9/5/23

خطوطِ غالب کا اسلوبی مطالعہ:سلیم شہزاد

 

تلخیص

خطوط غالب کے اسلوبی مطالعے میں نثر غالب کے متعدد اسلوب پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔ اس تعلق سے اسلوبیات کے تحت خطوط غالب کی زبان کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ بھی کیا گیا اور نتائج کو مثالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ذیل میں غالب کے خطوط کی نثر کے جو پہلو سامنے آتے ہیںکہ غالب نے روایتی مکتوب نگاری سے بہت سی رسمی باتیں ترک کر دیں اور مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔ ان کے خطوط کا بیانیہ انشائی ڈرامائی اور زبان کے رواں استعمال کی مثال ہے۔رسمی القاب و آداب وہ نہیںلکھتے اور اپنی نثر کے چھوٹے چھوٹے جملوںکو اکثر قافیوں سے سجا دیتے ہیں۔ ان کے خطوط کا روزمرہ، محاوروں، صنعتوں وغیرہ سے پر ہے۔ اپنی شاعری کی طرح غالب اپنے خطوط میں بھی مکتوب الیہم سے دوستانہ خلوص اور اپنائیت سے ملتے ہیں۔ طنز و مزاح سے ان کی باتیں خالی نہیں،اس لیے ان کا لہجہ صاف اور سادہ ہے۔ اکثر وہ اپنے خطوط میں ایک داستان گو کا بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ دوستوں سے مخاطبت اس طرح کرتے ہیں گویا انھیںکہانی سنا رہے ہوں۔  ان کی مکالمت میں ڈرامائی مکالموں کا سا انداز جھلکتا ہے۔

کلیدی الفاظ

آئینہ تقریر؍اسلوبیات، ساختیات؍تحریر؍مکالمت ، القاب و تخاطب؍بیانیہ؍روزمرہ، تلمیحات؍اطراف کشامتن، قواعدی غیر قواعدی؍قافیہ بندی؍صناعیات؍لسانی تعملات؍زمانی و مکانی روزمرہ؍داستان پسندی/داستان سنانے کا انداز

—————

اسد اللہ خاں غالب نے اپنی مکتوب نگاری سے اردو نثر کو طرز جدید سے مزین کیا۔ مولوی الطاف حسین حالی نے ’یادگار غالب‘میںلکھا ہے

’’مرزا کی اردو خط و کتابت کا طریقہ فی الواقع سب سے نرالا ہے۔ مرزا سے پہلے کسی نے خط و کتابت میں یہ رنگ اختیار نہ کیا اور نہ ان کے بعد کسی سے اس کی پوری پوری تقلید ہوسکی۔‘‘

درج بالا متن میں ’طرز /طریقہ/رنگ‘ ایسے اظہاری تصورات ہیں جن کا مفہوم ایک اہم اصطلاح ’اسلوب‘ کے ذریعے بھی ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ’خط و کتابت میں (غالب کے) رنگ کی کسی سے پوری پوری تقلید نہ ہوسکی‘‘ جیسے اظہار سے واضح ہے کہ یہ ’اسلوب‘ ہی کی انفرادیت کو مستحکم کرنے والا لسانی تعمل ہے یعنی ہر لسانی اظہار کا اسلوب اپنے آپ میں منفرد ہوتا ہے۔ اس کی کسی حد تک تقلید (نقل) ہوسکتی ہے، ’پوری نہیں ہوسکتی‘ یعنی کسی کے تحریری /تقریری طرز/طریقے/رنگ /اسلوب کی نقل نہیں اڑائی جاسکتی۔ زبان استعمال کرنے والے ہر فرد کا اسلوب اس کے اپنے ’رنگ‘ کا حامل ہوتا ہے۔  (دوسرے فرد کے اظہار میں یہ رنگ نہیں ملتا(

اپنے فارسی خطوط میںبھی غالب نے کہا ہے

(1)   مطالب بہت زیادہ ہیں اور پیچیدہ بھی۔ چاہتا ہوںکہ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات کہہ دوں اور تحریر کو تقریر کا آئینہ بنا دوں۔

(2)   بات کو خواہ مخواہ طول دینے سے اثر بھی کم رہ جاتا ہے اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں اس لیے چاہتا ہوں کہ بات کو مختصر کہہ کر مؤثر بناؤں اور سننے والا بات کی تہ تک جلد پہنچ جائے۔

ان حوالوں کی مشابہتیں ملاحظہ کیجیے

        مطالب کا زیادہ اور پیچیدہ ہونا =      بات کو طول دینے سے پیچیدگی پیدا ہونا

        کم سے کم لفظوں میں بات کہنا        =      بات کو مختصر /مؤثر بنانا

        تحریر تقریر کا آئینہ     =      بات کی تہ تک جلد پہنچنا

دو مختلف خطوط سے ماخوذ ان حوالوں کی لفظی و معنوی مشابہتیں واضح کر تی ہیںکہ خیال،  ترسیل خیال اور تفہیم خیال یعنی زبان کی کو ڈنگ اور ڈیکوڈِنگ کے مراحل کے متعلق غالب کا ذہن عصری لسانیاتی/ اسلوبیاتی تصورات سے کس قدر ہم آہنگ تھا۔

حاتم علی مہر کو غالب نے ایک خط میںلکھا ہے (اور یہ بات حوالے میں بالتکرار سنائی دیتی ہے) کہ

مرزا صاحب، میںنے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بہ زبان قلم باتیںکیا کرو، ہجر میں وصال کے مزے لو

تفتہ کے نام

بھائی ، یہ مجھ میںتم میں نامہ نگاری کاہے کو ہے ، مکالمہ ہے۔

اپنے انداز تحریر سے (انداز بھی اسلوب کا مترادف لفظ ہے) غالب نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ یہ بات پہلے بھی فارسی خط کے حوالے میںگزر چکی ہے کہ ’’تحریر کو تقریر کا آئینہ بنا دوں‘‘ (مراسلہ = تحریر /مکالمہ= تقریر ) یہ مشابہت غالب کے ’انداز‘ یعنی ان کے تحریری اظہار خیال کو آپسی تکلم کا رنگ دیتی ہے۔ اوپر کے اقتباسوں میں غالب نے ہزار کوس کی دوری یعنی مخاطب سے ہجر /جدائی کو اپنی مکالمت/آئینۂ تقریر سے وصال کے ہم معنی بنا دیا ہے۔ ہجر و وصال کے نقیض کا یہ بیک لمحہ موجود ہونا غالب  کے اسلوب میں وقوع محال کی موجودگی کا اعلامیہ بھی ہے۔ مراسلے /تحریر/نامہ نگاری کا مکالمہ/ آئینہ ہوجانا اپنے آپ میں ایک طرز کو چھوڑ کر دوسری طرز اختیار کرنے یعنی اسلوب کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ خط میں کاتب اور مکتوب الیہ ایک دوسرے سے ہزار کوس دور ہوسکتے ہیں مگر ان میں کتابت/ مراسلت کا انداز یہ ہو کہ اس کے متن کی تفہیم دوری کو قربت اور ہجر کو وصال بنا دے۔ یہ کام صرف اور صرف اسلوب کی ندرت کے توسط سے ممکن سمجھنا چاہیے۔ یہاں ’اسلوب کیا ہے؟‘ سوال کے جواب میں چند معروضات پیش ہیںمگر اس سے پہلے اپنے ایجاد کردہ طرز تحریر پر خود غالب کا استہزائیہ قول محال گوش گزار کر لیجیے۔ نواب انورالدولہ شفق کے ایک خط میں اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:

سن غالب، ہم تجھ سے کہتے ہیںکہ تو آپ اپنے کلام پر وجد کررہا ہے۔ تحریر کی یہ کیا روش ہے؟ پہلے القاب لکھ، پھر بندگی عرض کر، پھر ہاتھ جوڑ کر مزاج مبارک کی خبر لے، پھر عنایت نامے کے آنے کا شکر ادا کر۔

اس جملۂ معترضہ کے بعد اسلوب کو جیسا کہ اوپر کی گفتگو سے واضح ہے، لسانی فرد کے اپنی زبان کو استعمال کرنے کے طرز/طریقے/انداز وغیرہ ناموں سے بھی شناخت کیا جاتا ہے۔ لسانی معاشرے میں اسلوب فرد بہ فرد اپنی انفرادیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے جتنے افراد اتنے اسالیب (یا محاورۃً جتنے منہ اتنی باتیں) ہر اسلوب متکلم کے اپنی زبان کے ذاتی تصرف سے پیدا ہوتا ہے۔ اسلوب کی یہ خصوصیت اسے ساختیات کے اس تصور سے مشابہ بتاتی ہے جس کے مطابق معاشرے میںہر فر د اپنی زبان کے ذخیرے (لینگ) سے ضرورت کے مطابق الفاظ منتخب کرتا اور اسے اپنے ماحول، ذہنی کیفیت اور ذاتی احساس کے مطابق استعمال کرتا ہے (پرول) یہ منتخب زبان معیاری زبان کی ایک خاص شکل ہے یعنی اسلوب سے متکلم کی شخصیت کا عکس جھلکتا ہے اسی لیے یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ہر شاعر یا ہر شخص کا لہجہ اس کا اپنا ہوتا ہے۔ وہ اپنی لسانی صلاحیت کے مطابق ہی زبان کے ذخیرے سے اپنے لیے الفاظ چنتا ہے مثلاً ایک عالم کی زبان کسی جاہل کی زبان سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔ یہ انتخاب نہ صرف فرد بہ فرد بلکہ افراد کے ماحول کے مطابق بھی بدلتا ہے جیسے عدالت کے ماحول میں ڈاکٹر کی زبان کسی کام کی نہ ہوگی۔ ماحول اور شخصیت کے مطابق منتخبہ زبان کا یہ استعمال ساختیات میں مخاطبہ یا کلامیہ بھی کہلاتا ہے جس کے صوتی ، صرفی ، نحوی اور معنیاتی تجزیے کا نام اسلوبیات ہے۔ اسلوبیات اسلوب کے مختلف اور متغیر تعملات کو پیش نظر رکھتی ہے۔ یہ لسانیات کا وہ شعبہ ہے جس میں اکثر ادبی زبان کے شعوری اور پیچیدہ اظہارات پر توجہ دی جاتی ہے اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید ادبی متن میں زبان کے استعمال کا معروضی مطالعہ ہے اور اس کا تعلق زبان کے عصری (یک زمانی) مطالعے یعنی توضیحی لسانیات سے ہے۔

ہر فنکار کا اسلوب چونکہ اس کی شخصیت سے نمو پاتا ہے اس لیے اس کے برتاو میں زبان کی چند مخصوص آوازیں بار بار کے استعمال سے اس کے وجدان اور لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں اور وہ انھیں اپنے اظہار میں لازماً استعمال کرتا رہتا ہے۔ انھی آوازوں، فقروں ، جملوں وغیرہ کے طبعی خواص کو ظاہر کرنے والے تعملات کا تجزیہ اسلوبیاتی تجزیہ ہے۔ لسانیات کا اطلاقی شعبہ ہونے کی وجہ سے اسلوبیاتی تجزیہ سائنسی تجزیے کی طرح سامنے آتا ہے۔ اس میںمخاطبے یا متن میںمستعمل اصوات کی تعداد، ان سے بننے والے بامعنی ساختیوں یعنی صرفیوں/لفظوں کی تشکیل، لفظوں کی جملاتی دروبست اور اس سے نمو پاتے معانی کی وضاحتوں اور ان سے حاصل نتیجوں سے تعلق رکھا جاتا ہے۔ متن کی صوتیاتی خصوصیات، سطروں اور مصرعوں کا شمار، بندوں اور پیراگرافوںکی صوری ہیئت، الفاظ کے استعمال میں ترک و اخذ کا عمل، عروض و قواعد کی پابندی یا ان سے صرف نظر، غرض زیر تجزیہ مخاطبے کے ہر شاعرانہ/ غیر شاعرانہ اور فنکارانہ /غیر فنکارانہ پہلو سے اسلوبیاتی ناقد متن پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس میںمتن ساز کی شخصیت، تعلیم و تربیت، معیشت و معاشرت و غیر ہ کو بھی پیش نظر رکھنا لازمی ہوتا ہے تاکہ اس کے اسلوب کے تمام ظاہر و مخفی گوشے سامنے آجائیں۔

غالب کی بات یاد کیجیے کہ میں نے اپنے انداز تحریر سے مراسلے/نامہ نگاری کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ مراسلے/ نامہ نگاری کا بھی اپنا اسلوب ہوتا ہے جو تحریر و تقریر کی رسمیات کا پابند، سپاٹ بیانیہ خبریہ جملوں کا حامل اور طول و طویل ہونے کے سبب پیچیدہ اور کم اثر ہوتا ہے اسی لیے ایسے اسلوب کو ترک کر کے خطوط میں اپنے اظہار کے لیے غالب غیر رسمی اور مکالماتی طریقہ اختیار کرتے ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے احباب بھی اسی روش کو اپنا لیں۔ منشی نبی بخش حقیر کو لکھتے ہیں :

’’یہ میں باتیں کررہا ہوں، خط نہیںلکھتا مگر افسوس کہ اس گفتگو میں وہ لطف نہیں جو مکالمۂ زبانی میں ہوتا ہے یعنی میں ہی بک رہا ہوں، تم کچھ نہیں کہتے۔‘‘

تفتہ کو لکھتے ہیں :

’’میںتمھارے اور بھائی منشی نبی بخش صاحب اور جناب مرزا حاتم علی صاحب کے خطوط کے آنے کو تمھارا اور ان کا آنا سمجھتا ہوں۔ تحریر گویا وہ مکالمہ ہے جو باہم ہوا کرتا ہے، پھر تم کہو مکالمہ کیوں موقوف ہے؟‘‘

یہاں ،’’ تحریر گویا وہ مکالمہ ہے‘‘، فقرے کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ رعایت لفظی اور ضلع بولنا غالب کے اسلوب کی خاصیت ہے۔ کیا شعراور کیا نثر، موقع ہو تو غالب اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خیر، اس سے قطع نظر ،خط لکھنا غالب کے لیے کوئی رسمی چیز نہیں ہے (اگر چہ معاشرتی سطح پر یہ رسمی ہی چیز ہے) وہ خط میں باتیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے احباب بھی اپنے خطوط میں اسی طرح باتیں کریں تا کہ ہجر میں وصال کے مزے لیے جاسکیں۔ غالبیات والوں نے غالب کی نظم و نثر کے متعدد خواص دریافت کیے ہیں اور دونوں اظہار کی ہیئتوں میں (بعض کے استشنا سے) حیرت انگیز طور پر یہ خواص تضاد کے حامل نظر آتے ہیں۔ شعر میں غالب مشکل پسند اور خطوط میںسہل پسند شخصیت کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کے خطوط کی نثر میں تشبیہ و استعارہ ، تلمیحات ، تصوف اور تفلسف سبھی کچھ ملتا ہے لیکن ان کا شعری اسلوب سادگی میں ان مظاہر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ زبان کی بنیادی آوازیں (صوتیے) آپسی انسلاک سے جو بامعنی ساختیے (صرفیے) تشکیل دیتی ہیں، ان کے دروبست (سیاق و سباق/ نحو سے فقروں/جملوں میں معنی کی نمود ہوتی ہے۔ اسلوب کی جانچ میں ان چار مظاہر کے تجزیے سے اسلوب کے خواص معلوم کیے جاتے ہیں۔ غالب کے خطوط کے (نثری) اظہار میں انھی مظاہر کی اسلوبیاتی تحقیق و تفتیش سے ان کے طرز/انداز /لہجے/اسلوب کو واضح کیا جاسکتا ہے۔ دیکھنا مقصود ہے کہ اپنے دعوے کے بموجب غالب نے کس طرح مراسلت کو مکالمت میں تبدیل کیا۔

واضح رہے کہ عام نثر اور خطوط کی نثر میں، وہ رسمی ہو کہ غیر رسمی، ماضی کی ہو کہ حال کی، بہت فرق ہوتا ہے۔ عام نثر اکثر بیانیہ، توضیحی، مفصل اور منطقی ہوتی ہے جب کہ خطوط کی نثر انشائیہ، اطلاعی، جزئی اور غیر منطقی۔ چونکہ آپسی مراسلت ایک سماجی عمل ہے اس لیے اس میں بہت سی روایتوں کی پابندی بھی کی جاتی ہے۔ جیسا کہ خط میں شادی کی اطلاع ہو کہ موت کی، مکتوب الیہ کو رسماً بعض القاب سے مخاطب کرنا پڑتا ہے اور ا س کے ساتھ کاتب مراسلے میں دیگر اخلاقی باتیںبھی لکھ دیتا ہے یا اسے ایسی باتیں لکھنی پڑتی ہیں۔ غالب کی مرتبہ و مصنفہ نصابی کتاب ’پنچ آہنگ‘ (طباعت 1849) میں انھوں نے خطوط نویسوں کے لیے القاب و آداب اور دوسری رسمی باتیںلکھنے کا درس دیا ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ  ع

اس روش سے بیگانگی میرا شیوہ ہے

ہمیں چاہیے کہ مکتوب الیہ کی حیثیت کے مطابق القاب لکھ کر اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیں۔ طویل القاب و آداب اور خیریت و عافیت پوچھنا حشو و زائد ہے۔ خط لکھنے والے کو چاہیے کہ تحریر کو تقریر سے دور نہ کرے اور تحریر کو گفتگو کا رنگ دے۔

میر مہدی مجروح کو مراسلے اور مکالمے کے خطوط کا فرق بتاتے ہوئے غالب لکھتے ہیں

’’کیوں سچ کہیو، اگلوں کے خطوط کی تحریر کی کیا یہی روش تھی، ہائے، کیا اچھا شیوہ ہے، جب تک یوں نہ لکھو گویا وہ خط ہی نہیں ہے، چاہِ بے آب ہے، ابر بے باراںہے، نخل بے میوہ ہے، خانۂ بے چراغ ہے، چراغ بے نور ہے۔ ہم جانتے ہیںکہ تم زندہ ہو، تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں۔ امر ضروری کو لکھ لیا،زوائد کو اور وقت پر رکھا اور اگر تمہاری خوشنودی اسی طرح کی نگارش پر منحصر ہے تو بھائی ساڑھے تین سطریں ویسی بھی میں نے لکھ دی ہیں۔‘‘

اس روش سے بیگانگی کو اپنا شیوہ سمجھنے اور ’’میں القاب و آداب نہیں لکھتا‘‘ (شفق کے نام خط) کہنے کے باوجود غالب نے اپنے خطوط میں القاب کا استعمال قطعاً ترک نہیںکر دیا تھا۔ مرزاہر گوپال تفتہ کے نام ان کے سب سے زیادہ (123) خطوط میں سے صرف بیس میں غالب نے القاب نہیں لکھے اور جو لکھے ہیں ان میں رسمی پن نہیں ملتا اسی لیے انھیںتخاطب/مخاطبت سمجھنا صحیح ہوگا۔

چند مثالیں

شفیق بالتحقیق منشی ہرگوپال تفتہ/کا شانۂ دل کے ماہ دو ہفتہ منشی ہرگوپال تفتہ/نور نظر و لخت جگر /شفیق میرے، کرم فرما میرے/برخوردار سعادت آثار/از خودرفتہ مرزا تفتہ/ جانِ من جانان من/میرے مہربان ، میری جان، مرزا تفتہ سخن دان

وغیرہ جیسے تخاطب شامل ہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ غالب القاب و آداب لکھنے کی روش سے بیگانگی کا شیوہ رکھتے تھے تو اس خیال کو مصدقہ اس طرح بنایا جاسکتا ہے کہ محولہ بالا ساختیوں کے سوا تفتہ کے خطوط میں جو دوسرے القاب /تخاطب ملتے ہیں، وہ زیادہ تر ایک یا دو لفظ پر مشتمل ہیں  جیسے

دیکھوصاحب/میری جان/اجی مرزا تفتہ/ صاحب بندہ/حضرت منشی صاحب/ میاں/ مہاراج /کیوں مہاراج

اوپر کی پہلی مثالیں یہ بتانے کے لیے دی گئی ہیں کہ غالب نے لمبے لمبے القاب سے احتراز نہیں برتا ہے اگر چہ ان مثالوں میں بعض کی مقفّا لظیات کے صوتی آہنگ سے سماعی احساس متاثر بھی ہوتا ہے۔ کم لفظی تخاطب کی مثالوں سے کاتب اور مکتوب الیہ کے پرخلوص رشتے کا جو اظہار ہورہا ہے، وہ شاید اسی لفظی کفایت کا متقاضی تھا۔ کیوں صاحب/سنو صاحب/دیکھو صاحب‘‘ وغیرہ کا تخاطب دونوں کرداروں کی بے تکلفی کا مظہر ہے۔ ویسے ان تخاطبوں کو خطوط کے متن کے ساتھ پڑھیں تو تاثر ہی بدل جاتا ہے۔ جیسے ’’کیوں صاحب‘‘ کے تخاطب کے بعد غالب کا سوال کہ ’’مجھ سے کیوںخفا ہو؟‘‘ اس سوال کے لسانی تعمل سے پہلے ناگریز ہے کہ ’’کیوں صاحب‘‘ سے تخاطب کیا جائے۔ اسی طرح ’’سنو صاحب‘‘ کے بعد یقینی ہے کہ سننے والے کو نصیحت کی جائے سنو صاحب! اپنے پر لازم کر لو ہر مہینے میں ایک خط مجھ کو لکھنا ہے اور ’’دیکھو صاحب‘‘ کے بعد پھر شکایت ’’یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔‘‘ ہاں صاحب کہہ کر گویا دوست کو اپنی طرف متوجہ کیا گیا ہے پھر فوراً یہ سوال کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اس سوال سے پہلے یہی تخاطب لازمی تھا۔ ’’کیوں صاحب‘ کے بعد ’’اس کا کیا سبب ہے کہ بہت دِن سے ہماری آپ کی ملاقات نہیں ہوئی‘‘ یہ شکایتی لہجہ فطری ہے۔ ’’کیوں صاحب، روٹھے ہی رہو گے یا کبھی منو گے بھی؟‘‘ روٹھے ہوئے دوست کو منانے کے لیے، کیوں صاحب‘ کا تخاطب نہایت مناسب ہے۔ ’’لو صاحب‘‘ کہہ کر اپنا حال بیان کر دیا کہ کھچڑی کھائی، دن بہلائے۔ گویا مکتوب الیہ غالب کا احوال پوچھ رہا تھا۔ انھوں نے ’’لو صاحب‘‘ کہہ کر حال سنا دیا۔ اسی نہج پر غالب کے تمام خطوط کے مختصر تخاطبوں کو ان کے فوراً بعد کے لسانی تعملات سے جوڑ کر اسلوبی جمالیات کے رس سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔

اور مکتوب الیہ کو لکھے گئے خطوط میں غالب کا تخاطب :

کیوں یار، کیا کہتے ہو/بھائی، تم تو لڑکوں کی سی بات کرتے ہو/واہ واہ سید صاحب، میری جان، خدا تجھ کو ایک سو بیس برس کی عمر دے/میری جان، سنو داستان/جیتے رہو، آفرین! صد آفرین! /خدا کی پناہ/مار ڈالا یار، تیری جواب طلبی نے/میری جان تو کیا کہہ رہا ہے/میاں لڑکے، کہاں پھر رہے ہو/ لو صاحب، یہ تماشا دیکھو/میاںکس حال میں ہو، کس خیال میں ہو/بھائی تم سچ کہتے ہو/ہاں صاحب، تم کیا چاہتے ہو/واہ حضرت، کیا خط لکھا ہے!/بھائی سیف الحق، بھائی ، تم جیتے رہو/میری جان کے چین مجتہدالعصر میر سرفراز حسین/خداوند نعمت ولی نعمت آیۂ رحمت/قبلہ و کعبۂ المجموع اہل اسلام/حضرت پیر مرشد عالی مقام/مولیٰنا بالفضل اولیٰنا/دوست روحانی و برادر ایمانی/ مخدوم زادۂ مرتضوی اوردودمان، سعادت و اقبال تواَمان!

میر مہدی مجروح کے خطوط میں تخاطب کی مثالیں:

کیوں یار کیا کہتے ہو؟/تم تو لڑکوں کی سی باتیں کرتے ہو/ میاں، کیا باتیں کرتے ہو/ میاں لڑکے سنو/میری جان، سنو داستان، جیتے رہو، آفریں صد آفریں!/ اہاہاہا ! میرا پیارا میر مہدی آیا/لو صاحب یہ تماشا دیکھو/او میاں سید زادۂ آزادہ/ اے جناب میرن صاحب!

واضح رہے کہ یہاں اصل چیز غالب کی زبان ہے کہ جس کے توسط سے افراد کے معاشرتی رشتوں کے بہت سے رنگ اپنی جھلک دِکھاتے ہیں۔ کبھی تو یہ رشتہ ایک لفظ سے اجاگر ہوجاتا ہے اور کبھی لمبے لمبے فقروںکی مجموعی معنویت اس رشتے کے مزید رنگوںکو واضح کرتی ہے۔ پہلی مثال دیکھیے :

کیوں یار، کیا کہتے ہو؟

اس سوال کی معنویت دوستوںکی جس بے تکلفی، خلوص اور دوستانہ رشتگی کا اظہار کررہی ہے، وہ رسمی خط کے تخاطب یا خط کے رسمی تخاطب مثلاً ’’بھائی صاحب، اس تعلق سے آپ کیا فرماتے ہیں؟‘‘ جیسے جملے سے ظاہر ہی نہیں ہوسکتا اور اگر کسی قدر وقت لے کر ظاہر بھی ہوجائے تو وہ کسی بھی قسم کے جذبے سے عاری ہوگا۔ دوسری مثال :

بھائی ، تم تو لڑکوںکی سی باتیں کرتے ہو

اس جملے سے بھی غالب اور ان کے مخاطب کے رشتے کی بے تکلفی واضح ہوتی ہے۔ مخاطب کی باتوں کو ’’لڑکوں کی سی باتیں‘‘کہنے کا حق غالب کو اس لیے حاصل ہے کہ مخاطب سے ان کا رشتہ استاد اور  شاگرد کا رشتہ ہے۔ اس رشتے میں’’واقعی‘‘ اۡستاد اپنے شاگرد کو اتنے چاو لگاو سے مخاطب ہی نہیںکرتا مگر غالب نے ’’واقعی‘‘ اۡستاد ہونے کے باوجود (شاگرد کو) ایک دوست/بھائی کا مقام دے رکھا ہے اس لیے اس سے گفتگو کے وقت وہ شاگرد کو ’’لڑکوں سا‘‘ ہونے سے متصف بھی کر دیتے ہیں۔ایک اور مثال :

مار ڈالا یار، تیری جواب طلبی نے

اوپر کی دو مثالوں میں جملوںکی نحوی ساخت زبان کے روایتی دروبست کی حامل ہے یعنی

1      تخاطب + سوال

2      تخاطب + مبتدا+خبر (بیانیہ جملہ)

لیکن تیسری مثال میں جملے کی نحو قواعدیت سے ہٹ کر ہے (جملہ یوں ہوسکتا تھا یار، تیری جواب طلبی نے مار ڈالا) غالب نے اپنے تخاطب میں فعل (جس پر صوتی زور ہے) پہلے پھر تخاطب اور اس کے بعد فاعلی فقرہ جملاتی دروبست میں شامل کیا ہے۔ ساخت کی اس تبدیلی نے اظہار کی ترسیل کو کسی قدر ’’الجھایا‘‘ تو ضرور ہے (تعقیب میں تو ڈالا ہے)مگر جس جذبے کے تحت غالب نے یہ جملہ کہا/ لکھا ہے، اس کی نحو کا تقاضا یہی تھا کہ وہ روپ بدل کر اظہار پائے۔ دیگر مثالوں کو بآواز بلند پڑھ کر ان کی معنویت اور ان میں پوشیدہ غالب کی ذہنی رو کو سمجھا جاسکتا ہے۔ بقیہ مثالوں میں قافیہ بندی نے آوازوں کا رس بھر دیا ہے جیسے چین، سرفراز حسین/نعمت ، رحمت/اسلام ، مقام/مولیٰنا، اولیٰنا/ روحانی، ایمانی/دودمان، تواَمان

ان تخاطبی فقروں سے قطع نظر قافیہ بندی کے تعلق سے یہاں بہ زور کہا جاسکتا ہے کہ غالب کے خطوط کی نثرمقفّا نثر ہے۔ اس کا بڑا حصہ قافیوں کی جھنکار/تکرار سے گونج رہا ہے۔ ’’آفریں/اہاہاہا!‘‘ کے فجائیوں سے غالب اور مجروح کی آپسی بے تکلفی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثالوں کے تمام لسانی تعملات غالب کے مخاطبے کو مکالمہ بنا تے ہیں۔ بلامبالغہ ان کے خطوط میں ایسی مثالیںسیکڑوں سے تو کیا کم ہوں گی۔

 مراسلے کو مکالمہ بنانے سے مقصود ہے کہ ایک انداز تحریر دوسرے انداز تحریر میں بدل جائے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مراسلے کی زبان مکالمے کی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ مراسلہ رسمی زبان کا اور مکالمہ غیر رسمی زبان کا حامل ہوتا ہے۔ غالب نے اسے تحریر کو تقریر کا آئینہ اور ہجر کو وصال بننے سے بھی تعبیر کیا ہے۔ تفتہ کے نام ایک خط دیکھیے کہ وہ تکنیکی لحاظ سے مراسلہ ہے

بھائی، پرسوں شام کو ڈاک کا ہرکارہ آیا اور ایک خط تمھارا اور ایک خط جانی جی کا لایا۔ تمھارے خط میں اوراق اشعار اور بابو صاحب کے خط میں جے پور کے اخبار۔ دودن سے مجھ کو وجع الصدر ہے اور میں بہت بے چین ہوں۔ ابھی اشعار کو دیکھ نہیںسکتا۔ بابو صاحب کے کواغذ تم کو بھیجتا ہوں۔ اشعار بعد دو چار روز کے بھیجے جائیں گے۔

مرسلہ جمعہ 25 فروری1853                        اسد اللہ

تخاطب کا ایک لفظ ’’بھائی‘‘ لکھ کر یہاں رسم پوری کی گئی ہے۔ پھر بعد کے توضیحی خبر یہ متن میں اگر چہ دوسرا جملہ مقفّالے آئے ہیں (اشعار/اخبار) لیکن مکتوب میں یہ قافیے کے رسمی استعمال سے زیادہ کچھ نہیں (پہلے جملے میں آیا /لایا قافیے بھی متوجہ کن نہیں ہیں) آگے اپنے بارے میں دو خبریں دی ہیں (مجھ کو وجع الصدر ہے/بہت بے چین ہوں) یہ جملے گویاجواز ہیں اگلے جملے (اشعار دیکھ نہیں سکتا/ ان کی اصلاح نہیںکر سکتا) کے پھر بابو صاحب کے کواغذ بھیجنے کی اطلاع اور مکتوب الیہ تفتہ کو تسلی کہ تمھارے اشعار (اصلاح کے بعد) دو چار روز میں بھیجے جائیں گے۔ مکتوب نگار نے اپنا نام بھی رسماً ٹانک دیا ہے ورنہ دیگر خطوط میں وہ اکثر غالب لکھ کر خط کو ختم کرتے ہیں۔

اور ہجر کو وصال بنانے کی مثال

کیوں صاحب، روٹھے ہی رہو گے یا کبھی منو گے بھی؟ اور اگر کسی طرح نہیں منتے تو روٹھنے کی وجہ تو لکھو۔ میں اس تنہائی میں صرف خطوں کے بھروسے جیتا ہوں یعنی جس کا خط آیا، میں نے جانا کہ وہ شخص تشریف لایا۔ خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جو اطراف و جوانب سے دو چار خط نہیںآرہتے بلکہ ایسا بھی دن ہوتا ہے کہ دو دو بار ڈاک کا ہرکارہ خط لاتا ہے، ایک دو صبح کو اور ایک دو شام کو۔میری دل لگی ہوجاتی ہے۔ دن ان کے پڑھنے اور جواب لکھنے میںگزر جاتا ہے۔ یہ کیا سبب کہ دس دس بارہ بارہ دن سے تمھارا خط نہیںآیا یعنی تم نہیںآئے۔ خط لکھو صاحب، نہ لکھنے کی وجہ لکھو۔ آدھ آنے میںبخل نہ کرو۔ ایسا ہی ہے تو بیرنگ بھیجو۔

سوموار27دسمبر1858                                                غالب

یہ مکالمہ ایسا ہے کہ غیر حاضر شخص کو حاضر فرض کر کے اس سے باتیں کی جارہی ہیں۔ جو کچھ اس سے پوچھا جا رہا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ بس اب ان سوالوں کے جواب ہم سنا ہی چاہتے ہیں۔ روٹھنے منانے کے اس منظر میں دو کردار مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے صاف نظر آرہے ہیں۔ دوسرا کردار روٹھا ہوا ہونے کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں رہا، بس پہلا کردار ہی بولے جارہا ہے اور یہی مکالمہ بلکہ خود کلامی ہے۔ ’’میںصرف خطوں کے بھروسے جیتا ہوں‘‘، اس جملے سے مکتوب نگار کی دلی کیفیت ظاہر ہے کہ دوستوں سے ملاقات کے لیے وہ کس قدر بے چین رہتا ہے۔ حالانکہ روزانہ دو چار خطوط ملتے ہی رہتے ہیں مگر مکتوب نگار غالب کی بے چینی کسی طرح ختم نہیں ہوتی۔ روزانہ بہت سے خطوط ملنے کے باوجود مکتوب الیہ تفتہ سے غالب کو کچھ ایسا لگاو ہے کہ چاہتے ہیں وہ روزانہ ملتے ملاتے رہیں۔ پھر غالب تفتہ پر طنز بھی کرتے ہیں کہ اگر تم خط پر آدھ آنہ خرچ نہیںکرنا چاہتے تو بیرنگ ہی خط لکھ بھیجو (اس کا خرچ میرے ذمے) متن کی تشریح یہاںمقصود نہیں۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ مراسلہ مکالمہ کیسے بنتا ہے اور لفظوں کی بنت سے ہجر کو وصال کیسے بنایا جاسکتا ہے۔

غالب کے بعض خطوط میں وہ مکالمہ بھی پایا جاتا ہے جس میںکم از کم دو کردار اس طرح باتیں کررہے ہوتے ہیں جیسا کہ ڈرامے کے کسی وقوعے میںکردار آپس میں تبادلۂ خیال کر رہے ہوں۔ میر مہدی مجروح کے نام ایک خط (خاص طور پر اس کی ہیئت) دیکھیے۔

غالب اے جناب میرن صاحب، السلام علیکم۔

میرن صاحب        حضرت اداب۔

’’کہو صاحب، آج اجازت ہے میرمہدی کے خط کا جواب لکھنے کی ؟‘‘

’’حضور ، میںکیا منع کرتا ہوں، میں نے یہ عرض کیا تھا کہ اب و ہ تندرست ہو گئے ہیں، بخار جاتا رہا ہے۔ میں اپنے ہر خط میں آپ کی طرف سے دعا لکھ دیتا ہوں، آپ پھر کیوںتکلیف کریں؟‘‘

’’نہیں میرن صاحب، اس کے خط کو آئے بہت دِن ہوئے ہیں ، وہ خفا ہوا ہوگا، جواب لکھنا ضرور ہے۔‘‘

’’وہ آپ کے فرزند ہیں، آپ سے خفاکیوں ہوں گے؟

’’بھائی، آخر کوئی وجہ تو بتاؤ کہ تم مجھے خط لکھنے سے کیوں باز رکھتے ہو؟‘‘

’’سبحان اللہ! سبحان اللہ! اے لو حضرت، آپ تو خط نہیںلکھتے اور مجھے فرماتے ہیں کہ تو باز رکھتا ہے۔‘‘

’’اچھا، تم باز نہیں رکھتے، مگر یہ تو کہو تم کیو ںنہیں چاہتے کہ میں میر مہدی کو خط لکھوں؟‘‘

ابھی آدھے خط کا متن باقی ہے۔ وہ بھی غالب اور میرن صاحب کے مکالمے کی طرح کا متن ہے۔ (یہاں ’’غالب/میرن صاحب‘‘ کے کردار راقم التحریر نے بنائے ہیں، ورنہ خط میں ان کے نام نہیں ہیں) غالب جس کو خط لکھ رہے ہیں، اسی کو اپنے سامنے فرض کر کے اس سے باتیںکر لیتے ہیں۔ ’’سلام/ آداب/سبحان اللہ‘‘ یہ خط میں روزمرہ کی عام مثالیں ہیں۔ خط میں اس طرح کی مکالماتی ہیئت اپنانے پر مونالا حالی نے ’’یادگار غالب‘‘ میں یوں اظہار خیال کیا ہے

مغربی طریقے پر جو قصے لکھے جاتے ہیں، ان میں اکثر اسی قسم کے سوال و جواب ہوتے ہیں جیسے کہ مرزا کی تحریروں میں ہم اوپر دِکھا چکے ہیں مگر وہاں پر سوال و جواب کے سرے پر سائل اور مجیب کے نام یا ان کے ناموں کی کوئی علامت لکھ دی جاتی ہے۔ مرزا ایسے موقع پر سائل و مجیب کے نام نہیں لیتے مگر سوال و جواب کے ضمن میں ایک ایسا لفظ لے آتے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سوال کیا ہے اور جواب کیا ہے۔ شاید قصے اور ناول میں یہ بات نہ چل سکے مگر خطوط میں مرزا نے یہ راہ بالکل صاف کر دی ہے۔

)ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں میں مکالموں کی ہیئت کو یاد کیجیے جس میں سائل و مجیب (یعنی کرداروں) کے نام باری بار ی سے آتے ہیں(

مقفّا جملے لکھنا ابتدائی اۡردو نثر کا مقبول رجحان رہا ہے۔ نثر کی قسموں میں مقفا ، مسجع اور مرجز کے جملے یا خاتمے پر مقفا ہوتے ہیں یا عبارت کا ہر فقرہ ایک مخصوص وزن کا حامل ہوتا ہے اور دو جملوں میں آنے والا ہر لفظ دوسرے کا قافیہ بن جاتا ہے۔ غالب کے خطوط میںبھی بالخصوص مقفا نثر کے حامل جملے جگہ جگہ نظر آتے ہیں اور یہ اس زمانے کی نثر کا خاص اسلوب تھا مثلاً

واہ واہ سید صاحب، تم تو بڑی عبارت آرائیاں کرنے لگے، نثر میںخود نمائیاں کرنے لگے۔ حیران ہوںکہ کیا سحر سازی کروں جو سخن پردازی کروں۔ بھائی، تم تو اردو کے مرزا قتیل بن گئے ہواردو بازار میں نہر کے کنارے رہتے رہتے رودِنیل بن گئے ہو، کیا قتیل، کیا نیل، یہ سب ہنسی کی باتیں ہیں، لو سنو، اب تمھاری دلی کی باتیں ہیں۔

اس مکالمت میں واضح قافیو ںکے ساتھ واقعی سب ہنسی کی باتیں ہیں جو قتیل اور رودنیل کے قافیے ملا کر بے تکلفی میں دوست سے کہہ دی گئی ہیں۔ زبان کا ایسا بے تکلف/بے مقصد استعمال دوستانہ گفتگو میں عام تجربہ ہے۔ ایسی زبان دراصل لسانی انحراف کی مثال ہوتی ہے یعنی زبان کے جانے پہچانے/ قواعدی/رسمی استعمال کو ترک کر کے اسی کی ساخت سے مشابہ انجانا/غیر قواعدی/غیر رسمی استعمال زبان۔ مجروح کے نام خطوط میں قافیہ پیمائی کی دیگر مثالیں :

اب صورت کیا ہے اور آئندہ عزیمت کیا ہے/نہ تم مجرم نہ میںگنہ گار، تم مجبور میں ناچار/ لواب کہانی سنو، میری سرگزشت، میری زبانی سنو/ میری جان، سنو داستان/ عبارت لکھنے کا ڈھنگ کیا آیا ہے کہ تم نے سارے جہان کو سر پر اٹھایا ہے/ یہاں نقشہ ہی کچھ اور ہے، سمجھ میںنہیں آتا کہ کیا طور ہے/لطف عام ہے یعنی شراب نہیں آم ہے/ یہ عطیہ بھی بے خلل ہے بلکہ نعم البدل ہے/جب تک جواب نہ پاؤں، کہیں اور کیوں نہ چلاجاؤں/ دیکھیے کہاں/ اترتے ہیں اور کہاں دربار کرتے ہیں/چلے آؤ، کوچے کی سڑک دیکھ جاؤ/ساقیِ کوثر کا بندہ اور تشنہ لب، ہائے غضب! ہائے غضب!/یہ رام پور ہے دارالسرور ہے/جو لطف یہاں ہے اور کہاں ہے/ جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو، اس کو زیست کیوں کرنہ دشوار ہو/انگریزی ڈاک جاری، ہرکاروںکو ریل کی سواری/یہاں کا حال سب طرح خوب ہے اور صحت مرغوب ہے/اکبر آباد چلے جائیو، وہاں دل بہلائیو!

مقفا نثر ہماری روایتی شاعری کے زمانے میںلکھی جارہی تھی۔ اس کے عام چلن کا سبب یہی تھا کہ شعرا کی طرح نثر نگار بھی کبھی کبھی قافیے کی راہ پر نکل جاتے تھے۔ ایسی نثر کے ابتدائی زمانے میں نثری متن کا بڑا حصہ قافیوں کی آوازوں سے گونجتا رہتا تھا۔ اردو فکشن میں داستانی دور کے بعد فورٹ ولیم کالج کے نثر نگاروں کا زمانہ آیا تو یہ گونج بہت حد تک ختم ہوگئی لیکن ان کے متون میںبھی اکثر قافیے در آئے نظر آتے ہیں جیسا کہ ہم غالب کے خطوط میں دیکھ رہے ہیں۔ دی گئی مثالوںکو اگر ان کے مکتوبی سیاق و سباق میں پڑھیں تو ان کی آوازوں کے اسرار کھلتے ہیں۔ جیسے پہلی مثال میں ’’صورت/ عزیمت‘‘ کے قافیے۔ مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے معاشرتی حالات کے پس منظر میں ان کی معنویت واضح ہوتی ہے۔ ’’گنہ گار/ناچار‘‘ کے قافیے بھی اسی ذیل میں خط لکھنے اور پڑھنے والوں کی حالت کی غمازی کرتے ہیں۔ دونوں کے حالات بیان کرنے کے لیے ’’کہانی سنو/زبانی سنو‘‘کے تخاطب کی مناسبت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قافیے ’’عام /آم‘‘ تجنیس مضارع کے بھی حامل ہیں اور ’’ہائے غضب‘‘ کی تکرار سے مکتوب نگار کے اضطراب کی خوب عکاسی ہورہی ہے۔

تشبیہ و استعارہ بھی نثر میں شعری لفظیات کی شمولیت سے نثر کے بوجھل پن کو کسی قدر کم کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔ غالب پہلے شاعر تھے پھر نثر نگار اس لیے لامحالہ ان کے خطوط میں جگہ جگہ شعری لفظیات کی متعدد ساختیں در آئی نظر آتی ہیں جیسے تشبیہ و استعارہ کے علاوہ تمثیل، مجاز مرسل، مختلف تجنیسیں، تلمیحات وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ نثری جملوں میں ان کے برتنے سے معنی کے رنگ لازماً بدلتے ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے :

سورت کا پہنچنابہر صورت مبارک ہو۔ (تجنیس مضارع، سورت/صورت(

خدا کرے کہ مجھ سے کوئی سوال باقی نہ رہ گیا ہو اور تم بھی جب ان ’’اوراق طلسمی ‘‘ کو دیکھو تو کوئی اصلاح کا اشارہ تم سے باقی نہ رہ جائے۔ (اوراق طلسمی استعارہ /تفتہ کے اشعار لکھے ہوئے کاغذات جن کی خراب تحریر کی غالب نے شکایت کی ہے، تحریر کو طلسمی اس لیے کہا ہے کہ سمجھ میں نہیںآتی(

ایک ’’سوکھا سہما شعر‘‘ ظہور ی کا لکھا ، بڑا تعجب ہے۔ (شعری پیکر شعر کو ’’سوکھا سہما‘‘ کی صفت سے اظہار کرنا انفرادیت اور تخلیقیت کی بڑی مثال ہے۔ فاروقی مرحوم اس موقع پر شعر اور شیر میںکسی قدر صوتی یکسانیت سے پیدا معنویت کا تذکرہ ضرور کرتے(

کاشانۂ دِل کے ماہِ دو ہفتہ/تماشائی نیرنگ قضا و قدر (استعارے :مرزا تفتہ کی شخصیت کے لیے مثالیں(

یہ مطلع اگر جبرئیل کا ہو تو اس کو سند نہ مانو  (مبالغہ:جبرئیل اور ’’کلام‘‘ کے رشتے کی وضاحت ہوتی ہے(

آج میرے پاس سینتالیس نقد بکس میں اور چار بوتل شراب کی اور تین شیشے گلاب کے توشہ خانے میں ہیں۔ الحمدللہ علی احسانہِ(قول محال جو چیز شریعت میںحرام ہے اس کے ملنے پر غالب نے اللہ کی حمد کی ہے(

بعد چند مدت کے دوسرا جنم ہم کو ملا   (تلمیح  :قاس سے ہندومت کے متعلق غالب کی معلومات کا اندازہ ہوتا ہے(

پانچ پہر مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپا کیا   (تشبیہ  :اس سے اپنی تکلیف کا اظہار کیا ہے(

داغ کہنۂ حسرت کو چمکایا۔  (استعارہ  :یعنی حسرتیں کبھی مٹتی نہیں ، اگر ان کے داغ چھپ بھی جائیں تو انھیںکرید کر چمکایا جاسکتا ہے(

اغنیاے دہر کی مدح سرائی موقوف کرو۔    (کنایہ  :تفتہ کو نصیحت کہ غیر مستحق امرا کے قصیدے نہ لکھیں(

میں تو چراغ دم صبح اور آفتابِ سر کوہ ہوں    (استعارے  :میرا آخری وقت ہے(

شیر اپنے بچے کو ایک مدت تک آئین شکار سکھاتا ہے۔

جب وہ جوان ہوجاتا ہے تو خود بے اعانتِ شیر شکار کیا کرتا ہے۔  (تمثیل :واضح ہے(

نواب صاحب ازروے صورت روح مجسم اور بہ اعتبار اخلاق آیت رحمت ہیں۔   (استعارے :ممدوح کی تعریف(

غضب الٰہی کی طرح اپنے گھر پر نازل ہوا۔ (تشبیہ :گھر پر مصیبت ٹوٹنے کا واضح اشارہ ہے(

ترک لباس سے قید ہستی مٹ نہ جائے گی۔   (استعارہ بالکنایہ  :تیاگ اور رہبانیت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر ہستی باقی ہے تو لباس اس کے لیے ضروری ہے)

یہ دریا نہیں ہے، سراب ہے/ہستی نہیں ہے، پندار ہے۔  (علامات  : یہاں زندگی اور وقت کی طرف اشارہ ہے(

دریا سارا تیر چکا ہوں، ساحل نزدیک ہے، دو ہاتھ لگائے کہ بیڑا پار ہے۔  (علامت ، استعارہ ، تمثیل(

یہ مثالیں مرزا تفتہ کے نام لکھے گئے خطوط سے ماخوذ ہیں۔ ان کی وضاحتیں غالب کے معنی آفرین ذہن کی انفرادیت اور اسلوب کی ایک خاص جہت کو سامنے لاتی ہیں جس کی رو سے غالب نہ صرف شعر کے بلکہ نثر کے یک رنگ مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی قدرت رکھتے تھے۔

صناعیات یعنی صنائع بدائع کی معنوی صنعتوں میں تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کسی واقعے کے تعلق سے ایک کثیر معنوی لفظ/فقرہ ہے۔ شاعر نے شعر کی تخلیق کے وقت اس کے مضمون میں جسے اس طرح شامل کیا ہے کہ اس واقعے کی تفصیل معلوم ہونے پر ہی شعر کے معنی کھلتے ہیں۔ یہاں ہمارے پیش نظر غالب کے خطوط کا متن ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ غالب نے اپنے اس نثری متن میں بھی جگہ جگہ تلمیحی لفظ/فقرے شامل کر کے متن کی معنویت کو وسعت دی ہے۔ ہماری شاعری میں مذہبی واقعات کو تلمیحی ساختیوں کی طرح خوب خوب برتا گیا ہے۔ مرزا تفتہ کے نام ایک خط میں غالب نے تیز بارش کے وقت ٹپکتی چھت کا تذکرہ اس طرح کیا ہے 

چھت چھلنی ہو گئی، کہیںلگن ، کہیں چلمچی ، کہیں اگالدان رکھ دیا، قلمدان، کتابیں اٹھا کر توشہ خانے کی کوٹھری میں رکھ دیں۔ مالک مرمت کی طرف متوجہ نہیں۔ کشتیِ نوح میںتین مہینے رہنے کا اتفاق ہوا۔

’’کشتی نوح میں تین مہینے رہنا‘‘ کی مصیبت کا جس طنز سے غالب نے ذکر کیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ ان کے مکان کی سی ٹپکتی چھت تلے رہنا کشتی نوح میں رہنے سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ (کشتی نوح پناہ/سلامتی کی علامت ہے۔ اس کی ٹوٹی ٹپکتی چھت سے کنایہ کرنا غالب کا قول محال سمجھنا چاہیے اور یہ ان کے اسلوب کی اہم خاصیت ہے)خطوط میں آنے والے دیگر تلمیحاتی ساختیوںکی مثالیں ذیل میں درج ہیں

گائے کا بچہ بہ زور سحر آدمی کی طرح کلام کرنے لگا۔

دو سو روپے کی ہنڈوی صراحی آب حیات ہوگئی۔

تمھارا حال اس ریگستان میں بعینہ ایسا ہے جیسا مسلم بن عقیل کا حال کوفے میں تھا۔

تمھارے دستخطی خط نے میرے ساتھ وہ کیا ہے جو بوے پیرہن نے یعقوب کے ساتھ کیا تھا۔

اجی وہ یوسف ہندنہ سہی، یوسف دہر سہی، یوسف مصر سہی، یوسف ہفت کشور سہی، ان کی زلیخا نے ستم برپا کررکھا ہے۔

وہ ایک جنم تھا کہ جس میں ہم تم باہم دوست تھے۔ بعد چند مدت کے پھر ایک جنم ہم کو ملا۔

مشرک وہ ہیں جو مسیلمہ کو نبوت میںختم المرسلین کا شریک گردانتے ہیں۔

حضرت یعقوب نفس مطمئنہ رکھتے تھے۔ ایک فرزند کے فراق میں اتنا روئے کہ نابینا ہوگئے۔

یہاں جشن کے وہ سامان ہورہے ہیں کہ جمشید اگر دیکھتا تو حیران رہ جاتا۔

تم سمجھتے ہو کہ میں شیخ چلی کی طرح یہ خیال باندھتا ہوںکہ مرغی مول لوں گا، اس کے انڈے بچے بیچ کر بکری خریدوں گا۔

بے شبہ، چشمۂ آب حیات کی سوت اس میں ملی ہے۔ آب حیات عمر بڑھاتا ہے لیکن اتنا شیریں کہاں؟

الور کے راجا گویا یوسف ہیں، ان کے خریدار دوڑتے پھرتے ہیں۔

وغیرہ وغیرہ تلمیح کے توسط سے معنی کی ترسیل کرنے والے یہ لسانی تعملات اپنے آپ میں منتخب زبان (پرول) کا ایک زمرہ بناتے ہیں ’’چھلنی کی طرح ٹپکتی چھت‘‘ کا بیان جو دراصل عام زبان کے ذخیرۂ الفاظ سے بھرا ہوا ہے، ’’کشتی نوح‘‘ کے منتخب ساختیے کے توسط سے ترسیل کیا گیا ہے اور اس حوالے سے غالب کا خیال (لسانی کوڈ) جب خیال کی تفہیم (ڈکوڈنگ) میں مبدل ہوا تو ’’ٹپکتی چھت‘‘ کی معنویت ’کشتی نوح‘ کی چھت کے معنی پر منطبق ہوئی اور ظاہر ہے کہ یہ زبان کی کثیر معنویت کی مثال ہے۔ تلمیح کی لفظیات زبان کے عام ذخیرۂ الفاظ کا حصہ ہوتی ہے۔ ’صراحی آب حیات‘ میں صراحی/ آب/حیات کے معنی بدل نہیں جاتے بلکہ یہ الفاظ ایک ساختیے میں آکر مخصوص معنی کے حامل ضرور بن جاتے ہیں۔ ایسا محاورے کی لفظیات میںنہیں ہوتا۔

محاورے بھی زبان کے عام ذخیرے کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اس کے منفرد اجزا کے معنی عام معنوں سے قطعی مختلف ہوتے ہیں’’مثلاًکھانا‘‘ ایک عام لفظ ہے جو اسم اورفعل کی طرح برتا جاتا ہے۔ اس کے معنی بھی معلوم و معروف ہیں لیکن اس لفظ کے ساتھ کچھ سابقے لگ جائیں تو لفظ’’کھانا‘‘ کے دونوںمعنی تحلیل ہوجاتے اور سابقے کی مناسبت سے نیاروپ اختیار کر لیتے ہیں جیسے ’’زخم کھانا‘‘ قسم کھانا، مار کھانا، غم کھانا، دھوکا/ فریب کھانا، چوٹ کھانا، ٹھوکر کھانا‘‘ وغیرہ ساختیوں میں صرفی جز ’’کھانا‘‘ کے وہ معنی ہرگز نہیں جو سابقوں کے بغیر اس لفظ کے ہوتے ہیں۔ یہ مثالی ساختیے محاورے ہیں اور زبان کا ہر محاورہ بیان کرنا وصف کا لازماً حامل ہوتا ہے۔ شعری اظہار میں محاوروں کا استعمال ایک طرح سے شاعر کی مہارت کا اشاریہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ فلاں شاعر (مثلاً ذوق) محاورہ بندی پر خاص دسترس رکھتا ہے۔

غالب کی شاعری میں محاورہ بندی شاذ لیکن ان کے خطوط میں اس کا چلن عام ہے۔ تفتہ کے نام لکھے گئے خطوط سے چند مثالیں درج ہیں۔ (واوین میںلکھے الفاظ محاوروں کے الفاظ ہیں)

سو دو سو میں میری ’’پیاس نہیںبجھتی‘‘

کس واسطے کہ یہ حمام کے کنویںکی ’’مٹی خراب کر کر‘‘ اس کو چاہ گرمابہ لکھا ہے۔

بھائی، بۡری ’’آن پڑی‘‘ ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ’’قصہ تمام ہوا۔‘‘

وہ شعر سب ’’دست و گریباں تھے۔‘‘

یہ ’’مصرع‘‘ اگر مجھ پر زنجیر سے ’’باندھوگے‘‘ تو بھی ’’نہیں بندھے گا‘‘

خدا کے واسطے ’’پہلو تہی نہ کرو۔‘‘

میرے کمال کو ’’دھبّالگ جائے گا۔‘‘

کاتب کی ’’نظر سے رہ گیا۔‘‘

خدا جانے اس پر کیا ’’بجوگ پڑا۔‘‘

دو تین روپے ’’اۡٹھ گئے ہوں گے۔‘‘

ایک اوپر پچاس برس سے جو ’’پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے‘‘ تو نہ پھندا ہی ٹوٹتا ہے ’’نہ دم ہی نکلتا ہے‘‘

بنک گھر کا روپیہ ’’اۡٹھاچکے ہو‘‘۔

میری ’’دل لگی ہوجاتی ہے۔‘‘

میں اس کی ’’نظر میں سبک ہوجاؤںگا۔‘‘

وہ تم سے اور بھی ’’سرگراں ہوجائیں گے۔‘‘

اگر میری ’’اقامت ‘‘یہاںکی ’’ٹھہری‘‘ تو بے تمھارے نہ رہوں گا۔

ہنوز کوئی ’’رنگ قرار نہیں پایا۔‘‘

سعدی نے بوستاں سے کیا ’’پھل پایا؟‘‘

میری اصلاح کو بھی ’’ڈبویا۔‘‘

 کوئی ’’صورت‘‘ کسی طرح ’’بنتی نظر نہیں آتی۔‘‘

کیا کہوں کہ کیا میرے ’’دل پر گزری۔‘‘

اوپر کی مثال میں ’’پھانسی کا پھندا گلے میں پڑنا‘‘ محاورے کے ساتھ تزوج (شادی) کا استعارہ بھی ہے او راس سے غالب کی حس مزاح بھی ظاہر ہے۔ فعلی ترکیب ’’اٹھا چکے ہو‘‘ میں فعل ’’اٹھانا‘‘ (جملے کے مطابق بنک سے روپیہ اٹھانا) محض ایک لفظ محاورے کا کام کررہا ہے۔  اسی طرح ’’ڈبویا‘‘ بھی اکلوتا لفظ محاورہ بنا ہوا ہے۔ ’’اقامت‘‘ اور ’’ٹھہری‘‘  (دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں) میں ضلع کا ربط متوجہ کن ہے۔

جس طرح کسی زبان کے محاوروں کی ساختیں غیر مبدل ہوتی ہیں (یعنی محاورے ’’آٹھ آٹھ آنسو رونا‘‘ میں آنسوؤںکی تعداد کم زیادہ نہیں کی جاسکتی) اسی طرح روز مرہ کی بھی ساختیں طے شدہ ہیں۔ یہ لسانی مظہر بھی اکثرچند لفظوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور اصطلاحاً فقرہ کہلاتا ہے۔ لسانی گروہ کا ہر فرد گروہ کی زبان کے ذخیرے سے ضرورت کے مطابق الفاظ منتخب کر کے انھیں اپنے خیال کی ترسیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ زبان میں بے شمار ایسی ساختیں پائی جاتی ہیں جن کا استعمال ہر فرد کے لیے ناگزیر ہے جیسے محاورے، کہاوتیں، رسمی اظہارات اور بامعنی مفرد آوازیں۔ یہ روزانہ زندگی میں ہر فرد کی زبان پر ضرور آتے ہیں یعنی جن کا استعمال زبان کی روایت بن گیا ہے۔ ’’کشاف تنقیدی اصطلاحات‘‘ میں روز مرہ کی مثالیں دیتے ہوئے لکھا گیا ہے

’’پان سات‘‘ اہل زبان کا روزمرہ ہے۔ اگر ’’چھے آٹھ‘‘ کہیں تو یہ غلط ہوگا۔ ’’بلاناغہ‘‘ روزمرہ ہے، ’’آئے دن‘‘ روز مرہ ہے، ’’آئے روز‘‘ کہیں تو اسے غلط قرار دیا جائے گا‘‘

انھی خطوط پر غالب کے خطوط کا مطالعہ کیا جائے تو غالب بھی لسانی گروہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اپنی زبان سے مخصوص اور ضروری الفاظ لے کر ہی انھیں اپنے اظہار خیال کا حصہ بناتے ہیں۔ ان کے خطوط عصری معاشرے کے دیگر افراد کی زبان کی طرح زبان کی روایتوں سے ہمرشتہ ہیں۔ سماجی اور رسمی سرگرمی ہونے کی وجہ سے خطوط کی زبان (غالب کے خطوط کی زبان بھی) روزمرہ سے مبرا نہیں۔ ’’ہم یہاں خیریت سے ہیں اور آپ کی خیریت مطلوب ہے‘‘ جیسے جملے مکتوب نگاری کا روزمرہ رہے ہیں۔ طے شدہ ہے کہ غالب سے پہلے ان کے لسانی گروہ کاہر فرد اپنے خطوط میں ان جیسے رسمی جملے لازماً شامل کرتا تھا۔ اب غالب کی مراسلت چونکہ مکالمت بن چکی ہے اس لیے مذکورہ جملے ان کے روزمرہ سے خارج ہوگئے ہیں۔غالب کے مکتوب الیہ کے جوابات اگر ہم پڑھ سکتے تو جانتے کہ مثلاً مرزا تفتہ کے خطوط کی زبان ، اس میںمستعمل محاورے، فقرے اور روزمرہ سب اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح مجروح، سیاح، علائی، نواب رامپور وغیرہ وغیرہ کے جوابی خطوط بھی زبان کے روزمرہ کی پابندی کرتے نظر آتے۔ نواب علاؤ الدین خاں علائی کو لکھے گئے خطوط سے غالب کا روزمرہ ملاحظہ کیجیے

پہر دن چڑھے /سبحان اللہ/جہاں جی لگا/ناچار/دِلوں کا مالک اللہ ہے/دہائی خدا کی/ میرے نزدیک/واہ، کیا کہنا ہے!/خدا کی قسم/بہ شرط حیات/میرا سلام قبول فرمائیں/ میری طرف سے سلام کہو/دال روٹی قبول کروگے/پانچ چھے گھڑی دن چڑھے/دو گھڑی لوٹ پوٹ کر/خاطر جمع رکھو/اگر قصور کروں تو گناہ گار/اہل اللہ/سب طرح خیریت ہے/بڑے باپ کا بیٹا/ٹکے کی آمد نہیں/بیک بینی و دو گوش/خدا کے فضل سے اچھے ہیں/قصہ مختصر/پنجشنبہ پنجشنبہ اٹھ ،جمعہ نو، ہفتہ دس/زمین آسمان کا فرق/شہد لگاؤ چاٹو/گزارا مشکل ہوگیا/دوزخ کا ایندھن/خدا کے واسطے/یک مشت/سینہ زوری سے/ نصیب دشمناں/کیا گزرتی ہوگی/جہاں سو وہاں سوا سو/سیدھا ہاتھ رہ گیا ہے/اللہ بس ماسوا ہوس/اجر پاؤ گے انشاء اللہ/بجا ارشاد ہوتا ہے ماجرا کیا ہے؟/اللہ جو چاہے سو کرے/ضعف جاتے ہی جائے گا/اپنے ایمان کی قسم/ایک دل اور سوآزار/روبرو بہ از پہلو/اسی کو غنیمت جانتا ہوں/خدامبارک کرے/رہے نام اللہ کا

اس لفظیات پر بھی محاورے کی طرح ساخت اور معنی کی گرفت سخت ہے۔ آزادانہ اوپر کا ہر فقرہ معنی میں محدود نظر آتا ہے مگر جملاتی سیاق و سباق میں یہ معنی دیگر لفظیات کی معنویت سے آمیز ہو کر محدود نہیں رہ جاتے۔ جملوں میں آکر روزمرہ کے معنی جملوں میںمستعمل اور الفاظ کے معنوں کا اثر قبول کرتے ہیں جب کہ محاورے کے معنی جملوںکے دروبست میں آنے والے لفظوں کے معنی کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لین دین کو ذیل کے خاکے سے سمجھا جاسکتا ہے۔

        روزمرہ         معنی            جملاتی دروبست

        محاورہ          معنی

محاورے اور روزمرہ کے تکنیکی فرق سے زبان کو استعمال کرنے والے افراد (اہل اور ناہل دونوں)  اکثر ناواقف ہوتے ہیں۔ ذیل کے اقتباس میں اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔  فرماتے ہیں

کوئی صاحب تھے جن سے مرزا ہرگوپال تفتہ اور غالب دونوںکو غالباً کسی ادبی معاملے میں اختلاف تھا۔ غالب نے اس سلسلے میںان صاحب کو خط لکھا اور پھر تفتہ کے نام خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اردو کا ایک ’’محاورہ‘‘ کیا بے تکلف انداز میں استعمال کیا، ملاحظہ ہو

بہر حال وہ جو میں نے خاقانی کا شعر لکھ کر اس کو بھیجا ،اس کی ماں مرے، اگر میرے اس خط کا جواب لکھا ہو۔

’’اس کی ماں مرے‘‘ لکھ کر غالب نے اپنی فتح اور ان صاحب کی شکست دونوں کا اعلان بڑی خوبصورتی کے ساتھ کر دیا۔

اقتباس کی چوتھی سطر میں لفظ محاورہ پر واوین راقم حال نے لگائے ہیں، یہ بتانے کے لیے کہ متن ساز صاحب نے جس فقرے (اس کی ماں مرے) کو محاورہ بتایا ہے، وہ (غالب کے روز مرہ میں) زنہار، زنہار محاورہ نہیں، روزمرہ ہے اور آج کل بھی مستعمل ہے۔ گزشتہ صفحے پر ’’آٹھ آٹھ آنسو رونا‘‘ محاورہ دیا گیا ہے۔ اس کے معنی ہیں ’’بہت رونا‘‘ ’’آٹھ آٹھ آنسو‘‘ اس محاورے کے استعمال میں ہر بار ’’آٹھ آٹھ‘‘ ہی آنسو رہیں گے، کم زیادہ نہیں کیے جائیں گے اور یہ فقرہ مصدر ’’رونا‘‘ کی وجہ سے محاورہ کہلائے گا۔ ایسی کوئی بات اوپر کے اقتباس میں آئے ہوئے فقرے ’’اس کی ماں مرے‘‘ میں نظر نہیں آتی جسے متن ساز نے محاورہ کہہ دیاہے۔ اگر یہ واقعی محاورہ ہوتا تو ’’مرے‘‘ کی جگہ ’’مرنا‘‘ استعمال کیا جاتا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کے معنی واقعی ’’اس کی ماں مرنا‘‘ نہیں ہوتے، کچھ اور ہوتے۔ غالب کے خطوط سے ماخوذ روزمرہ کی مثالوں میں ’’پہردن چڑھے‘‘ کو روزمرہ میں شمار کیا گیا ہے۔ یہ لسانی ساختیہ ’’پہردن چڑھنا‘‘ سے بنا بھی نہیں ہے کہ اسے محاورہ کہا جاتا۔ یہ تو اپنے ہر استعمال میں ’’پہردن چڑھے‘‘ ہی رہتا ہے اسی لیے یہ روزمرہ ہے۔ محاورے اور روزمرہ کی نحوی ساختوںکی یہ شناخت زبان کے ان مظاہر کو سمجھنے میں معاونت کرے گی۔

  اوپر مذکورہ فقرہ ’’اس کی ماں مرے‘‘ کی معنویت میں ہلکا سا رنگ مزاح کا دِکھائی دیتاہے۔ مزاح کا یہ رنگ بلکہ کئی اور رنگ غالب کے خطوط میں متعدد مقامات پر کم و بیش جھلک کے ساتھ نظر آتے اور خط کے متن کو خوشگوار بناتے ہیں۔ یہ بات تو مشہور ہی ہے کہ غالب کی شاعری میں مزاح کے شوخ رنگ خوب بکھرے ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ غالب کے خطوط کی نثر بھی مزاح کے رنگوں سے مزین نظر آتی ہے۔ اس رنگیں بیانی کی چند مثالیں پیش ہیں

اس ’’خسر اورخسرانی‘‘ نے مار ڈالا۔ کیا کہوں، جو مجھ کو مزہ ملا ہے کہاں’’خسر‘‘ و ’’خسران‘‘ اور کہاں روز مرہ مشہور کہ ’’خسر‘‘ سسرے کو کہتے ہیں۔ صنعت اشتقاق کو کس سینہ زور ی سے برتا ہے۔

غالب کا آخری جملہ بھی اپنے آپ میں مزے دار ہے۔

کیوں ترک لباس کرتے ہو؟ پہننے کو تمھارے پاس ہے کیا کہ اتار پھینکوگے۔

رجب بیگ، شعبان بیگ، رمضان بیگ یہ نامور مہینے ہیں، شوال بیگ آدمی کا نام نہیں سنا، ہاں، عیدی بیگ ہوسکتا ہے،

 ’’فہمائش‘‘ کا لفظ میاں بدّھا ولد میاں جمّا اور لالہ گنیش داس ولد بھیروناتھ کا گھڑا ہوا ہے۔ میری زبان سے کبھی تم نے سنا ہے؟

فارسی کے متعلق یہ تحقیری جملہ غالب کی فارسی دانی پر غرور کا غماز ہے کہ فارسی میںکوئی اختراع صرف فارسی زبان کا عالم ہی کر سکتا ہے۔ ہر کوئی (خاص طور پر اشارہ دیوانی سنگھ کھتری قتیل کی طرف) اس کا مجاز نہیں۔

او میاں سید زادہ آزادۂ، دلی کے عاشق دلدادہ ، ڈہے ہوئے اردو بازار کے رہنے والے، حسد سے لکھنؤ کو برا کہنے والے! ممنون کہاں ،ذوق کہاں، مومن کہاں؟ ایک آزردہ سو خاموش، دوسرا غالب وہ مدہوش، نہ سخن وری رہی نہ سخن دانی، کس برتے پرتتا پانی ہائے دلی ، وائے دلی! بھاڑ میں جائے دلی!

اس اقتباس میں قافیے بھی خوب آئے ہیں اور کہاوت کے استعمال نے طنز کی دھار کو تیز تر کر دیا ہے۔ دلّی کے لیے آخر کے فجائیے متکلم کی ذہنی تلخی کا واضح اظہار ہیں۔

وباتھی کہاں جو میںلکھوںکہ اب کم ہے یا زیادہ۔ ایک چھیاسٹھ برس کا مرد اور ایک چونسٹھ برس کی عورت، ان دونوں میں سے ایک ہی مرتا تو ہم جانتے کہ یہاں وبا آئی تھی، تف برایں وبا!

مرد/عورت سے مراد ظاہر ہے کہ خود غالب اور ان کی اہلیہ ہے۔ یہ اتنے سخت جان ہیں کہ وبا بھی ان کو مار نہ سکی۔

میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہوگئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجا منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے ! وہ حور اجیرن ہوجائے گی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی۔ وہی ز مّردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ، چشم بددور، وہی ایک حور ، بھائی، ہوش میں آؤ، کہیں اور دِل لگاؤ

ان سطروں میں محاورے، روزمرہ، قافیے، فجائیے، سبھی یک مشت استعمال کیے گئے ہیں جن سے اپنے اسلوب پر غالب کی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے

ڈاک کا ہرکارہ جو بلّی ماروں کے محلے کے خطوط پہنچاتا ہے، ان دِنوں میں ایک بنیا پڑھا لکھا حرف شناس کوئی فلاں ناتھ یا ڈھمک داس ہے۔ حویلی میں آکر اس نے داروغہ کو خط دیا۔ اس نے خط دے کر مجھ سے کہا کہ ڈاک کا ہرکارہ بندگی عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مبارک ہو! آپ کو دلی کے بادشاہ نے نوابی کا خطاب دیا تھا، اب کالپی سے خطاب کپتانی ملا ہے۔ حیران کہ یہ کیا ہے؟ سرنامے کو غور سے دیکھا، کہیں قبل از اسم ’’مخدوم نیاز کیشاں‘‘ لکھا تھا۔ اس قرم ساق نے اور الفاظ سے قطع نظر کر کے ’’کیشاں‘‘ کو ’’کپتان‘‘ پڑھا۔ (بہ نام نواب شفق)

اب میرا انجام کار دو طرح پرمتصور ہے، یا صحت یا مرگ۔ پہلی صورت میں خود اطلاع دوں گا، دوسری صورت میں سب احباب خارج سے سن لیں گے۔

(اپنی حالت پر آپ ہنسنے کی مثال)

آج کل کے بعض ماہرین طنز و مزاح کو اظہار کی آزاد صنف خیال کرتے ہیں لیکن یہ اظہار کی صنف نہیں۔ یہ اظہار کے اسلوب سے تعلق رکھتے ہیں یعنی نثر و نظم کی اصناف کے بیان/اظہار کا انداز ہیں۔ طنز و مزاح دونوںکو اکثر ایک ترکیبی اصطلاح کے طور پر لیا جاتا ہے جب کہ یہ انداز بیاں کے دو رنگ ہیں۔ ان میں طنز کا تاثر سنجیدہ اور فکر انگیز ہوسکتا ہے جب کہ مزاح کا تاثر غیر سنجیدہ اور فکر ربا ہوتا ہے۔ طنز کا طبعی نتیجہ زیر لب مسکراہٹ اور مزاح کا طبعی نتیجہ ہنسی قہقہے کی طرح سامنے آتا ہے۔ دی گئی مثالوں میں دوسری، چوتھی اور پانچویں مثال طنز سے مملو ہے، باقی مزاح کے رنگ میں ہیں۔ ان میں پانچویں اور ساتویں اقتباس میں مقفا جملے بھی آئے ہیں۔

ان مثالوں کے مجموعی مطالعے سے بہت سے کردار پس منظر سے ابھر کر پیش منظر میں آجاتے ہیں۔ ان میں حقیقی (مکتوب الیہ کے علاوہ ممنون، ذوق ، مومن وغیرہ) کردار بھی ہیں اور فرضی کردار بھی (رجب بیگ، شعبان بیگ، بدھا ولد جما وغیرہ) اس طرح کے مناظر کی غالب کے خطوط میں بھرمار ہے جن سے ثابت ہے کہ غالب علی شاہ لفظی بیان سے اپنے ذہن میں بسے کرداروں کو حقیقی پیکروں میں تخلیق کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ یہ حکائی بیانیہ خطوط میں دوسرے مناظر کی عکاسی بھی خوب کرتا ہے، خاص طورپرموسم کی منظر نگاری کے

برسات کا نام آگیا ہے تو پہلے مجملاً سن لو۔ آفتاب اسی طرح گاہ گاہ نکلتا ہے جس طرح بجلی چمک جاتی ہے۔ رات کو کبھی کبھی تارے دِکھائی دیتے ہیں تو لوگ ان کو جگنو سمجھ لیتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں چوروں کی بن آئی ہے۔ کوئی دن نہیں کہ دو چار گھر کی چوری کا حال نہ سناجائے۔ ہزار ہا مکان گر گئے۔ سیکڑوں آدمی جا بہ جا دب کر مر گئے، گلی گلی ندی بہہ رہی ہے۔ قصہ مختصر ، وہ اَن کال تھا کہ مینہ نہ برسا، اناج نہ پیدا ہوا۔ یہ پن کال ہے۔ پانی ایسا برسا کہ بوئے ہوئے دانے بہہ گئے۔ سن لیا دلی کا حال۔

لفظی تکرار اس اقتباس کا خاصہ ہے گاہ گاہ /کبھی کبھی/جابہ جا/گلی گلی/ان کال، پن کال، اگر چہ یہ تکرار جملوں کی نحو میں دور دور واقع ہے لیکن ان کی آوازیں متاثر کرتی ہیں۔ تاروں کے لیے لوگوں کی کیفیت ، چوروںکی بن آنا، ہر طرف برسات کے برے آثار کا تذکرہ اخباری رپورٹ کی طرح سامنے آًتا ہے۔

برسات کا حال نہ پوچھو، خدا کا قہر ہے، قاسم جان کی گلی سعادت خاں کی نہر ہے۔ عالم بیگ خاں کی طرف کا دروازہ گر گیا،مسجد کی طرف جو دروازہ تھا، گر گیا۔ سیڑھیاں گراچاہتی ہیں، حجرہ جھک رہا ہے، چھتیں چھلنی ہو رہی ہیں۔ مینہ گھڑی بھر برسے تو چھت گھنٹہ بھر برسے۔

یہاں صوتی تکرار سے اوپر کے اقتباس کا ساتاثر پیدا ہے۔ پیکری بیانیہ زوال کی تصویریں سامنے لارہا ہے۔ منفوس (ہکاری) آوازوں سے کیفیت کا بھاری پن ظاہر ہے، متاثر کن ہے۔

یہاں میں بڑی مصیبت میں ہوں، محل سرا کی دیواریں گرگئی ہیں۔ پاخانہ ڈھے گیا ہے، چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمھاری پھوپھی کہتی ہیں، ہائے دبی! ہائے مری! چھت چھلنی ہے۔ ابردو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔

پھوپھی کے کردار نے اس اقتباس کو واقعاتی رنگ دے دیا ہے۔ اوپر کے منظروں کی طرح یہ محض منظر نہیں۔ اس میں دو کرداروں ’’میں ‘‘ اور ’پھوپھی‘‘ کے آگئے ہیں جن سے حقیقی زندگی پر خراب موسم کے اثرات واضح ہیں۔

بارشوں کے بعد اب گرمی کا حال ملاحظہ کیجیے

اس موسم میں کہ گرمی سے سر کا بھیجا پگھلا جاتا ہے، دھوپ کے دیکھنے کی تاب نہیں۔ رات کو صحن میں سوتا ہوں۔ صبح کو دو آدمی ہاتھوں پر لے کر دالان میں لے آتے ہیں۔ ایک کوٹھری ہے اندھیری ، اس میں ڈال دیتے ہیں۔ تمام دن اسی گوشۂ تاریک میں پڑا رہتا ہوں۔ شام کو پھر دو آدمی پلنگ پر صحن میں ڈال دیتے ہیں۔

سخت گرمی نے غالب علیہ الرحمہ کا برا حال کر دیا ہے اور اب تیسرا موسم

جاڑے کی شدت ، مہاوٹ کا مہینہ، دھوپ کا پتا نہیں، پردے چھٹے ہوئے، نشیمن تاریک، آج نیر اعظم کی صورت نظر آئی، دھوپ میں بیٹھا ہوں۔

پہلے جملے کی نحو آزاد ایتلاف کی اچھی مثال ہے۔ محض فقروںکو جمع کر کے (کولاڑ کی طرح ) ایک منظر بنا دیا ہے۔ ایسی ہی دوسری مثال

کھلا ہوا کوٹھا، چاند نی رات، ہوا سرد، تمام رات فلک پر مریخ پیش نظر۔ دو گھڑی تڑکے سے زہرہ جلوہ گر۔ ادھر چاند مغر ب میں ڈوبا، اۡدھر مشرق سے زہرہ نکلی۔ صبوحی کا وہ لطف ، روشنی کا وہ عالم!

فلک، مریخ، زہرہ، چاند، مغرب، مشرق کی لفظیات کے استعمال نے اس منظر کو علم نجوم کا بیانیہ بنادیا ہے۔ کولاڑ تکنیک سے یہاں بھی رات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ ’’اِدھر اُدھر‘‘ کی تکرار یہاں چاند کے ڈوبنے اور زہرہ کے نکلنے کے منظر کو ایک روانی سے سامنے لاتی ہے۔ اور اب ماحول کی عکاسی

وہ مکان لوں جو ایک تنگ گلی کے اندر ہے۔ دروازہ وہ تاریک کہ دن کو بغیر چراغ کے راہ نہ ملے، پھر ڈیوڑھی پر حلال خوروں کا مجمع ، گوہ کے ڈھیر، کہیں حلال خور کا بچہ ہگ رہا ہے، کہیں بیل بندھا ہے، کہیں کوڑا پڑا ہے، خدا نہ لے جائے ایسے مکان میں۔

ڈرامے کے ایک منظر کی طرح غالب نے مکان، گلی، گلی میں اندھیرا، حلال خوروں کی بھیڑ، فراغت کرتا ہوا بچہ، بندھا ہوا بیل، کوڑا کرکٹ، سب کو سامنے لاکر منظر کو زندہ کردیا ہے۔ جملے ’’دن کو بغیر چراغ کے راہ نہ ملے ‘‘کا ابہام متوجہ کن ہے گویا دن گلی میں راستہ ڈھونڈرہا ہو، سیلف پورٹریٹ کے دو جملے

جب ڈاڑھی مونچھ میں سفید بال آگئے، تیسرے دِن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مسی بھی چھوڑی اور ڈاڑھی بھی

سفید بالوںکو گویا آتشی شیشے سے ہمیں دکھا دیا ہے۔ ان بیانیہ مثالوںسے غالب کی نثر کا ایک اور اسلوب نمایاں ہوتا ہے یعنی اپنے عندیے کو قصے کہانی کی طرح پیش کرنا۔ ان کے خطوط کا بالاستیعاب مطالعہ بتاتا ہے کہ غالب کو اپنے زمانے کی داستان گوئی /داستان خوانی سے یک گونہ دل چسپی تھی۔ ان کے متعدد اشعار ایسے ہیں کہ ان میں افسانے/قصے/داستان کا رنگ خوب چڑھا ہوا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے راقم کے مضامین غالب اور داستانی شعریات/غالب اور داستانی لفظیات مطبوعہ ساز فسانگی) داستان سے غالب کی رغبت کی مثالیں ان کے خطوط میں داستان پسندی کے ذکر میں بھی ملتی ہیں۔ صفیر بلگرامی کو ایک خط میںلکھا ہے

’’بوستان خیال‘‘ کے ترجمے کا عزم اور دو جلدوں کا منطبع ہونا مبارک۔ حضرت، یہ آپ کا احسان عظیم ہے مجھ پر اور بالغ نظر ان ہند پر عموماً۔

داستان کے لیے غالب کے اضطراب اور داستان پا کر ان کی خوشی کا عالم ذیل کی سطور میں دیکھیے

مولانا غالب علیہ الرحمہ ان دِنوں بہت خوش ہیں۔پچاس ساٹھ جز کی کتاب،’’ امیر حمزہ کی داستان‘‘ اور اسی قدر حجم کی ایک جلد ’’بوستان خیال‘‘ کی آگئی ہے۔ سترہ بوتلیں بادۂ ناب کی تو شک خانے میں موجود ہیں۔ دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں، رات بھر شراب پیا کرتے ہیں۔ (بہ نام میر مہدی مجروح)

داستان گوئی کی محفل جمعرات اور جمعے کو خود ان کے گھر میں منعقد ہوا کرتی تھی۔ سالک کو ایک خط میں یہ اطلاع دی کہ

محمد مرزا (داستان گو) پنجشنبہ اور جمعہ کو داستان کے وقت آجاتا ہے۔

مجروح سے یوںہم کلام ہیں

اگر زندگی ہے اور پھر مل بیٹھیں گے تو کہانی کہی جائے گی۔

ایک کتاب کی طباعت کے ختم ہونے کی خبر اس طرح دی

اس اکتوبر میں قصہ تمام ہوجائے گا۔

ایک داستان گو کی طرح غالب اپنے سامعین کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے فقرے اور جملے اپنے خطوط میں اکثر مقامات پر لے آتے ہیں 

روداد سنو /قصہ مختصر/یہ تحریر بہ طریق حکایت ہے/تفصیل اس کی یہ ہے / دوسرا اجمال سنو/ماجرا یہ ہے / اب اصل حقیقت سنو/ میری جان ، سنو داستان/لو، اب کہانی سنو، میری سرگزشت میری زبانی سنو/اب ایک اور داستان سنو۔

اور یہ غالب کے اسلوب کا خاص پہلو ہے۔ مزید یہ مثالیں ملاحظہ فرمائیں

بیش و بیشتر کا قصہ نکلا/قصہ مختصر یہ کہ قصہ تمام ہوا/اب تم روداد سنو/اب ایک امر سنو/جو میری سرگزشت کی داستان ہے/اگر کاپی کا قصہ ختم ہوجائے تو آپ کو آرام ہوجائے/ جو تقریر ہے بہ سبیل حکایت ہے/ کل تک قصہ نہیں چکا/بڑا پرانا قصہ تم نے یاد دِلایا/میری داستان سنیے/اس اجمال کی تفصیل یہ ہے /غالب کثیر المطالب کی کہانی سنو/ یہ مرا حال سنو/لو سنو اب تمہاری دلی کی باتیں ہیں/اور ایک نقل سنو/ایک نئی بات سنو/اور ایک ہنسی کی بات سنو۔

یہاںبہت سی مثالیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ غالب مکتوب الیہ سے تخاطب کے لیے داستانی لسانی ساختیے نہیں اختیار کرتے بلکہ اپنے خط کے متن کو بھی داستانی بیانیہ بنا دیتے ہیں۔ مرزا تفتہ کو لکھتے ہیں

تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیاہے اور کیا واقع ہوا۔ وہ ایک جنم تھا کہ جس میں ہم تم باہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر ومحبت درپیش آئے۔ شعر کہے، دیوان جمع کیے اسی زمانے میں ایک اور بزرگ تھے کہ وہ ہمارے دوست دلی تھے اور منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر تخلص تھا۔ ناگاہ نہ وہ زمانہ رہا، نہ وہ اشخاص، نہ وہ معاملات، نہ وہ اختلاط ، نہ وہ انبساط، بعد چند مدت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا، اگر چہ صورت اس جنم کی بعینیہ مثل پہلے جنم کے ہے۔

غالب کا یہ داستانی اسلوب یہیں تک محدود نہیں۔ انھوں نے داستانی لفظیات سے اپنے شعروں میںبھی معنی آفرینی کی ہے جس کے لیے ان کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

روایتی مکتوب نگاری میں خط لکھنے کی بعض رسمیات کی پیروی لازمی تھی جس کی وجہ سے خط کی ایک مخصوص نثری ہیت تشکیل پاتی۔ رسمی /غیر رسمی ہر خط میں بعض فقرے/جملے لازما شامل کیے جاتے تھے اور اظہار خیال کے متن کی لفظیات بھی طے شدہ تھی۔ گزشتہ صفحات کے اسلوبی تجزیے میں ہم نے دیکھا کہ غالب نے مکتوب نگاری کی ہیئت ہی بدل دی۔اس تبدیلی میں البتہ کہیں کہیں روایت کی چمک بھی نظر آجاتی ہے۔ جیسے القاب و آداب، اظہار خیال میں محاوروں وغیرہ کا استعمال اور کبھی حالات اور ماحول کا بیان۔ اسی روایتی چمک کے اطراف لیکن غالب نے اپنے اسلوب کے جو رنگ بکھیرے ہیں، ان کا بہ نظر غائر مطالعہ خیال، زبان اور اس کے اظہار میںعمومی لسانی ساخت سے مخصوص لسانی ساختیوں کے اخذ و اکتساب کے تعملات سے بھی روشناس کراتا ہے۔ غالب کے خطوط کے نثری اسلوب سے منتخب لسانی خواص ، گزشتہ صفحات میں جن کا اسلوبیاتی تجزیہ پیش کیا گیا، ذیل میں ان کا اجمالی خاکہ ملاحظہ کیجیے۔

1      غالب نے رسمی مکتوب نگاری کی روایتوں سے انحراف کر کے اور خبریہ سپاٹ منطقی بیانیے کو ترک کر کے مکالمت/مکالمے کو رواج دیا۔ انھوں نے مکتوبی اظہار خیال کو محدود رسمیات سے لاتعلق، انشائیہ، فطری لسانی بہاؤ کا حامل، ڈرامائی اور تفہیم خیال کے لیے اطراف کشامتن کی تشکیل کی راہ سجھائی۔

2      اگر چہ القاب و آداب سے کلی اجتناب غالب کے خطوط میں نہیں ملتا، مگر مکتوب الیہ کو مخاطب کرنے کے لیے انھوں نے نئے نئے قواعدی/غیر قواعدی، سماجی رشتوں کا مخلص اظہار کرنے والے لسانی تعملات (فقروں/جملوں) کو برت کر خطوط کے بیانیے سے تکلف کو ختم کیا اور بے تکلفی ، اخلاص اور دوستداری کے اظہارات کو نثر میں رائج کیا۔

3      ابتدائی ادوار میں نثر میں جگہ جگہ قافیہ بندی کر کے نثر کے سپاٹ پن میں ایک طرح کی روانی اور رنگینی کو شامل کیا جاتا تھا۔ غالب اصلاً شاعر تھے پھر ان کے نثری اظہار میں قافیوں کی جھنکار کیوں نہ سنائی دیتی۔ جہاں موقع اور ضرورت ہوتی ہے، وہ اپنے خطوط میں چھوٹے چھوٹے جملوںکو قافیوں سے سجا دیتے ہیں اور اکثر اس سجاوٹ کے ساتھ قافیوں کی موسیقی سے زبان بھی آہنگ و ترنگ کی حامل بن جاتی ہے۔

4      خیال کے اظہار میں زبان لفظی و معنوی صنعتوں سے دامن بچا کر گزر نہیںسکتی۔ غالب کے خطوط کی نثر میں اکثر ان کے جملوں میں تشبیہات، استعارے، تجنیسیں، شعری پیکر، علامتیں وغیرہ جیسی صنعتیںگویا نظم کی گئی نظر آتی ہیں اور یہ چیزیں محض آرائشی لسانی تعملات نہیں بلکہ ان کے معنی مکتوب نگار کے خیالات کے معنوں سے ہم آہنگ ہوگئے ہیں۔

5      تلمیح بھی ایک معنوی صنعت ہے جسے غالب کے اسلوب کے ایک اہم عامل کی طرح یہاں پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ دیگر صنعتوں (تشبیہ و استعارہ) کی طرح محدود معنی کی حامل نہیں ہوتی۔ اس کے اپنے معنی حالات وواقعات کی معنویتوں سے جڑے ہوتے اور جملے میں آکر یہ مکتوب نگار کے خیال سے ربط و امتزاج کے سبب معنی کی نئی وسعتیں خلق کرنے کا باعث بنتی ہے۔

6      کسی زبان کے محاورے بھی اس کے ذخیرۂ الفاظ کو (مخصوص و متعین ہی سہی) نئے معنوں سے مملو کرنے والے لسانی تعملات ہیں۔ فنکار کا خیال اور محاورے کی معنویت اظہار کو نئی جہات سے آشنا کراتے ہیںاسی لیے غالب کے خطوط بہت سے پرانے اور نئے تخلیق کرد ہ محاوروں سے خالی نہیں۔

7      محاوروںکی طرح زبان کا روزمرہ ،اظہار خیال کرنے والے کوزبان کی فطری روایتوں سے جڑا ہوا رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ فنکار محاورے سے صرف نظر کر سکتا ہے لیکن روز مرہ زبان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اپنی تحریر کو زندگی دینے کے لیے جس سے کوئی فنکار (شاعر/نثر نگار) دامن بچا نہیں سکتا۔ غالب کا روز مرہ مخصوص زمانی اور مخصوص مکانی روزمرہ ہے پھر حالات اور ماحول بھی زبان استعمال کرنے والے فرد کو زبان کے استعمال میں ضروری روز مرہ کے بغیر آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ غالب کے خطوط میں دہلوی روزمرہ اس کی واضح مثال ہے۔

8      غالب کی شاعری طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے خالی نہیں ہے۔ ان کے خطوط کی نثر میں بھی جگہ جگہ طنز و مزاح کے اظہارات ، ہنسی قہقہے، اور چبھن اور کسک کے رنگ بکھیرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ غالب کے اسلوب کا یہ خاص پہلو ہے کہ وہ اپنے دوستوں، بزرگوں اور سماج کے دیگر افراد کے عمل اور رد عمل کے ساتھ اپنے طنز و مزاح کو رابطے میں رکھتے ہیں۔ اس سے ان کے استعمال زبان کا ماحول کھلا کھلا اور قابل قبول ہو جاتا ہے۔

9      غالب کی داستان پسندی نے شاعری کے ساتھ ان کے خطوط کی نثر کو بھی خوب متاثر کیا ہے۔ داستانی لفظیات کے علاوہ قصہ گوئی کی متعدد اصطلاحات اور بیانیے کے بہت سے تعملات ان کے خطوط میں قصے کو طول دینے والے عوامل کی طرح موجود ملتے ہیں۔ اردو مکتوب نگاری کے متون میں یہ صفت دیگر مکتوب نگاروں کے یہاں شاید نہیں پائی جاتی  اور غالب اکیلے ہی اظہار کے ایک اہم مرتبے پر متمکن نظر آتے ہیں۔

Saleem Sahezad

323, Mangalwar Ward

Malegaon- 423203 (Maharashtra)

Mob.: 9890331137

Email.: khansalimshahzad@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں