12/5/23

صنف اندر صنف، آزاد غزل سے غزالہ تک:شیخ احرار احمد


 تلخیص

بیسویں صدی میں اردو شاعری، موضوع کے تنوع کے ساتھ ساتھ ہیئتی تجربوں کی وجہ سے زیادہ ہنگامہ خیز رہی ہے۔ انجمن پنجاب سے ملنے والی تحریک نے بیسویں صدی کی ابتدا ہی سے شرر کے رسالے ’دل گداز‘ کے ذریعے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ اردو کی روایتی اصناف میں بہت پہلے سے ہیئتی تجربے ہورہے تھے، انیسویں صدی کے آخری ربع میں کچھ یورپی اصناف میں بھی اردو نظمیں کہی گئیں، لیکن بیسویں صدی میں یورپی کے علاوہ جاپانی اصناف کی طرف بھی ہمارے شعرا متوجہ ہوئے۔ 1945  میں مظہر امام نے صنفِ غزل میں تجربے کا آغاز کیا، ’شب خون‘ الہ آباد، مئی 1968  کے شمارے میں شائع مظہر امام کی ایک آزاد غزل نے شعراوناقدین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور پھر اس کے بعد صنفِ غزل میں تجربوں کا سلسلہ چل پڑا۔سب سے پہلے کرامت علی کرامت نے مظہر امام اور ان کی آزاد غزل پر ایک مضمون ’شاعراور فن کار مظہر امام‘ کے عنوان سے لکھا اورشائع کرایا، جس میں پہلی بار آزادغزل کا ذکر کیا گیااور اس صنف کے خدوخال واضح کیے گئے۔

ظہیر غازی پوری نے آزاد غزل کے ہر شعر کے ا رکان کو ایک خاص ترتیب دیا اور اس کی پابندی کے ساتھ آزادغزل کو قبول کرتے ہوئے اسے ’غزل نما‘ کا نام دیا۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے تھے جو آزاد غزل کی صنفی حیثیت کو مانتے تھے لیکن اس کے نام سے اختلاف تھا،ان لوگوں نے اپنی تخلیقات کو غزلیہ، گیتل اور مختلف ناموں سے رسائل میں چھپوایا۔ مظفر حنفی کا ایک ادبی مذاق جو کہ معریٰ غزل کی صنف کا باعث بنا۔نثری نظم کی طرز پر بشیر بدر نے نثری غزل کا تجربہ کیا۔انور شیخ نے غزالہ کہی۔ اسی طرح کچھ ادبی منچلوں نے گڑبڑ غزل اور اینٹی غزل جیسے عنوانات سے غزل کی ہیئت میں مزاحیہ یا بے تکے کلام پیش کیے۔ اس مضمون میں صنفِ غزل سے پھوٹی انھیں شاخوں کی طرف تحقیقی و تنقیدی انداز میں روشنی ڈالنے کی سعی کی گئی ہے۔

کلیدی الفاظ

آزاد غزل،غزل نما، گیتل، غزلیہ، دف طرز، معریٰ غزل، اینٹی غزل، ٹیڈی غزل، گڑبڑ غزل، نثری غزل، غزالہ، صنف اندر صنف۔

                                   

شدتِ جذبات جب اظہار چاہتے ہیں تو تخیل الفاظ و معنی کا جہان آباد کرتا ہے جسے قرطاس پر محفوظ کرنے کے لیے تخلیق کار ادبی ہیئتوں کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ ناآسودہ اظہار خیال ہیئتوں کی اختراع کا سبب بنتے ہیں جسے ہمارے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ تخلیق کارظہورمیں لاتے ہیں۔اردو شاعری میں نئی ہیئتوں کا چلن جب عام ہوا تو غزل بھی اس کے حصار میں آئی۔ اس طرح غزل کی ہیئت میں بھی تجربے شروع ہوگئے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔   

آزاد غزل

آزاد غزل کے وجود میں آنے کی وجہ آزاد نظم ہے اور اس کا بنیادی تصورآزاد نظم کے تصور سے ماخوذ ہے۔ جس کے بارے میں کرامت علی کرامت کہتے ہیں کہ اس کا سلسلہ عبدالحلیم شرر کے اس منظوم ڈرامے سے ہے جو رسالہ،’دلگداز‘ فروری 1901 میں شائع ہواتھا۔ جو اردو میں بحردواں، دھاب مان چھند یا Running Verse میں لکھی گئی نظم کی غالباً پہلی مثال ہے۔ اسی تکنیک کو ترقی پسند اورحلقۂ اربابِ ذوق یا بعد والوں نے آزادنظم کے لیے استعمال کیا اور اسی تکنیک کو مظہرامام نے آزادغزل کے لیے برتا اور اس نئی صنف سخن کا نام آزادغزل رکھا۔جسے آگے چل کر ’’سلیم شہزاد نے اس کا نام’غزلیہ‘، کاظم نائطی نے ’غزل نما‘اورپرویز رحمانی نے ’گیتل‘رکھنے کی کوشش کی۔‘‘

(آزاد غزل کا سترسالہ سفر کرامت علی کرامت، ص 2،  ،ہفت روزہ’ہماری زبان‘8 تا14؍مارچ، 2016،شمارہ 10،جلد 75)

آزاد غزل کے بانی مظہر امام ہیں۔ یہ تجربہ انھوں نے پہلی بار دربھنگہ کی سرزمین پر 1945 کے اوائل میں کیا۔ ن۔م۔ راشد کے شعری مجموعے ’ماورا‘ کی بہت سی آزاد نظموں کے ہم قافیہ مصرعوں کو دیکھ کر انھیں یہ خیال آیا، لہٰذا پہلے تجربے کی صورت جو آزاد غزل انھوں نے تخلیق کی وہ یہ ہے      ؎

ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا آپ ہیں

عشق طوفاں ہے، سفینا آپ ہیں

آرزوؤں کی اندھیری رات میں

میرے خوابوں کے افق پر جگمگایا جو ستارا، آپ ہیں

یہ آزاد غزل’پہلی بار جنوری1962 میں رسالہ ’رفتارِ نو‘ دربھنگا(مدیر سید منظر امام)کے خاص نمبر میں شائع ہوئی ‘پھر اس کے بعد مظہر امام نے اپنے شعری مجموعہ ’زخم تمنا‘ اشاعت اکتوبر1963 میں بھی اسے شامل کیا۔ (آزادغزل پر ایک نوٹ مظہر امام،ص210تا211۔ رسالہ’شاعر‘ ممبئی۔ نثری نظم اور آزاد غزل نمبر 1983)

دوسری آزاد غزل بھی مظہرامام نے ہی کہی اور یہ آزاد غزل رسالہ ’شب خون‘ الہ آباد، مئی 1968 کے شمارے میں شائع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب ’شب خون ‘ اور جدیدیت کا رجحان زوروں پرتھا۔ اس آزاد غزل نے شعراوناقدین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی جس کا مطلع تھا     ؎

پھول ہو زہر میں ڈوبا ہوا، پتھر نہ سہی

دوستو! میرا بھی کچھ حق تو ہے چھپ کر ہی سہی، کھل کرنہ سہی

کرامت علی کرامت نے مظہر امام کی بیاض میں آزاد غزل کے اس تجر بے کو دیکھا اور رسالہ ’اشارہ‘ پٹنہ (مدیر قیوم خضر) اگست1959 کے شمارے میں مظہر امام کی بیاض کے حوالے سے اپنا ایک مضمون ’شاعراور فن کار مظہر امام‘ شائع کرایا، جس میں پہلی بار آزادغزل کا ذکر کیا گیااور اس صنف کے خدوخال واضح کیے گئے۔ اس سے پہلے کسی بھی رسالے یا اخبارمیں اس صنف کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

آزاد غزل کے دوسرے شاعر اور تیسری آزاد غزل کہنے والے کرامت علی کرامت ہیں جن کی آزاد غزل کا مطلع ہے      ؎

گرچہ آشوبِ زمانہ کے اثرسے بجھ گئی دل کی امنگ

یہ نہ سوچو حوصلوں کا دامنِ رنگیں ہے تنگ

یہ آزاد غزل رسالہ’کتاب‘ لکھنؤ کے اکتوبر1971 کے شمارے میں شائع ہوئی پھر بعد میں کرامت علی کرامت کے شعری مجموعے ’شعاعوں کی صلیب‘ مطبوعہ1972 میں شامل ہوئی۔1972 ہی میں رسالہ ماہنامہ ’شاعر‘ ممبئی، کے شمارے جون؍جولائی میں کرامت علی کرامت کا مضمون ’جدید شاعری میں وزن وآہنگ کے مسائل‘ شائع ہوا تھا جس میں آزاد غزل کے تخلیقی عناصر کی نشاندہی مدلل انداز میں کرتے ہوئے اس صنف کے روشن امکانات پر تفصیلی بحث کی گئی تھی۔ کرامت علی کرامت کے مطابق اس مضمون نے کئی نوجوان شعرا کو اپنی جانب متوجہ کیا جو ادب میں نئے نئے تجربوں کے متلاشی تھے۔ بہت سے نوجوان شعرا نے آزاد غزلیں لکھ لکھ کر کرامت علی کرامت کے یہاں اظہار خیال کی غرض سے بھیجیں جن میں سے یوسف جمال، زرینہ ثانی، بدیع الزماں خاور، سلیم شہزاد، محمد فاروق مضطر، نشاط انصاری، مسعود شمسی، فرحت قادری اور پرویز رحمانی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ آگے چل کر انھیں شعرا نے اس صنف سخن کو اردو ادب میں فروغ دینے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوسف جمال تیسرے شاعر ہیں جنھوں نے آزاد غزل لکھی اور ان کی یہ نئی تخلیق رسالہ’شاعر‘ ممبئی، جون؍جولائی 1972 کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس اشاعت کے تعلق سے کرامت علی کرامت کہتے ہیں

’’راقم (کرامت علی کرامت) کی ترغیب پر یوسف جمال نے ’شاعر‘ کے سالنامہ جون؍ جولائی 1972 میں اپنی پہلی آزاد غزل

        حوصلوں کے سنگ پر چلنا ہے تو کم خواب کی حد سے نکل چھپوائی تھی، لہٰذا مظہر امام اور راقم الحروف کے بعد یوسف جمال تیسرا نام ہے جس نے اس نئی صنفِ سخن کو اعتباربخشااور اس کو مقبولِ عام بنانے کے سلسلے میں مجاہدانہ رویہ اختیار کیا۔‘‘

(آزاد غزل کا ستر سالہ سفر کرامت علی کرامت ،ص2،ہفت روزہ، ہماری زبان،8 تا 14؍ مارچ 2016،  شمارہ،10، جلد 75)

ایک جگہ اور انھوں نے یہ بات کہی ہے

’’میری ترغیب پر یوسف جمال نے اس نئی صنف کو اپنا وسیلۂ اظہار بناتے  ہوئے اسے اس حد تک فروغ دیا کہ آزاد غزل کا ذکر آتے ہی ذہن فوراً یوسف جمال کی طرف منتقل ہوتاہے۔‘‘(آزاد غزل میری نظر میں کرامت علی کرامت ص189، رسالہ ’شاعر‘ممبئی، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر،1983)

قول بالاکا مضمون ظفر ہاشمی کی کتاب’آزاد غزل ایک تجربہ‘ اشاعت 2016 میں مقدمے کی شکل میںبھی شامل ہے۔یہاں یہ بات چونکاتی ہے کہ جب شاعر کے اسی شمارے میں کرامت علی کرامت کا مضمون ’جدید شاعری میں وزن و آہنگ کے مسائل‘ شائع ہوا تو کئی نوجوان شعرا اس صنف کی جانب متوجہ ہوئے۔ جن میں سے یوسف جمال بھی ایک تھے۔ جو اپنی آزاد غزلیں کرامت علی کرامت کو اظہار خیال کی غرض سے بھیجے۔ تو اسی شمارے میں ان کی آزاد غزل کرامت علی کرامت کی ترغیب پر اتنی جلد کیسے شائع ہوگئی۔ ہوسکتا ہے کہ کرامت علی کرامت سے سنہ اشاعت کی تاریخ کے معاملے میں سہو ہواہو۔ اسی طرح کا ایک سہو مظہر امام سے بھی ہوا ہے۔ ان کے قول کے مطابق ’فنون‘لاہور کے ’جدیدغزل نمبر، اشاعت 1969 میں سلیم اختر کا مضمون ’تخلیقی عمل کا نفسیاتی مطالعہ‘ مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع ہواتھا

’’کرامت علی کرامت..... انھوں نے نہ صرف یہ کہ آزادغزل لکھی بلکہ وہ اس صنف کے نظریہ ساز کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’جدید شاعری میں وزن و آہنگ کے مسائل‘ میں آزاد غزل کی حمایت بڑی سنجیدہ دلیلوں کے ساتھ کی۔ اور اس تجربے کو وسیع امکانات کا حامل قرار دیا۔‘‘

(آزاد غزل پر ایک نوٹ، ص212،مشمولہ رسالہ’شاعر‘ممبئی، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983)

بقول کرامت علی کرامت جب یہ مضمون شاعر میں جون ؍ جولائی1972 کو پہلی بار شائع ہواتو 1969 میں سلیم اخترنے کیسے یہ بات کہی۔ لہٰذایہاں بھی تاریخی سہو ہوا ہے۔

آزاد غزل کا پہلا شعری مجموعہ علیم صبانویدی کا ’ردِ کفر ‘ ہے جو فروری 1979 میں شائع ہوا جس میں1973 سے لے کر1978  تک کی باسٹھ آزاد غزلیں شامل ہیں۔1982 میں علیم صبانویدی نے مختلف شعرا کی چوالیس آزاد غزلوں کا ایک انتخاب ’قیدِ شکن ‘ کے نام سے اور 1983 میں آزاد غزل پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ’آزاد غزل شناخت کی حدوں میں ‘ شائع کرایا۔1979 میں مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے دوماہی رسالے ’کوہسار‘ کے ذریعے آزاد غزل کی ایک تحریک چلائی۔ یہ رسالہ پہلے ہزاری باغ پھر بعد میں بھاگلپور سے شائع ہوتا رہا۔ اس رسالے نے آزادغزل کو استحکام اور قبولیت عام بخشنے کے سلسلے میں اہم کردار اداکیا۔ اس رسالے کے بعد اگلے دس سال کے اندر مختلف جرائد ورسائل میں خاص تعداد میں آزاد غزلیں شائع ہوئیں اور ان پر بحثیں ہوئیں۔کرامت علی کرامت نے ہندوپاک اور دوسرے ممالک کے تینتالیس رسالوں کا ذکر ان کے نام و مقام کے ساتھ کیا ہے۔بقول کرامت علی کرامت

’’1978 سے لے کر1988 تک کا عرصہ صنفِ آزاد غزل کے لیے ایک ’سنہرا دور‘ کہلاتا ہے کیوں کہ اسی دور میں سب سے زیادہ تعداد میں آزاد غزل کہی گئیں اور سب سے زیادہ رسائل میں اس صنفِ سخن پر بحث و گفتگو چھائی رہی۔‘‘( آزاد غزل کا ستر سالہ سفر، ص2،  ہفت روزہ، ہماری زبان، 8تا14؍  مارچ 2016،  شمارہ، 10،  جلد75)

شاعر کا شمارہ6-8، 1983’نثری نظم اور آزاد غزل نمبر‘ جنوری 1984 میں منظرعام پر آیاجو ان دونوں صنفوں کے تعلق سے تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے سجاد بخاری اپنے ایم فل، کے مقالے اور ظفر ہاشمی نے اپنی کتاب ’آزاد غزل ایک تجربہ‘ کے لیے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ سجاد بخاری کی کتاب میں 1985 تک کی آزاد غزلوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو مدراس یونیورسٹی کی ایم فل، کی ڈگری کے لیے لکھی گئی تھی،اور 2006 میں کتابی شکل میں منظرعام پر آئی۔ ظفر ہاشمی کی کتاب میں 1989 تک کی آزاد غزل کی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب2016 میں ظفر ہاشمی مرحوم کی اہلیہ عصمت خانم نے کرامت علی کرامت کے مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں آزاد غزل کے دوشعری مجموعے’غزل اندر غزل‘ نذیر فتح پوری، اور ’ردائے ہنر‘ منصور عمر،شائع ہوئے جس میں آزاد غزل کے فنی پہلوؤں کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔ کرامت علی کرامت کے مطابق ’’یہ لحاظ اس سے پہلے کے شعری مجموعوں میں نظر نہیں آتا۔‘‘

(آزاد غزل کا سترسالہ سفر، ص2، ، ہفت روزہ’ہماری زبان‘8 تا14؍مارچ،2016،شمارہ 10،جلد 75

1973 کے آخر تک، مظہر امام کے شعری مجموعے ’زخم تمنا‘ اور’رشتہ گونگے سفرکا‘، کرامت علی کرامت کا مجموعہ ’شعاعوں کی صلیب‘ اور ظفر اقبال کا مجموعہ’رطب ویابس‘ منظرِ عام پر آچکے تھے جن میں کچھ آزاد غزلیں بھی شامل تھیں۔ اس کے بعد علیم صبانویدی ’ردِ کفر‘ باسٹھ آزاد غزلیں۔ قتیل شفائی کامجموعہ’آموختہ‘ میں چھ آزاد غزلیں۔ کرشن موہن’کمل کامنا کے‘ تین آزادغزلیں،  بدیع الزماں خاور’سات سمندر‘ دو آزاد غزلیں۔ احمد وصی ’بہتاپانی‘ ایک۔ خالد رحیم کے مجموعے ’عکس درعکس‘ میں سات۔ مظہر امام کے اندازے کے مطابق1983 کے آخرتک ہندوپاک اور بنگلہ دیش کوملاکر’ایک سو چار شاعروں نے آزاد غزلیں لکھی تھیں‘۔(رسالہ’شاعر‘ ممبئی، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983، مظہر امام، ص271)۔ ’آزاد غزل ایک تجربہ‘ کے مصنف ظفر ہاشمی نے 90۔1989 میں اپنی کتاب مکمل کرلی تھی اور اس دور تک کی آزاد غزل کی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور 1945 سے1968 تک ہے۔ جس میں صرف مظہر امام ہیں۔ دوسرا دور1969 سے 1978 تک ہے، اس دورکے شعرا میں کرامت علی کرامت، یوسف جمال، زرینہ ثانی، بدیع الزماںخاور، علیم صبانویدی، عتیق احمدعتیق، فرحت قادری، خالد رحیم اور شاہ حسین نہری وغیرہ ہیں۔ 1979 کے بعد والے دورمیں مناظرعاشق ہرگانوی، حامد ی کاشمیری، حرمت الاکرام، نازش پرتاپ گڑھی، حفیظ بنارسی، حیدر قریشی، زیب غوری، ساحر ہوشیارپوری، شارق جمال، ظہیر غازی پوری، قتیل شفائی، کرشن کمار طور اور کرشن موہن جیسے شعرا کے علاوہ خود ظفر ہاشمی بھی شامل ہیں۔(آزاد غزل ایک تجربہ ظفر ہاشمی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی، 2016، ص251-287 ) اکیسویں صدی میں علیم صبانویدی کی دوکتابیں، ’غزل زاد‘ 2005 اور ’غزل شکن‘ 2008 کی طباعت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس صنف کا سفر برابرجاری ہے۔

 آزاد نظم کے مطالعے سے مظہر امام کو محسوس ہوا کہ پابند شاعری کے مقابل آزاد شاعری میں زیادہ تازگی اور کشش ہے۔لہٰذا انھوں نے آزاد غزل کا تجربہ کیا۔ آزاد غزل اور پابند غزل میں جو فرق ہے وہ صرف خارجی ہیئت کا ہے۔یعنی مصرعوں کے ارکان کی کمی بیشی۔بقیہ ساری قدریں مشترک ہیں۔اس کی ہیئت اور خصوصیت پر مظہرامام نے کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے

1                     آزاد غزل بھی ایک ہی بحر میں ہوتی ہے۔

2                     اس میں مطلع اور مقطع ہوتا ہے،ہوسکتا ہے۔

3                     اس میں ہر شعر علیٰحدہ اکائی ہوتا ہے۔

4                     اشعار کی تعداد کی قید نہیں۔

5                     مسلسل غزل کی طرح مسلسل آزاد غزل بھی ہوسکتی ہے۔

(مظہرامام،  رسالہ شب خون، شمارہ اگست،1981، مشمولہ رسالہ ’شاعر‘ ممبئی، ص197، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983)

اس کی خصوصیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ،یہ شاعر کو حشووزوائد سے بچاتی ہے۔ غزل میں مساوی الار کان مصرعوں کی وجہ سے خیال مبہم اور گنجلک ہوسکتا ہے لیکن آزاد غزل میں خیال کو پھیلانے اور وسعت دینے کی بڑی گنجائش ہے۔(استفادہ 197ایضاً) مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ آزاد غزل کے لیے ہر شعر کا آزاد ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی شعر اتفاقاً مساوی الارکان،خود ہی نازل ہوجائے اور خیال مکمل ہوتو’’ اس کے مصرعوں کو قصداً چھوٹا بڑا کرنے کی ضرورت نہیں،ایسا کرنا غیر فنکارانہ عمل ہوگا‘‘۔ (آزادغزل پر ایک نوٹ مظہر امام، ص217،رسالہ’شاعر‘ ممبئی،  نثری نظم اور آزاد غزل نمبر 1983) ’’مصرعوں کو چھوٹا بڑا کر دینے سے آزاد شعر نہیں بنتا بلکہ اسے معنوی اعتبار سے بھی مکمل ہونا چاہیے‘‘۔ (ایضاً، ص219) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ آزاد غزل کی تخلیق کسی فنی اور فکری پابندی کے فرار کا نتیجہ نہیں ہے‘‘ (ایضاً، ص207)۔ اچھی آزاد غزل کہنے کے لیے غیر معمولی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

جہاں یہ بات عام ہے کہ قادرالکلام شاعر کے لیے ہیئت اور ردیف وقافیے کی پابندی معنی نہیں رکھتی وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پابندیاں خیال کی ترسیل میں حارج ہوئی ہیں جس کا اعتراف غالب نے بھی کیا ہے۔ شاید اسی خیال کے مدنظر آزاد غزل کی حمایت میں سید مبارک علی کہتے ہیں:

’’.....آزاد غزل میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ خیال اور جذبہ اپنے فطری انداز میں نظم ہوتے ہیں اور مضمون باندھنے کی آسانیاں فراہم ہوتی ہیں۔‘‘ ص198،  ’’پابند غزل میں مصرعے خیال کے بہاؤ کے پابند نہ ہوکر ارکان عروض کے پابند ہوتے ہیں۔ آزاد غزل کا امتیازی نشان یہی ہے کہ خیال فطری طور پر نظم ہو اور مسلسل پابندی سوائے قوافی اور بحر کے نہ کی جائے۔‘‘

(آزاد غزل۔تجربہ کا ایک اور قدم سیدمبارک علی،ص199، رسالہ’ شاعر ‘ممبئی۔ نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983)

آزاد غزل اور غزل کے مابین فرق صرف اتنا ہے کہ غزل کے سبھی مصرعے مساوی الارکان ہوتے ہیں اور آزادغزل کے مصرعے ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں لیکن ارکان میں کمی بیشی ہوتی ہے اوراتفاقاً اگر کوئی شعرمساوی الارکان ہو گیا تو بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ اگر آزاد غزل کی خارجی ہیئت کی بات کی جائے تو اس میں تنوع پایا جاتا ہے۔ خارجی طور پر اس کی کوئی ہیئت مخصوص نہیں ہے مثلاً، کسی آزاد غزل کے ایک شعر کا پہلا مصرع، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلان، کے وزن پر ہے تو دوسرا مصرعہ، فاعلاتن، فاعلان، بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی غزل کے ایک شعر کا پہلا مصرع طویل اور مصرع ثانی مختصر ہوسکتا ہے تو دوسرے شعر کا پہلا مصرع مختصر اور مصرع ثانی طویل ہوسکتا ہے۔ چندمثال بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

        سرپر نیزوں جیسی دھوپ چمکتی ہوگی

        لیکن یہ صحرائے جنوں ہے،پاؤںتلے ہریالی ہوگی

        میں نے دنیا کوبرتا ہے،کانٹے اور ریشم کی صورت

        تم نے دنیا گردش کرتی تصویروں سی دیکھی ہوگی

        تجھ پر حق ہے اوروں کا بھی۔چل بازار سے اے ناداں چل

        گھر میں رات اکیلی ہوگی

 حرمت الاکرام کی ’اس آزاد غزل‘( حرمت الاکرام، رسالہ’شاعر‘ ممبئی،  نثری نظم اور آزاد غزل نمبر 1983، ص227)کے تین شعر بالترتیب یہاں پیش کیے گئے ہیں۔مطلع یعنی پہلے شعرکا مصرع اولیٰ چھوٹا اور مصرع ثانی بڑا ہے۔ دوسرے شعر کے دونوں مصرعے مساوی الارکان ہیںاور تیسرے شعر کا پہلا مصرع طویل اور دوسرا مختصر ہے۔ یہ آزاد غزل،فعلن، کے وزن پر ہے۔ یہ تو وہ صورتیں ہیں جو مظہر امام، کرامت علی کرامت وغیرہ نے طے کی تھی۔ بعد میں دوسرے شعرا نے اپنی جدت طبع دکھانے کے لیے مصرعوں کی ترتیب یعنی خارجی ہیئت میں کئی طرح کی تبدیلیاں کیں کچھ نے تو نئی ہیئت کے موجد کی دوڑ میں شامل ہوکر گیتل،غزلیہ،غزل نمااوردف غزل،وغیرہ سے اسے موسوم کیا۔ جس کا ذکر الگ سے آگے آئے گا۔آزاد غزل میں کچھ شعرا نے یہ بھی طریقہ اپنایا کہ ارکان کم زیادہ کرکے اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر مثلث کی شکل میں مصرعوں کو ترتیب دیا۔ فرحت قادری کی ایک مثلث قسم کی آزادغزل کا نمونہ دیکھیں(آزاد غزل ایک تجربہ ظفر ہاشمی، اخذص212تا213)

1                        یقین ہے       فعولن، 1رکن

2                        جہاں کچھ نہیں ہے           فعولن،2رکن

3                        خلاؤں کا دامن ہے خالی          فعولن،3رکن

4                        جومیں ڈھونڈتا ہوں وہ زیرِ زمیں ہے  فعولن،4رکن

5                        میرے خواب اب پلتے پلتے جواں ہوگئے ہیں         فعولن،5رکن

6                        ہراک سانس میں ایسی سوزش ہے گویالبِ آتشیں ہے    فعولن،6رکن

7                        مثالوں کی دنیا میں ہر شے کی تشبیہہ ممکن ہے مل جائے لیکن          فعولن،7رکن

مری دھڑکنوں کا جوعالم ہے اس کی زمانے میں تشبیہہ کوئی نہیں ہے         فعولن،8رکن

اسی طرح پہلا مصرع آٹھ رکن اور آخری مصرع ایک رکن کا بھی ہوسکتا ہے یعنی اس کی ضد۔ فرحت قادری نے ایک اور تکنیک اپنایا جس میں پہلا مصرع چار رکن کا اور دوسرا مصرع دورکن کا۔یا پہلا مصرع دورکن کا اور دوسرا چار رکن کا،اسی ترتیب سے پوری آزادغزل ہے۔مثال دیکھیں(ایضاً، اخذ ص214۔13)

        شہرکا شہر ترے نام سے بیزار ہوا      فاعلاتن،فعلاتن،فعلاتن،فعلن۔4رکن

        یوں بھی اظہار ہوا     فاعلاتن، فعلن۔2رکن

        جیسے ہی ٹوٹ کے بکھرا کوئی فرسودہ محل         فاعلاتن،فعلاتن،فعلاتن،فعلن۔4رکن

        شوراک بارہوا  فاعلاتن، فعلن۔2رکن

اسی طرح آزاد غزل کی خارجی ہیئت میں بہت سے تجربے ہوئے۔ لہٰذا اس صنف کو خارجی ہیئت کی بنا پر شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی شناخت داخلی ہیئت سے ہوگی مثلاً ردیف وقافیہ اور ایک شعر میں ایک خیال کا مکمل ہونا۔ ظفر ہاشمی کہتے ہیں کہ آزاد غزل میں اس طرح کی مختلف النوع ٹیکنک اور تجربے سے جہاں اس کے فارم کو وسعت،رنگارنگی اور توانائی ملی، وہیں اس سے ذہنی جمناسٹک اور تجارانہ عمل کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ (ایضاً، استفادہ ص،221)یہ خیال ان کا صحیح ہے کیوں کہ اس طرح کیا عوام،خواص بھی آزاد غزل کی تکنیک سے پوری طرح آشنا نہ ہوسکے۔ جس کی وجہ سے اس صنف کے فروغ میں رکاوٹ آتی رہی۔

جہاں تک آزاد غزل کے مصرعوں کی طوالت کی بات ہے تو ظہیر غازی پوری پہلی بار رسالہ، شاعر،ممبئی، بابت اگست 1973 سے یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ اس کی طوالت کیا ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں مظہرامام نے کہا کہ اس کے ارکان کی تعداد پر پابندی لگانا مناسب نہیں، ایک مصرع کئی سطروں پر محیط ہوسکتا ہے لیکن غیر فطری طور پرنہ کہاگیا ہو۔ اگر ایسے طویل مصرعے سے خیال کے آگے بڑھنے میں کوئی مدد نہ ملے تو ایسی کوشش بے سود ہوگی۔لیکن کرامت علی کرامت جوکہ آزاد غزل کے پہلے نظریہ ساز کے طور پر مانے جاتے ہیں، انھوں نے مظہرامام کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ

’’اس مسئلے پر راقم الحروف کا موقف یہ ہے کہ آزادغزل کے کسی مصرعے کو اتنا لمبا نہ ہونا چاہیے جس سے آزاد غزل اور آزادنظم کی حد بندی ہی ٹوٹ جائے۔ یعنی آزادغزل کا کوئی مصرع کم ازکم کسی نہ کسی پابند غزل کا ایک مصرع ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ اتنا لمبا ہونا چاہیے کہ ایک سانس میں پڑھا جا سکے۔‘‘

(آزاد غزل کا ستر سالہ سفر،ص2،  ہفت روزہ،ہماری زبان، 8تا14؍مارچ 2016،  شمارہ 10، جلد 75)

آزاد غزل کے حامیوں نے اسے ایک خوش گوار تجربہ کہا ہے اور غزل کے مقابلے اس میں زیادہ وسعت و پہنائی بتائی ہے۔ کرامت علی کرامت اسے پابند غزل پر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ غزل میں، بحر کی پابندیوں اور متعین قالب کی بندش کی وجہ سے بہت سے عمدہ خیالات ذہن میں رہتے ہوئے بھی تخلیق نہیں ہوپاتے لہٰذا شاعر کو اپنے خیالات بدلنے پڑتے ہیں،جس کی وجہ سے شاعر کے جذبات کا خون ہوتا ہے۔ یہی حال پابند نظموں کا بھی ہے۔ جب کہ آزاد غزل میں خیال یا موضوع شاعر کی گرفت میں رہتا ہے اور اسے اپنے جذبات کا خون نہیں کرنا پڑتا۔(آزاد غزل میری نظر میں کرامت علی کرامت، استفادہ ص186، رسالہ’شاعر‘ ممبئی،  نثری نظم اور آزاد غزل نمبر 1983) آزاد غزل کی خصوصیت پر مزید وہ اس طرح روشنی ڈالتے ہیں

’’آزاد غزل میں پابند غزل کے مقابلے میں بڑی وسعت و پہنائی ہواکرتی ہے۔ یہ گویا ایک کھلا ہوا دریا ہے جس میں آپ جس طرف چاہے ہاتھ پیر مارتے جائیں آپ کو کسی طرح کی رکاوٹ محسوس نہیں ہوگی۔ اس نئی صنف میں ایک پیکر سے دوسرا پیکر اس طرح پیدا ہوتا ہوا چلا جاتا ہے جیسے ذہن میں خیالات کی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہوں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ شاعر کے احساسات و تجربات کی تجلی سے ایوان تصور پورے طور پر منور نہ ہوجائے۔‘‘

(آزاد غزل میری نظر میں، ص186، رسالہ ’شاعر‘ ممبئی، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983 )

آزاد غزل کے مقصد اور شعر کی خصوصیت کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں

’’دراصل آزاد غزل کہتے وقت شعر کا آہنگ ہی شاعر کا رہنما ہوتا ہے۔ اور شعر کے مکمل ہونے پر اسے تقطیع کرکے دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ دونوں مصرعے ہم وزن ہوئے کہ نہیں کہنے کی غرض یہ ہے کہ آزاد غزل کہتے وقت اتفاقاً کسی شعر کے دونوں مصرعے مساوی الاوزان ہوجائیں تو یہ شعر آزاد غزل کے دائرے سے خارج نہیں ہوتا۔ کیونکہ شاعر کا مرکزی خیال وجذبہ اسی شکل میں فطری طور پر ظاہر ہوا ہے اور خیال وجذبہ کا آزادانہ اور فطری اظہار آزاد غزل کا اہم مقصد ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 187)

 آزاد غزل کہنے والوں کو تنبیہ کے طور پر کہتے ہیں کہ انھیں غزل کے تمام رموزونکات اور معائب ومحاسن نیز زبان وبیان کی تمام باریکیوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد آزاد غزل کی طرف متوجہ ہوں گے توہی اس صنف کے ساتھ انصاف کرپائیں گے۔ ورنہ وہ شعرا جو اپنے عجز بیان پر پردہ ڈالنے کے لیے اس صنف کا سہارا لے رہے ہیں وہ اپنا بھی نقصان کررہے ہیں اور اس صنف کا بھی۔ (ایضاً، استفادہص189)

آزاد غزل کی تعریف وتوصیف میں اس صنف کی حمایت کرنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن وہ سب کی سب متذکرہ بالا اقوال کی توسیع سے زیادہ نہیں معلوم ہوتا۔ جہاں اس صنف کی حمایت اور قبول عام کی کوششیں ہو رہی تھیں وہیں اس کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔منیب الرحمن فرماتے ہیں

’’بحر بھی اپنی جگہ مطلع و مقطع بھی اپنی جگہ۔ قوافی و ردیف کی قید بھی اپنی جگہ۔ شعر کی اکائی بھی اپنی جگہ وغیرہ وغیرہ۔ غزل کے جو عناصر اکثر شکایتوں کا موجب بنتے ہیں اور جو کسی بھی شخص کو تجربہ کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اپنی جگہ سالم ہیں۔ پھر مظہر امام کی آزاد غزل کا مصرف کیا ہے؟۔مظہر امام کی آزاد غزل کو آزاد کہنا ہی حماقت ہے۔‘‘

( منیب الرحمن،رسالہ ’شب خون‘فروری 1982، مشمولہ ص198، رسالہ ’شاعر‘ ممبئی، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983)

ڈاکٹر سید حامد حسین کے خیال میں اس میں چھوٹے بڑے مصرعوں کی تشکیل دینے کی آزادی کے باوجود بھی اجتہاد، تنوع اور ندرت کی گنجائش بہت کم اور امکانات کی کمی ہے۔ شاعر کی تخلیقیت کو آسودہ کرنے کے لیے ا س کے پاس ایسا کوئی کشادہ میدان نہیں جو پابند غزل کے پاس نہ ہواور نہ ہی اس کے پاس ہیئتی تنوع کی کوئی بڑی گنجائش ہے۔ خیال کی ادائیگی کے لیے مصرعوں کو چھوٹا بڑا کرکے جہاں تک بھرتی کے الفاظ سے بچنے کی بات ہے تواس سے نومشق شعرا کے لیے سہولت ہوسکتی ہے۔(آزاد غزل صنف یا تجربہ، ڈاکٹر سید حامد حسین، استفادہ  ص175 تا 176،ایضاً)آزاد غزل کے تجربے پر وہ کہتے ہیں

’’آزاد غزل ایک ایسا تجربہ ہے جس میں کسی نئے منظر کی تلاش میں فرسودہ راہ سے انحراف کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں تجربے کی تازگی ضرور ہے لیکن کوئی نئی روایت بن جانے کی اس میں توانائی نظر نہیں آتی۔ نئی روایت صرف معمولی انحراف سے نہیں بلکہ بھرپور بغاوت کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ آزادغزل میں مصرعوں کی غیر مساوی طوالت یا پابندغزل سے انحراف ہے بغاوت نہیں۔ وہ ایک نیا تجربہ ہے اور اسے ایک تجربے کی حدتک قبول کیا جانا چاہیے۔‘‘

(آزاد غزل، صنف یا تجربہ، ص 257، رسالہ ’شاعر‘ ممبئی، نثری نظم اور آزادغزل نمبر1983)

یہ فطری بات ہے کہ جب کسی صنف میں کوئی تغیروتبدل ہوا یا وسیلۂ اظہار کے لیے کسی دوسری زبان کی صنف کو اپنایا گیا تو اس پر حمایتی اور مخالفین دونوں نے اپنا تاثر ظاہر کیا۔آزاد غزل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔1984 اور1989 کے درمیان بہارمیںآزاد غزل کے دو طرحی مشاعرے بھی ہوئے، ان طرحی مشاعروں کی بنیاد ظفر ہاشمی نے رکھی۔ آزاد غزل کا پہلا طرحی مشاعرہ جمشید پور میں ہواجس میں طرح تھی’’دوستوں سے ملاقات کی شام ہے‘‘ اس میں شرکت کرنے والے شعرا تھے، شائق مظفر پوری، ظفرہاشمی، رضوان واسطی، انجان علیم اور شہناز مسرت وغیرہ۔ دوسرا آزاد غزل کا طرحی مشاعرہ ڈالٹین گنج میں ہواجس میں نادم بلخی، قتیل کریمی، شعیب راہی، اور صغیر ساغر نے شرکت کی۔(آزاد غزل ایک تجربہ، استفادہ ص129تا135) اصل میں یہ دوسرا نہیں تیسرا مشاعرہ ہے۔جمشید پور والے مشاعرے کے کچھ دنوں بعد مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے رسالے کوہسار کے بینر تلے بھاگلپور میں ایک آزاد غزل کا مشاعرہ کروایا تھا جس میں موضوع ’بھوت‘تھا اور اسی کو ردیف بنا کر آزادغزلیں کہی گئی تھیں۔ اس میں شرکت کرنے والے شعرا تھے،یونس احمر، مناظرعاشق ہرگانوی، جوثرایاز، امتیازشاہین، عزیزالرحمن بھاگلپوری، میکش بھاگلپوری،ظفرالدین ظفیر،نیر حسن نیر، نیاز چرچل۔ان شعرا کی یہ یک موضوعی آزادغزلیں رسالہ’کوہسار‘ میں شائع ہوئی تھیں۔ظفر ہاشمی نے اپنی کتاب ’آزاد غزل ایک تجربہ‘ ص123 سے 128تک میںاس مشاعرے کی نو آزاد غزلوں کو شامل کیا ہے۔اور یہ سب یک موضوعی آزاد غزلیں انھوں نے رسالہ کوہسار سے ہی اخذ کی ہیں لیکن اس مشاعرے کا انھوں نے عمداً ذکر نہیں کیا۔ اس طرح بھاگلپور والا مشاعرہ دوسرا تھا اور ڈالٹن گنج والا تیسرا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہوگا لیکن اب تک ایسا شاعر نظر نہیں آیا جس نے اس صنف کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا ہو۔ ایسے شاعر کا اس صنف کو انتظار رہے گا۔

غزل نما

’غزل نما‘دراصل الگ سے کوئی صنف نہیں ہے بلکہ آزادغزل ہی کی ایک شاخ ہے۔ اس کا قصہ اس طرح ہے کہ ظہیر غازی پوری شروع ہی سے یہ اصرار کرتے آئے تھے کہ آزادغزل میں ردیف وقافیے کی پابندی کے ساتھ ایسی تخلیق ہو جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے مساوی الاوزان ہوں لیکن الگ الگ شعروں کی الگ الگ طوالت ہو۔ یعنی ایک شعر میں چار ارکان کی ترتیب ہوتو دوسرے میں دو،تین یا پانچ ارکان ہوں۔ اسی طرح ایک آزاد غزل کا ہر شعر ارکان کی کمی بیشی سے ترتیب دیا جائے۔ اسی اسلوب کی پابندی کے ساتھ آزادغزل کو قبول کرتے ہوئے انھوں نے اسے ’غزل نما‘ کا نام دیا۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے تھے جو آزاد غزل کی صنفی حیثیت کو مانتے تھے مگر اس کے نام سے اختلاف تھا،ان لوگوں نے اپنی تخلیقات کو غزلیہ، گیتل اور مختلف ناموں سے رسائل میں چھپوایا۔ کاظم نائطی وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ظہیر غازی پوری کے اس اصول کے مطابق آزادغزل کہی جس کا پہلا مصرع تھا’’بڑی وحشتیں تھیں، صدائیں بہت تھیں‘‘ اس آزادغزل کو روزنامہ ’اتحاد‘ مدراس، کے عیدالاضحی نمبر1981 میں ’غزل نما‘ کے نام سے چھپوایا۔ اس طرح اس ترتیب میں ’غزل نما‘ کے پہلے تخلیق کار کاظم نائطی ہیں۔ظفر ہاشمی کہتے ہیں کہ ظہیر غازی پوری نے اس کے دو نام تجویز کیے تھے۔ پہلا نام ’تجرباتی آزاد غزل ‘ اور دوسرا ’غزل نما‘۔ صرف فضا کوثری نے ان کی حمایت میں ’تجرباتی آزاد غزل ‘ کے نام سے آزادغزل کہی،جس کے چندشعر ملاحظہ فرمائیں(آزاد غزل: ایک تجربہ، اخذص176)

        ابھی ہے خام میرا جذبۂ لذت چشیدہ                                             
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        مفاعیلن،مفاعیلن،مفاعیلن،فعولن
        فشارِ غم سے ہوجاتا ہے اپنا دل کبیدہ                                              
   مفاعیلن،مفاعیلن،مفاعیلن،فعولن
        لگی مبہم سی ہرفکرِ جدیدہ                                                  
مفاعیلن،مفاعیلن،فعولن
        بصارت گم تھی ہم تھے کور دیدہ     
مفاعیلن،مفاعیلن، فعولن
        بساطِ زندگی پر 
مفاعیلن،فعولن
        ہیں بس اشکِ چکیدہ   
مفاعیلن،فعولن

کرامت علی کرامت نے اس ضمن میں فضا کوثری کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی رسالہ شاعر، نثری نظم اور آزادغزل نمبر1983 میں کوئی ذکر ملتا ہے۔ ظفر ہاشمی کا یہ قول دیکھیں

’’ظہیر غازی پوری نے جب تجرباتی آزادغزل کا تجربہ کیا تو بعد میں ان کو اس کے نام کا نقص معلوم ہوا۔ لہٰذا انھوں نے اس کا نام بدل کر ’’غزل نما‘‘ رکھ دیا لیکن اس کی تکنیک میں انھیں اصولوں کو برتا جو تجرباتی آزادغزل میں پیش کیے گئے ہیں۔‘‘(ایضاً، ص  178)

اب یہاں یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ فضا کوثری نے اس اصول کے تحت پہلے تجرباتی آزاد غزل کہی یا کاظم نائطی نے غزل نما۔کیونکہ ان دونوں کی تخلیقات کی اشاعت کس ماہ میںہوئی اس کا ذکر نہ کرامت علی کرامت نے کیا ہے اور نہ ہی ظفر ہاشمی نے۔ البتہ رسالہ ’سالار‘ بنگلور کے شمارے ستمبر، اکتوبر 1981 میں مظہر امام نے اس تکنیک کی خامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں نام 1981 ہی میں ظہیرغازی پوری نے تجویز کیے ہوں گے۔ 

 رسالہ’صریر‘ کراچی، کے سال نامہ جون جولائی 1995 میں ظہیرغازی پوری نے آزادغزل اور غزل نما پر بحث چھیڑکر پاکستان کے شعرا کو اس طرف نئے انداز سے غوروفکر کی دعوت دی۔ اس دور تک غزل نما کی ترکیب صرف کاظم نائطی تک محدود رہی اور اس کانام آزاد غزل ہی مروج رہا۔ آخر کار ظہیر غازی پوری نے آزادغزل کو اس شرط پر قبول کیا کہ جس آزاد غزل کے شعر کی ترتیب اس طرح ہوگی اس پابند آزادغزل کو غزل نما سے موسوم کیا جائے۔ ظہیر غازی پوری کے شاگرد ڈاکٹر حنیف ترین نے ’کشتِ غزل نما‘ کے نام سے جنوری1999 میں ایک شعری مجموعہ شائع کرایاجس کی ساری آزاد غزلیں غزل نما کے اصول پر ترتیب دی گئی تھیں۔ اس طرح غزل نما پر مبنی یہ پہلا شعری مجموعہ ہے۔(آزاد غزل کا سترسالہ سفر، استفادہصفحہ 2 ہفت روزہ’ہماری زبان‘8 تا14؍مارچ،2016،شمارہ 10،جلد 75 )اس مجموعے نے غزل نما کو استحکام اور اعتبار بخشا جس کی وجہ سے پاکستان کے بیش تر ادیبوں نے آزاد غزل کو غزل نما کی شکل میں تسلیم کیا۔ (ایضاً، صفحہ3)

آزاد غزل کے مصرعوں کی ایک ترتیب یہ ہے کہ شعر کا پہلا مصرع جتنا طویل ہوگا دوسرا مصرع اس کا آدھا ہوگا۔ مثلاً کسی آزاد غزل کا مطلع یا پہلے شعر کا پہلا مصرع جتنے ارکان پر مشتمل ہوگا، اسی ترتیب سے اس آزاد غزل کے ہر شعر کا پہلا مصرع ہوگا اور دوسرا مصرع اس کا آدھا ہوگا۔یہی ترتیب اس آزادغزل کے تمام شعر میں ملحوظ رکھی جائے گی۔2005 کے بعد مناظر عاشق نے غزل نما کی ہیئت پر انتشار پیدا کرتے ہوئے کہا کہ غزل نما کی ہیئت وہ نہیں ہے جو ظہیر غازی پوری نے طے کی تھی اور جسے کاظم نائطی نے غزل نما کے عنوان کے ساتھ شائع کرایا تھا، بلکہ غزل نما کی ہیئت وہ ہے جسے شاہد جمیل نے ہفتہ وار ’غنچہ‘ بجنور،شمارہ یکم اکتوبر1973 میں شائع کرایا تھا۔ واضح ہوکہ شاہد جمیل کی تخلیق مذکورہ بالا ترتیب سے تھی یعنی ہر پہلے مصرعے کا دوسرا مصرع آدھا ہوگا۔ اس طرح مناظر عاشق ہرگانوی نے شاہد جمیل کو غزل نما کہنے والا پہلا شاعر قرار دیا اور بقول کرامت علی کرامت، مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے دعوے کو پیش کرنے کے لیے ہندوستان بھر کے نئے پرانے شعرا سے اس ترتیب میں آزاد غزل کہنے کی فرمائش کی اور جب بہت ساری تخلیقات ان کی بتائی ہوئی شرط کے مطابق یکجا ہوگئیں تو انھوں نے اسے کتابی شکل میں شائع کر کے غزل نما کے ماڈل کے طور پر پیش کیا۔(ایضاً، ص3)

مناظر عاشق ہرگانوی کی بتائی ہوئی اس آزادغزل کی ترتیب یا شاخ کو غزل نما مان لیں تو شاہد جمیل کو اس شاخ کا موجد ٹھہرانے والا دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے کیوں کہ شاہد جمیل سے بھی پہلے زرینہ ثانی اور بدیع الزماں خاور اس ترتیب میں آزاد غزل شائع کروا چکے تھے۔ ان دونوں کی تخلیق بالترتیب اس طرح ہیں

زندگی کا شبستاں منور ہوا، آپ کی چشم وابرو کے بل ہی گئے(فاعلن،آٹھ بار)

        بجھ رہے تھے دیے آج جل ہی گئے(فاعلن، چاربار)

        ظلمتیں شامِ غم کی سمٹنے لگیں، زندگی کا نصیبہ چمک جائے گا (فاعلن،آٹھ بار)

        ثانی زلفِ پریشاں کے بل ہی گئے(فاعلن،چاربار)

                              (زرینہ ثانی، رسالہ’شاخسار‘جنوری،فروری،مارچ،ص67، 1973)

میرے چہرے میں کیا ڈھونڈتا ہے یہ تو، ہوسکے تو مرے دل کی تہ میں اتر (فاعلن، آٹھ بار)

        تجھ کو مل جائیں گے جگمگاتے گہر (فاعلن،چاربار)

        تم کو معلوم ہوتو بتاؤ ذرا، کیوں مرے ساتھ خاور وہ چلتا نہیں (فاعلن،آٹھ بار)

        کوئی سچ مچ اگر ہے مرا ہم سفر (فاعلن،چاربار)

(بدیع الزماں خاور،  رسالہ’شاخسار‘اپریل 1973)

اگر رسالوں میں شائع ان تخلیقات کو زمانی اعتبار سے دیکھیں تو زرینہ ثانی کی تخلیق کو تقدم حاصل ہے لہٰذ شاہد جمیل کو موجد ٹھہرانے والا مناظر عاشق ہرگانوی کادعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے۔ بقول کرامت علی کرامت

’’چاہے علیم صبا نویدی ہوں یا کاظم نائطی، ظہیر غازی پوری ہوں یا فرحت قادری یا شاہد جمیل، ان سب کی تخلیقات ’آزادغزل‘ ہی کے ذیل میں رکھی جائیں گی..... تمام تجربوں کو آزادغزل کے دائرے میں داخل کیا جاسکتا ہے۔.....لہٰذا مناظر عاشق ہرگانوی کا یہ دعویٰ کہ12 والی غزل نما کے موجد شاہد جمیل ہیں، سراسر غلط ہے۔ حالاں کہ شاہد جمیل سے قبل زرینہ ثانی اور بدیع الزماں خاور کے اس قسم کے تجربے ’شاخسار‘ میں شامل ہوچکے تھے۔‘‘(ہفتہ وار ہماری زبان،ص3۔ 7۔15تا21 ؍مارچ2016، شمارہ،11،جلد 75 )

کرامت علی کرامت نے ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی کے جس غزل نما مجموعے کا ذکر کیا ہے وہ 2010  میںشائع ہوا۔ اس میں کل 29 ؍ شعرا شامل ہیں اور ہر شاعر کی دو غزل نما ہیں، اس طرح اس مجموعے میں کل 58 ؍ غزل نما ہیں۔ترتیب میں، شاہد جمیل کی غزل نما سب سے پہلے ہیں اور آخر میں ڈاکٹر مناظر عاشق کی۔اس مجموعے کا مقدمہ ’گفتنی‘ کے نام سے بڑا ہی مدلل اور پر مغز ہے۔

راقم کا خیال ہے کہ اگر غزل نما کے شعر کا مصرع ثانی، مصرع اولیٰ کے سامنے رکھ دیا جائے تو مستزاد غزل کی شکل میں دکھے گا، اس طرح دیکھا جائے تو یہ تکنیک کوئی نئی نہیں ہے ہاں ہیئت میں تبدیلی کرکے مصرعوں کی ترتیب بدل دی گئی ہے۔ 

گیتل

آزاد غزل کو ایک اور نیا نام دینے کے لیے پرویز رحمانی نے اپنی ایک آزاد غزل کو ’گیتل‘ کے نام سے رسالہ ’شاعر‘ ممبئی، شمارہ 5، 1986 میں شائع کروائی۔ جس کے تعلق سے وہ خود کہتے ہیں کہ

’’میں اس صنفِ سخن کے لیے گیتل کو مناسب و موزوں جانتا ہوں کہ یہ گیت اور غزل کی مخفف ہے۔ اور نثر سے پرے چھند اور عروضی نظام کو اولاً تا آخر نافذ کرتا ہے۔‘‘

                                                (آزاد غزل ایک تجربہ،ص 178)

پرویز رحمانی کے قول سے پتا چلتا ہے کہ’ گیتل‘ نام گیت اور غزل کے نام کی آمیزش ہے۔ ظفرہاشمی کہتے ہیں کہ ’گیتل‘ میں بھی وہی تکنیک استعمال کی ہے جو آزاد غزل کی ہے۔اور شاہد کامران لکھتے ہیں:

’’پرویز رحمانی کا نام آزادغزل کے ساتھ وابستہ ہے لیکن اب شاید انھوں نے اپنی الگ شناخت بنانے کے لیے اپنی ایک آزادغزل ’گیتل‘ کے عنوان سے چھپوائی ہے۔‘‘(ایضاً، ص 179)

پرویز رحمانی نے اس کا نام’ گیتل‘ شاید اس لیے رکھا ہوگا کہ اس میں بہت سے ہندی الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ مگر ہندی الفاظ کے استعمال سے نہ ہیئت میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی مضمون میں۔لہٰذا ظفر ہاشمی نے بجا کہا ہے کہ’ ان دنوں بہت سے شاعروں کو نئے نئے عنوانات وضع کرنے کا شوق ہواہے‘۔اس لیے گیتل کی حقیقت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

غزلیہ

آزاد غزل کو غزلیہ سے موسوم کرنے کی کوشش سلیم شہزاد نے کی۔انھوں نے غزلیہ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور بعد میں اس عنوان کو بدل کر ’تنگنائے غزل سے پرے‘ کے عنوان سے ’شیرازہ ‘ کشمیر، جنوری 1988،میں شائع کرایا۔ سلیم شہزاد کے مطابق

’’آزاد غزل کی بجائے شعری اظہار کے لیے اگر غزلیہ نام اختیار کرلیا جائے تو اس سے غزل کے روایتی تصور کو نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘(ایضاً، ص 179)

سلیم شہزاد کے اس نئے نام غزلیہ پر ظفر ہاشمی کہتے ہیں کہ اس طرح یہ بھی خود کو ان موجدین میں شمار کرنے لگے تھے جو آزادغزل کو نیا نام دینا ایک کارنامہ سمجھتے تھے۔ کیوں کہ غزلیہ کی تکنیک بھی وہی ہے جوآزاد غزل کی ہے۔

 دف طرز

دف طرز بھی آزاد غزل ہی کی ایک شاخ ہے جو کسی شعری یا نثری صنف کے بجائے موسیقی اور اس کے آلات و ساز پر انحصار کرتی ہے اور جس کا تعلق دف سے جوڑا گیا ہے۔ اس قسم کے بارے میں دولوگوں کا نظریہ سامنے آتاہے۔ ایک مرتضیٰ اظہر رضوی اور دوسرے محسن رضا رضوی۔ مرتضیٰ اظہر رضوی کے مطابق

’’انگریزی زبان میں جس طرح Lyreپر گائے جانے والے نغمے (Lyrics)کہلاتے ہیں، اسی طرح دف پرگائے جانے والے نغمے اردو میں ’’دف طرز‘‘ کہے جاسکتے ہیں، اس میں اور غزل میں بنیادی طور پرفرق ہے۔ غزل بحور کی پابندہے جب کہ اس میں بحور یا ان کے ارکان کی پابندی لازمی نہیں۔ غالباً آزاد غزل کہنے والوں کو شعر گوئی کا یہ امکان نظر نہیں آیا۔‘‘ (ایضاً، ص 185 )

یعنی مرتضیٰ اظہر رضوی کے نظریے سے دیکھا جائے تو جو صنف جس ساز پر گائی جائے اس  سے موسوم کی جائے۔ دف طرز کے لیے بحر کی پابندی ضروری نہیں مانتے۔ تنویر احمد کی ایک دف طرز کا نمونہ دیکھیں       ؎

خواب میراتھا

تعبیر اس کی تھی

ادراک میرا تھا

تشہیر اس کی تھی

اظہار میرا تھا

تفسیر اس کی تھی

فہم میرا تھا

تحریر اس کی تھی

جسم میرا تھا

زنجیر اس کی تھی

پیکر اس کا تھا

تصویر میری تھی

حسن اس کا تھا

تنویر میری تھی

دوسرا نظریہ محسن رضا رضوی کا ہے جس میں انھوں نے آزاد غزل ہی کی تکنیک استعمال کر کے اسے ’دف طرز‘ کا نام دے کر شائع کرایا۔نمونہ دیکھیں        ؎

میں نے جب بھی پیچھے مڑکر اپنا ماضی دیکھا ہے

        پہروں دل گھبرایا ہے

        کہنے والے تو ہی کہہ دے کون بڑا شاعر ٹھہرا

        اس نے پوری غزل کہی ہے میراایک ہی مصرع ہے

        جب بھی تصور میں وہ آیا کھل اٹھے خوشیوں کے گلاب

        اس سے کیسا رشتہ ہے

محسن رضا رضوی کی اس دف طرز پر شاہد کامران کہتے ہیں

’’شاعر۔3؍4۔1986 میں محسن رضا رضوی کی ’دف طرز‘ دیکھ کر تعجب ہوا۔ موصوف نے آزاد غزل کو ایک عنوان دے دیا ہے۔ غالباً یہ بھی اس سعی نامشکور کا حصہ ہے جس کے تحت آزاد غزل کے لیے ’غزل نما‘، ’غزلیہ‘ وغیرہ نام تجویز کیے جارہے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 187)

اس طرح دیکھا جائے تو ’دف طرز ‘ بھی آزاد غزل سے جڑی ہوئی ہے اور الگ سے کوئی نئی صنف نہیں ہے۔

معریٰ غزل

معریٰ غزل کی کہانی مظفرحنفی کی زبانی سنیں جو اس کے موجد ہیں

’’۔۔۔۔۔۔۔۔میں آزاد غزل کا قائل ہوں نہ اس کی طرف مائل ہونے کے لیے آمادہ ہوں۔ ’’کوہسار‘‘ کے آزاد غزل نمبر کے لیے مناظر عاشق نے جب میری معذرتوں کے باوجود اصرار جاری رکھا تو میں نے ایک ہی بحر کی سات مختلف غزلوں کے اشعار ترتیب دے کر انھیں بھیج دیے کہ چاہیں تو اسے معریٰ غزل کا نام دے لیں۔ کیوں کہ مطلع مقطع اور بحر کی یکسانی کے باوجود ان اشعار کے ردیف اور قوافی مختلف تھے۔ چوں کہ ایسی کسی تخلیق میں کم ازکم مفرد اشعار اپنی جگہ غزل کی بقیہ دوسری خصوصیات کے حامل ہوںگے۔ اس لیے آزادغزل کے مقابلے میں بہرحال زیادہ قابلِ قبول ہوسکتے ہیں۔ یہ محض ایک قسم کی چھیڑخانی ان لوگوں کے ساتھ تھی جو آزاد غزل کو تسلیم کرانے کے درپے ہیں ورنہ میں ’’معریٰ غزل‘‘ والاسلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ البتہ اگر یارانِ طریقت طبع آزمائی کرنا چاہیں تو صلائے عام ہے۔ ‘‘

                 (مظفر حنفی، ص363،  رسالہ’شاعر‘ ممبئی، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983)

 کرامت علی کرامت کہتے ہیں کہ مظفر حنفی نے جب تجربہ کیا تو اسے معریٰ غزل کا نام دیا،(ایضاً، استفادہ:ص184) ظفر ہاشمی بھی یہی بات کہتے ہیں( آزاد غزل ایک تجربہ) لیکن جیسا کہ قول بالا سے واضح ہے کہ مظفر حنفی نے اسے تجربے اور نئی ہیئت کی غرض سے ایسا نہیں کیا تھا،نہ اس کی کوئی تحریک چلائی اور نہ ہی آزاد غزل کے حامیوں کی طرح کوئی فریضہ سمجھ کر ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ یہ ایک مذاق تھا جو آزاد غزل کے حامیوں سے کیا گیا تھا۔ لیکن ان کے اس مذاق پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے توآزاد غزل میں کیے گئے اکثر تجربات سے بہتر نظر آتا ہے۔احمد عظیم آبادی کی ایک معریٰ غزل دیکھیں (ایضاً، ص 147)

اگر بلند ہے دیوارِ گردوپیش مری

میں پست قد بھی ہوں زینوں سے بے نیاز بھی ہوں

میں خواب بن کے اٹھاتھا کہ رائیگاں بولا

حقیقتوں کے دھماکے عجیب ہوتے ہیں

بنامِ درد خلاؤں میں آج چرچہ ہے

اب آدمی کے علاقے میں آدمی نہ رہا

حروف جوڑ کے سر بیٹھتے ہیں کاغذ پر

پکارنے پہ یہ آواز بن کے اٹھتے ہیں

یہ ناگزیر کے رستے سے کون گزرا ہے

گھرے گناہ کے بادل معاصیاں برسیں

ہزاروں بار نشیب و فراز سے گزرو

بنے جوراہ اسی کو امید کہتے ہیں

معریٰ غزل میں ردیف و قافیے کے علاوہ غزل کی تمام خصوصیات شامل ہیں۔جن کو غزل میں ردیف و قافیے کی پابندی گراں گزرتی ہے اور جنھیں اپنے خیال کے اظہار میں اس وجہ سے رکاوٹ ہوتی ہے وہ معریٰ غزل کی ہیئت میں اپنی تخلیق خلق کرسکتے ہیں۔ 

اینٹی غزل

اینٹی غزل نہ کوئی نئی صنف ہے نہ ہیئت کا نیا تجربہ، بلکہ طنزیہ و مزاحیہ انداز میں کہی گئی پابند غزل ہی کی ہیئت ہے جسے چند منچلے قسم کے شعرا نے ’اینٹی غزل ‘ کا نام دیا ہے۔ آزاد غزل سے پہلے یہ اس عنوان سے شائع ہوتی رہی ہے۔ اس کا ذکر فضول معلوم ہوتا ہے لیکن نئے تجربوں کے ضمن میں اینٹی غزل،ٹیڈی غزل اورگڑبڑغزل وغیرہ کا نام بھی آتا رہتا ہے اس لیے یہاں اس کا ذکر کیا جارہا ہے۔ ذکاء الدین شایاں فرماتے ہیں

’’ہزل،نیم مزاحیہ اور براہِ راست وبے تکلف اندازِ بیان قدما کی غزل گوئی میں بھی موجود ہے۔ انشا وغیرہ کے یہاں ہزاروں اشعار ایسے مل جائیں گے جن پر اینٹی غزل کا عکس محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن سنجیدہ اور فکر آمیز غزل کے سامنے ان کی کیا قدروقیمت ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔شاید آزاد غزل کی ’ایجاد‘ بھی اینٹی غزل کا اگلا قدم ہے۔ یعنی جب نئے شاعروں نے اندازہ کرلیا ہے کہ اینٹی غزل کا تمام سرمایہ بھی الٹے سیدھے مضامین اور ان کے ٹیڑھے ترچھے طرزِ اظہار کے علاوہ کچھ بھی نہیں تو انھوں نے ’آزادغزل‘ کا نیا علم اٹھایاکہ اس بھیڑ میں خود کو کسی طرح نمایاں کریں۔ظاہر ہے نئی فکر اور تازہ حسیت کے ساتھ غزل کی صوری اور عروضی پابندیوں میں رہتے ہوئے معنویت اور اسلوب و اظہار میں خوشگوار ارتقا یا تبدیلی لانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘

(آزادغزل، جدت کا ایک تجربہ، رسالہ’شاعر‘ ممبئی،  نثری نظم اور آزاد غزل نمبر  1983، ص 226)

اینٹی غزل کی بدعت کس کی ہے یہ پتا لگا نا ہنوز باقی ہے اور قول با لا کی روشنی میں یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آزاد غزل کے حامیوں نے ہی اس کا شوشہ چھوڑا تھا۔مثال کے لیے رضوان احمد خاں(بربگہہ)کی اینٹی غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں      ؎

جی زیست سے گھبرائے تو آزاد غزل کہہ

کچھ اور نہ بن پائے تو آزاد غزل کہہ

تھی صنفِ غزل پہلے ہی معتوبِ نمانہ

اتلافِ عتاب آئے تو آزاد غزل کہہ

لاعلمیِ رسم و رہِ شعری کے سبب، گر

پابند نہ ہوپائے توآزاد غزل کہہ

کہہ پہلے غزل ناپ لے پھر فیتے سے مصرع

چھوٹا کوئی رہ جائے توآزاد غزل کہہ

(آزاد غزل ایک تجربہ، ص51-52)

اس نمونے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اینٹی غزل کوئی الگ سے نئی صنف یا ہیئت نہیں ہے بلکہ شروع ہی سے ہماری شاعری میں موجود تھی بس اینٹی غزل کے عنوان سے اس کو کچھ لوگوں نے شائع کرایا جس کا ذکر ضروری نہیں تھا۔

 نثری غزل

نثری غزل کے موجد بشیر بدر ہیں۔ہفتہ وار’مورچہ ‘ گیا، شمارہ،27۔جلد10۔8؍جولائی1972 میں ان کی چار نثری غزلیں شامل ہیں جو بازدید کے طور پر رسالہ ’شاعر‘ کے نثری نظم اور آزاد غزل نمبر 1983 میں بھی شامل ہیں۔ انھیں تخلیقات کو ظفر ہاشمی نے اپنی کتاب’آزاد غزل ایک تجربہ ‘ میں بھی اختصار سے شامل کیا ہے اور بشیربدر نے جو کچھ اس صنف کے تعلق سے کہا ہے اسے بھی ظفرہاشمی نے شامل کیا ہے مگر تعجب اس بات پر ہے کہ انھوں نے بشیر بدر کا کہیں نام نہیں لیا بلکہ بشیربدر کے کہے ہوئے الفاظ ’میں‘ کو بھی اسی طرح شامل رکھا جس سے قاری کو یہ یقین ہوگا کہ یہ تخلیق ظفر ہاشمی کی ہے۔جو نثری غزلیں بشیربدر نے ’مورچہ‘ کو بھیجی تھیں اس کے تعلق سے مدیر’مورچہ‘ کو لکھتے ہیں

’’اس سلسلے میں تفصیل کے ساتھ میں نے اپنی نثری غزلوں کی بک لٹ کے پیش لفظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس بک لٹ میں بیس نثری غزلیں ہیں۔ ایک حادثے کی وجہ سے یہ کتاب اب ڈیڑھ دوماہ شاید نہ آئے۔ بہر حال ان میں چار غزلیں ’مورچہ ‘ کے لیے پیش ہیں۔‘‘  (بشیربدررسالہ ’شاعر‘ ممبئی، نثری نظم اور آزاد غزل نمبر1983، ص384 )

پھر اس کے بعد ایک نثری غزل بطور نمونہ پیش کیا ہے اور حنیف کیفی کی تصنیف ’نظم معرا اور آزاد نظم ‘ کا حوالہ دیا ہے۔لیکن یہاں ان سے عجلت میں یہ سہو ہوا ہے کہ انھوں نے بشیر بدر کی مذکورہ بالاتحریروں کو بھی ان کا نام لیے بغیر بیان کیا جس سے قاری کو مغالطہ ہوتا ہے کہ اس صنف کے موجد ظفرہاشمی ہی ہوں گے۔ خیر! ’مورچہ‘ میں شامل بشیر بدر کی ایک نثری غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں

اک سرخ شیشے کے رکشے میں بیٹھی ہوئی پربتوں سے اترتی سحر آتی ہے

اور پھر ہمیں گھرسے اسکوٹروں کی طرح شاہراہوں پر لے کر چلی جاتی ہے

ان پچھلے شیشوں سے مڑمڑ کر مت جھانکیئے، دھول سے پیارکرنا بری باتیں ہیں

اس کا رکے ساتھ اڑتی ہوئی گرد تو تھک کے آخر کہیں بیٹھ ہی جاتی ہے

کل ایک انساں کو ڈسنے کی تدبیر میں، میں بڑی دیر سے منہمک تھا اس دم

ایک سرخ بچی نے پوچھا عجب بات ہے، سانپ مرجائے تو آنکھ مسکاتی ہے

سن پھر وہی رات کا جال تن جائے گا یہ زمیں آسماں جس میں گھر جاتے ہیں

اور دن کا انجن جہاں آکے دھنس جاتا ہے، دھوپ کی زرد پٹری اکھڑ جاتی ہے

اس نثری غزل کے سبھی نشان زد کیے ہوئے لفظ کو نکال دیا جائے اور دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے آخر میں (باتیں ہیں) کو ’ بات ہے‘ کردیا جائے تو یہ پابند غزل بن جائے گی اور اس کا مثمن ارکان ہوگا ’فاعلن‘، لیکن ایسی نثری غزلیں بھی ہیں جوکسی مروجہ ارکان میں نہیں ہیں اور ردیف وقافیے کا اہتمام ملتا ہے۔

بشیر بدر کہتے ہیں کہ’ اردو میں تخلیقی زبان نظم ونثر کے مفروضہ حدود توڑ کر ایک وحدت کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے‘۔ بعض تخلیقات ایسی ہو رہی ہیںجس میں زبان کی مماثلت ہونے کی وجہ سے افسانے پرنظم اور نظم پر افسانے کا گمان ہوتا ہے۔

غزل کی ہیئت میں کیے گئے تجربے،مستزادسے شروع ہوکرآزاد غزل، معراغزل اور پھر نثری غزل تک آپہنچے، لیکن یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا یہ صرف تجربے ہی رہ جائیں گے یا ان تجربوں میں روایت بننے کے امکانات بھی ہیں۔ 

غزالہ

غزالہ کا موجد انور شیخ کو کہا گیا ہے۔ 2004 میں ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی نے ’غزالہ‘ کے عنوان سے ایک شعری مجموعہ ترتیب دیاجس میں کل اکیس شعراکی 84 ؍ غزالہ شامل ہیں۔ انور شیخ کے مطابق اس صنف سخن کی ہیئت سے ان کی آشنائی اس دور میں ہوئی جب وہ ’’ابھی ابھی جوان ہوئے تھے‘‘ (غزالہ مرتب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی2004، ص 4)۔واضح ہوکہ انور شیخ 1928 کو گجرات، (پاکستان)  میں پیدا ہوئے،اس لحاظ سے غزالہ کی عمر بھی (دیگر جدید نظمیہ ہیئتوں کی بہ نسبت)کافی طویل ہے۔

غزالہ کے سارے مصرعے غزل کی طرح ہم وزن ہوتے ہیں، فرق یہ ہے کہ غزالہ میں ردیف مکرر کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مقطع مکر رمعکوس ہوتا ہے۔ یعنی اپنے بقیہ اشعار میں استعمال ہونے والے مکرر ردیف کا، ہم قافیہ مکرر ردیف ہوتا ہے۔ مثلاً کسی غزالہ کا ردیف ’حور،حور‘ مکرر آرہا ہے تو مقطعے کامکرر’نور، نور‘ معکوسی انداز میں آسکتا ہے۔ نمونے کے لیے انور شیخ کی ایک غزالہ ملاحظہ فرمائیں     ؎

بھایا مجھے سلانا خود کو تھپک تھپک کے

خوابوں میں ڈوب جانا، خود کو تھپک تھپک کے

یارب سبھی رلائیں، جانوں نہ کیا خطا ہے

مجھ کو پڑا ہنسانا خود کو تھپک تھپک کے

کیوں غم کروں جہاں کا دنیا کی ایسی تیسی

بھولوں گا یہ زمانہ، خود کو تھپک تھپک کے

اندازِ دلبری بھی واللہ دیکھئے تو

ان کا ہمیں سلانا، خود کو تھپک تھپک کے

ماضی کی یاد سے اب ممکن نہیں تعلق

بہتر ہے سب بھلانا، خود کو تھپک تھپک کے

امید تھی منائے گا وہ مجھے ستمگر

آخر پڑا منانا، خود کو تھپک تھپک کے

عمرِ عزیز انور سونے میں ہے گزاری

بے سود اب جگانا، خود کو سسک سسک کے

اس غزالہ میں ’خود کو تھپک تھپک کے‘ ردیف ہے لیکن اس میں ’تھپک تھپک‘ مکرر رکھا گیا ہے، اسی کی مناسبت سے مقطعے میں ’سسک سسک‘ مکرر معکوس ہے۔ بس یہی ہے غزالہ کی ہیئت۔

صنفِ غزل سے اس طرح صنف اندر صنف ہیئتی تجربوں کے نمونے تلاش کریں تو اور بھی مل سکتے ہیںلیکن، آزاد غزل سے غزالہ تک اس ہیئتی تجربے سے صنفِ غزل کے حسن، اس کی کشش اور مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کوئی بھی ہیئتی تجربہ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘ اس ضرورت کے پیش نظر ہورہا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے اور صرف موجدین کی صف میں شامل ہونے کی نیت سے ہے تو وہ وقت کی گرد میں دیر یا جلد غائب ہوجائے گا۔ 

Dr.Shaikh Ahrar Ahmad

Sub Editor: Hindustani Zaban
Hindustani Prachar Sabha, Gandhi Memorial Building
Netaji Subhash Road,7,Charni Road   (W)
Mumbai- 400002
Mob: 7498088534
Email: ahrarazmi1978@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں