19/5/23

شین مظفر پوری کی طنز و مزاح نگاری: ابرار احمد اجراوی



تلخیص

 شین مظفر پوری بیسویں صدی کے مشہورو ممتازنثر نگار تھے، ابتدائے عمر میں انھوں نے شعر و شاعری بھی کی، اس کے ساتھ نثر کی بیش تر اصناف میں تخلیقی اظہار پر انھیں عبورحاصل تھا۔ وہ افسانہ نگار، ناول نویس اور صحافی تھے، مگر ان کا ادب کی دوسری اصناف سے بھی تعلق تھااور یہ تعلق ہنگامی نہیں، پائے دار تھا۔ ناول و ڈرامہ کے ساتھ انھوںنے انشائیہ نگاری اور طنز و مزاح نویسی میں بھی اپنے ذہن و قلم کے خوب جوہر دکھائے۔وہ ایک ظریف الطبع شخص تھے،علم و فضل کے معاملے میں بھی مثالی تھے،ان کی قوت مشاہدہ ہی نہیں، جذب و اکتساب کی صلاحیت بھی قابل رشک و باعث فخر تھی، ان کی حس مزاح کا مقام و مرتبہ بہت اعلی تھا۔

شین مظفر پوری نے مختلف اخباروں میں طنزو مزاح کے اسلوب میں جو فکاہیہ مضامین لکھے ، وہ بہت مقبول ہوئے۔قارئین کے طبقے نے انھیں بے حد پسند کیا۔ان مضامین نے وقتی لذت اندوزی کے ساتھ ، سیاست اور صحافت کے غلیظ اور کریہہ کرداروں پر تیکھا وار کیا ۔جس طرح انھوں نے اپنے افسانوں میں ترقی پسندانہ اصول و فروع کی پیروی کی اور سماج و سیاست کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا، انھوں نے اپنے طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں بھی یہی وطیرہ اختیار کیا اور سماج و سیاست اور ادب و صحافت کی نا ہمواریوں، کجرویوں اور بے اعتدالیوں کو مرکز بنایا ۔ طنز و مزاح کے باب میں شین مظفر پوری کی فنی عظمت کے عناصرو عوامل کی جستجو کرنے کی ضرورت ہے۔

کلیدی الفاظ

طنز و مزاح، ظرافت، انشائیہ نگاری، فطرت انسانی، محاسبہ، بیوی، عورت، سیاست و صحافت، صنف نازک، مظاہر قدرت، مزاحیہ مضامین، مشمولات، فقرے چست کرنا، تحریف، تخلیق، قواعد و ضوابط، نثری صنف، منفی عناصر، مثبت جہات، محرکات و عوامل، موازنہ، تعریف، طوائف، غریب و فقیر، سماجی مسائل، امراض و اعذار، بخار، محاسن، گہری چوٹ، مشاعرہ، شاعر، شعرو ادب، قافیہ ردیف وغیرہ

——————

 شین مظفر پوری بیسویں صدی کے معتبر اور ممتازنثر نگار تھے، نثر کی کم و بیش تمام اصناف میں تخلیقی اظہار پر انھیں ید طولی حاصل تھا۔ وہ افسانہ نگار، ناول نویس اور صحافی تھے، مگر ان کا ادب کی دوسری اصناف سے بھی تعلق تھااور یہ تعلق ہنگامی نہیں، پائے دار اور استوار تھا۔ ناول و ڈرامہ کے ساتھ انھوںنے انشائیہ نگاری اور طنز و مزاح نویسی میں بھی اپنے ذہن و قلم کے جوہر دکھائے۔وہ ایک ظریف الطبع شخص تھے،علم و فضل کے معاملے میں مثالی تھے،ان کی قوت مشاہدہ ہی نہیں، جذب و اکتساب کی صلاحیت بھی قابل رشک و باعث فخر تھی، ان کاطائر تخیل افلاک رس تھا اور ان کی حس مزاح کا رتبہ بہت اعلی تھا،ذہانت و طباعی ان کی بلائیں لیتی تھی، فطرت انسانی کا مطالعہ بہت گہرا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی غیر سنجیدہ مزاحیہ اور فکاہیہ تحریروں کے آسمان سے مسکراہٹوں کے راحت فزا قطرے برسے اور قہقہوں کے پھوارے بلند ہوئے۔انھوں نے رونے والوں کو ہنسایا اورہنسنے والوں کو اپنے درون کا محاسبہ کرنے کی تحریک دی اور اپنے طنز کی کاٹ سے انھیں درس عبرت لینے اور اپنے خوابیدہ ضمیر کو ٹٹولنے پر مجبور کیا۔

شین مظفر پوری نے مختلف اخباروں میں طنزو مزاح کے اسلوب میں جو فکاہیہ مضامین لکھے، وہ اپنے عہد میں بہت مقبول ہوئے۔قارئین کے ایک طبقے نے انھیں بے حد پسند کیا۔ان مضامین نے وقتی لذت اندوزی کے ساتھ، سیاست اور صحافت کے غلیظ اور کریہہ کرداروں پر تیکھا وار کیا۔جس طرح انھوں نے اپنے افسانوں میں ترقی پسندانہ اصول و فروع کی پیروی کی اور سماج و سیاست کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا، انھوں نے اپنے طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں بھی یہی وطیرہ اختیار کیا اور سماج و سیاست اور ادب و صحافت کی نا ہمواریوں، کجرویوں اور بے اعتدالیوں کو مرکز بنایا۔

یوں تو انھوں نے طنز و مزاح کے باب میں اسلوب و ادا کے ساتھ مواد کے انتخاب میں بھی تازگی اور تنوع کاری دکھائی ہے،مگر ایک خاص کردار ان کی ہر تحریر میں جلوہ فگن ہوتا ہے۔ نصف بہتر یعنی بیوی یا اجنبی عورت کا ذکر تقریبا ان کے ہر مزاحیہ مضمون میں ملتا ہے۔ شین صاحب خاتون کی جادوئی شخصیت کے اس رخ پر یقین رکھتے رہے ہوں گے کہ جب تک کسی مزاحیہ مضمون میں خاتون کے حسن وجمال اور اس کی دل فریب ناز و ادا کا ذائقہ نہ ڈالا جائے، وہ دل چسپ اور باعث تفریحِ قلب نہیں ہوسکتا۔ممکن ہے، ایک انگریز جارج میریڈیتھ کا قول ان کے پیش نظر رہا ہو، جس نے کامیڈی پر اپنے مضمون میں کہا تھا

’’جس معاشرے میں عورت پردے کے پیچھے ہو وہاں مزاح کا ظہور نہیں ہوسکتا۔‘‘1؎

 مگرسوال تو یہ بھی ہے اور بجا ہے کہ کیا خاتون کے ذکر شیریں اور صنف نازک کے چٹخارے کے بغیر کامیاب مزاحیہ مضمون نہیں لکھا جاسکتا؟ زندگی اور کائنات کی بو قلمونی، مظاہر قدرت کی رنگا رنگی اس نوع کی پابندی اور التزام کی اجازت نہیں دیتی، کائنات کے ذرے ذرے سے طنز و مزاح، ظرافت و فکاہت اور مضحک و ہنسی آور کیفیات کی برآمدگی کا سامان پیدا کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ فکر میں وسعت ہو، ذہن میں فراخی ہو اور قلم میں پختگی،مگر شین صاحب کی یہ مجبوری تھی یا نجی تجربات کی دین تھی کہ ان کے اکثر مزاحیہ مضامین کی تان عورت پر جاکر ٹوٹتی ہے اور کسی نہ کسی موڑ پرتھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، عورت کووہ گھسیٹ لاتے ہیں کہ آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار۔

شین مظفر پوری نے بقول خود پچاس سے زائد انشائیے یا طنزیہ مزاحیہ مضامین لکھے اور تقریبا سبھی اخبار کے کالموں کی زینت بنے، مگر دو مجموعے ہی شائع ہوسکے۔ ایک تو انشائیوں اور خاکوں کا مجموعہ ’حکایت نامہ ‘ اور دوسرا طنزو مزاح کا مجموعہ’آدھی مسکراہٹ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا اور اس زمانے میں ادبی حلقوں میں اس کاحسب توقع استقبال کیا گیا۔ مجموعہ(آدھی مسکراہٹ) کی اشاعت کے لیے انھیں بہار اردو اکادمی کا مالی تعاون ہم دست ہوا اور پہلی بار پٹنہ لیتھو پریس سے نومبر 1980 میں شائع ہوا، شروع میں خود نوشت کے عنوان سے ایک صفحے کی مختصر سوانحی روداد ہے اور اس کے بعد 15 مزاحیہ مضامین شامل ہیں۔ایک نظر ان مضامین کے عناوین پر ڈالتے چلیں، تاکہ ان کے مشمولات کی انفرادیت ہمارے اذہان پر منکشف ہوجائے۔ وائف کو بخار آیا، بیوی ایک عدد، زاغ کی چونچ میں انگور، قصہ منشی مرحوم کا، قصہ ایک شاعر کا، حاصل مشاعرہ، ملک الموت سے انٹرویو، بیمار مسیحا، سیاسی چمچہ، پولٹیکل وائف، ایک کینڈی ڈیٹ کی ڈائری، الیکشن سے الیکشن تک، پیدائشی حق، پوشیدہ خط و کتابت، سیکنڈ ہینڈ وائف۔

شین مظفر پوری نے مختلف انداز و اطوار سے طنز و مزاح کی لکیریں ابھارنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے اور اپنی تحریروںسے کہیں زیر لب تبسم کو دعوت دی ہے، تو کہیں قہقہوں کا بازار گرم کیا ہے۔ کبھی کھلے تو کبھی ڈھکے چھپے انداز میں، کبھی محاورہ اور ضرب المثل یا فقرہ چست کرکے، کبھی لفظوں کی ہیرا پھیری یعنی تحریف کی راہ سے تو کبھی اشعار کے مشہور عام مصرعوں کی مدد سے۔کبھی ان کا اسلوب تخلیقی اور ادبی ہے تو کبھی سادہ اور غیر ادبی، جس میں ابتذال اور مسخرگی ہے،جس کو اس وجہ سے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ طنز و مزاح کا دائرہ کبھی نہ کبھی پست و کمتر اورادنی و ارذل عناصر سے مل ہی جاتا ہے۔ہمہ شما تو کجا، طنز و مزاح کے سرخیل مرزا غالب کے نثری خطوط بھی اس عیب سے منزہ نہیں تھے۔

طنز و مزاح کی بنیاد کے پتھر میں سماج کے عمومی رویوں سے انحراف کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ اس کے بغیر طنزیہ مزاحیہ مضمون کا تصور محال  ہے۔شین مظفرپوری نے بھی اپنے مزاحیہ مضامین میں ان تمام افراد و اشخاص کو نشانۂ تمسخر اور ہدف تنقیدبنایا ہے، جو سوسائٹی اور سماج کے عام رویے سے منحرف ہوتے ہیں اور جن کا مزاج و میلان عام قواعد و ضوابط سے متصادم ہوتا ہے۔ ان سے ایسی تعجب خیز حماقتیںاور انوکھی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ اس سے ایک مضحک اور قہقہہ بار فضا قائم ہوتی ہے اور دوسرے اس سے محظوظ و مسرور ہوتے ہیں۔

شین مظفرپوری کے مزاحیہ مضامین کو ان کے مواد اور مافیہ کے اعتبار سے دو قسموں میں ہم رکھ سکتے ہیں۔ ایک ادبی مزاحیہ مضامین، دوسرے صحافتی مزاحیہ مضامین۔یہ ذرا موٹی اور غیر عالمانہ تقسیم ہے، ورنہ ہر مضمون کا عنوان تو الگ ہے مگر مواد میں اتنی ہمہ گیری ہے اور اتنی بوقلمونی ہے کہ انھیں ضبط کے ساتھ ایک خانے میں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ظرافت یا طنز و مزاح کا ادب میں کیا مقام ہے، اس کا فنی تعارف کیا ہے، تو آئیے! سب سے پہلے مزاحیہ مضمون کی حدوں کا تعین کرلیتے ہیں۔ حد بندی اور دو دو چار کی طرح معاملہ طے کرنے کے لیے ایک ہی ہتھیار کام آتا ہے، ماہرین فن اور ناقدین ادب کی تعریف۔ ڈاکٹر حسن رضا نے مشاہیر ادب کی آرا و افکارکو کھنگالنے کے بعد اپنے مطالعے کی روشنی میں یہ لکھا ہے

’’مزاحیہ مضمون— وہ نثری صنف ادب ہے جس میں]جو[ مضمون(Essay)کی منصوبہ بندی کے علاوہ زندگی کے مضحک پہلؤوں اور ناہمواریوں کو مزاحیہ کردار، مزاحیہ واقعات یا زبان و بیان کی بازی گری سے بجھی ہوئی، پھیکی اور بدمزہ زندگی منور کرکے ہمارے لیے مسرت کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ جس سے ہم محظوظ ہوتے ہیں، مسکراتے ہیں اور کبھی دیر تک ہنستے رہتے ہیں۔‘‘2؎

طنز و مزاح ایک قائم بالغیر نثری صنف ہے، یہ تحریر کی صفت کے ذیل میں آتا ہے،یہ کوئی باضابطہ صنف ادب نہیں ہے کہ اس کو اردو اصناف کی کتابوں کے اوراق میں تلاش کیا جائے۔ ہر وہ منظوم یا منثور تحریر جس میں طنز و مزاح کی صفات جلوہ گر ہوں، اس کو طنزو مزاح کے دائرے میں رکھا جائے گا۔ ویسے فنی اعتبار سے مزاح الگ وصف ہے اور طنز الگ۔ دونوں میں حد فاصل ہے۔ایک کی بنیادمنفی عناصر پر ہے تو دوسرے میں مثبت جہات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ طنز سے دوری جنم لیتی ہے تو مزاح سے قربت کا آبشار پھوٹتا ہے۔ وزیر آغا نے تقابلی انداز میں ایک مضمون کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، وہ اس طرح ہے

’’طنز زندگی اور ماحول سے برہمی کا نتیجہ ہے اور اس میں غالب عنصر نشتریت کا ہوتا ہے۔ طنز نگار جس چیز پر ہنستا ہے، اس سے نفرت کرتا اور اسے تبدیل کردینے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مزاح زندگی اور ماحول سے انس اور مفاہمت کی پیداوار ہے۔ مزاح نگارجس چیز پر ہنستا ہے اس سے محبت کرتا اور اسے اپنے سینے سے چمٹا لینا چاہتا ہے۔ طنز نگار توڑتا ہے اور توڑنے کے دوران ایک فاتحانہ قہقہہ لگاتا ہے۔ چناں چہ طنز میں جذبۂ افتخار کسی نہ کسی صورت میں ضرور موجود ہوتا ہے۔ دوسری طرف مزاح نگار اپنی ہنسی سے ٹوٹے ہوئے تار کو جوڑتا ہے اور بڑے پیار سے ناہمواریوں کو تھپکنے لگتا ہے۔ چناں چہ مزاح میں غالب عنصر ہمدردی کا ہوتا ہے۔‘‘3؎

مگر طنز و مزاح کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں ایک خط مستقیم پر چلتے رہتے ہیں۔ ان کا کبھی تنازع نہیں ہوتا۔ایک ہی واقعہ یا کردار طنز و مزاح دونوں کا منبع بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مجتبی حسین نے روار وی میں ہی سہی، مگر بجا کہا ہے

’’میں سمجھتا ہوں کہ مزاح اور طنز دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ طنز میں جب تک مزاح کی شوخی نہ ہو وہ مؤثر نہیں ہوسکتا۔ اردو میں تو طنز و مزاح کو ہمیشہ ایک ساتھ ہی لکھا اور پڑھاجاتا ہے۔‘‘4؎

مزاح کس طرح وجود میں آتا ہے اور اس کے محرکات و عوامل کیا ہیں، ان امور سے بحث کرتے ہوئے مشہور ناقد وزیر آغا کی باتیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں، جنھوں نے طنز و مزاح نگاری کے لیے چار حربوں تک رسائی کو ناگزیر بتایا ہے

’’مزاح نگاری اپنے نمود کے لیے جن عناصر کی رہین منت ہے ان میں سے ایک موازنہ(Comparision) ہے۔ دو چیزوں کی آپس میں بیک وقت مشابہت اور تضاد سے وہ ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں، جو ہنسی کو بیدار کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ چناں چہ مزاح نگار بالعموم مزاح کی تخلیق کے لیے اس حربے سے بدرجۂ اتم فائدہ اٹھاتا ہے۔‘‘5؎

’’مزاح نگاری کا دوسرا کار آمد حربہ زبان و بیان کی بازی گری ہے۔ لفظی بازی گری سے مزاح پیدا کرنے کے کئی طریق ہیں جن میں شاید سب سے پرانا طریق تکرار(Repetation)  ہے، مگر اس ضمن میں جس طریق کو ازمنۂ قدیم سے اہمیت ملی ہے،  رعایت لفظی (WIT) کے نام سے مشہور ہے۔رعایت لفظی کا مقصد یہ ہے کہ لفظ کو اس انداز سے استعمال کیا جائے کہ ناظر کو اسی لفظ کے دو مختلف مطالب کا احساس ہو۔۔۔۔رعایت لفظی بھی دو چیزوں کے مابین بیک وقت مشابہت اور تضاد کو منظر عام پر لاتی ہے۔ مثلا اکبر الہ آبادی کا شعر ہے       ؎

عاشقی کا ہو برا، اس نے بگاڑے سارے کام

ہم تو اے بی میں رہے، اغیاربی۔اے ہوگئے  6؎

مزاح یا طنز پر مبنی مضمون لکھنے میں مضحک واقعات بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ مزاح نگار ایسے واقعات کی جستجو میں سرگرداں رہتا ہے، جن کی مدد سے طنز و مزاح کا نقش ابھارا جاسکے۔جیسے پطرس کے مزاحیہ مضمون’’ مرحوم کی یاد میں‘‘ سائیکل کی مثال پیش کی جاسکتی ہے، جو مزاحیہ صورت خلق کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔وزیر آغا اس کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’مزاح نگاری کا تیسرا حربہ مزاحیہ صورت واقعہ (Humorous Situation) ہے۔ مزاحیہ صورت واقعہ تین اہم عناصر کی رہین منت ہے۔ ناہمواریوں کی اچانک پیدائش، الجھن میں اسیر انسان کے مقابلے میں ناظر کا احساس برتری اور یہ تسکین دہ احساس کہ اس واقعے میں صدمے یا دکھ کا پہلو موجود نہیں۔‘‘7؎

’’مزاح نگاری کا چوتھا حربہ مزاحیہ کردار(Humorous Characters) ہے۔ وہ مزاحیہ کردار جس کی بدولت تمام کا تمام ماحول مضحکہ خیز صورت اختیار کرجاتا ہے۔ بے شک مزاحیہ کردار کو نمایاں کرنے کے لیے پہلے ایک مناسب ماحول پیش کرنا ازبس ضروری ہے۔ تاہم جب ایک بار اس انوکھے کردار کی تخلیق ہوجاتی ہے تو پھر اس کا سرسری تذکرہ ہی ماحول کی سنجیدگی کو ختم کردیتا ہے۔‘‘8؎   

جیسے فسانۂ آزاد کا کردار خوجی، حاجی بغلول، چچا چھکن وغیرہ وہ کردار ہیں جن کا نام سنتے ہی مجلس پر غیر سنجیدگی کی فضا قائم ہوجاتی ہے اور لبوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگتی ہے۔ ہماری عام زندگی میں خود ساختہ قسم کے مولوی ملا، پنڈت، زاہد و واعظ اور صوفی و بابا وغیرہ بھی ایسے مزاحیہ کردار ہیں، جن کے نام ہنسی پر ابھارنے کے لیے کافی ثابت ہوتے ہیں۔

پیروڈی اور تحریف سے بھی مزاح کا پہلو بر آمد ہوتا ہے۔ پیروڈی کیا ہے، وزیر آغا لکھتے ہیں

’’مزاح نگاری کا آخری حربہ پیروڈی یا تحریف ہے لیکن پیروڈی صرف مزاح نگار ہی کا حربہ نہیں بلکہ طنز نگار بھی اس سے بدرجۂ اتم فائدہ اٹھاتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تحریف کی حیثیت محض ایک حربے کی نہیں بلکہ یہ تو ایک علاحدہ صنف ادب کا درجہ بھی حاصل کرچکی ہے۔۔۔۔پیروڈی یا تحریف کسی تصنیف یا کلام کی ایسی لفظی نقالی کا نام ہے جس سے اس تصنیف یا کلام کی تضحیک ہوسکے۔‘‘9؎

تمہیدکے طور پر ان اقتباسات کا ذکر بے جا، بے مقصداور مہمل نہیں ہے۔ شین مظفر پوری ایک وسیع النظراور کثیر المطالعہ ظرافت نگار تھے، انھوں نے ان تمام حربوں سے اپنی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں کام لینے کی مقدور بھر جدو جہد کی ہے۔وہ قحبہ خانوں کی تن فروش طوائف سے لے کر گھر کی چولھا چکی میں مصروف خواتین کی زندگی کے مسائل تک سے واقف تھے، امیر و کبیرکی آسودہ حال زندگی سے لے کر غریب اور فقیر تک کی کشاکش حیات اور ان کے مسائل پر نظر رکھتے تھے۔وہ سیاست دانوں اور دانش وروں سے بھی آشنا تھے اور خستہ حال زندگی جینے والے عام آدمی، ہل جوتنے والے کسان اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور سے بھی متعارف تھے۔ وہ انسانی کیفیات کی گہرائیوں سے آشنا ایک ذہین ادیب تھے، ان کے ذہن و دماغ کی ساری کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں، وہ مظاہر کائنات اور اس کی ایک ایک چیز پر ظریفانہ نظر رکھتے تھے۔ رنج و غم، خوشی و مسرت، امراض و اعذار، سیاست و صحافت، زبان و ادب ہر ایک جہت کو بحیثیت مزاح نگار دیکھتے تھے اور اس پر جھٹ مضمون لکھ کر اخبار کو بھیج دیتے تھے۔

اردو میں مزاح نگاری کی روایت کافی مستحکم اور مربوط ہے، نامور مزاحیہ مضمون نگار ہر عہد میں رہے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک، مگر شین مظفر پوری کا یہ کمال ہے کہ وہ فرسودگی کو اپنی تحریروں میں راہ نہیں دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوشی و مسرت کے مواقع ہی نہیں، امراض و اعذارکے بطن سے بھی مزاح کا ذائقہ بر آمد کرلیتے ہیں۔بخارکس کو نہیں آتا، بخار اور انسان کا رشتہ لازم و ملزوم کا ہے۔ شین مظفر پوری اپنے مزاحیہ جادو نگار قلم سے بخار کے فضائل و فوائد شمار کراتے ہوئے وہ کچھ لکھتے ہیں کہ ہر شخص بخار زدہ ہونے کی تمنا کرے

’’اکثر ایسا ہوا ہے۔(اسے حسن اتفاق ہی کہیے)کہ جب کبھی دفتر میں کام کا رش رہا،یا جب کبھی کسی دوست یا پڑوسی کے ساتھ کوئی سوشل ایمرجنسی کا معاملہ رہا، یا کسی زبردستی کی دعوت کا موقع رہا، یا کوئی بیگار کا کام گلے پڑگیا، یا وائف کے کسی کام سے ان کے میکے جانے کا فرمائشی پروگرام رہا، یا سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی قرض خواہ سے وعدہ رہاتو مجھے نزلہ زکام ہوگیا اور احتیاطا بخار بھی آگیا۔اور ہر بار میں]نے[ خدا کا شکر ادا کیا کہ ایک بخار سے ہزار بلائیں ٹلیں۔ مجھے بخار میں بھی ہشاش بشاش دیکھ کر وائف کو شک گزرتا ہے کہ میں نے یونہی ڈھونگ رچا رکھا ہوگا۔لیکن میری مسرت کا اصل راز وائف کو کیا معلوم۔دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حکیم صاحب کی میٹھی اور لذیذ دواؤں کو بے حد رغبت کے ساتھ بطور دوا نہیں، بطور ناشتہ استعمال کیا کرتا ہوں۔میں تو کہتا ہوں کہ یہ حکیم صاحبان بعض دوائیں اتنی خوش ذائقہ تیار کرتے ہیں کہ اگر انھیں بطور ناشتہ فروخت کیا جائے تو بکری بڑھ جائے گی۔مجھے اس طرح ہنسی خوشی بخار میں مبتلاہوتے دیکھ کر وائف کو ہمیشہ رشک آتارہتا ہے۔جس طرح بانجھ عورت کسی ہری بھری عورت پر رشک کیا کرتی ہے۔‘‘10؎

بخار کے فضائل سن کر بخار آنے کی تمنا کوئی احمق ہی ہوگا، جو نہ کرے۔ ایک بار جب بیوی نے بخار کی شکایت کی، تو کیسا طنز کیااور بخار لفظ کے پردے میں کس بخار کو انھوں نے آشکار کیا

’’تمھارے منہ میں خاک، بخار تمھارے دشمنوں کو آئے۔ مجھے بخار آتا ہے تو صرف مجھے ہی آتا ہے۔ خدا نخواستہ تمھیں بخار آیا تو پورے گھر کو بخار آجائے گا۔‘‘11؎

جب وائف اپنے بخار کی خبر اپنے میکے بھجوانے اور اپنی بہن کو طلب کرنے کی خبر بھجوانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔سالی کا رشتہ کتنا ناز نخرے والا ہوتا ہے اور وہ کتنا خرچ طلب ہوتا ہے، اس پر یہ مزاحیہ جملے دیکھیے

’’شمو میری چھوٹی سالی صاحبہ کا اسم شریف ہے جنھیں وائف بطور اسسٹنٹ استعمال کرنے کی بات سوچ رہی تھیں۔اب مجھے اندازہ ہوا کہ وائف کا یہ پروگرام واقعی خاصا لمبا تھا۔سالی صاحبہ کی تشریف آوری کا مطلب تھا آئندہ ماہ خسارے کا بجٹ۔اس لیے میں]نے[ ہوش کے ناخن لیے۔اگر اس بخار کو مشتہر کرنا ہی ٹھہرا تو اخبار میں اعلان کرانا تو مجھے منظور تھا لیکن ان کے میکے خبر بھجوانا ہرگز گوارا نہ تھا۔‘‘12؎

کھٹمل اور مچھرسے انسانوں کا آئے دن سابقہ پڑتا ہے۔ دیہاتوں میں بجلی کی عدم دست یابی یا آنکھ مچولی کی وجہ سے مچھروں کا ہجوم گھر کے افراد تو کجا، مہمانوں کی نیند بھی حرام کردیتے ہیں۔ دیکھیے ایک مہمان کو اپنے میزبان کے گھر کس قسم کے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باتوں ہی باتوں میں وہ میزبان کے والد مرحوم کی رشوت خوری والی ملازمت داروغہ گیری پر بھی گہری چوٹ کرجاتے ہیں۔شین صاحب نے مچھروں کی اذیت رسانی کے عمل کو شہر روم کے شیروں سے تشبیہ دی ہے

’’ظالم نے ایسے ایسے آدم خور کھٹمل اور مچھر پال رکھے ہیں کہ مجھے شہر روم کے عہد قدیم کی وہ بات یاد آگئی کہ مجرم کو سزائے موت دینے کے لیے بھوکے شیر کے پنجرے میں ڈال دیا جاتاتھا۔ کفیل صاحب کے والد کو آبکاری کا داروغہ ہونے کے طفیل جو عذاب قبر ہو رہا ہوگا، اس کا بدلہ وہ مجھ سے اپنے پالتو مچھروں اور کھٹملوں کے ذریعے لے رہے تھے۔ سچ پوچھو بیگم تو قبر کے عذاب کا یہ نمونہ دیکھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔‘‘13؎

شاعر اور شاعرات پر تقریبا تمام مزاح نگاروں نے زور قلم دکھایا ہے۔ ان کی تک بندی اور سرقے و چربے کی خوئے بد کو انھوں نے مشق قلم بنایا ہے۔ اب تویہ مفروضہ حقیقت قرار پاچکا ہے کہ شاعر ہو یا شاعرہ، وہ مشاعرے میں شعر کم کہتے ہیں، اپنی کرتب بازیوں کا مظاہرہ زیادہ کرتے ہیں۔ شاعرات اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی بد نام واقع ہوئی ہیں، جو دوسروں کی تخلیقات پر اپنا حق جماکر اپنی نسوانی اداؤوں سے مشاعرہ لوٹنے کی کوشش کرتی ہیں۔وہ شعر پڑھنے سے زیادہ شعر گانے پر یقین کرتی ہیں۔ان کا کلام نہیں، ترنم زیادہ مرکز نظر ہوتا ہے۔ شاعرات کی حرکت پر زبان یکے از شاعرہ شین صاحب کا یہ طنزیہ جملہ پڑھیے

’’افسوس کہ مجھے استاد نے شعر بنانا نہیں سکھایا۔ میں نے شعر کہنا سیکھا ہے۔‘‘14؎

 ملکۂ خانہ یعنی زوجہ محترمہ کے بارے میں نئے نئے پیرایے میں شین مظفر پوری نے مزاحیہ جملے تراشے ہیں، جس سے ہنسی کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ شعر و شاعری، سیاست،صحافت، امور خانہ، چوک چوراہا، مارکیٹ اور بازارہر جگہ وہ ہیروئن کی طرح خاتون کردار کی موجودگی کو ناگریزیر سمجھتے تھے۔گھر کی مرغی دال برابر کی کہاوت ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں، بیوی بھی اپنے شوہر کو ہزار قابلیتوں کا حامل ہونے کے باوجود دو کوڑی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ ’قصہ ایک مزاحیہ شاعر کا‘ مزاحیہ مضمون ہے، بیوی اپنے شاعر نام دار کی پذیرائی میں اتنی بخیل یا تنگ نظر کیوں ہوتی ہے؟لکھتے ہیں

’’ایک غم زدہ شاعر نے دوسرے دل جلے شاعر سے کہا’’تجربہ بتاتا ہے کہ بیوی کو غزل سنانا ایسا ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا۔ میری بیوی کی قدر دانی کا یہ عالم ہے کہ وہ اکثر میرے دیوان کو جھاڑو کے پاس رکھ دیا کرتی ہے۔‘‘15؎

آج کل ہر نام نہادشاعرپر صاحب دیوان بننے کی دھن سوار ہے۔ خواہ اس کو ردیف کی شد بد نہ ہو اور وہ قافیہ کی تعریف تک سے کورا اور نابلدہو، مگر تک بندی کرنے اور عوام پر اپنی شاعری کا دھونس جمانے کا ایک رواج چل پڑا ہے۔ ایسے گندم نما جو فروش متشاعر ہردور میں موجود رہے ہیں، جو خود تو کسی غزل یا نظم کی تخلیق پر قادر نہیں ہوتے،مگر دوسروں کے مال پر ہاتھ صاف کرنا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ اگر باپ دادا میں سے کوئی اتفاق سے شاعر گزرا ہو تو اس کی چاندی ہوجاتی ہے۔شین مظفر پوری نے ایسے متشاعروں پر کتنا گہرا طنز کیا ہے

’’رسمی تکلف کے بعد خاںصاحب نے اپنی موٹی سی بیاض تکیہ کے نیچے سے نکالی جس کے حجم کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا تھا کہ انھوں نے اپنے آبا و اجداد کی غزلیں بھی اسی میں لکھ رکھی ہوں گی۔‘‘16؎

 بیوی حاکم مطلق ہوتی ہے،وہ گھر میں ایک مطلق العنان حکمراں اور ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہوتی۔شوہر بچے سب اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں، اس کا ہر حکم سر آنکھوں پرر کھا جاتا ہے اور اس کا ہر نخرہ بصد ادب برداشت کرنا پڑتا ہے۔اس باب میں بیوی کے شہری یا دہقانی ہونے کی قید نہیں، تعلیم یافتہ یا نوشت و خواند سے محروم ہونے کی بھی شرط نہیں،بس وہ خاتون، اجنبی نہیں،بیوی کے روپ میںہونی چاہیے۔یوں بھی عورت کی فطرت میں کجی ہے، ٹیڑھی پسلی سے اس کا خمیر تیار ہوا ہے۔ شین مظفر پوری کا مزاحیہ قلم بیوی کی اس مطلق العنانیت کو کس انداز میں بیان کرتا ہے

’’رہا سیدھی اور مسکین ہونے کا معاملہ تو سر پر چڑھ کے بانگ دینا تو کیا وہ خیر سے قطب مینار پر چڑھ کے بانگ دے رہی تھی۔‘‘17؎

’ملک الموت سے انٹرویو‘ انتہائی مزاحیہ تحریر ہے۔ اس میں موضوعات کی قوس قزح آباد ہے۔ ملک الموت تو خیر سے صنفی اعتبار سے مذکر ہے،مگر صنف نازک یہاں بھی نمودار ہوتی ہے اور وہ بھی اخبار کے مدیر کی ناقدری کے ساتھ کہ وہ کس طرح اپنے خاوند مدیر کے ساتھ پیش آتی ہے

’’میرے اخباری پیشے کے بارے میں اس]بیوی[ کی جو رائے ہے، اس کا اظہار اس نے زبان سے کبھی نہیں کیا لیکن میں اپنا ایڈٹ کیا ہوا جو اخبار ریکارڈ کے لیے گھر لاتا ہوں، وہ اس سے تازہ بہ تازہ اپنے منے کی’’چھی‘‘ پونچھ کر یا چولہا سلگاکر اپنی رائے کا اظہار ہر روز کردیا کرتی ہے۔‘‘18؎

خواتین بہت زود رنج ہوتی ہیں۔ عجلت ان کے خمیر میں ہے۔ ادھر روٹھی اور ادھر مانی۔ ابھی کھلکھلا رہی تھی اور پلک جھپکتے غصہ سے چور۔پل میں تولہ اور پل میں ماشہ عورتوں کی شناخت ہے۔ اسی طرح انسان کی قسمت بھی پل بھر میں بدل سکتی ہے، مقدر کا سورج چمک سکتا ہے،بشرطیکہ اوپر والا مہربان ہو۔ روٹھی قسمت اور روٹھی بیوی دونوں میں تضاد کی صفت ہے،روٹھی بیوی اور روٹھی قسمت میں کس طرح مماثلت و یکسانیت کے اجزا تلاش کرکے مزاح پیدا کرنے کے لیے شین مظفر پوری لکھتے ہیں

’’جس طرح ساون کی گھٹا کا کچھ بھروسہ نہیں کہ کب برس جائے، اسی طرح روٹھی ہوئی عورت اور روٹھی ہوئی قسمت کا بھی کچھ بھروسہ نہیں کہ کب مہربان ہوجائے اور وہ بھی ایسے میں کہ جب عورت اور قسمت بے نکیل بھی ہو۔‘‘19؎

شین مظفر پوری ناول و افسانہ نگار کے ساتھ ایک مشہورصحافی بھی تھے۔ پٹنہ، دہلی، کلکتہ اور سرحد پار تک صحافت کے پیشے سے وہ وابستہ رہے، نامہ نگار بھی رہے، مترجم بھی اور اداریہ نویس بھی۔ کبھی منظر نامے پر رہے اورکبھی پس منظر میں رہ کر صحافیانہ تحریریں لکھتے رہے،کبھی اپنے نام سے لکھا اور کبھی گمنام رہ کر بدنامی کی کوفت اٹھائی۔ اس لیے میدان صحافت کی نزاکت خصوصا اردو اخبارکی کمیوں اور نا رسائیوں پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ اس معاملے میں گھر کے بھیدی تھے اور صاحب البیت ادری بمافیہ(گھر کامالک گھر سے زیادہ آشنا ہوتا ہے) کی مثال تھے۔ اپنی اس مصروفیت کو انھوں نے کئی مزاحیہ مضمون میں اجاگر کیا اور مزاح کے پردے میں اخبار کے مالکان پر نشتر لگائے۔ بیمار مسیحا ان کا ایسا ہی مزاحیہ مضمون ہے جس میں انھوں نے مدیران کی بے بسی کے ساتھ اس کی عیاری و مکاری کو بھی عیاں کیا ہے کہ وہ کس طرح کاغذی، کاتب اور مالک پریس ہر ایک کو مختلف حیلوں حوالوں سے رام کرتا ہے، کبھی اس در اور کبھی اس در کی خاک چھانتا ہے اور پھر جب پرچہ چھپ کر پریس سے دفتر میں قدم رکھتا ہے، تو اس کو ٹھکانے لگانے میں اس کواذیتوں کے دریا کو بھی عبور کرنا پڑتا ہے۔پھر بھی اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ دیکھیے شین مظفر پوری اس کو کتنے خوب صورت انداز میں دو تین جملوں میں پیش کرتے ہیں، جنازہ اور ڈاک کی مناسبت پر بھی غور کرنا چاہیے

’’جس طرح زندہ پرمردہ بھاری ہوتا ہے کہ کب سپرد خاک کردے، اسی طرح ایڈیٹر پر چھپا ہوا پرچہ بھاری ہوتا ہے کہ کب اس کو سپرد ڈاک کرے۔‘‘20؎

اخبار بینی کی عادت نوشت و خواند سے واقف کس شخض کو نہیں ہوتی۔اردو کی الف ب سے اللہ واسطے کی شناسائی بھی اردو اخبار کی ورق گردانی کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے، مگر جب یہ شوق حد سے تجاوز کرجائے اور اخبار بینی خبروں سے واقفیت کا ذریعہ نہ رہ جائے، بلکہ وقت گزاری کا حیلہ بن جائے تواس عادت قبیحہ پر شین مظفر پوری یہ لکھتے ہیں،انھوں نے ایسے ایسے ذو معنی الفاظ سے طنز کسا ہے کہ آدمی پر گھڑوں پانی پڑجائے

’’منشی مرحوم ان ادھ کچرے اخبار بینوں میں نہ تھے۔ وہ جس اخبار کو اٹھاتے، اس کے اشتہارات تک کو چاٹ جاتے۔ اس پر بھی ایک اخبار پڑھنے سے تو ان کو سیری نہ ہوتی تھی۔ شہر کے اخباروں کے علاوہ باہر سے آنے والے اخباروں کی بھی تاک میں لگے رہتے۔ کوئی پرانا اخبار مل جاتا تو اس کو بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے۔ صبح سے سہ پہر تک تو ان کے مطالعے کا سیشن چلتا۔ اور جب سب اخبارات چرچُگ لیتے تو جگالی کا دور شروع ہوتا ورنہ بد ہضمی کا ڈر تھا۔ ظاہر ہے کہ تبصرہ اور بحث مباحثے کے بغیر دن بھر کے مطالعے کا اپھار کیسے دور ہوتا۔ حد تو یہ کہ وہ اخبارات کے ایسے تبصرے اور مضامین بھی پڑھ ڈالتے تھے جو اخبار والے محض جگہ پر کرنے کے لیے دے دیا کرتے ہیں۔ یہاں مراد اردو اخبار والوں سے ہے۔‘‘21؎

سیاست اور سیاست دانوں پر طنز کرنا آج کل کے قلم برداروں کا ایک محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ اور پھر اگر اتفاق سے اس قلم کار کو طنز و مزاح کا چسکہ لگا ہے تو اس کی تحریر سیاست کا ذکر کیے بغیر تشنہ ٔ تکمیل ہی رہتی ہے۔ یوں بھی اس میدان میں اتنا مواد اور مسالہ ہے کہ ایک بات اور ایک واقعے کو لے کر پورا مزاحیہ مضمون ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ شین مظفر پوری کا ایک مزاحیہ مضمون ہے، سیاسی چمچہ، عنوان تو ذرا غیر ادبی، سوقیانہ اور مبتذل لگتا ہے، مگر جو کچھ بطور تمہید و تعارف لکھا ہے، وہ مزاح کا اعلی نمونہ پیش کرتا ہے، یہ مزاحیہ مضمون بہ زبان راوی والی تکنیک میں لکھا گیا ہے اوراپنے مکالموں کی وجہ سے ڈرامے کی یاد تازہ کراتا ہے، اس میں سیاسی رہ نماؤں سے زیادہ ان کے ارد گرد رہنے والے افراد کی نفسیات، ان کی خوئے حرص و طمع اور ان کے ذریعے سیاست دانوں کی منہ بھرائی کو طنز سے بھرپور انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک ہی آدمی چولا بدل کر اپنی حرص و آز کی تسکین کے لیے ہر پارٹی کے گرد طواف کرتا ہے اور ہر سیاسی رہ نما سے دکھاوے کا ربط ضبط بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے اور سیاسی افراد بھی اتنے سادہ لوح ہوتے ہیں یا تھوڑی دیر کے لیے خوش فہمی میں اتنے بھولے بن جاتے ہیں کہ ان خوشامد کنندوں اور تملق پسندوں کی زبانی جمع خرچ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتے ہیں

’’میں ہوں ایک سیاسی چمچہ۔اور چمچہ بھی اسٹین لیس اسٹیل کا بنا ہوا۔ جس پر داغ دھبے نہیں لگتے۔ پھر یہ کہ میں کوئی معمولی سیاسی چمچہ نہیں ہوں۔ اصلی اور خاندانی ہوں۔ غالب مرحوم کے آبا کا پیشہ سو پشت سے اگر سپہ گری تھا تو اپنا پیشہ بھی سو پشت سے نہیں تو دو چار پشتوںہی سے سہی، چمچہ گیری چلا آتا ہے۔‘‘22؎

بہت سے طنز و مزاح نگار اپنے طویل مزاحیہ مضمون کو تو دیر پا نہیں بنا پاتے کہ ہمارے اد بی حافظے انتہائی کمزوراور زود فراموش واقع ہوئے ہیں، مگر ان کا ایک اقتباس یا پیراگراف ذہن کے کسی کونے میں محفوظ رہ جاتا ہے اور اسی سے مزاح نگار شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ کسی ظریفانہ مضمون کے چند جملے یا ایک جملہ ہی سہی اتنا مشہور ہوجاتا ہے کہ اس کو قہقہوں کی سوغات تقسیم کرنے کے لیے مجلسوں اور تقریبات میں دہرایا جاتا ہے۔ اور اس پر لوگ لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ یہ جملے ذہنوں پر نقش کالحجر ثابت ہوتے ہیں، جب بھی یاد آتے ہیں، ہمیں گدگداتے ہیں، لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہیں اور کبھی بے خودی میں کھلکھلانے پر بھی مجبور کردیتے ہیں۔ مشتاق یوسفی اور مجتبی حسین کا نام اس معاملے میں خاص طور پر لیا جاسکتا ہے کہ ان کے بعض جملے مزاحیہ عناصر سے اتنے مملو ہیں کہ وہ ہمارے ذہنوں پر کندہ ہیں۔شین مظفرپوی اصل میں فکشن نگار تھے، مستقل طنز و مزاح نگار نہیں تھے، مگر ان کے بھی کچھ جملے یا اقتباسات ایسے ہیں، جواپنی معنویت اور جامعیت کے سبب ہمارے ذہنوں میں محفوظ اور مخزون رہ جانے والے ہیں، یہی کسی فن کار کا کمال ہوتا ہے اور اسی سے فن کار بعد از مرگ بھی زندہ رہتا ہے۔ بلا تفریق و تعیین چند اسی قسم کے مختلف اور متفرق جملے مثال کے طور پر پیش ہیں، جوشین مظفر پوری کے زندہ جاوید قلم سے نکلے ہیں۔ اگر ان پر کوئی عنوان فٹ کردیا جائے تو یہ مزاحچہ(مختصر مزاحیہ مضمون) بن سکتے ہیں

’’وائف بھی ایک قسم کے بخارہی کا نام ہے جو ایک بار چڑھ جائے تو ساری زندگی اترنے کا نام نہیں لیتا۔‘‘23؎

’’بزرگوں کا قول ہے کہ کسی کا نمک کھاکر نمک حرامی نہ کرنی چاہیے۔ چاہے بعد میں کالا نمک ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔‘‘24؎

’’بیویوں کی مائیں جملہ امور میں سپریم کورٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘25؎

’’اینٹلی جینس والوں نے مجھ سے اتنے سوال کیے جتنے میرے سر میں بال بھی نہ ہوں گے۔‘‘26؎

’’یہ تو ہمیشہ کا دستور تھا کہ کام لے کر ایڈیٹر کو کاتب کے گھر خود جانا پڑتا تھا۔ البتہ اجرت کے لیے کاتب کو ایڈیٹر کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔‘‘27؎

’’سیاست میں میرا وہی کام اور مقام ہے جو دسترخوان پر چمچہ کا ہوتا ہے۔‘‘28؎

’’کس میں ہمت تھی جو والد صاحب کے سفید جھوٹ پر سیاہی پوتتا۔‘‘29؎

’’قبر کھود کھود کر ووٹر نکال رہے ہیں۔‘‘30؎

’’گھر کی عورت مسکراتی ہے تو بچے پیدا ہوتے ہیں اور جب باہر کی عورت مسکراتی ہے تو پھول کھلتے ہیں۔‘‘31؎

’’جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے اور جب شریف آدمی کی شامت آتی ہے تو وہ سیاست کا رخ کرتا ہے۔‘‘32؎

’’ہندستان میں آدمی کی خوبیاں مرنے کے بعد ظاہر ہوا کرتی ہیں۔‘‘33؎

’’پہلے دواؤں میں پانی ملایا جاتا تھا اب پانی میں دوائیں ملائی جاتی ہیں۔‘‘34؎

’’جو لوگ ایک بار بے وقوف بن سکتے ہیں، انھیں بار بار نہیں تو کم از کم دوبارہ ضرور بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ یہ میر بار بار کا تجربہ ہے۔‘‘35؎

’’عورتیں دو چیزیں ہمیشہ بھول جاتی ہیں۔ تاریخ پیدائش اور موضوع بحث۔‘‘36؎

’’راز کی بات عورت سے کہنے اور ریڈیو سے نشر کرنے میں کوئی فرق نہیں۔‘‘37؎

’’ساس وہ چنگاری ہے کہ اگر بارود خانہ سات سمندر پار بھی ہو تو بھک سے جا اڑائے گی۔‘‘38؎

’’تمھارے خط میں روپے پیسے کا ذکر نہ ہونا ایسا ہی ہے جیسے تم سالن میں نمک ڈالنا بھول جاؤ۔‘‘39؎

’’بچوں کے پیٹ کے سائز کے ساتھ ان کے کپڑوں کے سائز بھی بڑھتے جارہے ہیں۔‘‘40؎

’’رنڈوے کی شامت آتی ہے تو وہ سیکنڈ ہینڈ وائف کی طرف بھاگتا ہے۔‘‘41؎

’’ساٹھ سال کی فرسٹ ہینڈ وائف بیس سال کی سیکنڈ ہینڈ وائف سے کہیں اچھی ہوتی ہے۔‘‘42؎

مذکورۃ الصدر سارے جملے بہت چست، درست، شگفتہ اور شستہ ہیں اور اتنے رواں اور برجستہ ہیں جن سے ہر باذوق شخص اثر قبول کرتا ہے اور اپنی ہنسی پر ہزار سنجیدگی کے باوجود قابو نہیں رکھ پاتا۔ اگر پورے مضمون سے نہ سہی کسی ایک جملے سے ہی کسی مایوس و مغموم چہرے پر بشاشت کی لکیر روشن ہوجائے تو اس کو مزاحیہ تحریر کے دائرے میں جگہ دی جاسکتی ہے۔

شین مظفرپوری کی مزاحیہ نگارشات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے مزاح کے تمام حربوں اور ہنسی کے تمام ہتھکنڈوں سے کام لیا ہے۔ ان کے یہاں کردار نگاری،لطائف سازی، واقعہ بیانی اور منظر کشی کے عناصر کی فراوانی ہے۔کہیں موازنہ و مقابلہ، کہیں لفظی بازی گری تو کہیں تحریف و تضمین سے انھوں کام لیا ہے۔ انھوں نے استعارہ،تشبیہ، ذو معنی الفاظ، تجنیس و مشاکلت اور تضاد سے بھی مزاح کا ہیولی ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ان کوزبان پر عبور تھا اور بیانیہ اسلوب پر قدرت حاصل تھی۔طنز و مزاح کا سارا کھیل زبان و بیان اور طرز ادا پرہی تو موقوف ہوتا ہے۔ذرا سی بے اعتدالی، بے ادبی اور بے ڈھنگی سے تہذیب و شائستگی کا دامن دور چلا جاتا ہے، اس معاملے میں شین مظفر پوری کو خاص ملکہ حاصل تھا اور وہ اپنے طنز و مزاح کو مسخرگی اور ابتذال کی آلودگی سے بچا لے جاتے تھے۔ان کے طنزو مزاح کے رمز کو جاننے اوراس کی فنی جہات کو مٹھی میں لینے کے لیے ان کے کسی ایک مزاحیہ مضمون کا تنقیدی محاسبہ کافی نہیں، ان کے مجموعے ’آدھی مسکراہٹ‘ کے گہرے اور بالاستیعاب مطالعے کی راہ سے ہی شین کی ظرافت نگاری کی فنی پرتیں کھل سکتی ہیں۔

 شین کے یہاں عناوین یعنی سرخی کی تکرار تو نہیں ہے کہ عنوان سازی میں ان کا جواب نہیں تھا،مگر ان کے مضامین و موضوعات میں نہ صرف یکسانیت ہے، بلکہ ان میں مکررات کی تعداد بھی بہت ہے۔ ایک تو انھوں نے اکثر مزاحیہ مضمون میں عورت کے وجود کو مس کیا ہے، دوسری بات یہ کہ جملوں،مصرعوں، اشعار، فقروں اور کہاوتوں کی تکرار بھی ان کے یہاں بہت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ یہ کتاب کسی مختصر وقتی پروجیکٹ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف ہنگامی حالات میں لکھے گئے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے، پھر بظاہر یہ بھی لگتا ہے کہ شین مظفرپوری کے پاس افسانہ کے لیے جتنے خام مال کا انبار تھا، اتنا طنز و مزاح کے لیے مہیا نہیں تھا۔ گھما پھراکر وہ عورت کو مشق قلم بنانے لگتے ہیں۔بیش تر مضامین کی بنت میں شاعریا بیوی کو مرکز خیال بناکر مزاح کا پیکر تیار کیا گیاہے۔ کچھ مضامین میں اردو زبان،اردواخبار، اور اس کے مدیران و کارکنان کی زبوں حالی کوبھی مس کیا ہے، مگر اس کا موقع ذراکم آیا ہے۔اسی لیے حسن رضانے ایک دومضمون کا نام لے کر اس کمزور جہت کا انکشاف کیا ہے، اورجو صحیح لکھا ہے

’’وائف کو بخار آیا‘ میں ازدواجی زندگی کے روزمرے کی چھوٹی چھوٹی ناہمواریوں اور عورتوں کے بعض کوبڑپن کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس کو مبالغے کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہیں رعایت لفظی کہیں الفاظ کی ترکیب اور بعض طنز آمیز فقرے کے ذریعے لطف و انبساط کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔‘‘43؎

اور پھر یہ بھی لکھا

’’مضمون ’زاغ کی چونچ میں انگور‘ ازدواجی زندگی میں مرد اور عورت کے متضاد اوصاف کو دکھایا گیا ہے کہ ایسے متصادم ماحول اور نفسیات میں ایک باذوق عورت پر کیا گزرتی ہے۔‘‘44؎

شین ظفرپوری کے پیش رووں میں بھی ایک دولوگوں نے اپنی ظرافت نگاری میں ازدواجی زندگی کی نا ہمواریوں کو موضوع بنایا ہے۔ شوکت تھانوی کے حوالے سے وزیر آغا نے لکھا ہے

’’شوکت تھانوی بھی زیادہ تر ازدواجی زندگی کی ناہمواریوں سے مزاحیہ واقعات کشید کرکے قارئین کے سامنے پیش کرتے رہے۔۔۔۔شوکت تھانوی کے مزاح کا مرکزی نقطہ ازدواجی زندگی تھا۔‘‘45؎

شین مظفرپوری کے موضوعات و مضامین کیا رہے، کن بنیادوں پر انھوں نے ظرافت کی عمارت تعمیر کی،ان کی طنز و مزاح نگاری سے نتیجہ اخذکرتے ہوئے حسن رضا لکھتے ہیں

’’شین کا یہ مجموعہ اور اس طرح کے دوسرے مضامین جو مختلف اخباروں ورسائل میں شائع ہوئے ہیں، مزاحیہ ادبی مضامین یا صحافتی مزاحیہ مضامین کی حیثیت رکھتے ہیں جو عام طور سے فکاہیہ کالم کی زینت ہوتے ہیں، جو ایک مخصوص اور ہنگامی پس منظر میں زیادہ پرمعنی اور پر کشش ہوتے ہیں۔‘‘46؎

جس طرح ادب کی حیثیت مستقل اور دائمی ہوتی ہے اور صحافت کی ہنگامی اور وقتی، اسی طرح طنزیہ و مزاحیہ موضوعات کی عمریں بھی موضوعات سے طے ہوتی ہیں۔ وزیر آعا نے صحیح لکھا ہے

’’جس طرح ادب کی حیثیت مستقل ہے اور صحافت کی حیثیت محض ہنگامی۔ بعینہ ادبی مزاح زندگی کے ان مضحک پہلؤوں پر استوار ہوتا ہے جو عالم گیر انسانی حماقتوں سے جنم لیتے ہیں اور صحافتی مزاح محض ان ہنگامی نا ہمواریوں سے تحریک لیتا ہے جو کسی خاص واقعے کی منت کش ہوتی ہیں اور جو وقت گزرجانے پر اپنی مضحک کیفیات تیزی سے کھونے لگتی ہیں۔‘‘47؎

 شین مظفرپوری کا ذوق مزاح بلند تھا، توازن اور شخصی وقار کا خیال بھی ان کو دامن گیر رہتا تھا، انھوںنے بعض معاملوں میں اپنی فنی پختگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی مزاحیہ صلاحیت کے جلو میں بہت سی ناگفتنی کو بھی گفتنی بنا کر پیش کیا ہے، یہی کسی ظرافت نگار کے فن کا امتیاز و انفراد ہوتا ہے۔ آخر شین صاحب بھی ایک ممتاز تخلیق کار اور ایک سرد و گرم چشیدہ افسانہ نگار تھے۔ اس لیے انھوں نے طنز و مزاح کے نقش کو ابھارنے کے لیے کئی تکنیک اپنائی۔ سارے مضمون ایک ہی رو اور ایک ہی لے میں نہیں لکھے۔ایک ہی لاٹھی سے سارے عناوین کو نہیں ہانکا۔ کبھی عام مضمون کی طرح لکھا، کبھی کرداروں کی تخلیق کے ذریعے افسانے کا منہج کو اپنایا، کبھی ڈائری نویسی کے پیمانے میں مزاحیہ مضمون کو ڈھالا تو کبھی مکتوب نگاری کے نمونے پر اس کی بنیاد رکھی۔

اردو میں مزاحیہ مضمون نگاری کا آغاز اودھ پنچ اور اس کے تیز طرار قلم کاروں سے ہوتا ہے، جو ایک انگریزی اخبار پنچ کے نمونے پر 1877 میں سج دھج کے ساتھ نکلا تھا، مگر جس طرح نثری اصناف نے زود رفتاری سے ترقی کی ہے، اس طرح طنز و مزاح کے فن کو ترقی نہیں ملی۔ ہر صنف نے ارتقا کی طرف جست لگائی، مگر طنز و مزاح کا دائرہ سکڑتااور محدود ہوتا رہا۔ خاکے، انشائیے،سفرنامے اور رپورتاژ ہر دور میں لکھے گئے، مگر اس میں مزاح کا عنصر برائے نام رہا۔افسوس تو یہ بھی ہے ظرافت اور طنز و مزاح کے میدان میں پرانے چراغ گل ہونے کے بعد نئی قندیلیں بھی روشن نہیں ہوپارہی ہیں، مشتاق یوسفی اور مجتبی حسین دونوں کے اٹھ جانے کے بعد نثری مزاح کا گوشہ سونا ہوگیا ہے۔ ایسے میں گاہے گاہے باز خواں کے تحت شین مظفر پوری جیسے با کمال ظرافت نگاروں کی نگارشات کا مطالعہ کرنا اور اس کے فنی نکات کو اجاگر کرنا طنز و مزاح کی خشک کھیتی کے لیے بارش کا قطرہ ثابت ہوگا۔ کیونکہ انشائیہ اور طنز و مزاح نگاری کی دنیا میں اس وقت شین مظفر پوری کے ثانی و ہم زاد چند ہی لوگ رہے ہوں گے۔کم از کم ریاست بہار میں تو اس عہد میں اس درجے کا طنز و مزاح اور انشائیہ لکھنے والا کوئی اور نہ تھااور المیہ یہ ہے کہ ان کے انتقال سے ظرافت اور نثری طنز و مزاح کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا تھا، وہ اب بھی باقی ہے۔ اس خلا کو پرکرنے کی کوشش تو دور کی بات ہے، مزاح نگاروں کو ہی نذر طاق نسیاں کیا جارہا ہے۔ مزاح نگار کوادب معاشرے میں وہ درجہ نہیں ملتا جو کسی ناول نگار یا افسانہ نویس کو ملتا ہے۔ مجتبی حسین نے غلط نہیں کہا ہے

’’ہمارے ادب میں طنز و مزاح نگاروں کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ہمارے سماج میں نچلی ذاتوں یا دلتوں کے ساتھ روا رکھاجاتا ہے۔ برسوں سے طنز و مزاح نگاروں کا شمار ادب کے پچھڑے طبقات میں ہوتا آیا ہے۔ ۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں طنز و مزاح کو ہمیشہ دوسرے درجہ کا ادب سمجھا جاتا رہا ہے، جس طرح دعوتوںمیں اچھوت اپنی رکابی، اپنا برتن اور اپنا لوٹا ساتھ لاتے ہیں اسی طرح ہم مزاح نگار بھی برتن بدست ادب میں چلے آتے ہیں۔‘‘

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اردو ادب میں ناول و افسانہ اور شاعری پر تنقیدی مشق کے لیے بہت سے لوگ کیل کانٹے درست کیے بیٹھے ہیں،آنا فانا شاعری اور فکشن پر تنقیدی مضمون لکھ مارتے ہیں، مگر طنز و مزاح کی تعیین قدر کرنے والے ناقد خال خال ملتے ہیں،وزیر آغا، رؤوف پاریکھ،نامی انصاری اور ابو الکلام قاسمی کے علاوہ کسی اہم ناقد نے طنز و مزاح کی طرف نظر بھرکر نہیں دیکھا، مجتبی حسین نے ایک بار انٹرویو دیتے ہوئے صحیح ہی کہا تھا

’’مجھے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی کہ ہمارے یہاں افسانے کے ناقد ہیں، ناول کے ناقد ہیں اور شاعری کے بھی ناقد ہیں مگر مزاح کے ناقد خال خال ہی نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ طنز و مزاح کے زیادہ سے زیادہ ناقد پیدا ہوں تو طنز و مزاح کی گھتیوں کو سلجھانے اور انھیں پرکھنے کا مزید موقع مل جائے گا۔‘‘

 انجم مان پوری کے بعد شین مظفرپوری کا نام تیزی سے مزاحیہ افق پر نمودار ہوا،شین نے انجم کی وفات سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی، مگر دونوں ناقدین کی نظروں کا مرکز نہیں بن سکے۔ بقول پروفیسر اعجاز علی ارشد’’شین مظفرپوری بھی ناقدوں کے ہاتھوں قتل ہوئے‘‘۔فلمی رسائل میں چھپنے والے ان کے پست اور کمتر افسانوں کو دیکھ کر ہمارے نقاد حضرات اتنے برہم اور بد گمان ہوئے کہ انھیں ایک معمولی درجے کاعریانیت پسنداور جنس پرست افسانہ نگار ثابت کرنے کی کوشش کی، مگر ان کی فنی عظمت پر دال، ان کی طنزیہ مزاحیہ تحریروں کا محاکمہ و محاسبہ کرنے کی توفیق کسی اہم ناقد کو نصیب نہیں ہوئی۔ان کے سرمایۂ طنز و مزاح پرشاید اس لیے توجہ نہیں دی گئی کہ انھوں نے معاشرے کے جن لوگوں کی حماقتوں، یا بارسوخ سیاست دانوں کی نااہلی کا پردہ چاک کرکے ادب دوستوں کو خوش طبعی یا ذہنی تفریح کاسامان فراہم کیا، ان کی طبع نازک پر یہ عمل جراحی گراں گزرا۔ جیسا کہ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے بھی اپنے مضمون میں لکھا ہے

’’اس کی طرف ناقدوں کی توجہ شاید اس لیے نہیں گئی کہ وہ ان کی تحریروں میں پیش کردہ واقعات کے چٹخارے کو ہی قابل اعتراض یاقابل توجہ سمجھتے رہے۔‘‘48؎

بہر حال طنز و مزاح کے باب میں شین مظفر پوری کی فنی عظمت کے عناصرو عوامل کی جستجو کرنے کی ضرورت ہے۔ دو ورقی سہ ورقی مضمون لکھ دینے یا شخصی خدمات پر مبنی کتاب میں ایک باب مختص کردینے سے اتنے بڑے مزاح نگار کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔انھوں نے ہمارے مزاحیہ اثاثے میں قابل لحاظ اضافہ کیا ہے، جس کا تنقیدی جائزہ لینے اور اس کی تعیین قدر کی ضرورت ہنوز باقی ہے کہ اس جانب دارانہ عمل سے اردو تنقیدکی حرمت پر حرف آتا ہے۔

حواشی

  1.       اردو ادب میں طنز و مزاح، وزیر آغا، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 1990، ص250
  2.       شین مظفر پوریشخصیت اور فن،المنار پبلی کیشنز رانچی،2002، ص118
  3.       اردو ادب میں طنز و مزاح، ص47-48
  4.       مجتبیٰ حسینفن، شخصیت اور کارنامے، مرتبصفدر امام قادری، مکتبہ صدف پٹنہ، 2018، ص282
  5.       اردو ادب میں طنز و مزاح، ص50
  6.       ایضا، ص51
  7.       ایضا، ص54 
  8.      ایضاً، ص 55
  9.       اردو ادب میں طنز و مزاح، ص56
  10.     آدھی مسکراہٹ، ص8-9
  11.     ایضا، ص10
  12.     ایضا، ص19 
  13.     ایضا،ص30-31
  14.     ایضا،ص41
  15.     ایضا،ص59
  16.     ایضا،ص 251.
  17.     ایضا،ص 65
  18.     ایضا،ص 89
  19.     ایضاً 140
  20.     ایضاً ص117
  21.    قصہ منشی مرحوم کا،ص54
  22.     ایضا،ص127
  23.     ایضا،ص21
  24.     ایضا،ص29 
  25.     ایضا،ص32
  26.     ایضا،ص93 
  27.     ایضا،ص115
  28.     ایضا،ص127 
  29.     ایضا،ص133
  30.     ایضا،ص134 
  31. ایضا،ص144
  32.     ایضا،ص166
  33.    ایضا،ص161
  34.     ایضا،ص184 
  35.     ایضا،ص187
  36.     ایضا،ص206 
  37.     ایضا،ص209
  38.     ایضا،ص216 
  39.     ایضا،ص223
  40.     ایضا،ص232 
  41.     ایضا،ص247
  42.     ایضا،ص272
  43.     شین مظفرپوریشخصیت اور فن، ص119
  44.     ایضا، ص120
  45.     اردو ادب میں طنز و مزاح، ص410
  46.     شین مظفرپوریشخصیت اور فن، ص120
  47.     اردو ادب میں طنز و مزاح، ص359
  48.     صوفیہ شیریں، ترتیب،شین مظفرپوریایک ہمہ جہت شخصیت، ص262

 

Abrar Ahmad

At+ Post: Ijra
Via Raiyam Factory
Distt.: Madhubani - 847237 (Bihar)
Mob.: 8651708079
Email.: abrarahmadijravi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...