5/12/22

محمد علوی کی شاعری کی مخصوص لفظیات: شفا مریم


 جدید اردو غزل اور نظم میں ایک منفرد مقام و مرتبہ کے مالک ہیں۔ زندگی کو ایک خاص انداز سے دیکھنا اور سادہ اسلوب میں اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرنا ان کی شاعری کی خصوصیت ہے۔جدید شاعری کی امتیازی شناخت شعرا کا لفظیات اور اسلوب پر زور دینا ہے جو انھیں اپنے ما قبل کی شعری روایت سے انفرادیت عطا کرتا ہے جدید شاعری میں تجربے پر زور دیا گیا نئی شعری تراکیب،نئے استعارے اور نئی علامتیں وضع کرنے پر اصرار کیا گیا اسی وجہ سے زبان کا مخصوص استعمال ہی جدید شعری رجحان کے طور پر سامنے آیا اور موضوع کو ثانوی حیثیت حاصل رہی جدید شعری جمالیات میں جدلیاتی الفاظ اور ایہام کو بنیادی اہمیت دی گئی جدلیاتی الفاظ سے شمس الرحمن فاروقی تشبیہ، استعارہ، پیکر اور علامت مراد لیتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ:

’’فنی تخلیق، حقیقت کی تخلیق نو ہے فن پارہ قائم بالذات ہوتا ہے اور اس میں لفظ و معنی کی وحدت ہوتی ہے ان تین تصورات کی تکمیل شعری جمالیات کے چوتھے اصول سے ہوتی ہے کہ یہ تین باتیں اسی وقت قائم ہوتی ہیں جب فنکار اپنی بصیرت کے اظہار کے لیے علامت، استعارہ، پیکر اور دوسرے جدلیاتی نوعیت کے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔‘‘ ( جدید شعری جمالیات:شمس الرحمن فاروقی ص 60(

جدید شاعری میں کلاسکی شاعری کے بر خلاف شعرا کے یہاں اسلوب اور طرز اظہار میں فرق ملتا ہے جہاں انھوں نے تجربے سے کام لیا،زبان کا تخلیقی استعمال کیا اور ذاتی تجربات کو شاعری میں نظم کیا۔جدید شعرا میں یوں تو سب کی شاعری میں زبان و بیان کی سطح پر شکست و ریخت کی کیفیت ملتی ہے لیکن ظفر اقبال اور عادل منصوری کے یہاں زبان و بیان کی سطح پر انحراف کی صورتیں کثرت سے نظر آتی ہیں۔

جدید شاعری میں نئے استعارے اور نئے علائم وضع کرنے پر اصرار کے سبب نئی لفظیات بکثرت دیکھنے کو ملتی ہیں اسی وجہ سے جدید شاعری میںزبان کا انفرادی استعمال نظر آتا ہے۔محمد علوی کی شاعری میں بھی کچھ مخصوص لفظیات کا استعمال ملتا ہے جس سے ان کی انفرادیت مستحکم ہوتی ہے ان کا اسلوب سادہ، لہجہ عام ہے کہیں وہ بے ساختگی اور گفتگو کے انداز میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں اور کہیں خود کلامی اور حیرت و استعجاب کو بروئے کار لاتے ہیں۔جدید شاعری میں لفظیات اور اسلوبیات کے تجربات کی وجہ سے شعرا نے زبان کے ساتھ بہت تبدیلیاں کیں جس سے لسانی شکست و ریخت کی بہت سی مثالیں اس دور کی شاعری میں نظر آتی ہیں اور لسانی شکست و ریخت اور لفظیات کی سطح پر تجربات اتنے بڑھے کہ کہیں کہیں صرف زبانی کرتب بازی کو ہی شاعری سمجھا جانے لگا لیکن محمد علوی جدید شاعری کو صرف اسلوبیاتی تجربات کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ فکر و فن دونوں سطحوں پر تخلیقی صحتمندی کی اہمیت کے قائل نظر آتے ہیں وہ صرف الفاظ کے ذریعے جدید شاعری کرنے والوں کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں        ؎

عجب انجان لفظوں سے بھری ہے

لغت ہے یا ہماری شاعری ہے

کیوں سر کھپا رہے ہو مضامیں کی کھوج میں

کر لو جدید شاعری لفظوں کو جوڑ کر

علوی  غزل تو کہنے چلے ہو نئی مگر

رکھ دو نہ تم خیال کے بخیے ادھیڑ کر

اور کہیں جدید شاعری کی حد درجہ بڑھی ہوئی مہملیت، زبانی کرتب بازی اور صرف ایہام کو شاعری خیال کرنے والوں پر بھی طنز کرتے نظر آتے ہیں        ؎

نئی نظم علوی اشاروں میں تھی

اشارے بھی حد درجہ موہوم تھے

سننے والوں کا کچھ قصور نہیں

نیا شاعر بچارہ ہکلا ہے

ارے یہ شاعری ہے

یہ کیسی دھاندلی ہے

محمد علوی  کی شاعری میں بھی زبان کا استعمال اور پیش کش کامنفرد انداز انھیں دیگر جدید شعرا میں ممتاز کرتا  ہے۔  انھوں نے اپنے لہجے کی سادگی اور تحیر کی کیفیت سے ایک انوکھا اسلوب پیدا کیا ہے اور اسی سادگی سے اپنی شاعری میںکامیاب تجربات کا  اظہار کیا ہے جو انہی کا خاصہ ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں            ؎

اتار پھینکوں بدن سے پھٹی پرانی قمیض

بدن قمیض سے بڑھ کر کٹا پھٹا دیکھوں

چاند ہی چاند یہاں سے گزرے

یہ سڑک پھر بھی سیاہ فام رہی

بہت ہی لال پیلے ہو رہے ہیں

صبا پھولوں سے جانے کہہ گئی کیا

محمد علوی کی شاعری کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ ان کی شاعری جو بظاہر سہل اور آسان نظر آتی ہے اتنی آسان نہیں ہوتی بلکہ شاعر عام توقعات کی تقلیب کر دیتا ہے اور یہی محمد علوی کا مزاج ہے کہ پہلے کسی عام سے بیا ن کو نظم کرتے ہیں اور پھر کسی غیر متوقع بیان سے پوری کیفیت کو ہی بدل دیتے ہیں یہی باطنی احساس کاوہ رخ ہے جو عموما نظروں سے اوجھل رہتا ہے اور یہی وہ احساس ہے جو سامنے کی بات میں گہرائی پیدا کر دیتا ہے جس سے ایک انوکھی اور حیرت و استعجاب کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے جسے گوپی چند نارنگ نے احساس کے دوسرے پن سے عبارت کیا ہے مثال کے طور ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں           ؎

اور بازار سے کیا لے جاؤں

پہلی بارش کا مزہ لے جاؤں

کچھ تو سوغات دوں گھر والوں کو

رات آنکھوں میں بسا لے جاؤں

گھر میں ساماں تو ہو دلچسپی کا

حادثہ کوئی اٹھا لے جاؤں

مذکورہ غزل میں بات عام بیان سے شروع ہوکر غیر متوقع بیان پر مکمل ہوتی ہے بازار سے کچھ گھر لے جانا عام طور پر ہوتا ہے لیکن پہلی بارش کا مزہ لے جانا عمومی بیان نہیں ہے یہ ایک غیر متوقع بیان ہے سوغات میں کسی شے کو دینے کا تصور رائج رہا ہے لیکن رات آنکھوں میں بطور سوغات بسا لے جانا عام بیان نہیں ہے اور اگلے شعر میں دلچسپی کے سامان کے لیے حادثہ اٹھا لے جانا انتہائی غیر متوقع صورت حال کا بیان ہے جسے محمد علوی نے سادگی سے شعر میں بیان کر دیا ہے اور یہ انداز بیان ان کی شاعری میں عام طور پر ملتا ہے جہاں وہ منطقی توقعات کو پلٹ کر قاری کو انوکھی کیفیت سے دوچار کرتے ہیں ان کی اسی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ نے کیا بصیرت افروز بات کہی ہے

’’محمد علوی کا شعری عمل زبان کی عمومی منطقی توقعات کو پلٹنے کا ہے یہاں منطقی بخیہ ادھڑنے لگتا ہے اور معنی کا شرارہ کسی انوکھی لذت کے ساتھ جلنے بجھنے لگتا ہے۔‘‘

( محمد علوی اور احساس کا دوسرا پنگوپی چند نارنگ ص 34)

جدیدیت میں نئے مسائل جیسے تنہائی، اجنبیت، بے گھری، خوابوں کی شکست وغیرہ موضوعات کے اظہار کے لیے جدید شعرا نے فطرت کا مطالعہ کیا اور فطرت سے الفاظ اخذ کیے جیسے سورج، جنگل، پھول، پرندے، پیڑ، پتھر، ریت وغیرہ جنھوں نے جدید شاعری میں علامتی حیثیت اختیار کر لی اور اس طرح جدید شعری زبان جدید لفظیات کے ساتھ سامنے آئی جو فطرت اور روز مرہ سے قریب تھی۔

محمد علوی کی شاعری میں بھی اپنے عہد کے مسائل کا اظہار کچھ مخصوص لفظیات کے ذریعے ہو اہے جس میں پرندہ، جنگل، سمندر،گھر، خواب، پتھر، رات، موت، دھوپ وغیرہ اہم ہیں مثلا پرندے کا استعمال ان کی شاعری میں اکثر ہوا ہے اور ہر جگہ پرندہ الگ معنویت کے ساتھ سامنے آیا ہے مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیے        ؎

پرندے اڑے پھڑپھڑاتے ہوئے

بہت شور اٹھا رات جاتے ہوئے

پرندہ عموما شاعری میں آزادی،بلندی اور پرواز کی علامت بن کر آتا ہے اور کہیں زندگی میں حوصلے کی علامت بن کر۔یہ جدید شاعری کا ایک اہم لفظ ہے مذکورہ شعر میں پرندے کاپھڑپھڑاتے ہوئے اڑنا یا رخصت ہونا زندگی کی معصومیت کے خاتمے یا جدائی کی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے لفظ پھڑپھڑانے سے سمعی،حرکی،حسی اور بصری پیکر بیک وقت محسوس ہوتے ہیں          ؎

دور تک بیکار سی اک دوپہر

اک پرندہ بے سبب اڑتا ہوا

یہاں پرندہ مایوسی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے         ؎

اک پرندہ سنا رہا تھا غزل

چار چھ پیڑ مل کے سنتے تھے

مذکورہ شعر میں پرندہ گاؤں کی زندگی یا فطرت کی خوبصورتی کی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے        ؎

پرندے دور فضاؤں میں کھو گئے علوی

اجاڑ اجاڑدرختوں پہ آشیانے تھے

اس شعر میں پرندہ زندگی کی معصومیت کے خاتمے اور شہری زندگی کے عذاب کی طرف اشارہ کرتا ہے کلاسیکی غزل میں پرندوں میں قمری و بلبل اور پروانے کا ذکر ہی زیادہ ملتا تھا جدید غزل میں ہر طرح کے پرندے نظر آتے ہیں کیونکہ یہاں شعرا کو کھلی فضا میسر آئی تاکہ ہر طرح کے تجربات اور لفظیات غزل کے دامن میں شامل ہو سکیں۔

پرندے کے علاوہ لفظ جنگل محمد علوی کی فرہنگ شاعری کا ایک اہم لفظ ہے جو ان کی شاعری میں بکثرت استعمال ہوا ہے کہیں ماضی کی علامت بن کر اور کہیں سکون کے حصول کا ذریعہ بن کر۔جدید شاعری میں جنگل لغوی اور علامتی دونوں معنی میں نظر آتا ہے لیکن زیادہ تر علامتی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے نئے مسائل اور پریشانیوں سے تنگ آکر انسان کھلی فضا میں سانس لینے کی خواہش کرتا ہے اور جنگل میں اسے یہ سکون میسر آتا ہے۔ محمد علوی کے یہاں جنگل کا استعمال ان کی نظموں اور غزلوں دونوں میں ملتا ہے مثال کے طور پر یہ غزل ملاحظہ ہو         ؎

روشنی کچھ تو ملے جنگل میں

آگ لگ جائے گھنے جنگل میں

آپ کو شہر سے ڈر لگتا ہے

ہم تو بے خوف رہے جنگل میں

ایک اک شاخ زباں ہو جائے

کوئی آواز تو دے جنگل میں

پیڑ سے پیڑ لگا رہتا ہے

پیار ہوتا ہے گھنے جنگل میں

خوب تھے حضرت آدم علوی

بستیاں چھوڑ گئے جنگل میں

مذکورہ غزل میں جنگل شہر کے برعکس معنی میں استعمال ہوا ہے انسان جدید معاشرے میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور کسی کو اپنا ہمدرد نہیں پاتا تو خود کو سکون پہچانے کے لیے وہ جنگل کی طرف رخ کرتا ہے کیونکہ جنگل میں محبت اور پیار ملتا ہے وہاں ایک دوسرے کے لیے دلوں میں ہمدردی ہوتی ہے’ پیڑ سے پیڑ لگا رہتا ہے ‘ اور یہی محبت انسان کو درکار ہے اسی وجہ سے لفظ جنگل کا استعمال جدید شاعری میں کثرت سے ملتا ہے جنگل علوی کے خوابوں کی دنیا ہے چند اشعار اور ملاحظہ فرمائیے       ؎

جنگلوں میں بھی راہ جاتی ہے

شہر میں کیوں پھرا کرے کوئی

جی کھول کے پیڑوں نے لٹائے پتے

خیرات ہی خیرات ہوئی جنگل میں

دن ڈوب گیا رات ہوئی جنگل میں

اپنے سے ملاقات ہوئی جنگل میں

غزلوں کے اشعار کے علاوہ ان کی نظموں میں بھی یہ تصور نظر آتا ہے ان کی نظم ’جدائی کا غم‘ ان کے خوابوں اور تمناؤں کے خوف کو ظاہر کرتی ہے         ؎

گھنے جنگلوں میں /درختوں کی شاخوں پہ/ بیٹھے ہوئے/ آدمی کی شباہت کے/ بندر کی آنکھوں میں / (چپڑی ہوئی/ ادھ کھلی، سرد آنکھوں میں )/ غم یوں جھلکتا ہے، جیسے/ ابھی اس کے ساتھی/ ذرا دیر پہلے/ اسے چھوڑ کر دور.../ جنگل کے اس پار/ سر سبز و شاداب/ میدان میں جا بسے ہیں!!

مذکورہ نظم میں جدید عہد کے اہم موضوع شہری زندگی اور اس کے متعلقات کو نظم کیا گیا ہے جہاں جدائی کا احساس حاوی ہے لیکن سردست شہری زندگی کی طرف ہجرت اورجنگل چھوٹ جانے کی تکلیف کا احساس بھی ہوتا ہے۔

گھر‘کا لفظ جدید شاعری میں ایک اہم علامت کے طور پر سامنے آتا ہے تقریبا ہر جدید شاعر کے یہاں اس کا استعمال نظر آتا ہے گھر سے وابستگی، گھر کی روایات، گھر کی رسومات، بے گھری، ہجرت، گھر کی یاد وغیرہ موضوعات کے تحت ’گھر‘ جدید شاعری میں اہمیت اختیار کر گیا ہے۔شاعری میں گھر کے لفظ کے ذکر کے بغیر محمدعلوی کی لفظیات کا احاطہ مکمل نہیں ہو سکتا ان کے یہاں ’گھر‘ کا لفظ علامت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جو ان کی شاعری میں اکثر و بیشتر نظر آتا ہے۔ گھر وہ ہے جس سے تحفظ کا احساس وابستہ ہوتا ہے جدید عہد میں گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت نے انسان کے اندر بے گھری کا احساس پیدا کیا وہ اپنا گھر چھوڑ کر شہر کی طرف ہجرت کرتا ہے تو بے گھری اس کا مقدر ہوتی ہے۔محمد علوی کے یہاں گھر اور اس کے متعلقات کا استعمال اتنا زیادہ ہے کہ ان کے پہلے مجموعے کا نام ہی ’خالی مکان ‘ ہے اور اس کی پہلی نظم سے ہی مجموعے کا نام اخذ کیا گیا ہے نظم ملاحظہ ہو      ؎

جالے تنے ہوئے ہیں، گھر میں کوئی نہیں

کوئی نہیں ‘ اک اک کونا چلاتا ہے

دیواریں اٹھ کر کہتی ہیں کوئی نہیں

کوئی نہیں‘ دروازہ شور مچاتا ہے

کوئی نہیں اس گھر میں کوئی نہیں لیکن

کوئی مجھے اس گھر میں روز بلاتا ہے

روز یہاںمیں آتا ہوں ہر روز کوئی

میرے کان میں چپکے سے کہہ جاتا ہے

’’کوئی نہیں اس گھر میں کوئی نہیں پگلے

کس سے ملنے روز یہاں تو آتا ہے‘‘

یا ’ایک نظم ‘ کے عنوان سے ان کی یہ نظم ملاحظہ ہو جس میں اداسی کا احساس نمایاں ہے        ؎

آج یہ گھر کتنا سونا ہے /یوں لگتا ہے جیسے کوئی/ اس گھر کے سارے ہنگامے/ جاتے جاتے توڑ گیا ہے/ اور اپنی زہریلی یادیں/ سارے گھر میں چھوڑ گیا ہے

گھر سے بے گھری کا احساس بھی ان کی شاعری میں شدت اختیار کر گیا ہے کیونکہ ان کا تعلق سر زمین گجرات کے شہر احمدآباد سے ہے جہاں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں بے گھری ان کا ذاتی تجربہ ہے اسی وجہ سے اس تجربے کا اظہار ان کے یہاں شدت اختیار کر گیا ہے مثلا یہ اشعار دیکھیے      ؎

ابھی میں اپنے گھر میں سو رہا تھا

ابھی میں گھر سے بے گھر ہو گیا ہوں

 میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا تھا

گلی کا شور گھر میں آگیا تھا

گھر سے باہر کس بلا کا شور تھا

میرے گھر میں جیسے میں خود چور تھا

اوروں کے گھر جلا کے قیامت نہ کر سکا

گھر میرا جل گیا میں شکایت نہ کر سکا

مذکورہ تجربات کی وجہ سے گھر ان کی شاعری میں کلیدی حیثیت اختیار کر گیا ہے مغنی تبسم لکھتے ہیں کہ:

’’گھر‘ اپنے تکرر کی وجہ سے محمد علوی کی فرہنگ غزل کا ایک مانوس اور مخصوص جز بن گیا ہے اور جس شعر میں بھی استعمال ہوا ہے بالعموم کلیدی لفظ بن کر آیا ہے‘‘

) محمد علویگھر اور جدید غزل،مغنی تبسم ص 106(

بے گھری اور عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے کہیں کہیں وہ مایوس نظر آتے ہیں         ؎

مجھے یہ دکھ کہ میں نے یہ گھر بنایا کیوں

یہ گھر ہے آگ کی لپیٹوں میں اور میں گھر میں ہوں

جدید شاعری میں بے حسی، لاتعلقی اور بیزاری کو ظاہر کرنے کے لیے پتھر، دیوار، دھوپ اور سمندر جیسی لفظیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں  چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں     ؎

ہم سے جو آگے گئے وہ کتنے مہرباں تھے

دور تلک راہ میں ایک بھی پتھر نہ تھا

پتھر جدید شاعری میں رکاوٹ اور بے حسی کی علامت کے طور پر ملتا ہے۔ مذکورہ شعر میں حسرت ہے کہ اسلاف خوش قسمت تھے کہ انھیں وہ سختیاں نہیں جھیلنا پڑیں جو جدید عہد کا مقدر ہیں          ؎

چلتے چلتے پاؤں پتھر ہوگئے

ہم تو رستے کا مقدر ہوگئے

یہاں بھی سفر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ملتا ہے جہاں ایک کے بعد ایک رستہ ہے اور منزل کا کہیں پتہ نہیں۔ ان سختیوں اور مصائب کے لیے لفظ دھوپ کا استعمال بھی تقریباً اسی مفہوم میں ملتا ہے        ؎

سفر میں سوچتے رہتے ہیں کہ چھاؤں آئے کہیں

یہ دھوپ سارا سمندر ہی پی نہ جائے کہیں

 یہاں بھی سفر،دھوپ، سمندر جیسے الفاظ کے ذریعے لا متناہی پریشانیوں کا بیان ہے         ؎

درختوں نے رستے میں روکا بہت

رہا دھوپ کا سلسلہ دور تک

دھوپ‘ نظم میں عمدہ تمثیل نگاری نظر آتی ہے         ؎

اجلی اجلی دھوپ آنگن میں در آئی

ہلکے ہلکے قدموں سے دہلیز چڑھی

ڈرتے ڈرتے دروازے میں پاؤں دھرا

گھر میں گھور اندھیرے کو بیٹھے دیکھا

شرمائی، جھجکی، گھبرائی، لوٹ گئی !

لفظ دھوپ میں چھوٹی بحر کے کچھ اشعار بہت خوبصورتی سے نظم کیے گئے ہیں مثلا        ؎

دھوپ میں شجر چمکے

تتلیوں کے پر چمکے

دھوپ نے گزارش کی

ایک بوند بارش کی

چھوٹی بحروں میں اکثر ان کی غزلیں نظر آتی ہیں جہاں وہ اپنی بات سادگی سے کہہ جاتے ہیں لیکن طرز اظہار چونکنے پر مجبور کر دیتا ہے دھوپ میں تتلیوں کے پر چمکنااور دھوپ کا خود بارش کی خواہش کرنا عام لیکن خوش کن کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔

جدید عہد میں جہاں انسان مشینی زندگی کا عادی ہو گیا ہے جس کی وجہ سے بے حسی عام طور پر نظر آتی ہے جس کا اظہار محمد علوی  کی شاعری میں جہاں دھوپ، سمندر،اندھیرا کے ساتھ ساتھ لفظ دیوار کی علامت کے ذریعے بھی ہوا ہے مثلا         ؎

یہ دیواریں بھی اب گرنے لگی ہیں

یہاں بھی وقت کا سایہ پڑا ہے

مذکورہ شعر میں دیواریں اسلاف کی یادیں، نشانیاں اور پرانی یادداشت کا حصہ ہیں جو اب بوسیدہ ہو چکی ہیں اور وقت نے انھیں بے وقعت کر دیا ہے جدید عہد میں انتشار کی کیفیت کے اظہار کے لیے شعرا نے لفظ ریت کا استعمال عام طور پر کیا ہے محمد علوی کے یہاں بھی ذات کے بکھراؤ اور انتشار کو بیان کرنے کے لیے ریت کو بطور علامت استعمال کیا گیا ہے ان کی نظم ’ریت‘ مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

سکون ریت کا/ایک ذرہ ہے/ جو ریت نے کھا لیا ہے / اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرو/ اونٹ پر/ اپنی تنہائیاں لاد کر/ یا برہنہ/ دہکتے ہوئے ریگ زاروں میں / بھٹکا کرو/ اور سرابوں کو دیکھو / تو آنکھیں چرالو/ کہ سب ریت ہی ریت ہے/ ریت ہے/ ریت

جن الفاظ کا ذکر کیا گیا ان کے علاوہ بھی کچھ لفظ محمد علوی کی فرہنگ شاعری کا حصہ رہے ہیں مثلا دریا، پانی، ساحل، بارش، برسات، بادل، کنواں، دشت، صحرا، خرابہ، ہوا، شور، گاؤں، کھیت، پگڈنڈی، آئینہ، چھت، دروازہ، دریچہ، آہٹ، آگ، دھواں،آسمان، سورج، صبح، دوپہر، شام، حادثہ وغیرہ الفاظ کا استعمال استعاراتی اور علامتی انداز میں اکثر ملتا ہے۔

مذکورہ لفظیات کے علاوہ کچھ ایسے الفاظ کا استعمال بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے جو شاعری کا معیار تصور نہیں کیا جاتا اور غزل کے مزاج کے منافی سمجھا جاتا ہے ان کی شاعری میں نظر آتا ہے مثال کے لیے ان کی یہ مشہور غزل ملاحظہ ہو            ؎

ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے

فضا کا رنگ نیلا ہو گیا ہے

ابھی دو چار ہی بوندیں گری ہیں

مگر موسم نشیلا ہو گیا ہے

کریں کیا دل اسی کو مانگتا ہے

یہ سالا بھی ہٹیلا ہو گیا ہے

خبر کیا تھی کہ نیکی بانجھ ہوگی

بدی کا تو قبیلہ ہو گیا ہے

مذکورہ غزل میں محمد علوی نے نکیلا، نشیلا، ہٹیلا جیسے الفاظ کا استعمال بلا تکلف کیا ہے اس طرح کے الفاظ عموما شاعری میں مستعمل نہیں ہوتے ہیں۔

الغرض محمد علوی کی شاعری میں جدید لفظیات کا استعمال منفرد انداز میں نظر آتا ہے وہ شاعری کو صرف لفاظی کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ فکر و فن دونوں سطحوں پر شاعری کی صحتمندی کے قائل نظر آتے ہیں ان کا انداز بیان چونکا دینے والا ہے وہ عمومی بیان کو اپنی تخلیقی صلاحیت سے اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نئی معلوم ہونے لگتی ہیں اور اس کے لیے وہ لسانی تجربات سے نہیں گھبراتے۔ انھوں نے پرندہ، جنگل، گھر، سمندر، ریت، دیوار، پتھر، خواب، موت، دھوپ جیسی لفظیات کو اپنے انداز میں استعمال کرکے جدید شاعری میں قابل قدر اضافہ کیا ہے تجربہ اور بے ساختہ لہجہ ان کی شناخت ہے جو انھیں جدید شعرا میں ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے۔


Shifa Maryam

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

Mob.: 8865831287


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں