11/1/23

وانمباڑی قومی اردو کتاب میلہ: آٹھویں دن اردو صحافت پر خصوصی پروگرام، 'برقیاتی ذرائع کتابوں کا متبادل ہوسکتے ہیں یا نہیں ؟' کے عنوان سے کالج کے طلبہ کے درمیان تقریری مسابقے اور تمثیلی مشاعرے کا انعقاد

 


 وانمباڑی : قومی اردو کونسل اور وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے اشتراک سے جاری پچیسویں قومی اردو کتاب میلے کے آٹھویں دن کے پہلے سیشن میں اردو صحافت پر  ایک خصوصی پروگرام کا انعقاد ہوا،جس میں اردو صحافت سے وابستہ موقر شخصیات نے اردو صحافت ک مختلف پہلوؤں پر معلومات افزا گفتگو کی۔ روزنامہ سالار بنگلور کے مدیر جناب اسجد نواز نے اپنے خطاب میں صحافت کے مرحلہ وار ترقیاتی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج صحافت اپنے ترقی یافتہ دور میں داخل ہوچکی ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ اور اس کے مختلف ادوار کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عام طور پر اردو صحافت کا آغاز 1822 میں مانا جاتا ہے، حالاں کہ اس سے بہت پہلے ٹیپو سلطان نے اپنی فوج کے لیے اردو اخبار جاری کیا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ اردو صحافت کا کردار ملک کی سلامتی و اتحاد کو برقرار رکھنے اور ملکی مفاد کے تحفظ میں اہم رہا ہے۔ انھوں نے موجودہ چیلنجز کی نشان دہی کرتے ہوئے ان پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر زورر دیا۔

سینئر صحافی امتیاز خلیل نے اپنے خطاب کے دوران موجودہ صدی میں صحافت میں رونما ہونے والی تیز تر تبدیلیوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مایوس کن صورت حال سے افسردہ ہونے کے بجائے نئی ٹکنالوجیکل تبدیلیوں کو قبول کرنا چاہیے اور صحافت کے نئے فارمز اختیار کرکے اپنی باتیں دور تک پہنچانے کے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ہم نئے میڈیمز اپنا کر اردو صحافت کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صحافت محض خبروں کی ترسیل کا نہیں، بلکہ انسان اور انسانیت کو سمجھنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ سوشل میڈیا ہمارے لیے ایک نیا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے ہم آسانی سے اپنی بات پوری دنیا میں پہنچا سکتے ہیں۔ انھوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ آج  اچھی صحافت اردو ہی نہیں، پورے ملک کی ضرورت ہے، جس کا احساس ہر زبان کے صحافی کو ہونا چاہیے۔

بنگلور کے معروف صحافی اعظم شاہد نے کہا کہ صحافت حالات کا آئینہ ہوتی ہے اور صحافی معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ آج صحافت کی شکل بدل گئی ہے، پہلے مشن تھی اب اس کا کردار مشینی ہو گیا ہے۔ آج کے دور میں صحافیانہ اصولوں پر قائم رہنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ انھوں نے اردو اخباروں کو انتظامی سطح پر درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح صحافیوں کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، اسی طرح اخباروں کے مالکان کی بھی تربیت ہونی چاہیے تاکہ اردو صحافت پیشہ ورانہ انداز میں فروغ پاسکے۔ انھوں نے نیو میڈیا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر مین سٹریم میڈیا کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے، تو ہم سوشل میڈیا کی شکل میں موجود متبادل میڈیا کے ذریعے اپنی باتیں کہہ سکتے ہیں اور سامعین و ناظرین کے بہت بڑے حلقے تک درست اور سچی خبریں پہنچا سکتے ہیں ۔

دوسرے سیشن میں 'برقیاتی ذرائع کتابوں کے متبادل ہوسکتے ہیں یا نہیں ؟' کے عنوان سے کالج کے طلبہ کے درمیان مباحثے کا اہتمام کیا گیا ، جس میں چھ کالج کے بارہ طلبہ نے حصہ لیا اور ان میں سے چھ نے موضوع کے مثبت جبکہ چھ نے منفی پہلو پر تقریریں پیش کیں۔اس مسابقے کی صدارت اسلامیہ آئی ٹی آئی کے سکریٹری جناب جاوید اقبال نے کی اور جج کے فرائض پروفیسر سید سجاد حسین ، پروفیسر حبیب احمد اور ڈاکٹر سدید ازہر نے انجام دیے۔ مسابقے میں کامیاب ہونے والے اولین تین طلبہ کو بالترتیب پانچ ہزار ،چار ہزار اور تین ہزار روپے نقد و سندِ توصیفی، جبکہ چھ طلبہ کو ہزار ہزار روپے کے تشجیعی انعام اور سندِ توصیفی سے نوازا گیا۔

تیسرے سیشن میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کے طلبہ کے گروپ کا تمثیلی مشاعرہ منعقد ہوا ، جس‌‌میں انھوں نے مختلف جدید و قدیم شعرا کے منتخب اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں