5/12/22

نیاز فتح پوری کی رومانی افسانہ نگاری: عامر اقبال



 نیاز فتح پوری(1884-1966)  کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے خون جگر سے گلشن ادب کی آبیاری کی۔ وہ مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی علمی خدمات بہت وسیع ہیں۔ انھوں نے ادب کی مختلف اصناف میں اپنی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں اور ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ نیاز فتح پوری نے اپنی تحریروں کے ذریعے زبان کو ایسا حسن اور ایسی لطافت بخشی کہ نثر میں بھی نظم کی شیرینی محسوس ہونے لگی۔ ان کی سحر انگیز تحریریں قاری کے ذہن کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ نیاز فتح پوری کی تحریروں میں ان کے قلب کی نرمی اور جذبات کی گرمی دونوں بیک وقت نمایاں ہوتی ہیں۔ نیاز فتح پوری نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا لیکن جلد ہی وہ انشائے لطیف اور افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوگئے۔ انھوں نے ادبی، تنقیدی، سماجی، سیاسی، علمی اور مذہبی موضوعات پر مضامین بھی لکھے جو غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ نیاز فتح پوری کی فطرت بڑی متجسس تھی۔ ان کا تحقیقی ذہن سطحی ادب سے کوئی تاثر قبول نہیں کرتا تھا۔ انھوں نے تنقید نگاری  کے ضمن میں بھی ایک الگ راہ نکالی۔ ان کا تنقیدی زاویہ فلسفیانہ اساس پر مبنی ہے۔ تنقید کے ساتھ ساتھ نیاز فتح پوری نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ انھوں نے اپنی گراں مایہ تخلیق سے اردو افسانوی ادب کو گراں بار کیا۔ نیاز فتح پوری کے افسانے زندگی سے متعلق ہیں اور زندگی کے تمام حسین اور جمالیاتی پہلووں کی عکاسی کرتے ہیں۔

اردو کے افسانوی ادب میں رومانی رجحانات کے تحت افسانہ لکھنے والوں میں نیاز فتح پوری کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ وہ اردو کے ابتدائی رومانی افسانہ نگاروں میں سے تھے۔ ان کا اولین مطبوعہ افسانہ ’ایک پارسی دوشیزہ کو دیکھ کر‘ ہے جو ’تمدن‘ دہلی، جنوری 1913میں شائع ہوا۔

)مرزا حامد بیگ، ’اردو افسانے کی روایت‘ ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2014، ص 343(

نگارستان،جمالستان، نقاب اٹھ جانے کے بعد، حسن کی عیاریاں اور دوسرے افسانے وغیرہ ان کے ناقابل فراموش افسانوی  مجموعے ہیں۔ نیاز فتح پوری کی تحریروں میں جوش اور بیان کا ایسا پرکشش سلیقہ ملتا ہے جس کے ذریعے ان کی تحریریں اور تراکیب لفظی خوبصورت ترین ہو جاتی ہیں۔ انھوں نے متعدد جذبات و کیفیات کو اپنے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ ذہن تھوڑی دیر کے لیے مسحور ہو جاتا ہے۔ نیاز فتح پوری کے افسانوں کا موضوع حسن و عشق ہے جس میں شاعرانہ رنگینی بھی پائی جاتی ہیں اور جس کا اسلوب بیان بھی بہت سحرانگیز ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:

’’نیاز کے افسانے دراصل اس دور کی تخلیق ہیں جسے اردو میں نثر لطیف کی تحریر کا دور کہا جاتا ہے۔ اس میں عورت، حسن اور رومانی انداز فکر کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ میر ناصر علی، سجاد حیدر یلدرم اور مہدی افادی نے اس رنگ کو ایسا جاذب نظر بنا دیا تھا کہ نوجوان ادیب اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ نیاز تو طبعاً رومان پرست تھے بہت جلد اس گروہ میں شامل ہوگئے اور دیکھتے دیکھتے ممتاز مقام پیدا کرلیا۔‘‘

)ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ’اردو افسانہ اور افسانہ نگار‘، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 1982، ص 27(

نیاز فتح پوری کی رومانیت ان کے افسانوں میں مختلف زاویوں سے نمایاں ہوتی ہے۔  وہ اپنے افسانوں کا مواد کلاسیکی، تاریخی واقعات اور یونان و عرب کی قدیم داستانوں سے اخذ کرتے ہیں۔ لیکن ان اخذ کردہ واقعات کو وہ اپنی قوت متخیلہ کے ذریعے رومانیت کا ایسا دل نشین اور ہوشربا پیراہن عطا کرتے ہیں کہ وہ حسن کا مرکز بن جاتا ہے۔ نیاز اپنے نادر اسلوب کے ذریعے اسے ایک بالکل نئے زاویے کے ساتھ نئی شکل میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں رومانی فضا کی پرکیف سرمستی اور سرگشتگی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں محبت و حسن کی جن کیفیات کو پیش کیا ہے وہ ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں کی رومانی تحریروں میں معدوم ہیں۔ مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:

’’نیاز ایک زبردست قوت آخذہ کے مالک ہیں۔ وہ بڑے سلیقے کے ساتھ دوسری جگہ سے مواد لے سکتے ہیں اور اپنے انفرادی اسلوب سے اس کو اپنا بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنا کوئی عیب نہیں ہے بشرطیکہ کوئی اپنے تخلیقی اسلوب سے دوسری جگہ سے ماخوذ مواد کو بالکل نیا روپ دے سکے۔ شیکسپیئر کا کوئی ڈرامے ایسا نہیں جو دوسری جگہ سے نہ لیا گیا ہو۔ لیکن اس کے ڈراموں کے اصلی ماخذوں کو کوئی پوچھتا نہیں۔ اس کے ڈرامے آج تک دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں۔ اول اول نیاز کے افسانے یونانی اساطیر و قصص اور مصر و عرب یا دوسرے قدیم ملکوں کے حسن و عشق کی داستانوں سے ماخوذ ہوتے تھے جو بڑی رومانی سرگشتگی اوروالہانہ پن کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ ان کے افسانوں کا موضوع بلا استثنا حسن و عشق ہے۔ محبت اور عورت کی جیسی رنگین اور دلفریب تصویریں ان کے افسانوں میں ملتی ہیں اردو کے کسی دوسرے افسانہ نگار کے یہاں نہیں ملتیں۔‘‘

)مجنوں گورکھپوری، مضمون ’جدید نثر اردو، نیاز فتح پوری اور نئی نسل‘، مشمولہ ’نگار‘ (نیاز نمبر)   مرتبہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پاکستان، 1963، ص102(

نیاز فتح پوری اپنے زور تخیل سے اپنے افسانوں کے لیے ایسا پس منظر تیار کرتے ہیں اور  ایک ایسی حسین و دلکش وادی کی تخلیق کرتے ہیں جس میں حسن و عشق کی بیل کا پروان چڑھنا فطری معلوم ہوتا ہے۔ اس فضا کو اور بھی سازگار بنانے میں نیاز فتح پوری خوبصورت پس منظر اور ماحول کے ساتھ ساتھ ایسے کرداروں کی تخلیق کرتے ہیں جن کے دل و دماغ محبت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ ایسے افسانوں میں نیاز نے  بہت ہی لطیف اور دلکش اسلوب اختیار کیا ہے۔ مکالمے بھی جذبات سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہاں عشق اپنی انتہا پر ہوتا ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں بھی نیاز فتح پوری کا قلم شہوانیت کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ان کے عشق میں پاکیزگی نظر آتی ہے۔ نیاز فتح پوری کا مشہور افسانہ ’کیوپڈ اور سائکی‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’سائکی بے خبر پڑی سو رہی تھی، چادر اس کے سرد سینہ سے جدا تھی اور اسے یہ ہوش نہ تھا کہ ایک حریص آنکھ اسے دیکھ رہی ہے۔ اس لیے اپنا عریاں حصہ جسم چھپا کر اسے سمٹ جانا چاہیے، اس کے بال ہوا سے اڑ اڑ کر اس کی پیشانی اور چہرے پر  آرہے تھے اور اسے کچھ خبر نہ تھی کہ ایک غیر شخص اس منظر سے لطف اٹھا رہا ہے، اس لیے اپنے بال درست کر کے چہرہ پر نقاب ڈال لینا چاہیے۔

کیوپڈ نے اس سے قبل جب سائکی کو باغ میں دیکھا تو وہ بے نقاب ضرور تھی، مگر محو خواب نہ تھی، لیکن اسے کیا خبر تھی جب حسن سو جاتا ہے تو کیا ہو جاتا ہے اور جب لباس بے ترتیب اور بال برہم ہوجاتے ہیں تو ایک عورت کیا قیامت ہو جاتی ہے۔‘‘

)نیاز فتح پوری، افسانہ ’کیوپڈ و سائکی‘، ’نگارستان‘،  صدیق بک ڈپو، لکھنؤ، 1930، ص 48(

نیاز فتح پوری کی افسانہ نگاری پر رومانیت پوری طرح حاوی نظر آتی ہے۔ ان کا شعری مذاق جب ان کے افسانوی تخیل میں تحلیل ہوتا ہے تو اسے اور بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔ ان کے لیے دنیا کا ذرہ ذرہ رومان پرور ہے جو ہمارے احساسات کو عام زندگی کی سطح سے بلند کرتا ہے۔ نیاز فتح پوری کی شعریت اور ان کی شاعرانہ فطرت ان کے افسانوں کو نئے لطف سے ہمکنار کرتی ہے۔ نیاز فتح پوری صنف نازک کو اپنے افسانے کا مرکزی کردار بناتے ہیں اور اسے محبت کا مرکز تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں عورت ہر پہلو سے اپنے جلوے بکھیرتی نظر آتی ہے۔ نیاز فتح پوری کے افسانوں میں ایسی چیزیں نہیں پائی جاتی ہیں جن سے افسانے کی شعریات یا افسانے کا حسن مجروح ہو۔ ان کے افسانے حسن و عشق کے محور پر گردش کرتے ہیں۔ نیاز فتح پوری کا خیال ہے کہ عورت اور محبت ہی افسانے کی دلکشی اور دل فریبی کا سبب بن سکتی ہے۔ ان کے نزدیک عورت کے ذکر سے ہی کائنات میں حرارتیں اور سرمستیاں ہیں۔ وقار عظیم نے نیاز فتح پوری کے افسانوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے افسانوں کی شعریت اور رنگینی کو موضوع گفتگو بنایا ہے اور ان کے تمام خصائص کی وجہ عورت کی ذات کو ٹھہرایا ہے۔ وقار عظیم اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’نیاز کے رومانی افسانوں کی جان، انھیں پرتاثیر بنانے والی قوت، ان میں شعریت اور رنگینی کی کیف آگینیاں شامل کرنے والی لطیف شے صرف عورت ہے۔ عورت کے نغمہ نے ان کے ہر لفظ کو، ہر جملہ کو، ہر قصہ کو رومانی اور رومانی سے زیادہ کیف آور بنانے میں مدد دی ہے۔ عورت کو انھوں نے جن جن طریقوں سے یاد کیا ہے اور ان کا ذکر کرتے وقت زبان نے جو کچھ کہا ہے اس سے رومانیت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

)وقار عظیم، مضمون ’رومانی افسانہ اور نیاز‘، مشمولہ ’نگار‘(نیاز نمبر) مرتبہ  ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پاکستان، 1963، ص236(

نیاز فتح پوری کی تحریروں میں حسن اپنی پوری جلوہ سامانیوں اور تجلی ریزیوں کے ساتھ نمو پذیر ہوتا ہے اور عشق بھی اپنی تمام تر شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ نیاز کے رومانی تصورات میں عورت کلیدی کردار کی حامل ہے۔ عورت ہی نیاز کے لیے مرکز حسن ہے، وہی منبع حسن ہے اور حسن سوائے نسوانیت کے اور کچھ نہیں۔ نیاز فتح پوری کے نزدیک حسن کو عورت سے الگ کر کے نہ تو دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ نیاز کی نگاہ جب کسی مادی شے پر پڑتی ہے تو اس میں بھی انھیں نسائیت کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے حسن پر بہت غور و فکر کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حسن کے تمام اسرار و رموز نسائیت میں ہی پنہاں ہیں۔ حسن کو نسائیت سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی اس کے بنا حسن کا کوئی تصور ممکن ہے۔

نیاز فتح پوری عورت کو روشنی تسلیم کرتے ہیں، خوشبو مانتے ہیں، آلات موسیقی کا درجہ دیتے ہیں۔ انھوں نے بڑے ہی دلکش انداز میں لکھا ہے کہ:

’’عورت ایک روحانیت ہے قابل لمس، نورانیت ہے صاحب نطق، ایک روشنی ہے جسے ہم چھو سکتے ہیں۔ ایک نکہت ہے جس سے ہم گفتگو کر سکتے ہیں۔ ایک حلاوت ہے جو ہاتھ سے چکھی جاتی ہے۔ ایک موسیقی ہے جو آنکھوں سے سنی جاتی ہے۔‘‘

(نیاز فتح پوری، ’نگارستان‘، صدیق بک ڈپو، لکھنؤ، 1930، ص 79(

نیاز فتح پوری کے افسانوں میں بڑی جاذبیت اور دلآویزی ہے۔ انھوں نے اپنی قوت متخیلہ کے ذریعے جو تجسیم کاری اور صورت گری کی ہے اس میں زندگی ہے، حرارت ہے اور جوش بھی ہے۔ ان کی خلاقانہ صلاحیت اور فکری و فنی بصیرت نے نازک ترین تصورات اور لطیف ترین تخیلات کو بہت ہی جاذب پیرہن عطا کیا ہے۔ بعض اوقات ان کے تخیل کی کارفرمائی اتنی عمیق ہوتی ہے کہ اس کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ان کے تخیل کی رفعت اور معنوی نزاکتیں عجیب لطف پیدا کرتی ہیں۔

 نیاز فتح پوری مزاجاً رومانی اور جمالیاتی افسانہ نگار ہیں۔ نیاز کے افسانے جہاں رومانی رنگ و آہنگ سے معمور ہیں، وہیں ان کے افسانوں میں معاشرتی اور اصلاحی رنگوں کی آمیزش بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ رومانونیت اور اصلاح پسندی کا یہ میلان  دراصل نیاز کی پہلودار شخصیت اور ان کی رومانی اور فلسفیانہ افتاد طبع کا نتیجہ ہے۔ ان کے رومانی افسانے ہوں یا اصلاحی ان میں اسلوب کے اعتبار سے یکسانیت پائی جاتی ہے اور یہ اسلوب ادب لطیف کا ہے۔  ہاں اتنا ضرور ہے کہ اصلاحی اور معاشرتی افسانوں کے اسلوب میں رومانی افسانوں کی بہ نسبت سادگی ضرور آ جاتی ہے۔ مگر نیاز نے اپنے رنگ خاص کو کبھی ترک نہیں کیا۔ کیونکہ نیاز فتح پوری کی افسانوی دنیا کی تمام تر رونقیں اور دلکشی رومانیت پسندی ہی میں مضمر ہیں۔ نیاز فتح پوری کے افسانوی جہان کا سب سے امتیازی وصف ان کا مخصوص طرز بیان ہے۔ اسی سحر انگیز اسلوب کے ذریعے انھوں نے اپنے افسانوں میں لطافت اور دلکشی پیدا کی ہے۔ موضوعات کے لحاظ سے نیاز کے افسانے کی زبان میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ جہاں وہ معاشرتی اور اصلاحی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں وہاں زبان سادہ اور سلیس ہو جاتی ہے اور جب محبت اور رومان پرور وادیوں کی سیر کراتے ہیں تو ایک طرح کی شوخی و سر مستی پیدا ہوجاتی ہے۔ تشبیہات و استعارات کے ذریعے شاعرانہ نثر نگاری کے جلوے بکھیرے جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نیاز کے اسلوب کا اصل جوہر دیکھنے کو ملتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:

’’نیاز کے اسلوب میں بیک وقت ٹھہری ہوئی سنجیدگی اور سنبھلی ہوئی شوخی باہم ملی جلی ہوئی پائی جاتی ہے۔ یہ اسلوب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نازک سے نازک رنگین مسائل پر شگفتگی اور دل آویزی کے ساتھ بحث کی جاسکتی ہے۔ موضوع کی خشکی یا تلخی کو اسلوبی کیفیتوں میں اس طرح لپیٹ لینا کہ محسوس نہ ہونے پائے، معمولی ہنر نہیں ہے۔ اردو نثر کی نئی نسل نے یہی انداز نیاز سے پایا اور جب تک اردو زبان کا کوئی ادبی مستقبل ہے، اس کے ادیبوں کی کوئی نئی نسل نیاز کے اسلوب کے اثر سے بے نیازی نہیں برت سکتی۔ اردو نثر کی تاریخ میں نیاز کا اسلوب ایک زندہ قوت ہے جس کے اثرات کبھی فنا نہیں ہو سکتے۔‘‘

)مجنوں گورکھپوری، مضمون ’اردو نثر، نیاز اور نئی نسل‘، مشمولہ ’نگار‘ (نیاز نمبر)، پاکستان، مرتبہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، 1963، ص 104(

یہ حقیقت ہے کہ نیاز فتح پوری خالص رومانی اور جمالیاتی افسانہ نگار ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے سماجی مسائل اور نفسیاتی کیفیات سے چشم پوشی کی ہو۔ نیاز فتح پوری نے سماجی اور نفسیاتی موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور بہترین افسانے تخلیق کیے۔ لیکن ان افسانوں پر بھی ان کا رومانی جذبہ غالب ہے۔ ان کا افسانوی اسلوب اپنے عہد کے دیگر افسانہ نگاروں سے منفرد ہے۔ نیاز فتح پوری کے افسانوں کو ہم جدید تنقیدی اصولوں پر نہیں پرکھ سکتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے تعین قدر کے لیے ہمیں انھیں کے وضع کردہ اصولوں اور معیاروں کی جانب رجوع کرنا پڑے گا۔

Amir Iqbal

Research Scholar, Dept of Urdu

University of Allahbad- 211002 (UP)

Mob.: 9889665833


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں