14/3/23

کلام غالب میں متعلق فعل تمیز: ڈاکٹر سید یحی نشیط


جس طرح اسم کی کیفیات اور اس کی خصوصیات بتانے والے لفظ کو صفت کہا جاتا ہے اسی طرح فعل اور صفت کی کیفیتوں اور ان کی خصوصیتوں کی وضاحت کرنے والے الفاظ قواعد کی زبان میں تمیٔز یا متعلق فعل کہلاتے ہیں۔ تمیٔز بر وزن تعمیر عربی لفظ ہے لیکن فارسی اور اردو کی بول چال میں یہ ’تمیز ‘بر وزن خمیر بن گیا ہے اور آج یہی املا مروج ہے۔فعل کی خصوصیات سے مراد اس کی زمانی،مقامی،طوری اور مقداری حا لت ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعلق فعل اسم،صفت،ضمیر۔مصدر،حروف ربط کی ظرفی اور طوری حالت وغیرہ سے بنتے ہیں۔متعلق فعل کی زمانی،مقامی،طوری اور مقداری حالت کامعنوی سطح پرتعین کر نے کے لیے کتنا، کیسا،کب اور کہاں جیسے سوالات سے حاصل ہونے والے جوابات معاونت کر سکتے ہیں۔متعلق افعال کی تقسیم تین بنیادوں پر ہو سکتی ہے۔(الف)استعمال کی بنیاد پر(ب)ہئیت کی بنیاد پر اور (ج)معنی کی بنیاد پر۔

(الف) استعمال کی بنیاد پر

 (1)     جن متعلق افعال کا استعمال جملے میں آزادانہ طور پر ہوتا ہے،جیسے ہاے! میں اب کیا کروں،جلدی آؤ پیارے۔ وغیرہ۔ان دونوں مثالوں میں بالترتیب ’اب اورجلدی‘ ایسے آزاد متعلق افعال( صرفیے) ہیں جن کے بغیر بھی یہ فقرے اپنا مفہوم ادا کر دیتے ہیں۔

(2)       جو متعلق افعال،فقرے ـ یا جملے کی با معنی اکائیوں سے جڑے رہتے ہیں۔ جیسے جب لیلیٰ ہی نہیں تو میں جی کے کیا کروں گا۔جہاں ریگستان دکھائی دیتا ہے، کبھی وہاں پانی ہوا کرتا تھا۔ یاد رہے کہ جب، جہاں، جوں،جتنا جیسے متعلق افعال ضمیر موصولہ ’’ جو‘‘ سے بنتے ہیں۔        

 (3)    بعض متعلق فعل ایسے ہوتے ہیں جو کلمے کی کسی بھی قسم سے منسلک ہوجاتے ہیں،جیسے اس نے مجھے پوچھا تک نہیں۔یہ تو کسی کی جعل سازی دکھائی دیتی ہے۔ان     ۔               جملوں میں’تک‘ اور ’تو‘متعلق فعل ہیں جو بالترتیب ’ پوچھنا‘ فعل اور ’یہ‘ ضمیر اشارہ سے جڑے ہیں۔

 (ب) ہئیت کی بنیاد پر

(1)     ایسے متعلقہ فعل جو دوسرے اجزائے کلام سے مل کر بنتے ہیں۔

(2)     ایسے متعلقہ فعل جو کسی دوسرے لفظ سے نہیں بنتے، جیسے اچانک،پھر،ٹھیک،دور وغیرہ۔

(1)     اسما سے بنے متعلق فعل

  اس طرح کے متعلق افعال اسم کے ساتھ فعل جڑنے سے بنتے ہیں جیسے

  دن بھر، دیر رات تک، صبح سویرے، ترتیب سے، بلیوں اچھلنا، پانی پھرنا، بھوکوں مرنا، گلا پھاڑنا۔ گھڑ چال، مستانہ چال، گلی گلی جھانکنا، تم کیا خاک مدد کروگے  وغیرہ۔ اشعارِغالب کے نحوی نظام میںضرورت شعری کے تحت جملے کی بامعنی صرفی اکائیاں اکثر قواعدی ضابطے سے ہٹ کر اپنے مقامِ معینہ کو بدل دیتی ہیں۔ متعلق فعل کے الفاظ میں بھی  اس طرح کا تغیر رونما ہوتا ہے۔ مثلاً          ؎

مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال

تا  باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے

 یاں صبح دم جو  دیکھیے آکر  تو بزم میں

نے وہ سرود و شور نہ جوش و خروش ہے

 بوئے گل،نالۂ دل،دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا  سو پریشاں نکلا

 بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمر خضر

حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے 

 ہنسا کچھ کھلکھلاکر پہلے،پھر مجھ کو جو پہچانا

تو یوں رویا کہ جوئے خوں بہی پلکوں کے داماں سے  

مندرجۂ بالا اشعار میں ’ مستانہ طے کرنا،صبح دم دیکھنا، ’ پریشان نکلنا‘ بے صرفہ گزرنااور کھلکھلا کر ہنسنا، پانچوں اسم سے جڑ کر بنے متعلق فعل ہیں۔ ان اشعار کے تمام متعلق فعل، فعل کی   کیفیت بھی بیان کر رہے ہیں۔ آخری مثال میں کھلکھلاکر ہنسنا حالیہ معطوفہ بطور متعلق فعل استعمال ہوا ہے۔ بعض اوقات اسم کے آگے ’سے‘ ( نشان گرِ وصف فعل )لگانے سے بھی متعلق فعل بن جاتے ہیں جیسے    ؎     

نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ’ہم ستم گر ہیں‘

مجھے  تو خو ہے کہ جو کچھ کہو ’’بجا کہیے‘‘

اس شعر میں ’طعن سے کہنا ‘یہ فقرہ طعن (اسم)سے (نشان گر ِ وصفِ فعل )اور کہنا (فعل) کے با معنی تعملات سے بنا ہے۔چونکہ اس فقرے میں ’طعن‘،کہنا فعل کی خوبی کا مظہر ہے۔                                                              

اس لیے قواعد کی رو سے یہ متعلق فعل کے زمرے میں آتا ہے۔اردو میں اسم کے آگے یوں ’سے‘ لگنے سے بالعموم متعلقِ فعل کی صورت بن جاتی ہے  جیسے صبح سے، بھولے سے،محبت سے دن بھر سے وغیرہ۔غالب کا یہ شعر بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے         ؎

اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسد کی نعش

دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے

یہاں نعش اٹھانے کے ڈھنگ ؍ طریقے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس لیے ’اس رنگ سے ‘ متعلق فعل ہوا          ؎

عجب  نشاط سے  جلاد کے چلے  ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دوقدم آگے

اس شعر میں جلاد کے آگے چلنے کے طریقے کو بتایا گیا ہے۔ ’نشاط سے چلنا ‘یہ ’ عجب نشاط سے ہم جلاد کے آگے چلے ہیں ‘اس حال مطلق والے جملے کی طویل اکائی ہے جس میں چلنے کے فعل کی خوبی بتائی گئی ہے۔اس لیے ’عجب نشاط سے‘ یہاں متعلق فعل کہلائے گا۔اسی نوع کا یہ شعر بھی ہے          ؎

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد رکھیں گے کہ خدا رکھتے تھے

یہاں زندگی کا ’ اس شکل سے گزرنا‘ میں ’ اس شکل‘ اسم اشارہ ہے اور’ گزرنا‘ فعل کی خوبی بیان کر رہا ہے۔

(2)     ضمائر سے بنے متعلق فعل

 اس طرح کے متعلق افعال ضمائر کے ساتھ فعل جڑنے سے بنتے ہیں جیسے یہاں، وہاں، ادھر، ادھر، جدھر، کدھر، ضمائر سے بنے ایسے متعلق افعال مکانی کہلاتے ہیں۔

 متعلق فعل مکانی کی دو قسمیں ہیں (1) ظرفی جیسے یہاں، وہاں، آگے؍ سامنے، پیچھے، اندر، باہر، نیچے، اوپر، پاس، قریب، دور وغیرہ اور (2) طرفی جیسے ادھر، ادھر، کدھر، جدھر، دائیں بائیں،اس طرف، اُس طرف، شرقی؍ شرقاً، غربی؍ غرباً، شمالی؍ شمالاً، جنوبی؍ جنوباً وغیرہ۔ ضمائر سے بنے متعلق افعال میں کبھی کبھی کام کرنے کا وقت ظاہر ہوتا ہے، جیسے اب،جب، آج، کل، صبح سویرے، آگے، شب و روز،رفتہ رفتہ،دھیرے دھیرے وغیرہ۔ غالب کے کلام میں ان متعلق افعال کی مثالیں مل جاتی ہیں۔جیسے       ؎

جو  آؤں سامنے  ان کے  تو مرحبا نہ کہیں

جو  جاؤں  واں  سے کہیں کو  تو  خیر باد  نہیں

( سامنے،واں [وہاں]مکانی ظرفی)

 رات کے وقت مے پیے،ساتھ رقیب کو لیے     

آوے وہ یاں خدا کرے،پر نہ کرے خدا کہ یوں   

(یاں۔مکانی ظرفی )

منظر  ا ک  بلندی   پر  اور  ہم  بنا   سکتے

عرش  سے  ادھر  ہوتا  کاش کہ  مکاں  اپنا 

(بلندی پر۔مکانی ظرفی،اُ دھر۔مکانی طرفی)

آ گے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

( آگے،اب زمانی متعلق فعل )

اس شعر میں حالِ دل پر ہنسی آ نے اور نہ آ کے وقت کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔

بازیچۂ اطفال ہے،دنیا،مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

(آگے،متعلق فعل مکانی۔شب و روز، متعلق فعل زمانی)    

 شاعر نے مندرجۂ بالا اشعار میں لفظ ’آ گے ‘ کا استعمال متعلق فعلِ  زمانی اور متعلق فعل مکانی دونوں طرح کیا ہے۔

غالب کے یہاں بعض اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جن میں زمانی و مکانی دونوں متعلقہ افعال کی ترجمانی ایک ساتھ ہوئی ہے  جیسے         ؎ 

مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آ نکھیں غالب

یار لائے مرے بالیں پہ اسے پر کس وقت

اس شعر میں آ نکھیں بند ہوجانے کے بعد یار کو بالیں پر لانے کی بات کہی گئی ہے۔اس میں لانے کا وقت اور مقام وقت دونوں متعلق افعال کا ذکر ہے۔اسی انداز کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو         ؎

مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے      

خوب وقت آئے تم اس عاشقِ بیمار کے پاس

ان دونوں اشعار میں تاسف کے جذبے کو دو طرح سے واضح کیا گیا ہے۔پہلے شعر میں استفہام کے ذریعے اور دوسرے شعر میں حرف فجائیہ ’ہے ہے‘کے ذریعے۔   

(3)     طوری متعلق فعل

اس نوع کے متعلق افعال کام کی نوعیت، طور طریقے کا اظہار کر تے ہیں۔اس کی پہچان ’ کیسا‘سوال پوچھنے سے ہو جاتی ہے، جیسے چٹ پٹ، جلدی جلدی، رفتہ رفتہ، چپکے چپکے وغیرہ۔ جملوں میں ان کا استعمال بالعموم فعل سے پہلے ہوتا ہے۔ مثلاًزید چٹ پٹ تیار ہو گیا۔ وہ جلدی جلدی چلنے لگا۔فعل کے طور طریقوں کا اظہار کر نے والے متعلق  افعال کی تعداداتنی زیادہ ہے کہ انھیں کسی خاص قسم کے اندر رکھنا ذرا مشکل امر ہے،اس لیے ان کی صرف نشاندہی کافی ہوگی۔چند متعلق افعال درج ذیل ہیں۔ایسے،ویسے،جیسے،اچانک،بآسانی،بہ دیر، بالمشافہ، یونہی، پیدل، آپ ہی آپ، یکایک، بغور، حسبِ منشا، حسبِ ضرورت، بے شک، در اصل، ہاں، جی، ٹھیک، بجا، اس لیے، تو، ہی، بھی، بھر، تک وغیرہ۔ان کے علاوہ جبراً، فوراً، مثلاً، بعینیہ، فی الفور، بالکل، بقدر، ہر چند، غالباً، یقینا، فی الحقیقت، چنانچہ، لہٰذا، کما حقہ، قس علیٰ ہذا۔ غالب کے یہاں ان کے استعمال کی   مثالیں مل جاتی ہیںجیسے        ؎

ہر  چند  ہو  مشاہدۂ  حق  کی  گفتگو

بنتی  نہیں  ہے  بادہ  و  ساغر کہے  بغیر

( ہر چند۔متعلق فعل )

ع       طاقت بقدر لذت آزار بھی نہیں                                                          

( بقدر َ۔متعلق فعل )

(4)     تکرار فعل سے بنے متعلق فعل     

کبھی کبھی افعال کی تکرار سے فعل کی حالت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔جیسے رفتہ رفتہ،بیٹھے بیٹھے،چلتے چلتے  وغیرہ۔ غالب کے اشعار میں متعلق افعال کی یہ مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔جیسے   ؎

سختی کشانِ  عشق کی  پوچھے  ہے کیا  خبر

وہ  لوگ  رفتہ  رفتہ  سراپا الم ہوئے

( رفتہ رفتہ۔ متعلق فعل )

تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کر پوچھو

حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ بھری ہے

(کھود کھود کر۔متعلق فعل )

ع           چپکے  چپکے  جلتے  ہیں  جوں شمع  ماتم  خانہ ہم         

( چپکے چپکے۔متعلق فعل )

ان تینوں اشعار میں کام کی طوری حالت بتائی گئی ہے۔ یعنی رفتہ رفتہ سراپا الم ہونا اور بات کو کھود کھود کر پوچھنا اور چپکے چپکے جلنا۔                                            

(5)     مصادر سے بنے متعلق فعل

متعلق فعل مصادر سے بھی بنتے ہیں، جیسے آتے، کرتے، دیکھتے ہوئے، مرتے ہوئے، بیٹھے ہوئے، چاہے، لیے، مانو وغیرہ۔غالب کے یہاں اس قسم کے متعلق افعال کا استعمال ہوا ہے جیسے         ؎

 

 آگہی ِ دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

(جس قدر چاہے سے بچھانا فعل کا وصف بیان ہوتا ہے )

اس شعر کے پہلے مصرع کی نثر یوں ہوگی آگہی، جس قدر چاہے دامِ شنیدن بچھا ئے۔جس کی رو سے’ دام شنیدن بچھانے ‘ کے فعل کا وصف ’ جس قدر چاہے‘ سے ظاہر ہو رہا ہے      ؎

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے  رہے تصورِ  جاناں کیے  ہوئے

(کیے ہوئے، ’کرنا‘ فعل کی صفت بیان کر رہا ہے ) 

(ج)    معنی کے اعتبارسے متعلق فعل

 معنی کے اعتبار سے متعلق فعل کی چار قسمیں ہیں (1)متعلق فعل مکانی (2)  متعلق فعل زمانی (3)  متعلق فعل طوری (4) متعلق فعل مقداری۔گز شتہ صفحات میں اولین تین قسموں پر غور کیا جا چکا ہے۔اب یہاں متعلق فعل مقداری پر غور کیا جائے گا۔مقدار کے میزان کی تقسیم یوں کی جا سکتی ہے۔ (الف)مقدارِقلیلی (ب) مقدارِکثیری اور (ج) مقدارِ تدریجی۔

مقدارِ قلیلی،متعلق فعل کی وہ قسم ہے جس کے ذریعے کام میں پائی جانے والی کمی ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے، کچھ، لگ بھگ، چند، ٹُک، ذرا، چندے، رمق، عنقاوغیرہ۔ ان مقداری متعلق فعل میں ’ چندے‘ کی مختلف شکلیں مختلف معنی کے ساتھ اردو شاعری میںنظر آتی ہیں، مثلاً غالب کہتے ہیں          ؎     

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے       تکلف بر طرف،تھاایک اندازِ جنوں وہ بھی

 پھر اپنے مرنے والے سے یہ کہہ لو

ذرا اور آپ چندے جیے جائیں

(جلال)

ان دونوں اشعار میں غالب اور جلال نے ’ چندے ‘ کا استعمال کچھ ر وز یا کچھ مدت کے لیے کیا ہے لیکن اردو محاورے اور ضرب الامثال میں اس لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں، جیسے چندے آفتاب چندے ماہتاب ‘ اس مثل میں ’ چندے ‘ کے معنی بے مثل کے ہیں۔ غالب نے ایک پوری غزل میں متعلق فعل ’چند‘ کا استعمال مقدار کی کمی کے لیے کیا ہے    ؎

دلِ بیتاب کے سینے میں دمِ چند رہا

بدمِِ  چند گرفتارِ  غمِ  چند رہا

 زندگی کے ہوے ناگہ نفس چند تمام

کوچۂ یار جو مجھ سے قدمِ چند رہا

پہلے شعرمیں ’دم‘ ذومعنی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔پہلے معنی اس کے سانس کے ہیں اور دوسرے معنی ساعت ؍ وقفہ ؍لمحہ کے ہیں۔شاعر نے اس شعر میں نحوی کرتب بازی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ پہلے مصرع میں ’دلِ بیتاب‘ کے سینے میں چند ساعت رہنے کی بات کہی گئی ہے۔ دوسرا مصرع پہلے مصرع کی خبر بیان کر رہا ہے کہ (دلِ بیتاب) سینے کے اندر چند سانسوں تک غم میں گرفتار رہا ہے۔ اس مصرع میں ’ چند‘ کا دو بار استعمال ہوا ہے۔پہلے ’چند‘ کا تعلق ’دم‘ یعنی سانس سے ہے لیکن دوسرے ’چند‘ کا تعلق جس فقرے سے ہے، اس کی قرأت میں(کالی داس گپتا کے مرتبہ دیوان غالب کے مطابق) ’گرفتار ‘اور’غم‘ دونوں کے نیچے ’زیرِ اضافت کی علامتیںشامل ہیں، جن کی وجہ سے مصرع کی نحوی ساخت پیچیدہ ہو گئی ہے۔ یہاں ’گرفتارِ‘ کی ’را‘کو موقوف الیہ یعنی ’را‘ بلا اضافت اور اضافت کے ساتھ دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے۔ غمِ چند کے معنی یہاں معمولی غم کے زیادہ مناسب ہیںورنہ ’غم‘ کو جمع کی صورت میںتسلیم کرنا پڑے گا، لیکن چند غم کہنا محاورہ نہیں ہے۔ دل بیتاب کا سینے میں دم چند یعنی تھوڑی ساعت رہنے کی بات کہنے کی وجہ سے ’دمِ چند،رہنا اس فعل کا متعلق فعل بن گیا ہے۔دوسرے مصرع میں دم (سانس) اور گرفتار غم دونوں کا متعلق فعل ’چند‘ ہی ہے۔     

دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں نَفَسۡ کے معنی سانس اور ساعت ؍گھڑی دونوں لیے جا سکتے ہیں۔ یعنی ناگاہ زندگی کی چند گھڑیاں ختم ہوئیں۔یا ناگاہ زندگی کی چند سانسیں تمام ؍ ختم ہوئیں۔پہلا مصرع معنی کے لحاظ سے دوسرے مصرع سے مربوط ہے۔اس لیے مکمل شعر کے معنی ہوں گے،’’کوچۂ یار جب مجھ سے چند قدم ہی رہ گیا تھا،ناگاہ زندگی کی باقی چند سانسیں ؍ گھڑیاں تمام ہوئیں۔ یہاں پہلے مصرع میں متعلق فعل ’چند‘ کی نسبت نفس سے اور دوسرے مصرع میں ’قدم‘ سے ہے۔اس طرح اوپر کی تمام مثالوں میں یہ متعلق فعل تخفیفِ عمل کے نشان گر بن گئے ہیں۔ قلتِ شے کی سب سے ادنیٰ حالت کے لیے ’عنقا‘ یعنی عدم وجود کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس سے مراد ایسی شے جس کا کوئی وجود نہیں۔ غالب نے ’مدعا عنقا ہے‘ اور ’عنقا ارمی، جیسی تراکیب تخفیفاشیا کے لیے استعمال کی ہیں۔اسی نوع کا ایک لفظ ’رمق‘ بھی ہے یہ انتہائی قلیل شے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔غالب کے کلام میں مجھے اس کی کوئی مثال نہیں ملی۔

دوسری قسم مقدار کثیری ہے اس سے مراد وہ مقدار جس سے کسی شے کی زیادتی کا اظہار مطلوب ہو۔جیسے بہت، خوب، زیادہ،انتہا،بہت زیادہ،وفور وغیرہ۔غالب کے کلام میں متعلق فعل مقداری کے استعمال کی مثالیں مل جاتی ہیں، لیکن انھوں نے کثرتِ مقداری کے اظہار کے لیے بعض محاوراتی مرکبات سے بھی کام لیا ہے،مثلاً بیک وقت کئی چیزوں کا ہاتھ لگ جانا، اس کے لیے فارسی کا محاورہ ’بیک کف بردن ِ صد دل ‘استعمال ہوتا ہے۔گویا مقدار کی کثرت کا اظہار اس محاورے سے ہوتا ہے۔ غالب نے ایک شعر میں اسے برتا ہے   ؎

شمارِ سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا

تماشائے بیک کف بردن ِصددل پسند آیا

سبحہ کو عرف عام میں تسبیح کہتے ہیں جس کے اندر سو دانے ہوتے ہیںاور ذکر کرتے ہوئے ان دانوں کو پھیرا جاتا ہے۔ تسبیح پھیرنے کا یہ عمل صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر بہ آسانی کیا جاتا ہے۔ معشوق کو تسبیح پھیرنے کا یہ عمل اس لیے مرغوب ہے کہ وہ بھی ہاتھ کے ایک اشارے سے سو دلوں کو اپنی جانب پھیر سکتا ہے۔یہاں اگر چہ بیک کف بردن صد دل میں صفت عددی ہے لیکن کئی دلوں پر یکساں قابو پانے کے جو معنی نکلتے ہیں وہ بردن یعنی ’اڑا لینا‘ کی خصوصیت کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔غالب کے دیوان کی پہلی غزل میں تنہائی کی حالت میں شام کے صبح کرنے کی دشوار ی کو جوئے شیر لانا کہا گیا ہے۔یعنی تنہائی کی رات گزارنا نہایت سخت کام ہے،جیسے پہاڑ کھود کر جوئے شیر لانا۔ان معنوں میںشام کا صبح کرنا کے عمل کا متعلق فعل جوئے شیر لاناہے۔چونکہ جوئے شیر لانا یہ محاورہ کام کی نہایت سختی یا دشواری کے لیے استعمال ہوا ہے،اس لیے غالب کے شعر میں جوئے شیر لانا متعلق فعل کے زمرے میں آئے گا۔

مقدارِ تدریجی میں ان متعلق افعال کا شمار ہوتا ہے جو کسی شے یا فعل کی بتدریج کمی یا اضافے کا اظہار کرتے ہیں۔جیسے تھوڑا تھورا،کم کم،باری باری،تِل تِل،پل پل وغیرہ۔ بعض اوقات مصادر سے سابقے جوڑ کر بھی متعلق فعل بنائے جاتے ہیں۔جیسے انجانا،بے گانا،بے قصور، بخیر،بالجبر،بالمشافہ،بدستور،نڈر،در اصل،در حقیقت،ہر گھڑی،ہر دن، ہر پل،بلا ضرورت،ناگہاں،فی الفور،ہر چندوغیرہ۔بعض افعال سے لاحقے جوڑ کر بھی متعلق فعل بنائے جاتے ہیں۔جیسے جبراً، فوراً، قصداً، مثلاً، ہفتہ وار، ماہوار وغیرہ۔ان کے علاوہ بھی بیسیوں الفاظ اردو میں رائج ہیں جو بطور متعلق فعل استعمال ہوتے ہیں۔غالب کے یہاں ان کا استعمال بھی ہوا ہے لیکن نحوی تراکیب کے متأثر ہونے کی ان کے یہاں کوئی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی حسن بیان کے اضافے کا وہ سبب بنے ہیں۔ ان الفاظ (متعلق افعال)کے استعمال کے دوران نثری نحوی ساخت اور شعری نحوی ساخت میں کوئی فرق  نظر نہیں آتا۔

n

Dr. Syed Yahya Nasheet

24, Kashana  KALGAON

Dist. Yavatmal 445203 (MS)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں