12/12/22

جدید غزل کا معتبر نام فضا ابن فیضی: آفتاب احمد منیری


 ادب فی نفسہ تنقید حیات کا نام ہے۔ جس کا مقصد تخلیق گم شدہ انسانیت کی تلاش ہے۔ یہ تلاش جب صحیح سمت اختیار کرتی ہے تو میر غالب اور اقبال جیسے نابغۂ فن منصہ شہود پر آتے ہیں،  ان ادبی لجنڈز کے یہاں زندگی کا ہر رنگ موجود نظر آتا ہے۔ ادب اور زندگی کی جس قدر تعبیرات اور تشریحات سے ان کا کلام مزین ہے، اس کی دوسری مثال دور تک نظر نہیں آتی۔

اردو شاعری کی اس تثلیث کے رخصت ہو جانے کے بعد اردو کے شعری منظرنامے میں ایک قسم کا خلا پیدا ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں بیسویں  صدی کا نصف آتے آتے مشرق کی شعری روایات ماند پڑنے لگی۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اردو شعر و ادب پر بھی مغربی فکرو فلسفے کے اثرات غالب آئے۔ جدیدیت کے  بطن سے پیدا وجودی نظریات نے تنہائی تشکیک اور ذہنی اضطراب کو جنم دیا جس سے تمدنی بحران پیدا ہوااور زندگی لایعنیت کا شکار ہوکر رہ گئی۔

ایسے پر آشوب دور میں جن تخلیق کاروں نے کلاسکی شعری روایات کی پیروی کرتے ہوئے تہذیب مشرق کا پرچم بلند کیا، ان میں حسن نعیم، حفیظ میرٹھی اور خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ فضا ابن فیضی کا نام سر فہرست ہے۔

فضا نے جب اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اس وقت تک ترقی پسند تحریک کے ہنگا مے ختم ہو چکے تھے اور اردوشاعری جدید فلسفہ حیات سے متعارف ہو رہی تھی۔ فضا عام روش کے مطابق ترقی پسندی اور جد یدیت دونوں سے متاثر ہوئے۔ لیکن فکر اور نظریے کی سطح پر کسی قسم کی ادبی گروہ بندی کا شکار نہیں ہوئے، اور اپنا امتیاز سخن برقرار رکھا۔ اپنے اس شعر میں انھوں نے اس جانب واضح اشارے کیے ہیں           ؎

میرے قلم کا لہو، تیرا رنگ لب بھی غلط

جو محض نظریہ سازی ہے وہ  ادب بھی غلط

فضا ابن فیضی کی شاعری کے تنقیدی مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ کلاسکی اور جدید دونوں قسم کی شاعری سے اکتساب فیض کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کا تنقیدی شعور انھیں کلاسکی شعرا کی تقلید سے باز رکھتا ہے۔ لہٰذا وہ کلاسکی شاعری کی قرأت بھی معاصر ادبی تصورات کے سیاق میں کرتے ہیں         ؎

ہر تصور کو اسی عہد میں جا کر دیکھو

اب جو ہے کہنہ روایت سا نیا تھا کبھی

مرا ادب ہے عبارت، اسی تسلسل سے

نہ تجربوں سے روایت کا واسطہ ٹوٹا

غیر معمولی تخلیقی ذہن کے حامل فضا زبان کے خلاقانہ استعمال پر بھی قادر ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قطعی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اقبال کے بعد آنے والے شعرا کی نسل میں معدودے چند نام ہی ایسے ہیں جن کے شوکت الفاظ، بلند آہنگ، شگفتہ اسلوب اور پاکیزگیِ فکرکے چرچے عام ہوئے ہوں۔ اس ضمن میں پروفیسر مسعود حسن خاں کی رائے قابل غور ہے

’’فضا کو زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے، اس کے تخلیقی استعمال کے فن سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے روایت کا شکار نہیں ہوتے۔ دوسرے الفاظ میں وہ صوت اور لفظ کے نازک رشتوں کے محرم راز ہیں

حرف و معنی کے پوشیدہ روابط پر ان کی گہری نظر ہے اور ان کا ذہن کمپیوٹرائی سرعت کے ساتھ مانوس کو نامانوس سے ہمدگر کر دیتا ہے۔ بعض اوقات اور بعض حضرات کو ممکن ہے یہ روابط میکانکی نظر آئیں لیکن تھوڑے سے غوروفکر کے بعد ان کی تہہ داری پر قاری چونک پڑتا ہے          ؎

ہے غضب کی چیز پیچیدہ بیانی بھی فضا

شعر کے ابلاغ میں ایہام باقی ہے ابھی

فضاابن فیضی عربی و فارسی زبان کے ماہر ہونے کے ساتھ ہی ان کی گہرائیوں اور پہنائیوں کے شناور بھی تھے۔ لہذا ان کے یہاں اعلی شعری اظہار کی سطح پر نادر الفاظ و تراکیب کا ایک مخصوص مزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے شعری اسلوب اور لب ولہجے میں ایک قسم کی عالمانہ شان ہے جو قاری کے اوپر محویت طاری کر دیتی ہے اور وہ شاعری کی اس طلسماتی فضا میں گرفتار ہوجاتا ہے          ؎

منظر سیاہ پوش نہ پیکر جلا ہوا

ہر شخص اپنی ذات کے اندر جلا ہوا

خاکستری آہنگ کا پیکر ہے کہ ہم نے

شعلہ کوئی آواز کے قالب میں نہ رکھا

تو صبا ہے تو ملا کر ہم سے

ہم ہیں خوشبوکے ذخیرے آخر

مذکورہ اشعار کے مطالعے سے یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ زبان کا یہ محرم راز کس سلیقے سے اپنے تخیلات کو شعری سانچے میں ڈھالتا ہے۔

شاعر مشرق اقبال نے شاعر کا منصب بیان کرتے ہوئے کہا تھا           ؎

زینت بزم حکومت چہرہ زیبا ئے قوم

شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بے تاب قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

اپنے پیش رو اقبال کے تصور شاعری کے سیاق میں اپنا ادبی نصب العین اختیار کرتے ہوئے حساس ذہن فضا نے چیختے ہوئے سماجی شعور اور جذباتی نعروں سے پر ہیز کیا۔ دور جدیدیت میں بھی نظریاتی گروہ بندیوں سے دور رہتے ہوئے بنی نوع انسان کے ذہنی و روحانی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ مشینوں کے شہر میں آباد آج کا انسان ہر چہار جانب سے مادی یلغار کی زد پر ہے۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور مارکیٹ کلچر نے مظلوم عوام کو غربت و افلاس کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ انسان کی تعلیمی و تمدنی ترقی کے دعوے دار معاشرہ کے چہرہ سے نقاب اتر چکاہے بے چہرہ ہوچکے اس معاشرے کو دیکھ کر شاعر شدت غم کی جس کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے، اس کا بلیغ اظہار ان اشعار میں ہوا ہے          ؎

چہروں پہ جم کے رہ گئی بے چہرگی کی دھول

آکر اڑا کے رنگ سحر کون لے گیا

کس نے چرا لیں صورتیں اس کی کہ یوں ہوا

بے چہرگی کے غم سے فگار اور آئینہ

بجز لا حاصل کیا اور بام و در پہ رکھا ہے

دیابے منظری کا طاق ہر منظر پہ رکھا ہے

شعری صنعتوں کے فن کارانہ استعمال میں بھی فضا ابن فیضی کو کمال حاصل ہے۔ مثلا ان کی غزلوں میں مناسبت لفظی کے ساتھ ترجیع  و تجنیس کا جو اہتمام ملتا ہے وہ ان جیسے ماہر فن کا اختصاص ہے۔

فضا نے اپنی غزل میں کلاسیکی شعری روایات کے احترام کے ساتھ ساتھ غزل کی اس وجد آفریں فضا کو بھی نہایت سلیقے سے برتنے کی کوشش کی ہے جو اردو کی صوفیانہ شاعری کے مزاج سے بھی قریب نظر آتی ہے۔ مثلا درج ذیل اشعار میں یقین، تشکیک، عقیدہ، موجود، لا موجود جیسے الفاظ اور جسم کا پنجرا، نیز روح کے پنچھی کے اُڑ جانے جیسے شعری پیکر فضا ابن فیضی کے مابعد الطبعیاتی رجحان کی طرف قاری کے ذہن کو ملتفت کرتے ہیں         ؎

بدن کے زندہ سفر میں قائم

نفس نفس بادبان اس کا

بس ایک تشکیک میری پونجی

یقین اس کا گمان اس کا

پنچھی میں کب ہمت تھی اڑ جانے کی

وہ تو کہیے جسم کا پنجرا ٹوٹ گیا

جہاں عاجز رہی دانش عقیدے کام آئے

نہ تھا کچھ سہل لا موجود کو موجود رکھنا

ہر بڑا شاعر اپنی ادبی روایات سے قریب ہوتا ہے۔ فضا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ان کی غزلوں میں کلاسیکی شاعری کا رنگ تو غالب ہے ہی انہیں اس رنگ کو قوس قزح میں تبدیل کرنے کا ہنر بھی آتا ہے        ؎

دباؤ مجھ پہ ہواؤں کا سخت ہونے لگا

جو بیج بویا تھا میں نے درخت ہونے لگا

میں کیسے قصہ عہد بدن دریدہ لکھوں

پھر انگلیوں میں قلم لخت لخت ہونے لگا

 

کامل تھی کتنی اس کی ادائے سپردگی

اک سانپ تھا جو سارے بدن سے لپٹ گیا

سراب کے وہ مسافر، ادھر آنکلے

اڑی ہے کتنی سمندر میں دھول مت کہنا

استاد شعرا کی زمین  میں شعر کہنا جدید ادب کے نمائندہ تخلیق کاروں کا خاص شغف رہا ہے۔ فضا نے بھی اس فن میں طبع آزمائی کی ہے عالب کے رنگ میں کہا گیا ان کا ایک شعر آج بھی لوگوں کو سر دھننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ غالب کی مشہور غزل ’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک‘ کا ایک شعرہے          ؎

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

اس شعر میں موجود فکرو فلسفے کی بلندی کو فضا نے اس شعر کے ذریعے کامیابی کے ساتھ چھونے کی کوشش کی ہے          ؎

موج مصروف تھی خود اپنا سفر کرنے میں

ورنہ کیا دیر تھی قطرے کو گہر کرنے میں

اگرچہ دونوں اشعار کی ردیف مختلف ہے تاہم شعر کی فنی خوبیوں سے لے کر فکر و فلسفے کی گہرائی تک دونوں شعروں میں حیرت انگیز  یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہ شعری تجزیہ اس بات کو سند اعتبار عطا کرتا ہے کہ مشرقی یوپی کے دور افتادہ ضلع کا یہ باشندہ کوئی معمولی غزل گو نہیں۔ بقول قمر رئیس

’’فضا کی غزلوں میں ان کے عہد کا اجتماعی آشوب اور شخصی حقائق کا کرب دونوں کی آمیزش دیکھنے کو ملتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ روایت کے تو انا عناصر کو جذب کرنے کے باوجود فن شاعری کے جدید تقاضوں کو برتنے کا ہنر جانتے تھے۔ راست اظہار کے بجائے استعاراتی اسلوب میں اپنی بات کہتے۔ اگرچہ بجا طور پر انہیں شکوہ بھی رہا          ؎

ہم سجاتے رہ گئے اپنی بصیرت کی دکان

پاگئے داد ہنر کتنے ہنر ناآشنا‘‘

فن شاعری کو فکروآگہی کا سرچشمہ بنانے والے اس ممتاز غزل گوکی عظمتوں کا اعتراف بھی کیا گیا اور ادبی حلقوں میں اسے داد و تحسین سے بھی نوازہ گیا وہ اس خراج تحسین کے ہر طرح سے لائق بھی تھے۔ جہاں ایک سمت ان کی نکتہ سنجیوں، نادر ترکیبوں اور صوتی آہنگ نے جدید شاعری کو ایک نیا موڑ دیا وہیں دوسری جانب اسلامی روایات کی پاسداری نے ان کو دیگر معاصر شعرا میں ممتاز کر دیا۔ لفظوں کے حسن انتخاب، علوئے فکر، جدت طرازی اور شعری تراکیب کی مدد  سے انھوں نے خشک تصور کیے جانے والے موضوعات کو سحر انگیز اسلوب میں ڈھال کر کے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری مسحور ہو کر رہ جائے۔ جب یہ شعری تخیلات لفظوں کے پیکر میں ڈھل کر نمایاں ہوتے ہیں تو شاعر کی جلوہ گری اور عشوہ طرازی کی گواہی دیتے ہیں          ؎

پابندیِ تقدیر نہیں شیوۂ مومن

تد بیر سے اس کی حد تقدیر  ملی ہے

ارباب صنم خانہ بہ حیرت نگراں ہیں

اسلام کو وہ سطوت تعمیر ملی ہے

تہذیب جدید اور آج کی مادی دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ روحانیت اور اخلاقی قدروں سے محروم ہو کر ظلمتوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ وہ بنی آدم جو اپنے علم وفضل کی بنا پر کبھی مسجود ملائک بنا تھا  دنیوی حرص وہوس کا شکار ہو کر اپنی پرواز بھول بیٹھا ہے۔ شاہین کا کردار فراموش کر زاغ کی فطرت اختیار کرنے والے انسان کی کم نگہی اور عیاری نے فضا کو طنز کی شدت میں ڈوبے یہ اشعار کہنے پر مجبور کیا          ؎

پاش پاش آئینہ طلعت شبنم تو نہیں؟

تھا جو ’’مسجود ملائک‘‘ یہ وہ آدم تو نہیں؟

خاک بے نور کا فانوس پہ سورج کا گہن

رات کی زرد قبا، صبح کی میت کا کفن

عالم بے عمل و حاجی بے مکہ و خیف

فاضل بے کتب و غازی بے نیزہ و سیف

مذکورہ اشعار میں اپنے پیش رو اقبال کا کامیاب تتبع کرنے والے فضا ابن فیضی صرف عذاب دانش حاضر کا نوحہ نہیں کرتے بلکہ وہ نسخہ کیمیا بھی عطاکرتے ہیں جس سے کہ فکری انحطاط کے شکار انسانوں کی چارہ سازی ہو سکتی ہے          ؎

جہاں میں زندگی مستقیم پیدا کر

قرون خیر کی شان قدیم پیدا کر

زمانہ تجھ سے بغاوت کی چال چل نہ سکے

وہ زور دست عصائے کلیم پیدا کر

جہان کفرہے پھر معجزہ طلب تجھ سے

فلک پہ پھر کوئی ماہ دو نیم پیدا کر

ادبی دانش کدے میں فکری بصیرت کے ساتھ مذہبی افکار کا بھرپور اظہار بھی فضاکے دست ہنرکا کمال ہے۔ کس قدر خوبصورتی کے ساتھ وہ عصری احساسات سے بھر پور واقفیت نیز جدید تقاضوں سے مکمل آگہی کے ساتھ قدیم موضوعات کو موضوع سخن بناتے ہیں۔ قدیم وجدید کے اس حسن امتزاج نے ان کے کلام کو سند اعتبار عطا کیا ہے۔ میں اپنی بات فضا کے اس شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں            ؎

یہ شاعری جو ہے اک نوع کی عبادت ہے

فضا اسے کبھی شوق فضول مت کہنا

کتابیات

  1. جابر زماں (مرتب)، کلیات فضا ابن فیضی مکتبہ نعیمیہ، مئوناتھ بھنجن، یوپی
  2. قمر رئیس، ایوان اردو دہلی، مارچ 2009
  3. مسعودحسین خان، مقالات مسعود

Dr. Aftab Ahmad Manery

Dept. of Urdu, JMI

New Delhi - 110025

Mob. 9319663297

Email. aahmad9@jmi.ac.in

1 تبصرہ:

  1. فضا ابن فیضی صاحب کے حوالے سے لکھا آپ کا یہ مضمون پڑھا۔ بےحد عمدہ لکھا آپ نے ۔ حقیر کے خیال سے آپ نے حق ادا کر دیا ۔ خوووب
    اللّٰہ کرے زور قلم اور زیادہ

    فضا حقیر کے بھی ممدوحین میں سے ہیں ۔ 2009 میں چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ لکھنے کی کوشش کی تھی۔

    بہرحال آپ کا شکر گزار ہوں اور ہدیہء تبریک پیش کرتا ہوں ۔
    شکریہ 💐💐💐

    جواب دیںحذف کریں