہوتی ہے اورہونی ہی چاہیے۔

وہ ایک صاحب طرز اورمنفرد اسلوب کے مالک ہیں۔ ان کی شاعری میں حواسی قوتوں کی شدت کا احساس قاری کو قدم قدم پرہوتاہے۔جذبے کا کھرا پن اور سرشاری ان کی تمام غزلوں میں آپ کو نظرآئے گی۔

جن عناصر سے انسانوں کی تخلیق ہوتی ہے ان میں آگ زبیر شفائی کے کلام میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یونانی میتھالوجی میں بیان کیا گیا ہے کہ آ گ دیوتاؤں کی دسترس میں تھی اسی لیے اسے مقدس تصور کیا جاتا رہاہے۔ جس دیوتا سے آگ انسانوں تک پہنچی اسے سزا کے طورپر سخت معتوب کیا گیا۔ زبیر کے یہاں آگ چاہے وہ چراغ کی ہی شکل میں ہو بہت اہم اورمعنی خیز استعارہ بن جاتا ہے۔ چند شعر ملاحظہ فرمائیں اورزبیر کی تخلیقی ہنر مندی اور فنی چابک دستی کی داد دینے پراپنے آپ خود کو مجبور محسوس کریںگے۔ شرط صرف صاحب ذوق ہونے کی ہے۔

چند شعر اورملاحظہ فرمائیں            ؎

آخر یہ کس گنہ کی سزا پارہا ہوں میں

جلتے ہوئے چراغ کی لو میں کھڑا ہوں میں

وہ سر سے پا تک ہے فوارہ روشنی کا

تمام اعضا میں اک اک شمع جل رہی ہے

رات کے مناظر سے فائدہ اٹھاؤںگا

میں چراغ کی لو میں چھپ کے بیٹھ جاؤںگا

دھوئیں کی انگڑائیوں سے ہے مشتعل اجالا

ہوا چراغ کے ہونٹ سے ہونٹ مل رہی ہے

رکھتے ہی ہونٹ جھوم اٹھارشتہ چراغ

لیکن مری گرفت میں پل بھر نہیں رہا

جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ زبیر اپنے اشعار میں خوبصورت قدرتی مناظر بھی پیش کرنے پر پوری طرح قادر نظرآتے ہیں۔ اس میدان میں زیب کے علاوہ ان کا کوئی حریف نظر نہیں آتا۔چند شعر دیکھیے          ؎

واضح ہوا کہ سفینہ اب کس طرف جارہا ہے

آبی پرندوں کا اک غول اڑتا نظرآرہاہے

یہ وقت کی بیکرانی آفاق کی حکمرانی

ناقہ سواروں کا پرچم کھلتا چلا جارہاہے

نکہت گل کے لیے کوچ کا اعلان نہ ہو

وہ ضیا ماند سویرا وہ گجر بجتا تھا

وصل کے بعد شب و روز عمومی ہوںگے

خوش گمانی کے سوا اور بتا کیا ہوگا

میں بلاتاخیر مرنا چاہتا ہوں

زہر کی تاثیر میں حائل دعا ہے

زبیراورزیب جدیدیت کے ہراول دستے میں شامل تھے مگر شمس الرحمان فاروقی اورنیر مسعود کے سخت انتخاب کے باوجود زرد زرخیز میں ’’شاخ اظہار پہ بیٹھا ہوا الو بولا‘‘ جیسی غزل بھی شامل ہوگئی ہے۔ جس سے زیب شناسی میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ زبیر کے پورے کلام میں اس طرح کوئی فیشن پرستی نظر نہیں آتی۔ ان کا لہجہ ٹھہرا ہوا اوررواں دواں ہے جس میں زندہ کلاسک کی آمیزش بھی ہمیں صاف نظرآتی ہے۔

Shoeb Nizam

105/591 Hafiz Hleem Compound

Bhannana Purwa, Chaman Ganj,

Kanpur- 208001 (UP(

Mob.: 8960416841


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں