مجھے سوئٹزرلینڈ جانے کا اتفاق ہوا۔
میرے والد بیمار تھے،ان کا علاج وہاں ہونا طے پایا
تھا،اہل خانہ نے فیصلہ کیا کہ ان کی تیمار داری کے لیے میں ہی ان کے ساتھ جاؤں،میرے
شوہر نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ممکن ہے اس لیے کہ کوئی ان سے مشورہ ہی نہیں
کرتا تھا۔
میں اور میرے والد کا قیام سوئٹزرلینڈ کے ایک چھوٹے سے
شہر میں ہواجو ’لوگانوجھیل‘(Lake Lugano) کے
ساحل پر واقع تھا۔وہ نہایت خوب صورت اور پرسکون شہر تھا،گویا وہ جنت کا ٹکڑا
تھا۔سرسبز و شاداب جنگلات نے اسے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔پہاڑاس کے اوپر سے
جھانک رہا تھا اور جھیل اس کے قدموں میں تھی۔
یوروپ کا یہ میرا پہلا سفر تھا۔میرے خواب وخیال میں بھی
نہیں تھا کہ یوروپ اتنا خوب صورت ہوگا۔اس کی خوب صورتی نے میری رگوں میں زندگی
دوڑا دی۔میرا دل کھِل گیا اور میرے ہونٹوں پر ایک ایسی مسکراہٹ بکھر گئی جو میرے
چہرے کو نگلے جارہی تھی۔میرے ارد گرد تازہ ہواتھی۔سڑکیں ’آرکڈ‘ (Orchid) اور
’گلیڈیولس‘
(Gladiolus) کے پھولوں سے سجی ہوئی تھیں۔میں خوشی سے
اڑنے والی تھی۔میرے والدکی حالت اتنی خراب نہیں تھی کہ میں ہروقت ان کے پاس رہتی،
اس لیے صبح سویرے ان کی ضروریات کو پوراکرکے میں شہر کی سیر کو نکل پڑتی۔میرا جی
کرتاتھا کہ شہر کومیں اپنی آنکھوں میں بسالوں، اس کی ہر چیز کو رکھ لوں،اس کی
سڑکوں اور دکانوں کی تمام چیزیں نگل جاؤں۔یوروپ کی دکانوں میں رکھے سامان کے کیا
کہنے !(اس کا تصور)عقل سے پرے ہے۔۔۔ ایسا محسوس ہورہا تھا گویا میں کسی جادوئی دنیا
میں ہوں۔۔۔مجھے یوں لگ رہا تھا گویا میں مصر کے غار ’’علی بابا‘‘کی سیر کررہی ہوں۔
میں خود کو بھول چکی تھی۔اسی عالم کیف میں، میںاپنے کانپتے ہاتھوں سے دکانوں میں
رکھی چیزوں کو الٹ پلٹ کردیکھنے لگی۔پھر اچانک مجھے محسوس ہو اکہ میں تو ایک نادار
لڑکی ہوں،مجھے اپنی ناداری کا اب تک کبھی اس طرح احساس نہیں ہوا تھا۔درحقیقت اس
وقت میں نادار ہوں، اس لیے کہ یوروپ کی تمام دکانوں کا سامان خرید نے کے لیے میرے
پاس پیسے نہیں ہیں۔
اس جنت نشان شہر میں میرے کافی دن گزرگئے۔
شہر کی ہر ایک شاہراہ کو میں نے پہچان لیا۔ہردکان اور
اس کی ہرچیز سے واقف ہوگئی۔۔۔بلکہ شہر کے کافی لوگوں سے جان پہچان بھی ہوگئی اور
ان کی بولی بھاشا کے بہت سے الفاظ اداکرنے لگی۔جب بھی میں ان سے ملتی تو وہ خوش
ہوتے اور میرانام لے کر مجھے پکارتے۔
پھرمیرا جی اُوٗب گیا۔۔۔چند ہی دنوں میں،میں نے پورے
شہر کو چھان مارا۔اب بے اختیار میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھرنے لگی۔میں اکثر اپنے
آس پاس اپنی پسندیدہ چیزوں کو تلاش کرتی۔ اسی کیفیت میں،میں ہمارے قیام والے ہوٹل
کے قریبی کافی ہاؤس میں جاتی۔حالانکہ کافی ہاؤس میں بیٹھناایک تعجب خیز امر
تھا!کیوں کہ اس سے قبل کبھی بھی میں کافی ہاؤس میں نہیں بیٹھی،مگر اب کافی ہاؤس
میں بیٹھنا ایک عام سی بات ہوچکی تھی۔اب میرے لیے نہ تو یہ کوئی باعث تعجب بات تھی
اور نہ ہی کوئی انوکھی چیز۔
پھر( اچانک )احساس تنہائی مجھے ستانے لگا اور میرا من
کرنے لگا کہ کاش میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ ہوتیں تاکہ وہ سب میری اس جنت کو دیکھتیں
جس میں اس وقت میں رہ رہی ہوں۔لمحات یوں ہی گزرتے جارہے تھے،مجھے اب فکر ستانے لگی
کہ وطن واپسی کے بعد میں اپنی سہیلیوں سے کیسے ملوں گی۔چنانچہ ان کو سنانے کے لیے یہاں
کی بڑی بڑی کہانیاں محفوظ کرنے لگی۔ سہیلیوں کا خیال جھٹک کر اب مجھے کسی مرد کی
سنگت کی تمنا ہونے لگی،کاش میر ے ساتھ کوئی مرد ہوتا،جس کے ساتھ میں باغوں میں
گھومتی،جھیل میں تیرتی،وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں بیٹھتا اور ہم ایک ساتھ شاپنگ
کرتے۔ میر ی آرزوہرگز یہ نہ تھی کہ وہ مرد میرا شوہر ہوتا۔۔۔نہیں ۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔!بلکہ
میری خواہش تھی کہ وہ کوئی ایسا مرد ہوتا جس سے میں محبت کرتی ۔۔۔!!
کافی ہاؤس میں بیٹھ کر میں
نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اس جھنڈ کو ٹکٹکی لگاکردیکھتی رہتی جو جھیل کے کنارے (بے
فکری کیف و سرمستی میں)گھومتا رہتا تھا۔ہر لڑکی کسی لڑکے کی بانہوں میں بانہیں
ڈالے رہتی اور میں بس مسکراتی رہ جاتی۔(کبھی کبھی) اس قافلۂ عشق کودیکھ کر اس طرح
مسکراتی گویا میں اس کی جانب بڑھ رہی ہوں۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں ہر اس نوجوان لڑکے کو دیکھنے
لگی جو اپنی بانہوں میں کسی نوعمر لڑکی کو لے کرچلتا،میں بھی اپنے لیے ایسی ہی
تمنا کرنے لگتی۔۔۔یا میری تمنا ہوتی کہ کاش میںوہ خوش نصیب دوشیزہ ہوتی۔اب میری یہ
تمنا ایک مخصوص قسم کے غصے میں تبدیل ہونے لگی۔مجھے غصہ آنے لگا۔ ہاں۔۔۔ غصہ۔۔۔
غصہ۔۔۔ ہر محبت کرنے والی لڑکی پر ۔۔۔ہر اس دوشیزہ پر جو کسی نوعمر لڑکے کے ساتھ
گھومتی۔۔۔ میرے جی میں آتا کہ میں دوشیزہ پر حملہ کردوں اور اس کے بالوں سے ہی
اسے پکڑکر باندھ دوںاور نوجوان لڑکے کو اس سے چھین لوں۔اب میں اکثر جھیل کے کنار ے
گھوم رہے بے فکر نوجوان جوڑوں کے منظر کے خوب صورت مطلب کو بگاڑنے لگی اور خود سے کہنے
لگی’’شاید لڑکا،لڑکی کو
فریب دے رہا ہے ۔۔۔شاید لڑکی سے جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔اسے تو صرف اس کا جسم چاہیے
۔۔۔‘‘مجھے احساس تھا کہ میں حسد کی آگ میں جل رہی تھی ۔۔۔میں سمجھتی تھی کہ اپنے
سامنے کی خوب صورتی کے (خوب صورت)مفہوم کومیں بگاڑرہی ہوں۔
مجھے پتہ تھا کہ مجھے کیا چاہیے۔۔۔
میں اپنی من پسند چیز کے لیے (ہی تو)لڑرہی تھی۔۔۔
میں دانستہ نہیں لڑرہی تھی ۔۔۔بلکہ (بے اختیار اور) غیرارادی
طور پر کسی (غیبی)طاقت کے زیر اثر لڑنے پر مجبور تھی۔وہ (غیبی)طاقت تھی اس طویل
عمر کی جسے میں پہلے تو پیار سے خالی ایک دوشیزہ اور پھر شوہر کی محبت سے محروم ایک
بیوی کی حیثیت سے گزاررہی تھی۔
جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اس کے بغل والے کمرے میں ایک
اطالوی شخص بھی قیام پذیر تھا،وہ ادھیڑ تھا،شاید چالیس کے لپیٹے میں ہوگا،اس کے
سرکے بال کہیں کہیں سے سفید تھے۔۔۔مگر ہٹا کٹا،خوب صورت اور خوش وضع۔۔۔ (تھا)،مجھے
دیکھ کر دورسے ہی مسکراتا ۔۔۔
میں اس کی مسکراہٹ کو نظر انداز کرتی اور دل ہی دل میں
کہتی’’یہ صحیح نہیں ہے
کہ میں دورسے آنے والی مسکراہٹ کا جواب دوں۔‘‘
مگر وہ شخص اپنی اس حرکت سے بازنہ آیابلکہ جب بھی
ہمارا آمنا سامنا ہوتا،یاہم ڈائننگ ہال میں جمع ہوتے وہ میری جانب دیکھ کر
مسکرانے لگتا۔اس کی آنکھوں میں (بلا کا)استقلال اور ثبات تھا،جیسے وہ اپنی من
پسند چیز سے (اچھی طرح )باخبر ہے۔
)تاہم)اس
کی مسکراہٹ سے تہذیب اور لطافت عیاں تھی۔(کبھی کبھی)اس میں شرمیلا پن بھی
جھلکتا۔گویا وہ اس طرح مجھے (اپنی شرافت کا) یقین دلارہا تھا۔
مگر میں اس کی آنکھوں اور مسکراہٹ کو (مسلسل) نظر
انداز کرتی رہی۔۔۔۔
ایک دن ہماری ملاقات لفٹ میں ہوگئی۔۔۔ اس (وقت لفٹ ) میںبس
ہم دوہی تھے۔اس نے ادب سے میرے سامنے سرجھکا لیااور ایسی سریلی آواز میں بولا گویا
گٹار کی آواز ہو
’’صبح
بخیر‘‘
میں نے (بھی)احتراماً سر خم کردیا اور خاموش رہی۔۔۔ میں
دور ایک کنارے میں کھڑی رہنا چاہتی تھی۔۔۔
اس شخص نے فرانسیسی زبان میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے
پوچھا
’’میڈم!کیا
آپ اسپین سے ہیں۔۔۔؟‘‘
اس کی طرف سے اپنی آنکھیں پھیرتے ہوئے میں نے تیز لہجے
میں جواب دیا
’’نہیں۔۔۔!‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا
’’توکیا
فرانس سے۔۔۔؟‘‘
میں نے جواب دیا
’’نہیں۔۔۔!‘‘
وہ تھوڑی دیر خاموش رہا تاکہ مجھے بولنے کا موقع دے۔۔۔یا
میں اسے بتاؤں کہ میں کہاں کی باشند ہ ہوں۔۔۔ مگر میں خاموش رہی اور اس سے اپنی
آنکھیں پھیرلی۔
اس نے پھر پوچھا
’’اب
(آپ کے)والد محترم کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘
اس طرف دیکھے بغیر زورزور سے زمین پر پیر پٹختے ہوئے میں
نے جواب دیا
’’الحمد
اللہ!‘‘
لفٹ رک گئی۔ میں (تیزی سے) باہر نکل آئی۔ میرے پیچھے
وہ شخص بھی باہر نکل آیا اور میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ پھر کپکپاتے ہونٹوں پر مسکان
بکھیرتے ہوئے کہنے لگا:
’’سچ
تو یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ مصری خاتون ہیں،میں نے ہوٹل مینیجرسے دریافت کرلیا
تھا ۔۔۔ میں آپ سے تصدیق کرنا چاہتا تھا اور کچھ بات بھی کرنا چاہتا تھا۔ آپ کا
کیا خیال ہے، شہر کے باہر منعقد ہونے والے گھوڑ دوڑ کے مقابلے کو دیکھنے کے لیے میرے
پاس دو ٹکٹ ہیں۔ (یہ )میری خوش نصیبی ہوگی اگرآپ میری دعوت قبول کریں۔‘‘
میں نے اس کی طرف منفی نظروں سے دیکھا اور جھٹ سے بولا
’’معاف
کیجیے۔۔۔شکریہ!‘‘
میں جلدی سے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازے
میں اندرسے تالا بھی لگالیا،اس خوف سے نہیں کہ وہ اندر آجائے گا بلکہ اس ڈرسے کہ
کہیںمیں (ہی)نکل کر اس کے پاس نہ چلی جاؤں۔۔۔
میں نے لمبے چوڑے بیڈ پر خود کو ڈال لیا اور آزادی کی
سانس لینے لگی۔
میں احمق ہوں۔۔۔
میں نے اس کی دعوت کیوں ٹھکرائی ؟
مجھے اس کی ضرورت ہے۔۔۔وہ ایک شائستہ انسان لگتاہے،بلکہ
وہ اگر شائستہ نہ بھی ہو،تب بھی مجھے اس کی ضرورت ہے۔
لیکن اس کے بعد بھی (میں) مسلسل اس کو نظر انداز کرتی
رہی اور اس کے سلام کے جواب میںبے التفاتی برتتی رہی۔۔۔
ایک دن جب میں ہوٹل واپس آئی تو اس شخص کو میں نے اپنے
والد کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا۔۔۔میں نے چاہا کہ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھی
اپنے کمرے میں چلی جاؤں۔۔۔مگر میرے والد(صاحب) نے مجھے بلالیا اور اس سے ملاقات
کرادی۔۔۔ وہ شخص مجھ سے (گرمجوشی سے)ہاتھ ملاتے ہوئے بولا
’’محترمہ!اگر
آپ کو یاد ہوتو اس سے پہلے بھی ہم لوگ لفٹ میں مل چکے ہیں۔‘‘
میں نے (بدستور)بے رخی سے کہا
’محترمہ
نہیں ۔۔۔بیگم۔۔۔‘‘
اس شخص نے جواب دیا
’’معاف
کیجیے گا،مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ شادی شدہ ہیں! ‘‘
)پھر)میں
اور وہ والد (صاحب)کے پاس بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مجھے محسوس ہوا کہ اس کی باتیں
مجھے اسیر کیے جارہی ہیں۔۔۔وہ کبھی اپنے دیس کی باتیں کرتا اور کبھی میرے وطن کی
۔۔۔کبھی فیشن کے بارے میں تو کبھی میوزک اور آرٹ کے متعلق باتیں کرتا۔۔۔اس کی باتیں
ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔۔(وہ )دل چسپ بھی (اتنی ہی ) تھیں۔۔۔
(اب)وہ
شخص ہمارا دوست بن گیا۔۔۔ہمیشہ ہمارے ساتھ بیٹھتا ۔۔۔ڈائننگ ہال میں اپنے ٹیبل سے
اٹھ کر ہمارے پاس آکر بیٹھ جاتا۔۔۔
میری زندگی میں اب ایک نئی چیزرونما ہوچکی تھی۔
وہ شخص میرے وقت اور سوچ دونوں کو متاثر کرنے لگا۔
وہ صبح سویرے اپنے کام سے باہر چلاجاتا اور میں کافی
ہاؤس میں جابیٹھتی،نیز اس کی واپسی سے پہلے لوٹ کر اس کا انتظار کرتی رہتی۔
میرے ہونٹوں پر (پرانی)مسکراہٹ لوٹ آئی۔۔۔
جھیل کے کنارے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو دیکھ کر اب میں
غصہ نہ ہوتی۔۔۔’’روبرٹ‘‘مجھے اپنے ساتھ جھیل کے کنارے سیر کے لیے بلا لیتا ۔۔۔
مگر میں(ہمیشہ کی طرح)انکار کردیتی۔۔۔
میں کیوں انکار کردیتی تھی۔۔۔؟
مجھے نہیں معلوم۔۔۔
میں دیررات تک اس کے متعلق سوچتی رہی ۔۔۔ایسا لگ رہا
تھا کہ وہ پارک میں میری بانہوں میں بانہیں ڈال کر گھوم رہا ہے،مجھے ایسا محسوس
ہورہا تھا کہ وہ میرے ساتھ ہے اور ہم دونوں روپ وے(Ropeway)کے ذریعے پہاڑ پر چڑھ رہے
ہیں۔مجھے خیال آتا کہ ہم دونوں ایک ساتھ جھیل میں تیراکی کررہے ہیں۔۔۔اور اس سے
بھی بڑھ کر مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ مجھے بوسہ دے رہا ہے اور اپنے سینے سے لگا رہا
ہے۔
ان سب (باتوں)کے باوجود میں اس کی پیش کش کو ٹھکرادیتی
ہوں۔۔۔
میں تو یہاں آزاد ہوں ۔۔۔بالکل آزاد اور تنہا بھی ۔۔۔
یہاں کوئی ایسی سوسائٹی نہیں ہے جو میرا محاسبہ کرے یا مجھے دیکھے اور میری پروا
کرے۔۔۔یہاں تو دوستوں اور سہیلیوں کا بھی کوئی ڈرنہیں ہے۔۔۔میرے شوہر اور بچے سب
مجھ سے دور ہیں۔اڈونچر (Adventure)کی ساری سہولتیں یہاں
موجود ہیں۔۔۔اور روبرٹ (بھی)کسی اڈونچر سے کم نہیں ۔۔۔ وہ سراپا پیار ہے
۔۔۔ہاں۔۔۔! وہ پیار ہے ۔۔۔
اس کے باوجود میں اس کی پیش کش کو ٹھکراتی رہی۔۔۔
ایک مرتبہ جب میں نے اس کی پیش کش کو ٹھکرایا تو اس نے
مجھ سے کہا
’’میں
چاہتا تھا کہ میں تمھارے شوہر سے ملوں اور تمھاری وجہ سے اسے مبارک باد دوں،کیوں
کہ میں نہیں جانتا کہ دنیا میں کوئی ایسی بیوی ہے جو اپنے شوہر کو اس حد تک پیارکرتی
ہو۔۔۔‘‘
میں اس کا مذاق اڑاتے ہوئے مسکرائی۔۔۔
اسے معلوم نہیں کہ میں نے اس شوہر کو کیسے اختیار کیا؟
جب میں بارہ برس کی تھی اس وقت میرے گھروالوں نے زبردستی
میری شادی کرادی۔۔۔میں اس عمر میں شادی کرنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔میں تو اپنی پینٹنگ
کی پڑھائی جاری رکھنا چاہتی تھی ۔۔۔اور یوروپ جاکر اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی تھی
۔۔۔مگر گھر والوں نے شادی پر اصرار کیا۔۔۔اوروہ میرے اس اکلوتے خواب کو چکنا چور
کرنے پر اتارو ہوگئے جس کو میں جیتی تھی۔۔۔میری ایک نہ چلی ۔۔۔میں نے خود کشی کی
بھی دھمکی دی۔۔۔مگر ان لوگوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی۔۔۔
مجھے شادی کے لیے مجبور کیاگیا۔۔۔
میرے دروازے پر تین تین منگیتروں کی لائن لگی تھی ۔۔۔ایک
نوجوان لڑکا جو ڈاکٹر تھا اور خوب رو اور کافی مال دار تھا ۔۔۔دوسرا انجینئرتھااورجوانی،خوب
صورتی اور مال ودولت میں پہلے والے سے کم نہ تھا۔۔۔اور تیسرا شخص وزارت زراعت میں
ملازم تھا،جو خوب رو نہیں تھا۔۔۔بلکہ اس کی آنکھوں پر ایک موٹے فریم والا چشمہ
لگاتھا اور ان دونوں سے خوب صورتی اور مال داری میں بھی کم تھا۔
پھر بھی میں نے اسی تیسرے شخص کو چنا۔۔۔
میں نے ایسا کیوں کیا؟
میں نے اپنے گھر والوں کو اشتعال دلانے کے لیے ایسا کیا۔۔۔
مجھے لگا کہ ایسا کرکے میں ان سے بدلہ لے رہی ہوں اور
انھیں سزا دے رہی ہوں۔۔۔
گھر والوں نے بڑی کوشش کی کہ میں اپنی رائے بدل دوں اور
ڈاکٹر یا انجینئر سے شادی کروں۔۔۔میں اپنے فیصلے پر اٹل رہی ۔۔۔اور میں نے سختی سے
کہاکہ اگر آپ لوگ میری شادی کروانا چاہتے ہیں تو میں اسی شخص سے کروں گی۔۔۔
آخر کار میرے گھر والوں نے اسی شخص سے میری شادی کرادی۔۔۔
میں گھر والوں کی پریشانی پر ایسے مسکرارہی تھی جیسے کہ
میں نے ان سے انتقام لیا ہو۔۔۔
میری شادی کے پانچ برس بیت گئے ۔۔۔مگر روزاول سے ہی
مسلسل میں تکلیف میں رہی اور خاموشی کے ساتھ پریشانی سہتی رہی۔۔۔
میرا سینہ جذبۂ انتقام سے بھر چکا تھا۔۔۔
میرا بیٹا اور بیٹی جن سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا
تھا،ان کے پیدا ہونے سے بھی میری تکلیف کم نہ ہوئی بلکہ وہ دونوں تو محض اس اذیت کی
قیمت تھے ۔۔۔
ان سب کے باوجو د ’روبرٹ‘یہ سمجھتا تھا کہ میں اپنے
شوہر کی وجہ سے اس سے محبت کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہی ہوں۔
نہیں روبرٹ ۔۔۔میں اپنے شوہر سے بالکل محبت نہیں کرتی
۔۔۔میں تو صرف تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔صرف تمھیں ہی چاہتی ہوں۔۔۔
یہ مت پوچھ کہ میں تم سے بے رُخی کیوں اختیار کررہی ہوں
۔۔۔مجھے خود بھی معلوم نہیں۔۔۔شاید اس لیے کہ میں تمھیں چاہتی ہوں۔۔۔مگر ڈرلگتا ہے
کہ کہیں یہ پیار کامیاب نہ ہوجائے اور عنقریب جدائی کے بعد وہ پیارمیرے لیے کہیں
پریشانی کا باعث نہ بن جائے۔۔۔ شاید میں پیار کے سلسلے میں ڈرپوک ہوں۔۔۔ہاں میں
بزدل ہوں۔۔۔بزدل۔۔۔ بزدل ۔۔۔
میں تکلیف جھیل رہی ہوں۔۔۔
اپنی مزاحمت کی وجہ سے میں تکلیف میں مبتلا ہوں۔۔۔اپنے
لیے مزاحمت ۔۔۔روبرٹ کے لیے مزاحمت ۔۔۔مزاحمت اس خوب صورتی کے لیے جو میرے گردو پیش
میں ہے۔۔۔مزاحمت ہر اس چیز کے لیے جو پیار کے تبادلے پر مجھے آمادہ کررہی ہے۔۔۔
اب آخری دن آپہنچا ۔۔۔
کل ہم اپنے وطن مصر لوٹ جائیں گے۔۔۔
کافی ہاؤس میں بیٹھ کر میں وطن واپسی کے بارے میں
سوچنے لگی۔۔۔
اپنے بچوں،شوہراور اہل خانہ کے بارے میں نہیں سوچ رہی
تھی بلکہ اس ناکامی کے بارے میں سوچنے لگی جسے لے کر میں واپس لوٹ رہی تھی ۔۔۔میں
خالی ہاتھ واپس جاؤں گی۔۔۔خوب صورتی کا آخری مزہ چکھے بغیر میں واپس لوٹ جاؤں گی
۔۔۔جیسے آئی تھی ویسے ہی عقل مند لوٹ جاؤں گی ۔۔۔
ایک شدید بغاوت مجھے کاٹ کھانے لگی ہے۔۔۔میں اپنی آزادی
کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔۔۔اپنی تنہائی کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔۔۔میں خود سے
لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔۔۔میں کسی بھی حالت میں اڈونچر چاہتی تھی۔۔۔بس مجھے
ضرورت تھی جرأت و ہمت کی۔۔۔ہمت۔۔۔ہاں ہمت کی۔۔۔
کافی ہاؤس میں میرے بغل کی ٹیبل پر بیٹھا ایک دوسرا
شخص میری طرف دیکھ رہا تھا اور مسکرارہا تھا ۔۔۔وہ کافی دیر تک مجھے دیکھ کر مسکراتا
رہا۔
اچانک۔۔۔
غیر ارادی طور پر۔۔۔
میں اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اس کے لیے ایک بے معنی
لمبی سی بناؤٹی مسکراہٹ کا اظہار کیا۔۔۔
وہ منھ میں سگریٹ دبائے میری جانب بڑھا۔۔۔
اس نے اپنی جیب سے چاندی کے کچھ سکے نکالے اور میری کافی
کی قیمت اداکرنے کے لیے انھیں ٹیبل پر رکھ دیا ۔۔۔پھر اس نے بانہوں میں مجھے بھینچ
لیا،سگریٹ اب بھی اس کے منھ میں تھی،اور بولا
’’میرے
ساتھ چلو۔۔۔‘‘
میں نے اس کی طرف پس وپیش اور خوف کے عالم میں دیکھتے
ہوئے پوچھا
’’کہاں؟‘‘
اس نے جواب دیا
’’جلد
ہی تمھیں معلوم ہوجائے گا۔‘‘
وہ اپنی بانہوں کو میری بانہوں میں ڈال کر میری طرف دیکھے
بغیر مجھے لے کر چل پڑا۔۔۔پھر مجھے اپنی کار میں بٹھایا۔۔۔میری سانسیں اٹک رہی تھیں۔۔۔میرا
سینہ پھٹا جارہا تھا۔۔۔میری آنکھیں چکا چوندھ تھیں۔۔۔مجھے کچھ بھی پتہ نہیں چل
رہا تھا ۔۔۔بس اتنا معلوم ہورہا تھا کہ میں کسی اڈونچرمیں ہوں مگر یہ معلوم نہیں
کہ وہ اڈونچر ہے کیا۔۔۔؟
میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے کہا
’’میں
جھیل کے کنارے پیدل چلنا چاہتی ہوں۔۔۔‘‘
اس نے جواب دیا
’’بعد
میں ۔۔۔‘‘
میں نے پوچھا
’’کیا
ہم پارک جائیں گے؟‘‘
وہ بولا
’’ابھی
نہیں۔۔۔‘‘
سگریٹ اب بھی اس کے منھ میں تھی۔۔۔
شہرکے اطراف میں لکڑی سے بنے ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے
اس نے کارروک دی اور باہرنکل کر آرڈر کے لہجے میں بولا
’’)باہر
)آؤ۔۔۔!‘‘
مجھے کچھ تردد ہوا اور کار سے باہر نہیں نکلی۔۔۔کار کے
ارد گرد گھومتے ہوئے اس نے میرے لیے کار کا دروازہ کھولا اور میری کلائی پکڑکر
باہر کھینچ لیا۔۔۔وہ خوف ناک طریقے سے مسکرارہا تھا اور اس کی مسکراہٹ کے بیچوں بیچ
سگریٹ جھانک رہی تھی۔۔۔
وہ مجھے اس چھوٹے سے لکڑی کے گھر میں لے گیا ۔۔۔میں کھڑی
اُ سے دیکھتی رہی اور وہ دوگلاسوں میں شراب انڈیل رہا تھا ۔۔۔گویا میں ایک بچی ہوں
اور کسی مداری کو دیکھ رہی ہوں جو اپنا کرتب دکھانے کی تیاری کررہا ہو۔۔۔
میں نے اس کے ہاتھ سے ایک گلاس لے لیا اور شراب پینے لگی۔۔۔
مجھے اس جام کی ضرورت تھی۔۔۔
مجھے دوسرے پیگ کی بھی ضرورت تھی۔۔۔
وہ میرے قریب آیا اور کافی زور سے اپنے سینے سے مجھے
لگایا اور بوسہ بھی دیا۔۔۔اس کا بوسہ بہت شدید تھا اور اس میں عجیب سی خوش بو تھی،میری
عقل ہوش میں رہنے کی کوشش کررہی تھی تاکہ اس شخص کی سرگرمیوں پر نظر رکھوں اور اس
مداری کے کرتب کو دیکھوں۔شاید کہ اس کا راز فاش ہوجائے ۔۔۔مگر مجھے چکر آنے
لگا۔۔۔
میرے ارد گرد کی تمام چیزیں(جیسے) گھومنے لگیں ۔۔۔
شراب کا نشہ مجھ پر چڑھ چکا تھا ۔۔۔
وہ شخص میرے تن سے کپڑے اتارنے لگا ۔۔۔شایدمیںہوش میں
آچکی تھی۔
نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہاں۔۔۔میں ہوش میں تھی۔۔۔نہیں ۔۔۔نہیں۔۔۔
زور زورسے قہقہے لگاتے ہوئے وہ شخص میرے تن سے کپڑے
اتارنے لگا۔
مجھ میں اسے روکنے کی قوت نہیں تھی۔۔۔
میں (اسے)نہیں روک سکی۔۔۔
ہر چیز گھوم رہی تھی۔۔۔
میں رونا چاہتی تھی۔۔۔
پھر اس نے مجھے چھوڑدیا۔۔۔
میں لڑکھڑاتے ہوئے اٹھی اور اپنے کپڑے ڈھونڈنے لگی
۔۔۔مجھے(اپنی حالت سے) گھن آنے لگی۔۔۔بے بسی میرے پورے وجود میں سرایت کرچکی تھی۔۔۔
میں رونا چاہتی تھی۔۔۔
وہ میرے پاس آیا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، ہونٹوں میں
سگریٹ دبائے ہوئے بولا
’’کتنا
چاہیے؟‘‘
میں نے گھبراکر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
وہ دوبارہ چیخ کر بولا
’’کتنا
چاہیے؟‘‘
پھر قہقہہ لگاکر مجھے دیکھنے لگا،میں خاموش تھی اور میری
آنکھوں میں گھبراہٹ تھی۔وہ میرے ارد گرد گھوما اور میرے پرس میںکچھ رقم رکھ دی۔۔۔
میں چیخ پڑی۔۔۔
میں پاگلوں کی طرح چیخ پڑی۔۔۔
گھر سے نکل کر تیز دوڑی اور بھاگتی رہی۔۔۔معلوم نہیں
کتنا دوڑی۔۔۔پھر میں نے خود کو ایک ٹیکسی میں پایا۔۔۔ میں رورہی تھی ۔۔۔
میں ہوٹل واپس آئی ۔۔۔ابھی سیڑھیاں چڑھنے ہی والی تھی
کہ روبرٹ مل گیا ۔۔۔اس نے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’تم
کہاں تھی؟‘‘
تھوڑی دیر تک میں کھڑی اسے دیکھتی رہی ۔۔۔پھر اچانک چیخ
پڑی
’’تم
۔۔۔تم ۔۔۔تم مجھ سے دور ہوجاؤ۔۔۔تم مجھ سے دور ہوجاؤ ۔۔۔‘‘
پھر میں بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی،وہ کافی حیرانی سے میری
حرکتیں دیکھتا رہا۔۔۔ہوٹل میں مقیم دوسرے لوگ بھی مجھے دیکھ رہے تھے۔۔۔ہوٹل کا
ملازم بھی مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔میں نے اپنے روم کے دروازے میں اندرسے تالا لگالیا
۔۔۔
میں نے کمرہ اس وقت کھولا جب میرے والد (صاحب)فلائٹ کے
وقت کے قریب آنے کی اطلاع دینے آئے۔۔۔
میں اپنے یوروپ کے سفر کے بارے میں اپنی سہیلیوںسے زیادہ
ذکر نہیں کرتی ہوں۔۔۔اور نہ ہی اس کے بارے میں اپنے شوہر اور بچوں کو کچھ بتاتی
ہوں۔۔۔
میں اسے بھلانے کی کوشش کررہی ہوں۔۔۔
میں یوروپ کے سفر کو بالکل بھول جانا چاہتی ہوں۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں