9/1/23

برج پریمی:چند تاثرات : مضمون نگار پریمی رومانی


 ریاست جموں وکشمیر صدیوں سے علم و ادب کا گہوارا  رہی ہے۔ اس میں ایسے ان گنت افسانہ نگار، شاعر، ادیب، دانشوراور صحافی پیدا ہو ئے ہیں جنھوں نے  اپنی گوناگوں تخلیقات سے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔ وہ علم و ادب میں  ایسے نقش  پا چھوڑ گئے ہیں کہ ان کے  ذکر کے بغیر اردو کی کوئی بھی  ادبی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان تخلیق کاروں نے اردو زبان و ادب کی خدمت گزاری میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی۔  اقبال، چکبست، دیا شنکر نسیم، شرر، تربھون ناتھ ہجر،آغا حشر کاشمیری، آنند نرائن ملا، راما نند ساگر قدرت اللہ شہاب، چراغ حسن حسرت، سعادت حسن منٹوکے ساتھ ساتھ کشمیر میں رہ کر جن کشمیری قلم کاروں نے  اس زبان کی آبیاری کی ان میں پریم ناتھ پردیسی، لالہ ملک راج صراف، طالب کاشمیری، کشن سیمیلپوری، شہہ زور کاشمیری، مرزا کمال الدین شیدا، میر غلام رسول نازکی، حامدی کاشمیری، حکیم منظور، عابد مناوری  محمد یوسف ٹینگ، اکبر حیدری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ایسے ہی قلم کاروں میں ڈاکٹر برج پریمی کا  نام بھی نمایاں طور پر لیا جاتاہے، جنھوں نے اپنی گوناگوں تخلیقی صلا حیتوں کو بروئے کار لاکر اردو  زبان و ادب کی بے پناہ خدمت کی اور نہ صرف ریاست میں ہی  اپنا نام روشن کیا بلکہ ریاست سے باہر بھی  اپنی چھاپ ڈال دی۔ڈاکٹر برج پریمی راقم السطور کے والد بزرگوار  تھے۔ان کا اصلی  نام برج کشن ایمہ ہے۔ وہ 24 ستمبر 1935 کو درابی یار حبہ کدل سری نگر کشمیر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد  پنڈت شام لال ایمہ  اپنے عہد کے  ایک معروف قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ  سماجی کارکن بھی تھے۔ وہ اردو اور فارسی کا شستہ مذاق رکھتے تھے   برج پریمی کے ذوق سلیم کو نکھارنے میں  ان کا گہرا ہاتھ رہا ہے۔ 14 سال کی عمر میں  برج پریمی والد کے  سائے سے محروم ہو گئے۔ ان کے بے وقت انتقال  کے بعد مشہور افسانہ نگار پنڈت پریم ناتھ پردیسی (مرحوم) نے ان کے ذوق ادب کی تہذیب کی۔ لیکن یہ رشتہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ بلکہ  انھوں نے اپنے  مطالعے اور مشاہدے کو ہی اپنا رہنما بنایا۔

ڈاکٹر برج پریمی بنیادی طور پر  ایک کہانی کار تھے۔ وہ برسوں تک کئی ادبی انجمنوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ 1976 میں انھوں نے سعادت حسن منٹو۔ حیات اور کارنامے کے موضوع پر تحقیقی مقا لہ لکھاجس پر انھیں کشمیر یونیورسٹی نے  پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ برصغیر ہند و پاک کے نامور ناقدین گرامی کے مطابق  یہ تحقیقی مقالہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ تصور کیا جاتا ہے

ڈاکٹر برج پریمی  اردو کے معروف نقاد اور محقق تھے۔ ادبیات کے موضوع پر ان کی دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ادب کے علاوہ وہ کشمیریات سے  بھی گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ انھوں نے کشمیر کی تاریخ،  ثقافت  اور ادب کے بیش بہا پہلووں کو اردو قارئین تک پہنچانے کا گراں قدر  کارنامہ انجام  دیا ہے۔ ان کے قابل قدر علمی  اور ادبی کارناموں کے پیش نظر جموں و کشمیر کلچرل اکادمی، یوپی اردو اکادمی، مغربی بنگال اردو اکادمی  اور آل انڈیا ہندی اردو سنگم نے انھیں وقتاً فوقتاً گراں قدر اعزازات سے نوازا۔

وہ کشمیر کے عاشق تھے اور کشمیر کے کلچر، تہذیب وتمدن  اور  ادب  کے گو ناگوں موضوعات پر کافی کام کر چکے تھے اور اس  طرح سے ا نھوں نے کشمیر کی تاریخ و تمدن، کلچر اور ثقافت کے بعض گمنام گوشوں کو منور کیا، اسی لیے وہ کشمیر شناس کے نام سے بھی جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔  خود  مادر کشمیر کی نقاب کشائی اس طرح سے کرتے ہیں

’’ کشمیر میری جنم بھومی ہے، میری ماں ہے

اس کے ہر ذرۂ خاک سے مجھے عشق ہے

اس کے نیلے امبر کے نیچے، اس کے سرسراتے ہوئے آنچل میں

 کتنے رنگ ہیں کتنی خوشبو ہے، کتنی روشنی ہے

  یہ من کو موہ لینے والا حسن حیرت زا ہے

 میں نے اس رنگ اس نور اور اس خوشبو کے لمس  کے مٹھی بھر

 احساس کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے

 لیکن اس کی حدت کے آگے میرے لفظ پگھل گئے ہیں ‘‘

ان کی کشمیر شناسی  کا ثبوت نہ صرف اس اقتباس سے ملتا ہے بلکہ ان کی کئی تحریروں میں اس کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔  افسوس کہ وہ  جموں میں 2 اپریل 1990 میںاچانک انتقال کر گئے۔ کشمیر کے معروف شاعر محمد ایوب بیتاب اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں

’’ پریمی کو کشمیر کے ذرے ذرے سے عشق تھا۔ جو ان کی نگارشات  سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ نامساعد  حالات  کی وجہ سے پریمی کو کشمیر چھوڑنا پڑا جو اس کی زندگی  کا سب سے بڑا المیہ  تھا۔ وطن کی جدائی اس کے دل ناتواں سے برداشت نہ ہو سکی  اور وہ اندر ہی اندر سے بکھر کے رہ گیامجھے  یہ کہنے میں باک نہیں کہ اس کی  بے وقت موت کی وجہ فراق کشمیر تھی ‘‘

( برج پریمی شخصیت اور فن،  مرتبہ ڈاکٹر پریمی رومانی ص44، سنہ اشاعت2003،  رچنا پبلی کیشنز جموں (توی)

ڈاکٹر برج پریمی  نہ صرف ایک محقق و نقاد  تھے بلکہ وہ اعلا پائے کے ادیب، انشاپرداز، خاکہ نگار منٹو شناس اور کشمیر شناس  کے نام سے بھی جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ان کا پہلا افسانہ’آقا‘ 1949 میں سری نگر کشمیر سے شائع ہونے والے اخبار  روز نامہ امرجیوتی، میںشائع ہوا۔ والد محترم نے بے شمار افسانے لکھے جن میں، ننھی کہانیاں، میرا گنوار دوست،ناکام محبت، جھلکیاں، لہریں اور کنارہ، یہ بھی ایک کہانی ہے، ولر کے کنارے پر، شرنارتھی، اس کی موت، فرض، مانسبل جب سوکھ گیا، میرے بچے کی سالگرہ، سپنوں کی شام، پھٹی پھٹی آنکھیں، یہ گیت  یا مزار، ٹیسیں درد کی،لمحوں کی راکھ، وغیرہ قابل ذکرہیں۔ یہ افسانے ہندوستان کے معروف رسائل  وجرائد میں شائع ہوتے رہے۔ ان کی بعض کہانیاں ماہنامہ بیسویں صدی میں شائع ہوئیں۔ ’سپنوں کی شام‘ ان کی ایک نمائندہ کہانی ہے۔ جو ماہنامہ بیسویں صدی کے مئی 1957کے شمارے میںاشاعت پذیر ہوئی۔ یہ کہانی انھوںنے حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ادبی اجتماع میں پیش کی۔ اس زمانے میں ڈاکٹر راہی معصوم رضا بھی کسی واقف کار کے پا س  رہائش پذیرتھے اور سری نگر کی ادبی محفلوں سے لطف اندوز ہوتے تھے،انھوں نے اس کہانی کی زبان کی کافی داد دی اوراس کو ایک اہم کہانی قرار دیا۔ برج پریمی کی ایک اورکہانی، میرے بچے کی سالگرہ  ہے جوانھوںنے  1958 میں تخلیق کی۔پروفیسر عبدالقادر سروری ، والد کی اس کہانی کا ذکر کرتے ہوئے ا پنی کتاب ’کشمیرمیںاردو ‘میں  لکھتے ہیں

          سپنوں کی شام فضا اور موقف کے اعتبار سے پریمی  کا اچھا افسانہ  ہے۔ اس میں  شہر کی نکھری ہوئی فضا ملتی ہے۔ یہ اومپورہ کے ایک سکول ٹیچر کی کہانی ہے  جو  اپنے صاحب  خانہ کی لڑکی ساجھی اور اس کی سہیلی نوری کو رات میں الاؤ کے قریب بیٹھا کہانیاں سنایا کرتا  تھا۔ ایک  دن ساجھی  جب پہاڑ کے ڈھلوان  پر سے اتر  رہی تھی۔ بارش میںبھیگ کر مٹی کا ایک بڑا تود ہ  چٹان سمیت گرنے کو تھا۔ ماسٹر  خدائی فوجدار کی طرح  وہاں پہنچ گیا اور ساجھی کو موت سے نجات دلائی، اس کے بعدسے ساجھی کو  اپنے نجات  دہندہ سے  انس ہو جاتا ہے ‘‘( کشمیرمیں اردو تیسرا حصہ، ص198)

 میرے بچے کی سالگرہ، لہریں اور کنارہ، لمحوں کی راکھ،  خوابوں کے دریچے وغیرہ والد صاحب کے نمائندہ افسانے ہیں، جن میں  انسان کا درد و کرب، اس کی بے چینی اورکسمپرسی  دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عام انسانوں کی غربت اور افلاس سے پیدا ہونے والے مسائل صاف طور پر  انسان کے ماتھے پر جھلکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر برج پریمی کا دوسرا پڑا و  ان کی تخقیق و تنقید ہے۔  جیسا کہ پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ والد صاحب  اگر چہ شروع سے ہی تنقیدی اور تحقیقی ذہن لے کر آئے تھے لیکن  پروفیسر سروری  صاحب کی صحبت میں رہ کر انھیں ادب کے اس میدان سے گہری دلچسپی پیدا ہو گئی۔ اس لیے انھوں نے بعد کے دور میں افسانے بہت کم لکھے۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مقالات مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے  رہے اورخاص و عام میں مقبول ہوگئے۔

’حرف جستجو‘ کے نام سے ان کا اولین تحقیقی و تنقیدی مضامین کامجموعہ 1982 میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس میں ان کے 14 مقالات شامل ہیں۔ جن میںپریم چند، سعادت حسن منٹو، دو  زاویے تکون کے،منٹو اور کرشن چندر، اردو کے چند قدآور افسانہ نگار، اور مختصر افسانہ اور خواتین جیسے تحقیقی مقالات شامل ہیں، پروفیسر شکیل الرحمن  اس  کے دیباچے میںلکھتے ہیں

’’ ڈاکٹر برج پریمی چھوٹی بڑی اصطلاحوں سے مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ان کی تنقید لفاظی  پسند نہیں کرتی۔ وہ جملے باز نہیں دور کی کوڑی  لانے کی کوشش نہیں کرتے  بوجھل ترکیبوں میں   بات نہیں کرتے بلکہ مختصر اور آسان جملوں میں اپنے خیالات پیش کر تے ہیں اور یہی بڑی بات ہے‘‘

(حرف جستجو  از ڈاکٹر برج پریمی ص8 دیپ پبلی کیشنز سری نگر، سنہ اشاعت1986)

اس کتاب کو بھی سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی ہوئی ۔

کشمیر کے کلچر، تہذیب، تمدن اور یہاں کی ثقافتی سرگرمیوںپر ڈاکٹر برج پریمی کے بہت سے معنی خیز مقالات ہندوپاک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ مقالات بعد میں ان کے دومجموعوں ’کشمیر کے مضامین‘ اور ’جلوہ ٔ صد رنگ ‘میں کتابی صورت میں منظر عام پر آگئے۔ جن کی کافی پذیرائی ہوئی۔کشمیر ی اور اردو زبان کے معروف محقق اور نقاد محمد یوسف ٹینگ جلوۂ صد رنگ پراظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں

’’ میں پھر پریمی کی اس کتاب  کی کشمیریات  سے متعلق عام قاری  کے لیے اہمیت پر زور دینا چاہتا ہوں۔ مجھے  فوق کے بعد اردو میں اس قسم  کی ایک اور کتاب کا علم ہے اور وہ ہے مظفرآباد  کے ڈاکٹر صابر آفاقی کی تصنیف  جلوہ ٔکشمیر کا...  پریمی کا طرز بیان دلکش ہے اور اس نے کشمیر کی تواریخ  کے ہزارہا صفحات کو چھان کر چند کیپسول ((Capsul قسم کی  معلومات  اس طرح ابھاری ہیںکہ کشمیر اور اس کے لوگوں کے تواریخی  اور تمدنی سفر  کے نت نئے گوشے  روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب اپنی مقبولیت سے اپنا جواز ثابت کرے گی۔‘‘

والد صاحب کا ایک اورادبی کارنامہ سعادت حسن منٹو پر ایک مکمل ا ورمبسوط کتاب ہے۔ یہ دراصل ان کا تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ہے۔ جو1986 میں پہلی بار اشاعت پذیر ہوا۔ اس تحقیقی مقالے پر انھیں یوپی اورمغربی بنگال اردو اکادمیوں کی طرف سے گراں قدر اعزازات سے نوازا گیا۔ منٹو ان کا محبوب فنکار تھا۔ یہ موضوع  انھوں نے اس لیے بھی  اپنی توجہ کا مرکز بنایا،کیونکہ ان کے مطابق  منٹو کشمیر کے خلاق ذہن کی پیدا وارتھے۔ وہ کشمیر ی پنڈتوں کی سارسوات برہمن شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ والد مرحوم نے منٹویات کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے اس موضوع کو  اپنے تحقیقی مقالے کا محور بنایا۔ انھوں نے  منٹو خاندان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کرنے کے لیے   صفیہ منٹو کے ساتھ ساتھ معاصرین منٹو سے خط و کتابت کی  اور اس موضوع پر دلجمعی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ۔ لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک لانے کے لیے  انھیں بے پناہ  مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ  اس وقت تک منٹو کے بارے میں کوئی مستند کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ رسائل و جرائد کے بعض خاص نمبرات پاکستان میں شائع ہو چکے تھے لیکن اس زمانے میں ہند و پاک کے سیاسی تعلقات کشیدہ تھے اور پاکستان سے منٹو کی کتابیں حاصل کرنا بہت ہی دشوار گزار مرحلہ تھا۔

منٹو کو رجعت پسند، سنکی، پاگل، اور لطیفہ باز قرار دیا گیا تھا۔ جدیدی  انھیں ترقی پسند قرار دیتے تھے اور ترقی پسند انھیں رجعت پسند سمجھ کر نظر انداز کرتے تھے  اور انھیں  اپنانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ برج پریمی منٹو کے اولین  نقاد  اور محقق ہیں جنھوں نے انھیں صحیح تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس بات کی تصدیق برصغیر ہند و پاک کے معتبر نقادوں اور منٹو کے معاصرین نے کیا  اور برج پریمی کی اس کتاب کی دل کھول کر داد دی۔ چند آرا پیش خدمت ہیں

پروفیسر گوپی چند نارنگ(دہلی) ڈاکٹر برج پریمی اردو کے ان معلمین میں سے ہیں جو خاموشی سے علمی کام کرتے رہتے ہیں۔وہ ہندوستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے سعادت حسن منٹو کا مطالعہ نہایت دِلسوزی سے کیا ہے۔

کالی داس گپتا رضا (بمبئی) کتاب ہر لحاظ سے قابلِ قدر ہے۔ منٹو پر مواد آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ مگر آپ نے کافی محنت کی ہے۔ آپ نے اتنا کچھ یکجا کر دیا ہے کہ اس سے ہر نیا کام کرنے والا مستفید ہو سکتا ہے۔

پروفیسر جگن ناتھ آزاد(جموں) آپ نے منٹو مرحوم کے بارے میںایک انسائیکلوپیڈیا تیار کر دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ منٹو پر کام کرنے والا کوئی طالب علم، کوئی اہلِ قلم اس صحیفے کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔

وارث علوی  منٹو کی زندگی اور کارناموں پر پہلی تحقیقی اور جامع کتاب ڈاکٹر برج پریمی نے لکھی۔اس میں انھوں نے منٹو کی وجہ تسمیہ کا سراغ ان کی بہمنی اصل میں لگایا ہے۔

  اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ترمیم و اضافے کے ساتھ2013 میں شائع ہوا۔   

1987 میں برج پریمی کاایک اورتنقیدی مضامین کا مجموعہ’ذوق نظر‘ اشاعت پذیر ہوا اس میں ان کے گیارہ مقالات شامل ہیں جن میں اردو کہانی کے بدلتے ہوئے رنگ، پریم ناتھ پردیسی۔ شخص اور فنکار، منٹو فکر و فن کے چند پہلو، منٹو اور شراب، سردار جعفری اور قومی یکجہتی، پریم ناتھ پردیسی کی شاعری، کشمیر میں اردو تنقید، عبدالقادر سروری، نند لال کول طالب، سعادت حسن منٹو اور ہندوستانی فلم وغیرہ جیسے مقالات شامل ہیں۔ اس مجموعے کے پیش لفظ میں وہ خود رقمطرازہیں

’’مجھے پیشہ ور ناقد اورمحقق ہونے کا دعویٰ نہیں۔ البتہ فن، ادب،ثقافت اورآرٹ کے مختلف شعبوں سے گہری دلچسپی ہے ۔ ان کے بارے میں غور وفکر کرتارہتا ہوں اور اپنا رد عمل اپنی تحریروں میں پیش کرتاہوں۔‘‘

’’کشمیر کے مضامین ان کا ایک اورتنقیدی وتحقیقی کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر پریمی  صاحب اپنے مادر وطن سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔اسی لیے وہ اس کے کلچر، تہذیب و تمدن اورادب کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے پر مصر تھے۔ان کے مطابق ’’کشمیر کے حسن اس کی رعنائی، اس کی مٹی کو خوشبو، اس کے عرفان کے کتنے لازوال گوشے ہیں جن کو ہماری بے اعتنائی کے دبیز پردوں نے چھپالیا ہے۔‘‘ کشمیر کے مضامین میں وہ ان گمنام گوشوں کو نئے  سرے سے دریافت کرتے ہیں جو ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئے ہیں۔ اس مجموعے کی بھی اردودنیا میں کافی پذیرائی ہوئی ہے۔

’چند تحریریں‘برج پریمی کاایک اورمجموعہ 1988  میں اشاعت پذیر ہوا۔ یہ مجموعہ ان کی گوناگوں تخلیقات کا  نمونہ ہے۔ اس مجموعے کو انھوں نے سات حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جن میں تحقیق و تنقید، مختصر سفر نامہ، انشائیے، دیو مالا سے،  ترجمہ، فلم  اور نثری مرثیے شامل ہیں۔ چند تحریروں کے بعض خاص مقالات میں تحریک آزادی اور اردو ادب،  اردو فکشن اور قومی وحدت، قومی وحدت اور اردو شاعری، منٹو اور شراب،  ان کے انشائیوں میں ’’باتیں توہمات کی، قدیم اخلاقی قدریں اور جدید سماجی تقاضے،  دیو مالا کے زمرے میں آنے والی تخلیقات میںکتھا کہانی ( مہا بھارت سے) کتھا کہانی (رامائن سے) فلم  کے گوشے میں آنے والے مقالات ہماری فلموں میں ہندوستانیت، ہندوستانی فلم میں خواجہ احمد عباس کا حصہ، اوپیندر ناتھ اشک اور ہندوستانی فلم وغیرہ شامل ہیں۔ جو تنقید، تحقیق، ادب اورفلم کے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اس مجموعے کی بھی خاصی پذیرائی ہوئی اورسنجیدہ ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔

مقالے کے اختتام پر  میں اردو کے ایک منفرد انداز کے افسانہ نگار، خاکہ نگار اور  ناول نگار مرحوم کشمیری لال ذاکر کا  ایک اقتباس درج کر نا مناسب سمجھتا ہوں  جس میں انھوں نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر برج پریمی کے کشمیر سے ہجرت کرنے کی کرب ناک داستان کا منظر پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’’ کشمیری پنڈت کی  وادی سے ہجرت  ایسا  المیہ  ہے جس پر وادی کے چشمے اور جھیلیں، چنار اور سفیدے کے اونچے اونچے درخت مدتوں  تک آنسو بہاتے رہیں گے۔ برج پریمی بھی  اس سانحے کا شکار ہوا۔ اپنا سب کچھ لٹا کر، اپنے کنبے کے ہمراہ بری حالت میںجموں پہنچا۔ لیکن کشمیر تو برج پریمی کی جان تھی۔ اس ہجرت نے آخر  اس کی جان لے لی۔ پریمی رومانی کے مطابق  وہ جموں  پہنچنے کے کچھ دنوں  بعد  ہجرت کے ناقابل برداشت صدمے کے بوجھ سے دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے اور اپنے سارے خاندان  کو ناگفتہ بہ حالات  کا مقابلہ کرنے  کے لیے اکیلا چھوڑ گئے‘‘

(سہ ماہی عالمی میراث، گوشہ پدم شری کشمیری لال ذاکرجلد14، شمارہ4،  جنوری 2022 تا اپریل 2022،  مدیر ڈاکٹر سبھاش چندر ایمہ ص45)

Dr. Premi Romani

1806-D, Asawari Nanded City

Sinhgad Road

Pune- 411011 (Maharashtra)

Mob.: 7889930656

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...