15/3/23

مرزا رسوا کے ناول ’اختری بیگم‘ کے نسوانی کردار:ڈاکٹر محمد توحید خان

 


اختری بیگم ایک ایسا ناول ہے جس میں مرزا ہادی رسوا نے اختری بیگم کی مثالی شخصیت کے پردے میں لکھنؤ کے نوابوں کی زبوں حالی اور جعل سازوں کی جعل سازی کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ 1857 کے بعد جو لکھنؤ کا زوال آمادہ سماج تھا اس میں نوابوں کی بدحالی قابل رحم تھی۔ وہ اندر سے کھوکھلے ہوچکے تھے لیکن ظاہر داری اور نوابی فکر ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔ مرزا رسوا چونکہ لکھنؤ کے تہذیبی و ثقافتی معاملات اور سماجی، سیاسی، اور معاشی حالات کا گہرا شعور رکھتے تھے اس لیے ان کے تقریبا تمام ناولوں میں لکھنؤ اپنی گوناگوں صفات کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ لکھنوی تہذیب و ثقافت کا مرقع ہیں۔ یوں تو مرزا رسوا نے متعدد ناول لکھے تاہم امرائو جان ادا کو جو شہرت و مقبولیت ملی وہ کسی اور ناول کے حصے میں نہیں آئی۔ ظاہر ہے افکار و کردار اور موضوع و مواد کو جس کمال ہنرمندی سے امرائو جان ادا میں پیش کیا گیا ہے وہ کسی اور ناول میں نظر نہیں آتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے دیگر ناول کسی لائق نہیں۔ البتہ فنی لحاظ سے ان میں کچھ خامیاں ضرور ہیں جو انھیں بلندی تک پہنچنے سے روکتی ہیں۔

مرزا رسوا کے یہاں موضوعات کا کوئی خاص تنوع نہیں ہے۔ وہی لکھنؤ کا زوال پذیر معاشرہ اور بد حال نواب ہے جس میں عیش و مستی اور جعل سازی ہے اور دم توڑتے اقدار کی کہانی ہے۔ البتہ پیش کش کا انداز ہر ایک میں منفرد ہے۔ خواہ وہ امرائو جان ادا ہو، شریف زادہ ہو، ذات شریف ہو یا اختری بیگم۔ دوسری بات یہ کہ مرزا رسوا کو کردار نگاری میں کمال حاصل تھا۔ وہ بڑے عالم و فاضل اور نفسیات کے ماہر تھے اس لیے انھیں کرداروں کی کیفیات اور نفسیات کا بخوبی علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح حقیقی زندگی میں انسانی طبائع مختلف ہیں اسی طرح ان کے ناولوں کے کردار بھی جدا جدا خصلتوں کے حامل ہیں  نیز ان میں فطری پن بدرجہ اتم موجود ہے۔ مرزا رسوا نے اپنے ناولوں میں معاشرے کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ’’کسی قصہ کو دل چسپ بنانے کے لیے اصل حقیقت سے دور ہوجانا ایک ایسی غلطی ہے جس سے لکھنے والے کے مذاق کی قلعی کھل جاتی ہے۔ فطرت میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں ان سے بہتر عمدہ مثالیں ہم کو مل ہی نہیں سکتیں۔‘‘ (ذات شریف، ص 1)

اختری بیگم کے نسوانی کرداروں میں مہری ہے جو بالکل ابتدا میں خورشید بیگم کا خط لے کر آئی تھی اور خط پاکر خورشید مرزا پرانی یادوں میں کھوگئے تھے۔ اس کے بعد اس کا ذکر نہیں ملتا۔ پھراختری کی والدہ خورشید بیگم جو تھوڑی دیر کے لیے کہانی میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ نوکرانی میں حسینی خانم، کریمن وغیرہ ہیں۔ اہم کرداروں میں جعفری، نادری، ہرمز اور بوٹن ہیں جو مرکزی کردار اختری بیگم کے ساتھ ہر موڑ پر نظر آتے ہیں۔ نیز مرزائی بیگم جعفری کی پھوپھی اور زینب ایک غریب اور خود دار بوڑھی عورت ہے۔ یہ دونوں اختری بیگم کے احسان اور حسن اخلاق کی گرویدہ اور اس سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ یہ تمام ذیلی اور ضمنی کردار اختری بیگم کے عادات و اطوار، نیک سیرت اور مثالی شخصیت کو روشن کرتے ہیں۔

مرزا رسوا کا یہ ناول بنیادی طور پر خیر و شر کی کشمکش پر مبنی ہے جس میں آخرکار خیر کی فتح ہوتی ہے۔ نسوانی کردار ہی اس ناول کا مرکزی کردار ہے اور اسی کے نام پر اس ناول کا نام رکھا گیا ہے۔ مرزا رسوا نے اختری بیگم کی نیک سیرت اور فرشتہ خصلت کو بیان کرنے کے لیے ایک بڑا بیانیہ خلق کیا ہے جس میں نواب خورشید مرزا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ نواب خورشید مرزا کی بیوی کے انتقال کے بعد خورشید بیگم کا کردار سامنے آتا ہے جو اختری بیگم کی ماں ہے۔ خورشید مرزا اور خورشید بیگم بچپن سے دوست تھے اور ایک دوسرے سے شادی کی خواہش بھی رکھتے تھے، لیکن ان کے والدین نے پوری نہ ہونے دی۔ دونوں کے والدین نے اپنے اپنے طور پر ان کی شادی کرادی جس کا صدمہ دونوں کو عمر بھر رہا۔ اتفاق یہ ہوا کہ خورشید مرزا کی بیوی اور خورشید بیگم کے شوہر تھوڑے دنوں کے فاصلے پر انتقال کرگئے۔ خورشید بیگم کو اپنے آبا و اجداد سے ترکے میں بہت سے مال و اسباب ملے تھے تاہم وہ کسی سنگین مرض میں مبتلا تھی جس سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا وہ اپنی بیٹی اختری بیگم کو خورشید مرزا کی کفالت میں دینے کے لیے لکھنؤ آتی ہے اور خورشید مرزا کے نام وصیت نامہ تیار کروا کر اختری بیگم کو ان کے سپرد کردیتی ہے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد اختری بیگم کی والدہ کا انتقال ہوجاتا ہے اور چوںکہ باپ کا انتقال پہلے ہی ہوچکا تھا اس لیے وہ یتیم ہوجاتی ہے۔ 

نواب خورشید مرزا کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی کا نام جعفری اور چھوٹی کا نادری تھا اور ان دونوں کے مزاج میں بہت فرق تھا۔ جعفری کی طبیعت میں حسد، جلن، کینہ اور بغض کوٹ کوٹ کر بھرا تھا جب کہ نادری بہت صاف دل کی اور ملنسار طبیعت کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اختری کے گھر میں آتے ہی جعفری کے ناک بھوئوں چڑھ جاتے ہیں اور وہ اسے جلی کٹی سناتی رہتی ہے، جب کہ نادری اس قدر گھل مل جاتی ہے، گویا دونوں میں برسوں پرانے تعلقات ہوں۔ نواب خورشید مرزا کو چونکہ اختری بیگم کے لیے وصیت کی گئی تھی کہ اسے کبھی یتیمی کا احساس نہ ہونے دے اور اس راز سے شادی ہونے تک پردہ بھی نہ اٹھائے۔ اس لیے نواب خورشید مرزا نے اپنے گھر میں اسے بڑے اہتمام اور لاڈ پیار سے رکھا تھا جسے دیکھ کر جعفری کے تن بدن میں ہمیشہ آگ لگی رہی۔ حالانکہ اختری بیگم نے کبھی اس کی باتوں کو دل پر نہیں لیا اور وہ ہمیشہ اسے بڑی بہن سمجھتی رہی۔ اختری بیگم کے لیے خورشید مرزا نے بہت اہتمام کیا جو جعفری کو بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ اس کا غصہ بھی جائز  تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی گھر میں کئی مہمان اور رشتے دار آئے لیکن ان کے لیے اتنا اہتمام کبھی نہیں کیا گیا جتنا اختری کی آمد پر ہوا۔ دوسری بات اختری اپنے آپ میں چاہے جتنی بھی نیک اور اچھی ہو جعفری کے لیے اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اس بات کی ہے کہ اس کے آنے سے گھر کے اخراجات بڑھ گئے۔ چونکہ جعفری کو اس کی حیثیت اور دولت کا کوئی علم نہیں تھا اس لیے اس کے ٹھاٹ باٹ اور اخراجات کو دیکھ کر اسے بہت ملال ہوتا تھا۔ جعفری کے تیور دیکھیں

’’ایک ذرا سی لڑکی کے لیے یہ انتظام یہ سامان آج تک خالائیں بھی آئیں پھوپھیاں بھی، اے لو چار دن کا ذکر ہے خدا بخشے نانی اماں سال میں ایک دو دفعہ آتیں کسی کے لیے یہ اہتمام یہ سامان نہیں ہوئے۔ کمرہ خالی کردو اس میں جھاڑو دلوادو، سفیدی پھروادی گئی، دریاں چاندنیاں نکلوائی گئیں، خاص دان اگال دان، تسلہ لوٹے پر نئی قلعی ہوئی یا اللہ! ایسی کہاں سے رنگا کے آئیں گی اور ساری حکومت مجھ پر جیسے میں اختری کی لونڈی ہوں، ناصاحب مجھ سے کسی کی ماماگیری نہیں ہوگی۔میں باز آئی۔‘‘ (اختری بیگم، ص 40-41)

مرزا رسوا نے اختری بیگم کی صورت میں ایک ایسے کردار کی تخلیق کی جو بالکل مثالی ہے۔ ابتدا سے انتہا تک اس کی خوبیاں نمایاں ہوتی جاتی ہیں۔ اس کے اندر نفرت اور برائی کا معمولی سا بھی عنصر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جعفری کی از حد نفرت کے باوجود کبھی اس کے حوالے سے اختری کا دل میلا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ایک بار ایسا ہوا کہ جعفری نے اختری بیگم کو اپنے گھر سے نکال دیا لیکن اس کے باوجود اس نے جعفری کو کبھی برا بھلا نہیں کہا۔ اختری نے ضرورت مندوں کی اس طرح مدد کی کہ اس کی عزت نفس کو بھی کبھی ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ چہ جائے کہ کبھی احسان جتائے۔ غرض کہ حیا، سخاوت، شرافت اور نجابت کی وہ پتلا تھی جس کی زندگی میں برائی کا لفظ ہی نہیں تھا۔ اختری بیگم کی صفات مرزا رسوا کی زبانی ملاحظہ کریں

’’صانع حقیقی نے جہاں کہیں صورت اور سیرت کو کسی آدمی زاد میں خواہ مرد ہو خواہ عورت ایک جگہ جمع کرکے قدرت نمائی کی ہے۔ وہ فطرت کے بہترین نظاروں سے ہے، یہ لڑکی بہ ہمہ صفت موصوف تھی۔ پیاری پیاری صورت کے ساتھ نیک دلی، نیک نیتی، پاکیزہ خیالات، تمیز داری سلیقہ شعار، رحم دلی، خدا ترسی، معصوم صفتیں۔۔۔‘‘ (ایضاً، ص 25)

نواب خورشید مرزا چونکہ کاروبار سلطنت دیکھتے تھے اس لیے امور خانہ داری جعفری کے ذمے تھا۔ اشیائے خورد و نوش، نوکروں اور خادماؤں کی ضروریات کا انتظام جعفری ہی کیا کرتی تھی۔ اختری بیگم جب سے گھر میں آئی ہے خورشید مرزا کی توجہ اس پر کچھ زیادہ ہی رہتی ہے اورخرچ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ لہٰذاجعفری کو یہ فکر بھی ستائے جارہی ہے کہ گھر میں عیش و آرام سے رہ کر مفت خوری کر رہی ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خورشید مرزا کی مالی حالت انتہائی ابتر ہے۔ مراد علی کی چال بازیوں سے دن بہ دن قرض بڑھتا جارہا ہے اور پورا کاروبار سلطنت زوال پذیر ہے۔ اگر اختری بیگم کی دولت خورشید مرزا کے تصرف میں نہ ہوتی تو ان کا گھربارنیلام ہوگیا ہوتا۔ ایک عرصے تک یہ بات صیغہ راز میں رہی تاہم جب جعفری پر اختری بیگم کا راز کھلا تب اس کے آمرانہ رویے میں نرمی آئی۔ لیکن پھر بھی اختری کے لیے اس کے دل میں محبت پیدا نہ ہوسکی۔ ان دونوں کی گفتگو سنیں

اختری ماموں جان کے بعد میں آپ کو اپنا بزرگ سمجھتی ہوں، آپ کھائیے پکوائیے مجھ کو بھی جس طرح ہاتھ اٹھا کے دیتی تھیں دیجیے۔ اپنی چھوٹی سمجھیے چھوٹی بہن نہ سمجھیے لونڈی سمجھیے۔ مجھے زندگی بھر عذر نہ ہوگا‘‘ کیا کہنا اختری کا۔

جعفری بس بس آپ کی خوبیوں میں کوئی شک نہیں مجھے یقین ہے کہ جو آپ کہتی ہیں وہی کریں گی، مگر میں اس قابل نہیں ہوں، میں اس درجہ پر رہنا چاہتی ہوں جس درجہ پر خدا نے مجھے رکھا ہے۔ ایسی جھوٹی حکومت مجھ کو منظور نہیں۔ جب میں محکوم ہوں تو حاکم بن کے کیوں بیٹھوں، میں آپ کی اطاعت کرنے کو حاضر ہوں مگر مجھے بنائیے نہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 218)

اس ناول کے نسوانی کرداروں میں اختری بیگم اور جعفری مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان دونوں کی فطرت میں مکمل تضاد ہے۔ لیکن ان میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ دونوں ایک ہی حالت پر قائم رہتی ہیں۔ اختری بیگم کی نیک فطرت نے جعفری کے خلاف کبھی بدگمانی پیدا نہیں ہونے دی، وہیں جعفری کبھی اختری کے تعلق سے خوش گمان نہیں ہوئی۔ چنانچہ اختری بیگم کو جعفری نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس دن سے وہ گھر میں آئی کبھی جعفری نے سیدھے منہ بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ اسے جھڑکتی رہی اور کھری کھوٹی سناتی رہی لیکن اس کے باوجود اختری بیگم نے کبھی اسے برا نہیں جانا۔ ہمیشہ وہ اس سے اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتی رہی اور طرح سے اس کا دل جیتنے کی کوشش کرتی رہی تاہم جعفری کے دل سے غبار کبھی نہ نکلا ’’جعفری کو ملانے کی اس نے از حد کوشش کی وہ کہتی تھی کہ جعفری سے میل کیے بغیر وہ اس گھر میں خوش نہیں رہ سکتی، دریا میں رہنا اور مگر مچھ سے بیر جعفری کے دل میں خناس گھسا ہوا تھا، نہ نکلا پر نہ نکلا۔‘‘

(ایضاً، ص 55)

مرزا رسوا نے جعفری کی شکل میں ایک ایسے کردار کی تخلیق کی جو انتہائی ضدی اور اپنے فیصلے پر اٹل ہے۔ اس کے اندر انانیت اور خود پرستی کا جنون ہے۔ باپ کی دولت پر ناز بھی اور اسے فضول میں لٹانے پر تکلیف بھی۔ اختری پر جو پیسے خرچ ہوتے تھے وہ جعفری کے لیے انتہائی تکلیف دہ اورناقابل تسلیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اختری کے ٹھاٹ باٹ کو دیکھ کر ہمیشہ جلی بھنی رہتی ہے۔ لیکن جب اسے اس بات کا علم ہوگیا کہ نواب خورشید مرزا جو اختری پر خرچ کر رہے ہیں نہ صرف وہ اس کا ہے بلکہ گھر کے اخراجات بھی اسی کے پیسے سے چل رہے ہیں تو وہ فورا اپنی حد میں آجاتی ہے۔ پھر اختری پر اپنا حکم چلانا بند کردیتی ہے۔ یہی تھوڑی تبدیلی جعفری میں آتی ہے ورنہ اس کا دل اب بھی اختری بیگم کے حوالے سے صاف نہیں ہے

’’غرض جعفری جس مرتبے کی تھی وہی مرتبہ اس نے اختیار کیا۔ اختری کی دولت منت خوشامد اس کی ضد کے سامنے سب ہیچ ٹھہری، مضبوط ارادے کے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی بات کی پکی اور ضد کی پوری تھی۔ جب تک باپ کی دولت سمجھ کے وہ اٹھا رہی تھی۔ اس کو اختری (اس کے خیال میں مفت خوری) کا خرچ فضول معلوم ہوتا تھا۔ اس کو باپ کی تباہی کا قلق تھا وہ سمجھتی تھی کہ باپ کی تباہی کا سبب اختری ہے۔ باپ کے بے ہوش ہوتے ہی اس کی رائے میں اختری کے ساتھ رعایت کرنا گناہ تھا۔ جب سے اس کو معلوم ہوا کہ معاملہ برعکس ہے بلکہ ان کے والد خود اختری کے دست نگر ہیں وہ اختری کی مطیع بن کے رہنا پسند کرتی تھی بے جا حکومت پرائے مال پر اپنا تصرف ناجائز خیال کرتی تھی وہ اپنی حالت پر بہت جلد راضی ہوگئی۔ وہ اس حال میں اپنی تقدیر پر شاکر تھی۔‘‘

(ایضاً، ص 220)

اختری بیگم کے حسن اخلاق اور نیک نیتی نے دن بہ دن لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ محل کے اندر نوکر چاکر ہوں یا نواب خورشید مرزا کے رشتے دار سبھی کے دل میں اختری بیگم بستی چلی گئی۔ کیونکہ وہ بلند اخلاق و کردار کی مالک تھی اور سخاوت بھی خوب کرتی تھی۔ چنانچہ نواب خورشید مرزا کے ہونے والے داماد حکیم سید جعفر علی اور نواب مرزا کواختری سے بے پناہ عقیدت ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب مراد علی نے اختری کو زک پہنچانے اور دولت ہتھیانے کی ناپاک کوشش کی تو یہ دونوں ڈھال بن گئے اور اختری بیگم کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ اسی طرح پڑوس میں رہنے والی ایک غریب سن رسیدہ زینب کو اختری بیگم نے اپنی ماں بنا لیا اور ان کی بیٹی ہرمزی کو اپنی بہن۔ ہرمزی ایک اسکول میں نوکری کرتی تھی جس کی آمدنی سے ماں بیٹی کا گزر بسر ہوتا تھا۔اختری بیگم اکثر ان کے گھر جاکر بوڑھی زینب کے دکھ سکھ میں شامل ہوتی اور مالی معاونت بھی کرنا چاہتی مگر اس غریب کی خود داری بیچ میں حائل ہوجاتی۔ لیکن اس کے باوجود اختری بیگم نے اسے اپنی ماں بنا کر اس طرح مدد کی کہ ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہونے دی۔

مرزائی بیگم جعفری کی پھوپھی تھی اور وہ بھی اختری بیگم سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ در اصل جعفری کی پھوپھی نے اس سے کچھ پیسے قرض لیے تھے جسے واپس لینے کے لیے ان کے یہاں گئی تو ساتھ میں اختری بیگم بھی چلی گئی۔ چوںکہ مرزائی بیگم کے پاس قرض چکانے کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے اختری بیگم نے جعفری کی نظروں سے چھپا کر انھیں اتنے پیسے دیے کہ قرض ادا ہوگیا۔ اس طرح مرزائی بیگم جعفری کے خلوص اور احسان کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوئی اور پوری زندگی اختری سے محبت کرتی رہی۔ زینب بیگم کی بیٹی ہرمزی انتہائی نیک، محنتی، سنجیدہ اور تعلیم یافتہ تھی۔ اس کی بوڑھی ماں کے علاوہ گھر میں اور کوئی نہیں تھالہٰذا ایک اسکول میں پڑھا کر وہ اپنی والدہ کی کفالت کرتی تھی۔ حالانکہ اس کی والدہ کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ اپنی بیٹی کو نوکری کے لیے بھیجے لیکن حالات کے آگے وہ مجبور تھی۔

درمیان میں بوٹن کا داخلہ ہوتا ہے جو زینب کے ایک دور کے بھائی محسن علی کی بیٹی ہے۔ در اصل ہرمزی کی طبیعت کی ناسازی اور شہر کی آب و ہوا سے تنگ آکر زینب نے رڑکی میں مقیم محسن علی کے یہاں جانے کا قصد کیا۔ یہاں گائوں کی کھلی فضا میں محسن علی کی بیٹی بوٹن سے ملاقات ہوئی جو انتہائی شوخ اور چنچل تھی۔ ہرمزی سے بے تکلفی بڑھ گئی اور واپسی کے وقت وہ ساتھ آنے کو بضد ہوگئی۔ چنانچہ وہ زینب اور ہرمزی کے ساتھ لکھنؤ آگئی۔ یہاں اس کی ملاقات مراد علی سے ہوئی اور اس کو اپنا دل دے بیٹھی۔ دونوں میں اتنی گہری محبت ہوگئی کہ شادی کرنے اور ساتھ جینے مرنے کا عہد و پیمان بھی ہوگیا۔ اس درمیان مراد علی اختری کی دولت پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ موقع ملتے ہی اس کے زیورات اور مال و دولت لے کر بوٹن کے ساتھ فرار ہوگیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ جہاز کے ذریعے ولایت نکل جائے اور وہاں بوٹن کے ساتھ خوش حال زندگی گزارے۔ لیکن چوںکہ حکیم جعفر علی اور نواب مرزا کو مراد علی کی سازشوں کا اندازہ تھا اور اس کے فرار ہونے کی خبر مل چکی تھی اس لیے نواب مرزا اس کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہے اور بالآخر ممبئی میں اسے رنگے ہاتھوں دبوچ لیا۔ یہاں پر بوٹن کو بہت سمجھایا گیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ گھر لوٹ جائے لیکن وہ نہیں مانی۔ بوٹن بھی بہت مضبوط ارادے کی تھی، ایک بار جب اس نے مراد علی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر کبھی اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا

’’بوٹن کی رخصتی قیامت کا سامنا تھا، ہرمزی، نواب مرزا کی بیوی سب سمجھا کے تھک گئے۔ ماں چیخیں مار مار روئی ہیں۔ سب سے مل کر نہایت بے پروائی کے ساتھ جہاز میں سوار ہوگئی، جہاز میں جاکے وطن، ماں باپ کی عزت، عزیز، کنبہ کی جدائی کا خیال آیا۔ ایک کونہ میں جہاز کے منہ چھپا کے بیٹھ رہی۔ جہاز کا لنگر اٹھا سب ہوٹل کو واپس آئے، کوئی بوٹن کو برا کہہ رہا ہے، کیسے کٹر دل کی ہے، نہ باپ کی قید کا خیال، نہ ماں کے رونے پیٹنے کا، مگر اس کا چلتے چلتے یہی کلام تھا کہ اب تو جو قسمت میں لکھا تھا پورا ہوا، کرکے چھوڑ دینا بہت برا ہے۔ اس کے بعد سنا گیا کہ بوٹن پر سخت مصیبتیں گزریں، مراد علی نے چھوڑا تو نہیں مگر ناداری ایسی تھی کہ صبح سے شام تک دشواری سے پیٹ بھرکے کھانے کو ملتا تھا۔ مگر وہ اپنی قسمت پر شاکر رہی اور وطن کا رخ نہ کیا۔ بری ہو یا بھلی بات کی سچی اور قول کی پوری تھی۔‘‘ (ایضاً، ص 235)

اس واقعے کے بعد اختری بیگم کی دولت کا شہرہ پورے لکھنؤ میں ہوجاتا ہے اور مختلف نواب اور امرا اس سے شادی کے لیے پیغامات بھیجنے لگتے ہیں۔ یہاں پر ناول کا اختتام ہوسکتا تھا تاہم مرزا رسوا نے ایک نئی جعل سازی کا قصہ شروع کردیا۔ چوںکہ اس واقعے کے بعد اختری بیگم کی دولت اور حیثیت پورے لکھنؤ میں ظاہر ہوگئی اس لیے دولت کے لالچ میں رشتوں کی لائن لگ گئی۔ اس کا فائدہ خط نویس اور بوا حسینی نے یوں اٹھایا کہ آنے والے خط کا جواب اختری بیگم کی طرف سے خود ہی دینے لگی اور بدلے میں پیسے اینٹھنے لگی۔ حد یہ کہ شہزادی نامی ایک بیوہ کو اختری بیگم بنا کر نواب گوہر مرزا کے گلے پھانس بھی دیا اور بدلے میں انعام و اکرام بھی پالیا ’’آج بھی خاطر خواہ روپیہ اٹھا، نوکروں چاکروں نے انعام پایا۔ بیگم صاحبہ کی فرمائشیں پوری کی گئیں۔ چار تھان ململ کے بھیج دو۔ دو تھان اطلس کے ابھی روانہ کردو۔‘‘ (ایضاً، ص 254)

آخر اس جعل سازی کا بھی پردہ فاش ہوجاتا ہے اور ناول کا اختتام ہوجاتا ہے۔ اختری بیگم کے پردے میں مرزا رسوا نے جعل سازوں کا ایسا تانا بانا بنا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔

مرزا رسوا کا کمال یہ ہے کہ وہ جتنی مہارت سے مرد کردار تخلیق کرتے ہیں اتنی ہی ہنر مندی سے نسوانی کردار بھی تخلیق کرتے ہیں۔ انھیں عورتوں کی نفسیات اور فطرت کا بخوبی علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اختری بیگم میں جتنے نسوانی کردار پیش کیے گئے ہیں ان میں حد درجہ ہنر مندی موجود ہے۔ ان کے مکالمے ہوں یا کہانی ان کے رول میں کہیں کوئی جھول نہیں ہے۔ البتہ اس ناول کا پلاٹ اتنا مربوط اور گٹھا ہوا نہیں ہے۔ اصل کہانی مکمل ہونے کے بعد بھی دوسری کہانی کی پیوند کاری ایک الگ رخ دکھاتی ہے۔ در اصل مرزا رسوا نے لکھنؤ کی جعل سازی کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔

غرض کہ اس ناول میں اختری بیگم کے ضمن میں کئی نسوانی کردار سامنے آتے ہیں جن سے ہماری زندگی میں بھی سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ اختری بیگم ہی چونکہ مرکزی کردار ہے اس لیے دیگر نسوانی کردار اس کی شخصیت کو ابھارنے اور نکھارنے میں معاونت کرتے ہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کردار کا ایک ہی ہیئت اور خصلت پر ابتدا تا انتہا قائم رہنا کردار نگاری کا عیب مانا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر اس ناول کے نسوانی کرداروں کو دیکھا جائے تو مرکزی کردار اختری بیگم میں یہ عیب بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کے علاوہ جعفری اور نادری بھی کوئی خاص تبدیلی قبول نہیں کرتیں۔ اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ حقیقی زندگی میں بھی بعض استثنائی کردار ایسے ہیں جو مثالی ہیں اور زندگی بھر ان کے رویے نیک ہی رہے۔ اسی طرح بعض برے لوگ ہمیشہ برے ہی رہے۔ مرزا رسوا بھی چوںکہ حقیقت کے ترجمان، دم توڑتی تہذیب کے نوحہ گر اور بہتر معاشرے کے خواہاں رہے اس لیے ان کے یہاں مثالی کردار کے پردے میں معاشرتی کجی اور خامی کا بیان کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ بقول مرزا رسوا ’’ناول نویس ان واقعات کو علی العموم تحریر کردیتا ہے جو اس نے اپنے زمانے میں دیکھے ہیں۔ یا اسے دوسری عبارت میں یوں کہیے کہ زمانہ کی تصویریں جو اس کے دل و دماغ کے مرقع میں موجود ہیں۔ انھیں کی نقلیں اتار اتار کے ناظرین کو دکھا دیتا ہے۔ مگر یہ ان ناول نویسوں کا ذکر ہے جنھوں نے اس فن خاص میں صرف فطرت کو اپنا معلم بنا لیا ہے۔ جو ناول نویس اس باریکی کو نہیں سمجھتے وہ اکثر دھوکا کھاتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 1)

n

Dr. Md Taheed Khan

CIL/ SL, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 9911298667


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں