11/5/23

شاعرزنداں مسعود سعد سلمان:مغیث احمد

 

تلخیص

عہد غزنوی کو فارسی زبان و ادب کے فروغ کے لیے بہترین عہد تصور کیا جاتا ہے۔،غزنوی حکمرانوں نے شعراو ادبا اور فارسی زبان و ادب کی خوب سرپرستی کی، ’غزنہ‘ ایک عرصے تک اہل علم کا مرکز رہا، وقت گزرنے کے ساتھ غزنوی حکومت مضبوط اور وسیع ترہوتی چلی گئی اور اس کے حدود پشاور، پنجاب اور لاہور تک پہنچ گئے،جس کی باگ ڈور غزنوی شہزادوں نے سنبھالی، غزنہ کی طرح لاہوربھی برسوں تک فارسی زبان وادب کا مرکز رہا، عوفی نے اپنی کتاب ’لباب الالباب‘ میں لاہور نژاد متعدد شعرا، ادبااور اہل کمال کا ذکر کیاہے، انہی میں سے ایک مسعود سعد سلمان لاہوری بھی ہے، مسعود کے والد سعد سلمان برسوں غزنوی دربار سے وابستہ رہا، مسعود کو اپنی شاعری کے سبب ہی غزنوی دربار میں رسائی ہوئی اور بہت جلد شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیامگر حاسدین کی شرانگیزیوں کے باعث کئی بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، رہائی کے لیے متعدد قصیدے لکھ کر وزرا، امرا اور شہزادوں حتی کہ سلطان وقت کی خدمت میں بھیجے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا،سلطان ابراہیم، سلطان مسعود ثالث، سلطان شیرزاد، سلطان ارسلان شاہ اور سلطان بہرام شاہ میں سے مؤخرالذکر دو بادشاہوں کے علاوہ سب نے مسعود کے تعلق سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا، مسعود کی تقریبا ایک تہائی عمر زنداں کی تنگ و تاریک کوٹھری میں روتے بلکتے گزر گئی ہے۔زیرنظرمضمون میں مسعود سعد سلمان لاہوری کی زندانی شاعری کا ذکر ہے، جس میں اس نے اپنے حالات خونچکاں کو شعری پیرہن میں بڑے مؤثرطریقے سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

کلیدی الفاظ

عہد غزنوی، ادب نوازی، فارسی زبان و ادب، غزنہ، سعد سلمان،ہمدان، مستوفی ہند، مسعود سعد سلمان، لاہور، ملتان، کشف المحجوب، دولت شاہ سمرقندی، اسپ شناس،منجم، شعری اختراعات، قصیدہ نگار، شہر آشوب، حبسیات، رباعیات، مقطعات، بارہ ماسہ، سلطان ابراہیم، شہزادہ سیف الدولہ محمود، ملک ارسلان، بہرام شاہ،ابو الفرج رونی، سنائی غزنوی، ملکشاہ سلجوقی، قید، قلعہ دھک، قلعہ سو، منجم بہرام، قلعہ نای، ابونصر فارسی، سپہ سالاری، گورنر، قلعہ مرنج،ابوالفرج بن نصر رستم، خلوت نشینی، سرکاری کتابخانہ،عوفی، نظامی عروضی سمرقندی، ڈاکٹر رضا زادہ شفق، عبدالوہاب قزوینی، ای جی براؤن، رشید یاسمی،مہدی نوریان، ناصر ہیری۔

————

عہدغزنوی کو فارسی شعرو ادب کا زریں عہد کہا جاتا ہے۔ اس عہدمیں ’غزنہ‘ ادبا و شعرا کا مرکز رہا۔ غزنوی عہد میں شعرا و ادبا کی خوب پذیرائی ہوئی، اندازہ لگائیں کہ 400شعرا صرف محمود کے دربارمیں تھے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ یہ شعرا جہاں اپنی زبان و بیان کے جادو سے فوج کی حوصلہ افزائی کرتے، وہیں وقت پڑنے پرمیدان کارزار میں اپنا عسکری کردار نبھانے سے بھی قطعا دریغ نہیں کرتے تھے۔

لاہورمیں غزنوی عہد کا عرصہ کم و بیش دوسو سال پر محیط رہا، مگر اسے ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ اتنے طویل عرصے کے ادبی شواہد بہت کم ملتے ہیں۔ ’لباب الالباب‘ کے مصنف  نے چند ایسے شعرا کا ذکرکیا ہے جن کا تعلق لاہور سے تھا، ان میںابوعبداللہ روزبہ بن عبداللہ النکتی، قوام الملک نظام الدین ابونصر ھبۃ اللہ الفارسی، العمید الاجل عطاء بن یعقوبہ الکاتب، الصدر الاجل ملک الکتاب جمال الدین ابوالمحاسن یوسف بن نصر اللہ الکاتب، شہاب الدولہ والدین محمد بن رشید، امیرالعمید ثقۃ الدین جمال الفلاسفہ یوسف بن محمد دربندی، المعانی نصراللہ بن محمد بن عبدالحمید، ضیاء الدین عبدالرافع بن ابی الفتح ہروی، ابوبکر بن المساعدخسروی، ابوالفرج رونی اورہمارا مطلوب شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری وغیرہ کا نام آتا ہے۔1؎

فارسی کے جن قدآورشعرا نے صنف قصیدہ نگاری کو ایک منفرد شناخت بخشی اوراسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ان میں مسعود سعد سلمان لاہوری کا نام سرفہرست ہے۔ مسعودکو کئی اصناف سخن کا موجد و مخترع کہا جاتا ہے اور اگر عوفی کے دعوے کے دلائل دستیاب ہوجائیں تو ہندوی کلام کا پہلا شاعربھی مسعود سعدسلمان ہی قرار پائے گا۔مسعود ایک مشہور خطاط، ماہر ادیب، منجم اورمنجھاہوا اسپ شناس تھا۔وہ فارسی کا پہلا شاعر ہے جس نے ’شہرآشوب‘ لکھی اورفارسی میں حبسیہ شاعری کی طرح ڈالی۔ اسی وجہ سے اسے ’شاعرزنداں‘ بھی کہا جاتا ہے۔

مسعودکے اجداد’ہمدان‘ سے تعلق رکھتے تھے۔غزنوی عہد میں ملتان آئے۔ ’ملتان‘ اس زمانے میںایک پوری ریاست کی حیثیت رکھتا تھا، جس میں لاہور سمیت کئی شہر شامل تھے۔  438ہجری میں مسعودکی ولادت اسی لاہور میں ہوئی۔کچھ تذکرہ نگاروں نے اس کا مولد ہمدان بھی بتایاہے اور کچھ نے جرجان بھی کہا ہے۔ دراصل اشتباہ کی وجہ مسعودکاوہ شعرہے جس میں اس نے اپنی اصل ہمدان قرار دیاہے، وہ کہتاہے’’… اصل من ہمدان است۔‘‘ناصر ہیری نے اپنے مقدمہ میں ڈاکٹرصادق اور ڈاکٹر رضازادہ شفق کا حوالہ دیتے ہوئے مسعود کی جائے ولادت لاہور بتایا ہے، وہ لکھتے ہیں

’’مسعود سعد کہ از شاعران بنام دورۂ غزنوی و سلجوقی بشمار است، اصلش از ہمدان است ولی تولدش در لاہور ہندوستان در حدود 400 ہجری قمری اتفاق افتاد۔‘‘2؎

’’مسعود سعد کا شمار غزنوی و سلجوقی عہد کے شعرا میں ہوتا ہے، اگرچہ اس کا اصل ہمدان ہے لیکن اس کی پیدائش ہندوستان کے لاہور میں 400 ہجری قمری کے آس پاس ہوئی۔‘‘

اس عبارت کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ’اصل‘ عربی کالفظ ہے جس کی جمع ’اصول‘ آتی ہے اوراصطلاح میں اصول سے مراد باپ، دادا، پرداداا اور اس سے اوپر کے لوگ آتے ہیں اس اعتبار سے مسعود کی بات بالکل درست ہے کہ اس کے اصول(یعنی اجداد) ہمدان کے ہی رہنے والے تھے۔سنیل شرمالکھتے ہیں

Mas'ud Sa'd's ancestral city was Hamadan. His father, Sa'd -i- Salman had come to Lahore as an accountant (Mustawfi) in the entourage of Prince Majdud, who had been sent by Sultan Mahmud to garrion the frontier city in 1035-36.؎3

’’مسعود سعد کے اجداد ہمدان شہر کے تھے، 1035-36 عیسوی میں جب شہزادہ مجدود کو سلطان محمود نے اس سرحدی شہر لاہورکی نگرانی کے لیے بھیجا تو اس کے قافلہ کے ہمراہ اکاؤنٹینٹ کی حیثیت سے مسعود کا باپ سعد سلمان بھی شامل تھا۔‘‘

دولت شاہ سمرقندی نے مسعودکو ’جرجانی‘ کہاہے لیکن کوئی دلیل فراہم نہیں کی ہے، مسعود کے لاہورسے ہونے کی وضاحت ابوطالب تبریزی اورمیرغلام علی آزاد نے بھی کی ہے۔ خود مسعود اپنا مولد و منشا ’لاہور‘ بتاتے ہوئے کہتاہے کہ اس کے ساتھ جوبھی بھیدبھاؤ کیے جارہے ہیں وہ دراصل اس کے لاہورنژاد ہونے کی وجہ سے ہی ہے

بھیچ نوع گناھی دگر نمی دارم

مرا جز اینکہ ازین شھر مولد و منشاست4؎

’’میں کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں رکھتا، سوائے اس کے کہ میری جائے پیدائش اور جائے پناہ کی نسبت اس شہر سے وابستہ ہے‘‘

مسعودکو اپنے شہر لاہور سے بہت لگاؤ تھا، جس کی دلیل اس کا مشہور قصیدہ ’چگونہ ای‘ ہے،جس میںاس نے اپنے آپ کو سرزمین لاہور کا فرزند ہونے پر فخر کیاہے اور اس شہر سے جدائی کانہ صرف ماتم کیا ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ جس قدر مجھے لاہور سے جدا ہونے کاافسوس ہے اس سے کہیں زیادہ لاہورکو میری جدائی ستارہی ہے

ناگہ عزیز فرزند از تو جدا شدہ است

بادرد او بنوحہ و شیون چگونۂ5؎

’’اچانک ایک فرزند عزیز تجھ سے جدا ہوگیا ہے، اس کے رنج میں آہ و بکا کیسے کروگے؟‘‘

تذکروں میںمسعودکے سال تولدکے بارے میں بھی خاصا اختلاف ہے، عبدالوہاب قزوینی نے 438 سے 440ھ میں سے کوئی ایک سال ہونے کا امکان ظاہرکیاہے۔

مسعودکا گھرانہ تعلیم یافتہ تھا،اس کا باپ سعدسلمان استیفا (Account)کے علم میں حددرجہ کمال رکھتا تھا، یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اسے بھی شعرگوئی پر خاصی دسترس حاصل تھی، لیکن اس کے کلام کے نمونے دستیاب نہیں۔

مسعودکا باپ برسوں تک عہد غزنوی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا۔427ھ میں سلطان مسعود بن محمد غزنوی نے جب اپنے بیٹے مجدود کو نائب السلطنت بناکر ہندوستان بھیجاتو سعدسلمان کو ’مستوفی ہند‘ (Accountant) مقرر کیا، جہاں وہ مختلف حیثیتوں سے تقریبا 60برسوں تک دربار سے وابستہ رہا اور اپنی پرخلوص خدمات کی بدولت باعزت مرتبے پر فائز ہوا۔ لاہورکے مضافات میں اس کی بڑی بڑی جاگیریں تھیں۔خود مسعودکہتا ہے      ؎

شصت سال تمام خدمت کرد

پدر بندہ سعد بن سلمان6؎

’’میرے والد سعد سلمان نے پورے ساٹھ سال دربار سلطنت میں خدمت کی۔‘‘

مسعودنے عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی، شعرگوئی کا اچھا مذاق رکھتا تھا، اپنی شاعری کی بدولت ہی سلطان ابراہیم کے دربار تک رسائی حاصل کی اوربڑے عہدوں پر فائز ہوا۔ سلطان ابراہیم اورشہزادہ سیف الدولہ کی خدمت میں متعدد قصیدے لکھے، لیکن مسعود کی خوشحالی کا لمحہ بہت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا، بدخواہوں نے تہمت تراشیوںکا بازار گرم کیا، انجام کار مسعود پر ادبار کے بادل منڈلانے لگے، بدخواہوں نے مسعود کی جائداد پربھی قبضہ کرنے کی کوشش کی، چار و ناچار اس نے غزنی کا رخ کیا تاکہ سلطان کی خدمت میں پہنچ کراپنے مسئلے کا حل نکال سکے،لیکن حاسدوں نے دربار میں بھی اس کے خلاف کان بھردیے تھے، لہذا غزنی پہنچتے ہی اس کے لیے قید کا شاہی فرمان جاری کردیاگیا۔

مسعودپر یہ الزامات لگائے گئے کہ وہ ملک شاہ سلجوقی کی خدمت میں جانا چاہتاہے اور شہزادہ سیف الدولہ کو بھی اس نے آمادہ کرلیاہے،یہ الزام سلطان ابراہیم کی نظر میں بہت بڑا جرم تھا،جس کے لیے اسے سزائے موت بھی ہوسکتی تھی، کیونکہ سلطان ابراہیم اگرچہ سلجوقیوں کا معاہد تھا اور ملک شاہ کی بیٹی سے اپنے شہزادے سیف الدولہ کی شادی بھی کردی تھی مگر پھربھی وہ سلجوقیوں کی طرف سے مطمئن نہ تھا۔ ایسے میں اگر اس کا بیٹا ملک شاہ کے پاس چلا جاتا تو سلجوقیوں کو مخاصمت کا بہانہ مل سکتا تھا۔ نظامی عروضی سمرقندی لکھتا ہے

’’درشہور سنتہ اثنین و سبعین و اربعمأیۃ (472) صاحب غرضی قصۂ بہ سلطان ابراہیم برداشت کہ پسر او سیف الدولہ امیر محمود نیت آن دارد کہ بہ جانب عراق برود بہ خدمت ملکشاہ، سلطان را غیرت کرد و چنان ساخت کہ او را ناگاہ بگرفت و بست و بہ حصار فرستاد و ندیمان اورا بندکردند و بحصارہا فرستاد، از جملہ یکی مسعود سعد سلمان بود و او را بوجیرستان بہ قلعۂ نای فرستادند، از قلعۂ نای دو بیتی بہ سلطان فرستاد، مسعود سعد سلمان فرماید

در بند تو اي شاہ ملکشہ باید

تا بند تو پاي تاجداری ساید

آنکس کہ ز پشت سعد سلمان آید

گر زہر شود ملک ترا نگزاید7؎

’’ 472ھ میں کسی بدخواہ نے سلطان ابراہیم کو یہ خبر دے دی کہ شہزادہ سیف الدولہ امیرمحمود اب ملک شاہ سلجوقی کے پاس عراق جانے کا ارادہ رکھتا ہے،جس سے غضبناک ہوکر سلطان ابراہیم نے شہزادے کو قلعے میں محصور کرادیا اوراس کے مقربین کو الگ الگ مقامات پر قیدکا حکم دے دیا، ان میں مسعود بھی تھا جسے وجیرستان کے قلعہ نای میں محصور کردیا گیا، جہاں سے اس نے ایک قطعہ لکھ کر سلطان کی خدمت میں بھیجا۔

اے سلطان آپ کے قیدخانے میں تو ملکشاہ کو ہونا چاہیے تھا، تاکہ آپ کا زندان تاجداری کے شایان شان ہوسکے۔جو شخص بھی سعد سلمان کی اولاد سے ہوگا وہ اگر زہر بھی بن جائے تو اس سے بھی بادشاہ کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا۔‘‘

شہزادہ سیف الدولہ کا ارادہ خواہ ملک شاہ سلجوقی کے یہاں جانے اور اس سے کمک حاصل کرنے کارہا ہوکہ نہیں، لیکن مسعودنے بہرحال سیف الدولہ کی ہمنوائی کی تھی، خراسان جانے کی تہمت کا ذکروہ اس طرح کرتا ہے      ؎

گہ خستہ آفت لھاوورم

گہ بستۂ تہمت خراسانم

تا زادہ ام ای شگفت محبوسم

تا مرگ مگر کہ وقف زندانم8؎

’’کبھی لاہور کی نسبت سے پریشان ہوں، تو کبھی خراسان کی تہمت سے وابستہ ہوں۔ میں جب سے پیدا ہوا ہوں، قید میں ہوں اور تامرگ زنداں ہی میرا مقدر ہے۔‘‘

بہرحال یہ وہ سیاسی لغزشیں تھیں جومسعودکی اچھی بھلی خوشحال زندگی کو آزمائشوںسے دوچار کردیا، اسے یکے بعد دیگرے مختلف تاریک اور ویران قلعوں میں محصور ہوناپڑا اور ایک طویل مدت تک قیدو بندکی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔

سلطان ابراہیم کے فرمان کے مطابق مسعود کو ہندوستان کے ’قلعہ دھک‘میں قید کیا گیا تھا، مگر حاسدوں کو اس پر بھی سکون حاصل نہ ملا اورکسی طرح افواہ پھیلادی کہ مسعود تو ’قلعہ دھک‘ میں مزے سے زندگی گزاررہا ہے، لہٰذا اسے ’قلعہ سو‘ میں قید کرنے کا حکم ہوا۔ ’قلعہ سو‘ ایک بلند پہاڑی پر واقع تھا، جہاں اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور اسی سختی کے عالم میں وہ زندگی کے تلخ لمحات کا گھونٹ پیتا رہا۔ مسعودنے اس المناک منظرکو اپنے قصیدے میںبھی بیان کیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ’قلعہ سو‘ واقعتا اس کے لیے ’سوء‘ تھا۔ ’قلعہ سو‘ میں بہرام نامی ایک بوڑھے شخص سے اس نے علم نجوم بھی سیکھا       ؎

اگر نبودی بیچارہ پیر بہرامی

چگونہ بودی حال من اندرین زندان

گھی صفت کندم حالھای گردش چرخ

گھی بیان دھدم رازھای چرخ کیان

مرا ز صحبت او شد درست علم نجوم

حساب شد ہمۂ ہیأت زمین و مکان9؎

’’اگر بیچارہ بزرگ بہرام نہ ہوتا تو زندان خانے میں میرا کیا حال ہوتا؟ کبھی میں آسمان کی گردش کی بات کرتاہوں اور کبھی ستاروں کی گردش کے بارے محوگفتگو رہتا ہوں۔ اسی کی صحبت سے مجھے علم نجوم حاصل ہوا اور زمین و مکان کے علم سے واقفیت ہمیں اسی کی بدولت نصیب ہوئی۔‘‘

’قلعہ سو‘ کے بعداسے’ قلعہ نای‘ بھیج دیا گیاجس کا ذکر وہ اپنے ایک قصیدے میںکرتا ہے      ؎

ہفت سالم بسود سوء و دھک

پس از آنم سہ سال قلعہ نای

بند بر پای من چو مار دو سر

من بر او ماندہ ھمچو مار افسای10؎

’’میں نے سات سال ’ سو‘ اور ’دھک‘ کے قلعوں میں نہایت ہی خستگی کے عالم میں زندگی گزاردیے، پھر تین سال ’قلعہ نای‘ کی مضبوط اور بلند فصیلوں کو دیکھتے ہوئے گزار دیے۔‘‘

مسعودکا مشہور ترین زنداں ’قلعہ نای‘ ہی تھا۔غالبا اسی وجہ سے اس کے درد و الم کی زیادہ تر داستانیں اسی قلعے کے درودیوار سے سنائی دیتی ہیں۔ مسعودجب اس محصورخانے کی اونچی اونچی خاردارفصیلوں اور مضبوط دیواروںکو دیکھتا ہے تو بے اختیار سردآہیں بھرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس مایوسی اور ہوک کے عالم میں وہ اپنے دل کے پھپھولوں کو اشعار کی شکل میں پھوڑتا ہے۔

اسی  اسیری کے عالم میں پورے دس سال گزر گئے، اس مدت میں اس نے بے شمار دردآمیزاور خوشامدانہ قصائدلکھ کر امرااور اہل اقتدار کی خدمت میں ارسال کیے، مگر کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا، اہل اقتدار نے مسعود کو قیدخانے میں ڈال کر آنکھیں موند لیں اور اس کی دادرسی کے سارے دفتر اسی کے ساتھ بند کردیے، بقول شیخ حزین لاہیجی     ؎

بیتابی دامم نہ از اندوہ اسیریست

من تاب فراموش صیاد ندارم11؎

’’میری پریشانی کی وجہ قید نہیں، بلکہ اس بات کا رنج ہے کہ صیاد مجھے قید کرکے بھول گیا ہے (یعنی میری پریشانی کی اصل وجہ صیاد کی بے اعتنائی ہے۔‘‘

ایک مدت گزرنے کے بعد آخر کارسلطان ابراہیم کے ایک ندیم خاص عبدالملک ابوالقاسم کی سفارش پر اس کے لیے رہائی کا فرمان جاری ہوا۔ سلطان ابراہیم کی وفات کے بعدمسعود بن ابراہیم تخت نشیں ہوا اور اپنے بیٹے امیرعضدالدولہ شیرزاد کو ’نائب السلطنت‘ اور ابونصر فارسی کو سپہ سالاری کے منصب پر تعینات کیا۔حسن اتفاق سے مسعود سعد سلمان کے ابونصرفارسی سے اچھے تعلقات تھے، چنانچہ شہزادہ شیرزاد نے جب جالندھر فتح کیا تو ابونصر فارسی کی سفارش پر مسعود کو جالندھر کا گورنر مقرر کردیا گیا، جس کا مکمل تذکرہ اس نے اپنے اشعار میںبھی کیا ہے، سنیل شرما لکھتے ہیں

Abû Nasr-i Pârsî was an influential personality in this frontier city, and a major patron of Mas‘ûd Sa‘d and other contemporary poets. ؎12

’’ابوالنصر فارسی اس سرحدی شہر کے بارسوخ لوگوں میں سے تھا جو مسعود سعد اور اس کے جیسے دوسرے معاصر شعرا کی سرپرستی کررہا تھا۔‘‘

مسعودکے حاسدین جو اس کی ترقی کوکسی بھی قیمت پر دیکھنے کو راضی نہ تھے،بھلااس کی گورنری کو کیسے برداشت کرسکتے تھے؟ ایک بار پھران لوگوں نے سازشوں کا جال بننا شروع کیا اور ابونصر فارسی کے خلاف بھی سلطان کے کان بھرنے شروع کردیے اوراپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے، چنانچہ مسعود کی شومی قسمت کی چنگاری ابوالنصر فارسی تک جاپہنچی اور وہ بھی شاہی عتاب کا شکا ہوگیا     ؎

ہم اس سے کیا ملے کہ زمانے سے لڑگئے

ایساہی کچھ نصیب میرے ہم سفر کا تھا

بدبختی کا مارامسعودکے لیے ایک بار پھرقید کا فرمان جاری ہوا اور اس مرتبہ اسے ’قلعۂ مرنج‘ میں محصورکردیا گیا۔’قلعۂ مرنج‘غزنی کے قریب پہاڑی سلسلوں کی بلند چوٹیوں کے درمیان واقع تھا۔اس قلعہ کے بارے میں مسعوداپنے ایک قصیدے میں کہتاہے      ؎

در مرنجم کنون سہ سال بود

کہ ببندم دراین چو دوزخ جای

این سرایم عذاب بودہ بود

وای زان ہول روز محشر وای13؎

’’ تقریبا تین برسوں سے بد بختی نے مجھے ’قلعۂ مرنج‘ میں لاڈالا ہے، جو میرے لیے جہنم سے کم نہیں۔ ہائے افسوس! جب دنیا کے عذاب میں اتنی ہولناکی ہے تو روزمحشر کا عذاب کیسا ہوگا؟‘‘

اس طرح مسعودنے اپنی زندگی کے اٹھارہ برس قیدخانے میں گزار دیے، دوبارہ قید سے رہائی کے بعد بہت ضعیف اور لاغر ہوگیا تھا،لہذا باقی عمر خلوت نشینی میں گزاردی۔معروف محقق و ناقد ناصر ہیری مسعود کی زندانی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’بدین ترتیب مسعود سعد 18 سال از بہترین سالہای عمر خود را در زندان قلعہ ہای دھک، سو، (7 سال) قلعہ نای (3 سال) قلعۂ مرنج (8سال) محبوس بود، و بعد از آزادی از حبس دوم دیگر پیر و ناتوان گشتہ و باتوجہ باینکہ باز ہم مورد توجہ شاہان غزنوی مانند ملک ارسلان و بہرام شاہ بود معذالک از خدمت دیوانی کنارہ گرفت و باقی عمر را بہ اعتزال گذرانید۔ ‘‘ 14؎

’’اسی ترتیب سے مسعود سعداپنی زندگی کے بہترین اٹھارہ برس؛ 7برس قلعہ دھک اور سومیں، 3برس قلعہ نای میں اور 8برس قلعہ مرنج میں قید رہا اوردوسری بارقید سے رہائی کے بعد بوڑھا اور کمزور ہوگیا تھا، چنانچہ کچھ غزنوی سلاطین جیسے ملک ارسلان اور بہرام شاہ کی توجہ کے باوجوداس نے دربار سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور باقی عمر خلوت گزینی میں گزاردی۔‘‘

مسعود کی زندگی کا خاصا حصہ عقوبت خانے میںگزرا،برسوں تک بدحالی کا شکار رہا، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، جیل خانے کے تجربات سے دوچار ہوا، اپنے وطن سے کوسوں دور، گھر والوں سے جدا قید کی تنہائیوں میں جب اسے فراق کی کالی راتیں نوچنے اور دبوچنے کو دوڑتی ہیں تو وہ چیخ اٹھتاہے اور بقول فاروق شفق       ؎

دن کسی طرح سے کٹ جائے گا سڑکوں پہ شفق

شام پھر آئے گی، ہم شام سے گھبرائیں گے

 مسعود کی شاعری دراصل ان ہی خوفناک شاموں اور تاریک راتوں کی روداد ہے۔اس نے اپنی قیدوبند کی تلخ یادوں کوبڑے ہی موثراورپرسوز لہجے میں اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے، جسے پڑھ کر قاری کے دل پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔مسعود نے اپنی شاعری میںحاسدین کی ذلیل حرکتوں، زنداں کی ظلمتوں، ماں باپ اور اہل وعیال کی جدائی کاغم، بے گناہی میں قیدوبند کا عالم اور رقیبوں و بدخواہوں کی شکایتوں کاشکوہ کیا ہے۔گویازندانی زندگی کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں جو مسعود کی شاعری کا موضوع نہ بنا ہو اور مصیبت سے نجات پانے کے لیے کوئی بھی ایسا حربہ نہیںجسے اس نے آزمانے کی کوشش نہ کی ہو۔

مسعود کے قصائد سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے زندگی کے خوشحال ترین لمحات صرف شہزادہ سیف الدولہ کی صحبت میں ہی گزارے۔ اس زمانے میں مسعودنے اپنے بوڑھے والدین اور ان کی جاگیروںکی بحسن و خوبی دیکھ ریکھ کی۔نائب السلطنت کا ہمرکاب رہا، امرا کے شانہ بہ شانہ شاہی مہموں میں شرکت کی اور لاہور میں اپنے لیے ایک عالیشان عمارت تعمیر کروائی، جس کی تعریف میں اس کا معاصر شاعر ابوالفرج رونی نے قطعہ لکھ کربھیجاتو جواب میں مسعودنے بھی قطعہ لکھ کراظہار تشکرکیا۔

’قلعۂ مرنج‘ میں قید کے دوران مسعود پریہ عقدہ کھلا کہ اس کے بدخواہوں میں ابوالفرج بن نصر رستم بھی تھا، جس کے لیے مسعود نے متعدد قصیدے کہے تھے، حقیقت واضح ہونے پر مسعود اس دوست نما دشمن کے خلاف نہایت تند و تیز لہجے میں اپنے احساسات کا اظہار کرتا ہے

بوالفرج شرم نامدت کہ بجھد

بچنین حبس وبندم افگندی

تا من اکنون ز غم ھمی گریم

تو بشادی ز دور می خندی

شد فراموش کز برای تو باز

من چہ کردم ز نیک پیوندی15؎

’’اے ابوالفرح مجھے قیدوبند میں ڈلواتے ہوئے تمہیں شرم نہ آئی، میں ابھی بھی مارے غم کے گریہ و زاری کررہا ہوں اور تو دور سے دیکھ دیکھ کر خوشی کے ٹھہاکے لگارہا ہے۔ میں تمھیں اچھا کہتا رہا اور تونے سب کچھ فراموش کردیا۔‘‘

فارسی کے معروف محقق مہدی حسین ناصری نے مسعود کے حالات زندگی کا نقشہ بڑے ہی مختصر مگر جامع انداز میں کھینچنے کی کوشش کی ہے، وہ لکھتے ہیں

’’مسعود سعد سلمان گورگانی کا عروج و زوال ابراہیم شاہ غزنوی کی ذات سے وابستہ ہے، آغاز حال میں بڑی قدر تھی، یہاں تک کہ حکومت پنجاب مل گئی، انجام میں بدگمانی پیدا ہوگئی کہ ملک شاہ سلجوقی سے مل گیا ہے اور غزنویوں کا خاتمہ کرانا چاہتا ہے۔ قہر سلطانی میں جہاں اور لوگ ماخوذ ہوئے یہ بھی قید کردیا گیا۔ معذرت میں قصیدے کہے، مگر کچھ نہ ہوا۔ آخر ابراہیم شاہ کا انتقال ہوا اور بارہ برس کے بعد رہائی ہوئی، مگر چند ہی روز کے بعد پھر سلطان وقت کو لوگوں نے بھڑکایا اور بیس برس قید میں کاٹنا پڑے۔‘‘ 16؎

500ھ میں سلطان مسعود بن ابراہیم کے وزیر ثقۃ الملک طاہر علی مشگانی کی سفارش سے مسعودکو دوبارہ قیدسے رہائی ملی۔

’قلعۂ مرنج‘ سے رہائی کے بعد مسعودکو حکومت کی طرف سے ایک سرکاری کتابخانہ قائم کرنے کا حکم دیا گیا، جو اس کے مزاج کے موافق تھا، لہٰذا اس نے اس فرض کوبڑی دل جمعی سے نبھانے کی کوشش کی۔ مسعود اپنے اس نئے منصب کا ذکر کرتے ہوئے کہتاہے      ؎

بیا راید کنون دارالکتب را

بتوفیق خدای فرد جبار

ز ھر دارالکتب کاندر جھانست

چنان سازد کہ بیش آید بمقدار17؎

’’خدائے واجد و جبار کی توفیق سے کتب خانے کی خدمت میں مصروف ہوں، ہرکتب خانہ  اپنے آپ میں ایک دنیا ہے۔‘‘

عمر کے آخری دنوں میںمسعودنے حکمرانوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی اورعزلت گزینی کی زندگی بسر کرنے لگا،حالانکہ ملک ارسلان اور بہرام شاہ نے اس کی سرپرستی کی خواہش بھی ظاہر کی، مگر ایک طویل عرصے تک قید کی سختیوں اور صعوبتوں سے ذہنی طور پر اتناٹوٹ چکاتھا کہ دوبارہ دربار سے جڑکر رہنے کا حوصلہ نہ کرسکا، بقول میر تقی میر

نی شور بہ سر ماندہ و نی زور بہ پا ماند

از عمر ہمین حسرت بسیار بہ جا ماند

’’نہ سر میں سودا باقی ہے، نہ پاؤں میں طاقت رہی ہے، اب تو زندگی بے انتہا حسرتوں کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔‘‘

ذیل میں مذکور قطعہ میں وہ انہی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے     ؎

چون بدیدم بدیدۂ تحقیق

گہ جھان منزل فناست کنون

مدتی مدحت شھان کردم

نوبت خدمت دعاست کنون18؎

’’جب تحقیق کی نظر سے دیکھا تو مجھے لگا کہ یہ دنیا دارالفنا ہے، ایک عرصے تک میں نے بادشاہوں کی مدح سرائی کی، لیکن اب خدا سے لو لگانے کا وقت آن پڑا ہے۔‘‘

مسعود کی زندگی کا اہم ترین حصہ اسیری اور اس سے راہ فرار کی تگ و دو میں گزرگیا۔ حصولیابیوں سے زیادہ اسے محرومیاں ہی ہاتھ آئیں، بقول غلام قادر گرامی       ؎

ای بیکسی بہ خاک لحد دررسیدہ ایم

عقبیٰ بہ ما رسید نہ دنیا بہ ما رسید

’’ہائے بیکسی کہ اب ہم خاک لحد تک پہنچ گئے، لیکن نہ آخرت کے ہوسکے اور نہ ہی دنیا ہاتھ آئی۔‘‘

تذکرہ ریاض الشعرا، سبحۃ المرجان اور مجمع الفصحا کے مطابق515 ہجری میں اسی تنہائی کے عالم میں  وہ اس دنیا و مافیہا کے جھمیلوں سے اپنا رشتہ توڑکر اپنے حاسدین کو ہمیشہ کے لیے مایوس اور مداحوں کو مغموم کرگیا۔

 مسعودکی رہائی کی کوششیں محض اس کی قصیدہ گوئی تک محدودرہیں۔ اس نے اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے اور قیدوبند کی مشکلات سے رہائی میں صرف کردیا، زندانی کے عالم میں وہ غزنی کے حکمرانوں، امیروں، وزیروں اوراہل اقتدار کے قصیدے کہتا رہا، مگر افسوس کہ اس کی ساری کوششیں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی رہیں۔اس دوران اس نے جن لوگوں کے لیے قصیدے کہے ان میں سلطان ابراہیم مسعود بن محمود، سلطان مسعود بن سلطان ابراہیم، امیر عضدالدولہ شیرزاد بن سلطان مسعود، شہزادہ سیف الدولہ محمود، ثقۃ الملک طاہر علی مشکان وزیر مسعود، ابونصر فارسی سپہ سالار شیرزاد، علی ناصر مصاحب سلطان ابراہیم، ابوالقاسم ناصر مصاحب سلطان ابراہیم، ابوالفرج بن نصر رستم، جمال الملک ابوالرشید رشید بن محتاج، عبدالحمید شیرازی منصور بن سعید وغیرہم کے نام خصوصیت سے لیے جاسکتے ہیں۔

شاعری

مسعودنے فارسی کی بیشتر اصناف سخن میں شاعری کی، قصیدے کہے،غزلیں گنگنائیں، رباعیوں میں اپنے شعری کمالات کے جوہر دکھائے، صنف مثنوی میں طبع آزمائی کی، مختلف اصناف اختراع کیے، حبسیات کو متعارف کرایااور مقطعات و مسمطات کوشہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔

تذکرہ نگاروں کے مطابق مسعود نے اپنے پیش رووں میں رودکی، لبیبی، شہید بلخی اور عنصری جیسے عظیم شعرا کی پیروی کی ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے باضابطہ طورپرکسی کی بھی تقلید نہیں کی، وہ کبھی بھی کسی بھیڑ کا حصہ نہ بنا اور اپنی استادانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ایک منفرد شناخت بنائی۔مسعودکی شاعری میں سبک خراسانی کا اثرملتا ہے لیکن وہ سبک خراسانی کے شاعروں کی طرح معشوق، شراب اور فطرت کی تعریف میںبیجا مبالغہ آرائی نہیں کرتا، بلکہ متوازن اور پاکیزہ فکر کو سنجیدگی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتاہے۔ڈاکٹر رفیع الدین احمد کاظمی لکھتے ہیں

’’مسعود کی شاعری پر شعرائے خراسان کا اثر رہا، مگر کلام تقلیدی نہ تھا، بلکہ اس کی علمیت، جدت اور بداعت اس سے بالاتر رہی۔ اس کا اپنا سبک جوانی میں ہی پختہ ہوچکا تھا۔ طبیعت کی روانی اور نظم پر عبور نے اس کی شاعری کو ایک خاص رنگ اور آہنگ بخشا۔ 19؎

ناصر ہیری اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں

’’ہمچنین سبک لبیبی و شہید بلخی و برخی دیگر را در نظر داشتہ است ولی حقیقت اینست کہ اینگونہ تشابہ نتیجہ تقلید نیست و قریحۂ مسعود توانا تر از آنست کہ اسیر تقلید باشد و این سبک او را از جوانی ملکہ شدہ و با روانی کہ در طبع و تسلطی کہ در نظم داشتہ است، طرز خاصی بہ شعرس دادہ و در دعوی خود چنین گفتہ است

اشعار من آنست کہ در صنعت نظمش

نہ لفظ معیار است و نہ معنیش مثنا

انشا کندش روح و مفتح کندش عقل

گردون کند املا و زمانہ کند اصغا20؎

’’لبیبی، شہید بلخی اور اس طرح کے دوسرے کچھ شعرا کا اسلوب مسعود کی توجہ کا باعث بنا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادنی سی مناسبت کو تقلید کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا، کیونکہ خود مسعود کا شاعرانہ مذاق مذکورہ بالا شعرا سے کہیں زیادہ بہتر تھا اور یہ طرزنگارش اس نے اپنی جوانی کے زمانے میں ہی اختیار کرلیا تھا، جس میں گزرتے وقت کے ساتھ مزید بہتری اور پختگی پیدا ہوتی گئی، جو مسعود کو ایک نئی شناخت عطا کرتی ہے۔ مسعود خود اپنی شاعری کے بارے میں کہتا ہے ’میرے اشعار اپنے رکھ رکھاؤ اور الفاظ و معانی ہر اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتے، روح نے اسے انشا کیا اور عقل نے اس کی گرہوں کو باز کیا، آسمان نے املا کیا اور زمانے کے حالات نے اس کی سماعت کی۔‘‘

ڈاکٹر رضازادہ شفق کے مطابق مسعود کو ہندی زبان سے بھی پوری واقفیت تھی۔مسعود کا اصل امتیازاس کی زندانی شاعری ہے۔اس کی شاعری کے بارے میں نظامی عروضی سمرقندی لکھتا ہے

’’و ارباب خرد و اصحاب انصاف دانند کہ حبسیات مسعود در علو بچہ درجہ است و در فصاحت بچہ پایہ بود، وقت باشد کہ من از اشعار او ھمی خوانم موی براندام من برپای خیزد  و جای آن بود کہ آب از چشم من برود۔‘‘ 21؎

’’صاحب عقل و خرد اور انصاف بیں لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ مسعود کی حبسیات علوفکر کے اعتبار سے کس درجہ کی ہیں اور فصاحت میں کیا مقام رکھتی ہیں،کبھی کبھی جب میں اس کے اشعار پڑھتا ہوں تومیرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اورآنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔‘‘

مسعود کی شاعری میں تخیل کی بلندی ہے، زبان میں سادگی و صفائی ہے اور بیان میں بلا کا جادو اورروانی ہے، وہ اپنے اردگردخلقت کی رنگینیوںکا نقشہ کھینچتے ہوئے کہتا ہے      ؎

فلک در سندس نیلی ہوا در چادر کحلی

زمین در فرش زنگاری کہ اندر حلۂ حمرا

زمین خشک شد سیراب و باغ زرد شد اخضر

ہوای تیرہ شد روشن، جہان پیر شد برنا22؎

’’یہ آسمان نیلگوں ریشمی لبادے میں ہے جبکہ ہوا خاکستری لباس میں اور زمین فرش زنگاری اوڑھے ہوئے سرخ پوشاک سے ڈھنکی ہے؛ خشک زمین سیراب ہوچکی ہے، زردپڑگئے باغیچے سرسبز ہوگئے ہیں، تاریک فضاروشن ہوگئی ہے اوربوڑھی دنیا پر ایک بارپھر شباب آگیاہے۔‘‘

 ڈاکٹر رضا زادہ شفق نے مسعودکے اشعار کو معروف مشرقی شاعر ’شین‘ اور ’بائرن‘ کی حبسیاتی شاعری سے زیادہ معیاری قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مسعود کی شاعری ان دونوں کی شاعری سے کہیں زیادہ پرسوزاور موثر ہے، کیونکہ ان شاعروں کے کلام اپنی فکری جولانی اورذہنی اپج کا نتیجہ ہیں، جب کہ مسعودکی شاعری اپنی خود کی آپ بیتی ہے جو دل سے نکلتی ہے اور سیدھے دل میں جاگزیں ہوجاتی ہے۔  بقول ساحر      ؎

ہم غم زدہ ہیں، لائیں کہاں سے خوشی کے گیت

دیں گے وہی، جو پائیں گے اس زندگی سے ہم

مسعود نے امارت اور عسکری ذمے داریوں کے ساتھ صنف شاعری سے نہ صرف شغف رکھا بلکہ اس میں غیرمعمولی کمال حاصل کیا۔ مسعود کو پڑھنے والا اس کی سحرانگیزی کی داد دیے بغیر نہیں رہ پاتا۔مسعودکے معاصر کئی ایسے شعرا ہیں جنھوں نے اس کی شعرگوئی کی تعریف کی ہے اور اس کی شان میں قصیدے لکھ کر اس کے علم و فضل کا اعتراف کیاہے، جن میں رشیدی سمرقندی، عثمان مختاری غزنوی، امیر مصری، سنائی غزنوی وغیرہم قابل ذکر ہیں۔

مسعود کی سید حسن غزنوی سے گہری دوستی تھی اور باضابطہ طور پر شاعرانہ مکاتبت بھی ہواکرتی تھی،سید حسن کے انتقال پر مسعودنے بہت غمناک اشعار کہے ہیں

بر تو سید حسن دلم گرید

کہ چو تو ہیچ غمگسار نداشت

زان بکشتت قضا کہ بر سر تو

دست جد تو ذوالفقار نداشت23؎

’’اے سید حسن تیرے لیے میرا دل رو رہا ہے کہ تجھ جیسا میرا کوئی غمگسار نہ تھا، تمہیں تو اس لیے موت آگئی کہ تیرے ہاتھوں میں شمشیر ذوالفقار نہ تھی۔‘‘

سلجوقی حکمراں ملک سنجر کے دربار کا ملک الشعرا امیر معزی مسعود کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں مبالغہ آرائی کی ساری حدیں پار کرجاتا ہے اوریہاں تک کہہ دیتا ہے مسعود کاکلام  قرآن کے بعد سب سے زیادہ مؤثر، بلیغ اور دلپذیرہے      ؎

آن شاعر سخنور کز نظم او نکو تر

کس در جہان کلامی نشنید بعد قرآن24؎

’’وہ شاعر کہ جس کی شاعری بہترین ہے، کلام الٰہی کے بعد اس جیسا کلام دنیا میں نہیں سنا گیا۔‘‘

غزنوی عہد کا ایک شاعر مختاری غزنوی اسے اپنا استاد تسلیم کرتا تھا، چنانچہ وہ ایک جگہ مسعود کے شاعرانہ کمال کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے       ؎

طبعش بہ سخن دہ ہزار دریا

دستش بہ سخا صد ہزار چندان

ابر ہنرش ناپدید گوشہ

بحر سخنش ناپدید پایان

’’سخن پردازی میں مسعود کی طبیعت دس ہزار دریا کے برابر ہے اور سخاوت میں جیسے اس کے ایک لاکھ ہاتھ ہیں، اس کے ہنر کا بادل بے پایاں اور اس کے کلام کا سمندر لامتناہی ہے۔‘‘

رشیدی سمرقندی بھی اپنے اشعار بھیج کر مسعودسے شاعرانہ اصلاح لیا کرتا تھا، وہ مسعودکی منکسرالمزاجی، انکساری، خاکساری وبردباری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے     ؎

ایا چو اصل بزرگی بزرگ در ہمہ اصل

ایا چو عقل تمامی، تمام مظہر فن25؎

’’بلاشبہ تو ہربزرگی کی اصل اور ہر اصل سے بڑا ہے، یقینا تو تمام دانشمندی کی منتہا اور تمام فنون کا اختتام ہے۔‘‘

شعری اختراعات

مسعود نے ایک نئی صنف سخن پر طبع آزمائی کی اور اسے ’شہر آشوب‘ کانام دیا۔ اس کی نظم ’شہر آشوب‘ میں عنبرفروش، عطار، تاجر، کاشت کار، بڑھئی، لوہار، نانبائی، باغبان، دیباباف، زرگر، قصاب، فصاد، قلندر، قاضی، ساقی، کبوتر باز، فال گیر، پہلوان، چاہ کن، رقاص، موسیقار اور نقاش وغیرہ کا ذکر مخصوص پیرائے میں آیا ہے جس سے اس وقت کے معاشرے کے خدوخال نمایاں ہوتے ہیں۔

مسعودنے ہندی ’بارہ ماسے‘ کی طرز پر ایرانی مہینوں کو موضوع بنایا اور قطعات لکھے۔ جن میں مہینوں کی خصوصیات اور ان کے متعلق شاعر کے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ اس صنف کو ’ماہ ھای فارسی‘(فارسی مہینے) کا نام دیا ہے۔ اسی طرح ہفتہ کے ایرانی اور اسلامی دنوں کے ناموں پر بھی اشعار کہے ہیں جو ’روزہای ہفتہ‘ (ہفتہ کے دن)کے ناموںسے موسوم ہیں۔

حبسیات

مسعود نے زنداں کی تلخ یادوں کو اپنی شاعری میں سموکراس کا نام ’حبسیات‘ رکھ دیا ہے۔اس کی اسیری ہمیں مشہور شاعر خاقانی کی قیدوبند کی یاد دلاتی ہے، دونوں اپنے اپنے زمانے کے عظیم شاعر تھے، دونوں ہی اپنے حریفوں کی سازشوں کا شکار ہوئے۔خاقانی کا ممدوح منوچہر شروانشاہ ایک خود پسنداور ضدی حکمراں تھا، جس نے خاقانی کے خلاف تہمت تراشیوں کو درست سمجھا، ادھر مسعود کا ممدوح سلطان ابراہیم سخت گیر والی سلطنت تھا، جس نے شقاوت قلبی سے کام لیا اور حقیقت حال جانے بغیر اسے سلاخوں کے پیچھے ڈالوا دیا، اس طرح دونوں ہی شاعروں کی زندگی کا بہترین حصہ زنداں کی نذر ہوگیا، جن کی تلخ زندگی کی یادگار ان کے حبسیات ہیں۔ان حبسیات کے موضوعات میں واردات قلب، کیفیت زنداں، زمان و مکاں کی سنگینی، حاسدوں کی بدخواہی، بے گناہی اور داد خواہی جیسے عناصر موجود ہیں مگر انداز بیاں دونوں کا  بالکل جداجدا ہے۔

مسعود نے اپنی شاعری میں قیدو بند کی مصیبتوں، زنداں کی ظلمتوں، ماں باپ اور اہل و اولاد کی جدائی کاغم اور اپنی بے گناہی کا ماتم، رقیبوں اور بدخواہوں کی شکایتوں اور حاسدوں کی حرکتوں کاشکوہ کیا ہے۔

یوں تو مسعودکی پوری شاعری ہی لاجواب ہے مگر اس کی حبسیاتی شاعری بلاشبہ بے مثال ہے، حبسیات کی بدولت ہی اسے صف اول کے قصیدہ نگاروں میں شامل کیا جاتا ہے،قید و بندجو اس کی زندگی کا ایک بہت بڑا المیہ تھا، دراصل یہی اس کی شاعری کی روح بھی ہے،کیونکہ جو سوز و گداز اور درد و الم مسعود کی شاعری میں رچ بس گئے ہیں، وہ اس کی زندانی زندگی کے بغیر پیداہونا مشکل تھا۔ مسعود کہتاہے     ؎

ای ابر چراست روز و شب چشم تو تر

وی فاختہ چند زار نالی بہ سحر

ای لالہ چرا جامہ دریدی در بر

از یارجدایید چو مسعود مگر

’’اے ابر! شب و روز تمھاری آنکھیں نم کیوں ہیں؟ اے فاختہ! تم صبحدم کب تک نالہ و زاری کرتی رہو گی؟ اے گُل لالہ! تم نے اپنے سینے پر اپنے جامے کو کیوں چاک کرڈالا؟ کیا تم سب بھی مسعود ہی کی طرح اپنے یار سے جدا ہوگئے ہو؟‘‘

 مسعود کے کلام میں درد، تڑپ اور رقت ہے جو بلاشبہ اس کی اسیری کی بدولت ہی پیدا ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے شعر کو زندہ جاوید بنانے والی چیزیں اس کا دکھ، اس کی بے بسی، مجبوری، محکومی اور رقت و دل سوزی ہی ہے جو قارئین کے دلوں کو متاثر کرتی ہے جس نے اسے میدان شعرو ادب میں جاوداں بھی بنا دیا ہے۔

مسعودکے حبسیات کو پڑھ کرپتہ چلتا ہے کہ اس کا ’زنداں‘ نہایت تنگ و تاریک ہے، نہ یہاں روشنی ہے، نہ ہوا ہے، جسے وہ پراثر انداز میں پیش کرتا ہے،وہ زنداں میں اپنی تنہائی سے نالاں ہے کہ یہاں اس کا کوئی پرسان حال نہیں، سسکیاں لینا، آہیں بھرنا اور رات بھر آنسو بہانا ہی اس کا مقدر بن گیا ہے۔وہ اپنے قصیدوں میں اپنی بے بسی، بیچارگی اور روز بروز بڑھتی ہوئی لاچارگی کا ذکر کرتاہے اورکہتا ہے کہ میں وہ غریب الدیار اور بیکس ہوں کہ مجھے دیکھ دیکھ کر ستارے طلوع آفتاب تک پریشان رہتے ہیں،میری تسخیرکن جوانی کا قلعہ شب و روز کی گرانبار ضرب سے خشت بہ خشت گرتا جارہا ہے، جب کہ اندوہ حیات میں کمی کی کوئی صورت نظرنہیں آتی، بقول انشاء    ؎

رات آکر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

میری زندگی جو شب دیجور کی مانند تاریک ہے،مستقبل قریب میں اس میں صبح کی کوئی امید روشن نہیں۔مسعود کواپنی اولاد بیٹی، بیٹا،دوبہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی یاد ستاتی ہے تووہ اس یاد کو اپنی عرضداشت کا وسیلہ بناتا ہے اور جب وطن سے جدائی گراں گزرتی ہے تو ’چگونہ ای‘ کے عنوان سے قصیدہ لکھتا ہے، بقول مادھورام جوہر       ؎

پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا

دل میں سب کچھ ہے، مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں

ایسے ناموافق حالات میں اس کی صلاحیتیں مزید نمایاں ہوجاتی ہیں۔ رنج اور مصیبت میں جہاں اس کا جسم نحیف وناتواں ہورہا ہے، وہیں اس کا احساس قوی اور فکربلند ہوتی جارہی ہے۔ وہ اپنی اس اسیری کا ممنون ہوکر کہتا ہے’زنداں کا شکر گزار ہوں کہ اس کی وجہ سے میرے علم و دانش میں اضافہ ہورہاہے۔ مسعود کہتا ہے     ؎

ززخم و تراشیدن آید پدید

بلی گوھر تیغ و نقش خدنگ26؎

’’اس آتشیں رنج و اندوہ سے میرے ہنر اجاگر ہورہے ہیں اور کیوں نہ ہو، جبکہ تیر اور تلوار کے جوہر توکاٹنے اور تراشنے کے وقت ہی ظاہرہوتے ہیں۔‘‘

مسعود کا علم ہیئت بھی زنداں کا رہین منت ہے، لیکن تحصیل علم کی یہ کاوشیں محض وقت گزاری کے لیے تھیں، صعوبت زنداں جب حد سے بڑھ جائے، مدت حبس دراز سے دراز تر ہوجائے، امیدکی کرنیں مایوسی کے سیاہ بادل سے روپوش ہوجائیں، شباب کی جگہ بڑھاپا لے لے تو فکر و دانش کب تک ساتھ دے۔ آخر وہ بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے، چنانچہ ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جسم و روح کی اذیت کے ساتھ اسے فکر و دانش کا چراغ بھی ٹمٹماتا نظرآتا ہے،  بقول داغ دہلوی       ؎

ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر

آرزو کی آرزو ہونے لگی

مسعودکی حبسیات کا مطالعہ کریں تومحسوس ہوگا جیسے وہ واردات قلب سنارہاہے کہ ستارے اس کے مونس ہیں اور رات رات بھر اس کی بے قراری پر مضطرب رہتے ہیں۔ باد صبا اس کی قاصد ہے، اس کی آنکھوں کی نینداڑ چکی ہے۔بے چینی کا عالم ہے۔ رات کی تاریکی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور صبح کی روشنی نئی اذیت لیے سامنے آتی ہے۔ زنداں میں اس قدر تنگی ہے کہ وہ اپنا دامن بھی چاک نہیں کرسکتا۔ وہ سائے کی طرح غیرمجسم اور ناپائیدارہوچکا ہے۔ اس لیے اب سائے سے بھی ڈرتا ہے۔پاسبانوں کی آوازیں اسے زندہ ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ اگرچہ یہ آوازیں وہ اپنی ذاتی تسلی کے لیے دیتے ہیں کہ آیا مسعود زنداں میں ہے یا راہ فرار اختیار کرلیا؟البتہ پرندوں کی آوازوں میں اسے معصومیت، خلوص اور بے غرضی دکھائی دیتی ہے۔رشید الدین وطواط لکھتے ہیں

’’بیشتر اشعار مسعود سعد سلمان کلام جامع است، خاصہ آنچہ در حبس گفتہ است و ہیچ کس از شعرای عجم درین لطف بگرد او نرسد، نہ در حسن معانی و نہ در اقبال و الفاظ۔‘‘27؎

’’مسعود سعد سلمان کے زیادہ تراشعار جامع ہیں بالخصوص وہ کلام جو اس نے قید کے بارے میں لکھے ہیں، شعرائے عجم میں کوئی اس کے آس پاس بھی نہیں پہنچ سکتا، حسن معانی اور افکارو الفاظ کے انتخاب میں اس کا کوئی جواب نہیں‘‘

قصائد

مسعود کے قصائد کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے قصیدوں میں ممدوحین کی تعریف کرتے ہوئے مبالغے سے بہت کم کام لیا ہے۔ نیز حکمرانوں کے معرکوں کا جہاں ذکر آیا ہے، وہاں واقعہ نگاری بھی کی ہے جس سے بعض اہم واقعات کا پتہ چلتا ہے۔اس نے اپنے قصائد کے ذریعے ناراض حکمرانوں، وزرا و امرا کو منانے کی بھرپور کوشش کی، یہ اور بات ہے کہ کبھی بھی اس کی بات نہ بن سکی، لیکن ادبی حیثیت سے اس کا کلام اپنی مثال آپ ہیے،  اس کے کلام میں ادب کی چاشنی ہے، سوز ہے،ترنم ہے، نغمگی ہے اور لفظوں کا ایسا توازن ہے کہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے، وہ سلطان محمود کی شان میں قصیدہ لکھتے ہوئے کہتا ہے      ؎

شھی کہ بینی دو دست جود او باشد

یکی چو بحر طویل و یکی چو بئر قعیر

شھی کہ ھست دل و دست او بگاہ سخا

یکی  چو بحر محیط و یکی چو ابر مطیر28؎

’’سلطان کے دونوں ہاتھ جود و سخا میں مصروف ہیں کہ ان میںسے ایک طویل سمندر کی طرح ہے اور دوسرا گہرے کنویں کی مانند؛سلطان کے دل و دست عالم سخاوت میں بحرمحیط کی طرح ہے تو دوسرا بارش برسانے والے بادل کی طرح ۔‘‘

 469ھ میں جب سیف الدولہ نے اپنے باپ کے حکم پر ہندوستان پر لشکر کشی کی اور فتحیابی کے بعد ہندوستان کا نائب السلطنت بنایا گیاتومسعودکو ’دیوان رسالت‘ کا منصب سونپا گیا،جس کے بعد وہ علمی خدمات کے علاوہ سیف الدولہ کی فوجی مہمات میں عملی طور پربھی شریک رہنے لگا۔ سیف الدولہ جب آگرہ کی مہم پر روانہ ہوا تو مسعود نے اس موقع پرایک قصیدہ لکھا، جس میں اس نے شہزادہ سیف الدولہ کو ’صنیع امیر المومنین‘ (امیرالمؤمنین کی تلوار)سے خطاب کیاہے جواسے اس کی فتوحات کی بدولت خلیفۂ وقت کی طرف سے ملا تھا، جیساکہ مصرع ذیل سے واضح ہے

صنیع خویشتن خواند امیرالمؤمنین او را

شدہ امکان او افرون کہ بادش بر فرون امکان29؎

’’سلطان خود اسے ’صنیع امیرالمؤمنین‘ کہتے ہیں، اس کے امکانات میں اضافہ اس کی بزرگی کا باعث ہوا۔‘‘

فتح آگرہ کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب شہزادہ سیف الدولہ کو اس کے والد سلطان ابراہیم نے نائب السلطنت مقرر کرکے ہندوستان بھیجا تو آگرے کا راجہ جے پال نے علم بغاوت بلند کیا۔ سیف الدولہ نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر کشی کی۔ جے پال کو معلوم ہوا تو اس نے ایلچی بھیج کر اطاعت اختیار کرنے کی پیشکش کی۔ سیف الدولہ کو اس کی پیشکش کا اعتبار نہ ہوا اور اس نے جے پال کی پیشکش مسترد کردی،مسعود اس حملے کا ذکر بڑے جوش و خروش سے کرتا ہے اور آخر میں شہزادہ سیف الدولہ کی فتح کا حال بیان کرتا ہے۔ اس قصیدے سے آگرے کا محل وقوع، ہندوستانی معاشرت اور میدان کارزار کی پوری تصویرسامنے آجاتی ہے۔ مسعود کے قصائد میں بلند ہمتی کی تلقین، عجز و یقین اور ستائش مرد اں کے مضامین بکھرے نظر آتے ہیں مثلا       ؎

ہر کہ او را بلند مردی کرد

تابروز اجل نگردد پست30؎

’’خدا نے اسے بلند ہمت بنایا تاکہ قیامت کے دن وہ چھوٹا نہ دکھائی دے۔‘‘

سیف الدولہ جب ہندوستان سے واپس غزنی روانہ ہوا تو مسعودبھی اس کے ہمراہ تھا۔ مسعود نے اپنے ایک قصیدے میں اس سفر کی پوری داستان بیان کی ہے اورساتھ ہی راستے کی دشواریوں، دوستوں کی جدائی اور وطن کی یاد میں آنسو بہایاہے۔

مسعود کے قصائد مدحیہ سے زیادہ حبسیہ ہیں، جس کے اندر اگرچہ حسن و عشق اور محبوب کے زلف و رخسار کی باتیںتقریبا نا کے برابر ہیں، اس کے باوجوداس کے کلام کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے      ؎

حسامتست اجل وز اجل کہ جست امان

سنان تست قضا وز قضا کہ یافت فرار

’’تمھاری تلوار موت کی مانند ہے کہ اس سے کسی کو امان نہیں، تمہارا نیزہ مثل قضا ہے کہ اس سے کسی کو راہ فرار نہیں۔‘‘

چنان بگریم بر تو کہ ہیچ کس نگِریست

کہ ہیچ وقت بہ فضل تو ہیچ کس ناید

’’میں تم پراس طرح گریہ کناں ہوں کہ اس طرح کسی نے بھی آہ و فغاں نہ کیا ہوگا، کیونکہ تم جیسا فضیلت والا شخص کبھی بھی نہیں آیا۔‘‘

روز تا شب ز غم دل افگارم

ہمہ شب تا بہ روز بیدارم

’’غموں کی وجہ سے صبح سے شام تک غمگین رہتا ہوں اور میری پوری رات بھی بیداری میں ہی گزرتی ہے۔‘‘

دلم ز محنت خون گشت و خون ہمی گِریَم

ہمہ شب از غمِ عَورات و اندُہِ اطفال

’’میرادل رنج و غم کے سبب خون ہورہا ہے اور میں پوری رات اپنی بیوی اور بچوں کی یاد میں خون ہی روتا رہتا ہوں۔‘‘

شگفت نیست اگر شعرِ من نمی دانند

کہ طبعِ ایشان پستست و شعرِ من والاست31؎

’’اگرلوگ میرے اشعار کو نہیں سمجھ پاتے تو کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ ان کی طبیعت پست ہے اور میرے اشعار بلند ہیں۔‘‘

چگونہ انکار آریم ھستی او را

کہ ما بہ ہستیِ او را دلیل وبرھانیم

’’ہم اُس ذات کا انکار کیسے کریں کہ ہم تو اسی کی ہستی کی دلیل اور برہان ہیں۔‘‘

اگر نہ روز و شب اندر ستایش اوییم

یقین بدان کہ نہ ازپشت سعد سلمانیم

’’اگر ہم روز و شب اس کی مدح سرائی میں مصروف نہ رہ سکیں تو سمجھ لینا کہ ہم سعد سلمان کی اولاد سے نہیں ہیں‘‘

ہمہ از آدمیم ما لیکن

او گرامی ترست کو داناست32؎

’’ہم میں سے ہرشخص انسان ہے، لیکن وہ زیادہ ذی وقار اور دانا ہے۔‘‘

مسعود ایک قصیدے میں خود کو لاہورکالاڈلاہونے پر فخر کرتے ہوئے کہتاہے     ؎

ناگاہ عزیز فرزند از تو جدا شدہ ست

با  درد او بہ نوحہ و شیون چگونہ ای

’’اے لاہور! تمھارا ہردلعزیز سپوت اچانک تم سے جدا ہوگیا، اس کی جدائی کے درد میں تم گریہ و زاری کرتے ہوئے تم کس حال میں ہو؟‘‘

مسعود اپنے ایک قصیدے میں اپنی قید کی تنہائی اور سختی کاذکر کرتے ہوئے کہتا ہے

شخصی بہ ھزار غم گرفتارم

در ھر نفسی بجان رسد کارم

’’میں ہزارغموں اور مایوسیوں کے ساتھ قیدخانے میں پڑاہوں،میری ہرسانس آزادی کی متمنی ہے۔‘‘

بی زلت و بیگناہ محبوسم

بی علت و بی سبب گرفتارم

’’میںبے گناہ قیدی ہوں اور بلاوجہ مصیبت کے گڈھے میں ڈھکیل دیاگیا ہوں۔‘‘

خوردہ قسم اختران بپاداشم

بستہ کمر آسمان بہ پیکارم

’’ستاروں نے مجھے نقصان کرنے کی ٹھان لی ہے اور آسمان مجھ سے ہمہ وقت برسرپیکار ہے۔‘‘

امروز بہ غم فزونترم از دی

امسال بنقد کمتر از پارم

’’میرا ہرآنے والا دن گزشتہ دن سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور میرا ہرسال،گزرے ہوئے سال سے گراں ہوتا جارہا ہے۔‘‘

یاران گزیدہ داشتم روزی

امروز چہ شد کہ نیست کس یارم

’’ایک وقت تھا کہ میرے پاس دوستوں کی بھرمار تھی لیکن ہائے افسوس کہ اب میرا کوئی یار نہیں۔‘‘

ھرنیمہ شب آسمان ستوہ آید

از گریہ سخت و نالہ زارم

’’میری آہ و فغاں کے سبب یہ آسمان ہرنیم شب میں غم کی تاریکی میں ڈوب جاتاہے‘‘

محبوس چرا شدم نمی دانم

دانم کہ نہ دزدم و نہ عیارم

’’میں کس جرم کی پاداش میں قیدی ہوا یہ مجھے بھی نہیں معلوم،البتہ اتنا جانتاہوں کہ نہ میں نے چوری کی ہے اور نہ ہی جعلسازی کی ہے۔‘‘

بسیار امید بود در طبعم

ای وای امید ہای بسیارم33؎

’’ایک زمانہ تھا جب میرے دل میں امیدوں کا سیلاب تھا، مگر افسوس کہ آج وہ ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔‘‘

مسعود جب دربار کی نزاکتوں، قید و رہائی اورجزا و سزا کے کھیل سے عاجز آکرتنہائی کی زندگی گزارنے لگتا ہے، تو بہرام شاہ کی خدمت میں ایک قطعہ لکھ کر اپنی خلوت نشینی کا ذکرکرتے ہوئے کہتا ہے     ؎

پنجاہ و ہفت رفت ز تاریخ عمر من

شد سودمند مدت و ناسودمند ماند

وامروز بر یقین و گمانم زعمر خویش

دانم کہ چند رفت و ندانم کہ چند ماند

فہرست حال من ھمہ با رنج و بند بود

از حبس ماند عبرت و از بند پندماند

از قصد بدسکالان و زغمز حاسدان

جان در بلا فتاد و تن اندر گزند ماند

لیکن بہ شکر کوش کہ از طبع پاک تو

چندین ہزار بیت بدیع بلند ماند34؎

’’میری عمر کے ستاون برس بیت گئے، نفع بخش دن گزر گئے اور لاحاصل زندگی باقی رہ  گئی؛ آج میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اب میری عمر کے کتنے دن گزرگئے اور کتنے دن باقی ہیں؛ میرے حالات کی فہرست میں رنج و بند کے سواکچھ بھی نہیں؛ قید و بند کی سختیوں سے عبرت کے سوا کچھ نہ ملا؛ بدخواہوںاور حاسدوں کی کارفرمائیوں کے سبب میرے جسم و جان کو جوکھم اٹھانے پڑے؛ لیکن خداکاشکر ہے کہ میری طبیعت کی پاکیزگی نے مجھ سے چندہزاربہترین اشعارکہلوادیے۔‘‘

مسعود امرا کے خانوادے سے تعلق رکھتا تھا، اس کی طبیعت میں متانت تھی، اسے اپنی خودداری اور عزت نفس کا پاس تھا، تعریفات کرتے وقت اسے اپنے پرکھوں کی آن بان کا بھی خیال رہتا تھا۔ اسی لیے وہ مدح سرائی میں بھی حد اعتدال سے آگے نہیں بڑھتا، وہ تعریف کرتے وقت بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے گریز کرتا ہے، اس کی تعریف میں بھی اس کی غیرت اور عزت نفس کی ایک ہلکی پرت محسوس کی جاسکتی ہے۔وہ اپنی خودداری اور غیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتاہے       ؎

ای کہ بدخواہ روزگار منی

شادمانی بدانچہ ممتحنم

تو اگرچہ توانگری نہ تویی

من اگر چند مفلسم نہ منم35؎

’’اے میرے دن کا دشمن، تو مجھے پریشانی میں ڈال کر بہت خوش ہے، اگر تو مالدار ہے تو بس توہی مالدار نہیں ہے اور اگر میں مفلس ہوں تو صرف میں ہی مفلس نہیں ہوں۔‘‘

رباعیات

مسعود کی رباعیات میں بھی حبسیات کی جھلک اور اس کا درد و کرب صاف دکھائی دیتا ہے     ؎

مونس ہمہ شب خیال دلجوی تو بود

در چنگ نہ زُلف غالیہ بوی تو بود

ہرچند شبی سیہ تر از موی تو بود

اُمید بہ آفتاب چون روی تو بود36؎

’’تمھارا خیال ہی میری راتوں کا رفیق اور دلجوئی کرنے والا تھا، لیکن (افسوس کہ) میرے ہاتھوں میں تمہاری مشکیں زلفیں نہ تھیں، وہ رات اگرچہ تمہاری کالی زلفوں سے زیادہ سیاہ تھی، مگر اس کے باوجود تمہارے آفتاب جیسے روشن چہرے کے (دیدار کی)  امید تھی۔‘‘

مسعودکی رباعیات میں زندگی اور موت کے فلسفے موجود ہیں، اس کی رباعیات میں خیام کے افکار کی جھلک ملتی ہے، وہ ایک جگہ لکھتا ہے      ؎

گر صبر کنم عمر ہمی باد شود

ور نالہ کنم عدو ہمی شاد شود

شادی عدو نجویم و صبر کنم

شاید کہ فلک در این میان راد شود37؎

’’اگر صبر کروں تب بھی عمر گزر ہی جائے گی اور اگر نالہ و فغاں کروں تو دشمن خوش ہوں گے، (اس لیے) اپنے دشمنوں کو خوش کرنے سے اچھا ہے کہ صبر ہی کروں۔ شاید اس دوران آسمان (خدا) بھی کرم کا معاملہ فرمادے۔‘‘

ایک جگہ مسعود کہتا ہے    ؎

ای روز مرا جز شب دیجور مدان

امروز چومن ز خلق رنجور مدان

ای روز دلم روز مرا نور مدان

گر تو دوری زمن غمت دور مدان

’’اے دن! مجھے سوائے سیاہ رات کے کچھ تصور مت کر، اس وقت مجھ سے بھی زیادہ کوئی مردم بیزار ہے، اس کا گمان بھی اپنے ذہن میں مت لا، اے روز! یہ ہرگز اپنے خیال میں نہ لا کہ میرا دل میرے دن کی طرح ہی روشن ہے، اگر تو مجھ سے دور ہے تو یہ مت سمجھ کہ تیری جدائی کا غم بھی مجھ سے دور ہے۔‘‘

ایسا نہیں ہے کہ مسعود کا سارا کلام مایوسی،غم و اندوہ اور حوادثات زمانہ کاہی غماز ہے۔ اس کے بہت سے اشعارایسے بھی ہیں جن میں جام و مستی،عشق و دوستی اور امیدکی باتیں بھی ملتی ہیں، وہ ایک جگہ کہتا ہے      ؎

احسان خداوند بمن بندہ رسید

برشاخ امید من بروبرگ دمید

واللہ کہ من از جاہ تو آن خواہم دید

کآن نوع کس از خلق نہ گفت و نشنید38؎

’’اللہ کا کرم مجھ حقیر بندے تک پہنچا، امید کی ٹہنی پر پھل اور پتے نکل گئے، بخدا میں تمہارے جاہ و جلال کو دیکھوں گا کہ انسانوں میں اس جیسا(رعب و دبدبہ) نہ دیکھا گیا اور نہ سنا گیا۔‘‘

دیدار تو از نعمت دوجہان خوشتر

در عمر وصال تو فراوان خوشتر

من عشق تو ای عشق تو از جان خوشتر

پنہان دارم کہ عشق پنہان خوشتر39؎

’’تیرا دیدار دونوں جہانوں کی نعمتوں سے بھی زیادہ دلفریب ہے، زندگی میں تیرے وصال کی فراوانی عمرافزاہے، میرا تجھ سے لگاؤ تیری اپنی جان سے محبت کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، میں اسے صیغۂ راز میں اس لیے رکھتا ہوں کہ عشق کو پوشیدہ رکھنا ہی بہتر ہے۔‘‘

مقطعات

مسعود کے مقطعات میں بھی وہی رنگ و آہنگ ہے، وہ اپنے مقطعات میںحیات زنداں کی پوری عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے، کہیں وہ اپنے بدخواہوں کی ہجو کرتا ہے تو کہیں اپنے سے ہمدردی و غمخواری کرنے والے اقربا، اعزا، امرا و وزرا کی مدح سرائی کرتا ہے۔ اس کے مقطعات میں کہیں اپنے حالات کے شکوے و نالے ہیں، تو کہیں غموں کے پھپھولے اور دلوں کے آبلے اور چھالے ہیں۔ وہ کہیں حالت زار اور بالوں کی سفیدی کو دیکھ کر پریشان ہوتا ہے تو کہیں اپنی بے مقصد زندگی کا رونا روتا ہے، وہ کبھی اپنے تجربات زندگی سے سبق لے کر اپنے پسماندگان کو موعظت و نصیحت کرتاہے تو کبھی اپنی ہی آستین میں پالے ہوئے سانپ نما دوستوں پر تیکھے طنز کے تیرونشتر برساتاہے، کبھی اپنے دوستوں کے خطوط کا جواب دیتا ہے تو کبھی اپنے آس پاس کے لوگوں، باغبان، نقاش، طبال، بازرگان، حاجب، عطار، قصاب، آشناگر، طبیب، منجم، فالگیر یہاں تک کہ اس کے آس پاس موجود چیزوں اور چرند و پرند کے طرز زیست کو بغوردیکھتا ہے اور انھیں اپنے احساس کے نغمے میں پروتا ہے۔

مسعودکے دیوان میں اس کے قصائد، غزلیات، مثنویات، مقطعات، مسمطات، رباعیات اور ترجیعات شامل ہیں، ان میں حبسیہ کے علاوہ مدحیہ، طربیہ اورعشقیہ کلام بھی ہیں۔

مسعود کا فارسی دیوان پہلی مرتبہ مشہورصوفی شاعر سنائی نے مرتب کیا،یہ دیوان ایک زمانے میں شائع بھی ہوا تھا،بعد میں عبدالوہاب قزوینی نے 1905 میں، رشید یاسمی نے 1939 میں، مہدی نوریان نے 1985 میں اور ناصر ہیری نے مبسوط مقدموں کے ساتھ اسے شائع کرایا۔یہ دیوان 18ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں قصائد کے علاوہ متعدد حبسیات، 20غزلیں، 210رباعیاں، چند مرثیے، ایک ’شہر آشوب‘، ’ماہ ہائی فارسی‘ اور ’روزہای فرس‘ شامل ہیں۔40؎

عوفی کے مطابق مسعود فارسی، عربی اور ہندی میں شعر کہتا تھا اور ان تینوں زبانوں میں اس نے دیوان بھی مرتب کیے۔ فارسی اور عربی میں صاحب دیوان ہونا ظاہر ہے، البتہ ہندی زبان میں مسعودکا صاحب دیوان ہونا ہنوز تحقیق طلب ہے، کیونکہ ہندی دیوان اب ناپیدہے۔البتہ اس کا عربی دیوان جس کا ذکر ’لباب الالباب‘آیا ہے، ’خزانہ عامرہ‘ اور’سبحۃ المرجان‘ کے مطابق انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے،راقم کی اس دیوان تک رسائی نہیں ہوسکی ہے۔

مصادر و مراجع

  1.       فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ، ڈاکٹر محمد ریاض، ڈاکٹر محمد صدیق شبلی، بسمہ کتاب گھر، دہلی، ص31، 151-57
  2.       دیوان مسعود، بامقدمہ ناصر ہیری، انتشارات گلشانی، خیابان انقلاب چہار راہ ولی عصر، بلاک 371، 1362خورشیدی، ص693
  3.  Persian Poetry at the Indian Frontier: Mas'ud Sa'd Salman of Lahore by Sunil Sharma, Parmanent Black, IP Extension, Delhi - 92, 2000, Page - 19
  4.        دیوان مسعودسعد سلمان،تصحیح آقای رشید یاسمی، شرکت کتابفروشی ادب، 1318خورشیدی، ص56
  5.       ایضا، ص493
  6.                دیوان مسعود، ص395
  7.        چہار مقالہ، نظامی عروضی سمرقندی، ص38، تصحیح آقای محمد قزوینی، چاپخانہ خاور، تہران1319 شمسی؍دیوان مسعود، بامقدمہ ناصر ھیری، ص693
  8.       ایضا، ص351
  9.              ایضا، ص420
  10.      ایضا، صدیوان مسعود، ناصر ہیری، ص526
  11.     دیوان شیخ حزین
  12. Persian Poetry at the Indian Frontier: Mas'ud Sa'd Salman of Lahore by Sunil Sharma, Parmanent Black, IP Extension, Delhi - 92, 2000, Page - 16
  13.      دیوان مسعود، ص526      
  14.     دیوان مسعود، مقدمہ ناصر ہیری
  15.     ایضا، ص635
  16.     صنادید عجم، مہدی حسین ناصری، ص133
  17.      ایضا، ص224
  18.     گنجور، شمارہ14، تاریخ ادبیات ایران، ترجمہ سید مبارزالدین رفعت، ص194، کتب خانہ خورشیدیہ، اردو بازارلاہور، 2011ء؍دیوان مسعود، ص621
  19.      ملتان، ڈاکٹر رفیع الدین احمد کاظمی، ص359، دانش محل، امین الدولہ پارک، لکھنؤ،1991ء
  20.     دیوان مسعود، مقدمہ ناصر ہیری
  21.      چہار مقالہ، نظامی عروضی سمرقندی، ص38، تصحیح آقای محمد قزوینی، چاپخانہ خاور، تہران1319 شمسی
  22.     صنادید عجم، ص134
  23.     دیوان مسعود و گنجور، شمارہ نمبر5
  24.     امیر معزی، گنجور، شمارہ18
  25.      ملتان، ڈاکٹر رفیع الدین احمد کاظمی، ص360-63، دانش محل، امین الدولہ پارک، لکھنؤ، 1991
  26.     دیوان، ص393
  27.      دیوان مسعودسعد سلمان، مقدمہ ناصر ہیری
  28.     دیوان مسعود سعد سلمان، ص245
  29.      ایضا، ص443
  30.       ایضا، ص64
  31.     ایضا، ص56  
  32.     ایضا، ص51
  33.     ایضا، 356-57
  34.  ایضا،، ص590
  35.     ایضا،، ص321-22  
  36.     ایضا،، ص692
  37.     ایضا،، ص691       
  38.      ایضا
  39.      ایضا، ص698
  40.     فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ، ڈاکٹر محمد ریاض، ڈاکٹر محمد صدیق شبلی، ص156


Dr. Moghees Ahmad

A-78, Teacher's Residential Flats

Near University Club, Jodhpur Colony (Old), B.H.U.,

Varanasi - 221005 (UP)

Mob.: 9891567738

E-mail: moghees.ahmad5@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں