24/5/23

ایران میں اجنبی کے تیرہ کینٹوز: ثاقب فریدی


 

تلخیص

ن م راشد کا نام نذر محمد راشد ہے۔ راشد ابتدائی دنوں میں نذر محمد راشد اور راشد وحیدی کے نام سے چھپتے تھے۔ پھر بعد میں ن م راشد نام رکھ لیا۔راشد کی پیدائش یکم اگست 1910میں اکال گڑھ گوجرانوالہ میں ہوئی۔ یوں تو راشد کی نظمیں اور غزلیں مختلف رسائل میں چھپتی رہیں لیکن 1941میں ان کامشہور شعری مجموعہ ’ماورا‘منظرعام پر آیا۔ اس شعری مجموعے نے ادبی دنیاکوچونکادیا۔اس کا سبب یہ تھاکہ ماوراکی نظمیں فکری اور جذباتی سطح پر شعری روایت سے انحراف کی مثال تھیں۔اس میں رومانوی تصورات پر کاری ضرب لگائی گئی۔ ایک ایسا تصورعشق اور انسان پیش کیاگیاجس کے جسم وروح کے مابین ہم آہنگی قائم ہے۔ 1955میں راشد کادوسراشعری مجموعہ ایران میں اجنبی منظرعام پر آیا۔ اس میں راشد کی سیاسی بصیرت کو قدر کی نگاہ سے دیکھاگیا۔ ایران میں اجنبی کے تیرہ کینٹوز پورے مشرق کی سیاسی،سماجی،تہذیبی اور معاشرتی محرومیوں کی امیجری ہے۔ ان میں راشد نے پورے مشرق کی سیاسی صورت حال کانقشہ کھینچاہے۔ایران میں اجنبی کے بعد1969میںراشد کا تیسرا شعری مجموعہ لا=انسان منظرعام پر آیا۔گمان کاممکن راشد کا چوتھا اورآخری شعری مجموعہ ہے۔ آزاد نظم کے ساتھ راشد کی شاعری کانام لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کرگیاہے۔راشد نے آزاد نظم کی ہیئت کاجس قدر چابکدستی کے ساتھ استعمال کیاہے،ان سے قبل کوئی دوسراشاعر نہیں کرسکا۔ آزاد نظم کی ہیئت راشد کے مزاج،شخصیت،خیال کے تخلیقی اظہار کاوسیلہ بن گئی۔ایک زمانے تک راشد کی شاعری کو جنس زدہ، مریضانہ ذہنیت کا حامل،مبہم اورمہمل سمجھا جاتا رہاہے۔اور یہ کہ راشد کی شاعری فارسی زدہ ہے اور اس میں ناقابل تفہیم تراکیب کااستعمال ہواہے۔آج ہم راشد کی شاعری کو مشرق کی بصیرت کاغیر معمولی حوالہ خیال کرتے ہیں۔راشد کے دانشورانہ آہنگ اور طرز اظہار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہمیں آج راشد کے کلام میں کبھی نہ ختم ہونے والے معنوی امکانات نظرآتے ہیں۔

کلیدی الفاظ

جلاوطن، آئینی نظام، فکری انحراف، سیاسی انحراف، داخلی کرب، اتحادی افواج، قصرمدائن، آتش جوالہ، غلامی کی زنجیر، مشرق کی دریوزہ گری، تہذیبی وحدت۔

——————

ایران راشدکی شاعری کاایک اہم حوالہ ہے۔بیسویں صدی کے ایران کی تاریخ وتہذیب اور سیاست کو سمجھے بغیرراشد کی شاعری کوسمجھنا تقریبامحال ہے۔ ایران میں اجنبی کی نظموں کے علاوہ لا=انسان اور گمان کاممکن میں راشد کے قیام ایران کاعکس نظرآتاہے۔ 1944سے 1946تک راشد کا ایران میں قیام رہا۔راشد جس وقت ایران آئے تھے،امریکہ،برطانیہ اور روس کی اتحادی افواج ایران کی سرزمین پر تقریبا ً ڈھائی سال سے قابض تھیں۔ راشد برطانوی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے۔ راشد کی رسمی ذمے داری نشریات اور مطبوعات دیکھنا اور غیر رسمی ذمے داری شام کے بعد برطانوی افسروں کی سیر و تفریح کا سامان آراستہ کرنا تھا۔

  ماورا کی نظمیں ہوں یا پھر ایران میں اجنبی کی نظمیں بیشتر جگہوں پر احتجاج کار ویہ نظر آتا ہے۔ یہ احتجاج داخلی کرب اور روح کی گہرائیوں کے سوز  کے بعد کی پیدا شدہ کیفیت کا اظہار ہے۔ یہ داخلی کرب ایران میں اجنبی کی ابتدائی فصل کے تیرہ کینٹوز میں بھی ہے اور سبا ویراں اور اسرافیل کی موت جیسی نظموںمیں بھی۔یہ صحیح ہے کہ راشد اتحادی افواج کا ایک حصہ تھے۔ ایران میں ان کی حیثیت ایک اجنبی کی تھی لیکن اس کے باوجودشاعری میں ان کی روح مشرقی نظر آتی ہے۔ مظفر علی سید نے راشد کی ایرانی زندگی کی تصویریں کھینچی ہیں اور قیام ایران کے دوران ان کے فکری ارتقا کے متعلق گفتگو کی ہے۔

ایران میں اجنبی کے تیرہ کینٹوز ایران میں دوران جنگ کے تجربات کی مربوط و منظم تصاویر ہیں۔ راشد کی خواہش تھی کہ وہ اس رزمیے کو ناول میں تحریر کریں۔راشد نے ناول کے کئی ابواب تحریر کیے تھے لیکن پھر بعد میں انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ رزمیہ کے  معاملات نظم کے پیرائے میں بہتر طور سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔اس طرح ناول تحریرنہیں ہو سکا۔

 راشد کے تیرہ کینٹوز میںسے من وسلوی،دست ستمگر، کیمیا گر اور تیل کے سود اگر میں خطابت زیادہ اور ڈرامائیت کم ہے۔راشد نے اپنی نظموںمیں خود کلامی کی تکنیک سے بخوبی کام لیاہے۔  ایران میں اجنبی کی تیرہ کینٹوز کے علاوہ راشدکی  دیگر نظموں میں بھی خود کلامی کی تکنیک کثرت کے ساتھ نظر آتی ہے۔ خود کلامی کی اس روش نے راشد کے کلام میں تفہیم کی سطح پر کچھ مشکل بھی پیداکی ہے۔  ڈرامائی کیفیت ابھی راشد کے ان تیرہ کینٹوز کے علاوہ ایران میں اجنبی کی دوسری نظموں میں بھی ہے۔ حرف ناگفتہ، یہ دروازہ کیسے کھلا، زندگی مری سہ نیم بطور خاص قابل غور ہیں۔ ان نظموں میں خود کلامی بھی ہے اور ڈرامائی کیفیت بھی۔

1        من و سلوی من وسلوی ایران میں اجنبی کا پہلا کینٹو ہے۔یہ کینٹو خاصا طویل ہے جو کئی ٹکڑوں میں نظم کیا گیاہے۔اس کینٹو کا ہر ٹکڑا ایک کہانی پر مشتمل ہے۔ راشد کوئی بھی کہانی صاف طور پر بیان نہیں کرتے۔ کہانی کے اہم نقوش ابھارتے ہیں اور پھر کہانی دھندھلی چھوڑ دیتے ہیں۔اس طرح کہانی قاری کی ذہن میں بننی شروع ہوتی ہے اور اسے جھنجھوڑتی ہے۔راشدنے اس کینٹو کے پہلے بند میں قدیم ایرانی تاریخ کا ذکر کیاہے۔ ایران نوشیرواں کا ملک تھا۔اس طرح نظم میں نوشیروان عادل کا ذکر بہت بامعنی ہو جاتاہے۔تصوف اورحکمت وادب بھی ایران کا تہذیبی اور روایتی سرمایہ ٔ حیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راشد نے اس کینٹو کے پہلے ہی بند میں ایران کی تہذیب وتاریخ کاذکر کیاہے۔

اس کینٹو میںراشد فرنگیوں کے تسلط کوتاریخی سیاق میں دیکھتے ہیں۔ہندوستان آنے والاپہلا انگریز راشد کے حافظے میں محفوظ ہے۔1600کے قریب کچھ انگریزکاروباریوں نے ملکہ الیزابیتھ سے ہندوستان میں تجارت کی اجازت طلب کی۔تجارت کے لیے ایک کمپنی کی ضرورت در پیش تھی۔اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کاوجود عمل میں آیا۔پھر پوری تیاری کے ساتھ1608 میں ہیکٹر نامی بحری جہاز ہندوستان روانہ کیاگیا۔ اس جہاز کا کپتان سر ولیم ہاکنس تھا۔یہ انگریزی جہاز سب سے پہلے شہر سورت کے بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا۔ اس زمانے میں ’سورت‘ ہندوستان کا تجارتی مرکز تھا۔ سر ولیم ہاکنس تجارت کی غرض ہی سے ہندوستان آیا تھا۔اس نے ایک انگریزی سفیر کی حیثیت سے مغل بادشاہ جہانگیرکے دربار میں حاضری دی۔جہانگیرنے ہندوستانی تہذیب و روایت کے مطابق اس انگریزی سفیر کا استقبال کیا۔ اسے انعام و اکرام سے بھی نوازا۔جہانگیر کو ہرگز اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ انگریزی نسل ہندوستان پر قابض ہو جائے گی۔سر تھامس رو انگلینڈ میں اپنی سیاسی پالیسیوں کی بنیاد پر بہت مشہور ومعروف تھا۔ اس نے آتے ہی پرتگالیوں کی بنیاد کھوکھلی کرنی شروع کی۔سر ولیم ہاکنس کے ساتھ مل کر جہانگیر سے ملاقات کی اور بادشاہ کو اس بات کا یقین دلایا کہ انگریز پرتگالیوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ انگریز ہندوستانیو ں کو نہ صر ف تجارت میں زیادہ نفع دلا سکتے ہیں بلکہ ہندوستانیوں کے تحفظ میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔ جہانگیر کو یہ بات پسند آئی اور اس نے سر تھامس رو کو مخصوص تجارتی اختیارات دے دیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو جیسے ہی یہ اختیارات ملے اس نے ملک کے مختلف حصوں میں تجارتی کارخانے تعمیر کرنے شروع کردیے۔ایک کے بعد ایک احمدآباد،آگرہ اور بنگال کو تجارتی کارخانوں کے لیے منتخب کیا گیا۔ رفتہ رفتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار پورے ملک میں قابض ہوتا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی پرتگالیوں کے تجارتی اقتدار کو ختم کر کے پورے ہندوستان پر قابض ہو گئی۔اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے ہندوستان کو اپنا غلام بنا لیا۔راشد کے اس کینٹو میں ہندوستان کی غلامی کا شدیداحساس ہے۔ایران کی سرزمین کو ہندوستان کی غلامی کے سیاق میں دیکھنے کا عمل پورے مشرق کی سیاسی شکست کا علامیہ بن گیاہے     ؎

یہ اس کا گناہ ہے/جوتیرے وطن کی/زمین گل پوش کو/ہم اپنے سیاہ قدموں سے روندتے ہیں

اس کا گناہ یعنی اس پہلے انگریز کا گناہ جو سب سے پہلے تجارت کے ارادے سے ہندوستان آیا تھا۔اس پہلے انگریز کا گناہ اس وجہ سے کہ اگر وہ ہندوستان نہ آتا تو فرنگیوں کو مشرق کے سینے میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع بھی نہ ملتا۔نظم کے اس ٹکڑ ے میں سیاہ قدم مشرق کی بد اعمالیوں کااستعارہ ہے۔ اگر یہ سیاہ قدم نہ ہوتے تو مشرق کی سرزمین بھی غلامی کی سیاہی سے داغدار نہ ہوتی۔مشرق کے قدموں میں جوسیاہی نمودار ہوئی ہے،وہ اس کی تن آسانیوں،قناعت پسندی،تقدیر پر انحصار جمود کی پیروی کا نتیجہ ہے۔یہ سیاہی صرف قدموں میں موجود نہیں ہے بلکہ مشرقی انسان کا پورا وجود اس سیاہی میں روپوش ہو چکاہے۔یہی وجہ ہے کہ آگے بند میں انگریزی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن جانے کا احساس ابھر آیاہے۔گھر کے جوٹھن چاٹنا چھپکلی کی تقدیر میں شامل ہے۔ اس رعایت سے مشرقی انسان کا انگریزی تہذیب کی چھپکلی بن جانا بہت بامعنی ہے۔ انگریزی تہذیب کی چھپکلی بن جانے کا مطلب مغربی تہذیب وروایت میں ڈھلنااور اسے بصد شوق قبول کرناہے۔اس زمانے میں ایران پوری طرح مغربی تہذیب کی گرفت میں آچکاتھا۔راشد نے ایران کی اسی زندگی کوچھپکلی سے تعبیر کیاہے۔راشد انگریزی کلچر سے بیزار نظرآتے ہیں۔ کینٹو کی داخلی سطح میں مشرقی تہذیب کے زوال کااحساس شدت کے ساتھ نمایاں ہواہے۔ کینٹوتحریر کرنے کے درمیان متکلم کا ذہن کبھی ایران کی طرف منتقل ہوتاہے اور کبھی ہندوستان کی غلامی کی طرف متوجہ ہو جاتاہے۔راوی کبھی پورے مشرق کو ایک مشترکہ تہذیب خیال کرتاہے۔اس کینٹو میں کئی موقعوں پر ایشیا کا لفظ آیاہے۔ایشیا کا لفظ پورے مشرق کو ایک تہذیبی دھارے میں دیکھنے کا عمل ہے۔راشد نے مشرقی انسان کی زندگی کی جس طرح امیجری کی ہے اس میں احساس محرومی اور رسوائی بہت نمایاں ہے     ؎

وہ راہزن جو یہ سوچتاہے کہ ایشیاہے کوئی عقیم وامیر بیوہ/جواپنی دولت کی بے پناہی سے مبتلااک فشار میں ہے/اور اس کا آغوش آرزو مند وا مرے انتظار میں ہے/اور ایشیائی/ قدیم خواجہ سراؤں کی اک نژاد کاہل/اجل کی راہوں پہ تیز گامی سے جارہے ہیں۔

راشد نے ایشیا کو ایک ایسی بانجھ اور امیر بیوہ کہاہے،جسے اپنی بے پناہ دولت کا متولی درکار ہے۔ عقیم وامیر بیوہ مشرق کے سیاسی بانجھ پن کاعلامیہ ہے۔مشرق میں اگر یہ سیاسی بانجھ پن نہ ہوتاتو کوئی خارجی غاصب وظالم اس کی سیاسی باگ ڈور پر اپنی گرفت مستحکم نہیں کر پاتا۔ جس وقت انگریز ہندوستان پر قابض ہورہے تھے، اس دوران خواجہ سراؤں کے کردار غیر معروف نہیں تھے۔ راشد نے مشرقی انسانوں کو قدیم خواجہ سراؤں کے ایک نژاد کاہل سے مخاطب کیاہے۔ایشیائی خواجہ سرا کے ساتھ نژاد کاہل کی صفت اس بات کا اشاریہ ہے کہ مشرقی انسان میںزنانہ پن یعنی بزدلی اور کم ہمتی ایک فطری عمل ہے۔ راشدان مشرقی خواجہ سراؤں کے درمیان ہندوستانیوں کو ایک مثبت زندگی کا استعارہ خیال کرتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستانیوں کے سینے میں احساس غلامی کے خلاف سلگنے والی آتش جوالہ کا ذکر کیاہے۔

راشد نے فرنگیوں کے سامنے مشرق کی دریوزگری اوردست طلب کی درازی کا شکوہ ضرور کیاہے لیکن انھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ یہ دست ِسائل ایک روز اپنی آزادی کا سوال بھی کر سکتے ہیں۔ محنت ومشقت کے باوجودانسان کو پارۂ نان کی آرزو بہت دنوں تک دریوزہ گری کے دام میں گرفتار نہیں رہنے دیتی۔راشد نے مشرقی دریوزہ گروں کے سیاق میںمشرقی سینے میں مدھم چنگاری کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔راشد نظم کے آخرمیں مشرق کے تمام انسانوں کو ایک تہذیبی وحدت خیال کرتے ہیں      ؎

تو سوچتی ہے/یہ سنگدل،اپنی بزدلی سے/فرنگیوںکی محبت ناروا کی زنجیرمیں بندھے ہیں/انہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا نا سور بن رہا ہے/محبت ناروا نہیں ہے،/بس ایک زنجیر ہے،/ایک ہی آہنی کمند عظیم/پھیلی ہوئی ہے،/مشرق کے اک کنارے سے دوسرے کنارے تک،/مرے وطن سے ترے وطن تک،/بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں/ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں!

2      میزبان میزبان ایران میں اجنبی کا دوسراکینٹو ہے۔ اس کینٹو میںراشد نے ایرانی معاشرے کی اخلاقی کمزوریوں کی کہانی بیان کی ہے۔کہانی کا اصل محور جنس ہے۔جنسی میلانات انسان کی سرشت میں  شامل ہیں۔ راشد کے اس کینٹو میں جنس کے قدموں کی چاپ ظاہری سطح پر سنائی نہیں دیتی لیکن کینٹو کے داخل میں جنس کے قدموں کی چاپ گونج رہی ہے۔

 اس کینٹو میں جنس ایرانی معاشرے کی تہذیبی شکست کا علامیہ ہے۔پوری نظم معاشرے میں پیدا شدہ خرابیوں کے ارد گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ راشد کی نظموں میں شام کاوقت مختلف موقعوں پر نظر آتاہے۔ایرانی معاشرے کی شام اور اس کے بعد آنے والی شب کو راشد نے بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کینٹو میں بھی کہانی کا بیشتر حصہ شام کے بعد آنے والی شب کی عیش کوشی کا بیانیہ ہے۔کہانی میں کئی کردار ہیں۔ان میں نوروز اور راوی کا کردار اس طور سے اہم ہے کہ پوری کہانی ان دونوں کی زبانی بیان کی گئی ہے۔نوروز کے ساتھ اس کی دو بیویوں کاذکر بھی آیاہے۔ایک بیوی کا نام زلیخاہے جو محض اٹھارہ سال کی ہے۔پوری کہانی میں زلیخا ہی توجہ کا مرکز ہے۔زلیخا کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ وہ نوروز کی دوسری بیوی سے کہیں زیادہ خوبصورت اور نوجوان ہے۔  نوروز اپنی دوسری بیوی کو’ اسفند کی شمع رخشندہ گوہر ملک‘ سے مخاطب کرتاہے۔اپنی بیوی کو اِسفند کی شمع رخشندہ سے مخاطب کرنا بھی بہت بامعنی ہے۔ایرانی اِسپند کو ایک مقدس جڑی بوٹی تصور کرتے تھے۔ اِسفند کو جلانا زرتشت کی روایت تھی۔ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ اِسفند کی روشنی برائیوں اور لعنتوں سے محفوظ رہنے کا مؤثر وسیلہ ہے۔اِسفند کی کرشمائی طاقت ہر شیطانی طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہے۔اس لحاظ سے اپنی بیوی کے لیے اِسفند کی شمع رخشندہ کی ترکیب معنی آفرینی کی حامل ہو گئی ہے۔

سوال ہے کہ اس قدر حسین اور جوان لڑکیاں پچپن سالہ نوروز کے دام نکاح میں کیوں کر آسکتیں ہیں۔ جواب یہ ہے کہ بے پناہ دولت کی چمک ان خوبصورت اور جوان لڑکیوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ یہ لڑکیاں اس دولت کی چمک میں نوروز کی ڈھلتی عمر کی سیاہی نہیں دیکھ پاتیں۔اس زمانے کا پورا ایرانی معاشرہ دولت کی اسی چمک میں سر گرداں تھا۔راشد نے ایرانی معاشرے کی اس روش کو کینٹو میں زلیخا اور دوسری بیوی گوہر ملک کے کر دار میں پیش کیاہے۔دولت حاصل ہو جانے کے بعداسے حاصل کرنے کی خواہش اور امنگ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ نوروز کی عمر پچپن کی دہلیز پار کر چکی تھی۔کینٹو کا یہ مصرع کہ’سواد کتابی کی لذات سے بے خبر ہوں‘اس بات کا اشاریہ ہے کہ نوروزاس قوت سے عاری تھا جو  فطرت کے عطا کیے ہوئے جذبے کی تسکین کا باعث بنے۔وہ بتاتا ہے کہ اس ایک عیب کے علاوہ اس کے جسم میں کوئی اور عیب نہیں ہے۔اس کے سر کے بال میں ایک بال بھی ایسا نہیں ہے جسے دیکھ کر درازی عمر کا شائبہ ہوسکے۔ جب نوروز کے پاس جسم کی فطری ضرورتوں کی تسکین کی قوت مفقود تھی تو پھر کوئی اور چیز اس عیب کا ازالہ نہیں کر سکتی تھی۔نوروز اپنی تمام تر دولت کے باوجود اپنی بیویوں کی فطری ضرورتوں کی تسکین پر قادر نہ تھا، اس کی بیویاں بھی فطرت کے ودیعت کیے ہوئے اس جذبے کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ نوروز کی بیویاں ایک فطری وجدان میں گرفتارتھیںاور اس کارسیاہ کی طرف مائل ہوئیں۔نوروز ایرانی سال کا پہلا دن ہے۔اس سیا ق میں جشن کاماحول کینٹو کااہم حصہ بن گیاہے۔راوی اور اس کے احباب زلیخا کے لیے ایک تحفہ تھے۔نوروز نے راوی کو زلیخا کے گھر مدعو کرتے وقت یہ بات کہی تھی کہ تمہاری آمد ہم دونوں کے لیے باعث طمانیت قلب ہوگی۔راوی اور اس کے غریب الوطن احباب کے لیے یہ بات اسی وجہ سے محبت کی پہلی کرن تھی کہ انھیں اس غریب الوطنی میں جنسی تسکین کا سامان اب تک میسر نہ ہوا تھا۔اس نویدِ نوروز نے ان کے دل میں امید کی ایک کرن پیدا کی تھی۔ایک ایسی کرن جس کی چمک میں یاد وطن بھی روپوش ہو جاتی ہے۔

دونوں بیویوں کو ایک دوسرے کی خبر نہ ہونا بھی معاشرے کی ایک اہم خرابی ہے۔ راشد نے ایرانی معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام خرابیوں کو ان کی تمام جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے۔یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی کے یہ تمام رویے عیش کوشی اور فحاشی کی ترویج کا مؤثر ذریعہ تھے۔راشد کے اس کینٹو میں راوی اور اس کے احباب کی نفسیاتی کشمکش ایک اہم موڑ ہے۔ایک طرف تو نوروز کی دھمکی نے ان کے شعور پر اس قدر گہرا اثر ڈالا تھا کہ، انھیں آتشیں جام سے تیر وسناں سر نکالتے اور جھانکتے نظر آتے تھے۔ ان کے ذہن و دل پرہر لمحہ یہ خوف طاری تھا کہ کہیں ان کی فاسد نگاہ نوروز کی جواں سال حسین بیوی زلیخا کی طرف نہ اٹھ جائے اور نوروز انھیں قتل کر دے۔دوسری طرف ان کی ہوس انھیں زلیخا کی طرف مائل کر رہی تھی۔بہر حال یہ تمام لوگ رنگ ونور و سرور کی محفل سے محفوظ نکل آئے لیکن ان کاایک ساتھی وہیں تمام شب زلیخا کے ساتھ قیام پذیر ہوا۔

 نو روز ایک طرف تو انھیں زلیخا کے قریب جانے سے منع کرتاہے اور دوسری طرف وہ خود ہی راوی اور اس کے باقی احباب کو اس مرد میدان کی شب باشی کے دلفریب قصے سناتاہے۔اس سے بڑھ کر کسی معاشرے کی اور کیا خرابی ہو سکتی ہے کہ شوہر اپنے مہمانوں سے یہ سوال کر ے کہ آپ کیوں منزل کی آسودگی چھوڑ کر چلے آئے۔نو روز وہ میزبان تھا جس نے میزبانی میں اپنی بیوی زلیخا کو پیش کیاتھا۔کینٹو کا ماحاصل یہی ٹکڑا ہے جس میں کینٹو رقم کر نے کا مقصد پوشیدہ ہے۔زندگی کے حوالے سے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ خوف سے سہمے ہوئے دل کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جس نے خوف کا سمندر عبور کر لیا منزل اس کے ہاتھ آگئی۔

3      نارسائی راشد نے اس کینٹو میںپورے مشرق کے رگ و پے میں تہہ بہ تہہ جمی ہوئی نارسائی کو گرفت میں لیاہے۔ نارسائی کے سیاق میں کینٹو کی فضا بھی زمستاں کی برفباری سے جمی ہوئی نظرآتی ہے۔ سردی میں انسان کا جسم جامد ہو جاتاہے۔سردی کی کثرت جسم کی نقل و حرکت پر بھی بہت اثر انداز ہوتی ہے۔یہاں تک کہ سردی کی وجہ سے انسان کے ہاتھ پاؤں بھی شل ہو جاتے ہیں۔انسان سردی میں اپنے ہاتھ پاؤں کے ساتھ پورا جسم سمیٹ کر بیٹھتاہے۔گرم لحا ف میں جا کر بھی انسان سمٹ کر بیٹھتا ہے اور اس بات کا پورا خیال رکھتا ہے کہ کہیں کسی گوشے سے سرد ہوا لحاف کی گرمی کو کم نہ کر دے۔ کچھ دیر لحاف کے اندر بھی انسان جسم کی سمٹی ہوئی صورت حال سے دو چار رہتاہے۔گرمی کے بالمقابل سردی جمود کی زیادہ ہیبت ناک صورت حال پیش کرتی ہے۔راشد نے زمستاں کے جمود کا رشتہ مشرق کے رگ و پے میں بہتی ہوئی جمودی سر د ہوا سے قائم کیاہے۔کینٹو میں جمود کی فضاملاحظہ کریں       ؎

میں مہمان خانے کے سالون میں/ایک صوفے میں چپ چاپ دبکا ہواتھا/زمستاں کے دن تھے،/ لگاتار ہوتی رہی تھی سر شام سے برفباری/دریچے کے باہرسپیدے کے انبارسے لگ گئے تھے/مگر برف کا رقص سیمیں تھا جاری/خیاباں کے دورویہ سرو وصنوبر کی شاخوں پہ/یخ کے گلولے،پرندے سے بن کر لٹکنے لگے تھے/میں اک گرم خانے کے پہلو میں صوفے پہ تنہا پڑا سوچتاتھا/ بخاری میں افسردہ ہوتے ہوئے رقص کو گھورتاتھا/اجازت ہے میں بھی/ذرا سینک لوں ہاتھ اپنے؟

کینٹو کے ان مصرعوں میں موسم زمستاںکی جانکاہ فضا کا اندازہ ہوتاہے۔ متکلم کا صوفے میں دبکا ہوا ہونا، سر شام سے برفباری اور اس کی وجہ سے زمین پر سپیدے کے انبار کا لگنا،برفباری کا رقص سیمیں، مستقل برفباری کی وجہ سے سرو صنوبر پر برف کے پرندہ نماگولے جمنا،بخاری کی چنگاریوں کا سردی کی وجہ سے افسردہ ہونا اور ہاتھ سینکنے کے لیے اجازت طلب کر نا جسم کے تمام خلیوں میں سہرن پیدا کر دینے والی خنکی کی امیجری ہے۔قاری اس پوری زمستانی فضا کو داخلی سطح پر محسوس کرتا ہے۔ کینٹواس طرح شروع ہوتاہے     ؎

درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے /کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں،/مگر ان میں ہر شاخ بزدل ہے/یا مبتلاخود فریبی میں شاید/کہ ان کرم خوردہ جڑوں سے/وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے!

کینٹو کے ان مصرعوں میں مشرق کی روحانیت،مذہبی قناعت پسندی،ماضی پرستی کی روش اورقدیم تہذیبی روایات کے تئیں احساس تفاخر پر راشد نے کاری ضرب لگائی ہے۔درخت کا لفظ نہ صرف ایرانی معاشرے اور تہذیب کا بلکہ پوری مشرقی تہذیب و تاریخ کا استعارہ ہے۔اگر کسی درخت کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں تو پھر ان جڑوں کے دم پر درخت بہت دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا۔راشد نے مشرق کے روحانی فلسفے،مذہبی قناعت پسندی اور گوشہ نشینی کو مشرق کی تہذیبی،سیاسی،معاشی اور معاشرتی شکست کا ذمے دار خیال کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ماضی کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ماضی کی قدیم تہذیبی روایت کے تئیں احساس تفاخر کا شکار ہونا چاہتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ زندگی کے ان تمام رویوں نے مشرق کے خون میں جمود پیدا کیاہے۔ راشد مشرقی انسان کو دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک خانے میں وہ لوگ ہیں جن کی طبیعت میں بزدلی اور خوف وافر مقدار میں ہے۔یہ لوگ روحانیت کے سائے تلے پرورش پائی ہوئی قناعت پسندی اور گوشہ نشینی کو قوم وملت کی فلاح کی رکاوٹ تو خیال کرتے ہیں، لیکن وہ لوگ بزدل ہیں۔ ان میں اتنی ہمت و حوصلہ مندی نہیں ہے کہ مشرقی روحانیت اور تہذیبی وتاریخی جڑوں کو کھوکھلا شمار کر سکیں۔اپنی ماضی پرستی کے سبب مشرق کے حال نے جو ہزیمتیں اٹھائی ہیں،ان ناکامیوں سے پردہ اٹھا سکیں۔ دوسرے خانے میں وہ لوگ ہیں جو خود فریبی میں گرفتارہیں۔ان لوگوں پر ابھی یہ بات منکشف نہیں ہوئی کہ کھوکھلی اور کرم خوردہ جڑیں بہت دیر تک درخت کو قائم نہیں رہنے دیتیں۔ مشرق اپنی تہذیبی،سیاسی،معاشی او ر معاشرتی شکست وریخت سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود انھیں اس بات کی امیدہے کہ ان فرسودہ روایتوں میں ابھی کوئی نئی تازگی پیدا ہوگی۔

مشرق کے اس رویے کو راشد نے ایک واقعے کی شکل میں بیان کیاہے۔کینٹو کا واقعہ یہ ہے کہ متکلم موسم زمستاں میںبرفباری کی شام کسی مہمان خانے کے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔اسے سردی کی شدت میں جنسی لطف اندوزی کا خیال آتا ہے۔ راوی کے جنسی میلان سے اندازہ ہوتاہے کہ کہانی جنس کی کسی منزل پہ ٹھہرے گی۔لیکن متکلم کہانی کو کہیں اور لے جاتاہے۔مہمان خانے کے باہر اسے ایک اصفہانی دوشیزہ رقص کنا ں نظر آتی ہے۔

متکلم بخاری کی چنگاریوں میں اپنے جسم کی سردی جلا رہا تھا۔وہ ارمنی لڑکی بھی آتی ہے اور بخاری میں ہاتھ گرم کرنے کی اجازت طلب کرتی ہے۔ارمنی لڑکی کی زبان فارسی تھی اور متکلم کو اس کے تکلم کی شیرینی اصفہانی معلوم ہوئی۔اس ارمنی لڑکی نے متکلم سے شطرنج میں شوق کے متعلق سوال کیا۔متکلم اندر مہمان خانے سے شطرنج اٹھا لایا۔وہ دونوں ساری رات شطرنج کی بازیوں میں مصروف رہے۔یہاں تک کہ صبح صادق نمودار ہوئی اور مؤذن کی اذان کی آواز سنسان فضا میں گونجنے لگی۔راشد نے نظم میں مؤذن کی اذان کا بہت تخلیقی استعمال کیاہے     ؎

مؤذن کی آواز اس شہر میں زیر لب ہو چکی ہے/سحر پھر بھی ہونے لگی تھی/وہ دروازے جو سالہا سال سے بند تھے /آج وا ہو گئے تھے!

راشد نے ان تخلیقی مصرعوں میں ایران کے ماضی اور حال کی تصویریں فنی کاریگری کے ساتھ پیش کی ہیں۔ مؤذن کی آواز کا زیر لب ہو جانا مذہبی تعلیمات و روایات کا فراموش کر دیا جانا ہے۔

ایک ارمنی لڑکی سے اس وقت جب کہ صبح پوری طرح بیدار نہیں ہوئی اور رات کا اندھیرا اپنی سیاہی کے ساتھ موجود ہے،یہ کہنا کہ آؤ ہم ایک ہو جائیں،جنسی میلان کی تسکین کا اشاریہ ہے۔متکلم کاایک ہوجانے کا فقرہ ذو معنی محسوس ہوتاہے۔ ایک ہوجانے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمام ایشیائی افراد کوسیاسی سطح پر ایک ہوجانا چاہیے تاکہ سب مل کرپورے مشرق سے فرنگی تسلط ختم کر سکیں۔دوسرامطلب اپنے داخل میں ابلتے ہوئے جنسی میلان کے لیے تسکین کی راہ اختیار کرنا۔متن کی ظاہری سطح پر تو اس جنسی میلان کی تسکین کا اثر نمایاں نہیں ہے لیکن اس معنی کی ایک داخلی لہر قاری کے ذہن میں تیرتی ہوئی ضرور محسوس ہوتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ راشد نے متکلم کے ذاتی اور انفرادی وجدان کو مشرق کے جذبے اور احساس کاایک حوالہ بنادیاہے۔نظم آگے بڑھتی ہے اور متکلم صبحدم اس ارمنی لڑکی کو اس کی منزل پہ چھو ڑ کر آتا ہے۔ راستے میں متکلم اور ارمنی لڑکی کے درمیان مکالمہ سیاسی اور تہذیبی بیداری کا علامیہ ہے۔

4      کیمیاگر اس کینٹو میں راشد نے رضا شاہ کبیر کی سیاسی پالیسی،فکر اور رویوں پر گہرا طنز کیا ہے۔ رضا شاہ کبیر نے1925میں پہلوی حکومت کی بنیاد رکھی۔رضا شاہ کبیر فارسی کوساک کے بریگیڈیر جنرل تھے۔رضا شاہ کبیر احمد شاہ قجر کی معزولی کے بعد ایران کے نئے بادشاہ مقرر کیے گئے۔ 1935میںغیر ملکی نمائندگان کو اس بات کی ہدایت کی کہ اب ریاست فارس کو ایران کے نام سے مخاطب کیا جائے۔ رضا شاہ کبیر نے بڑے پیمانے پر ایران میں تعمیری کام شروع کیے۔رضاشاہ کو غیر ملکی تکنیکی ماہرین کی ضرورت در پیش تھی، جو اس کے تعمیری منصوبوں کی ترقیات میں اہم رول ادا کر سکیں۔

 دوسری جنگ عظیم کے وقت برطانیہ اور جرمنی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ رضا شاہ کبیر کو بھی اس دشمنی کا نقصان اٹھانا پڑا۔رضا شاہ کبیر نے ایران کو غیر جانبدار فریق قرار دیا۔برطانیہ اور جرمنی دونوں کو اس غیر جانبدار رویے سے کوئی شکایت نہ تھی،لیکن برطانیہ کا خیال تھا کہ جنوب مغربی ایران میں موجود جرمن باشندے جرمنی کے جاسوس ہیں برطانوی تیل کی سہولیات کی تخریب کاری کے لیے مسلط ہیں۔حکومت برطانیہ نے ایران سے یہ مطالبہ کیاکہ وہ ایران میں موجود جرمن انجینئراور تکنیکی ماہرین کوایران سے باہر کا راستہ دکھائے۔رضا شاہ کبیر نے حکومت برطانیہ کی یہ درخواست قبول نہیں کی اور حکومت برطانیہ کو یہ جواب دیا کہ اس عمل سے ایران کے ترقیاتی منصوبوں پر گہرا اثر پڑے گا۔ 25اگست1941 کو اچانک سویت یونین اور انگریزوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔رضا شاہ کبیر نے ایک ہفتے سے بھی کم کی مدت میںہتھیار ڈال دیا۔ اس اچانک حملے کا مقصد ایران میں موجود برطانوی تیل کمپنی،یو ایس ایس آر کی سپلائی لائن (فارسی کوریڈور) اور تیل کے مختلف شعبوں کا تحفظ تھا۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت برطانیہ اور سویت یونین ایران میں جرمنوں کے اثر و رسوخ بھی ختم کرنا چاہتی تھی۔ اس حملے کے بعد رضا شاہ کبیرنے حکومت سے دست برداری اختیار کی اور اس کی جگہ اس کا اکیس سالہ بیٹا محمد رضا شاہ پہلوی ایران کا آخری بادشاہ ہوا۔

رضا شاہ کبیر ایران کی تعمیری ترقیات کی طرف خاطرخواہ متوجہ ہوا۔اس نے سلطنت ایران کوپیرس کا نقش ثانی بنانے کا خواب دیکھا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اس نے فرانس،اٹلی،جرمنی اور دیگر یوریوپین ممالک سے انجینئرز اور تکنیکی ماہرین بلائے تھے۔ راشد نے رضا شاہ کبیرکی اس تعمیری پیش قدمی سے متاثر ہو کر اسے داریوش اور ایران کے عظیم بادشاہ سائرس کے جانشین سے مخاطب کیاہے     ؎

رضا شاہ!/اے دار یوش اور سیروس کے جانشیں/یہ قلمرو،/تجھے جس کی تزئین کی لو لگی تھی/جسے تو خدا کی اماں میں بھی دینا گوارا نہ کرتا،

سائرس اور دار یوش نے بھی ایران کی تعمیری ترقیات کی طرف خاطر خواہ توجہ کی تھی۔پہلویوں نے خود بھی اپنی سلطنت کا رشتہ ایران کی قدیم بادشاہت سے قائم کیا تھا۔راشد کے ان مصرعوں سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ رضا شاہ کبیر کو ایران کی تعمیری ترقی کا کس درجہ اشتیاق تھا۔کینٹو میں اتحادی افواج کے سرزمین ایران پر قابض ہوجانے کا احساس شدت کے ساتھ نمایاں ہواہے     ؎

یہی شہر یور کے الم زا حوادث کے بعد /آج قدموں میں تیرے پڑی ہے،/یہ بے جان لاشہ/ جسے تین خونخوار کرگس/ نئی اور بڑھتی ہوئی آز سے نوچتے جارہے ہیں!

راشد بذات خود حکومت برطانیہ کے ایک ادنی سپاہی کی حیثیت سے ایران میں داخل ہوئے تھے لیکن ان کے داخل میں دھڑکنے والا دل،جذبہ اور احساس مشرق کی تہذیبی فضا میں سانس لے رہا تھا۔ کینٹو کی ابتدا ہی اس مشرقی سپاہی کے داخل میں ابلنے والے جذبے اور احساس سے ہوتی ہے۔ البرز شمالی ایران کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو آزربائجان کی سرحد سے بحر کیسپین کے مغربی اور پورے جنوبی ساحل کے ساتھ پھیلا ہوا ہے اور بالآخر شما ل مشرق میں چلاجاتاہے اور خراسان کے شمالی حصوں میں الاداغ پہاڑوں میں ضم ہو جاتاہے۔ البرز ایران کے شہر تہران سے صاف نظر آتاہے۔کینٹو میں البرز رضا شاہ کبیر کی فکری بلندیوں کا استعارہ ہے۔رضا شاہ کبیر کے بت کا متکلم کو نہ دیکھ پانا اپنی فکر کی بلندیوں کی چمک میں کہیں گم ہوجانے کا اشاریہ ہے۔رضا شاہ کبیر کی سیاسی پالیسیوں نے نہ صرف ایران کو نقصان پہنچایا بلکہ ایران کی عوام کو بھی نظر انداز کیا۔راشد کی پوری نظم رضا شاہ کبیر کی بلند خیالی پر ایک گہر اطنز ہے۔ رضا شاہ کبیر کی وجہ سے ایران کو سیاسی ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا۔شروع سے آخر تک کینٹو میں سیاسی شکست کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔راشد نے کینٹو میں رضا شاہ کبیر کی کوتاہ فکری کو فنی ہنرمندی سے اجاگر کیا ہے     ؎

مگر وہ تری حد سے گزری ہو ئی رازداری/کہ جس نے تجھے/اپنے افکار کے قید خانے میں/ محصور سا کر دیاتھا،/وہ زنداں جہاں گھوم پھر کر نگاہیں/فقط اپنا چہر ہ دکھاتی تھی تجھ کو /جہاں ہر عقیدے کو تو/ اپنے الہام کے شیشۂ کور میں دیکھتا تھا،/جہاں ایک چھوٹا سا روزن بھی ایسا نہ تھا،/جس میں ملت کے افکار کی اک کر ن کا گزر ہو!/اسی کا نتیجہ کہ اک روزکہنے کو باتیں بہت تھیں/مگر سننے والے کہیں بھی نہ تھے،/اور تھے بھی تو کرہو گئے تھے!

کینٹو میں راشد نے ایک آزاد بادشاہ کی مطلق العنانی کی امیجری کی ہے۔رضاشاہ کبیر نے جس طرح ایران کی عوام کو نظراندازکیا تھا،اس کی تصویر کشی کی ہے۔راشد کی بنائی ہوئی اس تصویر سے رضا شاہ کبیر اور عوام ایران کے مابین تلخ رشتوں کا اظہار ہوتاہے۔اس تصویر سے رضا شاہ کبیر کے مزاج اور رویوں کا پتہ چلتاہے۔خودبینی بادشاہوں کا کوئی نیا وصف نہیں ہے،بلکہ قدیم زمانے سے بادشاہ بھی خود بینی کا شکار ہوئے ہیں۔رضا شاہ کبیر کا عوام کے عقائد کو اپنے الہام کے شیشۂ کور سے دیکھنا اس بات کی ترجمانی ہے کہ اس نے ایران کی عوام کے مذہبی جذبے کا مطلق خیال نہ کیا۔

5      ہمہ اوست ہمہ اوست ’ایران میں اجنبی ‘میں شامل پانچواں کینٹو ہے۔اس کینٹو میں راشد نے سوویت یونین کی آمرانہ اور خود مختار حکومت پر گہرا طنز کیاہے۔سویت یونین بھی اتحادی افواج کا ایک اہم فریق تھا۔رضاشاہ کبیر کی معزولی میں سویت یونین نے اہم رول ادا کیا۔سر زمین ایران پر روسیوں نے گہرا اثر ڈالا تھا۔جوزف اسٹالین کی سیاسی آمریت کو سمجھے بغیر اس کینٹو کی تفہیم نہیں ہو سکتی۔راشد کا فقرہ ’ہمہ اوست ‘ جوزف اسٹالین کی سیاسی آمریت اور خود مختاری کا علامیہ ہے۔ کینٹو کے ابتدائی مصرعوں سے اسٹالین کے آمرانہ رویوں کا اظہار ہوتاہے      ؎

خیابان سعدی میں/روسی کتابوں کی دکان پر ہم کھڑے تھے/مجھے روس کی چیدہ صنعت گروں کے/نئے کارناموں کی اک عمر سے تشنگی تھی!/مجھے روسیوں کے ’’سیاسی ہمہ اوست‘‘سے کوئی رغبت نہیں ہے/مگر ذرے ذرے میں /انساں کے جوہر کی تابندگی دیکھنے کی تمنا ہمیشہ رہی ہے!

کینٹو کے ان مصرعوں سے ہی اندازہ ہو جاتاہے کہ کینٹو کا رخ سویت یونین کی سیاسی ہمہ اوست کی طرف ہے۔’ہمہ اوست‘ کا فقرہ نظریہ وحدت الوجود کا اشاریہ ہے۔اس فقرے کو دیکھ کر ہمیشہ ذہن خدا کی ذات کی مرکزیت کی طرف منتقل ہو جاتاہے۔ راشد نے وجود واحد کی اسی مرکزیت سے سیاسی وجود واحد کی مرکزیت مستعار لی ہے۔اسٹالین نے جس طرح روس کی سوشل کمیونسٹ پارٹی پر مکمل قدرت حاصل کی،وہ نہ صرف روس کی تاریخ کا ایک بڑا المیہ تھا بلکہ اس آمرانہ رویے نے پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔دھیرے دھیرے پوری کمیونسٹ پارٹی اور سویت یونین کی کابینہ اسٹالین کے قبضۂ قدرت میںآگئی۔  1917کے روسی انقلاب میں لینن کا ساتھ دینے والے کمیونسٹوں کو جوزف اسٹالین نے یکے بعد دیگرے ختم کر دیا۔ان تمام باتوں کی روشنی میں راشد کے فقرے ’سیاسی ہمہ اوست ‘کی تعبیر وتفہیم کی جائے تو اس کینٹو کوبخوبی سمجھا جا سکتاہے۔

راشد نے ایک طرف تو سویت یونین کے اشتراکی نظریے پر سخت تنقید کی وہیں انہوں نے روسی آرٹ اور صنعت گری کوتحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔منتخب روسی آرٹسٹوں کے نئے کارناموں کے تئیں تشنگی کا اظہار اس بات کی ترجمانی ہے کہ راشد کو خود بھی فنون لطیفہ میں خاصی دلچسپی تھی۔اس وقت کے نئے روسی آرٹسٹوں نے اپنی تصاویر اور پوسٹر سازی سے پوری دنیا کو حیران اور متاثر کیا۔راشد نے روسی کتابوں کی دکان پر روس کے جن چنندہ آرٹسٹوں کا ذکر کیا،کینٹو میں ان کے نام نہیں آئے ہیں،لیکن راشد ان کے ذریعے دنیا کے تمام انسانوں کو جذباتی،انسانی اور اخلاقی سطح پر ایک وحدت خیال کرتے ہیں۔ راشد کے تصور میںانسان کاوجود سرحدی خانوں میں تقسیم نہیںہوتا۔وہ انسانی زندگی کے مثبت رویوں کارشتہ تمام انسانی معاشروں سے قائم کرتے ہیں۔کینٹومیںمتکلم اپنی دوست مرسدہ کو ایک نازک سی سوغات دینا چاہتا ہے۔ متکلم اس سوغات کے حصول کے لیے روسی کتابوں کی دکان پر روس کے چنندہ آرٹسٹو ں کی نایاب پینٹنگ وغیرہ تلاش کرتاہے،تاکہ مرسدہ کو اس کی عروسی پر اس نازک سوغات سے نوازے۔ایک ایسی نازک سوغات جو مرسدہ کے جذبۂ احساس اور وجدان میں بے کراں طوفان پیدا کردے۔واقعہ یہ ہے کہ شاعر مرسدہ کونہیں بلکہ پوری دنیا کو نازک سوغات یعنی روسی آرٹ اورفنکاروں کی بنائی ہوئی جذباتی تصاویرکی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ کینٹو کاراوی نازک سوغات کے واقعے کے بعدواضح طور پراشتراکی نظریے کی تنقید کرتاہے۔اشتراکی نظریے کی تنقید کے لیے راوی کینٹو کے ایک کردار خالد کا ذکر کرتاہے۔

خالد کی تصویر کشی میں راوی نے خالد کی اجنبیت اور غربت کا اظہار کیاہے۔راوی نے فنی ہنرمندی کے ساتھ غربت اور بھوک کو خالد کی شخصیت کا مرکزی حوالہ بنا دیاہے۔قفقاز کی رہنے والی حسینہ کے ذکر کے بعد قاری بخوبی واقف ہو جاتاہے کہ راوی  نے خالد کی جنسی بھوک کا ذکر کیا ہے۔ قفقاز ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو بلیک سمندراور کیسپین سمندر کے درمیان واقع ہے۔متکلم نے قفقاز کی رہنے والی حسینہ کے حسن کی مختلف صفات بیان کی ہیں۔ایک صفت اس کا جسمانی اعتبار سے تنو مند ہونا اور دوسری صفت فسوں کار ہوناہے۔متکلم قفقاز کی رہنے والی حسینہ کے حسن کی تمام صفات بیان کر لینے کے بعد خالد کی طرف متوجہ ہوتاہے اور اس کی داخلی خواہشوں کا اظہار کرتاہے۔خالد کا اشتراکی تمدن سے دلچسپی اور روسی ادیبوں کی سرچشمہ گاہوں کو دیکھنے کی خواہش،محض حور قفقاز سے دوستی اور دل لگی کا اظہار ہے۔خالد کا زبان سیکھنے کاحیلہ بھی اس قفقازی حور کے مستقل قریب رہنے کی تدبیر معلوم ہوتاہے۔قفقازی لڑکی خالد کی داخلی خواہشات سے بخوبی واقف ہوتی ہے۔متکلم نے اس قفقازی لڑکی کی ایک صفت فسوں کار بھی بیان کی تھی۔فسوں کاری،چالاکی اور عیاری کی مترادف ہے۔

متکلم نے اس قفقازی لڑکی کی شخصیت کو سرمایہ دارانہ نظام اور جاگیردارانہ نظام کے استعارے کے طور پر پیش کیاہے۔اس قفقازی لڑکی کے بالمقابل خالد کا کردار ایک غریب الوطن اجنبی شخص کا کردار ہے۔ وہ ایک ایسی قیمتی شے خریدنے کاخواہش مند ہے،جس کی قیمت ادا کرنے سے وہ قاصر ہے۔اس کی مفلس نگاہ ہے مہاجن کے وجود سے پر امیدہے کہ وہ اس کی غریب الوطنی اور اجنبیت پہ ترس کھائے اور اسے وہ چیز مفت عنایت کر دے۔راوی خالد سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں روسی زبان ہی سیکھنی ہے تو اس شہر میں روسی زبان سکھانے والی استانیوں کی کمی نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ تم زبان سکھانے کی قیمت ادا نہیں کر سکتے۔

قفقازی لڑکی کا ایک نئے مشتری کی طرف ملتفت ہو جانا سرمایہ دارانہ رویے کا اظہار ہے۔راشد نے ایک ایسی لڑکی کا کردار پیش کیاہے، جس کے ملک میں کمیونسٹ پارٹی بر سر اقتدار ہے۔اس کا خاطرخواہ اجرت لینے کے لیے بضد ہونا بھی نظام سرمایہ داری کا اشاریہ ہے۔راشد نے کینٹو میںخالد اور قفقازی لڑکی کے درمیان ہونے والے مکالموں کے ذریعے سویت یونین کے آمرانہ اور سرمایہ دارانہ رویے پر ضرب لگائی ہے۔کینٹو کے پہلے حصے کی قرأت کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ مرسدہ کی عروسی میں ہونے والے مکالمے کی کہانی ایک علاحدہ کہانی ہے۔مکالمے کی کہانی کا اس پہلے حصے سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ مگرمرسدہ کے عروسی کے دوران پیش کیے گئے مکالمے کی پوری کہانی سیاسی ہمہ اوست کی تفسیر بن جاتی ہے۔راشد کا اختصاص ہے کہ وہ ہر کہانی میں سرزمین ایران کے تہذیبی نقوش اجاگر کرنا نہیں بھولتے۔

راشد نے کئی نظموںمیں حسن ومے و رقص و نغمہ کی ترکیب استعمال کی ہے۔وہ اس ترکیب کے ذریعے ایران کے معاشرے کی تصویر کشی کر تے ہیںاور اس کی نئی تہذیب کے مختلف رنگ نمایاں کرتے ہیں۔ فرنگی شرابوں کے بالمقابل قزوین وخلار شیراز کا ذکر اس بات کی ترجمانی ہے کہ ایرانی معاشرہ صرف فرنگی شرابوں پر منحصر نہیں تھا بلکہ اس نے زندگی کی شام آراستہ کرنے کے لیے مقامی شراب خانوں سے بھی خوب استفادہ کیاتھا۔خلار ایران میں ایک قدیم قریہ ہے اور قزوین ایران کا مشہور ومعروف شہر ہے۔قزوین کو خوش نویسی کے شہر کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے۔راشد نے جس طرح تہران کی شام کی رنگینیوں اور شور شرابے کا ذکر کیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس وقت ایران کی تہذیبی زندگی پر مغرب کی گرفت مضبوط تھی۔راشد ایک مشرقی  شاعر کے طور پر زندگی کے ان رویوں کو پوری طرح قبول نہیں کر سکتے تھے۔ایران کی اس تہذیبی زندگی کا بار بار اظہار ایک شاعر کا احتجاج زیر لب ہے۔

6      مار سیاہ اس کینٹو میں راشد نے ایرانی خواتین پر ہونے والے جنسی مظالم کا ذکر کیاہے۔ایران میں اتحادی افواج کی موجودگی ان جنسی مظالم کا اشاریہ تھی۔ایران کی عوام معاشی اعتبار سے بھی بدحالی کا شکار تھی۔اتحادی سپاہیوں کو مال وزر کی امید پر شب میں اپنے گھر پناہ دینازندگی کے معمول کاحصہ بن گیا تھا۔ اس معاشرتی تناظر میں کسی خاتون کی عزت پر داغ آنا ایران کی معاشرتی شکست کا علامیہ ہے۔ راشد نے ایران کے اس معاشرتی رویے کو بارہا اپنی نظموں میں پیش کیاہے۔ہمہ اوست میں خالد کی جنسی تسکین بھی اسی بات کا اشاریہ ہے کہ ایران کا پورا معاشرہ جنسی عمل کو ایک جسمانی ضرورت سے زیادہ نہ خیال کرتاتھا۔راشد نے ہمیشہ اس معاشرے کے جنسی میلان کی ایک مکروہ تصویر پیش کی ہے۔ مار سیاہ کی یاسمن اور ہمہ اوست کی حور قفقاز کے تجربے میں فرق تو ہے لیکن دونوں ایک ہی معاشرے کی تصویریں ہیں۔حور قفقاز خود اشتراکی سپاہی خالد کی جنسی تسکین میں معاون بنتی ہے لیکن یاسمن کا دامن اس کی مرضی کے خلاف تار تار کیا جاتاہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں جگہ جگہ جنسی تسکین کے لیے مختلف دکانیں آراستہ ہیں،آپ اس سے تہذیبی اور اخلاقی سطح پر امن وسلامتی کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔پھر راشد نے یاسمن کا جو کردار پیش کیا ہے وہ کسی پاکیزہ اور شرم وحیا کی پیکر خاتون کا کردار نہیں ہے     ؎

سر شام ہم یاسمن سے ملے تھے/وہ بت کی طرح بے زباں اور افسردہ،/اک کہنہ وخستہ گھر میں،/ہمیں لے کے داخل ہوئی تھی !

یاسمن کا اجنبیوںسے ملاقات کر نا،انھیں لے کر گھر کے اندر داخل ہوناایرانی معاشرے کی بے پردگی اور بے حیائی کا اشاریہ ہے۔راشد کبھی زندگی کے تلخ تجربوں پر پردہ نہیں ڈالتے،بلکہ راشد نے ہمیشہ زندگی کے ان تجربوں کا علی الاعلان اظہار کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ راشد کی نظموں میں بیان کی گئی کہانی مصنوعی او ر خود ساختہ معلوم نہیں ہوتی۔راشد کی نظموں میں موجود تمام قصے زندگی کے حقیقی اور ٹھوس تجربوں کا اظہار ہیں۔کینٹو کا بیشتر حصہ یاسمن کی شخصیت سازی میں صرف ہواہے۔راوی اور یاسمن کے درمیان ایک خاموش رشتے کا پتہ چلتاہے۔

راشد نے ہمیشہ صنف نازک سے تعلق کو ایک ہی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔یاسمن کی طرح صنف مخالف سے پاکیزہ تعلق کا اظہار راشد کی نظموں میں کم نظر آتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ راشد کی نظموں میں صنف نازک کے ساتھ استوار ہونے والاہر رشتہ جنسی تسکین کا سبب بنتاہے۔ راشد نے ہمیشہ ایک ایسے معاشرے کی عور ت پیش کی ہے جو خود بھی اخلاقی بے راہ روی کی شکارہے۔یاسمن کی طرح پاکیزہ جذبے اور احساس کی حامل عورتیں راشد کے یہاں بہت کم نظرآتی ہیں۔کینٹو کا راوی بنیادی طور پر کہانی کا ہیرو ہے۔ لہٰذا ہیرو سے یاسمن کی محبت اس کی پوری شخصیت کو پاکدامنی کا استعارہ بنا دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قاری کے دل میں یاسمن کے تئیں ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے اور قاری یاسمن کے کردار کی اخلاقی خرابیاں نہیں دیکھ پاتا۔

راوی خود غریب الوطن سپاہی پیشہ ہے۔وہ اپنے دوستوں کی تسکین جنس کے لیے یاسمن کے گھر آتاہے۔ راوی اور اس کے دوستوں نے یاسمن کے گھر کئی ایام گزارے ہیں۔اس گھرکی سرمسیتوں نے انھیں مسحور کر دیاہے۔راوی اور اس کے اجنبی دوستوں کا یاسمن کے گھر ٹھہرنا اس بات کی ترجمانی ہے کہ یاسمن کا گھر اجنبی افراد کے لیے ذہنی اور جنسی سکون کی پناہ گاہ ہے۔ جب یاسمن راوی کو بتاتی ہے کہ اسے کسی اجنبی مارسیہ نے ڈس لیا اور اب وہ یاسمن کوکبھی دوبارہ نہیں پا سکے گا،تو یاسمن کو دوبارہ نہ پانے کی خلش راوی کو کبیدہ خاطر کر دیتی ہے۔راوی دل کا غم بھلانے کے لیے ایک مذہبی پناہ گاہ تلاش کرتاہے    ؎

میں اٹھا،خیاباں میں نکلا/اور اک کہنہ مسجد کی دیوار سے لگ کے/ آنسو بہاتا رہا!

متکلم کا ایک کہنہ مسجد کے درو دیوار سے لگ کر آنسو بہانامذہبی تہذیب اور پوری مشرقی روایات کی طرف پلٹ کر دیکھنے کا عمل ہے۔راشد نے بارہا اپنے ماضی اور مذہب سے بغاوت کا اظہار کیاہے۔لیکن کبھی یہ بھی ہواہے کہ راشد نے مذہبی قدروں اور اپنی تہذیبی وتاریخی روایت کو احترام کی نگاہ سے بھی دیکھاہے۔اپنے ماضی اور مذہب کی طرف احترام کی نگاہ سے دیکھنا اس بات کی ترجمانی ہے کہ راشد کے لاشعور میں ماضی اور مذہب کی تصویریں ادب و احتشام کے ساتھ جلوہ گرہیں۔

7      دست ستمگر دست ستمگر سویت یونین کے ظلم واستبداد کی کہانی ہے۔راشد نے اس کہانی میں ایک لہستانی دوشیزہ کی جدائی کا ذکر کیا ہے۔ لہستان پولینڈ کا قدیم نام ہے جو لیچیا سے ماخوذ ہے۔لیچیا نام پولینڈ کے اولین حکمران کے نام پر ہے۔فارسی زبان میں لیچیا کو لہستان کہا جاتاتھا۔راشد نے پولینڈ کو اس کے قدیم نام سے مخاطب کیاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پولینڈ میں آج بھی لیچیا کا لفظ احترام کا حامل ہے۔دوسری جنگ عظیم کے ابتدائی مرحلے میں نازی جرمن اور سویت یونین نے مشترکہ طور پر پولینڈ پر حملہ کیا۔اس حملے نے پولینڈ کے بڑے بڑے شہر کھنڈروں میں تبدیل کر دیے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس حملے میں 6 ملین افراد مارے گئے۔بے شمار افراد گرفتار ہوئے۔راشد نے کینٹو میں ایک لہستانی لڑکی کی کہانی پیش کی ہے۔ایک ایسی لہستانی لڑکی جو سویت یونین کی غلامی میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

راشد نے لہستانی لڑکی کی گرفتاری اور قید وبند میں گزری ہوئی اس کی پوری زندگی کی کہانی پیش کی ہے۔ہٹلر نے جس طرح پولینڈ کے شہروں میں تباہی مچائی تھی،اس تباہی نے صرف ایک گھر برباد نہ کیا بلکہ لاکھوں گھر اس خوفناک تباہی کا شکار ہوئے تھے۔راشد نے اس تباہی کو داخلی سطح پر جذب کیا ہے۔ راشد نے اس کینٹو میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی ہے جو پولینڈ میں ہونے والے نازی اور سویتی حملے کا شکار ہوئی۔اس کا گھر تباہ کر دیا گیا اور اس کے محبوب کو اس کی نگاہوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔راشد اس لہستانی لڑکی کی غلامی کا رشتہ پورے مشرق کی غلامی سے قائم کرتے ہیں۔وہ دنیاکے تمام ستم خوردہ انسان کو سوزش غم کی سطح پر مشترک خیال کرتے ہیں      ؎

تجھے کیسے روندا گیاہے،/تجھے در بدر کیسے رانداگیاہے،/میں سب جانتاہوں،/کہ شاکی ہے تو جس الم کی /وہ تنہا کسی کا نہیں ہے،/وہ بڑھتاہوا/آج ذرے سے عفریت بنتا چلا جارہا ہے!

راشد نے پہلے صرف سویت یونین کی مطلق العنانی کو سیاسی ہمہ اوست سے تعبیر کیاتھا،لیکن اس کینٹو میں انھوں نے پوری دنیا کی سیاسی ہوس پر کاری ضرب لگائی ہے۔ایک ذرے کا عفریت بن جانا دوسری جنگ عظیم کی ایک چھوٹی سی چنگاری کا جنگ کے شعلوں میں تبدیل ہو جانا ہے۔ایک ایسی جنگی آگ جس نے ہر محاذ پر ایک عام زندگی کو شکست دی ہے۔اس کینٹو میں ایک عام زندگی کو روندنا،اسے در بدر کرنا اورقید وبند کی صعوبتوں میں گرفتار کرنادوسری جنگ عظیم کا سب سے بڑا المیہ بن گیاہے۔ صرف پولینڈ اس المیے کا شکار نہیں ہے بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنے حصار میں لیا۔

8      درویش اس کینٹو میں راشد نے مشرقی روحانیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔روحانی اقدار کومشرق کی شکست کا سبب قرار دیاہے۔کینٹومیں درویش مشرق کی روحانی قدروں کا استعارہ ہے۔ظاہر ہے کہ درویش کاکردار روحانی پیشوا کاکردارہے۔زندگی کے اس کردار نے مشرق کے انسانوں کو مذہب وروحانیت کی تعلیم سے آراستہ کیاہے۔معاشرے کا ہرفرد درویشوں کی سی زندگی نہیں گزار سکتااور ان کی طرح دنیا سے تعلق منقطع نہیں کر سکتا۔اس لیے نفس کو کچھ نہ کچھ قابو میں لانے کے لیے درویشوں نے روحانی تعلیمات عام کیں۔ان تعلیمات میںدنیاکی زندگی کے مقابلے میں آخرت کی زندگی کو ترجیح دی گئی۔آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے دنیاکی رغبت کے تئیں کم کم متوجہ ہونے کی تعلیم دی گئی۔

راشد کودرویش اور اس کی روحانی قدروں سے شکایت ہے کہ ان نے انسانی جمود کو فروغ دیا ہے۔ وہ روحانی اقدار کومشرق کی سیاسی،سماجی،معاشرتی شکست وریخت کا سبب قرار دیتے ہیں۔راشد نے اس کینٹومیں دریشوں کی طریق زندگی پر تنقید کی ہے      ؎

یہ درویش،/جس کے اب وجد،/وہ صحرائے دیروز کی ریت پر/تھک کے مر جانے والے،/اسی کی طرح تھے/تہی دست اور خاک تیرہ میں غلطاں،/جو تسلیم کو بے نیازی بنا کر/ہمیشہ کی محرومیوں ہی کو اپنے لیے/بال وپر جانتے تھے،/جنہیں تھی فروغ گدائی کی خاطر/جلال شہی کی بقا بھی گوارا/جو لاشوں میں چلتے تھے/کہتے تھے لاشوں سے/سوتے رہو!/صبح فردا کہیں بھی نہیںہے!

راشد نے جس طرح صوفیوں اور درویشوں کی شخصیت اور تعلیمات کی امیجری کی ہے،اس میں غم اور غصے کی لہر موجود ہے۔اس تصویر میں درویش کی پوری شخصیت کوبطور محرومی اور حرماں نصیبی کا استعارہ پیش کیاگیاہے۔راشد نے اپنی نظموں میں مختلف موقعوں پر روحانی تعلیمات کامضحکہ اڑایاہے لیکن اس کینٹومیں جس تفصیل کے ساتھ اس کی تردید کی ہے کسی اور نظم میں اتنی جارحیت نظرنہیں آتی۔درویش کے ساتھ ساتھ اس کے اب وجد کانام لینابھی صدیوں سے چلی آرہی درویشی روایت کامضحکہ اڑاناہے۔پھر راشد نے کینٹو کاعنوان ہی درویش رکھاہے تاکہ اس کینٹو میں درویش کے کردار اور اس کی فرسودہ تعلیمات کی تصویر کشی کی جاسکے۔راوی نے درویشوں کی صفت بے نیازی کی تنقیدکی ہے اور اسے دنیاوی تسلیم کا نام دیاہے۔درویش کی بے نیازی کو تسلیم قرار دینااس کی دی ہوئی تعلیمات کامضحکہ اڑاناہے۔درویشوں کا لاشوں میں چلنا اور ان سے یہ کہناکہ صبح فردا کہیں بھی نہیں ہے،ان روحانی تعلیمات سے برگشتگی کا اظہارہے۔ملائے رومی اور مجذوب شیراز کی روحانی تعلیمات کو زنگ آلود کہنازندگی کی اسی اکتاہٹ کا علامیہ ہے۔یہ اکتاہٹ در اصل معاشرے کے جمود اور تعطل  کے سبب ہے۔راشد کا خیال ہے کہ زندگی کو ان تعلیمات کے سپرد کردینازندگی کی تحریک سے منہ موڑلیناہے۔وہ روحانیت، مذہب اور تابناک ماضی کی طرف مڑ کردیکھنے کی روش کو پورے مشرق کی شکست کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں      ؎

زمستاں کی اس شام /نیچے خیاباں میں،/میرے دریچے کے پائیں،/جہاں تیرگی منجمد ہوگئی ہے یہ بھاری یخ آلودقدموں کی آواز/کیا کہہ رہی ہے/’’خداوند/کیاآج کی رات بھی/تیری پلکوں کی سنگیں چٹانیں/نہیں ہٹ سکیں گی؟‘‘

اوپر رقم کیے گئے مصرعوں میں سے آخری تین مصرعوں کو متکلم نے کینٹو میں دوبار کہاہے۔اس سے اندازہ ہوتاہے یہاں بھی متکلم کو خداکاوجود بے حس وبے حرکت نظرآتاہے۔تاریکی اور سیاہی کادریچے کے نیچے منجمد ہوجانادر اصل انسانی حس وحرکت کا منجمد ہوجاناہے۔راشد مختلف استعاروں میں انسانی جموداور بے حسی کی تصویریں خلق کرتے ہیں۔نظم کے ارد گرد پھیلی ہوئی ان تصویروں کا بنیادی مضمون سے بہت گہراانسلاک ہوتاہے۔بھاری قدموں کی آوازظاہری اعتبار سے ایران کے کوچہ وبازار میں سپاہیوں کی چاپ کا شور ہے۔لیکن راشد نے سپاہیوں کی یخ آلود بھاری چاپ کو مشرق پر غالب آنے والی نئی تہذیب کااستعارہ بنا دیاہے۔یہ آواز مشرق کی شکست وریخت کی دردناک پکاربھی ہے۔یہی شکست کی درد انگیز آواز خداوند سے دست گزار ہوتی ہے کہ کیا اب بھی تیری مدد نہیں آئے گی۔جب خداکے وجود سے مطالبے کی شدت میں اضافہ ہوتاہے تب خداوند کی نداآتی ہے۔اس ندا میں خداوند کی شان وشوکت بھی نظرآتی ہے اور اس کے کلام کا جاہ وجلال بھی ملحوظ رکھاگیاہے۔ درویش کی موجودگی کے باوجود معاشرے سے جمود کا ختم ہونادوباتوں کی طرف اشارہ کرتاہے۔ایک تو یہ کہ درویش کی روحانی قدریں جمود اور تحریک کے مابین حائل نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ درویش کی موجودگی کے باوجود مشرق کی بیداری عمل میں آئی ہے۔دوسری بات یہ کہ ماضی کی طرح درویش کی روحانی قناعت پسندی اور دنیاکی بے التفاتی اب معاشرے کی روش میں شامل نہیں ہے۔

9      خلوت میں جلوت ’خلوت میں جلوت‘ ایران میں اجنبی کے ایک دوسرے کینٹو’میزبان ‘کی توسیع ہے۔میزبان ایک فکرانگیز انجام پر ختم ہو گئی تھی۔راشد نے میزبان کے قصے میں اس کینٹوکے ذریعے اضافہ کیاہے۔راوی کا ساتھی جسے ’میزبان ‘میں مرد میدان کے نام سے موسوم کیاگیاتھا اسے’خلوت میں جلوت‘ میں حسن کے نام سے پیش کیاگیاہے۔حسن کاکردار’ میزبان‘ میں بہت اہم کردار تھا۔اس کردار کو’ میزبان‘ کی کہانی کا محور کہا جا سکتاہے۔اس نے نوروز کی جواں سال بیوی زہراکے ساتھ تمام شب گزاری تھی۔ راوی اور اس کے تمام ساتھی زہراکے حسن پر فریفتہ تھے لیکن کسی اور کوزہراکی مصاحبت کاموقع میسر نہ آسکاتھا۔حسن نے اپنی چالاکی سے موقع گرفت میں لیا اور تمام اصحاب کی نگاہ میں مرد میدان بن گیا۔تمام احباب کو اس بات کی حیرانی تھی کہ آخر کس طرح حسن نے میدان فتح کیا۔حسن کے علاوہ راوی اور اس کے تمام احباب نوروز کی دھمکیوں سے خوفزدہ تھے۔نوروز کے خوف نے کسی کو زہرا کے حسن کی طرف مائل نہ ہونے دیا۔لیکن حسن نے نوروز کی دھمکیوں کو اس طور سے نظراندازکیاجیسے ایک مرد میدان موت کاخوف خاطرمیں نہیں لاتا۔یہی وجہ تھی کہ حسن کو’ میزبان‘میں مرد میدان کے نام سے موسوم کیا گیاتھا۔

’میزبان‘میں صرف اس بات کا انکشاف ہوتاہے کہ رات کے اولیں حصے میں نوروز نے حسن کو اپنی بیوی کی فوٹو دیکھ کر روتاہواپایا۔اپنی بیوی سے اس درجہ لگاؤنے زہرا کو بھی جذباتی بنادیاتھا۔اس طرح زہراحسن سے ایک جذباتی تعلق قائم کر لیتی ہے۔’میزبان ‘کاقاری زہرااور حسن کے مابین جذباتی لگاؤ کوان کے جسمانی تعلق کاسبب خیال کرتاہے۔ لیکن’خلوت میں جلوت ‘کاقاری حسن اور زہرا کے جسمانی تعلق کی ایک نئی کہانی دریافت کر لیتاہے۔یہاں قاری کو حسن کی عیاری اور زور آوری کی خبر ہوتی ہے۔’خلوت میں جلوت ‘میں معلوم ہو تاہے کہ حسن نے زہراکے ساتھ بد سلوکی سے کام لیااور زہراکے تیز دھار پنجوں نے حسن کے رخ ودست وبازوپر خراشیں لگادیں۔

10    تیل کے سوداگر راشد کی نظم تیل کے سوداگر برطانوی سامراج کے غاصبانہ رویے پر ایک گہرا طنز ہے۔ اینگلو فارسی تیل کمپنی برطانوی کمپنی تھی۔اس کمپنی کاقیام سنہ 1908میں ہوا۔1914میں حکومت برطانیہ نے اس کمپنی کے 51%فیصد شیئر خرید لیاتھا۔یہ ایران کی پہلی پٹرولیم کمپنی تھی۔1935میں رضا شاہ کبیر نے اس کمپنی کانام تبدیل کر دیااور اس کمپنی کانام اینگلو ایرانی آئل کمپنی رکھ دیاگیا۔1954میں اس آئل کمپنی پر پوری طرح برطانوی حکومت قابض ہو گئی اور اس کا نام بریٹش پٹرولیم ہوگیا۔راشد کی یہ نظم حافظ کے ایک شعر (بہ خال ہندوش بخشم سمرقندوبخارارا)کی تشریح سے شروع ہوتی ہے۔اس شعر میں حافظ نے ترکی معشوق کے سیاہ تل کے حسن پر فریفتگی کا اظہار کیاہے۔حافظ شیرازی کہتے ہیں کہ اگر وہ ترکی معشوق میری محبت قبول کر لے تو صرف اس کے سیاہ تل کے عوض میں سمرقند وبخارا قربان کر سکتا ہوں۔ سمرقند وبخاراایک زمانے تک تہذیب وثقافت کاعلامیہ تھے۔سلک روڈ کے راستے چین اوربحیرہ ٔ روم کے تجارتی قافلے ان شہروں سے ہو کر نکلتے تھے۔تاریخی اعتبار سے بھی سمرقندوبخاراکی اہمیت لازوال ہے۔یہ دونوں تاریخی شہر علم وصنعت کانگار خانہ تھے۔راشد کا کینٹو حافظ کے اسی خیال سے شروع ہوتا ہے    ؎

بخاراسمرقنداک خال ہندو کے بدلے!/بجاہے،بخاراسمرقند باقی کہاں ہے؟/ بخارا سمرقند نیندوں میں مدہوش،/ایک نیلگوں خاموشی میں مستور/اور رہروؤں کے لیے ان کے در بند/سوئی ہوئی مہ جبینوں کے مانند،/روسی ہمہ اوست کے تازیانوں سے معذور/دو مہ جبینیں!

انیسویں صدی میں ان دونوں شہروںپر سویت یونین قابض ہو گئی تھی۔بخاراسمرقند باقی کہاں ہے کا فقرہ اس حقیقت پر ایک گہرا طنزہے۔حافظ کا یہ شعر آج بھی لوگوں کے حافظے میں ہے۔سوال یہ ہے کہ جو چیزآپ کی ملکیت سے باہر ہو چکی ہے اسے آپ کس طرح فروخت کر سکتے ہیں۔بخارا،سمرقند اور تاشقند جیسے تاریخی اور علمی شہروں کا اسلامی حکومتوں کے ہاتھ سے نکل جاناکوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ان مصرعوں کی قرأت سے اندازہ ہوتاہے کہ راشد نے ان تاریخی حادثوں کواپنے داخل کاحصہ بنالیا ہے۔ ازبیک سویت سوشلسٹ ریپبلک کا قیام سنہ1924میں ہواتھا۔اس کے بعد جب سویت یونین تحلیل ہو گئی تو ازبیکستان نے31اگست1991میں اپنی آزادی کااعلان کر دیا۔راشد نے جس وقت یہ کینٹو کہاتھاسمرقند و بخارا جیسے تاریخی شہر اس دوران سویت یونین کے قبضے میں تھے۔یہی وجہ ہے کہ راشد نے یہ فقرہ کہا کہ سمرقند وبخاراباقی کہاں ہے۔بخارااور سمرقند کانیند میں مدہوش ہوجانا،اس پر ایک نیلگوں خاموشی طاری ہونااور راہرو کے لیے ان شہروں کے در بند ہوجانااس کی علمی، تہذیبی، معاشرتی اور تجارتی اہمیت ختم ہو جانے کا اشاریہ ہے۔روسی ہمہ اوست اور تہذیب وتاریخ پر اس کے تازیانے راشد کے حافظے کاحصہ ہے۔روسی ہمہ اوست اور اس کے تازیانوں کا احساس کبھی راشد کے ذہن سے محو نہیں ہو پاتا۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پوری بیسویں صدی کی تہذیب و تاریخ پر روسی ہمہ اوست نے گہرا اثر ڈالاہے۔اگر چہ ایران پر فرنگیوں کاتسلط قائم تھالیکن سویت یونین نے بھی ایران کے چہرے پر گہرے زخم لگائے تھے۔ایران میں اتحادی افواج کی دھمک ایک حساس دل شاعر کو پریشان کرتی ہے۔ وہ اس بات پر راضی نہیں ہے کہ ایران کے تہذیبی او رتاریخی شہروں کا وہی حشر ہوجو سمرقند وبخاراکا ہواتھا     ؎

بخاراسمرقند کو بھول جاؤ/ا ب اپنے درخشندہ شہروں کی /طہران ومشہد کے سقف ودروبام کی فکر کرلو،

ان مصرعوں میں خوف وہراس کااحساس بہت فطری محسوس ہوتاہے۔سمرقند وبخاراجیسے تاریخی شہر ختم ہوگئے لیکن ایران کے شہر سمرقند وبخاراکی طرح تباہ وبرباد نہیں ہوئے۔ایران کے تاریخی اورتہذیبی شہر ابھی باقی ہیں،ان کی حفاظت لازمی ہے۔راشد نے قلعہ، فصیل،برج،نگہبان،صداؤں،خیمہ فگن،دشمن کی امیجری سے خوف وہراس کی فضاخلق کی ہے۔خوف کی  امیجری ایرانی معاشرے کی رگ وپے میںپھیلے ہوئے جمودپر ضرب لگاتی ہے۔راشد نے ایرانی معاشرے کے لیے حافظ کا شعربطور طنز استعمال کیا ہے۔ راشد کو خیال آتاہے کہ سمرقندو بخاراکیااس قدر معمولی تھے کہ عشق اور معشوق کے کالے تل کے عوض اسے قربان کردیاجائے۔حافظ کے اس شعر کاذکر عشق اور اس کے رنگیں مضامین کے تئیںکم مائگی کااحساس ہے۔

راشد نے نظم کاعنوان ’تیل کے سوداگر‘ قائم کیاہے۔راشد نے اس نظم میں بتایاہے کہ فرنگیوں کی سوداگری کس طرح ملک کی سیاست کواپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔راشد نے انگریزوں کے اس غاصبانہ طریقے کی مثال ہندوستان میںان کی سوداگری سے دی ہے۔انگریز ہندوستان میں بھی تجارت کی غرض سے آئے تھے اور دھیرے دھیرے ہندوستان کو اپناغلام بنا لیا۔جب انگریزوںنے ہندوستان میں تجارت کے ارادے سے قدم رکھاتھا،اس وقت کوئی یہ نہیں جانتاتھاکہ ہندوستان ان کے فریب میں اس طرح گرفتار ہوگا۔ہندوستان نے بھی ایک میزبان کی طرح انگریزوں کو خوش آمدید کہاتھا اور ان کی ضیافت کی تھی۔لیکن بہت جلد مہمان پورے گھر پر قابض ہوگئے اور گھر میں رہنے والے لوگوں کو اپناغلام بنا لیا۔راشد تاریخ کے جس آئینے کی تصویر پیش کررہے ہیں،اس میں انگریزوں کی تصویر سیاہ اور تاریک اندھیرے کی طرح نظرآتی ہے۔

زمانۂ قدیم میں اکثر یہ واقعہ پیش آتاتھاکہ رہزنوں کاگروہ تجارتی قافلوں میں بطور مہمان شامل ہوجاتا۔ رات بھر رقص وسرود کی محفل آراستہ رہتی۔تمام شب جام ومینالنڈھائے جاتے اور اس کی مستی اور سرشاری میں گم ہوجاتے۔اس کے بعد رہزنوں کاگروہ اپناکام کرتا۔رات کے آخری پہر جب پوراقافلہ مدہوشی کے عالم میں سو جاتاتورہزنوں کاگروہ اس بے خبری کافائدہ اٹھاتااور قافلہ لوٹ کر رات کے اندھیرے میں کہیں گم ہوجاتا۔بعض موقعوں پر قافلے میں کشت وخون کا کھیل بھی کھیلاجاتااور صبح کو قافلے کے افراد مردہ پائے جاتے۔کینٹومیں انگریز وں کا سرزمین ایران میں داخل ہونا رہزنوں کے گروہ کاقافلے میں شامل ہوجانا ہے۔ رات کی سیاہی اور تیرگی میں بوڑھے سوداگروں کا گھر میں داخل ہوناان کے دھوکے اور فریب کا اشاریہ ہے۔کینٹو میںاپنی پلکوں سے اپنے مردوں کی قبریں کھودنا اپنے غموں پر آنسو بہانے کی علامت ہے۔سوداگرکے لبادے میں کسی اور کا ہونا اس بات کا اشاریہ ہے کہ ان کامقصد کبھی سوداگری تھاہی نہیں۔متکلم نے ان بوڑھے سوداگروں کارشتہ ہندوستان میں آنے والے انگریزی سوداگروں سے قائم کیاہے۔ہندوستان کے سینے پر انگریزوں نے کیاکیازخم لگائے ہیں،متکلم نے اس کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیاہے۔

سیال سایوں کی طرح شہر کاگھلنا شہر کے پرخوف ماحول کاعلامیہ ہے۔بام ودر اور مینار وگنبد کاگرناسیاسی انتشار کااظہار ہے۔کینٹو کے آخری مصرعوں میں ہندوستان کی آزادی کی دھمک سنائی دیتی ہے۔دشمن کامینارکے خمیدہ کمر سے نیچے کی طرف لڑھکنااس کازوال پذیر ہوناہے۔انسان بلندی کے بعد بالآخر پستی ہی کی طرف آتاہے۔پستی کی طرف آناایک فطری عمل ہے۔راشد نے وقت کو زندگی کی تحریک کے طور پر دیکھا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کی تصویریں بد ل جاتی ہیں۔کوئی شخص مینار پربہت دیر تک نہیں ٹھہر سکتا۔سپاٹ مینار پر پنجوں کی گرفت بہت دیر تک مضبوط نہیں رکھی جاسکتی۔اس پر چڑھنے والا شخص کچھ ہی لمحوں میں مینار کی بلندی سے نیچے کی طرف پھسلنے لگتاہے۔وقت بھی انسان کے ہاتھ سے پھسلتاہے اور وقت کے ساتھ حکومت بھی ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔وقت کاپھسلنا وقت اور حالات کا تبدیل ہو جاناہے۔یہی سبب ہے کہ متکلم وقت کو ایک مینار خیال کرتاہے۔ہندوستان کے باشندوں کے کاہیدہ جسموں کاقید وبند کے تازیانے سہنافرنگی ظلم وستم کی علامت ہے۔ستمگر کاخود اپنے روشن کیے ہوئے الاؤ میں جلناانگریزوں کی سیاسی پالیسی کی ناکامی کااشاریہ ہے۔انگریزوں نے ایک طرف تو ہندوستانیوں پر بے انتہاظلم کیا دوسری طرف ان کی سیاسی پالیسی ہندوستانیوں کو برانگیختہ کرنے والی تھی۔ہندوستان کے رگ وپے میں آزادی کاخون دوڑنے لگا۔اس طرح انگریزوں کی ناکام پالیسی نے ہندوستان میں انگریزی حکومت کی جڑیں کمزور کر دیں۔ کینٹو کے آخر میں متکلم ایرانیوں سے کہتاہے کہ میرے ہاتھ میں ہاتھ دو،میرے ہاتھ میں ہاتھ دو۔ان دونوں کا ہاتھ ملانا پورے مشرق کو ایک وحدت کے طور پردیکھنے کاعمل ہے۔ اس کینٹو میںمشرق مختلف خانوں میں نظر نہیں آتا۔متکلم نے ہندوستان کے کسی مشہور ومعروف شہر کا نام نہیں لیاہے۔شاعر پوری ہندوستانی تہذیب وتاریخ کو ایک کلیے کے طور پر دیکھتا ہے۔یہاں پہنچ کر متکلم کی نگاہ میں ہندوستان،طہران اور سمرقند وبخاراایک ہی وسیع وعریض ندی کے بہتے ہوئے دھارے کی طرح نظرآتے ہیں۔ہمالہ اورالوند کی چوٹیوں کاایک ساتھ ذکر کرناپورے مشرق کو ایک ساتھ دیکھناہے۔ہمالہ اور الوند کی چوٹیوں پر شعاعیں ان کے سینے میں بھڑکنے والی چنگاری کااظہار بھی ہے۔ان شعاؤں کو دیکھ کر ان دونوں کی مشترکہ تہذیب کاخیال بھی مستحکم ہوتاہے۔

11    وزیر چنیں وزیر چنیں وزیر وں کی کم عقلی پر گہراطنزہے۔وزیر بادشاہوں کے خاص مشیر ہوتے ہیں، بادشاہ ان کے مشوروں پر ملک کا نظام چلاتاہے۔گویاوزیر ملکی نظام میں دخیل ہوتے ہیں۔وزیر مزاج، طبیعت اور ذہانت کے اعتبار سے جس قدر مہذب ہوں گے ملک کانظام بھی اسی قدر بہتر ہوگا۔راشد نے اس کینٹو میں کسی ایرانی وزیر کانام تو نہیں لیاہے لیکن کینٹو میں جس طرح قصہ بیان کیاگیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ کینٹو ایران کے کسی وزیر پر طنز ہے۔اس کینٹو کا انداز بیان داستانوی ہے۔ راشد نے قدیم عربی داستان الف لیلۃکے طرز پر اس کینٹو کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔الف لیلہ ایک ہزار رات پر مشتمل کہانی ہے۔الف لیلۃ آٹھویں صدی عیسوی کی مشہور داستان ہے۔اس داستان کی ابتدا عرب میں ہوئی لیکن پھر ایرانی،مصری اور پھر ترک قصہ گویوں نے اس کہانی میں اضافہ کیا۔الف لیلۃ کے معنی ہی ہیں ایک ہزاررات۔طوالت داستان کا نہایت اہم وصف ہے۔ایک داستان کے دامن میں بہت ساری کہانیاں موجود ہوتی ہیں۔ایک کہانی کے بطن سے دوسری کہانی خلق ہوتی ہے اور پھر دوسری کہانی کے بطن سے تیسری کہانی جنم لیتی ہے۔الف لیلہ کی کہانیاں قصہ در قصہ کی تکنیک میں ہیں۔

راشد کے کینٹو کے ابتدائی مصرعے الف لیلہ کاایک جزو معلوم ہوتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ راشد نے اپنی نظم میں محض الف لیلہ کارنگ بھرااور اس رنگ سے کینٹو کی فضاتعمیر کی ہے۔راشد نے بھی اس نظم میںایک وزیر کاقصہ بیان کیاہے اور شہریارکی جگہ شہرزاد کوکہانی سنائی جاتی ہے۔نظم میں شہر شیراز کاذکر الف لیلوی رنگ میں مزید اضافہ کرتاہے۔اس طر ح نظم کا ا بتدائی حصہ الف لیلہ سے بہت حد تک مماثل نظرآنے لگتا ہے۔الف لیلہ کی چھینٹ اڑانے کے بعدمتکلم کینٹو کا اصل قصہ بیان کرتاہے۔

قصہ یہ ہے کہ ایک نائی انسان کاسر کھول کر انسان کے دماغ کی صفائی کرتاہے۔نائی کاسر کھول کر انسان کا دماغ صاف کرنا انسان کی بد دماغی پر ایک گہرا طنز ہے۔نائی حجامت بناتاہے گویا کہ جسم کے ظاہر کی صفائی کرتاہے۔ظاہری چہرے پر لگی ہوئی آلائشوں کو رفع کرتاہے۔نائی کیاکوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کاسر کھول کر اس کے دماغ کی آلائشیں صاف نہیں کر سکتا۔پھراہم بات یہ بھی ہے کہ ذہنی آلائشوں کا کوئی حجم نہیں ہوتا،ذہنی آلائشیں غیر مرئی ہوا کرتی ہیں۔نائی کاقصہ انسان کی کم عقلی اور بد دماغی کا علامیہ ہے۔معاشرے میں بعض لوگوں کاذہن واقعی اس قدر آلودہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہنوں کی صفائی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔’وزیر چنیں ‘میںنائی کاکردار زندگی کے اسی تجربے کااظہار ہے۔ واقعہ یوں آگے بڑھتاہے کہ ایک دن اس نائی کی دکان پر ملک کے بادشاہ کاکوئی وزیر آتا ہے۔ وزیر اس بات کاخواہشمندہے کہ نائی اس کے دماغ کی صفائی کردے۔متکلم نے نہایت فنی چابکدستی کے ساتھ اس وزیرکے دماغ کی امیجری کی ہے۔

 نائی نے وزیر کادماغ کھولا اور اس کا دماغ باہر نکال کر اس پر جمی ہوئی آلائشوں کوصاف کرنے میں مشغول ہوا۔دریں اثنابادشاہ نے کسی خواجہ سراکے ذریعہ وزیر کو بلابھیجا۔وزیر گھبراہٹ میں اس نائی کے پاس اپنادماغ چھوڑ کر چلاگیا۔پوراکینٹو وزیر کی کم عقلی پر گہراطنز ہے۔متکلم نے فنی گاریگری کے ساتھ وزیر کی بے دماغی کامذاق اڑایاہے۔وزیر کو اگلے دن اپنے دماغ کاخیال آتاہے اور وہ نائی کے پاس جاتاہے۔نائی حضرت وزیر کو باخبر کرتاہے کہ رات ایک بلی اس کا دماغ کھا گئی۔کینٹو میں بلی چالاکی اورعیاری کاعلامیہ ہے۔بیوقوف انسان ہمیشہ نقصان ہی اٹھاتاہے۔اس کے برخلاف چالاک آدمی بیوقوف کی بیوقوفی سے فائدہ اٹھاتاہے۔آخرکار نائی ایک بیل کادماغ وزیر کو لگادیتاہے۔وزیر بیل کادماغ لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔بیل کادماغ لگنے کے بعد وزیر اپنی طبیعت میں تیزی محسوس کرنے لگتا ہے۔کینٹو میں موجود متن کو دیکھ کراندازہ ہوتاہے کہ وزیر کو خود بھی اپنے پر پیچ اور الجھے ہوئے ذہن کااندازہ تھا۔ایک الجھے ہوئے ذہن کاحامل انسان کوئی صحت مند فیصلہ اور تدبیر نہیں کرسکتا۔اس طور سے ایک الجھے ذہن وزیر کانظام حکومت میںدخیل ہونا،حکومت کی نااہلی اور کوتاہ بینی کی دلیل ہے۔ ایک کم عقل انسان حکومت کے نظام کو بہتر طور سے نہیں چلا سکتا۔انسانی تاریخ میں بادشاہوں کی کم عقلی کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن حکومت میں کم عقل وزیر کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کاساراانحصار وزیروں کی عقلمندی اور دور اندیشی پر منحصر ہوا کرتاہے۔پھر وزیر کا از سر نو دماغ کی صفائی کرانا اس بات کا اشاریہ ہے کہ وزیر کو قبل ازیں بھی دماغ کی صفائی کی ضرورت در پیش آچکی تھی۔

12    شاخ آہو ایران میں پھیلی ہوئی سیاسی بد امنی اور رشوت خوری شاخ آہو کا موضوع ہے۔اس کینٹو میں راشد نے رشوت کی کہانی پیش کی ہے۔کینٹو کی کہانی ہمارے معاشرے کے لیے انوکھی نہیں ہے۔ راشد کے تمام کینٹو میں کسی نہ کسی پہلو سے پہلوی سلطنت کا زوال روشن ہوجاتا ہے۔ بدعنوانی، سود خوری اور رشوت خوری معاشرے کی بنیاد کھوکھلا کردیتی ہے۔حکومت کے اعلی عہدے داران اگر رشوت خوری اور بدعنوانی جیسی بیماریوں کے شکار ہوںتو اس صورت میں نظام حکومت کی جڑیں بھی کمزور پڑ جاتی ہیں۔ پہلوی سلطنت میں بھی رشوت خوری اور بدعنوانی جیسی مہلک بیماریاں موجود تھیں۔ ان خرابیوں نے عوام کے دل سے حکومت کا وقارزائل کردیاتھا۔راشد نے حکومت کی ان کمزوریوں کو اپنے کینٹوز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے بتایاہے کہ قوت اقتدار کی مثال ایک شاخ آہو کی طرح ہے۔جس طرح آہو ایک جگہ قرار نہیں پاتا،اسی طرح اس کی سینگ بھی ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتی۔ مطلب یہ کہ آہو کے ساتھ اس کے سینگ بھی چوکڑی مارتے ہوئے غائب ہو جاتے ہیں۔اسی طرح اقتدار حکومت بھی ہمیشہ کسی ایک انسان کے پاس بہت دیر تک نہیں ٹھہرتا۔

 کینٹوکاواقعہ یہ ہے کہ وزیرمعارف علی کیانی نے کسی طالبہ سے رشوت لے کر اسے حصول تعلیم کے لیے ولایت بھیجاتھا۔نامہ نگاروں کو جب اس بات کی خبر ہوئی توانہوں نے وزیر معارف علی کیانی کی اس حرکت کی خبر شائع کر دی۔شاخ آہو کے متکلم نے کینٹو اسی خبر سے شروع کیا ہے۔کینٹو کا سب سے اہم کردار علی کیانی ہے جوملک ایران میں وزیر معارف ہے۔کینٹو کاپوراواقعہ اسی کردار کی شخصیت کااظہارہے۔علی کیانی کی شخصیت ایک رشوت خور اور بدعنوان وزیر کی ہے۔اس نے بانو رضا بہبانی سے اسی ہزار نو سوریال بطور رشوت لیے ہیں۔اس رشوت کے عوض علی کیانی نے بانو رضابہبانی کو طبابت کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ولایت بھیجاہے۔علی کیانی کا شخصی اور اخلاقی بگاڑ اس بلند ی پر ہے کہ اسے رشوت خوری کوئی عیب محسوس نہیں ہوتی۔رشوت خوری اور دوسری بدعنوانی اسے معمولی بات معلوم ہوتی ہے۔ایک انسان جب کسی گناہ اور غلطی کاعادی ہوجائے اسے پھر گناہ کی خرابی نظر نہیں آتی۔علی کیانی نے بانو رضابہبانی سے جو رقم بطور رشوت لی ہے،وہ اس رقم کو اپنا حق خیال کرتاہے۔اسے کبھی اس بات کاخیال نہیں آتاکہ بانو رضا بہبانی کو ڈاکٹری کے لیے ولایت بھیجنا اس کی ذمے داری تھی۔علی کیانی نے جو کام کیاہے وہ اس کی قیمت حاصل کرنے پر مصر ہے۔متکلم نے علی کیانی کی خود کلامی کے ذریعے اس کی نفسیات کااظہار کیاہے۔علی کیانی خود کلامی کے درمیان جو باتیں کہتاہے وہ راشد کی فنی ہنر مندی کی توثیق ہے     ؎

وزارت ہے وہ درد سر/جس کا کوئی مداوا نہیں ہے!/رضابہبانی ولایت سے ڈگری طبابت کی لے کر،/جو لوٹے گی/کچھ توکمائے گی،/پہلے سے بڑھ کر کمائے گی آخر/اوراس پریہ ایراں فروشی کے طعنے/یہ کہرام،اے مسخرے روزنامہ نگارو!

یہ مصرعے وزیر معارف علی کیانی کی نفسیات کااظہار ہیں۔انسان بعض اوقات کسی دوسرے انسان کے سامنے اپنے کردہ گناہوں کی تاویل پیش نہیں کرتا،لیکن جب اس کاضمیر اس سے سوال کرتا ہے تو وہ انسان ذاتی اطمینان کے لیے تاویل سے کام لیتاہے۔رضا بہبانی کا ولایت سے طبابت کی ڈگری لے کر لوٹنے کاخیال،طبابت کی ڈگری کے ذریعے پہلے سے زیادہ کمانے کاخیال محض علی کیانی کی نفسیاتی تاویلات ہیں۔روزنامہ نگاروں کو مسخرہ کہنا اور خبر شائع ہونے کو کہرام خیال کرنابھی اسی نفسیاتی کیفیت کااظہارہے۔وزیر معارف علی کیانی اس نفسیاتی رویے کے اظہارکے بعد اپنی زندگی کے اصل مسئلے کی طرف متوجہ ہوتاہے۔علی کیانی کو اپنے ساتھ بچوں،بیوی اور مہنگائی کاخیال آتاہے۔

علی کیانی کا ایک گناہ تو یہ تھا کہ اس نے بانو رضابہبانی سے رشوت لی تھی۔اس کادوسرا گناہ یہ ہے کہ وہ رسالے کے مدیر کو زبان بند رکھنے کے لیے رشوت دینے پر آمادہ کیا  ہے۔بانو رضا سے اس نے رشوت لی تو اس کی نفسیاتی تاویل پیش کی لیکن مدیرکو رشوت دینے کے متعلق کوئی تاویل نظم میں درج نہیں ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ وزیر معارف علی کیانی پوری طرح رشوت خوری جیسے مہلک مرض کاعادی ہو چکا ہے۔رشوت لینا اور رشوت دینااس کے مزاج کاحصہ ہوگیاہے۔اس بدعنوانی کے دوران اسے مطلق گناہ کاخیال نہیں آتا۔اگر اس کے خلاف کوئی انسان آواز اٹھائے تو وہ اسے بھی خرید لینے کاخواہشمندہے۔ علی کیانی نے خط میںمدیر شہیر کو رشوت دینے کے لیے جس طرح کلام کیا ہے،اس سے علی کیانی کی بے شرمی اور بے حیائی کااظہار بھی ہوتاہے۔راشد نے اس پورے کینٹو میں ایرانی معاشرے اورذمے داران حکومت کے غیر انسانی رویے کوگرفت میں لیا ہے۔انہوں نے پہلوی سلطنت میں راہ پانے والی کمزوریوں کو نمایاں کیاہے۔کینٹوکی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کی ان کمیوں اور کوتاہیوں نے بھی انقلاب ایران میں اہم رول ادا کیاہے۔

13    تماشہ گہہ لالہ زار تماشہ گہہ لالہ زار میں راشد نے ایران کے سیاسی اور معاشی بحران کو موضوع گفتگو بنایاہے۔وہ ایران کی سر زمین کو اس کے قدیم ماضی کے سیاق میں دیکھتے ہیں۔ایران کا سنہرا اور تابناک ماضی راشد کی نگاہوں میں چمک پید انہیں کرتا۔متکلم ماضی کی گمنام صداؤں میں گم نہیں ہونا چاہتابلکہ اس صداکی لامتناہی پہنائیوں میں جو آوازیں ضم ہو گئیں ہیں،متکلم ان آوازوں کی تلاش وجستجومیں محو ہوگیاہے۔متکلم ایران کے سیاق میں پورے مشرق کے تئیں نالاں ہے۔میوزک کے ذکر سے نظم کاآغاز ہوتاہے۔میوزک کی دھن انسان کو زندگی کی سچائیوں سے غافل کر دیتی ہے۔انسان میوزک کی دھن میں اس قدر محوہو جاتاہے کہ اس کی توجہ اطراف میں ہونے والی حرکات وسکنات کی طرف نہیں ہوتی۔متکلم نے فنی ہنر مندی کے ساتھ میوزک کارشتہ ماضی پرستی کی دھن سے قائم کیاہے۔راشد ماضی پرستی کے سیاق میں عرب اور عجم کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔عرب اور عجم کو ایک ساتھ دیکھنا پورے مشرق کو ایک وحدت خیال کرنا ہے۔عرب اور عجم دونوں کاماضی تابناک رہا ہے۔ جب ایران کا سورج اپنے شباب پر تھا اس زمانے میں تمام عرب ایران کے ماتحت تھا۔جب عجم کاسورج غروب ہورہا تھا توعرب کا سورج طلوع ہورہاتھا۔ایک وقت وہ بھی آیاجب عرب نے پورے ایران کو اپنے حصار میں لے لیا۔دونوں شکلوں میں عرب اور عجم ایک ہی تخت وتاج کے ماتحت رہے ہیں۔تقریباًایک ساتھ ہی عرب اور عجم کی اقتصادی اور سیاسی چمک بے نور ہو گئی۔راوی کی نگاہ میںعر ب اور عجم کو ایک ہی پیڑ کی دو شاخیں تصور کرتے ہیں۔لالے کا پھول سرخ رنگت کاحامل ہوا کرتاہے،جس کے اندورن میں سیاہ داغ بھی ہوتاہے۔وہ باغ جہاں لالے کے پھول کھلے ہوئے ہوں وہاں لالے کے پھولوں کی سیاہی بھی موجود ہوگی۔اس طور سے تماشا گہہ لالہ زار مشرق کے عروج وزوال کاعلامیہ بن گیاہے۔اس تماشاگاہ میں ایک طرف جہاں مشرق کاحسن نظرآتا ہے وہیں مشرق کے زوال کی سیاہی بھی نظرآتی ہے۔لالے کا حسن انسان کو اس قدر مسحور کر دیتاہے کہ وہ اس میں موجود سیاہی کی طرف متوجہ نہیں ہو پاتا۔مشرق کا انسان مشرق کے تابناک ماضی میں اس قدر گم ہے کہ وہ مشرق کی سیاسی اور اقتصادی شکست نہیں دیکھ سکتا۔

راشد نے کینٹومیں ایرانی تاریخ کی بہت خوبصورت امیجری کی ہے۔ اس امیجری میں ایران کاتابناک ماضی بھی جھلملاتاہے اور اس کے رستخیز کے مناظر بھی نظرآتے ہیں۔متکلم نے ایران کوایک ایسے پیر زال نوحہ گر سے مخاطب کیاہے،جس کے حسن وجمال کی چمک ماند پڑ چکی ہے۔ایک طویل مدت سے ایرانی جمال کاافسردہ ہو نااس بات کااشاریہ ہے کہ اب اس جمال کی روشنی کسی خطے کو منور نہیں کرسکتی۔’ہے مدت سے افسردہ جس کاجمال‘کافقرہ ماضی پرستوں پر ایک گہرا طنز ہے۔مدائن ایران کا پایہ تخت تھا۔حضرت عمر ابن خطاب ؓکے عہد میں حضرت سعد ابن ابی وقاصؓنے مدائن فتح کیا تھا۔ اسی طرح متکلم نے نئے ایرانیوں بلکہ پورے مشرق کو داستان کامحض ایک جزو قرار دیاہے اور ایرانی تاریخ پر گہرااثر ڈالنے والے نوشیرواں،زرتشت،داریوش،کیخسرواور کیقباد کواہم داستانوی کردار تصور کیاہے۔ ان لوگوں کو سالار کارواں کہنا ان کی عظمت کااعتراف ہے۔اس کے بعد ’تہہ خاک جن کے مزار‘کامصرع ان کے وجود کے ختم ہوجانے کااشاریہ ہے۔راشدنے اس مصرع کے ذریعے ماضی پرستی کی تردید کی ہے۔مطلب یہ کہ نوشیرواں،زرتشت،داریوش،کیخسرو،کیقباداور مدائن جیسی عظیم الشان کامیابی کی علامتیں ختم ہوگئیں۔ان کاذکر آج ایرانیوں کے وجود کی عظمت کاسبب نہیں بن سکتا۔ کینٹو میں متکلم بار با ر اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتاہے کہ ماضی کی طرف دیکھنابے سود ہے۔ راشدنے ماضی پرستی کی جس شدت کے ساتھ تنقید کی ہے،اس کی مثال کسی اور شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔متکلم یہ بھی کہتاہے کہ ماضی کے سنہرے خوابوں میں گم ہوکر آج کی زندگی کو فراموش کردینا،ماضی کے ان کرداروں کی توہین ہے۔ماضی کے ان عظیم کرداروں کی تعظیم اس بات میں مضمر ہے کہ آج انسان ان کی طرح اپنی زندگی میں بھی تحریک پیداکرے۔

Saquib Faridi

H-74, 4th Floor, Near Shahab Masjid,

Batla House, Muradi Road, Jamia Nagar

New Delhi- 110025

Mob.: 9911234188

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...