2/12/22

میزان: ارمیلا شریش، مترجم خورشید عالم


 ’’دیدی کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘

’’کون سی دیدی؟‘‘

’’دوچاردیدیاں ہیں کیا؟‘‘

’’میری تو دو دیدی ہیں نا۔‘‘

’’بڑی دیدی، روہنی دیدی۔‘‘

’’کیوں انھیں کیا ہوا؟ٹھیک ہی ہوں گی۔‘‘

’’تم تو اتنی بے پروائی سے جواب دے رہے ہو، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔‘‘

’’مجھے تو کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔‘‘

’’کیا ان سے تمھاری بات چیت نہیں ہوتی؟‘‘

’’یہی سمجھ لو۔ایک سال پہلے کسی بات پرکچھ کہا سنی ہوگئی تھی۔وہ ناراض ہو گئیں اور میں نے بھی انھیں فون کرنا بند کر دیاتھا۔‘‘

’’شاباش،کیسے بھائی  ہو؟‘‘ ادھرسے بے رخی، طنز اور لعنت ملامت کرتی آواز جوتے کی طرح لگی۔

’’میں تصور نہیں کر سکتا کہ تم دونوں بھائی بہن کے درمیان ایسی دشمنی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، دیدی تو ممی سے بھی زیادہ تمھارے لیے کیا کرتی تھیں۔ تمھاری ساری ذمے داری وہی تو اٹھاتی تھیں،تمھارا کتنا آنا جانا تھا، بات کتنی بھی بڑی ہو رشتے تو نہیں ختم ہو جاتے۔ مجھے تمھاری باتیں سن کر بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘ نربھے نے دکھی آواز میں کہا۔

’’کئی بار ایساہوتا ہے کہ ہمارے خیالات اور مزاج نہیں ملتے ہیں۔ ہر روز کے بحث مباحثے سے تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ مکالمہ ہی بند کر دیا جائے۔آپ کو تو معلوم ہے میں سچ بول دیتا ہوں اور سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے،کوئی برداشت نہیں کر پاتا ہے۔‘‘

’’تو واقعی تمھیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ تمھیں کسی نے بتایا بھی نہیں؟‘‘

’’نہیں کسی نے کچھ بھی نہیں بتایا۔اب آپ ہی بتا دیجیے دیدی کو ہوا کیا ہے؟‘‘

’’کینسر،دیدی کو کینسر ہے۔ ایک دن ہسپتال میں میں اپنے کسی دوست کو دیکھنے گیا تھاَ۔ وہ فائل لے کر اپنے نمبر کا انتظار کر رہی تھیں،تب انھوں نے بتایا تھا،بہت بری حالت تھی تب ان کی۔‘‘

’’یہ کب کی بات ہے؟‘‘

’’قریب چارپانچ ماہ پہلے کی بات ہے۔‘‘

’’چارپانچ ماہ،اورآپ نے مجھے بتایا بھی نہیں۔‘‘

’’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تمھیں معلوم نہیں ہوگا۔‘‘

’’ مجھے کون بتاتا؟‘‘

’’بچے۔‘‘

’’بچے سوچ سکتے ہیں کہ تمھیں معلوم نہ ہو گا۔‘‘

’’آپریشن ہو چکا تھا۔آپریشن کے بعد چیک اپ کے لیے آئی تھیں۔کیمو تو پہلے ہی ہو گئی تھی۔‘‘

اسے ایسا محسوس ہوا کہ موبائل اس کے ہاتھ سے گر جائے گا۔اس نے پاس پڑی کرسی کو کھینچا اور دھپ سے بیٹھ گیا۔ دماغ کی نسوں کو دبایا،پھرآنکھوں کو پونچھا۔

’’آشی،آشی،آشی۔‘‘

وہ اونچی آواز میں چیخا۔بیوی دوڑتی ہوئی آئی، ’’کیا  ہوا، کیوں چیخ رہے ہو؟ سب ٹھیک تو ہے؟‘‘

’’کیا تمھیں معلوم ہے؟‘‘

’’کیا...کیا؟‘‘

’’دیدی کو کینسرہو گیاہے۔‘‘

’’اوہ...‘‘

’’اور ہم لوگوں کو پتہ تک نہیں چلا۔‘‘

آشی کچھ دیر تک حیران کھڑی رہی۔ اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ اس نے اپنے شوہر کو پہلی بار اس طرح تڑپتے ہوئے دیکھاتھا۔وہ اکثرسبھی کو چیختے ڈانٹتے رہتے،یا سب کی شکایتیں کرتے نظرآتے تھے۔ ان کے مزاج میں جو خشکی اور ترشی تھی، اس سے سبھی اپنی تذلیل محسوس کرتے تھے۔

’’کئی بار دیدی پیڑ کے نیچے کھڑی نظر آتی تھیں۔‘‘

’’تم نے کبھی بتایا نہیں۔‘‘

’’کیسے بتاتی، تم تو ان کا نام سنتے ہی آگ ببولا ہو جاتے تھے۔‘‘

’’تو کیا وہ پیدل جاتی تھیں؟‘‘

’’میں تو کالج جاتے وقت اکثرانھیں پیڑ کے نیچے کھڑی دیکھتی تھی۔شاید بس یا کیب کا انتظارکرتی ہوں گی۔ کبھی گاڑی روک کر بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔‘‘

’’ستیش نے بھی نہیں بتایا۔‘‘

’’وہ تو ہم سب کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اورشاید وہ دیدی کو جانتا بھی نہیں ہے۔ہاں... فرماں بردار ڈرائیور، جس نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ اس کی بڑی بہن یعنی دیدی دھوپ میں،بارش میں،ٹھنڈ میں سڑک پر کھڑی نظر آتی تھیں۔بس سے آتی جاتی تھیں۔‘‘

’’تو کیا ان کے پاس گاڑی نہیں تھی؟‘‘

’’گاڑی تو تھی ان کے پاس۔‘‘

’’ڈرائیور نہیں آرہا ہوگا۔‘‘

’’تو کیا گاڑی اور ڈرائیور دونوں ہی نہیں تھے،لیکن کیوں؟‘‘

’’پیسوں کی کمی ہوگی۔علاج میں خرچ ہو گیا ہوگا۔ ان کے پاس پیسہ تھا ہی کتنا۔ شوہر بیوی دونوں سرکاری نوکری میں۔دونوں کی تنخواہ میں دونوں بیٹیوں کو پڑھایا، شادی کی، مکان خریدا۔سبھی خانگی ذمے داریاں نبھاتی رہیں۔ کوئی ایسا رشتے دارنہیں تھا،جن کے لیے انھوں نے کچھ نہ کیا ہو۔‘‘

لینا دینا، اس کا ماتھا ٹھنکا۔ جس کے لیے انھوں نے دشمنی مول لی تھی،جس کے لیے انھوں نے اسے دھوکا دیاتھا۔ کیا ان لوگوں نے کوئی مدد نہیں کی ہوگی؟انھیں تو معلوم ہوگا۔ اگر انھیں معلوم ہوگا تو پھر پیسوں کی پریشانی تو نہیں ہونی چاہیے۔ ان لوگوں سے بھی اس کی بات چیت نہیں ہوتی ہے۔

’’پھرکیسے پتہ کریں،کس سے،کس بہانے؟‘‘

بے چینی میں گھومتا پھرتا،اۡٹھتا بیٹھتا وہ پسینے پسینے ہوا جا رہا تھا۔

کاش،ماں زندہ ہوتیں تو سب کچھ پتہ چل جاتا۔ ماں سے ہی سارے بھائی بہن ملنے آتے تھے۔ماں ہی سب کی باتیں بتاتی تھیں کہ کسی کو برا بھی نہ لگے اورسبھی کو ایک دوسرے کی اطلاعات بھی مل جائیں۔آج اسے ماں شدت سے یاد آرہی تھیں۔

’’اچھا ایک کام کرو...تم دیدی کی بڑی بیٹی راگنی کو فون کرو۔‘‘

’’میرا فون کرنا مناسب ہوگا؟‘‘

’’ہاں...ہاں، اس سے پتہ تو کرو۔‘‘

آشی پرانی ڈائری میں راگنی کا نمبر ڈھونڈھنے لگی۔ شاید تین سال ہو گئے اس خاندان سے بات چیت کیے ہوئے۔ بات تو بھائیوں کے درمیان کی تھی،بھلے ہی چچازاد ہی کیوں نہ ہو۔

مسئلے کی بنیاد ایک مکان تھا۔ مکان سے پہلے سب ایک ساتھ رہتے تھے،بعد میں دونوں کے درمیان بیوی بچوں کو لے کر اختلافات ہونے لگے تھے۔باتیں اکثر خانگی ہوتی تھیں۔ کھانے پینے کی گھٹیا باتیں۔ رہن سہن کو لے کر پسند نا پسند کی باتیں، تنازعہ رفتہ رفتہ بڑھتا گیا تھا۔ اسے امید تھی کہ دیدی اس جھگڑے میں اس کا ساتھ دیں گی۔ مکان... ہاں، اس مکان کے بٹوارے میں اس نے بڑے بھائی کا ساتھ دیا تھا۔ ان کے حصے میں بڑا برامدہ، گیراج،پیچھے کی دوکانیں اور باغیچہ آیا تھا اور اس کے حصے میں یہ چھوٹا سا حصہ، جس میں نہ ڈرائنگ روم تھا، نہ گیراج،نہ دوکانیں... نہ برامدے۔ایک ایک چیز الگ ہوتی گئی تھی... نل کا کنکشن،بجلی کا میٹر۔ بس، ایک چیز بچی تھی، وہ تھا مکان کا شاندار ڈرائنگ روم۔ اسے لگتا تھا کم سے کم یہ ڈرائنگ روم تو اس کے حصے میں آنا ہی چاہیے۔ بھائی بار باریقین دہانی کراتے کہ وہ پارٹیشن کروا دیں گے، لیکن وہ دن کبھی آیا ہی نہیں۔ ایک دوسرے کی شکایتیں پولس تک پہنچ گئی تھیں۔ تب اس نے کتنی باتیں سنائی تھیں۔

’’اتنا بڑا دھوکا؟‘‘وہ ان کے شوہر پر چلا رہا تھا۔

’’کس بات کا دھوکا؟‘‘

’’آپ تو نامرد ہیں،کبھی کوئی فیصلہ نہیں لے سکے۔‘‘

’’اوئے سن،زبان سنبھال کر بات کر۔ بغیر کسی بات کے مجھے گھسیٹا توزبان کھینچ لوں گا۔‘‘ادھر سے وہ چیخ رہے تھے۔

’’عجیب تماشہ ہے،مکان،پراپرٹی کے پیچھے پاگل ہو گئے ہیں۔ ان کے لیے رشتوں کی کو ئی اہمیت ہی نہیں ہے۔‘‘

’’آج سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔‘‘ وہ دھمکی دے رہا تھا۔

’’مت رکھو۔‘‘ وہ بھی زور سے چیخے تھے۔

’’بے ایمان... پورا خاندان ہی بے ایمان ہے۔ ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میرے خلاف ہو کر چین سے نہیں جی سکیں گے۔ ان سب کے لیے اپنی ساری زندگی ختم کر دی، لیکن جب ان کے سپورٹ کا وقت آیا توبدل گئے‘‘ وہ بڑبڑا رہا تھا۔

وہ ماں کے پاس جاتیں تو اس بات کا خیال رکھتیں کہ اس سے سامنا نہ ہو۔ نہ ماں اس کے بارے میں بات کرتی تھیں،نہ وہ پوچھتی تھیں۔ کبھی کسی نے ان کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ کیسے بتاتیں کہ وہ بڑے بھائی کے ساتھ کیوں کھڑی ہوئی تھیں۔ یہاں عدم مساوات کا کوئی اصول نہیں تھا، بلکہ یہاں ایک ضروری اور انسانی اولیت تھی۔ بڑے بھائی کبھی کچھ نہیں مانگتے تھے۔ خودداری سامنے آجاتی اور نوکری میں بھی ایمانداری کی مثال۔ اپنے اصول اور قدروں نے انھیں محرومیوں کے درمیان رہنا اور جینا سکھا دیا تھا۔ چار بچے ان کی تعلیم اور کرئیر،تین لڑکیوں کی شادی۔ وہ انھیں چوبیس گھنٹے کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ وہ ان کے انھیں اوصاف کی مداح تھیں۔ ان کی عزت کرتی تھیں۔ انھیں ترازو کا وہ پلڑا دکھائی دیتا تھا، جو ایک طرف دھن دولت سے بھرا تھا اور دوسرا اوپر خلا میں لٹکا ہوا تھا۔ انھیں دونوں پلڑوں کو برابر کرنا تھا۔ ہاں، ماں کی موت پر سب جمع ہوئے تھے، لیکن کسی نے کسی سے بات نہیں کی تھی، بلکہ اس نے دیدی کی طرف دیکھا تک نہیں تھا،جبکہ وہ بارباراس کا اداس آنسوؤں سے بھرا چہرہ دیکھتی رہی تھیں۔

عجیب کھیل تھا۔ جائداد کی تقسیم میں بس اس نے اتنا سا تو گناہ کیا تھا ہر طرح سے کمزوربھائی کواس نے تھوڑا سا مضبوط بنا دیا تھا،مکان کا بڑا حصہ دلاکر۔

’’اس عجیب کھیل میں ان کے لیے بھائی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے تھے۔ ‘‘بڑی سماج سدھارک بنی پھرتی ہیں، اپنا پیسہ دان دے دیں تب تو کسی کو پتہ چلے گا۔

دوسروں کی کمائی کی چیز کوبانٹ دو اور مہان بن جاؤ۔ دیکھنا ایک دن ناک رگڑتی ہوئی آئیں گی۔‘‘

وہ سنتی رہتیں۔

’’اور کتنی زمین چاہیے،صبر کرنا سیکھو۔ جو دیا ہے وہی کافی نہیں ہے کیا؟ سگے نہیں تو کیا ہوا،اس آدمی نے، ان کے باپ نے اس خاندان کے لیے،اس خاندان کے بچوں کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ ایک ایک دن اور رات کا حساب لگاؤگے توسات جنم بھی کم پڑیںگے۔ ہم اپنا حصہ نہیں لے سکتے۔ انھوں نے کوئی تفریق نہیں کی تھی،پھر تم کیسے کر سکتے ہو۔ تم بھی چھوڑدو۔ دوسرا بنگلہ ہے وہاں چلے جاؤ۔ تاؤجی نے تمھاری پرورش کی ہے،بڑا کیا ہے۔‘‘ ان کی دلیلوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ اس کی ڈائری حساب کتاب سے بھری ہوتی۔ اس کا پیسہ ڈائری کے اوراق سے نکل کراس کے ذہن میں درج ہو گیا تھا۔ اخلاقیات کی چمک نے اسے چوندھیا دیا تھا۔ اس نے ایسے لوگوں کی سیکڑوں مثالیں دی تھیں، جنھوں نے بڑے بڑے مکان اور بنگلے بنائے تھے،لیکن آج وہ خالی پڑے تھے۔ ’’سنبھال سکو گے کیا؟‘‘

روہنی دیدی کے کچھ عکس اس کی آنکھوں کے سامنے کوند گئے۔ بچپن میں سائیکل سکھاتی دیدی، اسکول بھیجتی دیدی، صبح سے شام تک محنت کرتی دیدی۔ کالج سے واپس آکر سب کے لیے کھانا بناتی دیدی، شادی کے وقت رخصت ہوتی دیدی اور شادی کے بعد بھی بھاگی بھاگی آتی دیدی۔ بیماری شادی، بیاہ، چھوٹی بڑی ہر تقریب میں ہاتھ بنٹاتی دیدی۔ جو وقت بچتا اس میں بھی وہ اس کا اور اس کے آفس کا کام سنبھالتی۔ رجسٹر پر سبھی کی حاضری درج کرنا،پیسوں کا حساب کتاب رکھنا۔

غلطی، بس ان سے اتنی ہو گئی کہ جس مکان میں دیدی کا حصہ تھا، وہ شادی کے بعد انھوں نے بڑے بھائی کے نام لکھ دیا تھا، کیونکہ انھیں لگتا تھا، تاؤجی کے تعاون کا اندازہ پتا جی کو بخوبی نہیں تھا۔ باپ نے اپنے بیٹے کے نام سب کچھ لکھ دیا تھا،لیکن جو تاؤجی تاعمر ان سب کی ذمے داری اٹھاتے رہے، ان کے بیٹے کے نام کچھ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے دونوں بھائیوں میں کبھی کوئی فرق نہیں سمجھا تھا، بلکہ ان کو(تاؤجی کے بیٹے)وہ زیادہ ہی مانتی تھیں۔

’’پیسہ تو ہم نے لگایا تھا، وہ بھی لاکھوں روپیہ۔‘‘

’’واپس لے لینا اور کیا؟‘‘

’’ہم نے کیا کیا نہیں کیا تم سب کے لیے،لیکن بدلے میں تم نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔‘‘

ہاتھ سے بازی نکل چکی تھی۔ روہنی کے حساب سے انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑاکام کیا تھا جبکہ اس کے حساب سے انھوں نے دھوکا دیا تھا۔ اس کے لاکھوں روپئے کا نقصان کیا تھا۔

بس یہی ایک وجہ تھی جس نے ان دونوں کے درمیان نفرت،غصہ اوردرد کی خاردار راہ بنا دی تھی۔ جانتی ہیں، مکان کو لے کر اس کے بہت سے خواب تھے۔ مگر وہ جانتی تھیں غیرمنقولہ جائیداد رشتوں سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔ گھر میں چارچار گاڑیاں،جن کی قیمت ایک کروڑ سے ساٹھ لاکھ تھی۔ فارم ہاؤس،ویرہاؤس،مارکیٹ میں لگا پیسہ، بچوں کے نام فکسڈ ڈپازٹ،کلو دو کلوسونا،ہیرے جواہرات۔

’’تم تو ان سب کے پیچھے اس قدر بھاگ رہے ہو، ایک دن تمھیں ان ساری چیزوں سے بیراگ ہو جائے گا۔ یہ ساری چیزیں تمھیں بے معنی لگنے لگیں گی۔‘‘وہ سمجھاتی تھیں۔

تب بھی وہ حقارت سے کہتا تھا،’’بغیر پیسے کے تو نمک روٹی تک نہیں آتی۔ یہ ادھیاتمیک خیالات، مساوات اور سپردگی کی باتیں،کارخیر اور نیکی کی باتیں اوراصول سب دھرے رہ جائیں گے۔ جب خود کا پیسہ جائے گا، تب پتہ چلے گا۔کھوکھلی باتیں ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے... یہی سمجھ لو۔‘‘ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔

’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘آشی نے پوچھا۔

’’کچھ نہیں۔ ایک بار بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا؟ کون ساتھ میں رہا ہوگا؟ کس نے کیا کیا ہوگا۔ لڑکیاں بھی اپنی ضد میں رہتی ہیں،ماں کی لڑائی کو اپنی لڑائی بنا لیا۔‘‘

’’دیدی کے اپنے پرسنل ریلیشنزبہت رہے ہیں۔‘‘

’’پھر بھی۔‘‘

’’کیا لڑکیاں نہیں آئی ہوں گی۔‘‘

’’آنی تو چاہیے۔‘‘

’’گھر ہو کر آتے ہیں۔‘‘

’’بات کر لو۔‘‘

’’نہیں، مل کر آتے ہیں۔‘‘

تجوری میں سے پچاس ہزارروپئے نکالے۔ راستے سے پھل اور میوے خریدے۔ نہ جانے کیوں ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔جی گھبرا رہا تھا... بات کیسے کریں گے؟حال چال کون پوچھے گا؟ انھوں نے بات نہ کی تو، دروازہ نہ کھولا تو۔

’’بہت برا ہوا۔‘‘آشی نے کہا۔

’’بتانا تو تھا...‘‘رہ رہ کر ایک ہی بات زبان پر آرہی تھی۔

’’ہاں...‘‘

سڑک پر بھیڑ تھی۔ اے سی گاڑی میں بھی عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ کالونی میں دائیں بائیں مڑ کر جانا پڑرہا تھا۔ تین سال سے نہیں آیا تھا، اس لیے سب کچھ بدلابدلا سا نظرآرہا تھا۔ جو پلاٹ خالی پڑے تھے، ان پراب مکان بن چکے تھے۔ ہرمکان کے سامنے ایک دو پیڑ لگے تھے،جس سے کالونی سرسبزوشاداب نظر آرہی تھی۔ گاڑی دروازے کے باہررکی۔ پڑوسن نے کھڑکی کھول کر دیکھا۔ بغل کا مکان روہنی  کا تھا۔ گیٹ پر تالا لگا تھا۔

گملوں میں پھول کھلے تھے،مٹی گیلی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ یہیں کہیں گئی ہوں گی۔ پڑوسن باہرنکل کر آئی۔

’’آپ کون؟‘‘

’’میں ان کا چھوٹا بھائی ہوں۔‘‘

’’نمستے۔‘‘

’’دیدی کہاں گئی ہیں، کچھ آئیڈیا ہے آپ کو۔‘‘

’’آپ کو نہیں معلوم؟ وہ تو بڑی بیٹی کے پاس چلی گئی  ہیں۔‘‘

’’کب؟‘‘

’’دس دن ہو گئے۔‘‘

’’ارے...‘‘

’’آئیے،اندرآئیے۔‘‘

’’طبیعت تو ٹھیک تھی؟‘‘

’’ہاں... آپریشن ہو گیا تھا۔بڑی بیٹی آگئی تھی۔ کیمو کے وقت چھوٹی بیٹی پاس میں تھی۔ ڈاکٹر نے جانے کی اجازت دی، تبھی گئیں۔ بڑی سمجھدار اور بہادرعورت ہیں،سب کچھ اکیلی کر لیتی تھیں۔ حالانکہ بیچ بیچ میں بیٹیوں کی دوست آجاتی تھیں۔ ان لڑکیوں نے بھی بہت سیوا کی۔‘‘

ایسا لگا اندر کچھ بہہ رہا ہے،گاڑھا،چپچپا سا،تیکھا اور کھولتا ہوا احساس۔

’’کب واپس آئیں گی،کچھ بتایا؟‘‘

’’نہیں، لڑکیاں کافی پریشان تھیں۔ اب شاید وہیں رہیں۔ ہاں... میرے پاس مکان کی چابی چھوڑ گئی ہیں۔ مالی بھی آتا جاتا رہتا ہے۔‘‘

’’آپ کے پاس موبائل نمبر تو ہوگا؟ دراصل میرے موبائل سے سارے نمبرڈیلیٹ ہو گئے ہیں۔‘‘ اپنی آوازکوفطری بناتے ہوئے اس نے کہا۔

’’ہمیں تو ان کی بڑی فکررہتی تھی، لیکن ایشور نے سب کچھ ٹھیک کردیا۔ بس وہ ٹھیک رہیں،ہم یہی پرارتھنا کرتے ہیں۔‘‘ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

’’چلتے ہیں۔آپ سے مل کراچھا لگا۔آپ لوگ یہاں کب آئے؟‘‘

’’پچھلے سال۔‘‘

’’آپ نکیتا کو جانتے ہیں؟‘‘ پڑوسن نے اس سے پوچھا۔

’’ہاں،بہت اچھی طرح۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’وہ میری بۡوا کی لڑکی ہے۔ کزن۔‘‘

’’ہاں... وہ بھی ایسا ہی کچھ بتاتی تھیں۔‘‘

’’مجھے اچھی طرح تو نہیں معلوم،لیکن انھوں نے بتایا تھا کہ یہ مکان اپنی وصیت میں انھوں نے نکیتا کے نام کر دیا ہے۔ ایک کاپی انھوں نے پوسٹ کر دی تھی اور ایک میرے پاس رکھ دی تھی کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہوجائے تو میں انھیں پہنچادوں۔‘‘

دونوں حیران ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے۔ باہر نکلتے ہوئے اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ گاڑی کا گیٹ کھول کرسیٹ پربیٹھا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔

’’ارے... اب کیوں رورہے ہو،دیدی ٹھیک ہیں نہ۔ ان سے بات کر لینا۔‘‘

’’اب بات کرنے کوبچا ہی کیا ہے۔‘‘

اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ ایسا لگا،آج وہ دنیا کا سب سے مفلس انسان ہے اور دیدی سب سے امیر اورمتمول۔

Khursheed Alam

F 23/6C, 2nd Floor

Shatabdi Enclave, Barola

Sector 49, NOIDA 201301

Mob.+91 98208 11320

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں