اس مضمون میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے مجلہ
فکر و تحقیق کے اداریوں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چوںکہ
شعر و ادب کے رحجانات اور نظریات میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے
’فکر و تحقیق‘ کے اداریوں میں بدلتے ہوئے حالات کے تحت اردو تحقیق و تنقید کے مسائل
اور معیار کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، اس مضمون میں ان کی نشاندہی
کی گئی ہے کیوںکہ یہ ایک خالص علمی و تحقیقی نوعیت کا رسالہ ہے، اس کے اکثر و بیشتر
اداریوں میں تحقیق میں جدت پیدا کرنے، فرسودہ موضوعات سے پرہیز کرنے اور سائنس و ٹیکنالوجی
سے استفادہ کر کے نت نئے موضوعات پر تحقیق کرنے پر جو زور دیا گیا ہے، اس پر بھی روشنی
ڈالی گئی ہے۔ ’فکر و تحقیق ‘کے اکثر شماروں میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کے
گرتے ہوئے معیار پر جس طرح تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اس معیار کو بلند کرنے کے
لیے جو تجاویز پیش کی گئیںہیں، ان کا ذکر بھی اس مضمون میں کیا ہے۔
کلیدی
الفاظ
فکر و تحقیق، اداریہ، اشاریہ، مضامین، مخطوطات، توضیحی اشاریہ،
نظم، غزل، خاکہ، ناول
————
اداریہ کسی بھی اخبار یا ادبی
رسالے کی روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اخبار میں جہاں مختلف طرح کی خبریں،
کالم، تبصرے اور مضامین ہوتے ہیں وہیں ادبی رسالے میں بھی مختلف موضوعات پر مضامین
شائع ہوتے ہیں۔ لیکن اخبار ہو یا ادبی رسالہ ہر ایک کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے، جسے ہم حکمت عملی یا پالیسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ تمام
ادبی رسالوں میں اداریے سے ہی اس رسالے کے مزاج و معیار اور سمت و رفتار کا اندازہ
ہوتا ہے۔ ’ فکر و تحقیق‘ شروع سے آج تک اپنے اداریوں میں یہ فریضہ انجام دیتا رہا
ہے۔
’فکروتحقیق‘
کا اجرا 1998 میں ہوا لیکن اس کا ابتدائی شمارہ کوشش کے باوجود راقم کو دستیاب نہیں
ہو سکا۔ یہاں میرے پیش نظر اپریل، مئی، جون 1999 کا شمارہ 2 ہے۔ اس شمارے کے پہلے صفحے
پر مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ کا نام درج ہے۔ مدیر انوار رضوی ہیں
اور جزوقتی صلاح کار کے طور پر کمال احمد صدیقی کا نام نظر آتا ہے۔ اس شمارے کے اداریے
میں ان مضامین اور مضمون نگاروں کا ذکر کیا گیا ہے جو اس میں شامل ہیں۔ اداریے کے تحقیقی و تنقیدی جائزے
سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادارہ فکر و تحقیق نے بہت ہی اہم موضوعات پر اردو کے مانے ہوئے قلم کاروں سے
مضامین لکھوائے ہیں۔ اس شمارے کا پہلا مضمون ملا محمدخطا شوستری کے سفر نامہ ’جام جہاں
نما‘سے متعلق ہے۔ پروفیسر سید امیر حسن عابدی نے اس اہم اور نایاب سفر نامے کا جائزہ
پیش کیا ہے۔ اسی طرح رشید حسن خاں کے مضمون بعنوان ’کلاسیکی متون کی تدوین کیسے ہوگی؟‘
کے بارے میں اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ’اردو متون کی تدوین جیسی رشید حسن خان نے کی
ہے ایسی کسی اور نے نہیں کی۔‘ اداریے میں تدوین
کو ایک مشکل عمل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
’
’یہ ایک بہت جو کھوں کا کام ہے۔ تکنالوجی کی ترقی کی وجہ
سے متون انٹرنٹ پر بھی فراہم ہو سکتے ہیں، فیکس سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، لیکن اردو
والوں کو یہ سہولت ابھی حاصل نہیں ہے۔ کلاسیکی متون کی تدوین پر، یہ مقالہ خاص فکر
و تحقیق کے لیے رشید حسن خاں نے ہماری فرمائش پر لکھا ہے۔‘‘1؎
اداریے میں راج بہادر گوڑ کے مضمون ’فرقہ واریت کے خلاف
پریم چند کا جہاد‘ کے بارے میں چند سطریں لکھی گئی ہیں لیکن ان چند سطروں میں ہی پریم
چند کے فکر و فن اور نظریات کا احاطہ کرلیا گیاہے۔ اس اداریے میں مثنوی سحرالبیان پر
لکھے گئے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے ’سحرالبیان‘ جیسے شاہکار کی متنی تنقید اور تدریس
کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح اداریے میں شاعری اور موسیقی کے اٹوٹ رشتے پر
تبصرہ ڈاکٹر شکیل جہانگیری کے مضمون ’چہاربیت کا تاریخی پس منظر‘ کے حوالے سے پیش کیا
گیا ہے۔ ’فکر و تحقیق‘ کے اس شمارے میں نریندر
لوتھر کا مقالہ ’ہندوستانی جمالیات کشمیر اور اردو‘ ہے۔اداریے میں اس کے بارے میں بڑی
ایمانداری سے اعتراف کیا گیا ہے کہ کشمیر نہ صرف قدرتی مناظر کے لیے بلکہ علم و ادب
میں خاص طور سے جمالیات اور تاریخ (راج ترنگنی) کے لیے ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
زیر بحث شمارے میں شامل مضامین بعنوان ’میر خلیق کے مراثی‘،
’دو صد سالہ جشن غالب‘ اور ’عصمت چغتائی کا فن‘ کے بارے میں بھی اداریے میں اختصار
کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس اداریے کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ مجلہ ’فکر و تحقیق‘کی
ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مضمون نگاروں سے بھی درخواست
کی گئی ہے کہ وہ اپنے مضامین کا اصل مسودہ ہی ادارے کو بھیجا کریں۔ یہ شکایت کی گئی
ہے کہ بعض نامور ادیب ایسے مضامین ارسال کرتے
ہیں جو پہلے کہیں اور شائع ہو چکے ہوتے ہیں۔’فکر و تحقیق‘ کے مدیران چوںکہ شروع سے
ہی بہت دیدہ ریزی کے ساتھ مقالوں کا انتخاب کرکے انھیں پڑھتے اور شائع کرتے ہیں اس
لیے مضمون نگاروں سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے مضامین لازمی طور پر حوالوں
اور حواشی کے ساتھ بھیجا کریں۔
’فکر وتحقیق‘ کا جو
اداریہ زیر بحث ہے، وہ جولائی، اگست، ستمبر 1999 کے شمارہ 3 سے لیا گیا ہے۔ اس اداریے میں سب سے پہلے پروفیسر
عبدالقادر سروری کے مضمون ’جدوجہد آزادی میں اردو ادیبوں کا حصہ‘ کے حوالے سے سروری
صاحب کے بارے میں بجا طور پر لکھا گیا ہے کہ
’’پروفیسر
عبد القادر سروری اپنے عہد کی بہت معروف ادبی شخصیتوں میں سے ہیں، جنھوں نے بڑے وسیع
دائرے میں قابل ذکر کام کیا ہے۔ دکنی کے ادبی ذخیرے کے علاوہ اردو مثنوی زبان اور علم
زبان ہی پر نہیں، اپنے دور قیام کشمیر میں، جہاں وہ آسودہ خاک ہیں، اردو ادب کو کشمیری
ادیبوں کی دین پر بھی یاد گار کام کیا۔ سروری صاحب نے سرینگر ریڈیو اسٹیشن سے ایک بات
چیت براڈ کاسٹ کی تھی۔ اگست 1947 میں۔ اس کے مسودے کا عکس نہیں حاصل ہوا۔ قارئین کرام
بھی اسے ایک سوغات تصور فرمائیں گے۔‘ ‘2؎
شمس الرحمن فاروقی کا نام اردو دنیا کا ایک جانا پہچانا
نام ہے۔فاروقی صاحب شروع سے ہی کونسل سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کے تنقیدی کارناموں کے علاوہ اردو زبان کے حوالے
سے ان کا تحقیقی کام بھی بہت اہم ہے۔ اس شمارے میں شامل فاروقی صاحب کے مضمون ’اردو
کا ابتدائی دور پانچواں
باب‘ کا ذکر کرتے ہوئے اداریے میںلکھا گیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو
’’آج
کے ہندوستان میں اردو کے جن دانشوروں نے ادب کی کئی جہتوں میں قابل ذکر کام کیا ہے،
ان میں شمس الرحمن فاروقی کا مقام قابل رشک ہے۔ اردو اور انگریزی زبانوں پر ہی نہیں،
ان زبانوں کے ادب اور ان زبانوں میں علوم پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ زبان، سماج اور
کلچر میں جو گہرا رشتہ ہے، اس کے بارے میں امریکہ میں، شکاگو یونیورسٹی نے ایک جامع
پروگرام مرتب کیا اور ہندوستان کی قدیم اور جدید زبانوں کے ماہروں سے مضامین لکھوائے
شمس الرحمن فاروقی نے اس پہلو پر توجہ دی کہ اردو یا اس زبان کو جسے ہم اردو کہتے ہیں
یا اردو کی حیثیت سے پہچانتے ہیں، دلی کے گردو نواح میں صورت پذیر ہوئی لیکن ادبی روپ
گجرات اور دکن میں ابھرا۔ ان کی کتاب سات ابواب پرمشتمل ہے، جو ابھی شائع نہیں ہوئی۔
پانچواں باب شمس الرحمن فاروقی نے فکر و تحقیق کے لیے عنایت فرمایا ہے۔‘‘3؎
چنانچہ شمس الرحمن فاروقی کی کتاب اردو کا ابتدائی زمانہ
(ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو) کے عنوان سے 1999 میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس کتاب کادوسرا
ایڈیشن 2001 اور تیسرا ایڈیشن 2007 (ناشر
آج کی کتابیں،کراچی)
میں شائع ہوئے۔ اس شمارے میں عبدالقادر
سروری، پروفیسر نذیر احمد اور شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ حنیف نقوی، پروفیسر شمیم
حنفی، فیروز احمد، انصاراللہ، مظفر حنفی، ڈاکٹر اکبر حیدری، پروفیسر قدوس جاوید اور
محمد شاہد حسین کے مضامین کے حوالے سے ان کی اہمیت کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا
ہے۔ اس اداریے میں ’فکر و تحقیق‘ کے گزشتہ شمارے میں شائع ہونے والے نریندر لوتھر کے
مضمون ’ہندوستانی جمالیات، کشمیر اور اردو‘ کی کچھ سطریں شائع ہونے سے رہ گئیں تھیں،
اداریے کے آخر میں یہ سطور شامل کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قارئین اور اردو کے قلم
کاروں و دانشوروں سے جمالیات کے موضوع پر اظہار خیال کی دعوت بھی دی گئی ہے اور لکھا
گیا ہے کہ
’’قدیم
سے جدید تک، کسی دور میں جمالیات کا فقدان نہیں ہے۔ کالید اس کھمیندا ہے میر اور غالب
تک اور غالب سے اس عہد تک، ادب، خصوصاً شاعری جمالیات کا آئینہ ہے۔ جب منشی پریم چند
نے حسن کا معیار بدلنے کی بات 1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس میں،
اپنے خطبہ صدارت میں کہی تھی تو جمالیات کونئی اساس دینے کی اہمیت واضح کی تھی۔‘‘4؎
یہاں یہ ذکر بے موقع نہ ہوگا کہ پروفیسر شکیل الرحمن نے
اردو شعر و ادب اور جمالیات کے حوالے سے اردو میں سب سے زیادہ کارنامے انجام دیے ہیں
بلکہ وہ واحد ایسے اردو نقاد ہیں جنھوں نے
اپنے آپ کو جمالیاتی مطالعات کے لیے وقف کر دیا تھا۔
’فکر
و تحقیق‘ کا شمارہ جنوری، فروری، مارچ2000 (جلد3 شمارہ 1) میں راج بہادر گوڑ، شکیل
الرحمن، اکبر حیدری کشمیری اور کمال احمد صدیقی کے علاوہ ابوالکلام قاسمی، گربچن چندن
اور اے آر فتیحی وغیرہ کے مضامین بھی شامل ہیں۔ اداریے میں ان تمام مضامین کے موضوعات
پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر اے آر فتیحی کے مضمون ’کثیر لسانی پس منظر میں اردو طبقے
کا لسانی اندازو فکر‘ کو ایک اچھا مضمون قرار دیتے ہوئے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ
اے آر فتیحی نے جموں و کشمیر میں بولی جانے والی کئی زبانوں اور بولیوں مثلاً کشمیری،
گوجری، پہاڑی اور ڈوگری کے ساتھ ساتھ اردو کو عوامی رابطے کی زبان کی حیثیت سے زندہ
رکھنے اور فروغ دینے کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں، اس اداریے میں ان تجاویز پر غور
و فکر اور عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ ’فکر و تحقیق‘ کے اس شمارے کے اداریے
کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ادارہ فکر و تحقیق کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے اردو زبان و
ادب کے علاوہ دیگر موضوعات اور دیگر زبانوں کے ادب پر بھی مضامین بھیجنے کی درخواست
کی ہے۔ اداریے میں ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ نے لکھا ہے کہ
’’ہم
اردو زبان و ادب کے علاوہ دوسرے علمی موضوعات مثلا فلسفہ، نفسیات، تاریخ وغیرہ بشمول
دیگر ہندستانی زبانیں اور ان کے ادب پر بھی علمی مضامین کا خیر مقدم کریں گے۔‘‘5؎
’فکر
و تحقیق‘ کا شمارہ اپریل، مئی، جون 2000 اپنے مشمولات کے اعتبار سے بے حد اہم اور یادگار
ہے اس لیے اداریے کے شروع میں ہی یہ کہا گیا ہے کہ اس میں شامل سبھی مضامین علمی اور
ادبی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر پروفیسر نذیر احمد، ڈاکٹر نیر مسعود، ڈاکٹر
عتیق اللہ اور سید عبداللہ کے مضامین پر اس اداریے میں خصوصیت کے ساتھ توجہ مبذول کی
گئی ہے۔
شمارہ جولائی، اگست، ستمبر 2000 کے اداریے میں حسب روایت
شامل اشاعت مضامین اور مضمون نگاروں کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ شکیل الرحمن
کے مضمون ’لوک کتھائوں سے دیو مالا اور ادبیات تک‘ کے بارے میں اداریے میں لکھا گیا
ہے کہ
’’پروفیسر
شکیل الرحمان نے ’آب حیات‘ کے ذہنی اور تخیلاتی سرچشموں کا سراغ بھی لگایا ہے اور
لوک کتھاؤں سے ادبیات تک ان سرزمینوں کی نشاندہی بھی کی ہے جو اس سے سیراب ہوئی ہیں۔‘‘6؎
’فکروتحقیق‘
شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2000کے اداریے میں بھی شکیل الرحمن، کمال احمد صدیقی اور
اکبر حیدری وغیرہ کے بے حد معیاری مضامین شامل ہیں۔ شکیل الرحمن کے مضمون ’ عرفی اور
غالب در نعت سرور کائناتؐ ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے اداریے میں کہا گیا ہے کہ غالب کی
مکمل قدر شناسی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے فارسی کلام سے صرف نظر نہ کیا جائے۔ اسی
طرح کمال احمد صدیقی نے اپنے مضمون ’حقیقت، خیال اور ماورائے خیال‘ میں شاعری سے متعلق
چند بنیادی تصورات سے بحث کی ہے۔ اداریے میں اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ
’’جناب
کمال احمد صدیقی نے شاعری کے اجتماعی تصورات اور انفرادی تعبیرات کے حوالے سے عالمانہ
بحث کی ہے، ان کے خیالات سے کلی اتفاق ضروری نہیں لیکن انھوں نے جو باتیں کہی ہیں وہ
گہرے غور و فکر کا حاصل ہیں اور پڑھنے والوں کو بھی غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔‘‘7؎
اس کے علاوہ اداریے میں اس شمارے میں شامل دیگر مضامین اور
مضمون نگاروں کا بھی اختصار کے ساتھ تعارف کروایا ہے۔ یوں تو ’فکر و تحقیق‘ کا ہر شمارہ
یاد گار ہوتا ہے لیکن جب شکیل الرحمن اور پروفیسر گیان چند جین جیسے لوگوں کے مضامین
شامل ہوں تو ادارے کو بھی اس پر فخر ہوتا ہے چنانچہ اس اداریے میں گیان چند جین کے
مضمون ’مورخ ادب یا محتسب یا شحنہ‘ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ
’’پروفیسر
گیان چند جین کا مضمون ایک بنیادی سوال اٹھاتا ہے
کیا علمی امور میں مذہب و ملت کی تفریق روا ہے؟ ظاہر ہے
اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا اور جو حضرات ادًعاے علم کے باوجود ایسا کرتے ہیں، ان
کے رونے کو غیر علمی ہی کہا جائے گا۔ محقق کا کام حقائق کی تلاش ہے، اپنے نجی عقائد
کی تبلیغ نہیں۔‘‘8؎
اسی طرح شکیل الرحمن کے مضمون ’ہندوستان کی کتھائیں اور
اس کی کہانیاں‘ کے بارے میں اداریے میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ
’’پروفیسر
شکیل الرحمن کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ یوں تو بہت وسیع ہے لیکن ہندوستانی ادبیات نیز
یہاں کے عوامی اظہارات سے جو بالعموم کتھاؤں اور لوک گیتوں کی صورت میں سامنے آئے
ہیں،وہ خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس بار ہندوستانی کتھاؤں کو موضوع گفتگو بنایا
ہے اور کئی اہم نکات تلاش کیے ہیں۔‘‘9؎
’فکر
و تحقیق‘ کے شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2001 کے اداریے میں حسب روایت ’ہماری بات‘
کے عنوان سے لکھے گئے اداریے میں شکیل الرحمن کے مضمون کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ
’’اس
(شمارہ) کا آغازہمہ جہت قلمکار اور ممتاز دانشور پروفیسر شکیل الرحمن کے مضمون سے
ہو رہا ہے جو علی سردار جعفری کی مشہور نظم ’نئی دنیا کو سلام ‘کی جمالیاتی جہتیں روشن
کرتا ہے۔ جعفری صاحب کو ہمارے درمیان سے اٹھے ایک سال ہو گیا ہے مگر ان کی یادیں ابھی
تازہ ہیں۔ امید ہے پروفیسر شکیل الرحمن کا یہ مضمون ان یادوں کو مزید تازگی اور تا
بند کی دے گا۔‘‘10؎
اس اداریے میں ہی قارئین کو یہ بتایا گیا ہے کہ اس شمارے
کے آخر میںگیان چند جین، شکیل الرحمن اور برج بہادر سنگھ سسودیہ کے خطوط بھی شامل
ہیں۔ ان میں گذشتہ شمارے میں شائع شدہ مضامین کے حوالے سے بعض سوالات قائم کیے گئے
ہیں اور وضاحتیں بھی کی ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ کے دور کے اداریوں کی سب سے بڑی خصوصیت
یہ ہے کہ ان اداریوں میں ایک طرف جہاں معتبر قلمکاروں کے مقام و مرتبے کے بارے میں
اظہار خیال کیا گیا ہے۔ وہیں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی رائے دی گئی
ہیں۔ ’فکر و تحقیق‘ کے شمارہ اپریل، مئی، جون 2002 کے اداریے میں شکیل الرحمن کے مضمون
’ہندوستان کے علاقائی ادب میں تصوف کا جمال‘ کے حوالے سے پروفیسر شکیل الرحمن کے وسیع
مطالعے اورکلاسیکی سے لے کرجدید ادب تک کی آگہی کے بارے میں بڑی غیر جانبداری سے لکھا
گیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ شکیل الرحمٰن کے مضامین سے ادب میں نئی
سوچ اور فکر کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس اداریے میں متحدہ قومیت کے حامی
اور مبلغ دانشور ڈاکٹر سید عابد حسین کی خدمات کو سراہا ہے۔ سید عابد حسین نے آزادی
کے فوراً بعد متحدہ قومیت کے تصور کو پھیلانے کے لیے ایک ہفت روزہ اخبار ’نئی روشنی‘ بھی نکالا تھا، جس کے
بارے میں جی۔ ڈی۔ چندن صاحب نے مقالہ بھی لکھا ہے جو اس شمارے میں ’نئی روشنی بھولا
بسرا قندیل صفت اخبار‘ کے عنوان سے شامل بھی ہے۔ اسی طرح اداریے میں رضوان احمد، سرور
الہدیٰ اور ابوالکلام آفاقی وغیرہ کے مضامین کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ دراصل
اداریہ نگاری کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی رسالے کا مدیر جب کسی شمارے کے لیے اداریہ
لکھتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس شمارے میں شامل مضامین کی اہمیت کی
بھی نشاندہی کرے۔ چنانچہ ’فکروتحقیق‘ کے شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2003 میں شامل
مضامین کے حوالے سے نثار احمد فاروقی، محترمہ سیدہ جعفر، ظفر احمد نظامی، مخمورسعیدی
وغیرہ کے لکھے گئے مضامین اور شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے حوالے سے شمارے میں شامل مضامین
کے بارے میں لکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ’فکر و تحقیق‘ کے شمارہ دوم میں شائع شدہ جناب
سکندر احمد کے مضمون ’ردیف کے بارے میں،کچھ مزید‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس مضمون کے بارے
میں مشہور عروض داں مرحوم کمال احمد صدیقی اور شمس الرحمٰن فاروقی کے تاثرات بھی شائع
کیے گئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سکندر احمد خود کتنے بڑے ماہر عروض و بلاغت تھے۔
کسی بھی رسالے کے مدیر کا فریضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ ادیبوں
اور دانشوروں سے ایسے مضامین لکھوائے جو ادب کے روشن پہلوئوں کے ساتھ ساتھ تاریخی گوشوں
کو بھی سامنے لائے اور حمید اللہ بھٹ نے یہ کام نہایت دور اندیشی کے ساتھ کیا ہے، جس کا اندازہ ان کے اداریوں سے
بخوبی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اردو کے مشہور محقق ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری
کے مقالے ’اردو کے دو قدیم رسالے ’مراۃ الہند‘ (لکھنٔو) اور ’حسن‘ (حیدرآباد) کا ذکر
کیا ہے۔ دراصل ڈاکٹر اکبر حیدری ایک عجوبۂ روزگار محقق تھے۔ انھوں نے اردو کی نادر
و نایاب کتابوں اور رسالوںکی بازیافت اور گمشدہ شاعروں و ادیبوں کو منظر عام پر لانے
کے سلسلے میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، وہ بے مثال ہیں۔
’فکر
و تحقیق‘ کے اسی شمارے میں پروفیسر آل احمد سرور کی ادارت میں انجمن ترقی اردو کے
ترجمان ’ہماری زبان‘ کا ذکر کیا گیا ہے، جس کا اداریہ آل احمد سرور لکھا کرتے تھے۔
سرور صاحب کے اداریوں کا تنقیدی جائزہ پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے کیا ہے،جو اسی شمارے
میں شامل ہے۔
حسب سابق ’فکر و تحقیق‘ کا
اکتوبر، نومبر، دسمبر 2004 کا شمارہ بھی معیاری مضامین کا حاصل ہے۔ اس شمارے کے اداریے
میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی (مرحوم) کے مضمون ’الطاف حسین حالی بحیثیت شارح غالب‘
کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر حالی کو غالب کا اولین شارح قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا
ہے کہ ابوالکلام قاسمی نے غالب کے بارے میں کئی ایسی باتیں کہی ہیں جن کی طرف دوسروں
کی توجہ نہیں تھی۔ اس ضمن میں شمس بدایونی کے مضمون ’غالب پر تین فراموش شدہ تحریریں‘
کو بھی ایک اہم تحقیقی مقالہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شمارے کے قلم کاروں اور
ان کے مضامین کا تعارف کروایا ہے۔
’فکر
و تحقیق‘ کا شمارہ جنوری، فروری، مارچ 2005 ایک اہم شمارہ ہے۔ جس میں زبان و ادب کے
بارے میں مضامین شامل ہیں۔ اس شمارے کے اداریے میں پروفیسر حنیف نقوی، اکبر حیدری کشمیری،
کمال احمد صدیقی، نذیر احمد ملک اور سکندر احمد وغیرہ کے مضامین کو اہم قرار دیا گیا
ہے۔ چنانچہ سکندر احمد کے مضمون ’الفاظ کی تذکیر و تانیث‘ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا
گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ’جمیل مظہری کی قومی اور وطنی شاعری‘ سے متعلق منظر اعجاز کے
مضمون کے بارے میں لکھتے ہوئے اداریے میں بجا طور پر یہ رائے دی گئی ہے کہ نظم کے مقابلے
میں جمیل مظہری کی غزل خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔
سنہ 2005 کے آخر میں اردو کونسل میں کئی تبدیلیاں آئیں۔
فکروتحقیق کی ادارت کی ذمے داری آر کے بھٹ کو دی گئی۔ ان کی ادارت میںپہلا شمارہ جنوری،
فروری،مارچ 2006 میں شائع ہوا اور دوسرا شمارہ اپریل، مئی، جون 2006 میں منظر عام پر
آیا۔ ان دونوں شماروں کے اداریوں میں مضامین کے بارے میں تعارفی خیالات پیش کیے گئے
ہیں۔ اپریل، مئی، جون 2006 کے اداریے میں مشہور محقق رشید حسن خان کے انتقال کی اطلاع
دی گئی ہے۔ ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ رشید حسن خاں بلا شبہ قدآور شخصیت کے مالک
تھے۔ انھوں نے متنی تحقیق و تنقید کوجو معیار و اعتبار بخشا، اس سے ان کے پیش رو حافظ
محمود شیرانی، قاضی عبدالودود، امتیاز علی عرشی اور مالک رام کے کارناموں کی یادیں تازہ کر دی تھیں۔ اسی طرح اداریے میں نشتر
خانقاہی کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نشترخانقاہی
کے شاعرانہ مقام و مرتبے کا نئے سرے سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔
جولائی 2006 میں رسالہ ’فکر و تحقیق‘ کی ادارت کی ذمے داری
محترمہ رشمی چودھری کو سونپی گئی۔ ان کی ادارت میں بھی دو شمارے شائع ہوئے۔ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2006 اور جنوری، فروری،
مارچ 2007 کے شماروں میں ’ہماری بات‘ کے عنوان سے جو اداریے لکھے گئے وہ ’فکر و تحقیق‘
کے مدیر یا مشیر کے نام سے نہیں بلکہ ادارے کے نام سے لکھے گئے ہیں۔ ان دو اداریوں
کا اسلوب بھی سابقہ شماروں کی طرح ہی ہے لیکن ان میں شامل اشاعت مضمون یا مضمون نگاروں
کے بارے میں کسی قابل ذکر رائے کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔
سنہ 2007 کے اوائل میں ہی ڈاکٹر علی جاوید نے اردو کونسل
کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا اور رسالہ ’فکر و تحقیق‘ کی ادارت بھی انھوں نے
ہی سنبھالی لیکن اپریل، مئی، جون 2007 کے شمارے میں بحیثیت مدیر ڈاکٹر علی جاوید صاحب
کا نام تو ہے لیکن اس شمارے کے اداریے کے آخر میں اداریہ نگار کے طور پر کسی کا نام
درج نہیں ہے۔ اداریے میںرفاقت علی شاہد، ناصر عباس نیر، پرویز شہریار، سید سجاد حسین
اور مختیار علی خاں کے مضامین کی قدر و قیمت پر بات کی گئی ہے۔
’فکر
و تحقیق‘ کا اداریہ پہلے شمارے سے لے کر اپریل، مئی، جون 2007 تک ’ہماری بات‘ کے عنوان
سے شائع ہوتا رہا لیکن اکتوبر، نومبر، دسمبر 2007 کے شمارے میں اداریے کا عنوان ’ہماری
بات‘ کی جگہ ’حرف اوّل‘ کر دیا گیا۔ اس شمارے کے اداریے میں ابن صفی، قرۃالعین حیدر
اورپروفیسر گیان چند جین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ آئندہ
شماروں میں ان بزرگ اور معتبر شخصیتوںپر خصوصی گوشے شائع کیے جائیں گے۔
اکتوبر، نومبر، دسمبر 2007 کا شمارہ ڈاکٹر علی جاوید کی
ادارت میں شائع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ’فکر و تحقیق‘ نے اپنی اشاعت کے دس برس بھی پورے
کر دیے۔ اداریے میں واضح طور پر لکھا گیا کہ ’فکر و تحقیق‘ کے اجرا کا مقصد اردو زبان
و ادب کے گمشدہ خزانوں کی بازیافت اور ان کی قدر وقیمت کا تعین رہا ہے۔ اس بات کی تصدیق
پروفیسر حنیف نقوی، اکبر حیدری کاشمیری اور سید علی حیدر کے مضامین سے ہوتی ہے۔ بحیثیت
مدیر ڈاکٹر علی جاوید اداریے میں محمد عارف کے مضمون ’ابن صفی اور ان کے ناول‘ پر اظہارخیال
کرتے ہوئے ابن صفی کے بارے میں یوں رقمطراز
ہیں
’’ابن
صفی اپنی زندگی میں ایک ایسے قلمکار کی حیثیت سے جانے پہچانے گئے جو خیرو شر کے تصادم
کو اپنے جاسوسی ناولوں میںبہت مؤثرانداز میںبیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے اور جن کے
ناولوں کو اس صنف ادب کے قارئین سر آنکھوں پر جگہ دیتے تھے۔ یہ بات شاید کم لوگ جانتے
ہوں کہ ابن صفی داغ کے جانشیں حضرت نوح ناروی کے قریبی عزیزوں میں تھے اور انھوں نے
خود بھی شاعری کی ہے۔‘‘11؎
’فکروتحقیق‘ کا اپریل،
مئی، جون 2008کا شمارہ ’مخدوم محی الدین نمبر‘ کے نام سے شائع ہوا۔ مخدوم کا شمار ترقی
پسند شاعروں میں ہوتا ہے۔ 2008 میں قومی اردو کونسل کی جانب سے حیدرآباد، رانچی اور دہلی میں سمینار منعقد کیے گئے اور ان سمیناروں
میں ’مخدوم محی الدین کی شخصیت و فن‘ کے حوالے سے جو مقالے پڑھے گئے۔ انھیں اس شمارے
میں شامل کیا گیا ہے اور جو مضامین اس شمارے میں شامل اشاعت نہیں ہوسکے انھیں بعد کے
شمارے میں شائع کرنے کی یقین دہانی ’فکر و تحقیق‘ کے اس اداریے میں کی گئی ہے۔
جولائی، اگست، ستمبر 2008 کا شمارہ دستیاب نہ ہوسکا لیکن
اکتوبر، نومبر، دسمبر 2008 تک آکر ’فکرو تحقیق‘ نے اپنی عمر کے گیارہ سال پورے کر
دیے۔ اس شمارے کے اداریے میں ڈاکٹر علی جاوید نے لکھا ہے کہ ایک معتبر علمی اور ادبی
رسالے کی حیثیت سے فکر و تحقیق کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ بے حد اطمینان بخش ہے۔
ڈاکٹرعلی جاوید کے مطابق اردو میں ادبی رسالوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جاتا
ہے لیکن کئی اردو رسالوں کا تواتر کے ساتھ نکلتے رہنا ثابت کرتا ہے کہ اردو پڑھنے لکھنے
والے اپنی زبان کے تئیں اپنی ذمے داریوں سے اتنے غافل بھی نہیں کہ اس کا ماتم کیا جائے۔لیکن
ماضی پر بھی نظر ڈالی جائے تو یہی ہوگا کہ تفریحی لٹریچر کے مقابلے میں سنجیدہ ادب
کے قارئین کی تعداد پہلے بھی کچھ زیادہ نہیں تھی اور اب تو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور موبائل
فون کے تفریحی پروگراموں کا سیلاب آیا ہوا ہے، اس کے باوجود تحقیقی اور تنقیدی تحریریں
لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں تو یہ اردو کے حق میں ایک بڑی ہی خوش آئند بات ہے۔ اس شمارے
کے اداریے میں مرزا خلیل بیگ،پروفیسر لطف الرحمان، اکبرحیدری کشمیری، شمیم حنفی اور
ناصر عباس نیر وغیرہ کے مضامین کی قدروقیمت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اردو کے مشہور
شاعر احمد فراز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیں اردو دنیا میں محبتوں کا سفیر قرار
دیا گیا ہے۔ ’فکر و تحقیق‘ نے ہمیشہ عظیم شخصیتوں کے خصوصی نمبر شائع کیے۔ چنانچہ جنوری،
فروری، مارچ 2009 کا شمارہ ’فکر و تحقیق‘ (جلد12) ’اکبر الہ آبادی نمبر‘ کے نام سے
شائع ہوا۔ جس میں شمس الرحمن فاروقی، سید محمد عقیل، قمررئیس، لطف الرحمان، علی جاوید
کے علاوہ کئی دیگر قلمکاروں کے نام شامل ہیں۔ زیر تبصرہ شمارے میں ’حرف اول‘ کے عنوان
سے ڈاکٹر علی جاوید نے لکھا ہے کہ 2007 میں قومی اردو کونسل کی جانب سے الہ آباد میں
ایک کل ہند سمینار منعقد کیا گیا تھا، اس سہ روزہ سمینار کا عنوان ’نوآبادیاتی تجربہ
اور اردو ادیبوں کا ردعمل
اکبر الہ آبادی کے خصوصی حوالے سے‘ تھا۔ سمینار کا افتتاح
جناب شمس الرحمٰن فاروقی نے کیا جو اس وقت کونسل کے وائس چیئرمین تھے۔ اس سمینار میں
پڑھے گئے مقالوں کو ہی ’فکروتحقیق‘ کے ’اکبر الہ آبادی نمبر‘ میں شامل کیا گیا ہے۔
زیربحث شمارے کا اداریہ اکبر الہ آبادی کے فن سے متعلق لکھا گیا ہے۔ اداریے میں ڈاکٹر علی جاوید لکھتے ہیں
’’اکبر
کے ذہن میں قوم پرستی کا وہ تصور بھی مو جود تھا جس نے آگے چل کر علی گڑھ تحریک کے
بعض پہلوؤں سے اختلاف رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور جس کے زیر اثر
آزادی کی تحریک پروان چڑھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام بھی اسی اختلاف کی دین ہے۔‘‘12؎
رسالہ ’فکر و تحقیق‘ کی ادارت کی ذمے داری ڈاکٹر ابو بکر
عباد کو سونپی گئی جب کہ جناب مخمور سعیدی مشیر کی حیثیت سے اپنے عہدے پر برقرار رہے۔’فکر
و تحقیق‘ اپریل، مئی، جون 2009 کا شمارہ ڈاکٹر ابوبکر عباد اور مخمور سعیدی کی کوششوں
سے منظر عام پر آیا۔ اس شمارے کے اداریے میں پروفیسر حنیف نقوی، ابوالکلام قاسمی اور
ناصر عباس نیر کے علاوہ لئیق رضوی وغیرہ کے مضامین کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔ اداریے
میں اردو زبان و ادب کے مشہور غیر ملکی قلمکار رالف رسل کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
ہے۔ اداریے میں لکھا گیا ہے کہ رالف رسل کو اردو زبان کی موجودہ صورت حال سے جتنی گہری
واقفیت تھی اور انھوں نے اس صورت حال کے مختلف پہلوؤں پر جتنا غور و خوص کیا تھا، اس
کی توفیق شاید ہی ان لوگوں کو ہوئی ہو جو خود
کو ہندوستان میں اردو زبان و ادب کے ٹھیکیداروں میں شمار کرتے ہیں۔ اس اداریے میں اس
بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ رالف رسل نے ’آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو زبان
و تعلیم‘ کے عنوان سے ایک مضمون انگریزی میں لکھا تھا جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر ارجمند
آرا نے کیا اوریہ مضمون شمارے میں شامل بھی ہے۔
2009
کے آخر میںاردو کونسل کے پہلے ڈائرکٹر ڈاکٹر حمید اللہ
بھٹ نے دوبارہ قومی کونسل کے ڈائرکٹر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ اکتوبر، نومبر، دسمبر
2009 کا شمارہ انہی کی ادارت میں شائع ہوا۔ اس شمارے کے اداریے میں شامل اشاعت مضامین
کا تعارف اس گہرائی سے کیا گیا ہے کہ اندازہ ہوتا ہے کہ ’فکر و تحقیق‘ میں ہر مضمون
کافی غوروفکر کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اپریل، مئی، جون 2010 کے شمارے میں بھی اہم ترین
تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ اس شمارے کے اداریے میں ’فکر و تحقیق‘ کے
مشیر مشہور شاعر مخمورسعیدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کا ذکر کیا گیا
ہے اور اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ’فکر و تحقیق‘ کے ساتھ مخمور سعیدی صاحب تقریباً
دس سال وابستہ رہے اور ان کی کمی قومی اردو کونسل میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔
’فکر
و تحقیق‘ کا اگلا شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2010 میں شائع ہوا۔اس کے اداریوں میں
شامل اشاعت مضامین کے حوالے سے اردو کی مختلف شعری اصناف کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور
پر یہ بتایا گیا ہے کہ قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی وغیرہ اپنا تاریخی کردار ادا کرکے پس
پشت چلی گئیں یا پھر مختلف نئے پیرایوں میں ڈھل گئیں لیکن غزل ایک ایسی سخت جان صنف
ہے جو ہر دور میں مقبولیت کی نئی منزلیں طے کرتی جا رہی ہے اور اب اردو شاعری کا دوسرا
مطلب ہی غزل گوئی ہو گیا ہے۔اداریے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزل کے بعد رباعی وہ صنف
ہے جو اپنے اختصار اور جامعیت کی وجہ سے زندہ ہے۔
’فکر
و تحقیق‘کے جنوری، فروری، مارچ 2011 کے شمارے کے اداریے میں اس حقیقت کا ذکر کیا گیا
ہے کہ غالب اور اقبال اردو تحقیق و تنقید کے دو بڑے موضوعات ہیں جن پر بہت کچھ لکھا
جاچکا ہے اور لکھا جا رہا ہے لیکن اداریے میں بجا طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ناقدین اور
محققین اردو زبان و ادب کے ان گوشوں اور پہلوئوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے جن پر ابھی
تک کام کم ہوا ہے۔ شعرا اور افسانہ نگاروں میں یاس یگانہ چنگیزی سے لے کر ساحر لدھیانوی
تک اور پنڈت سدرشن سے لے کر انور خان تک کتنے اہم ترین ادیب ہیں جن کا حق ابھی ادا
نہیں کیا جا سکا ہے۔ اداریے میں طنزیہ انداز میں لکھا گیا ہے کہ غالب اور اقبال کو
اب ذرا سا آرام دیا جائے اور نئے نقاد اردو ادب کے دیگر موضوعات کی طرف زیادہ توجہ
دیں تاکہ تنقیدو تحقیق کے معیار کو بحال کیا جا سکے۔
’فکر
و تحقیق‘ اپریل،مئی، جون 2011 کا شمارہ فیض احمد فیض سے منسوب ہے۔اس شمارے کے اداریے میں فیض احمد فیض کی عالمی
شہرت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیض پاکستان کے تھے لیکن نظریاتی اعتبار سے
پوری دنیا فیض کا وطن تھی۔ اس شمارے میں فیض کی شخصیت، نظریات اور شاعری سے متعلق شاہکار
مضامین شامل ہیں۔
’فکروتحقیق‘
اکتوبر، نومبر،دسمبر2011 کے شمارے میں شامل مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ تنقید نگاروں
نے دوسرے موضوعات پر بھی توجہ دینا شروع کی ہے۔ قومی اردو کونسل میں 2011 کے آخر میں
نئی تبدیلیاں آئیں۔ غالباً اکتوبر، نومبر،دسمبر2011 ’فکروتحقیق‘ کا شمارہ آخری شمارہ
تھاجو حمید اللہ بھٹ کی ادارت میں شائع ہوا۔
2012
میں قومی کونسل
برائے فروغ اردو زبان دہلی کی ڈائرکٹر شپ کی ذمے داری پروفیسرخواجہ اکرام الدین کو سونپی گئی۔ چنانچہ پروفیسرخواجہ
اکرام الدین کی ادارت میں ’فکر و تحقیق‘کا
پہلا شمارہ سعادت حسن منٹو کے فن و شخصیت کے طور پر خصوصی شمارہ (جولائی،اگست، ستمبر2012)
شائع ہوا۔ اس کے اداریے میں منٹو کی عظمت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ منٹو
نے نثر کی متعدد اصناف ڈرامہ، خاکہ، طنزیہ مضامین، علمی کہانیاں، مکتوبات، افسانے اور
افسانچے وغیرہ میں سماجی حقیقت کو پیش کرنے کی روایت قائم کی۔ جس طرح نذیر احمد، پریم
چند اور دیگر ادیبوں نے خواتین اور سماج کے مسائل کو پیش کیا، اسی طرح منٹو نے بھی
اس روایت کو مزید مضبوط اورمستحکم کیا۔
سہ ماہی ’فکروتحقیق‘ کے کئی خصوصی نمبر شائع ہوئے ہیں۔ ان
میں شمارہ جنوری، مارچ 2013 ’نئی غزل نمبر‘ بھی ہے۔ اس شمارے کے اداریے میں فنون لطیفہ
میں شاعری کی اہمیت اور شاعری میں بھی غزل کے مقام اور مرتبے پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو
کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ اور ولی سے لے کر میروسودا تک اردو غزل کے سفر
کا اشاراتی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور پھر عہد وسطیٰ اور جدید دور میں غزل کے مختلف
رجحانات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
جولائی، اگست، ستمبر 2013
کے شمارے میں بھی مدیر کی حیثیت سے پروفیسر خواجہ اکرام الدین کا نام درج ہے لیکن اس
شمارے کے اداریے میں ’حرف اوّل‘ کے عنوان سے جو خیالات ظاہر کیے گئے ہیں، ان کا انداز
سابق شماروں کے اداریوں سے مختلف ہے۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ آل احمدسرور کی غالب تنقید
پر عتیق اللہ کے مضمون کا ذکر کیا گیاہے۔اس کے علاوہ مشہور محقق و نقاد ٹی آر رینا
کے مضمون کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
پروفیسرخواجہ اکرام الدین کی ادارت میں ’فکر و تحقیق‘ کے
جو مختلف خاص نمبر شائع ہوئے ہیں ان میں ’نیا افسانہ نمبر‘ (اکتوبر، نومبر،دسمبر2013)
سب سے مقبول شمارہ سمجھاجاتا ہے۔ یہ نمبر اردو افسانے کی تحقیق و تنقید سے متعلق ایک
دستاویزی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شمارے
کے اداریے میں اردو افسانے کی ہئیت، آغازو ارتقا اور داخلی و خارجی حالات کی ترجمانی
کے حوالے سے افسانے کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، ساتھ ہی افسانے کے بیانیہ پر
مختلف نظریات کے اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رومانی، کلاسیکی، ترقی پسند اور جدید
افسانے کے امتیازات کا اجمالی جائزہ نہایت دانشورانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
شمارہ جولائی، اگست، ستمبر
2014 کے اداریے میںاس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ نئے ریسرچ اسکالرس میں
تحقیق و تنقید کا ذوق روز بروز بڑھ رہا ہے۔ غالب اور اقبال، پریم چند اور منٹو پر کام
کرنا آسان ہوگیا ہے۔ حالانکہ ان موضوعات پر بھی نئے زاویوں سے تحقیقی کام کرنے کی
گنجائش باقی ہے لیکن ضرورت ان سے ہٹ کر کام کرنے کی ہے۔
’فکروتحقیق‘
اپریل،مئی اور جون 2014 کا شمارہ اردو اشاریوں پر مشتمل خصوصی شمارہ ہے۔ اداریے میں
’اشاریہ نگاری‘ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس کی روایت اور ارتقا پر بھی اظہار خیال کیا
گیا ہے اور اردو میں اشاریہ نگاری کی روایت اور بعض اہم اشاریوں کی نشاندہی کی گئی
ہے۔
شمارہ (اکتوبر-دسمبر2015)
کے اداریے میں ملک کے کئی صوبوں مثلاً
دہلی، ہریانہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، اڑیسہ اور
مغربی بنگال میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے پر خوشی کا اظہار کیا
گیا ہے لیکن یہ سوال بھی قائم کیا ہے کہ ہم اردو والے خود اردو کے لیے کتنے مصروف ہیں؟
کیا ہمارے بچے اردو رسم الخط سے واقف ہیں؟کیا ہم اردو کا اخبار یا رسالہ خرید کر پڑھتے
ہیں؟ ان سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسرخواجہ اکرام الدین کے ادبی کارناموں میں ایک اہم
کارنامہ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا ’فکروتحقیق‘ کا ’نئی نظم نمبر‘ (جنوری، فروری،
مارچ 2015) بھی ہے۔ اس ’نئی نظم نمبر‘ کے اداریے میں اردو میں نظم نگاری کی ابتدا اور
اس کی مختلف ہئیتوں کا ذکر کرتے ہوئے اردو شاعری میں نظم کی اہمیت اور غرض وغایت پرروشنی
ڈالی گئی ہے۔ محمد حسین آزاد اور حالی کے حوالے سے اردو میں نئی نظم نگاری کے ارتقا
کا جائزہ اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے اور بڑی مہارت کے ساتھ اردو نظم کے سبھی رجحانات
اور رویوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ زبان وبیان، اسلوب اور افکار و خیالات میں رونما ہونے
والی تبدیلیوں کا ذکر بھی اداریے میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ جدیدیت کا رجحان اور مابعد
جدیدیت کے حوالے سے اردو شاعری میں ہونے والی لسانی اورموضوعاتی تبدیلیوں کی نشاندہی
کی گئی ہے۔ اداریہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ’فکروتحقیق‘ کے اس ’نئی نطم نمبر‘ میں اردو
نظم کی ساخت، ہیئت اور موضوعات وغیرہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور جائزہ
پیش کیا گیا ہے۔
پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین کی ادارت میں ’فکروتحقیق‘
کے کئی شمارے شائع ہوئے لیکن اپریل- جون 2015 کا شمارہ بھی اپنی مشمولات کی وجہ سے
اہم ہے۔ اس کے اداریے میں مغرب اور مشرق میں ان تصنیفات اور مصنفین کا ذکر کیا گیا
ہے جو قید و بند کے دنوں میں مضامین یا کتابیں تحریر کی ہیں۔ اردو میں غبار خاطر (مولانا
ابوالکلام آزاد)، زنداں نامہ (فیض احمد فیض)، داستان اسیری (حسرت موہانی) وغیرہ قید
خانوں میں لکھی گئی تصنیفات کا ذکر ہے۔
2015
میں اردو کے مشہور نقاد پروفیسر ارتضیٰ کریم نے قومی کونسل
کے ڈائرکٹر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ ان کی ادارت میں ’فکر و تحقیق‘ کا پہلا شمارہ
(جولائی، اگست، ستمبر 2015) ’راجندر سنگھ بیدی
کے فکر و فن‘ کے طور پر شائع ہوا۔ اس شمارے کے اداریے میں یہ بتایا گیا ہے کہ کونسل
اردو کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک اہم کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ پورے
ملک میں کمپیوٹر سنٹر، کیلیگرافی اور گرافک ڈیزائن سینٹر کے ذریعے ہزاروں طلبا و طالبات
تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں اور اچھے عہدے پر فائز بھی ہوئے ہیں۔
فکر و تحقیق کے شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2015 کے اداریے
میں کونسل کو ایک عالمی سطح کا ادارہ قرار دیتے ہوئے ’فکر و تحقیق‘ کے بارے میں کہا
گیا ہے کہ آج یہ رسالہ ایک حوالہ جاتی مجلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے فہم و
ادراک کی سطحیں بلند ہو رہی ہیں، علمیت کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے اور نئے شعبے ہماری
تحقیق میں شامل ہو رہے ہیں۔ ادب و لسانیات کے رشتوں کی وضاحت کرتے ہوئے اردو میں بھی Digitalisation and
computational linguistics پر توجہ دینے کی ضرورت پر
زور دیا گیا۔ اداریے میں محققین کی تن آسانی کی نشاندہی کی گئی ہے اور محققین میں
بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ خاص طور پر کتب خانوں میں موجود مخطوطات
پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
’فکر
و تحقیق‘ جنوری، فروری، مارچ 2016 کے شمارے کے اداریے میں اس مجلے کی ساخت اور مشمولات
کی پیشکش میں اجتہاد سے کام لے کر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا گیا ہے۔ اس شمارے
کے اداریے میں تحقیق کی اہمیت کی برکتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ تحقیق سے
ہی ہندوستان کی قدیم و جدید تہذیب کی روایات اور منزلوں کا سراغ ملتا ہے۔ تحقیق کا
عمل ادبیات کے ارتقا سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اداریے میں حافظ محمود شیرانی، شبلی نعمانی،
مولوی عبدالحق، امتیاز علی عرشی، محی الدین قادری زور، نصیرالدین ہاشمی، قاضی عبدالودود،
مالک رام اور گیان چند جین جیسے محققین کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔وسائل کی
کمی کے باوجود ان عظیم محققین نے جو کارنامے انجام دیے ہیں آج کے عہد میں سہولتیں
میسر ہونے کے باوجود معاصر محققین اس کا تھوڑا بہت بھی پیش نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس
اداریے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ محققین اور ناقدین نئے نئے موضوعات پر مقالات
ارسال کریں جن سے نقد و نظر کے دریچے وا ہوسکیں
اور ’فکر و تحقیق‘ کو بہتر سے بہتر تر بنایا جا سکے۔
’فکر
و تحقیق‘ کا اپریل، مئی، جون 2016 کا شمارہ ’ناول نمبر‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔
اس نمبر میں ناول کی تحقیق و تنقید کے علاوہ منتخب ناول نگاروں پر بھی مضامین شائع
کیے گئے۔ اس ناول نمبر کے اداریے میں پہلی بار یہ لکھا گیا ہے کہ یہ صدی فکشن کی صدی
ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر فکشن مطالعات پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ ناول تخلیق اور تنقید
دونوں سطح پر اس بات کا ثبوت ہے کہ فکشن ہمارے ادبی معاشرے کی رگوں میں لہو کی طرح
رواں دواں ہے۔اداریے کے مطابق ’ناول نمبر‘ میں شامل بیشتر مضامین میں ناول کے فن، روایت،
موضوعات، اسالیب، رحجانات اور دیگر مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس اداریے میں یہ سوال
بھی قائم کیا گیا ہے کہ اردو میں لکھا گیا ناول عالمی ادب کے معیار پر کیوں نہیں اتر
پارہا ہے؟ کیا ہمارے ملک کا تخلیقی سرمایہ کمزور ہے اورکیا قرۃالعین حیدر انتظار حسین کے ناول عالمی سطح پر
نہیں رکھے جا سکتے؟
’فکروتحقیق‘
جولائی- ستمبر 2016 کے اداریے میں ایک بار پھر اردو تحقیق پر توجہ دینے کی بات کی گئی
ہے اور اس سلسلے میں ’فکر و تحقیق‘ کے بعض شماروں کی دستاویزی حیثیت کا بھی ذکر کیا
گیا ہے۔ چنانچہ اس اداریے میں ’فکر و تحقیق‘ میں شائع شدہ بعض اہم مقالوں کی نشاندہی
بھی کی گئی ہے۔
شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2016 کے اداریے میں تحقیق کے
معیار میں زوال کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئے عہد میں تحقیقی موضوعات
کی کمی نہیں ہے لیکن ان موضوعات کی جانب توجہ کی کمی ہے۔ اس ضمن میں اداریے میں فیروز
احمد، شمیم احمد صدیقی اور وقار صدیقی کے تحقیقی مقالوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
’فکر
و تحقیق‘ کے شمارہ جنوری تا جون 2017 کے اداریے میں بھی تحقیقی مضامین کی کمی کا شکوہ
کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تحقیقی رسائل کے سامنے یعنی تحقیقی مضامین کی کمی کی
وجہ سے پرانی تحقیقی تحریروں کی دوبارہ اشاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا ہے لیکن
اس سے نئی نسل کے قارئین کو فائدہ بھی پہنچتا ہے۔
اقتباس ملاحظہ ہو
’’پرانے
زمانے میں تحقیقی رسائل نئی نئی تحقیقات پیش کرتے تھے اورمدتوں وہ بحث کا موضوع بنتی
تھیں مگر اب تحقیقی رسائل اپنی اشاعت کا جواز کھوتے جا رہے ہیں کیونکہ اردو میں ایسے
محقق کا قحط ہے جو نئے نکات کی نشان دہی کرنے میں کامیاب ہوں۔ اسی وجہ سے بعض معتبر تحقیقی رسالوںنے بھی ’باز
دید‘ یا ’بازیافت‘ کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس میں وہ معتبر اور ثقہ اور محققین کی تحریریں
شائع کرتے ہیں تاکہ تحقیق کا اعتبار قائم رہے۔‘‘13؎
اداریے میں ’فکر و تحقیق‘کا ’خاکہ نمبر‘ شائع کرنے کی وجہ
بھی بتائی گئی ہے کہ اردو میں خاکہ نگاری سے متعلق زیادہ مواد دستیاب نہیں ہے۔ اداریے
میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ جامعات میں خاکہ کے حوالے سے تحقیق کے سلسلے شروع ہوں۔
اداریے میں ’فکر و تحقیق‘ کے ’خاکہ نمبر‘ میں اہم خاکہ نگاروں کے حوالے سے مضامین شامل
کیے جانے کا ذکر کیا گیاہے۔ ’فکر و تحقیق‘ کے ’خاکہ نمبر‘ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کوشش خاکہ جیسی صنف
کو دوبارہ زندہ کرنے کی غرض سے شائع کیا گیا ہے۔
’فکر و تحقیق‘ کے شمارہ
جولائی۔ستمبر 2017 کے اداریے میں اس بات کی
نشاندہی کی گئی ہے کہ زمانے کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے اور ادب کی تعبیر و تشکیل بھی
بدل جاتی ہے۔ اداریے میں خصوصیت کے ساتھ ’فکر و تحقیق‘ کے اس شمارے میں ابوالکلام قاسمی
کے مضمون ’اردو شاعری میں کلاسیکی شعریات‘ اور پروفیسر قدوس جاوید کے مضمون ’معاصر
افسانہ اور وژن‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔
’فکر و تحقیق‘ کے شمارہ
اکتوبر-دسمبر2017 کا اداریہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں جامعات میں جاری تحقیقاتی
سرگرمیوں کی جانب سے بے اطمینانی کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ المیہ یہ ہے
کہ ریسرچ کرنے والے طلبا ہی نہیں بلکہ نگراں بھی تحقیقی موضوعات میں زیادہ دلچسپی نہیں
رکھتے ہیں۔ نقالی اور موضوعات کی تکرار وغیرہ کا چلن عام ہے۔ اداریے میں کہا گیا ہے
کہ ’فکر و تحقیق‘ نے عمومیت سے بچنے کے لیے خصوصی شماروں کی اشاعت کی ہے اور یہ ارادہ
ظاہر کیا گیا ہے کہ عصری تنقید، تحقیق، سفرنامہ، خود نوشت، طنزومزاح، روزنامچہ، نسائی
ادب اور دیگر اصناف کے حوالے سے ’فکر و تحقیق‘ کے خصوصی شمارے شائع کیے جائیں گے۔
’فکر و تحقیق‘ کا شمارہ
جنوری-مارچ 2018 کے اداریے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ادب، تاریخ اور ثقافت کسی
بھی نظریے کو تحقیق کی میزان میں پرکھنے کے بعد ہی قبول کیا جاتا ہے۔ آج کی تاریخ
میں مختلف نظریات سامنے آرہے ہیں جنھیں غور و فکر کے ساتھ جانچنے اورپرکھنے کی ضرورت
ہے۔
’فکر و تحقیق‘ شمارہ
اپریل تا جون 2018 کے اداریے میں یہ کہا گیا ہے کہ ’فکر و تحقیق‘ مکمل طور پرتحقیقی
موضوعات پر محیط ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ’فکر و تحقیق‘ میں ایسی تحریریںشائع کی جائیں، جن سے طلبا اور
اساتذہ استفادہ کر سکیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو
’’ادبی
تحقیق میں جس طرح کے رویے اور رجحانات فروغ پا رہے ہیں ان میں بہت سے امکانات ہیں بہت
سے موضوعات اور مسائل ہین جن پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ حیات و شخصیت کے علاوہ بھی بہت
سے تنقیدی نظریات ہیں جنھیں آج کے عہد نے جنم دیا ہے یا جن کی اہمیت آج کے عہد میں
زیادہ ہے۔ وہ نظریات بھی ادبی تحقیق کا مو ضوع بن سکتے ہیں..... ادبیات اور دیگر سائنسی
سماجی علوم کے درمیان جہاں ایک نقطۂ افتراق ہے وہیں ایک اشتراک بھی ہے۔ ادبیات پر
تحقیق کرنے والوں کو نقطہ اشتراک پر زیادہ غور کرنا چاہیے۔‘‘14؎
’فکر و تحقیق‘ کے شمارہ
جولائی تا ستمبر2018 کے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ تحقیق میں کوئی بھی انکشاف حرف آخر
نہیں ہوتا اور ہر تحقیق میں مزید تحقیق کے نکات تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے 2018میں قومی کونسل برائے فروغ اردو
زبان دہلی کی ڈائرکٹر شپ کا عہدہ سنبھالا۔ شیخ عقیل احمد کی ادارت میں’فکر و تحقیق‘
کا پہلا شمارہ اکتوبر۔ دسمبر 2018 میں شائع ہوا۔ اس شمارے کے اداریے میں اردو تحقیق
کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اردو میں تحقیق
کے زوال کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اب تحقیقی اور علمی مجلات کی کمی
تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی تحقیقی اور علمی مضامین لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد بھی تشویشناک حد تک کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ اداریے
میں خاص طور پر یونیورسٹیوں میں تحقیق کے گرتے ہوئے معیار کا شکوہ کیا گیا ہے اور کہا
گیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالوں میں تلاش اور بازیافت کا عمل مفقود ہے۔ زیادہ
تر تحقیقی مقالوں میں گھسے پٹے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے عام طور پر اب
کوئی نئی چیز سامنے نہیں آ رہی ہے اور چبائے ہو ئے نوالوں کو باربارچبایا جارہا ہے۔
’فکر و تحقیق‘ کے جنوری-مارچ 2019 کے شمارے میں بھی اداریے کا موضوع تحقیق کے زوال
کو ہی بنایا گیا ہے۔ جامعات میں جن موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں ان کی
معنویت اور افادیت سوالوں کے زد پہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ تحقیقی مقالوں میں موضوعات
کی تکرار کی وجہ سے اردو تحقیق کے معیار میں تقلید اور نقالی کی روایت عام ہوتی جارہی
ہے اور عملی طور پر تحقیق محض ڈگری حاصل کرنے کا ایک وسیلہ بن گئی ہے۔ جن جامعات میں
بعض اچھے مقالے لکھے جارہے ہیں وہ مقالے کم ہی شائع ہوتے ہیں جب کہ جامعات کے ارباب
حل و عقد کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ڈگریاں بانٹنے کے ساتھ معیاری مقالوں کی اشاعت
کے لیے بھی عملی اقدامات کریں۔
جامعات میں تحقیق کے زوال کے اسباب اور صورت حال میں بہتری
لانے کے حوالے سے شمارہ اپریل-جون 2019 کے اداریے میں کہا گیا ہے کہ اردو تحقیق میں
سرقے کا چلن عام ہوچکا ہے اور حد تو یہ کہ دوسروں کے تحقیقی مقالوں اور ان کے اقتباسات
نقل کیے گئے ہیں لیکن کہیں ان کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس اداریے میں تحقیق کے معیار
کو بلند کرنے کے لیے مشورہ دیا گیا ہے کہ
’’تحقیق
کی یہ صورت حال دیکھتے ہوئے جامعات میںایک ایسی تحقیقی کمیٹی تشکیل دیے جانے کی ضرورت
ہے جہاں ماہرین کی ایک جماعت ہو اور وہ سرقے پر نگاہ رکھ سکیں۔ جن مقالوں میں بغیر
حوالہ اور حواشی کے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں، انھیں ڈگری تفویض نہ کی جاسکے۔‘‘15؎
اداریے میں جامعات کے تحقیقی مقالات کا ایک توضیحی اشاریہ
شائع کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ تحقیقی موضوعات میں تکرار اور یکسانیت سے بچا
جا سکے۔ ’فکر و تحقیق‘ کا شمارہ جولائی۔ستمبر 2019 کے اداریے میں بھی تحقیق کے زوال
کے حوالے سے لکھا گیا ہے اور بجا طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اس دنیا میں بہترین یونیورسٹیاں
وہی کہلاتی ہیں جن میں تحقیق کے اعلیٰ معیار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان یونیورسٹیوں
میں محققین اپنی تحقیقات سے دنیا کو ایک نئی جہت اور نیا زاویہ دیتے ہیں،تحقیق میں
نئے تجربے کرتے ہیں ان سے دنیا فائدہ اٹھاتی ہے لیکن ہمارے یہاں ریسرچ اسکالرس کی توجہ
صرف ڈگریوں کے حصول پر مرکوز رہتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کچھ جامعات میں ایک ہی موضوع
پر کئی کئی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دے دی جاتی ہیں۔ جامعات میں تحقیق کے معیار کو بلند
کرنے کے لیے موضوع کا سختی سے انتخاب ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحقیق کی نگرانی کی ذمے
داری ایسے اساتذہ کو دی جانی چاہیے جو موضوع سے متعلق خود بھی گہری معلومات رکھتے ہوں
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب جامعات میں ایسے اساتذہ کی بھی کمی ہو رہی ہے جو صحیح معنوں
میںریسرچ اسکالرس کی بصیرت مندانہ اور نتیجہ خیز نگرانی کے فرائض انجام دے سکیں۔
سہ ماہی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ کے اگلے کئی شماروں کے اداریوں
میں اردو تحقیق کے زوال، معیار میں بلندی کے
امکانات، مغربی یونیورسٹیوں میں تحقیق کے منظر نامے، تحقیق اور تنقید کا رشتہ وغیرہ
پر مختلف زاویوں سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو
’’اردو
تحقیق کی موجودہ صورت حال کے تعلق سے جس عدم اطمینان اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا
ہے یقیناً اس میں بڑی حد تک صداقت ہے کیونکہ ہمارے تحقیقی موضوعات چند عنوانات میں
محدود اور محصور ہو کر رہ گئے ہیں، خاص طور پر تحقیق میں تکرار اور یکسانیت اس قدر
پیدا ہو گئی ہے کہ اب کسی نئی جہت یا نئے زاویے کا امکان تک نظر نہیں۔ تحقیق کے وہی
پامال اور فرسودہ موضوعات ہیں جن پر سیکڑوں محققین نے خامہ فرسائی کی ہے۔ انہی پرانی
تحقیقات پرتحقیق کی نئی عمارت کھڑی کرنے کا ایک نیا رجحان جنم لے رہا ہے جس کی وجہ
سے تحقیق اپنا اعتبار اور استناد کھوتی جا رہی ہے۔ جبکہ تحقیق کا بنیادی مقصد نئی جہتوں
کی جستجو اور نئے زاویوں کی تلاش ہے۔‘ ‘ 16؎
’فکر و تحقیق‘ کے جنوری-مارچ
2021 کے شمارہ میں اردو زبان کی وسعت اور موضوعاتی کشادگی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور
کہا گیا ہے کہ اردو میںبیشتر علوم اور فنون کے ذخائر موجود ہیں۔ یہاں تک کہ طب اور
میڈیکل، صنعت و حرفت اور زراعت سے متعلق بہت سی ایسی کتابیں اردو میں ہیں جن کی طرف
لوگوں نے کم توجہ دی ہے۔ اسی طرح جدید دور میںسائنسی اور تکنیکی علوم سے متعلق کتابوں
کے ترجمے بھی اردو میں کیے گئے ہیں۔ اس اداریے میں شکوہ کیا گیا ہے کہ
’’اردو
میں معدودے چند تحقیقی مجلات نکل رہے ہیں ان کے مشمولات پر نظر ڈالی جائے تو ان میں
بھی پرانے موضوعات کی تجدید ہی نظر آتی ہے۔ اس لیے اب ہمیں سنجیدگی کے ساتھ ان موضوعات
کی جستجو کرنی چاہیے جو معاشرے کے لیے مفید ہوں اور جن میں کچھ نئی جہتیں اور نئے زاویے
ہوں۔‘‘ 17؎
اکیسویں صدی زندگی اور ادب
و فن کے ہر شعبے میں نئی ایجادات اور انکشافات کی صدی ہے۔سماجی سیاسی اور تہذیبی سطحوں
پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے اثرات ادب پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ’فکر و تحقیق‘کے
شمارہ اپریل تا جون 2021 کے اداریے میں بدلتی ہوئی صورت حال میں اردو کے تخلیقی ادب
کے نئے موضوعات اور اسالیب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اداریے میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد
سے نادرو نایاب کتابوں اور قلمی نسخوں وغیرہ سے استفادے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے
کہ جدید ترین ٹیکنالوجیکل سہولیات سے اگر استفادہ کیا جائے تو تخلیق اور تحقیق دونوں
میں اس کے مزید مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ اداریے میں یہ شکوہ بھی کیا گیا ہے کہ اردو
کے قلمکار تاریخ، عمرانیات اور دیگر علوم سے فائدہ نہیں اٹھاتے جس کی وجہ سے ادب کے
تینوں شعبوں تخلیق، تحقیق اور تنقید میں ایسے امتیازات پیدا نہیں ہو پاتے جو اکیسویں
صدی کے حالات سے مطابقت رکھتے ہوں۔
رسالہ ’فکر و تحقیق‘کی اشاعت کا بنیادی مقصد تحقیق و تنقید
کو بلند کرنا رہا ہے۔ اس لیے زیادہ تر اداریوں میں کسی نہ کسی پہلو سے تحقیق کے عصری
منظرنامے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اداریوں میں خاص طور پر جامعاتی تحقیق کی بگڑتی ہوئی
صورت حال پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ شمارہ جولائی- ستمبر 2021 کے اداریے میں عالمی
پیمانے پر تحقیق کے تقاضوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور
گیا دیا ہے کہ تحقیق کے نئے تقاضوں سے استفادہ کرتے ہوئے اردو میں بھی تحقیق کے رہنما
اصول تیار کرنے چاہیے اور کہا گیا ہے کہ جامعات میں تحقیقی مقالے انہی رہنما اصولوں
کے مطابق لکھوائے جائیں اور اگر کسی مقالے میں نقائص ہوں تو اسے مسترد کر دیا جائے
یا ریسرچ اسکالر کو دوبارہ مقالہ لکھنے کے لیے کہا جائے ایسا کرکے ہی اردو میں تحقیق
کے معیار کو بلند کیا جا سکتا ہے۔
’فکر و تحقیق‘کے شمارہ
اکتوبر-دسمبر 2022 کے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ہر نئے عہد میں قلم کاروں اور قارئین
کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ادبی رسالوں کا مزاج اور معیار بھی بدلتا رہتا ہے۔ آج کے دور میں تکنیکی وسائل نے نادر و
نایاب کتابوں تک ہماری رسائی کو آسان بنا دیا ہے۔ ویب سائٹس اور انٹرنیٹ کی وجہ سے
دنیا بھر کے کتب خانوں میں محفوظ کتابوں اور مخطوطات سے استفادہ کرنا آسان ہوگیا ہے
لیکن اس کے باوجود اردو میں تحقیقی و تخلیقی اور تنقیدی ادب کا معیار اتنا بھی بلند
نہیں ہو رہا ہے جتنا کہ ماضی میں تھا۔ اس کی وجہ اردو قلم کاروں کی سہل پسندی ہی کہی
جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ اردو میں زیادہ تر تحقیق کرنے والے عربی اور فارسی کے ساتھ
ساتھ دوسری زبانوں مثلاً انگریزی اور ہندی وغیرہ سے نابلد ہیں۔اس لیے ان میں معلوماتی
گہرائی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں معنی و مفہوم، اثراور کیفیت کے اعتبار
سے زیادہ وسعت نہیں ہوتی۔
شمارہ اکتوبر- دسمبر 2021کے اداریے میں ملک و قوم کے عصری حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے
اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ادب خصوصاً تحقیق کو مستقبل مرکز (Future centred) ہونا چاہیے کیونکہ
اصل مسئلہ مستقبل میں نئی نسلوں کو پیش آنے والے نئے چیلنجز (Challanges)کا ہی ہے۔ تحقیق صرف معلومات
کی فراہمی نہیںہے بلکہ نئے انکشافات اور سماج کے لیے مفید افکار و خیالات کی پیشکش
بھی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو مسائل کا سامنا کرنے کے لیے نئے راستے مل سکیں لیکن
اس کے ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ جامعات میں تحقیق کے موضوعات صرف شخصیات کی خدمات تک
محدود ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا دائرہ کار محدود ہوجاتا ہے اور مستقبل کو سنوارنے
کی باتیں ان میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ 2022 میں بھی پرانے شاعروں اور ادیبوں پر ہی زیادہ
کام ہو رہا ہے۔ اگرسائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں کو ذہن میں رکھ کرکے
اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ ادبی تخلیقات کی ترسیل (Communication) کھیل کے ذرائع انسٹاگرام،
ای میل، واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ کا استعمال اردو زبان کی تہذیب،املا اور لب و لہجہ
وغیرہ کے لیے کتنا مفید یا نقصان دہ ہے اس کا تحقیقی جائزہ لیا جانا ضروری ہے تاکہ
مستقبل میں عام اردو قارئین اور ریسرچ اسکالرس اظہار و بیان کے مناسب اور موزوں طریقے
کو اپنا سکیں۔
’فکر و تحقیق‘ کے شمارے
جنوری-مارچ 2022 کے اداریے میں زندگی اور زمانے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے گلوبلائزیشن
کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ آج کے دور میں یہی وہ نکتہ ہے جس پر انسان کی ترقی
کا انحصار ہے۔اگر تحقیق کی رفتار سست اور غیر معیاری ہو جائے تو نہ صرف ہماری ترقی
کی رفتار رک جائے گی بلکہ ماضی کی کھوج کی معنویت کو ہم کھودیں گے۔ اس کے لیے ضروری
ہے کہ تحقیق کی ذمے داری صرف ایسے طلبا کو سونپی جائے جن کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا
نہیں بلکہ نئے موضوع اور اسلوب کے ساتھ نئی معلومات کی تلاش و جستجو کا بھی حوصلہ رکھتے
ہوں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ جامعات میں مقالہ جمع کرنے سے پہلے Pre submission کے
مرحلے میں مقالہ کی تمام خامیوں کو دور کرنے کے لیے ریسرچ اسکالرس کو پابند بنایا جائے۔
اس کے ساتھ ہی مقالے کی جانچ پڑتال یو جی سی کی Guidelinesکے مطابق ہو، تاکہ دانش گاہوں
میں ریسرچ کا معیار بلند ہوسکے۔
بحیثیت مجموعی سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ میں شائع
ہونے والے مضامین کا ایک بڑا حصہ دستاویزی حیثیت کا حامل ہے اور جہاں تک اس کے اداریوں
کا تعلق ہے تو ’فکروتحقیق‘ کے اداریوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں اردو ادب کے
تمام شعبوں میں تحقیق اور تنقید کے منظر نامے اور مسائل پر نظر رکھتے ہوئے اردو تحقیق
اور تنقید میں اصلاح اور تعمیر کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ ایک قابل ذکر
بات ہے کہ اردو کے قلم کاروں اور قارئین نے ’فکر و تحقیق‘ کے اداریوں پر اپنا ردعمل
ظاہر کرتے ہوئے کونسل کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ سائنس اور تکنالوجی کی ایجادات اور سہولیات
سے استفادہ کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کے فروغ میں کس طرح تیزی لائی جا سکتی ہے؟ کونسل
کی جانب سے اس سلسلے میں جو کتابیں سی ڈی اور دستاویزات وغیرہ تیار کی جائیں گی، ان
کا ذکر بھی اداریوں میں کیا جارہا ہے اور یہ فریضہ بڑی ایمانداری اور غیر جانبداری
سے نبھانے کی کوشش ’فکر و تحقیق‘ کے اداریوں میں ملتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عالمی
ادب کے رجحانات اور نظریات کی طرف اردو قلم کاروں کو متوجہ کرنے میں ’فکر و تحقیق‘
کے مضامین اور اداریوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
حواشی
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ اپریل، مئی، جون 1999،ص4
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ جولائی، اگست، ستمبر 1999، ص4
- ایضاً
- ایضاً
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ جنوری، فروری، مارچ 2000، ص7
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ جنوری، فروری، مارچ2000، ص7
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ جولائی، اگست، ستمبر 2000، ص5
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2001، ص5
- ایضاً
- ایضاً
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ اکتوبر، نومبر، دسمبر 2007، ص6
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ جنوری، فروری، مارچ 2009، ص5
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ جنوری تا جون 2017،ص6
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ اپریل تا جون 2018،ص6
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ اپریل تا جون 2019،ص6
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ اپریل تا جون 2020،ص6
- سہ ماہی ادبی مجلہ ’فکر و تحقیق‘ شمارہ جنوری تا مارچ 2021،ص6
Dr.Jug Mohan
Singh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں