25/5/23

ہندوستان کا تہذیبی نظام ِفکر اور اردو زبان و ادب:عبدالرزاق زیادی

 

تلخیص

 ہندوستان ایک قدیم ملک ہے اور اس کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ہندوستان میں چار تا دو لاکھ سال قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں انسانی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں جبکہ ماہرین موہن جودڑو اورہڑپاکی کُھدائی سے حاصل ہونے والی باقیات کی بنیاد پر ہندوستان کی تہذیب وثقافت کو صرف3500سال قدیم تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم تہذیبی ورثے میں ویدک تہذیب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔زمانہ ٔ قدیم سے ہندوستان میں مختلف قومیں آتی اور آباد ہوتی رہیں۔ آریائی قوم، مغل حکمراں اور پھر انگریزوں کا ہندوستان میں آنا اور حکومت کرنا ہندوستانی تاریخ کے اہم باب ہیں۔ مختلف ادوار میں آنے والی ان اقوام نے جہاں ہندوستان کو اپنا مسکن بنایا اور اس کے تہذیبی ورثے سے بہت کچھ حاصل کیا وہیں انھوں نے اپنے ساتھ لائی ہوئی تہذیب و ثقافت سے ہندوستان کی قدیم تہذیب و ثقافت کو بھی متاثر کیا۔اس تہذیبی لین دین سے ہندوستان میں ایک ایسی تہذیب وجود میں آئی جس کو آج ہم مشترکہ یا ملی جلی تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ہندوستان کے تہذیبی نظام فکر میںو ہ تمام عناصرشامل ہیں جن سے یہاں کے ہر باشندے اور ان کے مذہبی اقدار و روایات کی نمائندگی ہوتی ہے۔ ہندوستان کی تہذیبی روایت کا خاصہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت ہے اور اسی پر اسے فخر و امتیاز بھی حاصل ہے۔

فنون لطیفہ کی تمام اصناف اور ہندوستان کی ہر ز بان و ادب کی طرح اردو زبان و ادب میں بھی ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی بھرپور عکاسی موجود ہے بلکہ خود اردو زبان و ادب کوہندوستانی تہذیب و ثقافت کی دین تسلیم کیا جاتا ہے۔جب ہندوستان میں مختلف قومیں آباد ہوئیں اور ان کا آپس میں میل جول ہوا تو اس کی وجہ سے ایک نئی زبان وجود میں آئی اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود اردو ہی تھی۔ ابتدا ہی سے اردو ادب کی تمام اصناف مثلاً نظم، غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، داستان، ناول، افسانے، ڈرامے وغیرہ میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔اردوکے ہر تخلیق کار و فن کار نے اپنے اپنے طور پر ہندوستان کی اس تہذیبی فضا کو نہ صرف اپنی تخلیقات میںجگہ دی ہے بلکہ اس کی ترویج و اشاعت پر انھیں امتیازو افتخار بھی حاصل ہے۔

کلیدی الفاظ

تہذیب و تمدن، معیشت،قبل مسیح، عہد قدیم، دراوڑ، ہڈپہ، آریہ،ویدک تہذیب، مشترکہ کلچر، یکجہتی، رواداری، امن و آشتی،  نظام ِ فکر، ذات پات، رسم و رواج، مذہب، اسلام، زبان، رسم و رواج، اختلاط، فنون لطیفہ، مصوری، خطاطی،موسیقی،مجسمہ ساز ی، فن تعمیر۔

——————

ہندوستان دنیا کے قدیم ملکو ں میں سے ایک ہے۔ اس کی تہذیب و تمدن، کلچر و ثقافت اور معاشرت و معیشت بھی زما نۂ قدیم۔ جدیدتحقیق کے مطابق ہندوستان میں انسانی سر گرمیاں چار تا دو لاکھ سال قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں شروع ہو چکی تھیں۔ تاریخ میں اسی کو عہد قدیم سے تعبیر کیا جاتاہے۔دنیا کی کون سی تہذیب و ثقافت کتنی قدیم ہے اس پر ماہرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موہن جودڑو اور ہڑپاکی کُھدائی سے حاصل ہونے والی باقیات کی بنیاد پر ہندوستان کی تہذیب وثقافت صر ف3500ق م سال قدیم ہے۔ہندوستان کے قدیم تہذیبی ورثے میں ویدک تہذیب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔عہد قدیم سے لے کرایک زمانے تک دنیا بھر کی مختلف قومیںہندوستان کی طرف اپنا رخ کرتی رہیں اور آباد بھی ہوتی رہیں مثلاً دراوڑ، ہڑپہ اور پھر آریائی قوموں کی یکے بعد دیگرے آمد اسی سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ ان اقوام نے اور ان کے ساتھ آئی ہوئی تہذیب نے جہاں ہندوستانی تہذیب کومتأثر کیا وہیں وہ خود اس سے مثاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ یہ اور بات ہے کہ اس تہذیبی لین دین کے باوجود بھی ان کی انفرادی شناخت ہمیشہ برقرار رہی۔ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں

’’جب ہم ہندوستانی تہذیب کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے یہ ہر گز نہ نکالناچاہیے کہ ہم نے ایک ساخت،اہم رنگ، ہمواراور کبھی نہ ٹوٹنے والے تسلسل کوہندوستانی تہذیب کا نام دے دیا ہے۔دوسرے ملکوں کی تہذیبوں کی طرح ہندوستانی تہذیب میں بھی ہمیشہ تغیرات ہوتے رہے ہیں، اور یہاں دوسری سر زمینوں کی تہذیبو ں کے دھارے آکر ملتے رہے ہیں جن میں سے کچھ مقامی تہذیب میںاس قدر گھل مل گئے ہیں کہ ان کی انفرادیت ختم ہوگئی اور کچھ ایسے تھے جنھوں نے اگرچہ ہندوستانی تہذیب کو متاثر کیا اور خود بھی اس سے متاثر ہوئے مگر اپنے آپ کو اس میں ضم کر دینے پر کبھی آمادہ نہ ہوئے۔‘‘ 

ڈاکٹر تارا چند کے اس قتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی وہ قدیم تہذیب،جو صدیوں سے چلی آرہی تھی اور جس کے اثاثے میں ویدک تہذیب شامل تھی اور جو بعد میں آریائی یا پھر ہندوستانی تہذیب کی شکل میںسامنے آئی، مختلف قوموں کی آمد،ان کے آپسی میل جول اور لین دین کے بعد ایک نئی تہذیب پروان چڑھی جس کو آج ہم ہندوستانی یا مشترکہ کلچرسے تعبیر کرتے ہیںاور جس کی راہداریاںیکجہتی،آپسی بھائی چارہ، رواداری، میل ملاپ، الفت ومحبت اورامن و آشتی کے چراغوں سے روشن ہے۔ ہندوستان کی قدیم تہذیبی فضا، اس کے عناصر ترکیبی، نظامِ فکر اور پھرمختلف قوموں کی آمد اور اس سے وجود پذیر ہونے والی تہذیب کی ایک تاریخ موجود ہے جس کا مطالعہ ہم کرتے رہتے ہیں۔

ہندوستان میں بیرونی ممالک سے آئی ہوئی اقوام کی آمد اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ ان کے میل جول،آپسی لین دین اور بھائی چارے سے قدیم ہندوستانی تہذیب کو حد درجہ پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا موقع ملا۔مغل حکمرانوںنے اس کے  عروج وترقی اور اسے پرُ ثروت بنانے کی نہ صرف کوششیں کی بلکہ علمی طور پر اس میں حصہ بھی لیا۔اس کی سب سے بڑی مثال مغلوں کے عہد میں دوسرے مذاہب میں شادی بیاہ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان ادوار میںمختلف مذاہب میں رہتے ہوئے شادی بیاہ کرنے اور ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب اور رسوم و رواج کے مطابق پوری آزادی کے ساتھ عمل در آمد ہونے کی اجازت تھی۔ خود باہر سے آنے والے ان لوگوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت خاص طور پر ہندوانہ رسم و رواج کو اپنا لیا تھا اور انھیں اپنے آئین میں شامل بھی کر لیا تھا۔عید، بقرعید،ہو لی، دیوالی، دسہرہ یا پھر کوئی اور تیوہار ہو ہر ایک میں ہر کوئی شامل ہوتا اور خوشیاں مناتا۔ یہ سلسلہ ان اقوام کی آمد سے لے کر انیسویں صدی تک قائم رہا جس کی بدولت یہاں کے باشندے ایک دوسرے سے بہت قریب آگئے۔لوگوں کا رہن سہن، طرز زندگی، لباس و پوشاک، وضع قطع، دلچسپیاں، ادبی سرگرمیوں میں ہر ایک کی نمائندگی و شراکت اور ہر ایک کا ایک ملی جلی زبان بولنا وغیر ہ اس عہد کے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی اہم مثالیں کہی جا سکتی ہیں۔اسی طرح ان ادوار میں چونکہ عوام کی زندگی سادہ اور عام سی ہواکرتی تھی اس لیے لوگ آپس میں خلوص و محبت، ایثار و ہمدردی اورایک دوسرے کاروادار و غم خوار بن کرزندگی گزارتے تھے۔ہندوستان کی یہی وہ قدیم تہذیبی فضا اور رنگ ہے جس میں آج بھی ہم خود کو رنگے ہوئے پاتے ہیں۔ بلکہ بقول سید عابدحسین کہ ’ہندوؤں اور مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے ذہنی عناصرسے قطع نظر کر کے دنیاوی عناصر پر نظر ڈالی جائے تو یہ دکھائی دے گا کہ جو اشتراک عہد مغلیہ کی ہندوستانی تہذیب نے ان میں پید ا کیا تھاوہ ناساز گار حالات کے باوجود بہت کچھ اب تک باقی ہے۔بلاشبہ وہی باقی ماندہ عناصر آج بھی ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھیں کی بدولت سارے جہاں میں ہندوستان کو وہ اعزاز و افتخار بھی حاصل ہے۔‘‘

 فنون لطیفہ کی تمام اصناف میں ہندوستان کا تہذیبی رنگ موجود ہے۔ ادب ہو یا صحافت،مصوری ہو یاخطاطی،موسیقی ہو یامجسمہ ساز ی یا پھر فن تعمیر ہو یا کوئی اور فن ہر ایک میں اس کے واضح نقوش اور نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مگر ان تمام میں، ادب میں اس کا رنگ قدرے گہرا نظر آتا ہے کیوں ادب نہ صرف اپنی تہذیبی فضا کا آئینہ دار ہوتا ہے بلکہ وہ اس کی آواز بھی ہوتا ہے۔ اس میں انسانی احساسات و جذبات کی مکمل تصویر کشی بھی شامل ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر ادب میںاس کے تہذیبی ورثے کو تلا ش کرنا کوئی مشکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی ہرزبان و ادب میں ہمیں اس کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی نظر آجاتی ہے۔ اردو زبان و ادب میںبھی اس کی سیکڑوں مثالیںموجود ہیں بلکہ عام ہندوستانی زبانوںمیں اس کو اس اعتبار سے بھی امتیازحاصل ہے کہ خوداس کا وجود اسی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی دین تسلیم کیا جاتا ہے۔

اردو زبان و ادب کا آغازو ارتقا ہندوستان کے ایک خاص معاشی و معاشرتی نظام اور اس سے پیدا ہونے والے مخصوص سیاسی و تہذیبی محرکات و عوامل کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ جن بنیادوں پر یہ ادب وجود میں آیا انھیں اساس پر اس نے ترقی کی منزلیں بھی طے کیں۔  اردو کے ممتاز شعرا ہی نہیں بلکہ ہر عہد کے تخلیق کاروں کے کلام میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور اس کی منظر کشی مل جاتی ہے۔اسی طرح نثرنگاران ِ اردو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی صنف نثرو ادب سے ہو، کے یہاں بھی ہمیں وہ سارے نقوش مل جاتے ہیں جن کو ہم اپنی تہذیبی وراثت کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ اردو کے ابتدائی ادوار سے لے کر موجودہ عہد تک کے شعرا و نثر نگاران کے یہاں وافر مقدار میں جہاں اس کی مثالیں موجود ہیں وہیں انھوں نے اس پر باعث اعزاز وا فتخار کا اظہار بھی کیا ہے۔ امیر خسروہوں یا ولی، میر ہوں یاغالب، اقبال ہوں یا فیض یا پھر بعد کے شعرا ہوں، اسی طرح وجہی ہوں یا میر امن، رجب علی بیگ سرور ہوں یا رسوا، پریم چند ہوں یا بیدی،قرۃ العین حیدریاعصمت یا پھر بعد کے نثر نگار و فکشن نگار ہوںہر ایک کے یہاں ان تمام موضوعات و مسائل کا ذکر و بیان موجوہے جن کا تعلق ہماری تہذیبی و ثقافتی، سماجی و سیاسی اور معاشی و معاشرتی زندگی سے ہے۔اردو کے کم ہی ایسے شعرا و ادبا اور نثر نگار ان ہوں گے جن کی تحریروں میں ہمیں ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگی اور بو قلمونیت کی عکاسی نہ دیکھنے کو ملتی ہو۔

اردو زبان و ادب کے ابتدائی ادوار میں تخلیق کاروں کو جن موضوعات و مسائل نے اپنی طرف ملتفت کیا اور انھوں نے ان کواپنی نگارشات کا حصہ بنایا ان میں تصوف کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔ چونکہ اس عہد کے ہندوستان کی تہذیبی فضا اور اقدارو روایات میں حد درجہ اشتراک و ہم آہنگی تھی بلکہ آج ہم جس کو وحدت میں کثرت یا کثرت میں وحدت سے تعبیر کرتے ہیں اس کا اطلاق سب سے زیادہ انھیں ادوار میں ہوتا تھا۔ ہر طرح کی عصبیت،بھید بھاؤ اور اونچ نیچ سے پرے لوگوں کے درمیان موجود آزاد خیالی، وسیع المشربی اور رواداری کو پیش کرنے کے لیے اس دور کے ادبا وشعرا کے لیے جو لفظ یا اصطلاح سب سے زیادہ موزوں و مناسب یا کار گر تھی وہ تصوف ہی کی اصطلاح تھی۔اس کے ذریعے انھوں ہندوستانی عوام کے ان احساسات و جذبات کو پیش کیا ہے جوصرف ہندستانیوں کی ہی نہیں بلکہ پور ی ا نسانیت کی آواز تھی۔پروفیسر محمد حسن اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’اردو ادب کے مزاج اورتہذیبی فضا پر ایرانی اور فارسی اثرات کی نشان دہی کرتے وقت مشترک آریائی پس منظر کو یاد رکھنا ضروری ہے جس نے قدیم فارسی اصطلاحوں ہی کونہیں بلکہ تصورات اقدار اور تہذیبی رویوں کو بھی ہندوستان میں رچابسا دیاجسے تصوف کہا گیا وہ اس مشترک اور ان مشترک اقدار کا فکری اظہار تھا۔ اسلامی تصوف کی نشو و نما زیادہ تر انھیں علاقوں میں ہوئی جہاں بدھ وہا ر تھے۔بلخ اور بخارا اس کی مثال ہیں۔ ہندوستانی اور ایرانی تصوف کے درمیان مشترک اقدار کی بنا پر آزاد خیالی، وسیع المشربی اور رواداری کی روایات نے اردو میں رواج پایا۔‘‘ 

اس طرح ان ادوار میں تصوف اظہار و بیان کی سطح پرنہ صرف ایک اہم موضوع قرار پایا تھا بلکہ تخلیق کاروں نے اسے ایک وسیلے کے طورپر استعمال بھی کیا اوراس کی مدد سے ہندوستا ن کی پوری تہذیبی و ثقافتی فضا کو پیش کیاہے۔ متصوفانہ ہونے کے باوجود ان تخلیقات میں قدم قدم پر ہندوستان کی اس تہذیب و ثقافت کی رنگ آمیزی دیکھی جا سکتی ہے جس کی جڑیں اب بھی ہندوستان کے تہذیبی مزا ج میں پیوستہ نظر آتی ہیں۔ امیر خسرو ہوںیا بعد کے ادوار کے شعرامثلاً ولی،میر، نظیر،غالب، مومن، اقبال یا پھر ہمارے عہد کے سخنوران، اسی طرح شمال و دکن کا داستانوی ادب ہو یا دیگر تخلیقات ہر ایک میں ہمیں ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کے واضح نقوش اپنی تمام تر تابانیوں اور بو قلمونیوں کے ساتھ نظر آجاتے ہیں۔

عام طور پر جب بھی اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بات ہوتی ہے تو نظیر اکبر آبادی یاان جیسے کچھ شعرا سے آگے ہما را ذہن نہیں پہنچ پاتا ہے۔حالانکہ ہر عہد کے شعرا کے یہاں،ان کی پوری شاعر ی تو نہیں البتہ کچھ اشعار ایسے ضرور مل جاتے ہیں جن میں ہم ہندوستانی سماج اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کا عکس و رنگ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ایک  دور ایسا بھی گذرا ہے جس میں ایک فرد نہیں بلکہ اس کا پورا معاشرہ ہی شاعری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس دور کی شاعری میں عشق و عاشقی ہو یا پھردیگر موضوعات و مسائل کا اظہار و بیان ہر ایک میں تہذیبی و سماجی رنگ غالب تھا۔ اردو مثنویاں اس کی واضح مثال ہیں اور ان میں جو داستانیں منظو م ہوئی ہیں ان کو پورے معاشرے نے نہ صرف ذہنی اور جذباتی طور پر قبول کر لیا ہے بلکہ انھیں استناد کا درجہ بھی عطا کر دیا ہے۔اس طرح یہاں ایک فرد یعنی شاعرصرف اپنی ذات کا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور اس کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے مگراردو شاعری میں اجتماعی معاشرتی اظہار کی روایت ولی تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتی ہے۔بقول پر وفیسر محمد حسن

’’ولی سے پہلے اردو ادب کم و بیش معاشرتی اور اجتماعی اکائی کا ادب ہے... ولی کے یہاں پہلی بار فرد الگ سے نظر آنے لگتا ہے۔ گو اب بھی معاشرہ ہم آواز ہے اور ولی درد فراق سے زیادہ محبوب کی صفات معاشرے کے قبول کردہ محاسن اور اقدار کی روشنی میں کرنے اور پورے دور کور وشنی دینے والی تشبیہوں اور استعاروں سے محبوب کا پیکر سجانے میں زیادہ محو ہیں مگر فرد کی انفرادیت کا ہلکا سا پر تو بھی کلام میں شامل ہو گیا ہے کہ ولی کا کلام نہ محض تصوف ہے نہ محض جمال پر ستی۔ ولی ایک سانس لیتا ہوا جیتا جاگتا انسان بھی ہے۔ ولی کا دیوان شمالی ہند پہنچا تو یہاں بھی معاشرہ ہی شاعری کر رہا تھا۔ آبرو، ناجی، مضمون، حاتم، سبھی کی شاعری معاشرے کی شاعری ہے جس میں ان کی اپنی شخصیت محض رنگ کی ایک موج تہ نشیں کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس معاشرے کے ٹوٹنے بکھرنے کی آواز واضح طور پر پہلی بار شمالی ہند میں نظیر اکبر آبادی کے یہاں اُبھرتی ہے۔ شہر آشوب اسی کا اظہار ہے۔آگرے سے دہلی تک اقتصادی زندگی اور اس سے پیداشدہ معاشرے کا بحران عام تھا اس نے فر د کو معاشرے سے کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ نظیر کے ہاں فرد اور معاشرے کی اس بکھرتی ہوئی ہم آہنگی اور ٹوٹتی ہوئی اکائی کی آواز ہے مگر معاشرہ فرد سے پوری طرح الگ نہیں ہوا ہے اور فرد میں سماج کی آوا ز گونجنا بھولی نہیں ہے۔‘‘ 

متذکرہ بالاا قتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اجتماعی و معاشرتی اکائی کے ٹوٹ پھوٹ کی یہ نئی روایت ولی سے شروع ہوکر میر ونظیر،غالب و مومن، اقبال اور فیض و فراق کے ادوار سے ہوتی ہوئی ہمارے عہد تک پہنچتی ہے۔ولی کے بعد کے ادوار میں شاعر کے فردو انفرادیت کے باوجود اس کے یہاں پورا سماج و معاشرہ ہم آواز ہوتا ہے۔

کسی بھی عہد کا ادب اس وجہ سے بھی اپنے سماج کاآئینہ دار ہوتا ہے کیونکہ وہ اسی سماج و معاشرے اور اقدار و روایات کی پیداوار ہوتا ہے۔کوئی بھی تخلیق کاراگر اپنی کوئی تخلیقی کاوش پیش کرتا ہے تو وہ فضا میں نہیں تخلیق ہوتی بلکہ اس کے لیے وہ اسی سماجی و تہذیبی زندگی سے مواد کشید کرتا ہے۔ اردو کے ادبا و شعرا اورنثر نگاران اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انھوں نے بھی ہندوستان میں صدیوں سے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہندو مسلم قوموں کی زندگیاں، ان کے مسائل و معاملات،طور طریق، رہن سہن، فکر و مذہب، مزاج و مذاق، اخلاق و عادات، رسم و رواج، علمی و ادبی ذوق وشوق یہاں تک کہ ا ن کی اقدار و روایات کو بڑی خوبی و فنکاری کے ساتھ اپنی نگارشات میں جگہ دی ہے۔ ذیل میں نمونے کے طور پر کچھ اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا

 (میر)

نہیں کچھ سبحہ و زُنار کے پھندے میں گیرائی

وفادار ی میں شیخ و بر ہمن کی آزمائش ہے

 (غالب)

اللہ رے گمرہی بت و بتخانہ چھوڑ کر

مومن چلا ہے کعبہ کو ایک پارسا کے ساتھ

 (مومن)

یہ اور اس طرح کے اور بھی اشعار مل جائیں گے جن میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اوراس کے عناصر کو بڑی خوبصورتی کے پیش گیا ہے۔ان میں ہندوستان کے فکرو فلسفہ،ایمانیات و روحانیات، تصوف و مذہبیات،حسن وعشق، سیرو تفریحات جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ ہندو اورمسلمان کے تیوہار بھی موجود ہیں۔نیز ان میں مختلف مقامات و تیوہار میں ہر قوم کے لوگوں کے شریک ہونے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا ذکربھی دیکھا جا سکتاہے۔ نظیر اکبر آبادی کی نظمیں نہ صرف اس کی عمدہ مثال ہیں بلکہ نظیرکو تو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا مفسر و ترجمان تسلیم کیا گیاہے۔ ان کی نظموں میں جو تہذیبی فضا ابھر کر سامنے آتی ہے اس میں آج بھی پورا ہندوستان سانس لیتا ہوا نظر آتاہے۔

 اردو شاعری کے مزاج کا یہ حصہ رہا ہے کہ اس کے شعرا نے ہمیشہ سے اپنے دین و مذہب سے کہیں زیادہ دیگر مذاہب کی خوبیوں اور ان کے تلازمات کو اپنے کلام میں سراہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نظیر ایک مسلم شاعر تھے مگر انھوں نے جس طرح اپنے مذہبی امور، عقائد و معاملات اور تیوہاروں کا ذکر کیاہے اس سے کہیں زیادہ دیگر مذاہب کے مذہبی عقائد و فلسفہ اورتیوہاروں کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ جس طرح اردو کے غیر مسلم شعراکے یہاں مسلموں کے عقائد و نظریات اور ان کے طرز زندگی کی ترجمانی ملتی ہے اسی طرح یا  اس سے بھی کہیں زیادہ زوردار انداز میں نظیر کی نظموں میں ہندوانہ عقائد اور رسم و راج دیکھنے کو ملتے ہیں بلکہ بقول ایک ہندی ادیب کے’نظیر نے اذان بھی دی اور سنکھ بھی پھونکا، تسبیح بھی لی اور جنیو بھی پہنا، محرم میں روئے تو ہولی میں بھانڈ بھی بنے، رمضان میں روزے رکھے تو سلونوں پر راکھی باندھنے کو مچل پڑے، شبرات(شب برات) پر مہتابیاں چھوڑیں تو دیوالی پر دیپ سجائے، نبی، رسول، ولی، پیر، پیغمبرکے لیے جی بھر کے لکھا تو کرشن، مہادیو، نرسی، بھیروں اور نانک کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا۔ گل و بلبل پر کہاتو آم اور کوئل کو پہلے یاد رکھا۔ پر دے کے ساتھ بسنتی کی ساڑی بھی یاد رہی۔اور تو اور گرمی، برسات اور سردی پر بھی لکھا۔ بچوں کے لیے ریچھ کا بچہ، کوّا اور ہرن، گلہری کا بچہ، تربوز، کنکوے بازی، بلبلوں کی لڑائی، ککڑ ی، تیراکی، تل کے لڈؤں پر لکھنے بیٹھے تو بچہ بن گئے، ہر ایک بچہ گلی کوچے میں گاتا پھر رہا ہے۔ جوانوں اور بوڑھوں کو پنددینے بیٹھے تو لوگ وجد میں آگئے۔ جیسے قرآن، حدیث، وید، گیتا، اپنشد، پُران، سب گھول کر پی جانے والا کوئی پہونچا ہوا بزرگ بول رہا ہو۔ـ‘ اس حوالے سے نظیر کی نظموں میں ہولی، ہولی کی بہاریں، بلدیو جی کا میلہ، دوالی کا سامان، راکھی کے ساتھ ساتھ عیدالفطر، عیدگاہ اکبرا ٓباد وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں۔

ہولی ہو یا دیوالی یا پھر دسہرہ ہر ایک کی نظیرکے یہاں نہ صرف بھر پور عکاسی دکھائی دیتی ہے بلکہ وہ ان میں خود بھی بہت دلچسپی لیتے اور ہر تہوار و جشن میں شریک ہو کرخوب لطف اٹھاتے۔یقینا یہ تب کی بات ہے جب ہندو مسلمان قوموں میں کوئی علاحدگی و بیگانگی نہ تھی بلکہ اس کے برخلاف سارے ہندوستانیوں کے درمیان میل ملاپ کا ماحول تھا اور ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر ہر تہوار منایا کرتے تھے۔یہ ہماری ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور مشترکہ کلچر کی عمدہ مثال تھی۔ ہولی ہر عہد میں تہوار کے ساتھ ساتھ دل بستگی کا بھی ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ نظیر بھی اس کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہیں اور خود بے نوا کا سوانگ بھر کرخوش رو ؤں کے ہمراہ ہوجاتے ہیں اور گلیوں کا گشت لگاتے ہیں۔

نظیر اکبر آبادی کی طرح اردو کے دیگر نظم گو شعرا کے یہاں بھی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کے نمونے موجود ہیں۔میر حسن اور دیا شنکر نسیم کی مثنویاں،سودا، ذوق اور محسن کاکوروی کے قصائد، انیس و دبیر کے مرثیے صدیوں سے چلی آرہی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے حقیقی مظہر کہے جا سکتے ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، علامہ اقبال، چکبست، جمیل مظہری، خلیل الرحمن اعظمی،کمار پاشی، شاد عارفی،حرمت الاکرام،ن۔م۔ راشد، میراجی، مخمور سعیدی،اسلم آزاد، پرویز شاہدی، مظہر امام، وزیر آغا، صلاح الدین پرویز اور شہریار وغیرہ کا شمار اردو کے ممتاز نظم نگار شاعروں میں ہوتا ہے۔ان کی متعدد نظموں میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ مناجات بیوہ ( حالی)ہندوستانی بچوں کا قومی گیت(اقبال) میں گوتم نہیں ہوں(خلیل الرحمان اعظمی) ولاس یاترا(کمار پاشی)،اندھیر نگری سہرہ، ہولی،دیوالی، گنگا اشنان،مندرجانے والی(شاد عارفی)، اماو س کاچاند(حرمت الاکرام)،پرانی فصیل، تبدیلی، گوزہ گر(اختر الایمان) حرامی،ترغیب، تو پاربتی میں شو شنکر، دور کرو پیراہن کے بندھن کو( میراجی)، سرسوتی، گنگا آدرش(مظہرامام)شگون (مخمور سعیدی)، زہر کا سمندر (لطف الرحمان)،چتا( اسلم آزاد)،کاکا(محمد علی)، نروان، یاترا، ملن (وزیر آغا)، دیو داس( صلاح الدین پر ویز) وغیرہ اردو کی ایسی شاہ کار نظمیں ہیں جن میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ہزاروں جلوے  بیک وقت نظر آتے ہیں۔ ذیل میں نظمیہ شاعری کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں       ؎

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

ابر کے دوش پرلاتی ہے ہوا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سرو قدانِ گوکل

جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول امل

 (قصیدہ محسن کاکوروی)

چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میںوحدت کا گیت گایا

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا

جس نے حجازیوں ے دشت عرب چھڑایا

 میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

 (اقبال)

صندل کی ہے چتا بنائی اور پھولوں سے سنواری

سولہ سنگاروں سج کر آتی ہے تیری پیاری

پہلے برہا کی اگنی میں رات ہوئی تھی جل کر

پھر سکھ سیج کی راتیں دیکھیں گود میںتیری مچل کر

لیکن تونے بات نہ رکھی چھوڑ گیا یوں پیچھے

جیسے ساون رت بھادوں کے تیرگی جھڑیاں چھوڑے

 (نظم ’آخری سنگار‘، میراجی)

اردو شاعری کی متعدد اصناف کی طرح اردو فکشن میں بھی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور اس کی اقدار وروایات کی عکاسی کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاعری کی بہ نسبت فکشن میں ہر سماج و معاشرے کی تصویر کشی زیادہ صاف اور واضح ہوتی ہے۔ اردو فکشن بھی اس اعتبار سے تہی دامن نہیں۔ داستان ہویا ناول یا پھر مختصر افسانے ہر ایک میں اس کے ہزاروں جلوے دیکھے جا سکتے ہیں۔اردو فکشن کی تمام اصناف میں داستان کو اس حیثیت سے بھی تقدم حاصل ہے کہ اس کا دامن حد درجہ وسیع ہوتا ہے اور اس میں پوری ایک کائنات کو سمو لینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ناول اور افسانے کے مقابلے داستانوں میںہمارے لوازمات زندگی، رہن سہن، طور طریق، آداب و اطوار، عقائد و مذہبیات کا ذکر پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان میں مختلف گروہوں،طبقوںاور افراد کا ذکر ایک وسیع پیمانے پر ہوا ہے۔

گویااردو کی یہ داستانیں ہماری سماجی زندگی، بودو باش اور معاشرت و معیشت کے مرقعے ہیں اور ان میں وہ تمام تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات موجود ہیں جن پر آج ہماری تہذیب و ثقافت کا قلعہ کھڑا نظر آتاہے۔ مختلف علاقوں کے رہن سہن، مذہبی تصورات و عقائد،لباس و پوشاک، بول چال کی زبانیں،ندی نالے، پھل پھول، اٹھنے بیٹھنے کے ادب و آداب،کھان پان،مختلف مواقع پرانجام پانے والے رسوم و رواج، بولی ٹھولی غرض یہ کہ ان داستانوں میں ان تمام عناصر و عوامل کو بڑی خوبصورتی اور فنکاری کے سا تھ پیش کیا گیا ہے جن کو ہمارے تہذیبی و ثقافتی سرمایے میں گراں قدر اہمیت و و قعت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ’داستان امیرحمزہ سے ساحری اور عیّاری نکال لیجیے تو باقی جو رہے گی وہ لکھنؤ کی تہذیب ہے۔‘یہ بات صرف ’داستان امیر حمزہ ‘تک ہی محدود و مخصو ص نہیں بلکہ اس کا اطلاق ہر اردو داستان یا داستانوی ادب پر کیا جا سکتا ہے۔اس امر کی مزید تائید کے لیے ذیل میں اردو داستانوں کے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں

’’دن رات دکانیں کھلی رہیں، قریب قریب ناچ ہو، ان کے کھانے کا صرف تعرفی باورچی خانے میں ٹھہرا۔ ہندوؤ ں کو پوری کچوری، مٹھائی، اچار، مسلمانوں کو پلاؤ، قلیہ، زردہ، قورمہ، آبی، دوسرے شیرمال، فرنی کا خوانچہ، طشتری کباب کی بہت آب تاب کی۔‘‘ 

’’ایک بڑھیا، شیطان کی خالہ۔ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھول کر بدھڑک چلی آئی، اور سامنے ملکہ کے کھڑے ہو کر دعا دینے لگی۔ ’’ الہٰی ! تیری نتھ جوڑی سہاگ کی علامت رہے، اور کماؤ کی پگڑی قائم رہے ! میں غریب رنڈیا فقیر نی ہوں۔ ایک بیٹی میری دو جی ہے پورے دنوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ میں اتنی وسعت نہیں کہ ادّھی کا تیل چراغ میں جلاؤں، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گور کفن کیوں کر کہوں گی اور جنی تو دائی جنائی کو کیا دوں گی اور جچّا کو ستھورا چھوانی کہاں سے پلاؤں گی؟ آج دو د ن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اے صاحبزادی ! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا، تو اس کو پانی کا ادھار ہو۔‘‘ 

ان اقتباسات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ داستانوں میں نہ صرف ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور انسانی سماج و معاشرے کی تصویر کشی موجود ہے بلکہ ہر داستان اپنے آپ میں ایک تہذیبی تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان داستانوں کی مدد سے ہم  ہندوستان کے ان ادوار کی تاریخی و سماجی، تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی و معاشرتی زندگیوں سے بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ داستانیں وجود میں آئیں تھیں یا پھر جن کو موضوع بنا کر ان کی تخلیق عمل میں آئی تھی۔داستان امیرحمزہ ہو یا فسانۂ عجائب، باغ و بہار ہو یا کوئی اور داستان ہر کوئی اپنے عہد کا مرقع معلوم ہوتی ہیں۔ سید عابد حسین اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’ معاشرتی زندگی میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے جو اثر ایک دوسرے پر ڈالا ہے اس کی وجہ سے ان کے رسم و رواج میں جو یکسانی پیدا ہوئی وہ حیرت انگیز ہے اس لیے کہ دونوں کے معاشرتی ادارے ان کے مذہبی عقیدوں سے بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں اور ان عقیدوں میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ ڈاکٹر تار ا چند فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستانی زندگی کے مختلف شعبوں پر جو اثر ڈالا اس کو جس قدر اہمیت دی جائے کم ہے۔ مگر سب سے زیادہ فصاحت اور خوشنمائی کے ساتھ یہ اثر روز مرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں گانے بجانے میں، وضع قطع اور لباس میں، کھانے پینے کے طریقوں میں اور شادی اور بیاہ کی رسموں میں میلوں اور تہواروں میں مرہٹہ، راجپوت اور سکھ رئیسوں کے دربار کے آداب نظر آتے ہیں۔‘‘ 

داستانوں کی طرح اردو ناولوں اور کہانیوں میں بھی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے نقو ش دیکھے جاسکتے ہیں۔ نذیراحمد، راشدالخیری،عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار،قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ہوںیا بعد کے ناول نگاران، اسی طرح کہانی کاروں میں پریم چند ہوں یا بعد کے ادوار میں سامنے والے افسانہ نگاران یا پھر آج کے دور میں جو ناول اور افسانے تخلیق کرنے والے ہیں ہر ایک کی تخلیقات و نگارشات میں ہندوستان کی وہ تہذیبی و ثقافتی فضا ضرور دکھائی دیتی ہے جس کو ہم مشترکہ تہذیب یا کثر ت میں وحدت اور وحدت میں کثرت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ابتدائی دور کے ناولوں میں اگرچہ اس کے نقوش دھندلے دھندلے سے نظر آتے ہیں مگر بعد کے اور بالخصوص آزادی کے بعد لکھے گئے ناولوں میں وہ زیادہ واضح اور صاف دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ آزادی کے بعد اس نوعیت کے ناو ل زیادہ تعداد میں لکھے گئے جن میں ہندوستان کی تہذیبی روایت کی شکست و ریخت یا پھر اس کی بازیافت کی داستان بیان کی گئی ہے۔

قرۃالعین حیدر کے بیشتر ناولوں میں اگرچہ طبقۂ اشرافیہ کی تہذیبی قدریں اور ثقافتی اقدار وروایات کی ترجمانی کو فوقیت حاصل ہے مگر اس نسل کے لکھنے والے دیگر اور بیشتر ناول نگاروںکے یہاں وہی ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور عوامی زندگی موجود ہے جس کوہم  ہندوستانیت کا نام دیتے ہیں۔قاضی عبدالستار، جیلانی بانو،حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، ظفر پیامی، پیغام آفاقی، غضنفر، سید محمد اشرف، خالد جاوید، انور خان اور شبیر احمد وغیرہ کے نام ا س حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ان ناول نگاروں کی تخلیقات کی قرأت سے ہم بڑی آسانی کے ساتھ ہندوستان کی تہذیبی تاریخ، ثقافتی زندگی اوراس کے ذہن و فکر کو تلاش کر سکتے ہیں۔  کچھ اہم ناولوں کے اقتباسات آپ بھی ملاحظہ فرمائیں

’’حیدر آباد کی اس مشترکہ تہذیب کی بنیاد قطب شاہ رکھ گیا تھا۔ اس نے بھاگ متی کو ملکہ بنا ہندوستانی لباس پہن کر، ہندوستانی تہوار منا کر اور تیلگو میں شاعری کر کے ہندوستانی تہذیب کو ملانے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی تھی بلکہ وہ اس کلچر میں رنگ جانے پر مجبور تھا جو اس کے آس پاس تھا۔یوں ہی جیسے اکبر غیر شعوری طور پر ہندوستانی تہذیب میں رنگتا چلا گیا۔ واجد علی شاہ نے ہولی کھیلی۔‘‘

’’انھوں نے ( نظام نے)جاگیر، منصب اور خطاب دیتے وقت کبھی ہندو اور مسلمان کی اصطلاح میں نہیں سوچا تھا۔ حیدر آباد کے برہمن شیروانی پر تُرکی ٹوپی پہنتے تھے اور اردو اخبار پڑھنے سے کبھی ان کا دھرم خطرے میں نہیں جا پڑتاتھا، بہت سی ہندو عورتیں ڈیوڑھیوں میں بیگمیں بنی بیٹھی تھیں، مگر کسی ہندو کو غیر ت کی ٹھیس نہیں لگتی تھی۔ چیچک کی وبا پھیلتی تومسلمان عورتیں دیوی پر چڑھا وے چڑھاتی تھیں اور درگاہوں کے عُرس میں ہندوؤں کی جانب سے نذروں کے خون آتے۔بی بی کے علم پر مسلمانو ں سے زیادہ ہندوؤں کی جانب سے شربت کی سبیلیں لگتی تھیں۔ چاندی کے چاند اور پنجے چڑھاتے تھے، رمضان میں ہندوؤ ں کے ہاں سے مسجدوں میں افطار بھیجی جاتی تھی۔‘‘

’’ریاست کا ہر مسلمان تیلگو جانتا تھا، تمام ہندو لڑکے اردو میڈیم سے پڑھتے تھے مگر انھیں کبھی مادری زبان کی طرف سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھاکیونکہ ابھی ان کے دلوں میں شک و نفرت کی ایسی آگ نہیں بھڑکی تھی جو خلوص کے ہر پھول کو جلاڈالتی ہے۔‘‘ 7؎

 اردوناول کی طرح کثیر تعداد میں ایسے افسانے بھی تخلیق ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں، جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مرقعے کہے جاسکتے ہیں۔پریم چند سے لے کر معاصر اردو افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر ایک نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہ ہوگا کہ ان میں ہماری سماجی و معاشرتی ا ور تہذیبی و ثقافتی زندگی کی نمائندگی موجود ہے۔پریم چند، حیات اللہ انصاری،کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، منٹو، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، انور عظیم، رام لعل، اقبال متین، واجدہ تبسم، اقبال مجید، جوگندر پال، غیا ث احمد گدی، رتن سنگھ، قاضی عبدا لستار، سریندر پرکاش، بلراج مینرا، بلراج کومل، شرون کمار ورما، ترنم ریاض، شوکت حیات، جیلانی بانو، کمارپاشی، شفق، حمید سہروردی، قمر احسن،شموئل احمد،غضنفر، پیغام آفاقی، سلام بن رزاق، انور خان، سید محمد اشرف، خالد جاوید، ذکیہ مشہدی اور صادقہ نواب سحروغیرہ اردو افسانے کے اہم نام ہیں۔ ان کے افسانوںمیں ہمیں اپنی جیتی جاگتی تصویریںنظر آتی ہیں۔ ان میں جہاں زندگی اور مسائل زندگی سے متعلق موضوعات موجود ہیں وہیں ان میں وہ تہذیبی عناصر بھی موجود ہیں جن کی بدولت آج ہماری تہذیبی زندگی روشن و تابناک ہے۔

عام طور پر ابتدا سے ہی ہندوستان کی سماجی و معاشی پست حالی، عشق و محبت، ہندوستان کی سیاسی جد وجہد، مذہبی کھوکھلا پن اور انتہاپسندی کے خلاف جہا د وغیرہ اردو کہانیوں کے موضوعات رہے ہیں۔ جنس کاتصور، زندگی کو نئے نقطہ ٔ نگاہ سے دیکھنے اور برتنے کا تصور، سرمایہ داری کے خلاف آواز اور مساوات کے تصورات وغیرہ کوفروعی موضوعات کے طور پر ہر افسانہ نگار نے اپنے اپنے طور پر برتنے اور انھیں اپنے بیانیے کاحصہ بنانے کی کو شش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی کہانیوں میںشعوری اور غیر شعوری طور پر ہندوستان کا تہذیبی رنگ بھی ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ قرۃ العین کے ساتھ ساتھ د یگر افسانہ نگاروں کے یہاں بھی گرچہ جاگیردارانہ تہذیب کے زوال اور اس کی ٹوٹتی بکھرتی زندگی کے گہرے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو ہرافسانہ نگار نے اپنے افسانوں اور کہانیوں میں اسی زندگی اور اس کے مسائل و معاملات کو پیش کیا ہے جس کا کوئی نہ کوئی سرا ہماری تہذیب وثقافت سے ضرور ملتا ہے۔ بلکہ افسانے کی تاریخ ہی ہماری تہذیبی و معاشرتی زندگی سے عبارت ہے۔

اس طرح اردو افسانوں میں کائنات سے لے کر ذات تک کے جہاں ہر طرح کے موضوعات کا بیان ہے وہیں ان میں ہماری تہذیب اور اقدارو روایات کی ترجمانی و پیش کش بھی اپنی تمام تر نزاکتوں اور نشیب و فراز کے ساتھ موجودہے۔ ہندوستان کوجس طرح تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے ایک گلستان کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح کے دامن میں کھِلے ہر پھول کی اپنی ایک انفرادیت بھی ہے۔ اردو افسانے جہاںہندوستان کی ملی جلی تہذیب و ثقافت کا ایک خوبصورت البم ہے وہیں وہ تہذیبی و ثقافتی سطح پر اس انفرادیت کو بھی پیش کرتے ہیں جو ہندوستان کے ہرخطے وعلاقے کا اپنا اختصاص و امتیاز ہے۔

غرض یہ کہ ہندوستان کو تہذیبی و ثقافتی سطح پر پوری دنیا میں افتخار و امتیاز حاصل ہے۔اس کا تہذیبی ورثہ پُر ثروت و متمول ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تایخ بھی حد درجہ قدیم ہے۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت جہاں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا خاصہ ہے وہیں اس کا مشترک کردار اس کی روح ہے۔ ہندوستان کوجن اسبا ب و عوامل اور وسائل و ذرائع کی بنیاد پر سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا گیا ان میں ایک سبب اس کا یہ تہذیبی و ثقافتی کر دار بھی ہے۔ ہندوستان کی دیگر زبانوں اور فنون لطیفہ کی مختلف اصناف  کی طرح نہ صرف اردو زبان ادب میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بڑے پیمانے پر نمائندگی وترجمانی موجود ہے بلکہ اس نے اس کے فروغ میں ہر عہد اور ادوار میں کلیدی رول بھی ادا کیا ہے اور یہ خود ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا استعارہ بن گئی ہے۔

حواشی

  1.       ہندوستانی کلچر کا ارتقا تاریخ کے آئینے میں، تارا چند، شائع کردہ شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی1967، ص 15
  2.       دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر(عہد میر تک)، محمد حسن، ادارہ ٔ تصنیف، ڈی 7، ماڈل ٹاؤن، دہلی، ص 10
  3.       ایضا، ص 20
  4.       فسانہ ٔ عجائب، ص 198
  5.       باغ و بہار، میر امن، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی، ص 202
  6.       ہندوستانی تہذیب، سید عابد حسین، مطبوعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1958ص 64-65
  7.       ایوانِ غزل، جیلانی بانو، ناولستان،جامعہ نگر، نئی دہلی، 1976، ص 100-109

Abdur Razzaque Ziyadi

House No.372/14 (Fourth Floor), Ghaffar Manzil
Jamia Nagar, Okhla,
New Delhi-110025  
Mobile No.: +919911589715
E-mil: arziyadi@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...