2/12/22

تحریک آزادی اور ہماری فلمیں: انیس امروہوی


 ہندوستان کی آزادی کی تحریک یوں تو 1857 کی جدوجہد سے ہی شروع ہو گئی تھی، مگر انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور چالاکیوں نے اس تحریک کو اپنے ظلم و ستم سے دَبا کر ہندوستان کو غلام بنا لیا اور پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فوٹوگرافی کی تکنیک میں نِت نئے تجربے ہو رہے تھے اور تصویر کو متحرک بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ دوسرے ممالک میں پردے پر چلتی پھرتی تصویروں کو ابھارنے کی کوشش 1893 میں ہی کامیابی کی طرف گامزن ہو چکی تھی۔ ہمارے یہاں ہندوستان میں اپنے طور پر بھی کوششیں جاری تھیں۔

اس زمانے میں ہندوستان میں اِس طرح کی کئی کتابیں شائع ہوئیں، جن میں تمام صفحات پر ایک جیسی تصویریں چھپی تھیں، مگر ہر تصویر پچھلی تصویر سے تھوڑی سی مختلف تھی۔ جب اس کتاب کے صفحات کو تیزی سے الٹا جاتا تو ایسا لگتا تھا جیسے اس کتاب میں چھپی تصویر متحرک ہو اٹھی ہو۔

پہلے پہل 1896 میں ہندوستان کے شہر بمبئی میں بیرون ممالک سے چھوٹی چھوٹی خاموش فلموں کی آمد شروع ہوئی اور 7جولائی 1896 کو لمونیئر برادرس نے بمبئی کے واٹسن ہوٹل میں ’میجک لائٹس‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی فلم کی نمائش کی۔اس طرح کی فلموں کو عوام نے اور تھیئٹر کے مالکوں نے بہت پسند کیا۔ طویل فیچر فلموں کے سلسلے کو ہندوستان میں شروع کرنے کا سہرا داداصاحب پھالکے کو جاتا ہے۔ انھوں نے ’لائف آف کرائسٹ‘ نام کی فلم سے متاثر ہو کر بڑی جد وجہد سے فلم  ’راجہ ہریش چندر‘ کو ہندوستان میں تیار کیا اور 1913 میں اس خاموش فلم کی نمائش کی۔ اس طرح ہندوستان میں خاموش فلموں کا سفر شروع ہو گیا۔ حالانکہ 1900 میں گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے گراموفون پر پہلی بار خود اپنی ہی آواز میں… ’’بندے ماترم…‘‘ گانا ریکارڈ کرایا تھا، مگر1931 میں ہندوستانی فلموں کو بھی بولنا آگیا اور آرڈیشر ایرانی نے ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ’عالم آرا‘ کی نمائش کی۔ یہی وہ دَور تھا جب ہندوستان میں جنگِ آزادی کی تحریک بھی زوروں پر تھی۔

1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیاتھا۔ ہندوستان کے نوجوان، آزادی کے متوالے پوری طرح انگریزوں کو ہندوستان سے بھگا دینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور گاندھی جی کی قیادت میں مکمل آزادی کی قرار داد پاس ہو چکی تھی۔ مگر ایسے وقت میں بھی ہماری فلموں میں آزادی کی تحریک کے اثرات کم دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو انگریز حکومت کی قائم کردہ پابندیاں اور ظلم وستم، جس کی وجہ سے کوئی بھی فلمساز ایسے موضوع کو اپنانے سے اپنا دامن بچاتا تھا، جس سے انگریز حکومت کے غضب کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق ہو۔

دوسرے برٹش حکومت نے 1922میں پریس سنسرشپ قائم کیا اوراس کے دائرہ کار میں ہندوستانی سینما کو بھی جکڑ لیا۔ جس کی وجہ سے اگر کوئی فلمساز تحریک آزادی کو موضوع بناکر فلم بنا بھی لیتا تو اس کی نمائش پر پابندی لگ سکتی تھی۔ ایک اور خاص وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک ہندوستانی فلموں کا مزاج صرف دیومالائی یا جادوئی کہانیوں تک محدود تھا، اور لوگ اسی کو پسند کرتے تھے۔

خاموش فلموں کے دَور میں بھی بمبئی میں کئی لوگوں نے ہمت کرکے سیاسی مقاصد کو پس منظر میں رکھ کر کئی اہم فلمیں بنائیں، جو مقبول بھی ہوئیں۔ فلم ’کس کا قصور‘ بیوہ عورتوں کے مسائل کو لے کر بنائی گئی تھی۔ مگر اس کے علاوہ ’گوری بالا‘ اور ’رام رحیم‘ میں سیاسی تحریک کو ایک خاص انداز میں پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستانی قومیت کا جذبہ  اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے عنصر کو بھی ان فلموں میں شامل کیا گیا تھا۔ تحریک آزادی کی کامیابی اور مقبولیت کے لیے ملک میں ہندو مسلم اتحاد کی سخت ضرورت تھی اور اِسی موضوع کو مرکزی خیال بناتے ہوئے لکشمی پکچرز نے 1925 میں ’سورن‘ نام سے ایک ایسی فلم کی نمائش کی جس میں مغل تاریخ کے ایک واقعہ کے ذریعے ہندو مسلم اتحاد کا پیغام ہندوستانی عوام کو دیا تھا۔

فلم ’دی بم‘ میں بھی انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا گیا تھا۔ اس لیے برٹش سنسر اور بھی ہوشیار ہو گیا اور اس نے اس فلم کو بری طرح کاٹ دیا تھا۔ وی۔ شانتارام نے فلم ’اودے کال‘ بھی انہی دنوں میں بنائی تھی۔ اس زمانے میں کوہِ نور اسٹوڈیو میں ایک خاص قسم کی ریلی کا اہتمام کرکے بھی فلم والوں نے تحریکِ آزادی میں حصہ لیا۔ اس کے بعد ہی ’انڈین فلم ایسوسی ایشن‘ کا قیام عمل میں آیا تھا، اور ایک دن کی مکمل علامتی ہڑتال بھی کی گئی تھی۔

اِسی دَوران ایک اور فلم ’غصہ‘ کی بھی نمائش ہوئی۔ اس فلم میں ہندوستانی سماج کا پچھڑاپن دِکھایا گیا تھا اور گاندھی جی کی طرح دِکھائی دینے والا ایک کردار بھی اِس فلم میں تھا جسے مکند نام کے ایک اداکار نے ادا کیا تھا۔

1935-36 کے آتے آتے ملک بھر میں ہندوستانی فلموں کے دیکھنے والے سنجیدہ اور غور طلب موضوعات پر بننے والی فلموں کو دیکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو گئے تھے۔ فلم بینوں کا یہ رویّہ دوسری جنگِ عظیم کے وقت تک اور پھر ہندوستان کی آزادی کی سنہری صبح کے آنے تک برقرار رہا۔ اِس کی خاص وجہ یہ تھی کہ زیادہ تر فلم بین متوسط طبقے کے تھے، یا پھر اونچی سوسائٹی کے لوگ تھے۔ فلمساز کے۔ سی۔ بروا نے روایت سے ہٹ کر اور کھوکھلی آزادانہ روش کے درمیان پھنسے انسانوں کے درد کو فلم ’’منزل‘‘ اور فلم ’’مایا‘‘ میں بڑے ہی پراثر انداز میں پیش کیا۔ جس نے ہمارے فلم بینوں کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ دیوکی بوس نے فلم ’سنہرا سنسار‘ میں سماج کی نابرابری کے مسئلے کو پیش کیا۔ اس کے ساتھ ہی واڈیا کی فلم ’جئے بھارت‘، وجئے بھٹ کی ’پاسنگ شو‘ اور محبوب خان کی ’ڈکن کوئن‘ جیسی فلمیں بھی خاصی کامیاب رہیں۔ ان فلموں میں کسی نہ کسی طور پر دیش بھکتی اور تحریک آزادی کا جذبہ چھپا ہوا تھا۔ 1942 میں مشہور فلمساز و ہدایت کار محبوب خان نے ہی فلم ’روٹی‘ کی نمائش کی، جس کے ذریعے انھوں نے ہندوستانی عوام کو یہ پیغام دیا کہ انسان کو اپنا حق مانگنے سے نہ ملے تو چھین لینا چاہیے۔ یہ فلم سامراجی نظام کے خلاف ایک بہت اثردار ہتھیار تھی، لہٰذا انگریزی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔ ہومی واڈیا کی فلم ’ویر پربھات‘ حالانکہ اسٹنٹ فلم تھی مگر اس میں برٹش حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کو بڑے ہی پراثر انداز اور سلیقے سے پیش کیا گیا تھا۔

1946 میں چیتن آنند نے فلم ’نیچا نگر‘ پیش کی۔ اس فلم میں انگریز حکومت کے ذریعے معصوم ہندوستانیوں پر ڈھائے گئے مظالم کی تصویرکشی بڑے خوبصورت انداز میں پیش کی گئی تھی۔ اس فلم کی کہانی اردو کے ممتاز افسانہ نگار حیات اللہ انصاری نے تحریر کی تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ فلم اِس قدر پسند آئی تھی کہ 1947 میں جب نئی دہلی میں پہلی ایشیائی کانفرنس منعقد ہوئی تو پنڈت نہرو کی خواہش کے مطابق یہ فلم کانفرنس کے ڈیلی گیٹس کو دِکھائی گئی۔

اس زمانے میں انگریز حکومت کی سخت سنسرشپ کی وجہ سے بہت سی باتیں سیدھے طریقے سے نہ کہہ کر موضوعات کو بدل کر بھی کہی گئیں۔ مثال کے طور پر شانتارام کی فلم ’پڑوسی‘ ہندو مسلم ایکتا پر بنائی گئی تھی۔ فلم میں دکھایا گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان خاندان آپس میں مل جل کر رہتے ہیں، مگر باہری طاقتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے انھیں آپس میں لڑا دیتے ہیں۔ دوست بچھڑ جاتے ہیں، بعد میں انھیں طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے پاس صرف یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ ان کا دوبارہ ملن تب ہوتا ہے، جب ایک باندھ کے ٹوٹنے کی وجہ سے وہ سب موت کی آغوش میں ہوتے ہیں۔

فلم ’قسمت‘ بامبے ٹاکیز کی فلم تھی، جسے ایس مکھرجی کی ہدایت میں بنایا گیا تھا۔ حالانکہ یہ فلم جرائم کے واقعات پر مبنی ہلکی پھلکی مزاحیہ قسم کی فلم تھی، مگر اس فلم کا ایک گانا… ’دور ہٹو اَے دنیا والو، ہندوستان ہمارا ہے‘ نے بڑی شہرت حاصل کی اور تحریک آزادی کے متوالوں کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی حب الوطنی کا جذبہ بھی لوگوں میں بیدار ہوا۔ اس گیت کی ایک لائن… ’تم نہ کسی کے آگے جھکنا، جرمن ہویا جاپانی‘ ایک طرح سے انگریزوں کی طرف ہی اشارہ تھا، اور گاندھی جی کے نعرہ ’انگریزو! بھارت چھوڑو‘ کی ہی ترجمانی کرتا تھا۔ ان دنوں یہ گانا ہندوستان کے بچے بچے کی زبان پر تھا، جسے کوی پردیپ نے تحریر کیا تھا۔

اِسی طرح دوسرے فلمسازوں نے بھی انگریزی سنسربورڈ کی پریشانیوں سے بچنے کے لیے ایسی حکایت آمیز اور دیوی دیوتائوں کی کہانیوں پر مبنی علامتی فلمیں بنائیں۔ حالانکہ ان کا مقصد لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔

1945 سے 1947 تک کا وقت ہندوستانی سینما کے لیے بے حد اہم رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب دوسری جنگ عظیم ختم ہو رہی تھی اور ہندوستان کو آزادی ملنے ہی والی تھی، ہر طرح کے فن کے میدان میں تبدیلی کی لہریں نمایاں ہونے لگی تھیں۔ ہماری فلموں نے بھی ایسے ماحول میں کروٹ لی اور کچھ لوگوں نے ہمت کرکے خاص طرح سے تحریکِ آزادی کو موضوع بناکر فلمیں بنانے کا اِرادہ کر لیا۔ ادھر بنگال میں بھی نوجوانوں میں ایک خاص طرح کی لہر چل رہی تھی۔ تب وہاں بی۔این سرکار نے ’ہمراہی‘ فلم بنائی۔ پربھات کی فلم ’ہم ایک ہیں‘ کی کہانی بھی پوری طرح قومی ایکتا کے دھاگے میں پروئی ہوئی تھی۔ اس زمانے میں لیک سے ہٹ کر بننے والی فلموں کے موضوعات بائیں بازو کی تحریک سے متاثر ہونے لگے، کیونکہ ان کے لکھنے والے زیادہ تر ادیب اور شاعر اسی تحریک سے وابستہ تھے۔ اِس طرح کی تحریک کو اِپٹا (IPTA: Indian People theatre Assicoation) سے بھی کافی مدد ملی، اور اِس تحریک کا جذبہ فلموں پر حاوی ہوتا گیا۔

دیکھا جائے تو تحریک آزادی کو موضوع بناکر ہندوستان کی آزادی سے پہلے کوئی بہت زیادہ کام نہیں ہو سکا تھا۔29اگست 1918 کو لوک مانیہ تلک نے خاص طور پر کانگریس کا اجلاس بمبئی میں بلایا تھا۔ اس وقت بابو رائو پینٹر نے اپنے دو معاون داملے اور فتح لعل کو ساتھ لے کر اِس اجلاس کی فلم بندی کی تھی۔ مگر یہ فلم اس وقت کہیں پر بھی دکھائی نہ جا سکی تھی، اور جب 1920 میں بابو رائو پینٹر ہی کی فلم ’سیرندھی‘ کی بمبئی کے میجسٹک سینما میں نمائش ہوئی، تب اس فلم کو بھی ’سیرندھی‘ کے ساتھ ہی جوڑ کر دکھایا گیا۔ مگر اس فلم کی نمائش سے قبل ہی یکم اگست 1920 کو بال گنگادھر تلک کا انتقال ہو چکا تھا۔

1935 میں ایسٹرن کمپنی نے فلم ’بھارت کی بیٹی‘ بنائی تھی۔ اس کی ہدایت پریمانکور آشرتھی نے کی تھی اور کہانی کے۔ ایل۔ وِرمانی کی تھی۔ اس فلم میں بھی ہندوستان کی آزادی کی بات کو اٹھایا گیا تھا۔ 1938 میں محبوب خان نے وطن نام سے ایک فلم بنائی تھی، جو حب الوطنی پر مبنی کچھ باتوں کو لے کر پیش کی گئی تھی۔

ملک کی آزادی کے ساتھ ہی فلم والوں کو بھی اپنی مرضی کے موضوعات پر فلم بنانے کی آزادی ملی… اور بڑی تیزی سے تحریکِ آزادی اور حب الوطنی کے موضوعات پر فلمیں بننے لگیں۔ وی۔ شانتارام نے 1949  میں فلم ’اپنا دیش‘ بنائی۔ نتن بوس نے 1950 میں ’مشعل‘ بنائی۔ شیام مکھرجی نے 1950 میں ہی اشوک کمار کو لے کر فلم ’سنگرام‘ بنائی۔ 1952 میں فیمس پکچرز نے آر۔ ایس۔ چودھری کی ہدایت میں فلم ’جلیاں والا باغ‘ بنائی اور پھر 1953 میں منروا مووی ٹون کے بینر سے سہراب مودی نے فلم ’جھانسی کی رانی‘ پیش کی، جو بہت مقبول ہوئی۔ 1954 میں فلمستان نے ’جاگرتی‘ بنائی۔ 1954  میں ہی ’شہید اعظم بھگت سنگھ‘ کی نمائش ہوئی، جو مکمل طور پر تحریک آزادی پر مبنی فلم تھی۔

اس سلسلے کی سب سے مشہور اور بہترین فلم  ’شہید‘ تھی، جس نے تحریک آزادی کے متوالے نوجوانوں کو جوش وخروش سے لبالب بھر دیا۔ فلمستان کی اس فلم کے خالق رمیش سہگل تھے اور دلیپ کمار کی ہیروئین کامنی کوشل تھیں۔ چندر موہن، لیلا چٹنس اور رام سنگھ نے بھی اس فلم میں اہم رول ادا کیے تھے۔ فلم کے مکالمے اور کہانی کی بنت نے ہندوستانی عوام کے سینوں میں ایک جوش بھر دیا تھا۔ اسی نام سے ایک دوسری فلم 1965 میں بھی بنی تھی۔ اس دوسری فلم ’شہید‘ میں منوج کمار کے ساتھ اور کئی نامور اداکار اور اداکارائیں تھیں، اور یہ فلم بھی کافی مقبول ہوئی تھی۔ 1965 میں ہی آئی۔ ایس۔ جوہر نے ایک فلم ’جوہر محمود اِن گوا ‘ بنائی تھی۔ یہ فلم بھی تحریک آزادی کے موضوع پر ہی بنی تھی، مگر اس فلم میں خاص طور پر گوا کی آزادی کو ہی موضوع بنایا گیا تھا۔ منوج کمار کی فلم ’کرانتی‘ بھی تحریک آزادی کے ہی موضوع پر ایک بڑی فلم تھی اور اس میں دلیپ کمار نے بھی ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ یہ فلم بھی کافی کامیاب ہوئی تھی۔

ان سب فلموں کے علاوہ بھی کئی فلمیں ایسی آئیں، جن میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے کچھ حصے فلمائے گئے تھے، یا کہانی میں اس دور کے چند واقعات پیش کیے گئے تھے۔ اس سب کے باوجود اتنے بڑے ملک کی آزادی کی اتنی بڑی تحریک پر جو کام دنیا کی سب سے بڑی ہماری فلم انڈسٹری میں ہونا چاہیے تھا، میرے خیال سے وہ نہیں ہو پایا ہے۔ آزادی سے قبل تو انگریز حکومت کا سنسربورڈ آڑے آتا رہا، مگر اب اس سلسلے میں ضرور کوئی ایساکام ہونا چاہیے جس سے ملک کا وقار اونچا ہو۔ آزادی کے اس موضوع پر سب سے بڑی فلم ’گاندھی‘ کو ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس فلم میں بڑے پیمانے پر گاندھی جی کی زندگی اور اس وقت کے حالات کی عکاسی ہوئی ہے۔ مگر یہ فلم مکمل طور پر ہندوستانی فلم نہیں کہی جا سکتی۔ کیا اس طرح کی کسی بڑی فلم کی امید ہم ہندوستانی سنیما سے بھی کر سکتے ہیں؟

Anees Amrohvi

104/B, Yawar Manzil, 1- Block

Laxmi Nagar

Delhi - 110092

Mob.: 9811612373

Email.: qissey@rediffmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خواجہ حسن ثانی نظامی کا اسلوب، مضمون نگار: عزیز احمد خان

  اردو دنیا، نومبر 2024 خواجہ حسن ثانی نظامی درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشینوں میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 15 مئی 1931 کو ہوئی تھی۔...