8/5/23

امیر خسرو کی تاریخی تصانیف: صادق


 

تلخیص

امیرخسرو نے قران السعدین، مفتاح الفتوح، دول رانی خضر خاں، مثنوی نہ سپہر، تغلق نامہ جیسی مثنویاں لکھی ہیں۔ ان مثنویوں کا تعلق اس عہد کے سلاطین یا کسی خاص واقعے سے ہے۔ یہ تمام مثنویاں عہدِ وسطیٰ کی تاریخ کے معتبر حوالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان مثنویوں کی تاریخی معنویت اور اہمیت اب بھی برقرار ہے۔ ’قران السعدین‘ ایک اہم مثنوی ہے۔ اس میں بیان کردہ واقعات کی جائے وقوع گرچہ اودھ ہے لیکن اس مثنوی میں اودھ بہت ہی کم اور دہلی زیادہ سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ’مفتاح الفتوح‘ میں انھوں نے سلطان جلال الدین فیروز خلجی کے چار فتوحات کو بیان کیا ہے۔ ’دول رانی خضر خاں‘ بنیادی طور پر عشقیہ مثنوی ہے مگر شاہی خاندان کے افراد سے تعلق کی بنا پر یہ اپنے عہد کی تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے۔ ’مثنوی نہ سپہر‘ میں ہندوستانی تہذیب و معاشرت کے بے مثال مرقعے ملتے ہیں۔ یہ مثنوی انھوں نے مبارک شاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔ ’تغلق نامہ‘ مثنوی غیاث الدین تغلق کے ارشاد کی تعمیل میں تصنیف کی گئی۔ یہ شاید امیر خسرو کی آخری تصنیف ہے۔ اس کا شمار بھی امیر خسرو کی عمدہ تاریخی مثنویوں میں کیا جاتا ہے جس سے عہدِ وسطیٰ کی تاریخ کے کئی اہم گوشے روشن ہوتے ہیں۔

کلیدی الفاظ

امیر خسرو، مثنویات، سلطنت عہد، سلاطین، شہزادے، معزالدین کیقباد، تغلق نامہ، مثنوی نہ سپہر، قران السعدین، خزائن الفتوح، سلطان علاء الدین خلجی، سلطان قطب الدین مبارک شاہ، سلطان غیاث الدین تغلق،

—————

امیر خسرو کی مثنویات میں پانچ ایسی مثنویاں بھی ہیں جن کا شمار سلطنت عہد کی تاریخی مثنویوں میں کیا جاتا ہے۔ ان تمام مثنویات کا تعلق یاتو سلاطین وقت سے تھا یا کسی شہزادے سے یا اس عہد کے کسی خاص واقعے سے۔ لہٰذا ان سب میں اپنے عہد کی تاریخ کے عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں۔

ان مثنویوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ امیر خسرو نے یہ تمام مثنویاں تعمیل ارشاد کے طور پر تصنیف کی تھیں۔ مثلاً مثنوی ’قران السعدین‘ کے بارے میں خسرو نے خود ہی لکھا ہے کہ ان کے اودھ سے لوٹنے کے بعد سلطان معزالدین کیقباد نے انہیں اپنے دربار میں طلب کیا اور اودھ میں سر جو ندی کے کنارے بغرا خاں (پدر کیقباد) کے ساتھ اپنی یادگار ملاقات کے حالات و واقعات کو شاعری کے پیرائے میں پیش کرنے کی فرمائش کی۔ مثنوی دول رانی خضر خان کی تصنیف کے پس پشت شہزادہ خضر خان کی خواہش کا ر فرماتھی، جس کا اظہار خود شہزادے نے امیر خسرو سے کیا تھا۔ اس نے اپنی روداد عشق نہ صرف یہ کہ اپنی زبانی خسرو کو سنائی تھی بلکہ نثری مسودے کی شکل میں لکھ کر بھی دی تھی۔ اسی طرح مثنوی ’’تغلق نامہ‘‘ سلطان غیاث الدین تغلق کی فرمائش پر تصنیف کی گئی تھی اور مثنوی ’نہ سپہر‘ سلطان قطب الدین مبارک شاہ خلجی کے حکم پر لکھی گئی تھی۔

امیر خسرو نے مختلف تصانیف میں خود اپنے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن انہوں نے تاریخ نویسی سے اپنی دلچسپی کا اظہار کہیں نہیں کیا۔ اسی طرح انہوں نے کبھی مورخ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔سید حسن عسکری کے بقول امیر خسرو

’’تاریخ سے کوئی خاص لگائو نہیں تھا۔ مذہب، فن اور ادب کا شوق، حسن کی تلاش، اور اپنی مالی ضروریات جائز طور سے پوری کرنا ان کے مقاصد خاص تھے۔ اس بات کا پورا امکان تھا کہ اپنی پرورش اور سماج میں اپنے مقام کی بنا پر وہ اس زمانے کی سیاست میں ملوث ہوجاتے لیکن نظام الدین اولیا کے ایک مشہور شاگرد اور صوفی ہونے کے باعث وہ اس اعتبار سے دنیا کے اندر بھی تھے اور باہر بھی کہ ہر چند انھیں روزی کمانے کے لیے ادبی کاروبار کا سہارا لینا پڑا۔ لیکن میدانِ مذہب و سیاست کے نشیب و فراز سے پیدا ہونے والی نزاعی صورتوں اور مسئلوںسے انہوں نے خود کو علاحدہ رکھا۔ وہ ذہین اور صاحب علم تھے اور ان میں یہ لیاقت تھی کہ تاریخی موضوعات پر تاریخ وار اور تنقیدی بحث کرسکیں۔ ماضی کا ایک مربوط اور باقاعدہ حال لکھ سکیں۔ لیکن امیر خسرو کی نظر میں تاریخ صرف عصری تاریخ تھی اوران پر ادبی کارنامے انجام دینے کا جو غلبہ طاری تھا وہ اس سے کبھی پیچھا نہ چھڑا سکے۔‘‘1؎

امیر خسرو کا ایک ہم عصر مورخ ضیاء الدین برنی، جسے عہد سلطنت کا سب سے بڑا اور اہم مورخ تسلیم کیا جاتا ہے، اپنی شاہ کار تصنیف ’تاریخ فیروز شاہی‘ میں امیر خسرو کو بطور سند پیش کرتا ہے۔ برنی کے بعد کے تمام مورخین جن میں ابوالقاسم ہندو شاہ فرشتہ، ملا عبدلقادر بدایونی اورپھر ایلیٹ وڈاوسن وغیرہ سے لے کر دور حاضر کے تمام اہم مورخین عہد وسطیٰ کی تاریخ کے معتبر حوالوں کی حیثیت سے امیر خسرو کی ان مثنویوں سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ اس طور پر آج سے سات سو سال پہلے لکھی ہوئی یہ مثنویاں آج بھی اپنی معنویت رکھتی ہیں۔

قران السعدین‘ امیر خسرو کی پہلی طویل مثنوی ہے، جسے کئی لحاظ سے اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ مثلاً یہ امیر خسرو کی اولین مستقل تصنیف ہے۔ کسی تاریخی موضوع پر یہ ان کی اولین طبع آزمائی کا نتیجہ ہے۔ یہ فارسی زبان میں تصنیف کی جانے والی ایسی پہلی مثنوی ہے جس کی اساس کسی مشہور، بڑے یا باقاعدہ قصے پر نہیں بلکہ ایک غیر دلچسپ تاریخی واقعے پر رکھی گئی اور یہ بھی کہ مذکورہ مثنوی کو کسی سلطان کی فرمائش پر لکھی جانے والی امیر خسرو کی اولین تصنیف کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے پہلے دہلی دربار سے ان کا راست تعلق کبھی نہ رہا تھا جب کہ اس کی خواہش ان کے دل میں یقینا موجود رہی ہوگی۔

دلی دربار میں ایک شاعر کی حیثیت سے مقام حاصل کرنے کی خواہش امیر خسرو کے دل میں عہد نوجوانی سے رہی ہوگی (انھوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے قصیدے بھی لکھے تھے جو ان کے دیوان اول تحفۃ الصغر میں موجود ہیں)۔ لیکن ان کی یہ خواہش بلبن کے جانشین معز الدین کیقباد کے عہد حکومت میں پوری ہوئی۔ اودھ میں سر جوندی کے کنارے جب گورنر بنگال بغرا خاں اور اس کے فرزند کیقباد سلطان دہلی کی تاریخی ملاقات ہوئی اور باپ بیٹے کے درمیان ایک ممکنہ جنگ صلح و آشتی میں تبدیل ہوئی اس وقت خسرو اپنے ولی نعمت حاتم خاں کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔ سرجو ندی کے ایک کنارے پر نصب بغرا خاں کے اور دوسرے پر سلطان کیقباد کے خیمے اور ان کے درمیان پیغام رسانی کی غرض سے آتی جاتی کشتیاں بھی خسرو نے یقینا دیکھی تھیں۔ انجام کار باپ بیٹوں کے درمیان ہونے والی صلح کی تفصیلات سے بھی وہ کسی قدر واقف تھے۔ لہٰذا دہلی آنے کے بعد جب نوجوان سلطان کیقباد نے انہیں اپنے دربار میں طلب کرکے اس واقعے کو موضوع تصنیف بنانے کی بابت کہا تو خسرو نے اسے اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کا ایک سنہرا موقع تصور کرتے ہوئے تعمیل ارشاد میں ایک مثنوی لکھنی شروع کی اور اس کی تکمیل کے لیے اپنی تمام تر شاعرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر صرف تین مہینوں کی مختصر مدت میں اس کام کو پورا کر دکھایا۔ علم نجوم سے دلچسپی کی بنیاد پر انھوں نے اپنی اس مثنوی کو ’قران السعدین‘ عنوان سے موسوم کیا جو کہ معنوی لحاظ سے بھی اس تصنیف کا موزوں ترین عنوان ہے۔

(اہل نجوم کے نزدیک مشتری اور زہرہ دونوں مبارک سیارے ہیں۔ اول الذکر کو سعد اکبر اور موخرالذکر کو سعداصغر قرار دیا جاتا ہے۔ ان دونوں کے قران کو قران السعدین سے موسوم کیا جاتا ہے)۔

امیر خسرو مثنوی ’قران السعدین ‘لکھتے وقت ایک مورخ کے نہیں بلکہ شاعر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ لہٰذا انھوں نے تمام واقعات کی صداقتوں اور ان کی جزئیات پر خصوصی توجہ صرف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس وقت ان کے ذہن میں صرف دو ہی باتیں رہی ہوں گی، ایک تو یہ کہ انھیں سلطان کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اور دوسری یہ کہ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو منوانے کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ یہ واقعہ مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

’’اودھ میں سر جو ندی کے ایک کنارے بغرا خاں اور دوسری جانب کیقباد مع اپنے لشکر کے خیمہ زن ہوئے۔ …باپ بیٹے میں ملاقات ہوئی۔ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا غبار صاف ہوگیا۔ بغرا خاں نے بیٹے کو از راہ دلسوزی بہت سی نصیحتیں کیں اور امور سلطنت پر توجہ دینے کی تلقین کی…۔ چند دن ندی کے کنارے قیام کرنے کے بعد بغرا خاں لکھنوتی (بنگال) کو واپس چلاگیااور کیقباد نے دلی کی جانب کوچ کیا۔‘‘2؎

پدروپسر کی ملاقات، غلط فہمیوں کا ازالہ اور انجام کار صلح، صرف اتنی سی بات کو کسی مستقل تصنیف کا موضوع بنالینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ خسرو کی آزمائش کا موقع تھا جسے خسرو نے ایک چیلنج کی صورت قبول کیا اور نظامی گنجوی کی مثنوی ’مخزن الاسرار‘ والی رواں دواں بحر میں تین ہزار سے زیادہ اشعار لکھ کر ’قران السعدین‘ مکمل کر ڈالی۔ مذکورہ مثنوی کے دستیاب مخطوطات میں پائے جانے والے اشعار کی تعداد3944 ہے۔ اس کا باعث یہ ہے کہ تصنیف کے چند سال بعد خسرو نے اس پر نظر ثانی کرکے اس میں کچھ اضافے کردیے تھے۔

مثنوی ’قران السعدین‘ میں بیان کردہ واقعات کی جائے وقوع اگر چہ اودھ ہے، جہاں سرجو ندی کے کنارے تمام واقعات درپیش آئے لیکن خسرو کی مثنوی میں اودھ بہت ہی کم اور شہر دہلی زیادہ سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے اس کے لیے خسرو نے جابہ جا مواقع نکال لیے ہیں۔ شہر دہلی، قلعہ و حصار دہلی و عمارات دہلی، جامع مسجد، قطب مینار، حوض شمسی، کیلو کھری اور اس کا قصر نو، باشندگان دہلی، بتان دہلی، علم و ہنر، جامعہ ہندی، بیرۂ تنبول، بہار و گل اور میوہ ہائے دہلی، آب و ہوائے دہلی، آرائش دربار شاہی، چترہائے رنگین، رایت لعل و سیاہ، جشن نو روز اور الوانِ نعم برمائدہ سلطان ہند وغیرہ کے بارے میں خسرو کی وصف نگاری اپنی مثال آپ ہی ہوسکتی ہے۔ امیر خسرو کے یہ قلمی مرقعے ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی تہذیب وتمدن کی تاریخ میں بھی بڑی اہمیت رکھتے  ہیں۔ خواجہ عبدالحمید یزدانی کے مطابق

’’کیقباد کے جشن نوروز کی منظر کشی سے اس کے دربار کے تمدن کا پتہ چلتا ہے۔ اسی موقع پر قسم قسم کی زینت و آرائش کی گئی ہے۔ دریا کے بیچ میں زر و جواہر سے ایک مصنوعی چمن بنایا گیا تھا۔ مصنوعی درختوں کی شاخوں میں پھل اس طرح لٹک رہے تھے جیسے وہ ابھی ٹپک پڑیں گے۔ ان میں چڑیاں ایسی دکھائی دیتی تھیں گویا اڑنے ہی والی ہیں۔ باپ سے بیٹے کی ملاقات پر بے شمار کھانے اور حلوے، نان تنک، نان تنوری، کاک وغیرہ مختلف جانوروں کا گوشت، کئی قسموں کے پلائو جن میں سے ایک میں خرمے اور انگور پڑے تھے، دسترخوان پر سجائے گئے۔ باپ بیٹوں میں تحفوں کا جو تبادلہ ہوا ان میں مشک ختن، صندل خالص، عنبر، قرنفل، کافور، زرو جواہر، ہاتھی گھوڑے، تیرو کمان وغیرہ بھی تھے۔ لباس میں بعض کپڑے اتنے باریک تھے کہ پہننے پر جسم نظر آتا تھا اور بعض ایسے بھی تھے جن کو لپیٹو تو انگلیوں کے ناخن میں آجائیں اور کھولو تو بڑا تھان بن جائے۔‘‘ (ماخوذ از قران السعدین)3؎

مثنوی ’قران السعدین‘ 688ھ؍ 1289 میں سلطان معز الدین کیقباد کے حضور میں پیش کی گئی تھی۔ یہ مثنوی اپنی گوناگوں خصوصیات اور انفرادیت کی بنیاد پر نہ صرف فارسی شعرو ادب میں اپنی اہمیت رکھتی ہے بلکہ ہندوستان کے عہدوسطیٰ کی تاریخ کے چند گوشوں کو منور کرتی ہے اور اس عہد کے تہذیب وتمدن کی تاریخ کا ایک اہم اور بیش قیمت ماخذ بنتی ہے۔

مفتاح الفتوح‘ سلطان جلال الدین فیروز خلجی کے عہد میں تصنیف کی گئی امیر خسرو کی ایک یادگار مثنوی ہے۔ اس مثنوی میں سلطان مذکور کی چار فتوحات بیان کی گئی ہیں۔ لہٰذا اس کا شمار امیر خسرو کی تاریخی مثنویوں میں کیا جاتا ہے۔ اس مثنوی کے مختصر ہونے کے باعث مصنف نے اسے اپنی مستقل تصنیف کی حیثیت سے علاحدہ رکھنے کی بجائے دیوان ’غرۃ الکمال‘ میں شامل کیا ہے۔

سلطان مذکور کو اپنی تخت نشینی کے بعد سب سے پہلے تو ملک چھجو اور اس کے حلیفوں کے ساتھ نبرد آزما ہونا پڑا تھا جو بلبن کا بھتیجا اور قدیم شاہی خاندان کا سردار تھا۔ سلطان جلال الدین فیروز نے اسے کڑا کا گورنر مقرر کیا تھا۔ لیکن اس نے سلطان کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ اس بغاوت کو فرو کرنے کے بعد اس نے اودھ میں ایک اور معرکہ سر کیا۔ بعد ازاں اسے منگولوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا جس کی قیادت عبداللہ نامی ایک منگول کررہا تھا لیکن منگول چند روزہ جھڑپوں کے بعد خلجی سلطان کے لشکر کو حاوی محسوس کرتے ہی وہاں سے کوچ کر گئے۔

اور پھر جھائن کی مہم درپیش آئی۔ بہادر سلطان کی فوجوں نے یہ مرحلہ اتنی آسانی سے سر کرلیا کہ جھائن کے خلاف پوری کارروائی میں بقول امیر خسرو صرف ایک ترک سپاہی زخمی ہوا اور غنیم کے لشکر کے لاتعداد سپاہی مارے گئے۔

سلطان کے ندیم اور مقرب کی حیثیت سے امیر خسرو کی ان چاروں مہموں سے گہری واقفیت حاصل رہی، لہٰذا ’مفتاح الفتوح‘ میں بیان کردہ واقعات کی صداقت کو کسی بھی قسم کے شک و شبہے سے بالاتر سمجھنا چاہیے۔ اس ضمن میں خود امیر خسرو کا یہ بیان بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے

’’جب میں نے اس مثنوی کو شروع کیا اور اپنے قلم کو لکھنے کے لیے تیار کیا تو میں نے کسی حد تک اسے مرصع ضرور کیا کیونکہ شاعرانہ کلام کے لیے یہ چیز ضروری ہے۔ لیکن جب میں نے کسی ایسی چیز کو اس میں شامل کرنے کا قصد کیا جو واقعے سے بعید تھی تو سچائی نے آکرمیر ا ہاتھ روک دیا۔ خود میرے نفس نے بھی یہ پسند نہیں کیا کہ سچ کے ساتھ جھوٹ کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ مبالغے سے اگر چہ دلفریبی پیدا کی جاسکتی ہے تاہم سچ بھی خاصی دلچسپی رکھتا ہے۔ ‘‘4؎

مثنوی ’مفتاح الفتوح‘ فیروز خلجی کے عہد میں 2جمادی الثانی 690؍2 جون 1291 میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس میں سلطان کی تخت نشینی اور اس کی ابتدائی مہمات سے متعلق ایسی نادر معلومات موجود ہیں جو اور کہیں نہیں ملتیں۔ اس مثنوی کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ صنائع بدائع سے معریٰ ہے اور اس کی زبان نہایت سلیس وسادہ ہے۔ واقعات کے بیان میں بھی شاعرانہ مبالغے سے گریز کا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔

اس مثنوی کی تصنیف کے دوران امیر خسرو کے لیے ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں وہ ذاتی طور پر جذباتی کشمکش سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکے ہوں گے۔ یہ وہ مقام ہے جب کڑا کی بغاوت فرو ہونے کے بعد امیر خسرو کا پہلا مربی اور ولی نعمت ملک اختیار الدین کشاو خاں (عرف ملک چھجو) ایک باغی کی حیثیت سے گرفتار کر کے جلال الدین خلجی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور بادشاہ کے قریب ہی امیر خسرو کھڑے اسے دیکھتے ہیں۔ اس موقع پر خسرو کا جذبہ مروت ابھر آتا ہے اور انھوں نے اس موقع پر سلطان کے اس دشمن کی مذمت اور لعن طعن سے گریز کرتے ہوئے محض ’چھجوے بد عہد‘ لکھنے پراکتفا کیا ہے۔

مفتاح الفتوح‘ حالانکہ طویل مثنوی نہیں ہے اور اس میں خسرو نے زیادہ تفصیلات بیان کرنے سے شاید عمداً گریز کیا ہے لیکن کچھ خاص موقعوں پر ضروری تفصیلات بھی نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کی ہیں۔ مثال کے طور پر مثنوی کا یہ حصہ دیکھیے۔ جب سلطان (جلال الدین فیروز خلجی) ملک چھجو کی بغاوت کی خبر ملنے کے بعد اس کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوتا ہے

’’اس کے ساتھ اس قدر جھنڈے اور علم تھے کہ ان کے سبب زمین پر دھوپ نہیں پڑتی تھی۔ خسرو نے ہتھیاروں اور دوسرے جنگی لوازمات کی بھی تفصیل دی ہے۔ مثلاً نیزہ، سنان، دمامہ، کاسہ روئیں، جھنڈوں کی مختلف اقسام، علم، بیرق، رایتہ، پرچم، ہاتھیوں کی عماریاں سنہری ہونے کے سبب بہت چمکتی تھیں۔ لڑائی کے وقت کون کون سے سردار کس کس کے پہلو پر متعین ہوئے، اس کی بھی تفصیل دی ہے، مثلاً قلب لشکر پر ارکلک خان، میمنہ پر مبارک باربک، میسرہ پرملک محمود، بائیں جانب ملک فخر، دائیں طرف احمد چپ وغیرہ۔ سلطان جلال الدین فح کے بعد لکھنوتی کی طرف بڑھا تو راستے کو ڈاکوئوں سے صاف کردیا جو ڈاکو پکڑے گئے انہیں درختوں کی شاخوں سے لٹکا دیا۔ سلطان مہموں پر جاتے ہوئے راستے میں شیروں کا شکار بھی کھیلتا رہا، اور اس نے بے شمار شیر مار ڈالے۔‘‘5؎

اب یہ منظر بھی دیکھیے جس میں خسرو نے سلطان کے دشمن کی رہائش گاہ پیش کرتے ہوئے گویا اس کے ذوق جمال کو سراہا ہے

’’راجہ کا خلوت خانہ اس قدر عالی شان تھا کہ معلوم ہوتا تھا جیسے پتھروں میں سے باغ اگا ہوا ہو۔ دیوار کا گچ اس قدر شفاف تھا کہ آئینہ معلوم ہوتا تھا۔ تمام لکڑی خالص عود کی تھی اور کہگل پسے ہوئے صندل سے تیار کی گئی تھی۔ نفیس قسم کے پتھروں سے ایسے ایسے بت بنائے گئے تھے جو موم کے معلوم ہوتے تھے اور جنہیں دیکھ کر انسان محو حیرت ہوجاتا تھا۔ ‘‘6؎

مثنوی ’دول رانی خضر خاں

مثنوی ’دول رانی خضر خاں‘ بھی امیر خسرو کی تاریخی مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ مثنوی سلطان علاء الدین خلجی کے خلف شہزادہ خضر خان اور گجرات کے راجہ کرن کی بیٹی دیول دئی کے عشق کی نیم تاریخی رومانی داستان ہے جو شہزادہ خضر خان کی خواہش وفرمائش پر 715ھ ؍1315 میں لکھی گئی تھی۔ صرف چار مہینے اور چند دنوں کی مدت میں تصنیف کی گئی یہ مثنوی پہلے 4200اشعار پر مشتمل تھی جس کا اختتام خضر خاں اور دیول دئی کی شادی پر ہوا تھا، لیکن اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ شہزادہ خضر خاں بدقسمتی سے اپنے دشمنوں کی ایک مکروہ سازش کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں اسے گرفتار کرکے قلعہ گوالیر میں لے جا کر قید کردیا گیا۔ اس کی آنکھیں نکال لی گئیںاور کچھ عرصے بعد اسے قتل کردیا گیا۔

خضر خان دراصل ولی عہد سلطنت تھا اور سب اسے دہلی کے ہونے والے سلطان کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ یہی حیثیت اس کے الم ناک انجام کا سبب بن گئی۔ 7؎

شہزادہ خضر خاں سے امیر خسرو کے نہایت خوش گوار مراسم تھے۔ شہزادہ بھی انہیں عزیز رکھتا تھا۔ خسرو نے اس مثنوی کا سبب تالیف یہ بتایا ہے کہ ایک دن شہزادہ خضر خان نے اسے اپنے یہاں بلایا۔ خلوت میں بیٹھ کر انہیں اپنے عشق کی داستان سنائی اور اسے شعری پیرائے میں بیان کرنے کی فرمائش کی جو خسرو نے قبول کرلی۔ خضر خاں نے اپنی ایک کنیز کے ذریعے چند صفحات کو اغذ منگوا کر امیر خسرو کے سپرد کردیے جن میں غالباً خود اس نے اپنی داستان عشق پہلے سے نثر میں قلمبند کررکھی تھی۔ امیر خسرو وہ مسودہ لے کر اپنے گھر چلے آئے اور پھر اس کی بنیاد پر مثنوی ’دول رانی خضر خاں‘ کی تصنیف کا کام شروع کیا۔

تاریخ وتذکرہ وغیرہ کی اکثر کتابوں میں اس مثنوی کو مختلف ناموں، مثلاً عشقیہ، عشیقہ، عاشقیہ، اور عاشیقہ وغیرہ سے موسوم کیا گیا ہے۔ یوروپین مستشرقین بھی عموماً یہی نام استعمال کرتے رہے ہیں۔ ’تاریخ فرشتہ‘ میں اس کا نام ’خضر خانی ودول رانی‘ مرقوم ہے جب کہ اس کا صحیح عنوان ’دول رانی خضر خاں‘ ہے۔ شہزادہ خضر خاں سے شادی کے بعد دیول دئی کا دول رانی بن جانا تو خیر سامنے کی بات ہے لیکن دلورانی سے دول رانی بن جانا محض ضرورت شعری کا اعجاز ہے۔ اس میں تعریف یا تحسین کے عمل کا کوئی دخل نہیں ہے۔

یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ امیر خسرو نے صرف چار ماہ اور چند دنوں کی کاوش سے 715 ہجری میں یہ مثنوی مکمل کرلی تھی جو 4200 اشعار پر مشتمل تھی اور جس کا اختتام طالب ومطلوب کی شادی پر ہوا تھا۔ حالات زمانہ کے ہاتھوں ہوا یوں کہ یہ طربیہ ایک زبردست المیے میں تبدیل ہوگیا۔ خضر خاں کے قتل کے واقعے کے چند سال بعد خسرو نے اس مثنوی میں 319 اشعار کا اضافہ کیا۔ اس طرح مثنوی کے اشعار کی تعداد 4519 ہوگئی۔ اس ضمن میں امیر خسرو لکھتے ہیں       ؎

دگر دانندہ پرسد بہت چند است

درین نامہ کہ از عشق ارجمند است

غم خوبی نشاند بردل و جان

غم خوب دولرانی خضر خاں

چو باید برکشد این پردہ را کس

چہار الف است دریست این قدر بس

پس از خون شہیدان پر اندہ

نوشتم سہ صد و زان پس دہ ونہ

دگر بر راستی خواہی گو اخاست

شہید اینک گو ای می دہد راست

وگر زیر و زبر گردن ہمرہ

چہار الف است و پانصد با نہ ودہ

مثنوی ’دول رانی خضر خاں‘ بنیادی طور پر عشقیہ مثنوی ہونے کے باوجود شاہی خاندان کے افراد سے تعلق کی بنا پر اپنے عہد کی تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے۔ لہٰذا اس عہد سے متعلق ہر تاریخی کتاب میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ امیر خسرو نے اس مثنوی میں جو واقعات بیان کیے ہیں اور بعد میں جن اشعار کا اضافہ کیا ہے ان میں صحت واقعہ اور وضاحت بیان کا پورا خیال رکھا ہے۔ اسی وجہ سے بیشتر مورخین اس سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔

اس مثنوی کی ایک خصوصیت بقول ڈاکٹر نبی ہادی

 ’’یہ ہے کہ خسرو نے نئے سرے سے ہندوستان میں ترکوں کے اقتدار کا جائزہ لیا ہے اور سلطان معز الدین محمد غوری کے وقت سے لے کر علاء الدین خلجی کے زمانے تک جو واقعات پیش آئے تھے ان کی ایک اجمالی تصویر کھینچ دی ہے۔ ‘‘8؎

مثنوی ’دول رانی خضر خاں‘ اگر چہ فارسی زبان میں لکھی گئی ہے لیکن اپنے مخصوص موضوع کی وجہ سے اس میں ہندوی الفاظ کی شمولیت بھی ناگزیر تھی جن سے مصنف کو تعلق خاص رہا ہے۔ مثنوی میں ہندوی الفاظ کا استعمال اس کے عنوان سے ہی نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں خود خسرو نے بھی لکھا ہے کہ

’’خضر خاںنے جو مسودہ اپنی داستان کا انہیں دیا تھا اس میں بہت زیادہ ہندی الفاظ تھے۔ ان سب کو فارسی نظم میں نباہنا مشکل تھا۔ اس لیے بہت سے الفاظ مثلاً سنگھاسن، دیوگیری، بعض سازوں اور پھولوں وغیرہ کا نام ہندی شکل ہی میں موجود ہے۔ ‘‘9؎

مثنوی نہ سپہر

سلطان علاء الدین خلجی کے عہد حکومت کے آخری ایام دہلی سلطنت پر بڑے سخت گزرے کیونکہ اس زمانے میں سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ جس کے نتیجے میں سلطان کو اس کے بڑے بیٹے شہزادہ خضر خاں سے متنفر کراکے قلعہ گوالیار میں قید کرادیا گیا اور تاج سلطانی اس کے دوسرے بیٹے قطب الدین مبارک شاہ خلجی کے سر آگیا۔ یہ واقعہ 18 اپریل 1316 کا ہے جب مبارک شاہ کی تخت نشینی عمل میں آئی۔ یہ نوجوان سلطان شعرو ادب کا بڑا شائق تھا۔ اپنے دور کے واقعات کو پیرایہ نظم میں لکھوانے کے لیے اس کی نظر انتخاب امیرخسرو پر پڑی۔ وحید مرزا کے مطابق

’’ایک روز مبارک شاہ نے خسرو سے کہا کہ قدیم بادشاہوں میں کسی نے سعدی کی سرپرستی کی اور کسی نے سنائی کی۔ درحقیقت شاہی سرپرستی ہی سے بڑا شاعر ظہور میں آتا ہے لیکن ہم بھی ان بادشاہوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ ہم نے لوگوں کو دس بیس لاکھ انعام میں دیے ہیں۔ ہمارے والد اپنے غلاموں کو سیکڑوں تنکے دیتے تھے۔ ہم انھیں ہزاروں دیتے ہیں پھر بھی ہم کو تسلی نہیں ہوتی۔ لیکن کوئی شاعر ہمارے دور کی تاریخ نظم کر دے تو ہم اسے ہاتھی کے (وزن کے) برابر تول کر سونا دیں گے۔ ‘‘10؎

اس وقت امیر خسرو کی عمر ساٹھ برس سے تجاوز کر رہی تھی۔ لیکن ان کی تخلیقی صلاحیتیں اس عمر میں بھی شباب پر تھیں۔ انھوں نے سلطان کی فرمائش پر ایک مثنوی لکھنے کا آغاز کیا۔ یہ مثنوی جمادی الاولیٰ 718ہجری؍ جولائی 1318 میں مکمل ہوئی جب خسرو ترسٹھ برس کے ہوچکے تھے۔ اس مثنوی کو ’نہ سپہر‘ عنوان دیاگیا۔

زمانہ قدیم سے عام طور پر تعدادِ سپہر سات مانی جاتی ہے لیکن بعض علمائے فلکیات خلا اور ماورائے خلا کو بھی سپہر تسلیم کرکے ان کی تعداد نو بتاتے ہیں۔ امیر خسرو نے اہل نجوم کی اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اپنی مثنوی کو ’نہ سپہر‘ عنوان دیا۔

دوسری مثنویات کی بہ نسبت اس مثنوی میں تاریخی حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب و معاشرت کے بے مثال مرقعے ملتے ہیں جو عہد خسرو کے ہندوستان کی ایک واضح شناخت پیش کرتے ہیں۔ اس مثنوی کو امیر خسرو نے سپہروں کے لحاظ سے 9 حصوں میں تقسیم کرکے لکھا ہے۔

پہلے سپہر میں حسب روایت ودستور حمد باری، نعت رسول، منقبت مرشد اور پھر مدح سلطان ہے۔ اس کے بعد قطب الدین مبارک شاہ کی تخت نشینی کا بیان پھر مثنوی لکھنے کی وجہ اور اسے سلطان کی نذر کرتے وقت تخت شاہی کے سامنے پیش کیا جانے والا خطابیہ کلام وغیرہ ہے۔ اسی باب میں شاہی لشکر کا فتوحات کے لیے دلی سے روانہ ہونے اور راگھورائو کے کوٹ پر حملے کے لیے فرمان شاہی کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔

دوسرے سپہر میں دارالخلافہ میں مسجد جامع کی تعمیر، مظفرخاں کی روانگی، فتوحات کے بعد لشکر شاہی کا تلنگانہ میں داخلہ اور قلعے کا محاصرہ، صلح کی گفتگو کے لیے قاصدوں کا آنا، فتوحات کے بعد پایہ تخت کی طرف مراجعت کے واقعات نظم کیے گئے ہیں۔

تیسرے سپہر میں وہ علمی دلائل پیش کیے گئے ہیں جن کی بنیادوں پر ہندوستان مثل بہشت ثابت ہوتا ہے۔ ہندوستان کی دیگر ممالک پر فوقیت سے متعلق استدلال اہل ہند کے امتیازات، زبان ہند کی خوبیاں، ہندوستانی جانوروں کے حسیات عقلی، مردوں کو جلانے کی رسم، ہرپال کی سیاست، تلنگانہ کے دو سو ہاتھیوں کا نربدا کو پار کرکے آنا وغیرہ۔

چوتھے سپہر میں امیر خسرو نے نجوم سے متعلق اپنے علم و فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مشتری کو سعادتوں کی تلاش رہتی ہے۔ ساتھ ہی یہ سوال اٹھا کر سلطان کو نصیحت کون کرسکتا ہے؟ کمال فنکاری سے سلطان کو پند ونصائح کیے ہیں۔ رعایا پروری کے حق میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے عدل و انصاف کی تشریح کی ہے، سرداروں، سپہ سالاروں، لشکریوں اور عوام وخواص کو بھی مفید نصیحتیں کی ہیں۔

پانچویں سپہر میں بادشاہ کی شکار بازی کا تفصیلی ذکر ہے۔ شکار گاہ کے علم کی جنبش کا فنکارانہ بیان ہے۔ اسی باب میں سلطان قطب الدین مبارک شاہ کی مدح میں مکالمہ تیروکمان بھی ہے یہ حصہ کافی طویل مگر دلچسپ ہے اور شاعر کی ذہانت اور شاعرانہ صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہے۔

چھٹے سپہر میں شہزادہ محمد کی ولادت کی گھڑی کی تصویر کشی کی گئی ہے جس میں زائچے بنائے جاتے ہیں، فال نکالی جاتی ہے۔ اس باب میں بھی امیر خسرو نے علم نجوم سے متعلق اپنی گہری واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔

ساتویں سپہر میں مشک بو نوروز کے موسم اور بہار کی تعریف و توصیف ہے۔ قبہ کے کھیل کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ دیوگیر کی پریوں اور قندھار کی محبوبائوں کا ذکر ہے۔ شہزادہ محمد کی ولادت پر جشن نشاط کا بیان اس باب کی جان ہے۔

آٹھویں سپہر میں سلطان قطب الدین مبارک شاہ کی گیند بازی کی خوب تعریف کی گئی ہے۔ گیند کی غزل سرائی بھی ہے اور سوال و جواب کی شکل میں مکالمہ گیند و چوگان پیش کیا گیا ہے۔

نویں اور آخری سپہر میں آسمان کی منظر نگاری، شعرائے دہلی کی اور خود اپنی تعریف وتوصیف اور مثنوی کی تعریف ہے۔ کتاب کے خاتمے پر کہا گیا ہے کہ اس باغ میں مجھ سے پھول کم کھلے ہیں اور کانٹے زیادہ۔

اگر ایک تاریخی مثنوی کے طور پر ’نہ سپہر‘ کا جائزہ لیا جائے تو قطب الدین مبارک شاہ کی تخت نشینی کا ماجرا، دہلی میں مسجد جامع اور قصر نو کی تعمیر، لشکر سلطان کا فتوحات کی خاطر دہلی سے کوچ، راگھورائو کے کوٹ پر حملہ، لشکر کا تلنگانہ میں داخلہ، قلعے کا محاصرہ، انہدام قلعہ کی تیاریاں، صلح کی غرض سے قاصدوں کی آمد، فتوحات کے بعد پایہ تخت کی طرف مراجعت وغیرہ سے متعلق حالات و واقعات کی صحیح منظر کشی امیر خسرو کی اس مثنوی کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی اور یہی وہ خصوصیت ہے جس کی بنیاد پر ’نہ سپہر‘ کو ایک اہم تاریخی مثنوی قرار دیا جاتا ہے۔

تغلق نامہ

سلطان قطب الدین مبارک شاہ کے سفاکانہ قتل کے بعد دہلی پر ایک مختصر عرصے تک خسرو خاں کا تسلط رہا۔ غازی ملک تغلق شاہ اسے کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد سلطان غیاث الدین تغلق نام سے سریر آرائے سلطنت ہوا۔

مثنوی ’تغلق نامہ‘ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، امیر خسرو کی ایک تایخی مثنوی ہے۔ خسر و نے اس کے ابتدائی اشعار میں یہ اطلاع دی ہے کہ انھوں نے یہ مثنوی سلطان غیاث الدین تغلق شاہ کے ارشاد کی تعمیل میں تصنیف کی ہے۔ مثنوی کے دستیاب مخطوطے کے آخری صفحات موجود نہ ہونے کے باعث قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مثنوی کب لکھی گئی تھی اور بہ حیثیت مجموعی کتنے ابیات پر مشتمل تھی۔ صاحب کشف الظنون حاجی خلیفہ اور ملا عبدالقادر بدایونی کا خیال ہے کہ یہ مثنوی امیر خسرو کی آخری تصنیف ہے۔ بلکہ اول الذکر نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس تصنیف کی تکمیل سے پہلے ہی خسرو کی وفات ہوگئی تھی۔ 11؎

تغلق نامہ‘ کا مخطوطہ ایک زمانے تک محققین کی نظروں سے اوجھل رہا۔ مشہور انگریز مورخ سرہنری ایلیٹ بھی اس کی تلاش میں ناکام رہے۔ 1914 میں جب نواب محمد اسحاق خاں مرحوم نے کلیات خسرو کی تلاش اور طبع کا وسیع پیمانے پر اہتمام کیا تو اس وقت بھی ہندوستان یا بیرونی ممالک کے کسی مشہور کتب خانے میں اس کتاب کا پتہ نہیں چلا اور یہ محض اتفاق تھا کہ یہ مثنوی مولانا حبیب الرحمان خاں شیروانی رئیس حبیب گنج کے ذاتی کتب خانے سے ’جہانگیرنامہ‘ کے نام سے برآمد ہوئی۔ دنیائے ادب کو مولانا رشید احمد انصاری مرحوم کا احسان مند ہونا چاہیے جنھوں نے بہت جلد معلوم کرلیا کہ حیاتی کاشی کی تمہید کے ساتھ اصلی ’تغلق نامہ‘ یہی ہے۔ پھر انھوں نے شیروانی صاحب کے نسخے کی اپنے قلم سے نقل کی اور اس پر ایک مقدمہ بھی تحریر کیا جو پورابھی نہ ہونے پایا تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ 12؎

رشید احمد انصاری مرحوم کے نقل کردہ نسخے مثنوی ’تغلق نامہ‘ کی طباعت و اشاعت 1933 میں عمل میں آئی۔ اس کی تدوین سید ہاشمی فرید آبادی نے کی ہے۔ موصوف نے اس پر ایک مبسوط دیباچہ بھی لکھا ہے۔ اس نایاب مخطوطے کی دریافت اور اشاعت کے بعد ہندوستان کے دور وسطیٰ کے مورخین نے اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس کی طرف متوجہ ہونے والے مورخین میں محمد حبیب اور خلیق احمد نظامی کے نام سرفہرست ہیں۔ ان سے پہلے دور وسطیٰ کے کسی بھی مورخ کا تغلق نامہ سے استفادے کا ثبوت نہیں ملتا۔13؎

اس مثنوی کے مرتب اور دیباچہ نگار سید ہاشمی فریدآبادی کے مطابق ’تغلق نامہ‘ میں

’’کلام کی استادانہ پختگی اور بیان کی حیرت انگیز قوت و قدرت ہرورق سے نمایاں ہے۔ تاریخی جزئیات کی صحت کا پاس ہرداستان سے آشکارا ہے اور یہ وہ داخلی خصوصیت ہے جس کے متعلق یہ دعویٰ بالکل بجا ہوگا کہ شاید دنیا کی کسی قوم نے ایسا شاعر نہیں پیدا کیا جس نے طویل اور اہم تاریخی واقعات کو شاعرانہ حسن گفتار کے ساتھ اتنی صحت سے نظم کا جامہ پہنایا ہو۔ ’’تغلق نامہ‘‘ میں شاعرانہ رنگینیاں کم ہیں۔ صنائع بدائع جن میں امیر خسرو کو بڑی مہارت حاصل ہے اور اس کی مثالیں اتفاقی طور پر کہیں کہیں نظر آتی ہیں اور مجموعی طور پر یہ مثنوی امیر خسرو کے بہترین ادبی یا شاعرانہ کارناموں میں شمار نہیں کی جاسکتی۔ یہ محض ایک بیش بہا بلند پایہ تاریخی نظم ہے۔‘‘14؎

سلطان قطب الدین مبارک شاہ کا سفاکانہ قتل، خاندان خلجی کی تباہی و بربادی، ناصرالدین خسرو خاں کا تخت دہلی پر تسلط، غازی ملک تغلق شاہ سے امرائے دہلی کی خط و کتابت، غازی ملک کا دیپالپور سے دہلی کی طرف کوچ، معرکہ دہلی، خسرو خاں کا اپنے حامی برادر ولشکریوں کے ساتھ جارحانہ حملہ اور پہلے معرکے میں فتحیابی، غازی ملک کا پسپائی کے بعد بھی ثابت قدمی سے ڈٹے رہنا اور صرف تین سو جاں باز سواروں کے ساتھ پامردی سے فتح حاصل کرنا، خسرو خاں کا راہِ فرار اختیار کرنا اور ایک ویرانے میں چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے جانا، تغلق شاہ کے سامنے پیش کیا جانا، اپنی صفائی میں بیان دینا اور پھر کیفر کردار تک پہنچایا جانا۔ امرائے دہلی کے اصرار پر غازی ملک کی تخت نشینی وغیرہ کا بیان ’تغلق نامہ‘ میں جتنی سچائی کے ساتھ ملتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔

ضیاء الدین برنی جیسے عہد وسطیٰ سے بڑا مورخ ہونے کاشرف حاصل ہے، اس عہد میں نہ صرف یہ کہ دہلی میں موجود تھا بلکہ یہ تمام حالات اور واقعات اس نے بھی بچشم خود مشاہدہ کیے تھے لیکن جتنی تفصیل وصداقت کے ساتھ خسرو نے اس دور کے حقائق کو شعری پیکروں میں پیش کردیا ہے اتنی تفصیل و صداقت کے ساتھ برنی نثر میں بھی قلمبند نہیں کرسکا۔ حتی کہ اس کی تصنیف ’تاریخ فیروز شاہی‘ عہدخلجی کے زوال اورتغلق شاہ کے طلوع کے اہم واقعات کی تاریخیں اور سنین بتانے سے قاصر ہے جب کہ ’تغلق نامہ‘ میں ان کا بالکل صحیح اندراج ملتا ہے۔

امیر خسرو کی دیگر تاریخی مثنویوں کے مقابلے میں تغلق نامہ کا اسلوب کسی قدر سادہ ہے۔ دوسری مثنویوں میں جہاں صنائع و بدائع وغیرہ کے فنکارانہ استعمال کے باعث حقائق شاعری کے پردوں میں مستور ہوجاتے ہیں وہاں اس مثنوی میں قدرے واضح نظر آتے ہیں۔ مصنف نے حسب عادت اس میں اہم اسما اور تاریخوں کے اندراج میں بھی محتاطی رویہ اختیار کیا ہے۔ سلطان قطب الدین مبارک شاہ کا قتل ہونا، غازی ملک تغلق شاہ کی تخت نشینی یا پھر اس کے فرزند (محمد بن تغلق) کا جلوس ان سب کی صحیح تاریخیں مع مہینہ اور دن وغیرہ کے علاوہ کئی اہم اطلاعات ہمیں تغلق نامہ کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتیں۔ اسی طرح امیر خسرو کے اس شعر      ؎

معظم غازیِ تغلق ترا نام

مغل ہمنام تغلق داشت از ایام

سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے ’تغلق‘ غازی ملک کا اسم خاندانی نہیں۔ سلطان محمد اپنے نام کے ساتھ لفظ ’تغلق‘ بطور ولدیت استعمال کرتا تھا (محمد بن تغلق) یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں اس خاندان کے کسی بھی فرد نے اپنے نام کے ساتھ لفظ تغلق استعمال نہیں کیا۔ 15؎

اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر مثنوی تغلق نامہ کا شمار امیر خسرو کی سب سے اچھی تاریخی مثنویوں میں کیا جاتا ہے جس سے عہد وسطیٰ کی تاریخ کے کئی اہم گوشے روشن ہیں۔

خزائن الفتوح ایک معتبر نثری تاریخی تصنیف

سلاطین دہلی میں علاء الدین خلجی کا عہد حکومت کئی لحاظ سے بے حد اہم اور شاندار رہا ہے۔ امیر خسرو کی نثری تصنیف ’خزائن الفتوح‘ اسی عہد کی سب سے معتبر تاریخ ہے جس میں علاء الدین کی تحت نشینی 695ھ ؍1295 سے 711ھ ؍1311 تک کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں خلجی سلطان کی شاندار فتوحات کے علاوہ اس کے انتظام حکومت کا بھی تفصیلی ذکر ملتا ہے۔

امیر خسرو اپنی ہر کتاب کا دیباچہ ضرور لکھتے تھے۔ ان کی بیشتر کتابوں کے دیباچے نہ صرف ان تصانیف بلکہ خود خسرو اور عہد خسرو سے متعلق بہت سی اہم اور بنیادی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ’خزائن الفتوح‘ پر بھی حسب معمول انھوں نے ایک دیباچہ تحریر کیا ہے جس میں مذکورہ کتاب کی وجہ تصنیف بھی بیان کی ہے۔ امیر خسرو لکھتے ہیں

’’اس بندۂ مسکین خسرو کی قسمت میں … یہ لکھاتھا کہ وہ اس کے (سلطان علاء الدین خلجی کے) عہد کی عظمت وشوکت کی ثنا خوانی کرے اور اس کے لیے خدا ئے تعالیٰ نے اپنے جود و کرم سے آسمان اور زمین کے سب خزانے اس کے لیے کھول دیے اور اسے ایسے جواہر بے بہا عطا کیے جو بحتری اور ابوتمام جیسے شاعروں کو بھی نصیب نہ ہوئے تھے۔ پھر بھی یہ گراں بہا موتی اس لائق نہ تھے کہ اس کے آستانِ فلک پر نچھاور کیے جاسکیں، لیکن چونکہ بازار فطرت میں ان سے بہتر متاع دستیاب نہ ہوسکتا تھا اس لیے مجبوراً مجھے ان موتیوں ہی کو پرو کر بادشاہ کے لیے تحفہ تیار کرنا پڑا اور اس امید میں اس کے آگے پیش کرتارہا کہ وہ چونکہ لطف و کرم کا دریا ہے ان کو قبول کرلے گا اور جب میں نے دیکھا کہ اس بندے کے کج مج الفاظ کو بادشاہ کی درگاہ میں قبول حاصل ہوا تو مجھے نظم کی طرح نثر میں بھی طبع آزمائی کا خیال آیا کہ شاید بادشاہ میرے کلام پر ایک نظر ڈالے جس طرح سورج سنگ قابل پر نظر ڈالتا ہے۔ اگر چہ میری قلم ہمیشہ نظم کے لیے وقف رہی ہے اور کبھی محاسن نثر کی طرف متوجہ نہیں ہوئی۔ میں اس عروس کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ‘‘16؎

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علاء الدین نے اپنے محسن ومربی اور مشفق چچاسلطان جلال الدین خلجی کو دھوکے سے قتل کرنے کے بعد تاج سلطانی اپنے سر پر رکھا تھا اور سریرآرائے سلطنت دہلی ہوا تھا۔ امیر خسرو نے اس ناگوار والم ناک واقعے سے مکمل طو رپر چشم پوشی کرکے اپنی تصنیف ’خزائن الفتوح‘ کا آغاز علاء الدین خلجی کی تخت نشینی کے دور سے کیا ہے۔ ویسے بھی یہ کتاب لکھنے کامقصد سلطان کی فتوحات کا بیان تھا جو خسرو نے بہ طریق احسن پورا کیا ہے۔ اسی موضوع کی مناسبت سے مذکورہ تصنیف میں سلطان علاء الدین کی اس یادگار تاریخی مہم کا بھی تفصیلی ذکر ملتا ہے جو اس نے اپنی تخت نشینی سے پہلے (جب وہ کٹرہ مانک پور کا حاکم تھا) سر کی تھی۔ بعد ازاں دہلی پر اس کی چڑھائی اور باقاعدہ تخت نشینی کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔

سلطان علاء الدین خلجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فتح و نصرت ہمیشہ اس کے قدم چومتی تھی۔ ’خزائن الفتوح‘ میں جیسا کہ اس تصنیف کے نام ہی سے ظاہر ہے امیر خسرو نے سلطان کی کئی فتوحات کے تفصیلی حالات قلمبند کیے ہیں جن میں مغلوں کے حملے اور ان کے ساتھ ہونے والی پہلی اور دوسری جنگوں میں لشکر سلطانی کی فتح یابی اور مغلوں کی پسپائی کے ذکر کے علاوہ تسخیر گجرات، محاصرۂ رنتھمبور، فتح مانڈو، چتوڑ کی فتح، راجپوتانہ، مالوہ، دیوگیر، ہسوانہ، ارنگل اور معبر وغیرہ پر حملوں اور فتوحات کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ دور وسطیٰ کے ایک مورخ تاج الدین عراقی نے بھی اس عہد کی ایک ضخیم تاریخ ’فتحنامہ‘ عنوان سے لکھی ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ لیکن ’خزائن الفتوح‘ کو اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر جو اہمیت حاصل ہے وہ عہد علائی میں لکھی گئی کسی دوسری تاریخ کو حاصل نہیں ہوسکی۔ امیر خسرو نے علاء الدین کی فتوحات کے ساتھ ساتھ اس کے انتظام سلطنت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اس کے بہترین نظم و نسق کو بھی خوب سراہا ہے کیونکہ ان کے نزدیک ایک اچھے انتظام کار کا درجہ فاتح سے برتر ہوتا ہے۔

علا ء الدین نے عوام کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے سلطنت کے نظم و نسق کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے نہایت کارگر اقدامات کیے، عدل و انصاف کے قیام پر خصوصی توجہ دی، عوام کی روز مرہ ضروریات کی چیزوں، مثلاً اناج اور دیگر اشیائے خوردنی کی مناسب قیمتیں مقرر کیں، ناپ تول کے پیمانوں پر سرکاری نگرانی کا انتظام کیا، اہل حرفہ کو محصول میں رعایت دی، چوری، ڈکیتی وغیرہ جیسے جرائم کے لیے سزائوں میں مزید سختی کی اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل وتعمیر کی غرض سے شراب اور زنا بازاری کو داخل ممنوعات قرار دیا۔

علاء الدین خلجی نے اپنی سلطنت میں تعمیر ومرمت عمارات کے کاموں پر بھی خصوصی توجہ دی۔ امیر خسرو کے مطابق اس نے سب سے پہلے دہلی کی مسجد جامع کی مرمت اور توسیع کا کام کروایا جس کے تحت مسجد کے صحن کو توسیع، ایک دالان کااضافہ اور ایک بلند و بالا مینار کی تعمیر عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ ہی دوسری مساجد کی مرمت کے کام بھی کروائے گئے۔سلطان کے حکم سے شہر کی قدیم فصیل کی جگہ نئی فصیل تعمیر ہوئی جو پرانی فصیل کی بہ نسبت کافی اونچی تھی۔ علاوہ ازیں سلطنت کے تمام قلعوں اور فصیلوں کی مرمت کرائی گئی۔ سلطان التمش کے عہد میں تعمیر شدہ حوض شمسی جو ناقابل استعمال ہوگیا تھا اس کی مکمل صفائی کرانے کے بعد اسے عوام الناس کے استعمال کے قابل بنادیاگیا۔

خزائن الفتوح کے اسلوب کو عہد جدید کے بعض مورخین نے ہدف تنقید بنایا ہے۔ ان کے مطابق چونکہ یہ تصنیف اپنے عہد کی تاریخ ہے لہذا اس میں امیر خسرو کو اپنے شاعرانہ اسلوب سے گریز کرکے سادہ و سلیس اسلوب بیان اختیار کرنا چاہیے تھا۔ معترضین ان حقیقت کو فراموش کرگئے کہ ہر اسلوب اپنے عہد اور اپنی زبان کی ادبی روایت کا ایک حصہ ہوا کرتا ہے۔ اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ڈاکٹر وحید مرزا ’خزائن الفتوح‘ کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں

’’اس کتاب کو لکھنے سے پہلے خسرو نثر میں ایک نیا اسلوب قائم کرچکے تھے اور یہ اسلوب وہی تھا جس کا ذکر انہوں نے ’’اعجاز خسروی میں کیا ہے۔ یعنی ایہام اور خیال کا استعما ل اور عبارت کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ہر ایک ٹکڑے میں ایک علاحدہ نسبت کو کام میں لانا۔ یعنی ایک خاص چیز کی مناسبت سے الفاظ اور جملے استعمال کرنا۔ طرز تحریر میں تکلف اور پیچیدگی کا پیدا ہوجانا ناگریز ہے اسی لیے ’خزائن الفتوح‘ کو ٹھیک سے سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ خسرو نے باوجود اس کے کہ بادشاہ کی مدح وثناء میں بہت مبالغہ ہوتا ہے،  اس کا التزام رکھا ہے کہ تاریخی واقعات کی صحت اور ترتیب میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ ‘‘17؎

حواشی

  1.           امیر خسرو بحیثیت مورخ (مضمون) از سید حسن عسکری، ہندوستان دور وسطیٰ کے مورخین مرتبہ محب الحسن، دوسرا ایڈیشن، نئی دہلی، ص63
  2.          مولوی اسماعیل میرٹھی، امیر خسرواحوال وآثار، مرتبہ نورالحسن ہاشمی، دہلی، 1975، ص 178
  3.           خواجہ عبدالحمید یزدانی، نواں باب، تاریخ ادبیات مسلمان پاکستان و ہند، تیسری جلد، فارسی ادب اول، مرتبہ پنجاب یونیورسٹی، لاہور 1971، ص 265
  4.           بحوالہ، امیر خسرو، مصنفہ وحید مرزا، نیشنل امیر خسرو سوسائٹی، نئی دہلی، دوسررا ایڈیشن 2007، ص194
  5.           تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند، تیسری جلد (فارسیا ول)،لاہور 1971، ص 66
  6.           تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند، تیسری جلد (فارسیا ول)،لاہور 1971، ص 667
  7.           حوالہ علاء الدین نے خضر خاں کو ایسی عمر میں اپنا جانشین مقرر کردیا جب کہ اس کی صلاحیتوں کو پرکھا نہیں جاسکتا تھا اور اس نے اس مضمون کا وثیقہ تیار کرکے اپنے اعلیٰ افسروں سے دستخط کرالیا تھا۔ اس لیے ہر شخص کو یقین تھا کہ خضر خاں اپنے باپ کا جانشین ہوگا (جامع تاریخ ہند عہد سلطنت، ص 600)
  8.           امیر خسرو کی تاریخی مثنویاں (مضمون) از ڈاکٹر نبی ہادی
  9.           بحوالہ امیر خسرو، مصنفہ وحید مرزا، ص، 196
  10.         ایضاً
  11.         بحوالہ سید ہاشمی فریدآبادی، تغلق نامہ (مضمون) امیر خسرو احوال و آثار، مرتبہ نورالحسن انصاری
  12.         ایضاً،
  13.         بحوالہمثنوی تغلق نامہ کا ایک ناقص نسخہ مولوی رشید احمد صاحب کو حبیب گنج کی لائبریری سے ملا تھا۔ اسی نسخے کو سید ہاشمی فرید آبادی نے ایک مبسوط دیباچے کے ساتھ 1933 ؍1352ہجری میں شائع کیا۔ (مطبع اردو، اورنگ آباد، دکن) اس میں کل 2896 اشعار ہیں۔ ان میں سے شروع کے 177 اشعار بادشاہ جہانگیر کے ایک درباری شاعر حیاتی کاشی کے ہیں جسے اس بادشاہ نے مثنوی کو مکمل کرنے کا حکم دیا تھا‘‘۔ (خواجہ عبدالحمید یزدانی، نواں باب، تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان وہند، تیسری جلد، فارسی ادب، اول، یونیورسٹی لاہور، 2971، ص274)
  14.         بحوالہ سید ہاشمی فریدآبادی، تغلق نامہ (مضمون) امیر خسرو احوال و آثار، مرتبہ ڈاکٹر نورالحسن انصاری، دہلی، 1975، ص235
  15.         بحوالہ بقول پروفیسر محمد حبیب ’’سکوں اور کتبوں کی شہادت بھی امیر خسرو کے بیان کی تصدیق کرتی ہے۔ سلطان محمد خود کو’ابن تغلق شاہ‘ کہا کرتا تھا لیکن فیروز شاہ اور اس کے جانشینوں نے کبھی بھی تغلق کو بطور خاندانی نام استعمال نہیں کیا۔‘‘ (جامع تاریخ ہند)، عہد سلطنت، محمد حبیب، خلیق احمد نظامی، دوسرا ایڈیشن 2001، نئی دہلی، ص، 652)
  16.         بحوالہ ڈاکٹر وحید مرزا، امیر خسرو۔ دوسرا ایڈیشن، 2007، نئی دہلی، ص 254، و 255
  17.         ایضاً

v

Prof. Sadiq

E-28, Jasola Heights

Pocket 9-A, Jasola

New Delhi  - 110025

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں