مظفر حنفی کو عمومی طور پرایک شاعر بالخصوص غزل گو کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے اور شاعری کے سلسلے سے ایک کلیات کے علاوہ ان کی 16 کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ان کے نثری سرمائے میں تحقیق و تنقید سے متعلق 19کتابیں، ترتیب و تدوین سے متعلق تقریباً 15 کتابیں، چار افسانوی مجموعے اورایک درجن کے قریب تراجم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک عدد سفر نامہ اور ایک مختصر خود نوشت بھی ان کے نثری سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس طرح بلا مبالغہ اس بات کا اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ مظفر حنفی بہ یک وقت نظم و نثر دونوں کی مختلف اصناف پر اچھی قدرت رکھتے تھے۔ ان کے وسیع نثری سرمائے کی ورق گردانی ہی کوئی جوے شیٖر لانے سے کم نہیں چہ جائے کہ ان کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کیا جائے۔لہٰذا اِس مضمون میںمیری گفتگو صرف مظفر حنفی کی خودنوشت ’ شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت‘ تک ہی مرکوزرہے گی۔
میں نے اس خودنوشت کواس لیے بھی گفتگو کا موضوع بنایاہے کہ
اس کے ذریعے ہم مظفر حنفی کی زندگی کے سفر میں ان کے ہم راہ چلتے چلے جاتے ہیںاور ان
کی زندگی کے80 برسوں کی داستان کو ان کی زبان میں سُن کر اس کا لطف دو بالا ہو جاتا
ہے۔اس خودنوشت میں ہم مظفر حنفی کو ان کی پوری زندگی سے ذرا دور رہ کراُس کا تجزیہ
کرتے ہوئے پاتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے کرداروں اور کھٹی میٹھی یادوں کے ساتھ ایک سادہ، سلیس
اور رواں زبان سے اس خودنوشت کا نگار خانہ تیار ہوتا ہے اورقاری اس سے خود کو بڑی جلدی
جوڑ لیتا ہے۔مظفر حنفی نے اپنے ایک شعر کے مصرعۂ اولیٰ سے اس خودنوشت کا عنوان قائم
کیا ہے جو اس تحریرکے لیے بہت موزوں معلوم ہوتاہے۔ جب ہم اس خودنوشت کی روانی کو دیکھتے
ہوئے شیشۂ ساعت کی سر دُھنتی ہوئی ریت کا تصور کرتے ہیں تو مظفر حنفی کے حسنِ انتخاب
پر رشک آتا ہے۔ خود نوشت کے آخری حصے میں یہ شعر استعمال کیا گیا ہے اور اُس مقام
پر اس عنوان کی معنویت مزید مُبرہن ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے۔
خود نوشت’شیشۂ ساعت میں سر دُھنتی ہے ریت‘ کی اشاعت پہلی
مرتبہ بزمِ صدف انٹرنیشنل کے بین الاقوامی رسالہ’ صدف‘ کے جون 2016 کے شمارے میں ہوئی۔رسالے
میں یہ خودنوشت صفحہ 24 سے لے کر 37 تک پھیلی ہوئی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر اس
کی اشاعت علاحدہ سے عمل میں آئے گی تو اس کے صفحات تقریباً پچاس سے پچپن تک پہنچ جائیں
گے۔اس خودنوشت کی ابتدا مظفر حنفی اپنے خاندانی پس منظر کے بیان سے کرتے ہیں اور جس
اختصار اور روانی کا مظاہرہ وہ ابتدائی سطور میں کرتے ہیں، اسے ہی پوری خود نوشت میں
برقرار رکھتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ کوئی آسان کا م نہیں تھا کیونکہ فطری طور پر کسی انسان
کی زندگی کے کچھ واقعات اس کے دل کے قریب ہوتے ہیں اور کچھ سے اسے بے حد تکلیف اور
کوفت ہوتی ہے، ایسے میں جب ان واقعات کے تعلق سے وہ اپنے قلم کو جنبش دیتا ہے تو فطری
طور پر کچھ واقعات میں اختصار اور کچھ میں طوالت کا پہلوٗ غالب آجاتا ہے لیکن مظفر
حنفی کی پوری خودنوشت پڑھ جائیے، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی واقعے کی پیش کش میں
انھوں نے طول بیانی کا مظاہرہ کیا ہے یا کچھ واقعات کو مختصر کرکے پیش کیا گیا ہے۔
پوری خودنوشت میں واقعات کی پیش کش میں ایک بہترین توازن نظر آتا ہے جس سے شروع سے
آخر تک ایک ہی رفتار سے ان کی خود نوشت اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔اسی سبب سے قاری
بیان کے اس جادو میں از اول تا آخرہمہ تن محو رہتا ہے۔
واقعات کے بیان میںاجمال واختصار اور رواں اور سلیس اندازِ
بیان اس خودنوشت کے بنیادی اوصاف ہیں۔ اسی برس کی پختہ عمری اورشعری اور نثری تحریروں
میں اچھی خاصی مشق کا شعور حاصل ہونے کے بعداس تحریر کا نزول ہوا ہے۔ اپنے پچھلے تجربات
سے مظفر حنفی نے یہاںخاطر خواہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ ’شیشۂ ساعت میں سر دُھنتی ہے ریت‘
کامطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مظفر حنفی واحد متکلم کے صیغے میں ایک طویل افسانہ
بیان کر رہے ہیں جس کے مرکزی کردار وہ خود ہیں اور باقی کردار کچھ وقت کے لیے ان کی
کہانی کا حصہ بنتے ہیں اور کہانی کو آگے بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ حالی نے ’یادگارِ
غالب‘ میں غالب کی زندگی کے منتخب واقعات پیش کیے تھے جس سے اختصارکے باوجود غالب کی
زندگی آئینہ ہو جاتی ہے۔ مظفر حنفی نے بھی اپنی خودنوشت میں اختصار کو ملحوظِ خاطر
رکھا ہے لیکن انھوں نے اپنی زندگی کے تقریباً تمام اہم واقعات کو اس خودنوشت میں جگہ
دے دی ہے۔ لہٰذا کسی واقعے کی تفصیل یا وضاحت کی جانب انھوں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔
جس طرح کوئی شاعرشعرپیش کر کے اس کے معنی و مفاہیم تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے، مظفر
حنفی اس خودنوشت کے ذریعے ہمیں ان کی زندگی میں صرف جھانکنے کی اجازت دیتے ہیںاور اسی
سے واقعات و حادثات کو تفصیلی طور پر سمجھنے کا قاری سے مطالبہ کرتے ہیں۔
اس خودنوشت میں مظفر حنفی نے کچھ مختصر خاکے بھی پیش کیے
ہیں جو اُن کے حلقۂ احباب سے ہمارا تعارف کراتے ہیں۔والدِ بزرگ وارجنھیں وہ ’چچا میاں‘
کہا کرتے تھے،ان کا ذکر انھوں نے یہاں کافی جی لگا کر کیا ہے۔ ان کے والد کافی رکھ
رکھاو اور ٹھسے سے رہتے اور ایک خاندانی زمین دار مزاج کے کردار تھے،ان کا مختصر خاکاخودنوشت
میں یوں کھینچا گیا ہے
’’چچا میاں کافی ٹھسے کے آدمی تھے۔ موروثی زمین داری ڈوب
چکی تھی لیکن خوٗ باقی تھی۔ سلیقے اور رکھ رکھاو سے رہتے تھے۔اِستری ٹوٹی نہیں کہ کپڑے
نا قابلِ استعمال ہو جاتے تھے۔ قمیض، پائجامہ، لمبی شیروانی اور تُرکی ٹوپی پہنتے تھے۔
پاجامے میں گھٹنا نکلا کہ دھوبی کے یہاں گیا۔ دوسرے کپڑے تو کجا، شیروانی میں بھی کہیں
چھوٹا سا سوراخ ہو جاتا تو وطن کے پُرجوں میں بانٹنے کے لیے اُتاردی جاتی۔بوٗٹ جوتے
ہمیشہ چمچماتے رہتے اور تُرکی ٹوپی ہر دو تین سال میں بدل دی جاتی۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
والدہ جنھیں وہ’’ آپا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، ان کے بارے
میں فرماتے ہیں
’’گھر میں آپا کی شخصیت بڑی دل چسپ تھی۔ خدا انھیں کروٹ
کروٹ جنت نصیب کرے، صوم و صلوٰۃ کی پابند بہت سادہ لوح بی بی تھیں۔ خود بیس کے آگے
گنتی نہیں گن سکتی تھیں لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ مستعد
واقع ہوئی تھیں۔ ہم سب کو ٹوٹ کر چاہتی تھیں لیکن پڑھائی کے سلسلے میں جم کر سختی کرتی
تھیں۔‘‘(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
ہر چند کہ اختصار اس خود نوشت کی خوبی ہے لیکن کہیں کہیں
اس کی وجہ سے بہت سی ضروری اور دل چسپ باتیں تشنہ رہ جاتی ہیں۔ انھی میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ کس وجہ سے انھوں نے اپنے والد ین کو ’چچا میاں ‘اور ’آپا‘ کہنا شروع کیا یا کولکاتا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے دیگر اساتذہ
سے ان کی رَسا کشی کے اسباب و وسائل کیا تھے؟
مظفر حنفی ان کے خلاف سپریم کورٹ تک کیسے پہنچے؟وغیرہ وغیرہ؛یہ اور ان جیسی دیگر تفصیلات
سے یہ خود نوشت قدرے بہتر ہو سکتی تھی۔
’شیشۂ ساعت میں سر دُھنتی ہے ریت‘ ایک مکمل کہانی کی صورت
میں پیش تو کی گئی ہے لیکن موٹے طور پراسے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلے حصے
میں پیدائش سے لے کر مِڈِل اور ہائی اسکول تک کے واقعات ہیں جو تقریباً سات سوا سات
صفحات تک پھیلے ہیں۔ دوسرے حصے میں ملازمت کی کوششیں، ملازمت، گھریلو ذمے داریوں کی
ادائیگی، رشتۂ ازدواج، ادبی و تعلیمی سرگرمیاں، مختلف جامعات میںبہ طور استادمظفر
حنفی کے تجرِبات، اپنے شعبے کے دیگراساتذہ سے اختلافات جیسی دیگر چیزیں سمیٹ دی گئی
ہیں۔دونوں حصے کافی دل چسپ ہیں۔ایک تیسرا حصہ بھی اس خود نوشت میں شامل ہے جسے ’کچھ
باتیں اور...‘‘ کے عنوان سے رقم کیا گیا ہے جسے اس خودنوشت کے آخر میں ضمیمے کے طَور
پرپیش کیا گیا ہے۔اس کے ڈیڑھ صفحات میںمظفر حنفی کی ادبی فتوحات، ایوارڈس، مختلف اداروں
سے وابستگی اور کتابوں کی فہرست پیش کی گئی ہے۔ خود نوشت کے کچھ مقامات پر حوالے کے
طور پر اس حصے سے رجوع کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس سے مصنف کو یہ سہولت ہوئی کہ وہ ایک
سلسلے سے بغیر کسی رُکاوٹ کے اپنی خودنوشت کے بہاو کو جاری رکھ سکے اور قاری کو اپنی
گرفت سے آزاد نہ ہونے دے۔
مظفر حنفی این سی ای آر ٹی اور دیگر جامعات سے بھی منسلک
رہے ہیں اوراُن تجربات کو بھی اس خود نوشت کا حصہ بنایاہے۔درس و تدریس اور پڑھنے لکھنے
سے انھیں کس قدر لگاو تھا اس کا اندازہ ان کے اس واقعے سے ہوتا ہے جب جامعہ ملیہ اسلامیہ
میں لکچررشپ کے انٹرویوکے دوران آلِ احمد سرورنے ان سے یہ سوال کیا
’’تم تولکچرر کے اسکیل پر کام کر ہی رہے ہو۔ این سی ای آر
ٹی نے کار اور فلیٹ بھی دے رکھا ہے، پھر جامعہ کیوں آنا چاہتے ہو؟
عرض کیا دفتری کام تو میں
محکمۂ جنگلات میں چودہ برس کر آیا ہوں، تمنا ہے کہ یک سوئی کے ساتھ کچھ لکھنے پڑھنے
کا موقع ملے۔‘‘(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
انھوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے جامعات اور ان کے تعلیمی
معیار کے سلسلے سے اپنی خود نوشت میںکچھ اشارے کیے ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ کولکاتا
یونی ورسٹی میں اقبال چیئرکے لیے بہ طور پروفیسر جب ان کا تقرر ہواتو اس سلسلے سے واقعات
نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
’’جب میں نے شعبے میں قدم رکھا تو فضا بہت خراب تھی۔ کل پانچ
اساتذہ تھے۔ ایم اے(اردو) میں صرف پچیس طلبہ کو داخلہ ملتا تھا، مہینوں کو ئی کلاس
نہیں ہوتی تھی۔ اساتذہ کہتے تھے طلبہ کلاس میں نہیں آتے، کیسے پڑھانے جائیں؟ طالبِ
علموں کا رونا تھا کہ دن بھر کمرے میں بیٹھ کر واپس چلے آتے ہیں، کوئی استاد کلاس
لینے کی زحمت نہیں کرتا۔ ایم اے اور بی اے کا نصاب آزادی کے بعد سے وہی پرانا چلا
آرہا تھا اور دوسری دانش گاہوں کے مقابلے میں معیار بے حد پست تھا۔ اساتذہ میں ٹیوشن
کی لعنت عام ہو گئی تھی۔ امتحانات کے پرچے تیار کرنے سے لے کر کاپیاںجانچنے اور نتائج
تیار کرنے کا سار اکام مقامی اساتذہ نے اپنی حد تک سمیٹ رکھا تھا۔ امتحانات تین سال
پچھڑے ہوئے تھے اور امتحان ہال میں نقل کھلے ڈلے کی جاتی تھی۔ عموماً امیدواروں کا
ممتحنین پر اعتماد متزلزل تھا۔ پی ایچ۔ڈی
کے لیے رجسٹریشن بہت سطحی اور بسا اوقات ایسے فضول موضوع پر ہو جاتا تھا جن پر اخبار
میں ایک آدھ مضمون لکھ دینا کافی ہوتاہے۔ استاد شاگرد کے ما بین ہم آہنگی اور پُرخلوص
رشتوں کا فقدان تھا۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
حالانکہ مظفر حنفی نے اپنی استطاعت کے مطابق حالات کو بہت
بہتر بنایا لیکن ایسے مقامات جہاں ان جیسے افراد نہ پہنچے ہوں وہاں کی حالت کس معیار
کی ہوگی، یہ سوچ کر وحشت ہوتی ہے۔ مَیں ذاتی طور پر ایسی چند جامعات کا مشاہدہ کر چکا
ہوں جہاں ایم اے کے طالبِ علم اردو ادب کی بنیادی باتوں کو چھوڑ دیجیے، خو د اپنا نام
صحیح املا کے ساتھ اردو میں نہیں لکھ سکتے اور اساتذہ درس و تدریس کے علاوہ دیگر تمام
سرگرمیوں میں مبتلارہتے ہیں۔ اگر ان میں کوئی اصلاح کی غرض سے کھڑا ہواور درس و تدریس،
تصنیف و تالیف کے سلسلے سے کام کرے تو باقیوں کے پیٹ میں درد ہوجاتا ہے اور وہ اس کی
ٹانگ کھینچنے میںجس اجتماعیت اور تن دہی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
یونی ورسٹی کو بھی نہ معیارِ تعلیم سے غرض ہے اور نہ طلبہ کی علمی لیاقت بڑھانے میں
کوئی دل چسپی۔ ایسے میں مظفر حنفی جیسی شخصیات سے روشنی حاصل کرکے ایسے مقامات پر کام
کرنے کا ایک حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
تعلیم کی بات چل
نکلی ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس خود نوشت سے پتا چلتا ہے کہ مَولویوں کے رویے
اور مدرسوں کے طریقۂ تعلیم سے مظفر حنفی خاصے نالاں ہیں۔ ہمارے مدرسوں کا نظام زمانۂ
قدیم سے ایسا چلا آ رہا ہے کہ اس میں تجدید کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بچوں کو جس
طرح پٹائی اورخوف و دہشت کے ماحول میں تعلیم دینے کا رواج ہے، اسے تبدیل کرنے کی طرف
بھی ہمارے علماے کرام کو توجہ دینی چاہیے۔ مظفر حنفی اپنی ابتدائی تعلیم کے واقعات
بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’مجھے اسکول کے علاوہ عربی پڑھنے ایک مکتب بھی جانا پڑتا
تھاعلاوہ ازیںمجھے گھر پر وہی مولوی صاحب عربی پڑھاتے تھے اور ذہنی طور پر ایک آدھ
چوٗل ڈھیلی رکھتے تھے۔صبح سات بجے سے نو-دس بجے تک اور شام کو پانچ بجے سے سات بجے
تک ان کی خدمت میں حاضر رہ کر توتے کی طرح مختلف دعائیں رٹتا اور قرآن مجید پڑھتا۔
ان بزرگ نے مار مار کر ابتدائی دو تین پاروں کا حافظ بھی بنا دیا... شاید اس مکتب کی سختیوں کا اثر ہے کہ ثوابِ طاعت
و زہد کا علم ہونے کے باوجودرسمی عبادتوں کے سلسلے میں میری دل چسپی واجبی واجبی سی
رہ گئی۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
بھلے ہی مظفر حنفی یہاں ہمیں اپنی زندگی کا ایک واقعہ سنا
رہے ہیں لیکن اس سے جو مسئلہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے، وہ کافی سنگین ہے۔ مذہبی تعلیم
کا ایسا طریقہ جس سے انسان مذہب بے زار ہو جائے، کہاں تک قابلِ قبول ہے۔ دنیاوی تعلیم
میں نئے نئے طریقے ایجاد کیے جا رہے ہیں کہ بچے متعلقہ مضامین کو دل چسپی سے پڑھیں
اور ہمارے مدارس لکیر کے فقیر بن کر اس جانب توجہ دینے سے مستغنی ہیں۔
حالانکہ اس تحریر میں مظفر حنفی کئی سنجیدہ موضوعات کی جانب
اشارے کرتے ہیں لیکن پھر بھی انھوں نے اپنی تحریر کو بوجھل پن سے دوٗر رکھنے میں کامیابی
پائی ہے اور کہیں کہیں توواقعات کے بیان میں اپنے اسلوب سے مِزاح بھی پیدا کیا ہے جس
سے تحریر میں سنجیدگی کے باوجود خشکی کا پہلو نہیں آتا۔ وہ اپنے ایک استاد جن کے بہ
قول مظفر حنفی ’ایک آدھ چوٗل ڈھیلی‘ تھی،کا ایک واقعہ یوں نقل فرماتے ہیں
’’کبھی کبھار کڑاکے کی سردی میں مولوی صاحب کی رگِ تدریس
پھڑکتی تو رات کے گیارہ بجے گھر پر نازل ہو جاتے، مجھے بیدار کرکے مردانے میں ہانک
دیا جاتا۔ جہاںحسبِ فرمائش سی پارے قرآت کے ساتھ بہ آوازِ بلندسنانے پڑتے۔‘‘(شیشۂ
ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
حالانکہ یہ واقعہ مظفر صاحب کی زندگی کے تکلیف دہ لمحات میں
سے ایک ہے لیکن اس کے باوجود اس مولوی صاحب کی تدریس کے اس عجیب و غریب انداز اور دیوانے
پن کو جان کر آپ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح ہسوہ مڈل اسکول کے تعلق سے اپنے
تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ہسوہ مڈل اسکول
میں میرے قریب ترین دوست شریف الحسن عرف مچھن تھے۔ موصوف کی چگی داڑھی برامد ہو چکی
تھی جسے وہ باقاعدگی سے پال رہے تھے۔وہ اسکول میں سب سے بڑے تھے اور میںسب سے چھوٹا۔
تتلاتے نہیں ٹٹلاتے تھے یعنی تے کی جگہ ٹے بولتے تھے.... مولوی شبراتی مجھے میاں چیں
پٹاخ اور مچھن بھائی کو مولی صاب کہتے تھے، اسی طرح تمام طلبہ کے انھوں نے بڑے دل چسپ
نام رکھ چھوڑے تھے۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
اسکول میں ہی اپنی
شاعری کی ابتدا ئی کوششوں کے سلسلے سے تحریر فرماتے ہیں
’’ہم سے نہ صرف اشعار کی تقطیع کرائی جاتی بلکہ کبھی کبھار
مصرعِ طرح دے کر اُن پر ڈنڈے کے زور سے طبع آزمائی کے لیے مجبور کیا جاتا۔ دوسری عالم
گیر جنگ ختم ہوئی تو ہمارے سامنے مصرعِ طرح تھا
’’سمندر میں گِرے گا خون کا دریا رواں ہو کر‘‘
میں نے اونے پونے چند شعر کہے تھے جس کا ایک شعر یاد رہ گیا ہے، عرض کرتاہوں ؎
جوانی کی دعابچوں کو ناحق لوگ دیتے ہیں
یہی بچے مٹاتے ہیںجوانی
کو جواں
ہو کر
یاد رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پر بر سرِ مشاعرہ(کلاس روم)
میر ی خوب مرمت کی گئی تھی کہ اکبراِلٰہ آبادی نام کے جج کے یہاں سے سرقے کا جرم مجھ
سے سرزد ہو گیا تھا۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
اس خود نوشت میں
مظفر حنفی اپنی صاف گوئی اور بے باکی کا بڑے شد و مد سے تذکرہ فرماتے ہیں اورمختلف
مقامات پر اپنی اس خوبی کو افتخار کے طور پر بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اہلِ کولکاتا
سے انھیں جو محبت ملی،اسے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’کلکتہ کے عوام اور خواص نے صحیح معنوں میں مجھے سر آنکھوں
پر بٹھایا.... وہاں بارہ سال قیام کے دوران اردو کا کوئی جلسہ، مشاعرہ یا تقریب ایسی
نہیں ہوئی جس میں مجھے بہ طور صدر یا مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مدعو نہ کیا گیا ہو۔
میری بے لوث صدق بیانی کا کسی نے وہاں بُرا نہیں ماناحالاں کہ میںبرسرِجلسہ اور مشاعروں
کے اسٹیج پر لوگوں کو ان کی فنی اغلاط اور تلفظ کی کمزوریوں پر ٹوک دیا کر تا تھا۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تجربات رقم کرتے ہوئے تحریر
فرماتے ہیں
’’جامعہ میں اپنی باقاعدگی، اصول پسندی، خودداری اور بے لوثی
کے لیے طلبہ اوراساتذہ میں مشہور ہوا۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
اس صاف گوئی، حق پرستی اور کج کُلاہی کی قیمت بھی انھیں ادا
کرنی پڑی۔کولکاتا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں کام کرنے کے تجربات کا ذکر یوں کرتے
ہیں
’’1984 میں ریڈر بھی ہو گیا لیکن رفتہ رفتہ ہاں میں ہاں نہ
ملانے، صاحبانِ اقتدار کے یہاں حاضری نہ دینے اور اپنی بے باک صدق بیانی کی وجہ سے
غیبتوں اور منافقتوں کا شکار ہوتا چلا گیا حتٰیٰ کہ جامعہ کے ساتھ سپریم کورٹ تک مقدمہ
بھی لڑنا پڑا۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
خودنوشت کے اختتام پر ’کچھ باتیں اور...‘ کے تحت پہلی بات
اسی موضوع پر کہی گئی ہے
’’ کسی ادبی یا سیاسی
گروہ سے بہ راہِ راست وابستگی نہیں ہے اس لیے ہر گروہ مجھے اپنے مخالف گروپ کا آدمی
سمجھتا ہے۔ جدیدیت سے منسلک کیا جاتا ہوں لیکن میری تخلیقات میں بہتوں سے زیادہ حقیقی
ترقی پسندانہ عناصر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تخلیق کے ساتھ پیشہ ورانہ تقاضوں کے تحت تنقید
سے بھی دل چسپی تھی اور اسی کے ساتھ صاف گوئی کریلے کی طرح نیم چڑھ گئی چنا ں چہ کئی
بڑے نقادوں کی تخلیقی بے بضاعتی کی نشان دہی کی۔ نتیجے میں ایسے نقادوں نے میری جانب
سے دانستہ بے توجہی برتی۔‘‘(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
یہ صاف گوئی پوری خود نوشت میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
مظفر حنفی خود اپنے آپ کو پیش کر تے ہوئے بھی تحریر میںجذباتیت کو حاوی نہیںہونے دیتے
اورنہ کسی دوسری چیز سے متاثر ہوتے ہیں۔یہاںبھرتی کے اشعار یا فلسفیانہ موشگافیوں کا
بھی فقدان نظر آتا ہے۔ دوستوں اور حلقۂ احباب کا تذکرہ کچھ مقامات پر ملتاتوہے لیکن
تمام کے ساتھ وہ یکساں سلوک روا رَکھتے ہوئے
محض ان کے نام کا تذکرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان ادبا و شعرا کی شان میں ایک اضافی جملہ بھی رقم
کرنا وہ مناسب نہیں سمجھتے۔ چند اقتباسات مثال کے طو ر پر ملاحظہ فرمائیں
’’بھوپال میں میرا قیام بدھوارہ کی رتھ خانہ اسٹریٹ میں تھا۔
پڑوس میں کوثر چاندپوری، ابو محمد سحر، عشرت قادری، شفا گوالیاری، اور واحد پریمی وغیرہ
مقیم تھے جن سے روزانہ ادبی امور پر گفتگوہوتی۔ تھوڑے فاصلے پر تاج بھوپالی کا احد
ہوٹل شہر بھر کے ادیبوں اور شاعروں کی آماج گاہ تھا۔ حلقۂ دانش وراں، بزمِ فن کار
اور انجمن ترقیِ اردوکی ریاستی شاخ میں میری ملاقات اخترسعید خاں، گیان چند جین، تاج
بھوپالی، شفیقہ فرحت، کیف بھوپالی، گوہر جلالی، فضل تابش، ایم عرفان، شفا گوالیاری، واحد پریمی، وفا صدیقی، آفاق احمد، نعیم کوثر،
اظہر راہی، وکیل بھوپالی، مرتضیٰ شاد اور درجنوں دوسرے شعرا اور ادبا سے ہوتی رہتی
تھی۔ اس ماحول میں میری تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کے خوب مواقع ملے۔‘‘(شیشۂ
ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
’’یونیورسٹی میں ظفر اوگانوی، منال شاہ القادری، وغیرہ اور
شہر میں عین رشید، خواجہ محمد یوسف، سالک لکھنوی، اعزاز افضل، علقمہ شبلی، ناظم سلطان
پوری، قیصر شمیم، احمد سعید ملیح آبادی، فیضان احمد، منور رانا وغیرہ سے دوستانہ مراسم
تھے۔‘‘(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
’’خوش بختی سے کھنڈوہ میں باعمل اور پُرخلوص ساتھیوں کی بہت
اچھی ٹیم مل گئی۔ حسن رضا، علی احمد قریشی، حسن بشیر، قاضی انصار، منشی جلیس، ناصر
حسین وغیرہ بڑے پر خلوص حوصلہ مند اور قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان
تھے۔ ‘‘(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
خودنوشت کے اخیر میں جب وہ اپنی پوری زندگی اور مجموعی خدمات
کے ماحصل کو محض ایک پیراگراف میں سمیٹتے ہیں اور خداوندِ قدوس سے دعا گو ہوتے ہیں
تو اس وقت بھی اپنی صاف گوئی اور لوگوں سے بے نیازی کو مرکز میں رکھتے ہیں۔حیرت ہوتی
ہے کہ اَسی برس کی طویل مُدت تک علمی و ادبی کام کرنے والا اورتقریباًساٹھ سے زائد
کتابیںلکھنے والا یہ شخص کتنی حسرت سے یہ دعوا کر رہا ہے کہ اسے اس بات سے بے اطمینانی
ہے کہ اسے بہت سے بڑے ادبی کام کرنے کی خواہش تھی جو ادھورے رہ گئے۔ یہ بات وہی شخص
کہہ سکتا ہے جسے صحیح معنوں میں علم کا عرفان حاصل ہو چکا ہو۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں
’’عمر کی 81 ویں منزل سے پلٹ کر گذشتہ برسوں پر نظر کرتا
ہوں تو ہر چند کہ اس اعتبار سے بے اطمینانی کا احساس ہوتا ہے کہ بہت سے بڑے ادبی کام
کرنے کی خواہش تھی جو رہ گئے ؎
شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت
عمر کے اسی برس گُم ہو گئے
لیکن یہ سوچ کر قدرے تسکین ہوتی ہے کہ بے حد غریب خاندان
اور نا مساعد حالات میں رہ کر بھی زندگی یکسر رائیگاں نہیں گئی۔ ہمیشہ پڑھنے لکھنے
اور پڑھانے سے واسطہ رہا۔ خدا کے سوا کسی اور کے آگے سر نہ جھکایا۔ نہ اہلِ اقتدار کی خوشامد کی، کسی قسم کی سفارش
کو اپنے آگے بڑھنے کا زینہ نہیں بنایا، لوگوں کے احسانات قبول نہیں کیے۔ قرض سے ہمیشہ
دامن بچایا۔ حتی الوسع والدین کی خدمت کی، بہنوں کی اعانت اور اعزا کے ساتھ صلہ رحمی
کا رویہ اختیار کیا۔ باصلاحیت اور مستحق شاگردوں کی مدد کی بلکہ دوتین کو اپنے ساتھ
رکھ کر پی ایچ۔ ڈی میں کامیابی سے ہم کنار کیا۔ چھوٹی بہن، بھانجے، بھانجیوں کی شادیاں
کیں۔ بیٹوں اور بیٹی کو اعلا تعلیم دلائی اور سب کے دلوں میں اردو سے محبت کا جذبہ
پیدا کیا۔ اپنی محنت کی کمائی سے دہلی میں بچوں کے لیے دو مکان تعمیر کیے۔ دوستوں اور
اعزا میںمحبت اور احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہوں اور ادبی حلقوں میں صاف گوئی اور
بے نیازی کے لیے مشہور ہوں۔ خدا وندِ قدوس سے دعا کرتا ہوں کہ زندگی کی آخری سانس
تک مجھے علمی و ادبی کام کرتے رہنے کی توفیق اور استطاعت عطا فرمائے اور اپنے علاوہ
کسی غیر کے آگے سر نہ جھکنے دے۔ آمین۔‘‘
(شیشۂ ساعت میں سر دھنتی ہے ریت)
بہ یک ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔ زندگی کے نہ جانے کتنے سبق
وہ ہمیں اس ایک اقتباس کے ذریعے پڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ہر جملے میں ایسی باتیں ہیں جن
پر صفحات کے صفحات سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔ چاہے وہ والدین، بھائی بہنوں اور رشتے داروں
کے حقوق کی ادائیگی ہویا قرض سے دامن بچانے کی بات ہو، اہلِ اقتدار کے آگے سرِ تسلیم
خم نہ کرنا ہو یا ایک مثالی استاد کی طرح اپنے لائق شاگردوں کے کام آنا ہو۔ آخری
سانس تک علمی و ادبی کام کرتے رہنے اور اپنے علاوہ کسی کے آگے سر نہ جھکانے کی دعا
پر یہ خود نوشت ختم ہو جاتی ہے اور ہمیں اہلِ علم کا شیوہ بتاتی ہے کہ زندگی کے آخری
لمحات میں بھی ان میں علم و ادب کی خدمت کا ہی جذبہ ہوتا ہے۔ خدا ہمیں ان تمام خوبیوں
کا مالک بنائے۔ آمین ثم آمین۔
اردو زبان میں ادبا و شعرا نے کئی اچھی اور معیاری خودنوشتیں
لکھی ہیں لیکن ایسی مختصر تحریر خودنوشت کے طور پر شاید ہی پیش کی گئی ہو۔ خود نوشت
سے امید ہوتی ہے کہ اس سے متعلقہ شاعر یا ادیب کے ذاتی احوال، زندگی کے اتار چڑھاو وغیرہ جیسی باتیں تفصیل کے ساتھ سامنے آئیں گی
جس سے ہم اس شخصیت کی زندگی کی کڑیوں کو جوڑ سکیں لیکن مظفر حنفی نے اس خود نوشت میں
اپنی زندگی کے تمام حالات اور واقعات کو افسانوی انداز میں پیش کرنے کا ایک نیا تجربہ
کیا ہے جسے ہمیں خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔
Dr
Tasleem Arif
Assistant
Professor,
Department
of Urdu, GLA College,
Medininagar,
Palamu- 822102
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں