ساز
برہانپوری ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے شعر و ادب، سیاست، سماجی خدمات،
عوامی زندگی، صحافت اور تعلیمی میدان میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ مورِس کالج، ناگپور
سے اسکولی تعلیم کے بعد بی اے آنرز کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ تشریف
لے گئے جہاں شکیل بدایونی ان سے سینئر طالبِ علم موجود تھے جو بعد میں مشہور فلمی نغمہ
نگار بنے۔ دونوں اپنی اپنی وجوہات سے علی گڑھ سے نکلے اور برطانوی حکومت کے سِوِل سپلائیز
کے محکمے میں ملازم ہو گئے۔ جلد ہی دونوں نے اپنی اپنی نوکری چھوڑ دی۔شکیل بدایونی
دہلی سے بامبے (اب ممبئی) فلمی نغمہ نگاری کے لیے آ گئے۔ سیاسی حالات کی وجہ سے اۡن
دنوں فیملی کے ساتھ بامبے رہنا محفوظ نہیں تھا، اس لیے ساز برہانپوری اپنے والد کے
حکم سے بامبے سے اپنے وطن برہانپور لوٹ آئے۔ یہاں آکر ضلع نِماڑ میں فوڈ انسپکٹر
کی نوکری کی اور اسے بھی چھوڑ کر بالآخر برہانپور میں درس و تدریس کا مستقل پیشہ اپنا
لیا اور قادریہ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول میں لیکچرار ہو گئے اور بعد میں وائس پرنسپل۔
برہانپور میں جب سائنس کالج کھلا تو بوہرہ سماج کے اسی ادارے ’التعلیم‘ کے زیرِ انتظام قادریہ سیفی گولڈن جوبلی بوائز سائنس کالج میں انگلش
اور قادریہ گرلس کالج اور ڈپٹی ٹیچرس ٹریننگ
انسٹیٹیوٹ( ڈپٹی کالج) میں انگریزی اور نفسیات
بھی پڑھانے لگے۔ درس و تدریس کا پیشہ اپنانے کے دوران کھنڈہ سے بی ایڈ بھی کیا۔ آپ
نے یونیورسٹی آف ساگر، ساگر (اب سر ہری سنگھ گور یونیورسٹی) سے انگریزی ادبیات میں
ایم اے کیا۔
آپ
نے سینٹرل پرووِنس اینڈ برار کے 12 شعرا کے ناگپور سے شائع تذکرے میں سب سے کم عمر
کے شاعر کی حیثیت سے جگہ پائی۔ یہ بات مجھے ان کے دیرینہ دوست ناگپور کے پروفیسر منشاء
الرحمن خان منشانے خود ایک بار درگ بِھلائی، چھتیس گڑھ میں ان کے قیام کے دوران بتائی
تھی۔ تب وہ اپنے ویٹرینری ڈاکٹر بیٹے کے یہاں دۡرگ
میں قیام پزیر تھے۔ ساز برہانپوری نے پندرہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی اور
محض سترہ سال کی عمر میں اپنے وقت کے موقر ادبی ماہنامہ ’ساقی‘ دہلی، میں ان کی غزل فروری 1939 کے شمارے میں شائع ہو
گئی تھی۔ اس کی اشاعت کے ساتھ ہی انھوں نے شاعری جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا ورنہ
بصورتِ دِگر شاعری چھوڑنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ ماہنامہ ساقی دہلی میں ایک غزل اور
ماہ نامہ ادبِ لطیف لاہور میں دو غزلیں جو 1939 سے 1941 کے درمیان شائع ان کی ابتدائی
غزلیں ہیں، کلاسیکی رنگ میں مضامینِ حسن و عشق سے مملو ہیں مگر زبان و بیان کی فنّی
گرفت سے معمور کسی پختہ کار شاعر کا کلام معلوم ہوتی ہیں۔ ساز برہانپوری مشاعروں میں
اپنے معیاری کلام، تحت میں گونج دار آواز اور عمدہ نظامت کی وجہ سے کۡل
ہند مشاعروں میں وسط ہند یعنی اس وقت کے سینٹرل پرووِنس اینڈ برار کے نمائندہ شاعر
بن گئے تھے۔ مظفر حنفی کھنڈوہ میں ابتدائی ادبی زندگی کے دوران ان سے اپنے ماہنامہ
’نئے چراغ‘ کے لیے نگارشات لیتے رہے تھے۔ مظفر حنفی نے جن کا تعلق کھنڈوہ سے تا عمر
ہی خاص رہا، اپنی غزلوں کے پچاس سالہ انتخاب ’روحِ غزل ‘ (1993) میں ساز برہانپوری
کو بھی تین غزلوں کے ساتھ اپنے عصر کے نمائندہ شعرا میں شامل کیا۔(ص 479)
ساز برہانپوری نے تقریباً ہر صنف سخن پر طبع آزمائی
کی بلکہ اپنے طور پر اسے عروج تک پہنچایا۔ ان کے سلام، منقبت، نعت تو آج تک برہانپور
کے پرانے اور نئے سلام خواں و نعت خواں حضرات پڑھتے آئے ہیں۔ قطعات کے معاملے میں
نریش کمار شاد اور محمود دۡرّانی
(برہانپور/ بامبے) کی طرح ساز برہانپوری بھی شہنشاہِ قطعات کہے جا سکتے ہیں۔ گرچہ ان
کے قطعات پر مشتمل کلام نایاب ہے مگر ویب سائٹ ریختہ پر ساز برہانپوری کے نام سے پانچ
قطعات پر مشتمل ایک صفحے کا عکس میرے پاس محفوظ ہے۔ ان قطعات میں سیاسی بصیرت و طنزیہ
کاٹ کا جواب نہیں۔ راغب فاونڈیشن برہانپور کے صدر اور جواں سال شاعر ایڈوکیٹ عابد احمد
خان طالب ہاشمی نے ’کہکشاں‘ (سنہ اشاعت 2018 ) کے نام سے کتاب ترتیب دی ہے جس میں محمود
بیگ ساز غالبی برہانپوری کے نام سے ایک نعت میری نظر سے گزری ہے۔
رباعیوں
کے معاملے میں ہئیتی و عروضی تجربات بے شک نہیں کیے لیکن رباعیاں جتنی لکھیں ہیں خوب
لکھی ہیں۔نظموں کا رنگ و آہنگ رومانی ہے اور زیادہ تر جوانی کے دنوں میں کہی گئی ہیں۔
نئی نئی ردیفیں اور مشکل قافیوں کو برتنے میں تو جواب ہی نہیں۔ پروفیسر وسیم افتخار
برہانپوری نے اپنی تحقیقی کتاب ’برہانپور میں اردو نثر نگاری ماضی اور حال کے آئینے میں‘ (نومبر 2012) اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر شبانہ نکہت
انصاری نے اپنی کتاب ’میر کے مختلف سلاسل اور برہانپور‘ (2020) میں ساز برہانپوری کا
مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔
محمود
بیگ ساز برہانپوری فنی و اسلوبی تنوع سے لیس داخلی و خارجی کرب، سیاسی بصیرت و عصری
حسیت کے ایک صاحب طرز شاعر کے طور پر بیسویں صدی کے معتبر شعرا میں اپنا ایک منفرد
مقام رکھتے ہیں۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی بھوپال نے محمود بیگ ساز برہانپوری کا پہلا
شعری مجموعہ ’تارِ نفس‘ کے نام سے 1995 میں بھوپال سے شائع کیا ہے جو غرلیات کے انتخاب
پر مشتمل ہے۔ یہی ابھی تک کا پہلا اور آخری شعری مجموعہ ہے۔ غیر مطبوعہ کلام میں حمد،
نعت، منقبت سلام پر مشتمل بیاض ہے۔ نظموں پر مشتمل بیاض غائب ہو چکی ہے۔ قطعات، رباعیات
اور غزلوں پر مبنی ان کی ڈائریاں ان کی زندگی میں ہی ادھر ادھر ہو گئیں۔ قران مجید
کا ترجمہ و تفسیر (غیر مطبوعہ) عدم توجہ سے دیمک زدہ ہوکر ضائع ہو گیا۔ آپ نے نظم
و نثر پر بھی یکساں قدرت پائی ہے اور آپ کے مضامین یہاں وہاں مل جاتے ہیں مگر برہانپور
کے نثری ادب پر تحقیق کرنے والوں نے ان کی نثر نگاری کے باب کو اَن چھوا چھوڑ دیا ہے۔
نصف
صدی تک سیاست میں سر گرم عمل رہنے کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور
پھر حضرت نظام الدین چشتی المعروف بہ حضرت شاہ بھکاری کے آستانے سے وابستگی اور بڑھادی
اور جب تک ڈھلتی عمر کے ساتھ ہمت اور صحت نے ساتھ دیا آستانے کی روزانہ حاضری اور روحانی ریاضت کا سلسلہ
قائم رکھا۔ امن کے موسم ہوں کہ فرقہ وارانہ تناؤ کا دور ہر موسم ہر وقت عوام کی بے
لوث خدمت میں حاضر رہے اور شہر کی پر امن روایت کی پاسداری کی، حفاظت کی اور شہر کی
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اہم ستون کے طور پر نصف صدی سے زائد عرصے تک اپنی خدمات انجام
دیں اور نصف صدی سے زائد تقریباً ستر سال تک شعری سفر جاری رکھا۔ کئی سالوں تک انگریزی
روزنامہ ’دی ہتواد، ناگپور‘ کے نامہ نگار بھی رہے۔ شہر کی صحافیوں کی تنظیم میں بھی
سکریٹری رہے۔مہا کوشل انجمن ترقی اردو کے سکریٹری رہے۔ جمعیت علمائے ہند کی برہانپور
شاخ کے معتمدِ اعلیٰ رہے اور سالوں سال فعال رہے۔ کنوینر کے طور پر برہانپور کی تاریخ
میں پہلی بار کل ہند یونانی طبی کانفرنس کا تاریخ ساز انعقاد کیا اور برہانپور میں
یونانی طبّیہ کالج کی بنیاد کے لیے شہر کے نامی طبیبوں، ہمدرد فاؤنڈیشن دہلی کے اشتراک
اور مقامی مخیر حضرات کی مدد پانے کے لیے دن رات ایک کیا۔ اس طرح غالباً سنہ 1964 میں
برہانپور میں سیفیہ حمیدہ یونانی طبیہ کالج، برہانپور کی بنیاد پڑی۔
ساز
برہانپوری کے خانوادے میں ان کے بڑے صاحب زادے مرزا مسعود بیگ (مسعود بیگ تشنہ) نے
ان کی شعری و ادبی وراثت پائی ہے اور بینک آف بڑودہ سے مارچ 2014 میں سینئر مینجر
کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں اور اندور میں رہائش رکھتے ہیں۔ چھوٹی صاحب زادی طلعت سلطانہ
قریشی بھوپال میں سرکاری اسکول میں لیکچرار ہیں اور چھوٹے صاحب زادے مرزا عاصم بیگ
بِھلائی، چھتیس گڑھ میں رہائش رکھتے ہیں اور بزنس کرتے ہیں۔ بڑی بیٹی ڈاکٹر فرحت سلطانہ
مرحومہ کے شوہر ڈاکٹر ممتاز علی خان اور ان کے بچے یو ایس اے میں مستقلاً قیام پزیر
ہیں۔ ساز برہانپوری کے جد امجد ایران سے ایک بزرگ کے قافلے کے ساتھ برہانپور آئے تھے۔
ساز برہانپوری کے جد اعلیٰ پردادا مرزا امان بیگ اماں چغتائی اپنے وقت کے مشہور نعت
گو، سلام گو اور مرثیہ گو شاعر تھے۔ جد امجد دادا مرزا امیر بیگ چغتائی پہلی جنگ عظیم
کے دوران انگریزی حکومت میں پولس سرکل انسپکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور پھر تحریکِ
خلافت سے متاثر ہو کر مقامی طور پر تنظیمی کاموں میں مصروف ہو گئے اور فریضۂ حج سے
واپسی پر بحری سفر میں انتقال فرما گئے تھے۔ والد ڈاکٹر مرزا محبوب بیگ نے سِوِل نافرمانی
تحریک اور خلافت تحریک سے متاثر ہوکر پولس سب انسپکٹر کے عہدے سے عین جوانی میں ہی
استعفیٰ دے دیا، بعدہ وہ کلکتہ سے ہو میو پیتھی کی تعلیم لے کر برہانپور کے پہلے ہومیو
پیتھک ڈاکٹر بنے۔ ساز برہانپوری کے والد کی ہندستانی قومیت پسندی نے انہیں تقسیمِ ہند
پر پاکستان ہجرت کرنے سے باز رکھا۔ یہی ہندوستانی قومیت پسندی اور حب الوطنی کا جذبہ
ساز برہانپوری کی اولاد میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔
مراجع
و مآخذ
- تارِ نفس مجموعہ کلام محمود بیگ ساز برہانپوری ( مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی) 1995
- روحِ غزل( پچاس سالہ انتخاب ) مرتب پروفیسر مظفر حنفی (انجمن روحِ ادب آلہ آباد)
- گہوارۂ علم دارالسرور مرکزِ روحانیت برہانپور
مصنف مولوی معین الدین ندوی( شعبۂ دار الاشاعت جامعہ اشرفیہ، برہانپور نومبر)
1978
- آثارِ برہانپور( برہانپور گائیڈ) مرتب الحاج ماسٹر عتیق اللہ خان مجددی( بزمِ صوفی نور الہدیٰ مالیگاؤں مہاراشٹر
شاخ برہانپور ) 1992
- اردو کی ترقی و نشوونما میں صوفیاء کرام کا
حصہ مولوی عبد الحق
- میر کے مختلف سلاسل اور برہانپور مصنفہ و مولفہ ڈاکٹر شبانہ نکہت انصاری ( سینٹرل
انڈین ہسٹوریکل ریسرچ فاؤنڈیشن، گوالیار) 2020
- برہانپور میں نثر نگاری ماضی اور حال کے آئینے میں : مولف پروفیسر وسیم افتخار انصاری(طباعت سیدہ گرافکس مومن پورہ، برہانپور ( نومبر 2012)
65 Sector A, Green Park Colony
Dhar Road INDORE- 452002
Mob No : 9981377933
Email: baig.masood54@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں