10/5/23

مسافران شبلی منزل (عہد شبلی و سلیمان): محمد الیاس الاعظمی

 


 تلخیص

دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ آج جہاں قائم ہے اس کے قیام سے پہلے وہاں علامہ شبلی نعمانی کی قیام گاہ تھی۔ اسے عرف عام میں شبلی منزل کہا جاتا تھا اور آج بھی یہ نام زبانوں پر ہے۔ اسے علامہ شبلی نعمانی کی قیام گاہ کی وجہ سے ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور اہل علم و فضل کی توجہ اسے حاصل رہی اور متعدد اہل علم اور ارباب کمال علامہ شبلی سے شرف ملاقات کے لیے وہاں آیا کرتے تھے۔ اس مقالہ میں ان کی آمد اور اس کے اسباب کی تفصیلات قلم بند کی گئی ہیں۔ دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی کے قیام کے بعد اہل علم،  علما،  فضلا اور دیگر ارباب کمال ایک علمی مرکز کی حیثیت سے یہاں آنا اور قیام کرنا اور اس کے وسیع کتب خانے سے استفادہ کرنا فخر وسعادت خیال کرتے تھے۔ یہی زمانہ جدوجہد آزادی کے شباب کا بھی ہے۔ چنانچہ متعدد مجاہدین آزادی اور تلامذہ شبلی بالخصوص کانگریس کمیٹی کے ذمہ داران یہاں آتے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے۔ اس شبلی منزل جدوجہد آزادی کابھی ایک مرکز بن گئی تھی۔ اس مقالہ میں ہر طرح کے متعدد مجاہدین آزادی کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے کہ ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ جد و جہد آزادی کی ایک مختصر داستان اس میں سماں گئی ہے جو ہماری تاریخ کاایک بڑا اہم حصہ ہے۔

کلیدی الفاظ

شبلی منزل، دارالمصنّفین، خانوادہ شبلی، بندول،پہاڑ پور، پھریہہ، صدرالمنازل، کتب خانہ، نواب محسن الملک، کشمیر، قصیدۂ کشمیر، کلیات شبلی، ’الفاروق‘ حادثہ گزندپا، مولانا حبیب الرحمن شیروانی، شعرالعجم، شاہنامہ، بیت الحکمت، مکاتیب شبلی

——————

موضع بندول کے علاوہ اعظم گڑھ شہرمیں علامہ شبلی نعمانی (1857-1914) کے تین مکانات تھے۔پہلا مکان جسے کوٹھی کہناچاہیے شہرمیںچوک کے قریب محلہ کرمی ٹولہ میں واقع تھا۔ اس گھرمیں خانوادئہ شبلی عرصے تک آباد رہا اور اب بھی علامہ شبلی کے چچازادبھائی محمد عثمان [کوتوال الہ آباد ]کا خانوادہ آبادہے۔محمدعثمان ایم اے اوکالج علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔ وہاںسے ایف اے پاس کیا۔ انھیں علامہ شبلی نے اپنے ساتھ رکھ کرعلی گڑھ میںتعلیم دلائی تھی۔ ’مکاتیب شبلی‘ میں ان کانام متعدد جگہوں [اول 55، 61،71،72،77،98،336] پر ملتا ہے۔

یہ کوٹھی محمدعثمان کے ورثانے حال میں مسمار کرکے جدید تعمیرات کرائی ہیں۔ یہ کوٹھی جب آباد اور پررونق تھی،اسے’شبلی ڈیرا‘بھی کہا جاتا تھا۔ علامہ کے والد شیخ حبیب اللہ وکیل [م12 نومبر1900] اسی مکان میں قیام کرتے تھے اوراسی میں رہ کر وکالت کیا کرتے تھے۔ علامہ شبلی کابچپن اورجوانی کا زمانہ اسی مذکورہ کوٹھی میںگذرا۔ ایک زمانے میںیہ شعروادب کا گہوارہ تھی۔ شعرابالخصوص شہراعظم گڑھ کے شعرا یہاں جمع ہوتے اور دادسخن دیتے۔ ایک شاعر سید عابد حسین عابد جونپوری کے غیرمطبوعہ مجموعہ کلام کی جن غزلوں پر برمکان شبلی یا بر مکان شیخ حبیب اللہ اعظم گڑھ لکھا ہواہے، وہ غزلیںاسی کوٹھی میں پڑھی گئی تھیں۔ اسے ناچیز نے بھی دیکھا ہے۔ افسوس کہ اب اس کوٹھی کی کوئی تصویر بھی محفوظ نہیںہے۔

علامہ شبلی کادوسرامکان محلہ پہاڑپورمیں لب سڑک اورشبلی کالج کے بالمقابل واقع ہے۔یہ دراصل علامہ شبلی نعمانی کی دوسری غیرکفو والدہ کی رہائش گاہ تھی۔جہاںوہ اپنے اکلوتے فرزندمحمد اور پوتے مظفر کے ساتھ رہاکرتی تھیں۔ ’مکاتیب شبلی‘میںچھائونی کاجو ذکر ملتا ہے وہ دراصل اسی مکان اورانہی خاتون کی طرف اشارہ ہے۔اسے ورثانے فروخت کردیا ہے۔ البتہ نام و نشاں بلکہ ایک حصہ ابھی باقی ہے۔

علامہ شبلی نے1895 میں اپنی والدہ مرحومہ[ مقیمہ بی بی]جوپھریہاکے حاجی قربان قنبر انصاری کی صاحبزادی تھیں، کے انتقال کے بعد اعظم گڑھ شہرمیںدواورمکانات تعمیر کرائے۔ ایک اپنی والدہ مرحومہ کی یادمیںجسے’صدر المنازل‘کانام دیااورجو شبلی نیشنل پی جی کالج میںاب تک باقی ہے۔ دوسرامکان اپنی رہائش کے لیے تعمیر کرایااورجسے عرف عام میں ’شبلی منزل‘کہا جاتا ہے۔ اسی شبلی منزل کو انھوں نے دارالمصنّفین کے لیے منتخب کیااوراس سے ملحق زمینیںبھی اس پروقف کیں۔دارالمصنّفین کا موجودہ وسیع و عریض اورشاندارکتب خانہ دراصل شبلی منزل کی اصل عمارت ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اصلاً اب بھی یہی’شبلی منزل‘ مرکز شبلی ہے۔یہیںسے ان کی یادوں اور فکرونظر کا کارواںدنیا بھرمیں رواں دواں ہوتا ہے۔خدااسے محفوظ اورآبادرکھے۔

سرسیداحمدخاںکی وفات کے بعدمئی1898 میںعلامہ شبلی نے علی گڑھ کالج کی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور اپنے وطن اعظم گڑھ چلے آئے۔اس باران کاقیام اسی شبلی منزل میں رہا۔ یہیںسخت بیمار ہوئے توعیادت کے لیے علی گڑھ سے نواب محسن الملک تشریف لائے اور اسی مکان میں تین دن ٹھہرے۔ اسی مکان سے تبدیلی آب وہواکے لیے وہ کشمیرگئے اور قصیدہ کشمیریہ کہاجو کلیات شبلی میں ان کی اہم تخلیقات میںشامل ہے۔حتیٰ کہ سوانحی ادب کا شاہ کار’’الفاروق‘‘ بھی اسی مکان میں پایہ تکمیل کوپہنچی۔

17مئی1907 کوحادثہ گزندپاکاواقعہ اسی شبلی منزل میںپیش آیاتھا۔اس کی تفصیل علامہ شبلی کے قلم سے ملاحظہ ہو۔وہ مولاناحبیب الرحمن شروانی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں

’’ایک اتفاقی تقریب سے میں اپنے وطن اعظم گڑھ میں آیاتھا اور ارادہ تھا کہ مہینہ دو مہینہ یہاں قیام کروںگا۔شعرالعجم کے اجزا زیر تحریر تھے اور شاہنامہ پر ریویو کر رہا تھا۔ سترہویں مئی 1907 قریباًدس بجے ہوںگے کہ میں دفتر سے اٹھ کر زنانہ کمرے میں گیا۔ اندر تخت بچھے ہوئے تھے۔ پاؤں لٹکاکرتخت پربیٹھ گیا۔ تخت پر کارتوس بھری ہوئی بندوق رکھی تھی۔ میں نے ہاتھ میں اٹھالی اور پھر ایک دوسرے شخص (بہو)کے ہاتھ میں دے دی۔ اتفاق سے گھوڑاگرگیا۔ بندوق کی زد ٹھیک میرے پاؤںپرتھی۔ بندوق کی نال سے پاؤں تک صرف ایک بالشت کافاصلہ تھا۔ کارتوس میں اگرچہ چھرے تھے لیکن چونکہ بڑے تھے اور فاصلہ بہت کم تھا، اس لیے ٹخنے کی ہڈی بالکل چور ہوگئی اور پاؤں کٹ کر صرف دو تسمے لگے رہ گئے۔ جس وقت ضرب لگی مجھ کو صرف اس قدرمعلوم ہوا کہ پاؤں کو ایک جھٹکا سالگا، کوئی تکلیف نہیں محسوس ہوئی۔ جھٹکے کے بعد بندوق کے چھوٹنے کی آواز محسوس ہوئی، اس وقت میں نے گھبراکرکہایہ کیا ہوا۔ آوازسن کر باہر سے بعض آدمی اندر آگئے۔ اس وقت میں اسی طرح پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا اور پاؤں جوتے میں تھے۔ ایک عزیز نے آکر میرے پاؤںپرہاتھ رکھا تو میں نے پاؤں جوتے میں سے نکال لیا۔ اس وقت پاؤں کی ایڑی جوتے میں پھنس کر رہ گئی۔ میں نے پاؤں اوپر اٹھایا اور نوکروں سے کہااس پر پانی ڈالو۔ پانی جب ڈالا جاتا تھا تو پاؤں میں سے بھک بھک دھواں نکلتاتھا۔ قریباً پاؤں گھنٹہ تک اٹھائے بیٹھا رہا۔ جب پنڈلیاں دکھنے لگیں تو میں نے آدمی سے کہاکہ اب ایک تکیہ لاکر میرا پاؤںاس پر رکھ دو۔ آدمی نے رو کر کہا کیاچیز ہے جورکھی جائے گی۔ مجھ کو اس وقت تک نہ معلوم تھا کہ میری ایڑی جدا ہوکر جوتے میں رہ گئی ہے، جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ابتدا میں ایک فور ی نظرکے سوا مطلق اپنے پاؤں پرنظرنہیںڈالی اور جو کچھ میں نے پاؤں کے متعلق حالات بیان کیے ہیں وہ ڈاکٹراور دیگرحاضرین کی زبانی ہیں۔

اس وقت خاص عزیزوں میں سے کوئی نہ تھا۔ نوکر اور ماماوغیرہ تھیں۔ یہ لوگ سخت زاروقطار روتے تھے اور میں ان کو منع کرتاتھا۔ قریباًایک گھنٹہ کے بعد فرزند عزیز محمد حامد آیا اور زخم کو دیکھتے ہی چیخ اٹھا اور بہت بے قراری کے ساتھ گریۂ و زاری کرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس پر غشی سی طاری ہوگئی۔میں نے نوکروں سے کہاکہ اس کے منھ پر پانی چھڑکو اور حلق میں پانی ٹپکاؤ، اس سے اس کو ہوش آگیا۔

تھوڑی دیر کے بعد میرے چھوٹے عزیزی بھائی جنید، سول سرجن اور اسسٹنٹ سول سرجن کو ساتھ لے کر آئے۔ بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ جو رگیںکٹ گئی تھیں ان سے شدت کے ساتھ خوج جاری تھااور نہ خودمجھ کو اور نہ نوکروں چاکروں میں کسی کو خیال آیا کہ ان پر پٹی کس کر باندھ دیں جس سے خون رک جائے۔

بہرحال ڈاکٹر نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ رگوں کے منھ باندھ دیے جس سے خون رک گیا۔اس کے بعد میں نے ڈاکٹرسے کہا کہ اگر پاؤں جوڑنے کے قابل ہو تو خیر ورنہ سرے سے نکال ڈالیے۔ ڈاکٹرنے کہا کہ پاؤں کاٹنے کے بغیرکوئی چارہ نہیں۔ غرض  بے ہوشی کی دواپلائی گئی اور عمل جراحی شروع کیا، چونکہ ہڈیاں کچھ اوپر تک پھٹ گئی تھیں، اس لیے نصف پنڈلی جداکردی گئی۔ (اور متصل ہرزہ گردی کی سزادی گئی۔) عمل جراحی کے پورے ہونے کے دس پندرہ منٹ بعد مجھے ہوش آیا اور زخموں کے ٹانکے اور رگوں کی کھچاوٹ کی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ آج نواں دن ہے، ڈاکٹرایک دن بیچ دے کر زخم کھولتاہے، دھوتاہے اور پھر باندھ دیتاہے۔ تکلیف میں ابھی تک کوئی کمی نہیں ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ابتدائے واقعہ سے اس وقت تک طبیعت کی طمانیت اور سکون میں کوئی کمی نہیں ہے۔ سوچتا ہوں تو نظرآتاہے کہ جو شخص سرکاٹے جانے کے قابل ہو اس کے پاؤں کاٹے گئے تو کیا ہوا؟

ظاہری حالات کے لحاظ سے بھی تسکین ہے کہ پچاس برس سے بھی زیادہ کی کچھ عمر پائی۔ بہت چلاپھرا، دوڑادھوپا، ملاجلا، آخرکہاں تک ؟ خود پاؤں توڑکر بیٹھناچاہیے تھا، نہ بیٹھاتو قسمت نے بیٹھادیا۔ گرنستانی بہ ستم میرخدائے بے نیاز کا شکر گذار، احباب و اعزہ کا منت پذیر ہوں، بچ گیا تو پھر کسی نہ کسی طرح دوستوں کو دیکھ لوں گا، ورنہ ان شاء اللہ تعالیٰ اب دوسرے عالم میں ملاقات ہوگی۔والسلام

دسویں دن ٹانکے کھولے گئے، ایک ٹانکے میں مواد آگیا، اس وجہ سے سوزش اور ٹپک کی سخت تکلیف ہے۔ 31مئی 1907 تک یہ حالت ہے۔

                                                شبلی نعمانی

25مئی 1907 

اس حادثے پر عیادت کے لیے نواب سیدعلی حسن خاں،مولاناسیدعبدالحی حسنی اور مولوی عبدالحلیم شرر وغیرہ لکھنؤ سے تشریف لائے جواسی شبلی منزل میںمقیم ہوئے۔اسی طرح 1913 کے آخر میں جب علامہ شبلی ندوہ سے مستعفی ہوکر اعظم گڑھ آئے توبھی اسی شبلی منزل میں ان کاقیام رہا۔ اس زمانے میں مدرسۃالاصلاح سرائمیرکی انتظامیہ کے بعض جلسے بھی اسی شبلی منزل میں منعقد ہوئے۔

علامہ شبلی نعمانی جب یہاںقیام کرتے توان کے احباب ملاقات کے لیے شبلی منزل آیا کرتے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ عہدشبلی اوراس کے بعدکے ادوارمیں ہندوستان کے مشاہیر اہل علم و ادب اسی شبلی منزل میں قیام کرتے تھے،لیکن جب علامہ نے شبلی منزل اور اس سے متصل اپنے دوباغوں کو دارالمصنّفین پر وقف کیااورشبلی منزل کے مشرقی حصہ میں ایک وسیع و عریض مہمان خانہ تعمیر کرایا تو پھر مہمانوںکاقیام اس نئے مہمان خانے میں ہونے لگا۔ دارالمصنّفین کا موجودہ تاریخی مہمان خانہ اسی قدیم مہمان خانے کی جگہ مولاناسیدسلیمان ندوی اورمولانا مسعود علی ندوی نے 1927 میں تعمیر کرایاہے۔

 عہدشبلی سے آج تک شبلی منزل اوراس کامہمان خانہ دنیابھرکے اہل علم و ادب اور ارباب کمال کی مختلف النوع یادوںکواپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔بعدمیںیہی مہمان خانہ ملک کے سیاسی رہنمائوں اور آزادی کے متوالوں کی آماجگاہ اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ زیر نظر مقالے ان مسافران شبلی منزل کے چندنفوس کی یادوں کے ذکر پر مشتمل ہے جو عہد شبلی وسلیمان میںاعظم گڑھ تشریف لائے اور شبلی منزل میں ٹھہرے۔ مزارشبلی پر فاتحہ پڑھنے یا کتب خانے سے استفادہ کرنے کے مقصدسے ملک و بیرون ملک کے بے شمار لوگوںنے یہاںکاسفرکیا۔اب ایک صدی بعداس ادارے یعنی دارالمصنّفین کی حیثیت ایک تاریخی اورسیاحتی مقام کی ہوگئی ہے۔ بعض اشخاص آج بھی اس حیثیت سے دارالمصنّفین دیکھنے آتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسے اہل علم میںبیت الحکمت خیال کیا جاتا ہے اوراسی وقار کی بناپر تمام اہل کمال یہاں آتے اورقیام کرتے ہیں۔اوران بزرگوںکوجنھوںنے اسے قائم کیا اور جنھوں نے معمولی معمولی تنخواہوںمیںاس ادارے پراپنی زندگیاںنچھاورکردیں انھیںخراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

دارالمصنّفین کی ایک صدی کی تاریخ میںہندوستان کے بے شمارمشاہیرملک و ملت اس سے کسی نہ کسی حیثیت (انتظامیہ کے صدر،نائب صدر،رفیق،اعزازی رفیق اور ارکان انتظامی ) سے وابستہ رہے،  جیسے مولانا حمید الدین فراہی،علامہ سرمحمداقبال،مولوی اقبال احمد خاںسہیل، مولانا عبدالماجد دریابادی،  ڈاکٹرذاکرحسین سابق صدرجمہوریہ ہند، فخرالدین علی احمدصدرسابق جمہوریہ ہند،مرزاحسان احمد،  مولانا شاہ معین الدین احمدندوی، مولانا سید ریاست علی ندوی، مولانا مجیب اللہ ندوی، مولانا قاضی اطہرمبارک پوری، سید صباح الدین عبدالرحمن،مولانا سید ابوالحسن علی ندوی وغیرہ۔ زیرنظرمقالے میں ان عہدہ داران دارالمصنّفین کا ذکر نہیں کیاگیاہے، اس لیے کہ ان کا تذکرہ دارالمصنّفین کی تاریخ اور خدمات پر لکھی جانے والی مستقل کتابوں میں آگیا ہے۔

مذکورہ بالاشخصیات کے علاوہ ہندوستان اوربرصغیرکے دیگر ممالک کے مشاہیر اہل علم و ادب، سیاست داں،ماہرتعلیم اور دیگرارباب علم وکمال کی ایک بڑی اورنمایاںتعدادایسی ہے، جس نے دارالمصنّفین سے مدۃالعمرربط وتعلق قائم رکھا اور اس کی زیارت کے لیے اعظم گڑھ کا سفر کیا۔ اس میں ہندو و مسلمان دونوںشامل ہیں۔مسلمان مشاہیرکے نام یہ ہیں

مولوی مہدی علی خاںنواب محسن الملک،مولوی اعجازحسن خاں،مولوی ریاض حسن خاںخیال، مولوی عبدالحلیم شرر،نواب سیدعلی حسن خاں،بی اماں،مولاناظفرعلی خاں، چودھری خلیق الزماں،مفتی کفایت اللہ دہلوی، آصف علی فیضی،قاضی عدیل عباسی، مولوی جوادعلی، مولانا سیدعبدالحی حسنی،مولوی عبدالرزاق کان پوری،مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر،مولانا حسرت موہانی،مولاناموسیٰ جاراللہ (روس)،سرورخاں گویا (ملک الشعرا ء افغانستان)،شیخ الحدیث مولانا محمدیونس جون پوری، جمال پاشا (ترکی )، ابراہیم حمدی(سعودی عرب)، ڈاکٹرعبداللہ عمر النسیف (مصر)رفیع احمد قدوائی، مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹرمختار احمدانصاری، ڈاکٹرمحمد حمیداللہ پیرس،شیخ عبدالفتاح ابوغدہ، رشید احمد صدیقی، سجاد انصاری، اثرلکھنوی،سیدسخی احمد ہاشمی، کیفی اعظمی اورسید حامد وغیرہ

اسی طرح ہندومشاہیرکے نام یہ ہیں

راشٹرپتامہاتماگاندھی،پنڈت مدن موہن مالویہ،پنڈت موتی لعل نہرو،پنڈت جواہرلعل نہرو، سی پی گپتا، اشوک مہتہ،بی گوپال ریڈی، سوچیتاکرپلانی، رام بہادر سکسینہ، سرتیج بہادر سپرو، ڈاکٹر سمپورنا نند، آچاریہ نریندردیو،جے پرکاش نرائن،رام منوہر لوہیا، پنڈت ونوابھاوے، لال بہادرشاستری سابق وزیراعظم، اندرا گاندھی سابق وزیر اعظم، تاریخ ادب اردو کے مصنف رام بابو سکسینہ،فراق گورکھپوری، سروجنی نائیڈو، چودھری چرن سنگھ سابق وزیراعظم،مشہورمحقق مالک رام، پروفیسر جگن ناتھ آزاد،گلزاردہلوی،وی پی سنگھ سابق وزیراعظم وغیرہ

مذکورہ شخصیات اوران کے اسفارکااگرذکرکیاجائے تومسافران شبلی منزل پر ایک بہت ہی ضخیم اور مبسوط کتاب تیارہوجائے گی۔اسے کسی اہل قلم کوضرورلکھناچاہیے۔ہم نے اس مقالے میںمحض ان اہل علم اور ارباب کمال کاذکرکیاہے جوعلامہ شبلی یاسیدصاحب سے ملاقات کے لیے شبلی منزل آئے اور روز دو روز ٹھہرے۔

عہد شبلی

نواب محسن الملک

شبلی منزل اعظم گڑھ میں قیام کرنے والوںمیںپہلا نام علامہ شبلی نعمانی کے دوست نواب محسن الملک(1837-1907)کاہے۔ سرسیداحمد خاں ان سے پہلے 11؍ جولائی 1874 کو اعظم گڑھ تشریف لائے تھے،مگر اس وقت شبلی منزل تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ ان کا قیام غالباً سرکاری بنگلے میں صاحب توبۃالنصوح مولوی نذیراحمددہلوی (1836-1912) ڈپٹی کلکٹر اعظم گڑھ کے یہاں ہوا تھا۔

 پروفیسر اقبال حسین صاحب سابق استاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 2007 میں نواب محسن الملک سے متعلق منتشرکاغذات کاایک مجموعہ ’دستاویزات محسن الملک‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں ایک دستاویز (نمبر17، شمار نمبر167) ’ خط طلبائے اعظم گڑھ‘ کے نام سے درج ہے۔عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہورہا ہے کہ ایم اے او کالج علی گڑھ میں مقیم طلبائے اعظم گڑھ کا یہ کوئی خط ہے جو انہو ںنے نواب محسن الملک کے نام لکھا ہے، مگر دراصل یہ طلبائے نیشنل ہائی اسکول اعظم گڑھ کا وہ سپاس نامہ ہے جو انھو ںنے نواب محسن الملک کی اعظم گڑھ آمد پرعلامہ شبلی کی موجودگی میں ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔  اس پر چونکہ 23 مارچ 1899 کی تاریخ درج ہے، اس لیے یہ واضح ہوتا ہے کہ نواب صاحب جنوری 1899 میںایم اے او کالج علی گڑھ کے سکریٹری منتخب ہونے کے بعد مارچ 1899 میں اعظم گڑھ تشریف لائے تھے۔ چوں کہ علامہ شبلی کے ایک خط میں نواب محسن الملک کے قیام اعظم گڑھ کی مدت تین دن لکھی ہوئی ہے، اس لیے اس کی تعیین 21,22 مارچ سے 24؍25؍ مارچ 1899 کی تاریخوں کے درمیان کی جاسکتی ہے۔

اس سپاس نامہ کو اصل سے نقل کرنے میں ’دستاویزات محسن الملک‘کے مرتب نے احتیاط سے کام نہیں لیا ہے۔ کمپوزنگ کی متعدد غلطیاں صاف طورپردکھائی دیتی ہیں، حتیٰ کہ اس دستاویز کی تاریخ کے اندراج میں بھی کئی فاش غلطیاں مرتبین سے سرزدہوئی ہیں، چار صفحے کے اس سپاس نامہ کے پہلے صفحے پر 23 اپریل 1898 کی تاریخ درج ہے اور بقیہ صفحات میں 23 اپریل 1899، اصل سپاس نامے کے اختتام پر 23 مارچ 1899 ہی کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ سپاس نامہ پیش کرنے کی اصل تاریخ یہی ہے۔

طلبا ئے نیشنل ہائی اسکول اعظم گڑھ کا یہ سپاس نامہ یقینی ہے کہ علامہ شبلی کے ایما ہی سے پیش کیا گیا ہوگا۔؟اس کے مواداورمشمولات سے بھی اس کی تائیدوتصدیق ہوتی ہے۔ بہر حال یہ سپاس نامہ اپنے مشمولات کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا آغاز اس طرح ہوا ہے

’’معلی القاب جناب نواب محسن الملک صاحب !

ہم طلبائے نیشنل ہائی اسکول اعظم گڑھ جو عالی جناب شمس العلما مولانا محمد شبلی صاحب کی ایک ادنی شعاع فیض و ضیاء مکرمت ہے اور جس کی تمام رفعت و ترقی مولانا ممدوح کی ہمدردی و روشن ضمیری کے خیالات سے وابستہ ہے، نہایت ادب سے دلی جوش کی شادمانی و اٹھتے ہوئے جوش دل کے دلوں کے مسرت سے اس مبارک اور قابل فخر موقع پر جب کہ حضور عالی کے کوکب ہمایوں کے ورود نے اس سرزمین کو فلک چہارم کی عزت دی یا یوں کہیے کہ جناب شمس کی عیادت کی تقریب سے خورشید درخشاں نے قدم رنجہ فرمایا کہ اس سے ہمارے مرزبوم کے ہر خار و خس کو رتبہ انا الشرق عطا کیا ہے۔ چند سطور حضور عالی کے قومی خدمات کے متعلق عرض کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ 2؎

بعدازاں 1857 کے بعد کے حالات بالخصوص مسلمانوں کی زبوں حالی اور کسمپرسی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اس سپاس نامے کا آخری پیراگراف نواب محسن الملک کے لیے دعا ئیہ کلمات اور نیک خواہشات پرمشتمل ہے۔نیز طلبا ئے شبلی نیشنل اسکول اعظم گڑھ کاعلی گڑھ سے والہانہ تعلق کا ایک مظہر ہے۔لکھتے ہیں

’’ ہم کو آپ کی ہر تمام کوشش و مدرسۃ العلوم کے ساتھ نسبتاً دلی ہمدردی ہے۔ اس طرح پر کہ گویا مدرسۃ العلوم میں اس وقت تعلیم پا رہے ہیں اور حضور عالی جناب سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم طلبائے نیشنل ہائی اسکول اعظم گڑھ کو بھی حضور مدرسۃ العلوم کا طالب علم تصور فرمائیں۔ اب ہماری یہ دعا ہے۔ حضرات ! آپ آمین کہیے کہ اے خدا،اپنے رسول پاک و نبی اکرم ؐ کے طفیل میں ہمارے محسن، ہمارے حامی،ہمارے رہنما، ہمارے ناخدا جناب نواب محسن الملک مولوی مہدی علی خاں صاحب بہادر کو جو ہمارے اعتقاد و یقین سے ہندوستان کے پانچ کروڑ مسلمانوں کے رہبر ہیں، خضر کی عمر اور نوح کی حیات عطا کر، وائے خدا، اے خدا ہمارے محسن الملک کی اس تکلیف راہ اور صعوبت سفر کا خیال کرکے اپنے فضل و جلال کے صدقہ میں ان کی کوششوں کو کامران اور ان کے دلی ارادوں کو کامیاب کر۔آمین ثم آمین۔‘‘3؎

نواب محسن الملک کی خدمت میںاس سپاس نامہ کوپیش کرنے کے لیے نیشنل ہائی اسکول یا شبلی منزل میں یقیناکسی نہ کسی تقریب کاانعقادہوا ہوگا، مگر اس کی تفصیلات دستیاب نہیں ہوئیں۔ البتہ اس کے متن کے ایک جملے سے واضح ہوتا ہے کہ تقریب یقینامنعقدہوئی تھی۔یہ بھی ممکن ہے کہ انسٹی ٹیوٹ گزٹ وغیرہ میں اس کی تفصیلات شائع ہوئی ہوں۔

یہ سپاس نامہ نواب محسن الملک کو جس وقت پیش کیا گیا اس وقت علامہ شبلی ایم اے او کالج علی گڑھ سے علاحدہ ہو کر اعظم گڑھ میں مقیم تھے اور نواب محسن الملک علی گڑھ کالج کے سکریٹری منتخب ہو چکے تھے، ممکن ہے علامہ شبلی نے اس سپاس نامے کو نہ دیکھا ہو، مگر اس کے لکھنے میں ان کا مشورہ ضرور شامل رہا ہوگا، کیونکہ اس وقت تک علامہ شبلی کا جو تعلیمی نظریہ قائم ہو چکا تھا، اس کی بازگشت اس کے صفحات میں صاف سنائی دیتی ہے۔مثلاً یہ اقتباس کہ

’’ اور خدا کی مہربانیوں سے کچھ بعید نہیں ہے کہ علی گڑھ کے سر چشمہ علوم سے لارڈ بیکن کے ساتھ حضرت امام غـزالی کی روح بھی خروج کرے۔ اڈلین و میکالے کے ساتھ امام رازی و امام بخاری کی برکتیں بھی اپنا جلوہ دکھائیں۔‘‘4؎

نواب محسن الملک جس وقت شبلی منزل میںتشریف لائے علامہ شبلی اس وقت علیل تھے مگران کی ضیافت میںبھرپورحصہ لیا۔اپنے چھوٹے بھائی محمداسحاق وکیل ہائی کورٹ الہ آباد کے نام ایک خط میںوہ لکھتے ہیں

’’ پانچ چھ دن سے طبیعت اچھی ہے۔ نواب محسن الملک میری عیادت کو یہاں آئے اور میرے بنگلہ میں تین دن رہے۔ ان کی آؤ بھگت میں مجھ کو بہت چلنا پھرنا پڑا، لیکن میں اس کی برداشت کر سکا۔‘‘5؎

اس کے بعدنواب محسن الملک علامہ شبلی نعمانی سے ملاقات کے لیے ندوہ توآئے، مگر پھر اعظم گڑھ تشریف نہیںلائے۔گویایہ اعظم گڑھ کاان کاآخری سفرتھا۔

نواب سیدعلی حسن خاں

بھوپال کے نواب سیدصدیق حسن خاں(1832-1890) کے صاحبزادے نواب سیدعلی حسن خاں (1866-1936)  سابق وزیرتعلیمات ریاست بھوپال علامہ شبلی کے نہایت خاص اورمخلص احباب میں تھے۔ 1892 میںعلامہ شبلی سرسیدکے ساتھ جاتے ہوئے بھوپال میں ٹھہرے۔اس وقت نواب سیدعلی حسن خاںسے جو تعلقات استوارہوئے وہ آخرتک قائم رہے۔  بھوپال میںمحکمہ تعلیم کے عہدے سے مستعفی ہوکرجب وہ لکھنؤآئے توعلامہ شبلی بھی ندوہ آچکے تھے۔ یہاںدونوںکے مراسم اورپروان چڑھے۔ نواب صاحب کوبھی علامہ شبلی نے ندوہ سے وابستہ کرلیا۔بعدمیںوہ ندوہ کے ناظم بھی منتخب ہوئے۔

17مئی 1907 کوعلامہ شبلی کے پائوںکاحادثہ پیش آیا۔اس موقع پرنواب صاحب بھی عیادت کے لیے لکھنؤ سے اعظم گڑھ تشریف لائے اور شبلی منزل میںٹھہرے۔6؎

 مولوی عبدالحلیم شرر

مولوی عبدالحلیم شرر(1860-1926)  علامہ شبلی کے خاص اورعہدشباب کے احباب میںتھے۔ دونوں ایک دوسرے کاذکربڑی محبت سے کیاکرتے تھے۔علی گڑھ میںعلامہ شبلی کے یہاںاور لکھنؤ میں شررکے یہاںگویا دونوںایک دوسرے کے یہاںقیام بھی کرتے تھے۔ 17 مئی1907 کو پائوں میںگولی لگنے کے واقعے پرعلامہ شبلی نعمانی کے جن احباب نے اعظم گڑھ آکر ان کی عیادت اورمزاج پرسی کی ان میں ایک مولوی عبدالحلیم شرر بھی شامل ہیں۔7؎

        واضح رہے کہ اس وقت اعظم گڑھ آنا ایک مشکل ترین مرحلہ تھا،اس لیے کہ اس وقت محض ایک لوکل ٹرین شاہ گنج سے انداراکے لیے چلتی تھی اوراسی سے سفرکرناہوتاتھا۔

مولاناسیدعبدالحی حسنیؒ

        مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی (1914-1999) کے والدمولاناحکیم سیدعبدالحی حسنی (1869-1923) سابق ناظم ندوہ اورصاحب نزہۃالخواطربھی علامہ شبلی کی عیادت کے لیے لکھنؤ سے شبلی منزل اعظم گڑھ تشریف لائے تھے۔8؎

بعدمیںندوہ میں اختلافات پیدا ہوئے اوردوگروہ ہوگئے۔ مولانا سیدعبدالحی حسنی علامہ شبلی کے مخالف گروہ میںشامل رہے اورآخر تک اسی گروہ کاحصہ رہے۔

مولوی ریاض حسن خاں خیال

مولوی ریاض حسن خاںخیال(1877-1953)رئیس رسول پورمظفرپور بہار علامہ شبلی کے خاص احباب میںتھے۔مولاناسیدسلیمان ندوی نے حیات شبلی میںعلامہ کے جن احباب کانام لکھا ہے اس میںمولوی ریاض حسن خاںکابھی نام شامل ہے۔ان سے کب تعلقات قائم ہوئے یہ تونہیںمعلوم ہوسکا۔البتہ ان کے نام علامہ شبلی کاپہلاخط 1899 کامکتوبہ ہے اور آخری خط 26فروری1914 کامکتوبہ ہے۔گویا آخر تک خط و کتابت کا سلسلہ قائم رہا۔ان مکتوبات سے اندازہ ہوتاہے کہ دونوںمیںانتہائی گہرے مراسم و تعلقات تھے۔علامہ شبلی نے لکھاہے کہ مولوی ریاض حسن رئیس مظفرپور ہمارے قدیم مخلص عنایت فرما اور قومی ضرورتوں کے نبض شناس ہیں۔

وہ اردواورفارسی کے بڑے عمدہ شاعرتھے۔ڈ اکٹرفاروق احمدصدیقی نے ان کا مجموعہ ’دیوان خیال‘ مرتب کرکے 1985 میںبزم سخن سیتامڑھی سے شائع کرادیاہے۔ادبیات بالخصوص فارسی ادبیات پران کی گہری نگاہ تھی۔علامہ شبلی جب انجمن ترقی اردوکے سکریٹری تھے ان سے اجازت لے کرانجمن ترقی اردوکے لیے ’’نامہ دانشوراں‘‘کاترجمہ کیا۔ جب ترجمہ پورا ہواتومولوی عبدالحق انجمن کے سکریٹری تھے،انھوںنے پہلے لیت ولعل سے کام لیا، پھر خدا جانے کس طرح اسے ضائع کردیا۔اس طرح اہل علم خیال کی ایک اہم کاوش سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔

دسمبر1906 میں آل انڈیامسلم ایجوکیشنل کانفرنس کاسالانہ اجلاس ڈھاکہ میںنواب سر سلیم اللہ خاںکی صدارت میں منعقد ہوا۔علامہ شبلی اس میںشریک ہوئے۔ وہاںسے واپس آتے ہوئے جنوری 1907 میں مظفرپور ٹھہرے اور مولوی ریاض حسن خاںکے مہمان ہوئے۔ یہاں انھوں نے ایک جلسے سے خطاب کیا اور ندوہ کی ضروریات پرپرزور تقریر کی اورندوہ کے لیے چندہ بھی کیا۔

چندماہ بعداسی سال17 مئی1907 کوعلامہ شبلی کے حادثہ پاکاواقعہ پیش آیا۔ اس کی تفصیل اخبارات میں شائع ہوئی توہرطرف صف ماتم بچھ گئی۔علامہ شبلی کے خاص خاص احباب اس موقع پر عیادت کے لیے اعظم گڑھ تشریف لائے۔ ان میں مولوی ریاض حسن خاںاوران کے بڑے بھائی مولوی اعجاز حسن خاں بھی شامل ہیں۔ 9؎

علامہ شبلی کے حادثہ پاپرشعرانے جوقطعات اوررباعیاںکہیںاسے ناچیزنے اپنی کتاب ’شبلی سخنوروںکی نظرمیں‘یکجاکردیاہے۔

مولوی جواد علی خاں عالی

مولوی جوادعلی خاںعالی ندوہ میںمولاناسیدسلیمان ندوی کے ہم جماعت اور علامہ شبلی کے شاگردوںمیںتھے۔بقول مولاناسیدسلیمان ندوی’’ان کا مذاق طبع خالص ادیبانہ تھا۔‘‘ بعدمیں ’خان عالی‘ کے نام سے شہرت پائی۔ماہنامہ الناظر لکھنؤ میں ان کے مضامین شائع ہوئے ہیں۔ 10؎

        علامہ شبلی کے حادثہ پاکی خبرسن کر مولاناسیدسلیمان ندوی کے ساتھ عیادت کے لیے خان عالی اعظم گڑھ تشریف لائے۔اوردوروزشبلی منزل میںٹھہرے اوراستاد کی خدمت کی۔ 11؎

مولاناابوالکلام آزاد

امام الہندمولاناابوالکلام آزاد(1888-1958)  کوعلامہ شبلی نعمانی کی ذات سے دس بارہ سال کی عمرسے شغف تھا۔ان کی غیرمعمولی لیاقت کے سبب علامہ شبلی کی انجمن ترقی اردوکی سکریٹری شپ کے زمانے میںیہ تعلق اورزیادہ ہوگیاتھا۔چنانچہ علامہ نے اسی دورمیںمولانا ابوالکلام آزاد کے ماہنامہ لسان الصدق کوانجمن کاترجمان بنایا،جس سے اورقربت بڑھ گئی۔اس کے بعدبہ اصرار ماہنامہ الندوہ لکھنؤکی ادارت کے لیے لکھنؤبلایا۔اسی اثنامیںعلامہ شبلی کی اہلیہ سخت علیل ہوئیں تو وہ اعظم گڑھ چلے آئے۔ مولانا ابوالکلام آزادلکھنؤ پہنچے تومولاناحفیظ اللہ بندوی سے معلوم ہواکہ علامہ شبلی کی اہلیہ سخت علیل ہیںاوروہ اعظم گڑھ چلے گئے ہیں۔چنانچہ مولاناابو الکلام آزاداعظم گڑھ چلے آئے۔ یہاں پہنچے تو علامہ کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ مولانا آزاد ان کی تجہیز و تدفین میںشریک ہوئے۔ اورایک روزشبلی منزل میں ٹھہر کر دونوں ساتھ ہی لکھنؤ  کے لیے روانہ ہوئے۔12؎

مولوی عبدالباری ندوی

علامہ شبلی کے ارشد تلامذہ میں مولانا عبدالباری ندوی فلسفی (1889-1976) کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کے عزیز ترین شاگرداوران کی تربیت کاایک نمونہ تھے۔فلسفہ میں اس قدر مہارت تھی کہ بغیرکسی سندکے جامعہ عثمانیہ حیدرآبادمیںشعبہ فلسفہ کے استاداورپھرصدر شعبہ مقرر ہوئے۔ یہ ندوہ میں علامہ شبلی کے بہت قریب رہے۔اورانھوںنے بھی ان کی تعلیم و تربیت سے خصوصی دلچسپی لی۔اس کی تفصیلات انھوںنے اپنی سرگذشت میں لکھی ہیں۔

روزروزکے تماشوںسے تنگ آکر1913 میںجب علامہ شبلی ندوہ سے مستعفی ہوکر اعظم گڑھ چلے آئے، اس کے چند دنوں بعد مولانا عبدالباری ندوی اپنے استادکی خدمت میں اعظم گڑھ تشریف لائے اور ان کے ساتھ تین دن شبلی منزل میں قیام کیا۔یہی وہ زمانہ ہے جب دارالمصنّفین کے قائم کرنے کے سلسلے میں مولانا مسعود علی ندوی اعظم گڑھ آکر اور معائنہ کرکے جاچکے تھے۔مولانا سید سلیمان ندوی ابھی نہیں آئے تھے۔ مولانا عبدالباری ندوی نے اپنے قیام اعظم گڑھ کی تفصیل ان الفاظ میں قلم بند کی ہے

’’حضرت استاذ علامہ اس دوران میں ندوہ سے بالکل علاحدہ ہوکر اپنے وطن اعظم گڑھ جاکر اپنے بنگلہ اور باغ میں عزلت نشین ہوچکے تھے۔ ایک طرف اس بنگلہ اور باغ کو وقف فرما کر دارالمصنّفین کے قیام کی تجویز میں لگے ہوئے تھے، دوسری طرف ہر قسم کی تصنیف و تالیف سے قطع نظر فرماکر صرف سیرۃالنبیؐ میں مشغول تھے۔ احقر کا جی چاہا کہ ایسے عمر بھر کے محسن و محترم استاد کی خدمت میں دوچار دن کے لیے اعظم گڑھ جاکر حاضری دوں۔ اعظم گڑھ پہنچا اور کم از کم تین دن سراپا شفقت استاد ہی کا مہمان رہا اور کم و بیش حضرت کے آرام اور تصنیف کے کام کے علاوہ قریب ہی حاضر رہتا، گفتگو دو ہی چیزوں پر فرماتے، دارالمصنّفین کے قیام اور سیرۃالنبیؐ کی تکمیل۔ ان دو کے سوا تیسری بات مشکل ہی سے فرماتے۔ بس اس طرح مولانا کو اپنے خاتمہ ہی کی فکر معلوم ہوتی تھی، جس کے لیے اب شفیع المذنبین کی سیرت کی تکمیل ہورہی تھی۔ جیسا کہ خود فرماتے ہیں        ؎

عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم

خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

تین دن رات کی حاضری میں استاد ممدوح کا معاملہ استاد سے زیادہ شفیق باپ کا سا رہا۔ باتیں ایسی بے تکلفی اور محبت سے فرماتے جیسے کسی معمولی طالب علم سے نہیں بلکہ کسی بے تکلف دوست سے ہو رہی ہوں۔‘‘ 13؎

علامہ شبلی تمام ترغوروفکرکے بعد ندوہ کے لیے کشتیاں جلا کے آئے تھے۔ علی گڑھ کی پروفیسری، بیگم سلطان جہاں بھوپال (1854-1930) کی پیشکش اور نہ جانے کیا کیا عزتیں اور منصب ٹھکراکر آئے تھے۔ نواب محسن الملک (1837-1907)  نے کہا تھا ’’ابھی ندوہ کسمپرسی میں ہے کوئی مزاحم نہ ہوگا، مگر جیسے ہی استحکام آئے گا مولوی آپ پر ٹوٹ پڑیں گے۔‘‘ بقول مولانا سید سلیمان ندوی بالآخر ان کی پیش گوئی پوری ہوئی۔

 مولانا عبدالباری ندوی نے یہ تفصیلات سرگذشت میں نہیں لکھی ہیں۔ البتہ ان کی بے وقت موت کا ایک سبب ندوہ سے علاحدگی کو ضرور قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ

’’اعظم گڑھ کی آخری زیارت میں یہ بھی محسوس ہوا کہ محترم و مرحوم استاد کو ندوہ سے جدائی کا بہت قلق تھا۔ راقم الحروف کے نزدیک یوں تو اجل مسمی کا وقت آچکا تھا، لیکن ظاہری اسباب میں ایک سبب کم از کم ندوہ سے علاحدگی بھی رہی ہوگی۔ اس لیے کہ جس وقت میں حاـضرہوا ہوں مولانا فریش بالکل نہ تھے۔ اچھی طرح حسب عادت گفتگو فرماتے اور چلتے پھرتے۔ اصل یہ ہے کہ ندوہ نے ان کے ساتھ عام انسانی حیثیت سے بھی نامناسب سلوک ہی کیا تھا،حالانکہ جس ندوہ کا آج عرب و عجم میں چرچا ہے اور جس کا سب سے بڑا نشان برادر عالی مولانا علی میاں سلمہم ہیں، یہ سو فیصدی عہد شبلی ہی کی دین ہے۔ اس سے پہلے نہ تقریر و تحریر کا کوئی خاص ذوق طلبہ میں تھا اور نہ مضمون نگاری و تصنیف کا، نہ اردو عربی ادب و انشا کا، نہ تاریخ کا۔ یہ سب چیزیں بالکلیہ دور شبلی کی یادگار ہیں۔‘‘14؎

بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ جب مولانامحمدالحسنی کی کتاب’سیرت مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوہ‘ شائع کی تو مولانا عبدالباری ندوی نے اسے ناپسند کیا اور اس میں علامہ شبلی کو نظر انداز کیے جانے پر ناراضی ظاہر کی۔ وہ اس کتاب کے مصنف کو بھی عہد شبلی کے ندوہ کی دین خیال کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں

’’آہ! کیسی دولت کھوئی ندوہ نے اپنے ہاتھ سے۔ بہرحال ندوہ جو آج عرب و عجم میں شہرت رکھتا ہے خصوصاً مولانا علی میاں سلمہم اور میرے مخدوم بزرگ اور علی میاں کے برادر بزرگ ڈاکٹر عبدالعلی صاحب مرحوم کے صاحبزادے محمد میاں سلمہم جو البعث وغیرہ نکالتے ہیں اس کو یہ عاجز دیانتہً عہد شبلی کی دین جانتا ہے، کیونکہ ان سب کی بنیاد پڑی شبلی ہی کے دور میں تھی۔‘‘ 15؎

عہدسلیمان
منشی محمدامین زبیری

منشی محمدامین زبیری (1872-1958) ریاست بھوپال میںبیگم سلطان جہاں کے لٹریری اسسٹنٹ تھے۔اس عہدے پرانھوں نے 24سال کام کیااورمتعددعلمی وادبی اور سوانحی کارنامے انجام دیے۔

علامہ شبلی نے سیرت نبویؐ کی تالیف وتدوین کے لیے اس کے اخراجات کے لیے قوم کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بیگم سلطان جہاںنے سیرت نبویؐ کے مصارف کی علامہ کی تجویز قبول کرتے ہوئے اس کی تمام ترذمے داری اپنے سرلے لی اورعلامہ شبلی کوہرطرح کے تعاون کایقین دلایا۔دونوں کے درمیان رابطے کاذریعہ مولوی محمدامین زبیری تھے۔وہ ایک پختہ مشق اہل قلم، ادیب اور سوانح نگاربھی تھے۔ متعدد سوانح عمریاںان کے قلم سے نکلیں۔بیگمات بھوپال کاتذکرہ بھی انہی کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ سیرت نبویؐ کی تکمیل سے پہلے 18نومبر1914 کو علامہ شبلی نے وفات پائی اس لیے بیگم سلطان جہاں اس کے لیے بہت فکرمند ہوئیںاورمولوی محمد امین زبیری کو اعظم گڑھ بھیجا۔ بقیہ تفصیل انہی کے قلم سے ملاحظہ ہو

’’18 نومبر کو شام کو مولانا شبلی کی رحلت کے مراسلۂ برقی نے دل و جگر پر جس طرح یاس و نا امیدی کی بجلی گرائی اس کا لفظوں میں کیونکر بیان کیا جائے، بہرحال یہ ایک سانحہ عظیم تھا جو ہوا، تار پڑھنے کے بعد گھنٹوں ایک غم انگیز حالت طاری رہی، دوسرے دن علیا حضرت سرکار عالیہ دام اقبالہا کے ملاحظہ میں وہ تار پیش کیا۔ حضور ممدوحہ کو ایسے جوہر قابل کے انتقال پر نہایت درجہ تاسف ہوا اور فوراً مجھ کو حکم ملا کہ بلا توقف اعظم گڑھ روانہ ہوجاؤں اور اس امر کا اطمینان کروں کہ مسودات محفوظ ہیں یا نہیں اور آئندہ کیا انتظام ہوگا اور مولانا مرحوم نے اس کے متعلق کیا وصیت کی ہے۔ حضور ممدوحہ نے اسی وقت نہایت جوش کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ’’یہ کام ضرور مکمل ہوگا خواہ کیسی ہی کچھ مشکلات کیوں نہ پیش آئیں۔‘‘ چنانچہ میں 20 نومبر کو روانہ ہو کر21 کی صبح کو اعظم گڑھ پہونچا۔ یہ 26 گھنٹے کا راستہ کیونکر کٹا اور کیا برد انگیز خیالات دل میں پیدا ہوتے رہے نہ ان کو قلم لکھ سکتا ہے اور نہ زبان ادا کر سکتی، اعظم گڑھ سے دو اسٹیشن پہلے اتفاق سے مولوی حمید الدین صاحب اور مولوی سید سلیمان صاحب سے ملاقات ہوئی ایک نے دوسرے سے تعزیت کی اور دونوں نے مل کر آنسو بہائے۔ معلوم ہوا کہ مولانا نے زندگی سے مایوس ہوتے ہی تمام مسودات کو سر بہ مہر کرا دیا تھا اور وصیت کی تھی کہ ’’ان ہی دونوں کے سپرد یہ خزانہ بے بہا کیا جائے۔ ‘‘

انتقال سے چار پانچ دن پہلے یہ دونوں صاحب اعظم گڑھ آگئے تھے اور بستر مرگ پر مولانا کی آخری التجا ان دونوں سے یہی تھی      ؎

’’سب کام چھوڑ دو، سیرۃ، سیرۃ، سیرۃ‘‘

ان دونوں نے اقرار کیا اور مولانا کی روح نے ایک حسرت و امید کے ساتھ فضائے دارفانی میں پرواز کی۔

میں دو دن اعظم گڑھ رہا اور تمام امور کی طرف سے مطمئن ہو کر واپس آیا۔ پہلی جلد بالکل مکمل ہے جو اس رسالہ کے شائع ہونے سے قبل پریس میں جا چکی ہے۔ باقی چار جلدوں میں سے دو قریب بہ تکمیل ہیں اور دو کے متعلق بہت کچھ کام کرنا باقی ہے۔ ان پانچ جلدوں کی تقسیم جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے اس طرح کی گئی ہے کہ پہلی جلد میں آ ن حضرت صلعم کے سادہ حالات زندگی ہیں، دوسرے میں آن حضرت صلعم کے تبلیغی حالات کا تذکرہ ہے اور اس امر کو دکھایا گیا ہے کہ بہ حیثیت ایک پیغمبر کے آپ کی کیا شان تھی، تیسری جلد کلام مجید کے متعلق ہے اور چوتھی جلد میں ان اعتراضات کے جوابات ہیں جو یورپ میں آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہوئے ہیں۔ پانچویں جلد میں مستند اور صحیح معجزات کا بیان ہے۔

اب یہ کام جو کچھ کہ باقی ہے مولانا کے بھائی مولوی حمید الدین صاحب بی اے ( جو اس وقت دارالعلوم حیدرآباد کے پرنسپل اور ایک فاضل اور عالم گریجویٹ ہیں) اور مولوی سید سلیمان صاحب (جن سے علمی دنیا پوری طرح روشناس ہے) کے ہاتھوں میں ہے اور ان ہی دونوں پر مولانا کا بھروسہ اور ان ہی دونوں کے ساتھ امید وابستہ تھی۔

مولوی حمید الدین صاحب ایک خاموش زندگی برس کرنے والے بزرگ ہیں۔ انھوں نے مولانا عبد الحی صاحب فرنگی محلی مرحوم اور علمائے قدیم سے کتابیں ختم کرکے بی اے کی ڈگری حاصل کی، وہ حافظ ہیں اور نو برس سے قرآن مجید ہی کی خدمت کر رہے ہیں، قرآن مجید کے اشکالات کے متعلق ان کے چھے رسالے عربی زبان میں شائع ہو چکے ہیں، جس پر علمائے مصر نے حیرت ظاہر کی اور آج کل وہ حیدرآباد کی اس مشرقی یونیورسٹی کا جو عنقریب وہاں قائم ہونے والی ہے نظام مرتب کر رہے ہیں اور دارالعلوم کے پرنسپل کے عہدہ پر ممتاز ہیں، پانچ سو ماہوار تنخواہ ہے اور ایک ہزار تک ترقی، مولوی سید سلیمان مولانا کے شاگرد اور کیسے شاگرد جن پر مولانا نے اپنے چالیس سال کی علمی کمائی صرف کی ہے اور 15؍ سال کی عمر سے اس وقت تک ان کی تعلیم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا، قابل شاگرد میں بھی فاضل استاد کا پورا رنگ قدرت نے بھر دیا ہے اور امید ہے کہ تھوڑے دنوں میں اگر شبلی کا نعم البدل نہیں تو اس کا جانشین ہم کو ضرور مل جائے گا۔ وہ اس وقت پونہ کالج میں فارسی کے پروفیسر ہیں جہاں معقول تنخواہ ملتی ہے۔ اور معقول ترقی کی امید ہے۔

یہ دونوں قابل احترام اصحاب اس بات پر قطعی آمادہ ہیں کہ سب کام چھوڑ کر تکمیل سیرۃ کریں گے۔ گذشتہ ہفتہ میں مولوی حمید الدین صاحب حیدرآباد جاتے ہوئے دو دن کے لیے ایڈیٹر ظل السلطان کے مہمان ہوئے اور مولانا سید سلیمان صاحب بھی دوسرے دن لکھنؤ سے جہاں وہ نامی پریس میں سیرت کے چھپنے کا انتظام کرنے گئے تھے بھوپال تشریف لائے اور یہ دونوں صاحب دوسرے دن حضور سرکار عالیہ کی بارگاہ میں سلام سے مشرف ہوئے، بہت دیر تک مولانا کے انتقال کا افسوس اور تکمیل سیرۃ کے انتظام کے متعلق تذکرہ ہوا حضور ممدوحہ نے نہایت حوصلہ افزائی فرمائی اور ارشاد کیا کہ ’’صرف اسی کام کی تکمیل آپ دونوں کے ذمہ نہیں ہے بلکہ ابھی قوم اور اسلام کے لیے آپ دونوں کو بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ اسی گفتگو کے دوران میں حضور ممدوحہ نے فرمایا کہ ’’میں ہر قسم کی امداد دینے کے لیے تیار ہوں، آپ کام کیجیے اور کام کرنے والے آدمی مہیا کیجیے میری تو دلی تمنا ہے کہ میری قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوں کہ جو علم و مذہب کی خدمت کریں۔‘‘ غرض یہ دونوں صاحب یہاں سے ایک اور اثر لیے گئے اور 5؍ دسمبر کو حضور ممدوحہ نے بدستور امداد جاری رہنے کا فرمان صادر فرمایا۔

اس وقت تک جو حالات ہیں ان کے لحاظ سے امید ہے کہ باقی جلدوں کی بھی بہت جلد تکمیل ہوجائے گی اور پہلی جلد جو مکمل ہو چکی ہے اس کے لیے اب ملک کی نگاہیں منشی رحمت اللہ صاحب رعد کے مشہور نامی پریس کے دروازہ پر لگی رہیں گی۔ 16؎

مولانا شوکت علی

اعظم گڑھ میںجدوجہدآزادی کاسب سے بڑاجلسہ 26-27نومبر1921 کو پنڈت موتی لعل نہروکی صدارت میںمنعقدہوا،جس میںشرکت کے لیے بی اماں اور ان کے دونوں صاحبزادگان (علی برادران) تشریف لائے اوربڑاشاندارجلسہ ہوا۔مقامی بااثرلوگوںمیں مولانا سیدسلیمان ندوی، مولانا مسعودعلی ندوی، ٹھاکرسورج ناتھ سنگھ اورسیتارام استھاناوغیرہ شریک رہے۔17؎

علی برادران نے حسب معمول اپنی تقریروںسے جلسے میںجوش بھردیااوربی اماں کی موجودگی نے مردتومردخواتین میںبھی جذبہ حریت پیداکردیا۔

مولانامحمدعلی جوہر

علامہ شبلی کے علی گڑھ کے تلامذہ تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کالج میں ان سے کلاس میںعربی و فارسی پڑھتے تھے۔ دوسرے وہ جنہوں نے ان کے درس قرآن میں شرکت کی۔ تیسرے وہ جو خارجی اوقات میں علامہ شبلی سے پڑھتے اور امتحانات کی تیاری کرتے تھے۔ ان تینوں طرح کے تلامذہ کی خاصی تعداد ہے۔ مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر(1878-1931)  ان کے درس قرآن کے شاگرد تھے۔

مولانا محمد علی جوہر جیسے عبقری مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عہد میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبرو اور اسلام کا وقار تھے، ان کا دل مدت العمر اسلام اور عالم اسلام کے لیے دھڑکتا رہا۔ تحریک خلافت ان کے دم سے قائم رہی۔ تحریک آزادی کے وہ صف اول کے رہنماؤں میں تھے۔

18نومبر1914 کوعلامہ شبلی نے اعظم گڑھ میںوفات پائی۔اس وقت مولانامحمدعلی جوہرکو انگریزی حکومت نے گرفتارکرکے لاہور میں قید کیا ہوا تھا۔ استادکی وفات پروہ کس قدر رنجیدہ تھے اور مزار شبلی پرحاضری کے لیے کس درجہ بے قرارتھے،اس کا اندازہ ان کی ایک تحریرسے ہوتاہے جوانھوںنے مولاناسیدسلیمان ندوی کے نام خط میںلکھی ہے کہ ’’جب چھوٹوںگا تو ضرور روضہ استادکے پھولوںکی خوشبو سے دماغ وروح کو معطر کروںگا۔ ‘ ‘ 18؎

لاہورجیل سے رہائی کے بعدوہ دارالمصنّفین آئے۔اس کی تفصیل مولاناسیدسلیمان ندوی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔وہ لکھتے ہیں

’’یکم مارچ 1921 کوسالہاسال کے وعدوںکے بعد محترم محمدعلی نے شبلی منزل کو رونق بخشی۔جب وہ نظربندتھے اسی وقت سے یہ وعدہ کرچکے تھے کہ جب وہ نظر بندی سے آزاد ہوںگے تو سب سے پہلے دارالمصنّفین آئیں گے اور چھ مہینے اس گم نام مقام کے کسی گوشہ عافیت میں بیٹھ کر عربی کی تکمیل اور سیرۃنبوی ؐ کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے لیکن آزادی کے ساتھ جو اطمینان شکن اورامن کش واقعات پیش آئے، وہ سب کے سامنے ہیں۔

بہرحال یہ پراناوعدہ کسی نہ کسی صورت میں یکم مارچ (1921) کو پورا ہوا۔ ہزارہا آدمی استقبال کے لیے شاہ گنج (32 میل)سے اعظم گڑھ تک اورشہر اعظم گڑھ کے ناکہ سے شبلی منزل (2میل) تک موجود تھے۔’’ شبلی منزل ‘‘پہنچ کر سب سے پہلے وہ استاد مرحوم (مولانا شبلی )کی قبر پر گئے اور پھولوںکے وہ تمام ہار جو قدردانوں نے ان کے گلے میںڈالے تھے۔ قبر کے ایک گوشے میں ڈال دیے۔اس کے بعد انھوں نے دارالمصنّفین کی خانقاہ میں ایک دن ٹھہرکر یہاں کے مختلف شعبوں کو دیکھااوردوسرے دن شام کو علی گڑھ واپس گئے۔‘‘19؎

پنڈت مدن موہن مالویہ

پنڈت مدن موہن مالویہ(1861-1946)بھی شبلی منزل تشریف لائے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھاہے کہ

’’گذشتہ ماہ جون(1922)میںہندویونیورسٹی بنارس کے مشہور بانی اور ہندی زبان کوہندوستان کی عام زبان بنانے کے پرزور محرک جناب پنڈت مدن موہن مالویہ صاحب نے دارالمصنّفین کو اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔ وہ دیرتک دارالمصنّفین کے کتب خانہ کو،دفترکو، پریس کو، رفقاکے کمروں کو دیکھتے رہے، اور زبان کے مسئلہ پربعض ارکان دارالمصنّفین سے گفتگو فرماتے رہے۔ہم کواس سے خوشی ہوئی کہ موصوف نے اس ادارہ کورشک کی نظروںسے دیکھا اورپھربھی پسند کیا۔ ‘‘20؎

پنڈت موتی لعل نہرو

پنڈت موتی لعل نہرو(1861-1931) ہمارے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہرو کے والد کو ’شبلی منزل‘سے بے انتہاتعلق تھا۔ وہ جب اعظم گڑھ کے دورے پر تشریف لاتے تو بقول سیدصباح الدین عبدالرحمن

’’دارالمصنّفین ان کابے تکلف مہمان خانہ ہوتا۔اس زمانہ میں یہاں کا مہمان خانہ ایک کچا بنگلہ تھا،لیکن وہی خام بنگلہ پنڈت جی موصوف کواتنا پسند تھاکہ فرماتے ’’مجھ کو اس کچی عمارت میں جوسکون حاصل ہوتا ہے وہ کہیں اور حاصل نہیںہوتا۔‘‘

وہ دارالمصنّفین والوںکے ساتھ ہی کھاناتناول کرتے، ان کو مرغ مسلم بہت پسند تھا، اس لیے جب وہ تشریف لاتے تو دستر خوان پر بیٹھتے تو مرغ مسلم کی پوری پلیٹ اپنی طرف کھینچ لیتے اور فرماتے ’’میں بلاشرکت غیرے اس کامالک ہوں۔‘‘اورپھرپوری پلیٹ ان کے کام و دہن کے لیے وقف ہوجاتی۔ایک بار مہمان خانہ کے برآمدے میں تشریف فرما تھے توایک صاحب آئے جن کے ساتھ ایک آدمی بھی تھا جو سرپر ایک کوری ہانڈی لیے ہوئے تھا، وہ کیلے کے پتے سے ڈھکی ہوئی تھی،پنڈت جی کو خیال ہواکہ یہ ان کے لیے کوئی تحفہ ہے،اس لیے بہت ہی بے تکلفانہ انداز میں بولے ’’لائو کیا لائے ہو،کھولو۔‘‘ جب ہانڈی کھولی گئی تو انھوں نے دیکھا کہ اس میں سجائو دہی ہے۔یہ دیکھ کر ہنسے اورفرمایاکہ میرے کھانے کی چیز نہیں ہے۔یہاں مالوی جی بھی آئے ہوئے ہیں،وہ جہاں ٹھہرے ہوئے ہیں وہاںلے جاکر یہ ان کو دو۔ پنڈت جی کے ساتھ مالوی جی بھی اعظم گڑھ آئے ہوئے تھے، ان کو بھی دارالمصنّفین (شبلی منزل)  میں ٹھہرنے کی دعوت دی گئی تھی، لیکن پنڈت موتی لعل نہرونے کہاکہ جس سرزمین کے چپہ چپہ پر لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی آواز بلند کی گئی ہو وہاںمالوی جی ٹھہرنا پسندنہ کریں گے، پنڈت موتی لعل سے مالوی جی کی بڑی بے تکلفی تھی،یہ سن کر انھوںنے پنڈت موتی لعل نہروسے ہنس کرکہا ’’کیا بیہودہ باتیں کرتے ہو۔‘‘ 21؎

آپ ان واقعات سے اندازہ کرسکتے ہیںکہ پنڈت موتی لعل نہروکو دارالمصنّفین سے کس درجہ گہراتعلق تھا۔

مولوی عبدالرزاق کان پوری

البرامکہ‘ کے مصنف مولوی عبدالرزاق کان پوری (1862-1948) علامہ شبلی کے احباب میں تھے۔ ’البرامکہ‘کی تصنیف میںعلامہ نے ان کی بڑی مددکی تھی۔اس کا انتساب بھی علامہ ہی کے نام ہے اور بڑے دلچسپ اندازمیںہے

’’بکمال ادب و عقیدت بنابر اظہار شکریہ تصنیف سلسلہ ہیروز آف اسلام یہ کتاب عالی جناب معلی القاب شمس العلمامولانامولوی شبلی نعمانی پروفیسر مدرسۃ العلوم مسلمانان علی گڈھ و فیلو یونیورسٹی الٰہ آباد مدظلہم کے نام نامی واسم گرامی سے منسوب کی جاتی ہے۔

مسند علم از وجودت منبع آداب باد

آستانت قبلہ جان اولی الالباب باد22؎

وہ بھی اعظم گڑھ آئے اورایک بارنہیںدوبار آئے۔مولدشبلی موضع بندول دیکھنے گئے۔ اس سفرکاذکر انھوںنے صراحت سے نہیںکیاہے۔البتہ موضع بندول سے متعلق علامہ شبلی کی شاعرانہ تعلی    ؎

فضل بندول گرتو نہ شناسی

آدمی نیستی تو نسناسی

پرتبصرہ کرتے ہوئے انھوںنے لکھاہے کہ

’’حب وطن کے جوش میں انھوںنے کہاہے کہ ’’جو بندول کی عظمت سے انکار کرے وہ انسان نہیں بلکہ نسناس (بن مانس) ہے اور بندول بہشت کا ایک مرغزار ہے،‘‘ ممکن ہے کہ کسی عہد میں بندول کا یہی درجہ ہو، میں نے اس موقع کی دو دفعہ سیر کی ہے، میری نظرمیں وہ ایک معمولی گاؤ ں ہے۔‘‘ 23؎

        کیامولوی عبدالرزاق اس بات سے ناواقف رہے ہوںگے کہ یہ شاعرانہ تعلی ہے۔؟

مولوی صاحب کے ان دونوںاسفارکی مزید تفصیل دستیاب نہیںہوئی کہ یہ سفر انھوں نے کس سنہ میںکیے۔کہاںٹھہرے اورکن لوگوںسے ملاقاتیںرہیں۔علامہ شبلی نعمانی سے انتہائی گہرے مراسم کی وجہ سے قیاس ہوتاہے کہ وہ عہدشبلی میںاعظم گڑھ آئے ہوںگے۔

 مولاناحیدرحسن خاں

مولاناحیدرحسن خاں استاد ندوۃ العلما لکھنؤ، مولاناحبیب الرحمن خاںشروانی کے ساتھ دارالمصنّفین کی موتی مسجدکے سنگ بنیادکی تقریب میںشرکت کے لیے تشریف لائے اوراس تقریب میں اول سے آخرتک شریک رہے اوربنیادمیںمزدوروںکی طرح کام کیا۔اس کے علاوہ کوئی تفصیل نہیںملی۔

ملک الشعراسرورخاں گویا

افغانستان کے ملک الشعراسرورخاںگویا(1863-1928)  بڑے قابل شخص تھے۔ 1939میں وہ شبلی منزل تشریف لائے اورچندروزقیام کیا۔مولاناسیدسلیمان ندوی نے لکھاہے کہ

’’اس مہینہ ہمارے کابل کے دوست سرورخاںگویا نے اپنی ملاقات کی مسرت بخشی۔یہ کابل کے مشہورسردارعبدالقدوس خاں کے نواسہ ہیں اور خود بھی ممتاز ادیب اورشاعر ہیں۔ عربی وانگریزی سے واقف اور فارسی ادبیات کے ماہرہیں۔ انجمن ادبی کابل کے ممبراوروہاںکی نوجوان ادبی تحریکات کے روح رواں ہیں۔دو برس ہوئے کہ فردوسی کی ہزارسالہ برسی کے موقع پرافغانستان کے نمائندہ ہوکر یہ اور ہزاکسلنسی صلاح الدین سلجوقی سفیردہلی ایران گئے تھے اورشاہ پہلوی سے ملے تھے۔آج کل یہ مکمل تاریخ آل سبکتگین بیہقی کی تصحیح اور اس کے نسخوںکی تلاش میں ہیں۔ اس کا ایک حصہ مدت ہوئی کہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کی طرف سے شائع ہوچکاہے، مگر پوری کتاب اب تک نہیںچھپی ہے بلکہ ملتی بھی نہیں۔ سرور خاںنے اس کا معتد بہ حصہ پیدا کرلیاہے،مگر ابھی تک اس کے مکمل نسخہ کی تلاش جاری ہے۔

وہ پشاوراورلاہورہوکردہلی آئے۔دہلی سے علی گڑھ گئے اور مسلم یونیورسٹی کے کتب خانہ کی سیرکی۔یہاںسے حبیب گنج جاکر مولانا حبیب الرحمن خاںشروانی کے خزانہ کتب کوپرتالا۔وہاںسے رامپور جاکر ریاست کے سرکاری کتب خانہ کو دیکھا۔ پھر لکھنؤ پہنچ کر مولوی سید ہاشم صاحب ندوی معتمد دائرۃالمعارف حیدرآبادکے ساتھ دودن ندوہ میںقیام کیااوروہاںکے کتب خانہ کو دیکھا بھالا۔ اس کے بعدوہ دارالمصنّفین اعظم گڑھ آئے۔ یہاں تین روز ٹھہرے اور یہاں کا کتب خانہ دیکھا۔‘‘24؎

اسی سفرمیں دارالمصنّفین کے مہمان خانہ میںایک ادبی تقریب منعقدہوئی،جس میں مہمان شعرا کے ساتھ مقامی شعرانے بھی شرکت کی۔اس میںعلامہ اقبال سہیل اور ادیب شہیر مولاناعبدالسلام ندوی نے بھی اپناکلام سنایا۔اسی موقع پر اقبال احمدخاںسہیل کا کلام سن کر سرور خاںگویانے ازراہ مذاق کہا تھا کہ جب کبھی افغانستان ہندوستان پرحملہ کرے گا میں مال غنیمت میں آپ کو لوٹ کرلے جائوںگا۔ 25؎

مولاناموسیٰ جا راللہ

شبلی منزل میںباہریعنی بیرونی ممالک سے جو علما تشریف لائے ان میںایک انتہائی اہم نام روسی عالم مولانا جاراللہ (1873-1949) کا بھی شامل ہے۔انھوں نے 1939 میں دارالمصنّفین شبلی منزل کورونق بخشی تھی۔اورہفتہ عشرہ قیام کیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں

’’کچھ دن ہوئے کہ روس کے مشہورمصلح عالم موسیٰ جاراللہ یہاں تشریف لائے تھے۔میںنہ تھا۔میری ان کی ملاقات1926میں مکہ معظمہ میں ہوئی تھی۔اس کے بعدوہ کئی دفعہ ہندوستان آچکے، مگر ملنے کی نوبت نہیں آئی،اس کاسبب بھی وہی اعظم گڑھ کاسیدھی ریلوے لائن سے دورہونا ہے مگر بہر حال انھوںنے خودزحمت اٹھائی اور دارالمصنّفین میںتشریف فرما ہوئے۔ ہمارے رفقا نے ان کی پذیرائی کی اوران کی ملاقات اور ان کی چندروزہ صحبت سے فیض اٹھایا۔‘‘26؎

مولانامفتی کفایت اللہ

مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی(1875-1952) اوران کی مشہورزمانہ کتاب’تعلیم الاسلام‘ سے کون ہے جوواقف نہ ہوگا۔بلاشبہ بڑے عالم وفقیہ اوردہلی مدرسہ امینیہ کے استاد تھے۔ علامہ شبلی کے بارے میں شاید ان کابھی دل صاف نہ تھا۔’’ مولاناشبلی کافتوی خود اپنے الحادپر‘‘ اس رسالے کے مرتب مفتی صاحب ہی ہیں،لیکن بعد میںان کے نقطہ نظر میں اتنی تبدیلی آئی کہ علامہ شبلی کے کفرکے سلسلے میں دریافت کیاجاتاتوخاموش رہتے۔

جانشین شبلی مولاناسیدسلیمان ندوی کے معاصر اوران کے بڑے قریبی دوستوں میں تھے۔ ایک بار شبلی منزل میں یہ بھی آکرٹھہرے۔بقول مولاناسیدسلیمان ندوی

’’دوسراموقع یہ آیاکہ مفتی صاحب کے صاحبزادوںکی بات میں نے اعظم گڑھ میں ایک خاندان(حکیم محمداسحاق) میں چھیڑی اورمفتی صاحب مع حافظ احمد سعید صاحب اعظم گڑھ میںدارالمصنّفین آکرمیرے مہمان ہوئے اور چندروز قیام فرمایا۔وہ بات پکی نہیں ہوئی، لیکن اس اثنامیں ہماری دوستی پکی ہوگئی، آخری ہمرہی وہم سفری 1941 میں دہلی سے بھوپال تک ہوئی جہاںہم دونوںریاست کی دعوت پراس کے نکاح وطلاق کے ضابطوں پر نظرثانی کرنے کو بلائے گئے تھے اورساتھ ہی سرکاری مہمان خانہ کے ایک ہی کمرہ میںٹھہرے تھے۔‘‘27؎

ڈاکٹرسرضیاء الدین

ڈاکٹرسرضیاء الدین(1878-1947)  ایم اے اوکالج علی گڑھ کے طالب علم، استاد اوروائس چانسلر متعدد عہدوں پر فائزاور نیک نام رہے۔یہ ان طلبہ میں تھے جنھوں نے علامہ شبلی کے عہد میں ایم اے اوکالج سے فیضیاب ہوئے تھے۔یہی سبب ہے کہ دونوںمیں گہرے مراسم تھے۔لندن کے زمانہ طالب علمی میں انھوں نے علامہ شبلی سے خط و کتابت کی تھی۔مکتوبات شبلی میں ان کا ایک خط شامل ہے۔

فروری1930 میں وہ شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ کی ایک تقریب میںشرکت کے لیے تشریف لائے توان کاقیام شبلی منزل کے مہمان خانے میںرہا۔دارالمصنّفین کے کتب خانے کو انھوں نے بالاستیعاب دیکھا۔ بالخصوص علم ہیئت سے متعلق کتابیںدیکھیں۔ان میںایک کتاب ابن یونس حاکمی کی زیچ بھی تھی۔

پروفیسرشیخ عبدالقادرسرفراز

پروفیسرشیخ عبدالقادرسرفراز(1879-1952) استادالفنسٹن کالج پونہ بڑے صاحب فضل وکمال شخص تھے۔ علامہ شبلی کے خاص احباب میںتھے۔مشرقی علوم کے ساتھ جدید مغربی علوم سے بھی واقف تھے۔ مدت العمردرس وتدریس اور تحقیق وتدقیق میں بسر کی۔عربی و فارسی کے ساتھ سنسکرت اور مرہٹی سے توواقف ہی تھے عبرانی بھی جانتے تھے۔الفنسٹن کالج پونہ میں پروفیسر رہے۔ان کے متعددعلمی وتحقیقی کارنامے قابل ذکر ہیں۔یہی سبب ہے کہ دارالمصنّفین نے انھیں اپنی مجلس انتظامیہ کارکن نامزد کیا تھا۔ چونکہ دارالمصنّفین سے جو کتاب اس کے متعلقین پرشائع ہوئی ہے اس میںان کانام شامل نہیں ہے، اس لیے یہاںان کا ذکرضروری خیال کیاگیا۔

بہرکیف وہ رکن ہونے کے باوجودصرف ایک بارپونہ سے دارالمصنّفین شبلی منزل تشریف لائے اور ایک روزقیام کیا۔اوراس کی ایک ایک چیزکوغورسے دیکھا۔

 سر سیتا رام

سرسیتارام(1880-1959)  نامور مجاہدآزادی اورسوشلسٹ پارٹی کے لیڈر تھے۔ ان کی شبلی منزل آمدکے بارے میںسیدصباح الدین عبدالرحمن مرحوم نے لکھاہے کہ

’’ایک بار سرسیتارام بھی دارالمصنّفین میںآکرمقیم ہوئے۔وہ مولوی (عبدالسلام ندوی) صاحب کوان کی شعرالہندکی وجہ سے اچھی طرح جانتے تھے۔ان سے ملنے کااشتیاق ظاہرکیا۔مولوی صاحب بلائے گئے تو ان کو دیکھتے ہی سرسیتارام کرسی سے اٹھ کر ان سے ملنے کو بڑھے تو مولوی صاحب کے غایت احترام کے اظہار میں ان کا پائوں کرسی سے الجھ گیااور وہ مشکل سے گرتے گرتے بچے اور جب وہ شعرالہند کی تعریف کرنے لگے تومولوی صاحب ان کی عظمت کے بارسے دبے جارہے تھے اور یہ عظمت مولوی صاحب کی نظر میں اس لیے تھی کہ انگریزوںنے ان کو سرکاخطاب دیا تھا۔ ‘‘28؎

مرزاجعفر علی خاںاثر لکھنوی

مرزاجعفرعلی خاں اثرلکھنوی(1885-1967) اردوکے نامورشاعروادیب تھے، کیننگ کالج لکھنؤ  میں تعلیم پائی اورضلع بلیاکے ڈپٹی کلکٹرکے عہدے پرفائزہوئے۔ کلکٹری کے ساتھ شعر وادب سے ہمیشہ گہراشغف رکھا۔ان کے کئی شعری مجموعے اور کتابیں(مطالعہ غالب،تاثرات اثر، فرہنگ اثر، بہاراں، اثرستان، نغمہ جاوید،چھان بین)شائع ہوئیں۔وہ بھی مسافرین شبلی منزل میں شامل ہیں اور کئی  بارتشریف لائے۔سیدصباح الدین صاحب لکھتے ہیں

’’جناب جعفرعلی خاںاثرجب بلیامیںکلکٹرتھے توایک روز دارالمصنّفین میں تشریف لائے اورمولوی (عبدالسلام ندوی) صاحب سے بڑی گرم جوشی سے ملے اور ان کے شعرالہندکی تعریف کرتے رہے، لیکن مولوی صاحب کچھ ڈرے سہمے اپنی مونچھوںپر انگلیاںرکھے ہوئے صرف ہوں ہاں کرتے رہے اوربعد میں انھوں نے کہاکہ میںان سے باتیں کرنے میں ڈرتاتھاکہ کہیں وہ کسی بات پر کلکٹرکی حیثیت سے مجھ کو قانون کی گرفت میںنہ لے لیں۔‘‘29؎

مولانااحمدسعید دہلوی

مولانااحمدسعیددہلوی (1888-1959) سابق صدرجمعیۃعلمائے ہندنے جامع مسجد مبارک پورمیںایک تقریرکی توان پرانگریزی حکومت نے مقدمہ قائم کرادیا۔چنانچہ یہ مقدمہ ان پر اعظم گڑھ کی عدالت میںچلااورانھیںسزاہوئی۔اوریہ سزاانھیںاعظم گڑھ جیل میںکاٹنی پڑی۔ اس سلسلے میں انھیں پہلے مقدمہ پھر سزاکے لیے اعظم گڑھ رہناپڑاتھا۔مقدمہ کے زمانے میں1940 میں ان کا متعدد بار قیام شبلی منزل میںرہا۔ اسی زمانے میںمولاناسیدسلیمان ندوی سے ان کے گہرے روابط قائم ہوئے۔ 30؎

امجدحیدرآبادی

امجدحیدرآبادی  (1888-1961) کوحکیم الشعراکہاجاتاہے۔یہ لقب انھیں مولانا سید سلیمان ندوی نے دیاتھا۔ وہ اپنے رنگ کے یگانہ تھے۔ علامہ شبلی کے احباب میں تھے۔ ان کا کلام معارف میں شائع ہوتا تھا۔ مجموعہ کلام عرصہ ہواشائع ہوچکاہے۔ دارالمصنّفین سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے۔ ایک بار وہ دارالمصنّفین بھی آئے۔ اور بقول مولاناشاہ معین الدین احمد ندوی’’ان کی سادہ مگرپرتاثیر شخصیت اب تک نگاہ میں ہے۔‘‘ 31؎

مہاتماگاندھی

شبلی منزل مجاہدین آزادی کاایک اہم مرکزتھا۔جدوجہدآزادی کے زمانے میں شاید ہی کوئی ایسا مردمجاہدآزادی ہوجویہاںنہ آیاہو۔ مہاتماگاندھی (1889-1948) بھی یہاںتشریف لائے۔ دارالمصنّفین کے سابق ناظم سیدصباح الدین عبدالرحمن نے لکھاہے کہ

’’مختلف اوقات میں یہاںہندواورمسلمان لیڈربرابر آتے رہتے۔ گاندھی جی جب اپنے دورہ میںاعظم گڑھ آئے توان کے قیام کا انتظام تو اورجگہ تھا،مگروہ خودشبلی منزل آئے اورایسے وقت آئے کہ اہل دارالمصنّفین ایک کھلی جگہ پر مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے۔یہ دیکھ کر گاندھی جی نہایت ادب اورخاموشی سے کنارے بیٹھ گئے اور ساتھ آنے والوںکو باادب اور خاموش رہنے کااشارہ کیا۔ انھوں نے دارالمصنّفین کے کتب خانہ کو لالٹین کی روشنی میںدیکھا اورجب دارالمصنّفین کے ایک رفیق نے ان کے سامنے دستخط کے لیے اپنی یادداشت کی کتاب پیش کی تو انھوںنے اپنا دستخط اردو میں کیا۔ ‘ ‘ 32؎

پنڈت جواہرلعل نہرو

ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہرو(1889-1964) کاشبلی منزل اور وابستگان ’شبلی منزل‘ سے بڑاگہراتعلق تھا۔ جدوجہدآزادی کے سلسلے میں انھوں نے بارہا اعظم گڑھ کادورہ کیا اور ہمیشہ ان کاقیام شبلی منزل ہی میںرہا۔وزیراعظم بننے کے بعد وہ اعظم گڑھ نہیں آئے اورآزادی سے پہلے ایک بارکے سواکسی اورمقام پرٹھہرنے کاذکرنہیںملتاہے۔

چونکہ وہ ہربارشبلی منزل ہی میںٹھہرے۔اورکئی کئی روزٹھہرے۔نہ صرف قیام کیا بلکہ شبلی منزل کے رفقا و وابستگان کے ساتھ باتیںکیں،گھومے ٹہلے،کھاناکھایا۔اس لیے شبلی منزل سے متعلق ان کے متعدد واقعات مشہورہیں۔سیدصباح الدین عبدالرحمن نے لکھاہے کہ

’’پنڈت موتی لعل نہرونے دارلمصنّفین سے جوربط اورلگائوپیداکیا اس کو ان کے فرزندارجمندپنڈت جواہرلعل نہرونے اوربھی زیادہ استوار اور مستحکم کردیا۔وہ جب کبھی اعظم گڑھ آتے تودارالمصنّفین ہی میںقیام کرتے،جن لوگوںنے ان کو یہاں ٹھہرتے ہوئے دیکھاہے وہ اس کے متعلق بڑی لذیذ حکایتیںبیان کرتے ہیں۔ آزاد ہندوستان کا ہونے والا یہ پہلاوزیراعظم یہاںآتاتوبڑی سادگی سے رہتا۔ وہ اپنی دھوتی خود اپنے ہاتھوںسے دھوتے۔یہاںکے لوگوں سے بچوںکی طرح بڑے اخلاص اورمحبت سے ملتے، لوگ تعجب کرتے کہ انگریزوں کی جابرانہ حکومت کے علی الرغم یہ دارالمصنّفین والے ایک باغی لیڈر کو اپنے یہاں کیسے ٹھہراتے ہیں۔ وہ جب دارالمصنّفین میں ہوتے توسی، آئی، ڈی والے اس کی چہار دیواری کے چاروںطرف متعین ہوجاتے، مگر یہاں کے لوگوں کو پنڈت جواہرلعل نہروسے ایسی والہانہ محبت تھی کہ اس زمانے میں انھوںنے ان کے ساتھ بیٹھ کرتصویر بھی کھنچوائی،جواب تک محفوظ ہے، اس میں پنڈت جی ایک بہت ہی خوش رو،خوش اندام اور رعنا جوان نظرآتے ہیں۔‘‘ 33؎

جگرمرادآبادی

جگرمرادآبادی(1890-1960) کا ’شبلی منزل‘ اوراعظم گڑھ سے بڑاگہراتعلق تھا۔ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی نے اس کی تفصیل اس طرح لکھی ہے

’’اعظم گڑھ اوردارالمصنّفین سے ان کاتعلق بہت قدیم تھا۔ان کا تعارف یہیں سے ہوااوران کی شہرت نے یہیںسے پر پرواز نکالے۔ آج سے پینتیس چالیس سال پہلے جب وہ چشمہ کے تاجرکی حیثیت سے اعظم گڑھ آتے تھے،اس وقت مرزااحسان احمدصاحب نے 1919 میں مخزن(لاہور) میں پہلی مرتبہ ان کاتعارف کرایا، پھر 1921 میں ان کا پہلا دیوان ’داغ جگر‘ اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔یہ مجموعہ معارف پریس میںچھپا تھا۔ اسی زمانے میںان کی غزلیں معارف میںشائع ہونے لگیں۔ان کے دوسرے دیوان شعلہ طورپر حضرت سید صاحب نے تعارف لکھااور معارف میں اس پر مفصل تبصرہ لکھاگیا۔جگرنے ان تعلقات کاپورا خیال رکھا۔اپنی شہرت کے شباب کے زمانے میںجب اعظم گڑھ آتے تو مرزا احسان احمد صاحب ہی کے یہاںٹھہرتے اور دارالمصنّفین ضرورآتے اور اکثر بغیر فرمائش کے بھی اپنا کلام سناتے اور کہتے یہاںسنانے میںجی لگتا ہے۔‘‘ 34؎

جگرکے قیام اعظم گڑھ اوریہاںکے ادباوشعراسے رسم وراہ اوربے تکلفی کے بہت سے واقعات مشہورہیںمگروہ قابل ذکرنہیں۔

مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی

مجلس احرارکے قائد،نامورمجاہدآزادی اورمشہورعالم دین مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی (1892-1956)بقول مولانا شاہ معین الدین احمدندوی ’’دارالمصنّفین کے لوگوںسے بڑا اخلاص رکھتے تھے۔  جب مشرقی اضلاع کی جانب آناہوتا تودارالمصنّفین ضرورآتے۔‘‘35؎

مولانامرحوم کس درجہ بلندرتبہ شخص تھے اس کااندازہ وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہروکی اس تحریرسے لگایاجاسکتاہے۔وہ لکھتے ہیں

’’مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی سے میںبہت برسوںسے واقف ہوں۔ جدو جہد آزادی کے دوران ہم ایک دوسرے کے بہت قریب رہے اوراس کے بعد وقتاً فوقتاً ہماری ملاقاتیںہوتی رہیں۔مولانا موصوف جس عقیدے میںیقین رکھتے تھے اورجس جرأت اور آہنی استقامت کے ساتھ وہ اس پرقائم رہے اس کے سبب میںہمیشہ ان کا مداح رہا اور ان کااحترام کرتا رہا۔آزادی سے قبل اوراس کے بعد بھی انھوں نے بہت سی تکالیف اٹھائیں حتیٰ کہ آزادی کے فوراً بعد ہی پاکستان اور شمالی ہندمیں جوالمیہ رونما ہوا اور جس کی لپیٹ میں وہ شدید طورپر آئے۔ مگراس سے ان میں تلخی نہیں آئی اور انھوںنے ہمت نہیں ہاری۔وہ اپنے شہرلدھیانہ میں ہندومسلمان اورسکھ سب کے ہی محترم رہے۔ ‘‘36؎

مولانالدھیانوی کے وہ کارنامے جوانھوںنے لدھیانہ اورقرب وجوارمیں تقسیم کے فسادات میںرونماہوئے اورانھوںنے جس طرح جدوجہدکی وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں       ؎

افسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہی

ڈاکٹرذاکرحسین

سابق صدرجمہوریہ ہندڈاکٹرذاکرحسین (1897-1969) نے بھی شبلی منزل کو رونق بخشی۔ دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی سے ان کے دیرینہ تعلقات بلکہ والہانہ لگائوتھا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ابتدائی دور میں کئی مرتبہ اس کے تعاون کے لیے وہ اعظم گڑھ آئے اورشبلی منزل میںٹھہرے۔ وہ علامہ شبلی کے ایک شاگرداقبال احمدخاںسہیل کے ہم درس اوربے تکلف دوست تھے۔انہی گوناگوںمراسم اور ہندوستان کی حکومت میںایک بڑے عہدے پرفائزہونے کے سبب دارالمصنّفین کی گولڈن جبلی کی صدارت کے لیے انھیںمدعو کیا گیااور انھوں نے صدارت قبول کی۔اس موقع پر انھوںنے بڑا شاندار عالمانہ خطبہ دیا جو شائع ہوچکا ہے۔اس سے بھی دارالمصنّفین، اس کے رفقا و اہل قلم سے ان کی گہری دلچسپی کااندازہ ہوتا ہے۔

سروش طباطبائی

سروش طباطبائی،جعفرعلی خاںاثر لکھنوی کے بھانجے تھے۔ ان کامذاق شعرو ادب بڑا پختہ تھا۔ان کی شبلی منزل آمدکاقصہ سیدصباح الدین عبدالرحمن کے قلم سے ملاحظہ ہو۔وہ لکھتے ہیں

’’جناب جعفرعلی خاںاثرکے بھانجے سروش طباطبائی بھی اپنی سرکاری ملازمت کے دورہ میںایک باراعظم گڑھ آئے توصرف مولوی (عبدالسلام ندوی) صاحب کی ملاقات کی خاطر دارالمصنّفین بھی آئے۔ وہ بھی اچھاعلمی وادبی ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے مولوی صاحب سے کہاکہ ’’حضرت ! میںنے آپ کی شعرالہند سے بہت کچھ سیکھاہے۔‘‘ اور پھر اس کی بہت سی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بولے ’’یہ اردوکی ان چند کتابوںمیں ہے جن سے ملک کاادبی مذاق بنا ہے۔‘‘ اور جب وہ دل کھول کر اس کی تعریف کررہے تھے تومولوی صاحب نے یکایک بات کاٹتے ہوئے اوراپنی مونچھوںکو اینٹھتے ہوئے ان سے پوچھاکہ آپ کی تنخواہ کیاہے۔! اور طباطبائی کی علمی و ادبی گفتگووہیںکی وہیں رہ گئی۔ ‘ ‘ 37؎

سرتیج بہادرسپرو

ناموروکیل اورماہرقانون سرتیج بہادرسپرو ہندوومسلم اتحادکے شایدسب سے بڑے علمبردار تھے۔وہ اردوزبان کے بھی بڑے بہی خواہ اورہمدردتھے۔عرصے تک انجمن ترقی اردوکے مربی و سرپرست رہے۔یہی نہیںاردوکی خدمت کے لیے انھوںنے الہ آبادمیں روح ادب کے نام سے ایک مجلس بھی قائم کی تھی۔ان کاخیال تھاکہ’’ اردوزبان ہندو مسلمانوں کا مشترک اور ناقابل تقسیم ترکہ ہے۔‘‘

ان کی شبلی منزل آمدکے بارے میںمولاناشاہ معین الدین احمدندوی نے لکھا ہے کہ

’’کئی سال ہوئے کسی مقدمہ کے سلسلے میںاعظم گڑھ ان کاآناہوا تو دارالمصنّفین دیکھنے کے لیے بھی آئے۔کتب خانے میں فارسی کی الماری میں کلیات صہبائی دیکھ کر کہاکہ میرے دادا مولانا صہبائی کے شاگرد تھے اور کلیات نکال کر دیرتک الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ ہندوستان میں آئندہ ان سے بھی بڑے وکیل،قانون داں اور مدبر پیداہوں گے لیکن ہندومسلم اتحاد اوردونوںکی مشترک تہذیب کا ایسا نمونہ شایداب نہ پیدا ہوسکے۔‘‘ 38؎

یہ فروری1930 کاقصہ ہے۔اسی ماہ میں ڈاکٹرسرضیاء الدین بھی شبلی منزل اورشبلی کالج میں تشریف لائے تھے۔

ڈاکٹرمحمد حمیداللہ

عالمی شہرت یافتہ عالم ومحقق ومصنّف ڈاکٹرمحمدحمیداللہ(1908-2002) کو دارالمصنّفین اور  ماہنامہ معارف سے بڑالگائوتھااورتعلق مدت العمرباقی رہا،یہی نہیںدارالمصنّفین اور اس کے رفقا و نظما مولانا سیدسلیمان ندوی (1884-1953) سے مولاناضیاء الدین اصلاحی(1937-2008)  تک سب سے علمی تعلقات قائم رہے۔ ان کی تحریریںبالخصوص ان کے مضامین اور مراسلات بڑے اہتمام سے ماہنامہ معارف میںشائع ہوتے تھے۔ خاص تعلق کا بنیادی سبب غالباً یہ تھاکہ دارالمصنّفین کا بنیادی کام سیرت پر ہے اور ڈاکٹرصاحب مرحوم کا بھی اصل میدان سیرت نبوی ؐہی تھا۔اس موضوع پران کی کتابیں اور تحقیقات نہایت عالمانہ اوربڑی اہمیت کی حامل ہیں،جو ہماری تاریخ میں سنہرے حروف میںلکھی جائیں گی۔

اسی تعلق کی بناپر ایک باروہ سیدصاحب کے زمانہ نظامت میںشبلی منزل تشریف لائے، مگر سید صاحب موجودنہیںتھے اورنہ دارالمصنّفین ان کے آنے کاذکرہی سیدصاحب نے معارف میں کیا ہے۔ اس کی تفصیل ان کے لٹریری اسسٹنٹ مولوی ابوعلی اثری(1903-1993)  نے ایک عرصے بعدمئی 1983 میں ماہنامہ الرشاد میں شائع کی۔ اس میںانھوںنے ڈاکٹرصاحب کا حلیہ،لباس اور سیرت نبویؐ سے متعلق کتب و مخطوطات اورمصادرکے مطالعے کا ذکرکیاہے۔اس میں مزارشبلی پر جاکر فاتحہ پڑھنے کابھی ذکرہے۔یہ بھی تصریح کی ہے کہ سیدصاحب موجود نہیں تھے۔ البتہ شاہ معین الدین احمدندوی اور مولانا سید ریاست علی ندوی موجودتھے۔ شاہ صاحب نے انھیں دیکھا نہیں تھااوروہ ان کو پہچانتے بھی نہیں تھے، لیکن مولاناسیدریاست علی ندوی رفیق دارلمصنّفین سے ان کی ایک ملاقات تھی اوروہ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم سے اور ڈاکٹر صاحب ان سے بخوبی واقف تھے۔

ڈاکٹرحمیداللہ صاحب شبلی منزل میںصبح سویرے آگئے تھے۔ شام تک رہے۔ ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں۔ اس کے بعد اسٹیشن واپس گئے،جہاںوہ اپناسامان سفراسٹیشن ماسٹر کے پاس رکھ آئے تھے۔

ڈاکٹرحمیداللہ صاحب کے سفرہندوستان کے منصوبے میںاعظم گڑھ کاسفراورشبلی منزل جاناشامل نہیں تھا۔ وہ ٹرین سے شاہ گنج پہنچے توانھیںیکایک دارالمصنّفین کاخیال آیااوروہ ٹرین سے اترپڑے اوروہاںسے شبلی منزل آگئے۔روڈویزپرانھوںنے یکہ والوںسے دارالمصنّفین چلنے کو کہا توسب انجان تھے اور کوئی سمجھ ہی نہیںپارہاتھاکہ کہاںجاناہے۔ایک یکہ والے نے کہاکہ میں جان گیاکہ آپ کو کہاںجانا ہے۔ اس طرح اس یکہ والے نے انھیںدارالمصنّفین پہنچایا۔ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی نے ان سے کہاکہ

 ’’آپ شاہ گنج سے تارکے ذریعہ اپنی تشریف آوری کی اطلاع دے دیتے توہم آپ کولینے اسٹیشن آتے۔فرمایااستغفراللہ، استغفراللہ، استغفر اللہ، میںکوئی بڑاآدمی تھاکہ آپ حضرات کو اسٹیشن تک آنے اور اپنا خیرمقدم کرنے کے لیے زحمت دیتا۔ میں ایک بہت ہی معمولی طالب علم ہوں۔ ‘ ‘ 39؎

مولوی ابوعلی عبدالباری وہاںموجودتھے۔انھوںنے لکھاہے کہ ’’ان کے احترام و اجلال میں جب بھی کوئی بات کہی جاتی تووہ تین مرتبہ استغفراللہ ضرورکہتے۔‘‘40؎

اس موقع پرڈاکٹرحمیداللہ نے سیرت نبویؐ سے اپنی دلچسپی کاسبب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’میںجب چھوٹاتھااورصاحب شعورنہیںہوا تھا تومیری والدہ جو بڑی پرہیزگار،متقی، صالحہ اورعابدہ تھیں،آنحضرتؐ کی حیات مبارکہ کے قصے اور کہانیاں سنایاکرتی تھیں جو غیر شعوری طورپر دلنشیں ہوتی گئیں،اسی وقت میںنے فیصلہ کیاکہ میںجب پڑھ لکھ کر فارغ ہوںگا اور اللہ تعالی نے صاحب قلم بنایا تواسی کو اپناموضوع بنائوںگا۔ اس موضوع سے میری والہانہ دلچسپی تمام تر ماںکی تربیت کا فیض ہے۔ ‘ ‘ 41؎

مولوی ابوعلی اثری نے ڈاکٹرحمیداللہ کی دارالمصنّفین میںآمدکی پوری تفصیل لکھی ہے، مگر اس کے باوجود اگرآپ اس تحریرسے یہ معلوم کرنا چاہیںکہ یہ کس سنہ کاواقعہ ہے توآپ کومایوسی ہوگی۔ابھی تک معارف میںاس کاکہیںذکرنہیںملاہے۔

فیروزگاندھی

فیروزگاندھی (1912-1960) مشہورکانگریسی لیڈراورپنڈت جواہرلعل نہروکے داماد اور سابق وزیر اعظم ہند آنجہانی اندرا گاندھی کے شوہرتھے۔ایک بار پنڈت جواہرلعل نہرو کے ساتھ وہ بھی شبلی منزل آئے اوراس کے تاریخی مہمان خانے  میں قیام کیا۔

احمدسعیدملیح آبادی

مولاناعبدالرزاق ملیح آبادی کے صاحبزادے احمدسعیدملیح آبادی (1926-2022)  سابق مدیر روزنامہ آزادہندکولکاتا1945 میں مدرسۃ الاصلاح سرائے میرکے طالب علم تھے۔ اس وقت ملک تقسیم کو لے کراختلاف وانتشارکی آماجگاہ بناہواتھا۔اعظم گڑھ بھی اس سے متاثر تھا۔ مدرسۃ الاصلاح میں بھی نظریاتی اختلاف ہوااورمعاملہ اتنابڑھاکہ مدرسہ بند کرنا پڑا۔تمام طلبہ اپنے گھروں کوروانہ ہوگئے۔ احمد سعید صاحب اپنے والدکے گہرے تعلق کی بناپرمولاناسید ریاست علی ندوی رفیق دارالمصنّفین کے پاس آگئے جواس زمانے میں شہر میں رہتے تھے۔شہر میں طاعون کی وبا پھیلی تو مولانامسعودعلی ندوی نے مولانا ریاست علی ندوی کوشبلی منزل بلالیا۔ چنانچہ ان کے ساتھ احمدسعیدصاحب بھی شبلی منزل آگئے۔ انھوں نے اپنی خودنوشت میں اس دور کے دارالمصنّفین کا احوال قلم بند کیا ہے۔

’’مدرسۃالاصلاح بندہوجانے پر میںاعظم گڑھ چلاگیا۔وہاں دارالمصنّفین میں مولانا ریاست علی ندوی تھے۔وہ میرے والدکے دوستوں میںتھے۔ مولانانے مجھے اپنے گھر میں ٹھہرالیا۔ ان  کے دو تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے،وہ سب مجھ سے بہت مانوس ہوگئے۔ مولانا کی اہلیہ نہایت خوش اخلاق اورسلیقہ مندخاتون تھیں۔ اپنے بچوںکے بڑے بھائی کی طرح مجھے محبت سے رکھا۔ میں انھیں چچی صاحبہ کہتا تھا۔مولاناریاست علی کی مالی حالت اچھی نہیںتھی، مگر نئے مہمان کے آجانے سے خاطرتواضع میںتکلف کیا جانے لگا۔اس وقت مولاناشہر کے ایک محلے میں چھوٹے سے مکان میں تنگی سے رہتے تھے۔میرااضافہ ہونے سے تنگی اور بڑھ گئی۔اچانک معلوم ہوا کہ شہر میںطاعون کی بیماری پھیل گئی ہے تو دارالمصنّفین کے مہتمم مولانا مسعودعلی ندوی نے مولانا ریاست علی اور ہم سب کو شبلی منزل میں بلالیا۔ مہمان خانہ کی نئی عمارت کے دوجانب دومکان تھے، ایک مکان میں مولانامسعودعلی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے،دوسرامکان مولانا سیدسلیمان ندوی کے لیے تھا۔ سید صاحب دارالمصنّفین چھوڑ کر بھوپال چلے گئے تھے۔ان کے خالی مکان میں ہم لوگوںکوجگہ مل گئی، یہ کشادہ مکان تھا۔کچھ عرصہ بعد شبلی منزل کے ایک دوسرے مکان میں مولانا ریاست علی کی فیملی کو منتقل کردیا گیاتو مولانا مسعود علی نے مجھے مہمان خانہ کاایک کمرہ رہنے کودے دیا۔یہ کمرہ ڈائیننگ روم تھا، اب میرارہائشی کمرہ بن گیا۔اس کمرے کی کھڑکی شبلی کالج کے میدان کی طرف کھلتی تھی اورکالج کی عمارت بھی نظرآتی تھی۔ سید سلیمان ندوی کے مکان کے پچھواڑے باغ تھاجس میںالائچی کاایک بہت اونچا درخت تھا، الائچیاں گرتیں اورزمین پرپڑی رہتیں۔اسی جگہ علامہ شبلی نعمانی کامزارتھا اور قریب ہی ایک چھوٹی سی خوب صورت مسجد تھی۔ نماز عموماً مولانا مجیب اللہ ندوی پڑھاتے تھے۔ملک میں فسادات کا دور شروع ہوچکاتھا۔فجر کی نماز میں مولانامجیب صاحب دعائے قنوت پڑھنے لگے۔ ان کی قرات بہت اثرانگیز تھی،ایک سماں بندھ جاتا تھا۔

 دارالمصنّفین میں اہل علم وقلم کی ایک نامورٹیم موجودتھی۔ مولانا ریاست علی کے علاوہ مولاناعبدالسلام، مولانامجیب اللہ، مولانا شاہ معین الدین جیسے اکابر تھے۔ مولاناصباح الدین عبدالرحمن بیمار ہوکر علاج کے لیے اپنے گھربہار چلے گئے تھے۔مجھے ان کاساتھ نصیب نہیںہوا۔ دارالمصنّفین میںمیراقیام ایک طالب علم کی حیثیت سے تھا۔یہ میری خوش نصیبی تھی کہ مدرسہ اصلاح بندہوجانے کی وجہ سے تعلیم کاجوسلسلہ ٹوٹا تھا وہ دارالمصنّفین میںجڑگیا۔تصنیف و تالیف کی مصروفیت کے باوجود مجھے مشاہیر اہل قلم سے استفادے کا موقع میسر آیا۔حدیث کادرس مولانا ریاست علی دیتے۔ قرآن مجید مولانا مجیب اللہ ندوی پڑھاتے اور سمجھاتے، (قرآن مجیدکادرس کچھ مدت تک والدمولانا ملیح آبادی سے بھی لیا) عربی ادب مولانا عبدالسلام کے ذمے تھا، عربی ادب میں مولانا عبدالسلام کومہارت حاصل تھی۔ افسوس ہے کہ مولاناعبدالسلام سے میں زیادہ استفادہ نہیںکرسکا۔ وہ خفقان میں مبتلاتھے،لکھنے بیٹھتے تو قلم روانی سے چلتا مگرتھوڑی تھوڑی دیر بعد گھبراکراٹھ جاتے اورلان میںٹہلنے لگتے۔ٹہلتے وقت چہرہ طرح طرح سے بناتے،کچھ دیربعد طبیعت سنبھلتی توپھراسی طرح لکھنے میں مصروف ہوجاتے،متعددقیمتی کتابوںکے مصنف تھے۔ روزانہ سہ پہر میں پھول دارشیروانی پہن کر،ترکی ٹوپی لگا کر اور چھڑی لے کر شہرکی سیرکو پیدل نکل جاتے،مئی جون کی گرمی میں کمرے کے اندر لحاف اوڑھ کر سوتے۔میںنے مولاناریاست علی کے لڑکوںکو ان کے پیچھے لگادیا تھا۔لڑکے سوتے جاگتے ’’مولوی صاحب پیسہ‘‘ کی صدا لگاتے تو بڑبڑاتے ’’کیا فضول بات ہے‘‘ غرض کہ مولانا عبدالسلام سے پڑھا کم کھلواڑزیادہ کیا۔

دارالمصنّفین کاماحول علمی اورتصنیف وتالیف کاتھا۔ایک سے ایک علمی،ادبی اورمذہبی کتاب اس ٹکسال سے نکل کرآرہی تھی۔ ماہنامہ معارف بھی شائع ہورہاتھا،اپناپریس تھا، کتابیں اور رسالہ وہیںچھپتا۔ عظیم الشان کتب خانہ تھا۔ یہاں مطالعے کامجھے بڑااچھا موقع ملا۔ اوپر سے اہل علم کی مشفقانہ رہنمائی۔ رہنے کھانے کااچھا انتظام ہوگیا تو اپنی پڑھائی اورمطالعے میں پوری طرح لگ گیا۔ کھانا بہت اچھا ملتا تھا۔ انتظام شاہ معین الدین کا تھا۔ناشتے یاکھانے پر اکثر ایک صاحب شریک ہوتے جو’مولوی خستہ‘ کہلاتے تھے۔ شہرمیں ان کی بسکٹوں کی بیکری مشہور تھی، معروف شاعر اقبال سہیل بھی کبھی کبھارآجاتے تھے۔مسلم لیگ کا زور بڑھتا جارہا تھا۔ اس کااثر اعظم گڑھ شہراور دارالمصنّفین پربھی تھا۔ لمبی لمبی بحثیں حالات حاضرہ پر ہوتیں۔ ‘‘ 42؎

مولاناڈاکٹرعبدالحق

افضل العلما مولاناڈاکٹرعبدالحق(1870-1958) پرووائس چانسلرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ایک بارشبلی منزل تشریف لائے۔ 43؎

شری پرکاش

شری پرکاش[م1971]کانگریسی لیڈراورپنڈت جواہرلعل نہروکے خاص احباب میں تھے۔ انگلستان میں زمانہ طالب علمی میں دونوں کے تعلقات استوارہوئے تو مدت العمر باقی رہے۔ جدو جہد جنگ آزادی میں بھی دونوںساتھ رہے۔ شبلی منزل میںبھی دونوںساتھ آئے اور اس کے تاریخی مہمان خانے میں ٹھہرے۔44؎

مولاناعبدالمجیدحریری

مولاناعبدالمجیدحریری[م1972]مدن پورہ بنارس کے باشندہ تھے۔قدیم و جدید دونوں علوم پر حاوی  تھے۔علی گڑھ کے ممتازطلبہ میں سے تھے۔خلافت اورنانکو آپریشن میں بڑھ کر حصہ لیا۔ جدو جہد آزادی میں ان کابڑاحصہ ہے۔


حوالے

  1.         مکاتیب شبلی ج1، ص155-56      
  2.       دستاویزات محسن الملک ص347
  3.       ایضاً،ص 350
  4.       دستاویزات محسن الملک، ص349     
  5.       مکاتیب شبلی ج 1، ص41
  6.        حیات شبلی،ص452 
  7.       حیات شبلی، ص452
  8.       حیات شبلی، ص452
  9.       حیات شبلی، ص452
  10.     حیات شبلی،ص420  
  11.     حیات شبلی،ص452
  12.      آزادکی کہانی خودآزاد کی زبانی،ص196-57
  13.     سرگذشت ص18-19
  14.     سرگذشت ص19
  15.     سرگذشت ص20
  16.     ماہنامہ ظل السلطان،بھوپال، دسمبر1814، ص85-88      
  17.     اعظم گڑھ کا سوادھینتا سنگرام، ج۱ص193
  18.     مشاہیرکے خطوط،ص87      
  19.     شذرات سلیمانی حصہ اول،ص91-92
  20.     شذرات سلیمانی،حصہ اول ص184
  21.     بزم رفتگاں،حصہ دوم،ص29-30
  22.     یادایام،ص2   
  23.     یادایام،ص46
  24.     شذرات سلیمانی،حصہ سوم، ص193-94    
  25.     انتخاب کلام اقبال سہیل،ص9
  26.      شذرات سلیمانی،ح3،ص 193،
  27.      یاد رفتگاں،ص448،
  28.     بزم رفتگاں،حصہ اول،ص253
  29.     بزم رفتگاںحصہ اول، ص252
  30.     متاع رفتگاںص105،
  31.     متاع رفتگاں،ص113
  32.     بزم رفتگاںحصہ دوم، ص29
  33.     بزم رفتگاںحصہ دوم،ص 33-34
  34.     متاع رفتگاں، ص108       
  35.     متاع رفتگاں،ص73
  36.     ہندوستان کی جنگ آزادی،ص2
  37.     بزم رفتگاں، حصہ اول،ص252،
  38.     متاع رفتگاں، ص21 
  39.     الرشاد۔مئی 1983،ص 52،
  40.     ایضاً   
  41.      ایضاً
  42.      میری صحافتی زندگی ص18-20،
  43.     متاع رفتگاں،ص89
  44.     متاع رفتگاںص165-66

Mohammad Ilyas Azmi

641, Shaista Manzil

Pura Gulami (Behind Awas Vikas)

Azamgarh- 276001(UP)

Mob.: 919838573645

azmi408@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں