22/3/23

مادری زبان کے تحفظ و احترام کا تصور ہندوستانی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے: پروفیسر شیخ عقیل احمد


نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر کے سٹین ہال میں ’مادری زبان کی اہمیت اور ہندوستان کے کثیر لسانی موزیک میں اس کی تنفیذ‘ کے عنوان سے آج ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا جس  کی صدارت مہرشی والمیکی سنسکرت یونیورسٹی ہریانہ کے وائس چانسلرپروفیسر  رمیش چندر بھاردواج  نے کی اور اس میں ملک کے منتخب اہل علم و دانش نے اپنے خیالات و تجربات پیش کیے۔ سمپوزیم کے آغاز میں موقر مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ ہندوستان میں بہت سے مذاہب، تہذیبیں اور زبانیں ہیں ،یہ ہمارے ملک کی بنیادی خصوصیت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تمام مادری  زبانوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی خصوصیات و محاسن کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ ماں ، مادرِ وطن اور مادری زبان کے احترام کا تصور ہندوستانی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان کی تمام زبانوں کا ایک دوسرے سے گہرا ربط اور لین دین کا رشتہ ہے،چنانچہ جہاں اردو میں عربی و فارسی کے علاوہ ہندی، سنسکرت،پنجابی،کشمیری،تمل اور تیلگو وغیرہ کے بے شمار الفاظ پائے جاتے ہیں،اسی طرح دیگر زبانیں بھی اردو اور دوسری زبانوں سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ پروفیسر عقیل نے کہا کہ موجودہ سرکار کے ذریعے تیار کی گئی  نئی تعلیمی پالیسی میں ملک کی تمام مادری زبانوں کے تحفظ اور فروغ کی ضمانت دی گئی ہے اور ابتدائی پانچ درجات تک لازمی ،جبکہ آٹھویں کلاس تک اختیاری طور پر مادری زبان میں تعلیم کی سفارش  کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرکار تو اچھی تعلیمی پالیسی ہی بناسکتی ہے،مگر زمینی سطح پر اس کے کماحقہ نفاذ کے لیے  تعلیمی اداروں اور ماہرین تعلیم کو سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی تبھی ہم اپنی مادری زبان کو فروغ دے سکتے ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ لسانیات کے چیئرمین پروفیسر جہانگیر وارثی نے نئی تعلیمی پالیسی میں زبانوں کی تعلیم سے متعلق سفارشات پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماضی سے لے کر اب تک کی مختلف تعلیمی پالیسیوں میں ہندوستانی زبانوں کی تعلیم کے حوالے سے پیش کردہ نظریات اور تجاویز پر روشنی ڈالی ۔ انھوں نے ابتدائی سطح پر مادری زبان میں تعلیم کے ممکنہ طریق ہائے کار اور اسالیب پر بھی گفتگو کی۔ شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان میں تعلیم کو اہمیت دینا حکومت کا قابل ستایش قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ انگریزی یا کسی بھی زبان سے مرعوب ہوکر ہمیں اپنی مادری زبان کے تئیں احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے،بلکہ اپنی مادری زبان کے تئیں ایک قسم کا احساسِ فخر ہونا چاہیے،تبھی ہم اس کا تحفظ بھی کرسکتے ہیں اور اسے فروغ بھی دے سکتے ہیں۔ شعبہ ہندی دہلی یونیورسٹی  کے پروفیسر چندن کمار  نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ  مادری زبان میں تعلیم کا مسئلہ ہندوستان میں آزادی سے بہت پہلے سے موضوع بحث رہا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں اسی وجہ سے مادری زبان میں تعلیم کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں اپنی مادری زبانوں کو عالمی زبان بنانا ہے تو انھیں محض ادب و شعر کے بجائے سائنسی زبان بنانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ زبان کا مسئلہ روزگار سے بھی جڑا ہوا ہے، ہمیں اپنی مادری زبانوں میں نئے نئے روزگار پیدا کرنا چاہیے، ایسا ہو تو  نئی نسل خود بخود اسے سیکھنے کی طرف متوجہ ہوگی۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تعلق سے انھوں نے کہا کہ بلا شبہ یہ پالیسی مادری زبان کی تعلیم کے حوالے سے اچھی  ہے،مگر اس کا نفاذ ہماری ذمے داری ہے، ہمیں اپنی مادری زبانوں میں تعلیم پر خود توجہ دینی ہوگی تبھی پالیسی اور سرکار کی کوشش کامیاب ہوگی۔

پروفیسررمیش چندر بھاردواج  نے اپنے پر مغز صدارتی خطاب میں کہا کہ  پچانوے فیصد ہندوستانی آبادی مادری زبان میں ہی بات کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی گزاردیتی ہے، مگر آزادی کے بعد سے اب تک دو سے پانچ فیصد گنے چنے لوگوں نے ہمارے تعلیمی نظریات اور پالیسیاں بنائیں اور اسی وجہ سے ہندوستان آج سب سے پچھڑا ملک ہے اور ہم سائنسی و تحقیقی شعبوں میں کوئی خاص قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان میں تعلیم کی بات تو ہے، مگر اس کے نفاذ کی ذمےداری اساتذہ کمیونٹی اور قومی اردو کونسل جیسے زبانوں کو فروغ دینے والے اداروں کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ ہم اپنی مادری زبانوں میں سائنس ، سوشل سائنس اور دیگر عصری موضوعات پر  نصابی کتابیں تیار کروائیں اور ان زبانوں میں بچوں کی تعلیم کا اہتمام کریں۔ انھوں نے ایک خاص بات یہ کہی کہ موجودہ دور ہمارے ملک کے لیے لسانی و ثقافتی ایمرجنسی کا دور ہے، جس میں ہمیں اپنی مادری زبانوں میں  ابتدائی سطح سے لے کر اعلی تعلیم تک  کا اہتمام کرنا ہر حال میں ضروری ہے،ہندوستان کے لسانی و ثقافتی تنوع کے تحفظ کے لیے بھی یہ ضروری ہے،اگر ہم اس میں ناکام رہے تو نہ صرف اپنے گراں قدر  متنوع لسانی ورثے سے محروم ہوسکتے ہیں،بلکہ ثقافتی رنگارنگی کا ہمارا قدیم ترین اثاثہ بھی خطرے میں آجائے گا۔اس سمپوزیم کا اختتام پروفیسر شیخ عقیل احمد کے اظہار تشکر پر ہوا۔اس موقعے پر اہل علم و دانش کی بڑی تعداد موجود رہی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں